Thursday 27 October 2011

بابا غنی (افسانہ ) عامر حسینی

غنی احمد چک ٣٤ ٹن آر کا رہنے والا تھا-اس کو سب بابا غنی کہتے تھے-وہ فوج میں سپاہی بھرتی ہوا تھا-ایک دن اس کو فوج سے یہ کہ کر ریٹائر کر دیا گیا کہ وہ اب فوج میں خدمات سر انجام نہیں دے سکتا-حالانکہ اس کی عمر بھی زیادہ نہیں تھی-وہ محض ٣٥ سال کا تھا-
سپاہی کی پوسٹ سے ریٹائر ہونے والوں کو افسروں کی طرح نہ تو رقبہ ملتا ہے-نہ ہی کوئی پیسہ بنانے کا موقعہ -وہ تو بس ریٹائر ہونے کے بعد یا تو کہیں دکان ڈال سکتے ہیں -یا پھر سیکورٹی گارڈ کے طور پر بھرتی ہوسکتے ہیں-غنی احمد نے بھی اپنے چک واپس آ کر سبزی کی دکان کرنا شروع کردی تھی-
گھر میں اس کی بیوی ،اور ایک بیٹا تھا جو ابھی سات سال کا تھا-وہ صبیح سویرے اٹھتا -فجر کی نماز پڑھ کر وہ چک کی سولنگ پار کرتا ہوا اس سڑک کے کنارے آ جاتا جہاں سے وہ اس رکشے میں بیٹھ جاتا جو شہر سبزی منڈی کی طرف جا رہا ہوتا تھا-اس میں اور بھی لوگ ہوتے جو سبزی منڈی کی طرف جا رہے ہوتے تھے-منڈی سے وہ سودا خرید کرتا اور واپس چک آ جاتا-
وہ ٣٥ سال کا تھا لکین سب اس کو بابا غنی کہتے تھے-وجہ یہ تھی کہ وہ دیکھنے میں ٦٠ سال کا لگتا تھا-اس کے سر کے سارے بال سفید ہو گئے تھے-جن کو اس نے لال مہندی کے خضاب سے رنگا ہوا تھا-اس کی مونچھوں کے بال بھی سفید ہو گئے تھے -ان کو بھی مہندی کے کذاب سے رنگے رہتا تھا-اس کے چہرے اور ہاتھوں کی جلد بھی مرجھا چکی تھی-وہ اسی لئے کسی کے اس کو بابا غنی کہ کر بلانے پر برا نہیں مناتا تھا-
وہ ایسا نہیں تھا-وہ تو اپنے گاؤں کا سب سے کڑیل جوان تھا-اس کی چھاتی بہت چوڑی تھی-قد اس کا ٦ فٹ سے بھی زیادہ تھا-اس کے کندھے چوڑے تھے-رنگ خوب گورا تھا-اس کے بازو کی مچھلیاں اس کی قمیض کو پھاڑ کر باہر آنے کو لگتی محسوس ہوتی تھیں-وہ چلتا تو اس کے چلنے سے زمین میں جو دھمک پیدا ہوتی -تو لوگ سمجھ جاتے غنی جا رہا ہے-وہ چک کے کئی جوانوں میں کھڑا دور سے نظر آ جاتا تھا-آج تک کوئی کبڈی میں اس کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکا تھا-اور اس کی پکڑ میں جو آ جاتا وہ پھر بھاگ نہیں پاتا تھا-
اس کی کڑیل جوانی ہی اس کو فوج میں لیجانے کا سبب بن گئی تھی-اسے یاد تھا کہ کیسے اس کے گاؤں میں فوج کی بھرتی والی موبایل وین ائی تھی-اور اس میں موجود ایک حوالدار نے اس کے قد کاٹھ کو دیکھ کر اس کو فوج میں بھرتی ہونے کو کہا تھا-فوج میں جانے کا اس کو بھی بہت شوق تھا-بچپن سے وہ بھی فوج کے شیر جوانوں کے قصے سنتا آیا تھا-گاؤں کے بوڑھے اس کو جب ٦٥ کی جنگ کے قصہ سناتے تھے تو اس کے من میں بھی محاز پر جا کر کافروں سے لڑنے کی خواہش طوفان بن کر مچلنے لگتی تھی-وہ فوج میں بھرتی ہو گیا-وہ پنجاب رجمنٹ کا حصہ بنا -اس کی پہلی پوسٹنگ فورٹ عباس کے نزدیک سرحد پر ہوئی تھی-وہ جن جذبوں کو لی کر فوج میں گیا تھا -اس پہلی پوسٹنگ پر ہی اس کو اپنے جذبے ماند پڑتے نظر آئے -جب اس نے اپنی یونٹ کے میجر صاحب کو سرحد پار سے شراب کی سمگلنگ کرنے والوں سے رشوت وصول کرتے اور ان کے ساتھ شراب و شباب کی محفلیں سجاتے دیکھا-اس کی یونٹ کے لوگ ملک میں مارشل لاء لگ جانے پر ایک کرنل صاحب کے ساتھ واپڈا میں مانٹرنگ ٹیم کے طور پر بھی کام کرنے گئے تھے-اس دوران اس نے اپنے کرنل کو رشوت لیتے اور ٹھیکے پاس کرنے کی قیمت وصول کرتے بھی دیکھا تھا-
ایک مرتبہ وہ جب کشمیر میں چکوٹھی سیکٹر میں تھا تو وہاں ایک استاد سے اس کی دوستی ہو گئی-اس نے ٦٥ کی جنگ بارے اس کو بتایا تھا کہ یہ جنگ جیتی نہیں بلکہ ہاری گئی تھی تو اس کو پہلے یقین نہ آیا -لکین جب اس کو ایک ریٹائر برگیڈئر جو کے استاد کا دوست تھا نے بتایا تو بڑا حیران ہوا تھا کہ کیسے اس کے ملک میں تاریخ کچھ کی کچھ بنا دی جاتی تھی-
اس نے دوران نوکری فوج میں طبقاتی تقسیم کو بھی بہت نزدیک سے دیکھ لیا تھا-افسروں کے میس سے لیکر گھر تک الگ تھے-اور ان کو سب کچھ ملتا تھا-اور وہ صرف ملٹری ڈیوٹی ہی نہیں کرتے تھے-بلکہ افسروں کی بیویوں اور بچوں کی چاکری کرتے تھے-اس نے اسی دوران سوچ لیا تھا کہ وہ اپنے بچے کو لکھا پڑھا کر افسر بنائے گا-
وہ ریٹائر ہونے کے بعد سخت محنت کر رہا تھا-لکین اس کے اندر لگتا تھا کہ ٹیزیسے کوئی شے کم ہو رہی تھی-وہ اپنی زندگی کو بہت بچا کر خرچ کر رہا تھا-لکین لگتا تھا کہ وہ بہت تھوڑی ہے جو بچانے کے بعد بھی ختم ہوتی جاتی ہے-کچھ دنوں سے اس کا بایاں بازو بہت درد کرنے لگا تھا-کبھی کبھی کندھوں میں پیچھے کی طرف زبردست دباؤ محسوس ہوتا تھا-بازو سن ہو جاتا تھا-اس نے درد کی گولیوں کا پتہ خرید کیا اور صبیح شام دو گولیاں کھانی شروع کر دیں-درد کم نہ ہوا -تو ایک دن شہر ڈاکٹر کے پاس چلا گے-اس نے کوئی چار پانچ ٹسٹ لکھ کر دے دئے اور بازار کی دوائیاں بھی-اس نے سب کو پھاڑ کر پھینک دین-گھر واپس آیا تو بیوی نے پوچھا کہ ڈاکٹر نے کیا کہا؟تو کہنے لگا "الله کی بندی ڈاکٹر کہتا ہے کہ تو چنگا بھلا ہے-معمولی سا درد ہے-ٹھیک ہو جائے گا-"یہ سن کر اس کی بیوی کہنے لگی کہ اتنے دنوں سے گولی کھا رہے ہو تو ٹھیک کیوں نا ہوا/صغرا !مجھے کچھ نہیں ہوا-اب تو درد بھی کم ہے-اس نے جھوٹ بولا-لا مجھے روٹی دے-اس کی بیوی نے اس کو کھانا دیا -اس نے کھانا کھایا -اور پھر جا کر وہ چارپائی پر لیٹ گیا-
چارپائی پر لیتے لیتے اس کو خیال آیا کہ اس کی جوانی کو شائد گھن نہ لگتا اگر وہ سیاچن نہ جاتا-وہ کشمیر کے محاذ پر تھا جب اس کو کئی اور یونٹوں سے چنے فوجیوں کے ساتھ سیاچن جانے کا حکم ملا-وہ اور اس کے ساتھ لام ہیلی کاپٹر کے ذریے سیاچن بنی ایک چاک پوسٹ پہنچا دئے گئے-ہر طرف برف ہی برف تھی-وہ ہر طرح سے بند لباس میں ہونے کے باوجود بھی سردی کو اپنی ہڈیوں میں گھستا محسوس کرتے تھے-برفپوش پہاڑ نا جانے اسے کیوں لگتا تھا کہ ان کی آمد سے ناراض تھے-اس کو یہ گھورتے ہوئے اور ناراض ناراض سے نظر آتے تھے-اس کو لگتا کہ پہاڑوں کے درمیان ہر طرف بارود کی بو اور خون کی سرانڈ پھیلی ہوئی ہے-بعض اوقات بدبو سے اس کا سر پھٹنے لگتا تھا-اور وہ الٹیاں کرنے لگتا-اس کو اپنی جوانی جمتی ہوئی لگتی تھی-سیاچن میں آئے اس کو تیسرا سال تھا -جب اس کو چکر آنے لگے-سانس پھولنے لگا-اور اس کے سر اور مونچھوں کے بال یک دم سفید ہونے لگے-پھر اس کو سان چڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنی ٹانگوں اور ہاتھوں کی جان نکلتی ہوئی محسوس ہونے لگی-ایک روز وہ بیہوش ہو کر گر پڑا-ہوش میں آیا تو وہ ملترے کے عارضی ہسپتال میں تھا-جہاں پر اس کا تفصیلی طبی معائنہ کرنے کے بعد اس کو سیاچن کے لئے ان فٹ قرار دے دیا گیا-وہ اپنی یونٹ میں واپس آ گیا-وہاں اس کو پھر طبی معائنہ کرانا پڑا -اس چیک اپ کے بعد اس کو فوج سے مکمل طور پر ریٹائر کر دیا گیا-جب وہ واپس اپنے چک آیا -تو جیسے ہی وہ بڑی سڑک سے اپنی چک کو جاتی سولنگ پر چڑھا تو راستے میں کئی اس کے چک والوں نے اس کو نہ پہچانا -اس کے بچپن کا دوست چھیما جب اجنبیوں کی طرح اس کے قریب سے گزرنے لگا تو اس نے بختیار اس کو آواز دے ڈالی-وہ اوز سن کر پلتا اور قریب آ کر جب غور سے اس کو دیکھنے لگا -اور اچانک چیخ کر بولا اوے یہ توں اے غنی -اور وہ بھی بہت حیران تھا اور دکھی بھی تھا -اس کو اس حال میں دیکھ کر-اس نے چھیمے کو بتایا تھا کہ ووہی نہیں سیاچن جانے والے اکثر سپاہی اسی عذاب میں گرفتار ہو جاتے تھے-گھر آیا تو اس کی بیوی کافی دیر سکتے میں کھڑی رہی-اس کو یقین نہیں آتا تھا کہ یہ اس ا مجازی خدا ہے-جس کی جوانی پر سارا چک رشک کرتا تھا-وہ جب چک میں لوگوں کو ملنا شروع ہوا تو اکثر اس کی عمر سے بڑے لوگوں نے اس کو بابا غنی کہ کر بلانا شروع کر ڈالا -تو وہ سارے چک کا بابا غنی بن گیا-یہ سب سوچتے ہوئے جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی-اور وہ سو گیا -صبیح سویرے وہ اٹھا -وضو کر کے مسجد کی طرف چل دیا-اس کے بازو میں سخت درد تھا-اس نے بیوی کو بتانا مناسب نہ سمجھا کہ وہ پریشن ہوگی-مسجد میں جماعت کھڑی ہوچکی تھی -ایک رکعت گزر چکی تھی-اس نے امام کے پیچھے نیت باندھی اور کھڑا ہو گیا-اس کو کھڑا ہونے میں اور بازوں پیٹ کے گرد باندھنے میں سخت تکلیف ہو رہی تھی-اس نے بڑی مشکل سے نماز ادا کی-اور جب وہ باہر آیا تو ابھی دو تین قدم چلا ہوگا کہ اس کو محسوس ہوا کے کمر میں کندھوں کے درمیان کا درد اب آگے سینے کو توڑ کر باہر کو نکلنے کی کوشش کر رہا ہے-اس نے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی -لکین تیز چکر آیا -اور سینے میں ایک شدید لہر درد کی اٹھی اور اس کی آنکھوں میں اندھیرا آیا -اور وہ دھڑام سے نیچے گرتا چلا گیا-مسجد سے نماز پڑھ کر نکلنے والوں نے اس کو گرتے دیکھا تو اس کو سنبھالنے کے لئے آگے بڑھے -مگر وہ گر چکا تھا-پاس جا کر نبض چیک کی وہاں تو کوئی جنبش نہیں تھی-پاس ایک گھر سے چارپائی پر اس کو ڈالا -اور اس کے گھر کی طرف لیکر چل پڑے-
صغراں ابھی بس نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تھی کہ دروازہ پر دستک ہوئی-وہ دروازہ پر گئی-پوچھا کون ہے/
دروازے کے پیچھے سے آواز ائی -صغراں پتر دروازہ کھول میں ماسی بشیراں ہوں-صغراں نے دروازہ کھول دیا-ماسی بشیراں اندر داخل ہوئی اور آتے ہی سینے پر دوہتر مار کر کہنے لگی-صغراں توں اجڑ گئی-تیرا سہاگ نہیں رہا-اتنے میں کچ مرد ایک چارپائی اٹھائے اندر آ گئے-اس پر غنی احمد لیتا ہوا تھا-چک کی اور عورتیں بھی صحن میں آ گئیں تھیں-کسی نے اس کے بیٹے کو جگایا اور کہا پتر تیرا پیو نہیں رہا-فوت ہونا کیا ہوتا ہے-یہ اس معصوم کو سمجھ میں نہیں آیا-اس کے باپ کا سوئم ہو گیا تو اس کی ماں نے اس سے کہا کہ پتر ہن تو سکول نہی جانا-دوکان کھولنی ہے-ماسی بشیراں کے پتر کے ساتھ توں سبزی منڈی جایا کر-اگلی صبیح وہ مونہ اندھیرے اٹھا اور چک سے سولنگ والے رستے پر چل پڑا -وہ چلتا ہوا سوچتا جاتا تھا کہ جن کے ابا نہیں ہوتے -وہ سکول نہیں جاتے-اور کیا اسی کو فوت ہونا کہتے ہیں-پیچھے گھر میں اس کی ماں کی سسکیاں ابھر رہی تھیں-وہ غنی کی تصویر کے سامنے کھڑی ہو کر کہ رہی تھی کہ زیشان کے پو مینوں معاف کریں میں تیرے پتر نوں افسر نہ بنا سکی -

Tuesday 18 October 2011

نوٹ بک اور خوں کے دھبوں والی قمیض

نوٹ بک اور خوں کے دھبوں والی قمیض


افسانہ /عامرحسینی


رات کے دو بج چکے تھے-جین مندر کا علاقہ سنسان پڑا تھا -دور دور تک کسی زی روح کا نشان نظر نہیں آتا تھا-خاموشی کا راج تھا-ہاں کبھی کبھی دور کہیں سے کسی کتے کے بھونکنے کی آواز سناٹے کو چیر دیتی تھی-اتنے میں ایک بند باڈی کی ویگن پرانی انار کلی کی طرف سے آ کر وہاں رکی -اس میں سے نصف درجن لوگ اترے-وہ سب سادہ لباس میں ملبوس تھے-اور وہ ایک گلی میں گھستے چلے گئے-ایک گھر کے سامنے جا کر کھڑے ہو گئے-ان میں سے ایک آدمی نے دروازہ زور سے بجایا-کچھ دیر بعد ایک کمزور سے آواز دروازے سے آئی-کون ہے؟تو دروازہ بجانے والے نے کہا -دروازہ کھولو-پولیس والے ہیں-تلاشی لینا ہے-دروازہ کھل گیا-دروازے کے سامنے ایک بوڑھی عورت کھڑی تھی-جس کے ہاتھ کمزوری سے کپکپاتے تھے-اور چہرے پر پر جھریاں گزرے ماہ و سال میں کاٹی جانے والی زندگی کی مشکلات کی کہانی سناتی تھیں-وہ آنے والوں سے شائد کچھ پوچھنا چاہتی تھی-اور اس کے لئے ابھی اپنے لب کھول ہی رہی تھی کہ ان میں سے ایک آدمی نے اپنے ہاتھوں سے اس کو دھکا دیا -اور مکان میں داخل ہو گئے -سامنے سیڑھیاں تھیں -ان پر چڑھتے چلے گئے-پہلی منزل پر سامنے ایک کمرے کے بند دروازوں سے ہلکی ہلکی روشنی باہر آتی دیک کر وہ سیدھے اس کمرے کی طرف گئے-دروازے کو دھکا مارا تو وہ چوپٹ کھل گیا-دروازے کے سامنے دوسری سمت میں ایک کرسی پر ایک نوجوان سامنے رکھی میز پر ایک نوٹ بک میں کچھ لکھ رہا تھا-دبلا پتلا سا یہ نوجوان تھا-اس کی شیو بڑھی ہوئی تھی-اس کی محویت ٹوٹ چکی تھی-وہ حیرت سے آنے والوں کو دیکھ رہا تھا-آنے والوں میں ایک جو ان کا افسر معلوم ہوتا تھا بڑھ کر وہ نوٹ بک اٹھا لی-کیا لکھ رہے تھے؟وہ افسر بولا -نوجوان نے سر اٹھا کر افسر کو دیکھا-اس کی آنکھیں لال سرخ تھیں-شائد کئی رت جگوں کا اثر تھا-بال بکھرے ہوئے تھے-لباس شکن آلود تھا-اس کے چہرے کو دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ کوئی سپنا دیکھ رہا تھا اور اسے اچنک اس سپنے سے جگا دیا گیا تھا-سفید پوش افسر کو کچھ دیر غور سے دیکھنے کے بعد اس نے کہا کہ میں جو لکھ رہا تھا -وہ اس نوٹ بک میں موجود ہے-جو اس وقت تم نے پکڑی ہوئی ہے-تم دیکھ سکتے ہو--افسر اس کی بات سن کر مسکرایا -اور طنزیہ انداز میں کہنے لگا -اوہو -ادائے دلبری بھی ہے-اور پھر نوٹ بک کا وہ صفحہ کھولا جس پر نوجوان کچھ لکھ رہا تھا -اور اس کو اونچی آواز میں پڑھنے لگا -


بارش میں بھیگتی نظم


سنو !


اے جن بہار


آجاؤ


یہ مست و الست بادل


یہ اٹھکھیلیاں کرتی ہوا


یہ برستی بارش کی بوندیں


سب تمھیں بلاتی ہیں


..........................


...........................


(١٤ اکتوبر ٢٠٠٧ )


واہ بھئی واہ !افسر بولا -تم تو رومانوی شاعری بھی کر لیتے ہو-ہم تو سمجھے تھے کہ بس آتنک واد کی کہانی اور بلوچ سرمچاروں کے نام جیسی کہانیاں ہی لکھتے ہو-اس نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا-وہ اس کے اشارے پر پورے کمرے کی تلاشی لینے لگے-اس کی میز پر دھری چند خستہ جلد والی کتابیں انھوں نے ایک تھیلے میں ڈال لیں -اس کے سی پی یو کو اپنے قبضے میں کر لیا-ساتھ ایک چارپائی کے نیچے صندوق کو کھنچ کر نکالا اور اس کے زنگ لگے کنڈے کو ایک جھٹکے سے توڑ ڈالا-اس میں چند پرانے سے کاغز نکلے ان کو ہی تھیلے میں ڈال لیا-


نوجوان خاموشی سے کھڑا یہ ساری کاروائی دیکھ رہا تھا-تلاشی کا عمل مکمل ہوا تو افسر اس نوجوان سے بولا -تمہارا نام سرمد بلوچ ہے-تم بلوچستان کے اکلاقہ کوہلو کے ایک گاؤں کے رہنے والے ہو-٢٠٠٠ میں تم بلوچستان کے کوٹے میں لاہور ایف سی کالج میں ڈاکہ ہوئے تھے-٢٠٠٤ میں تم وہاں سے اس بنا پر نکال دے گئے کہ تم پر الزام تھا کہ تم بلوچ طلبہ کو بغاوت پر اکسا رہے تھے-اس کے بعد بھی تم نے لاہور نہ چھوڑا-چوٹی موتی نوکریاں کرتے رہے-تم گھر سے بے گھر تھے-اچانک تم اس جین مندر والے مکان میں رہنے لگے -تمہاری ماں بھی تمہارے پاس آ کر رہنے لگی-یہ مکان تمہارے پاس کہاں سے آیا -اور ایک سال سے تم کچھ بھی نہیں کرتے تو گزارہ کہاں سے کرتے ہو؟


نوجوان یہ سب سن کر طنزیہ انداز میں افسر کی طرف دیکھنے لگا -اور پھر کہنے لگا -


"میں آپ سے یہ نہیں پوچھوں گا کہ آپ کا تعلق کس ادارہ سے ہے-اور اس ادرہ میں آپ کا مقام کیا ہے؟کیا میرے گھر کی تلاشی کا کوئی اجازت نامہ بھی ہے آپ کے پاس ؟کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ غلام قوم کے غلام فرد کے پاس یہ سارے سوال پوچھنے کا حق نہیں ہوتا-اور اگر پھر بھی میں نے کوئی سوال پوچھا تو آپ کا جواب مجھے معلوم ہے-"


زیادہ فلسفہ مت بگھارو -جو پوچھا ہے اس کا جواب دو -افسر ترشی سے بولا -


نوجوان کہنے لگا -میں کافی دن سے لاہور کی سڑکوں کے ساتھ بنی گرین بیلٹ پر سو کر راتیں گزار رہا تھا-اکثر پرانی انار کلی میں بنی فوڈ سٹریٹ میں رحیم ٹی سٹال پر جا کر رات گئے تک بیٹھا رہتا تھا-ایک رات وہاں بیٹھا تھا تو میرا ایف سی کالج کا دوست انور بٹ وہاں آیا اور میرے ساتھ بیٹھ گیا -وہ ان دنوں کوئی ٹریول ایجنسی چلا رہا تھا-وہ پہلے جین مندر میں ہی رہا کرتا تھا-اب اس نے بتایا کہ وہ ڈیفینس میں شفٹ ہو گیا ہے-باتوں باتوں میں نجانے اس نے کیسے اندازہ کر لیا کہ میں کسی ٹھکانے سے محروم ہوں-اچانک میرا ہاتھ پکڑا اور جین مندر والی سڑک کی طرف ہو لیا -گھر کے سامنے جا کر وہ رک گیا -گہرا کا تالہ کھولا -اور سیڑھیاں چڑھ کر اس کمرے میں آ گیا جس میں آپ آئے ہو-مجھے یہاں بیٹھا کر کہنے لگا -سرمد!تم جانتے ہو کہ میں نے تمھیں بتایا تھا کہ میرے ابا تمہاری کہانیوں اور نظموں کے فین ہیں-اور تم سے ملنے کے خواہش مند بھی-پھر تم میرے گھر آئے تھے-اس دن ابا تمہارے گلے لگ کر کچھ جذباتی ہو گئے تھے-

ہاں مجھے یاد ہے-سرمد بولا -میں حیران بھی ہوا تھا-

مجھے بھی حیرانی ہوئی تھی-انور بولا تھا -میں نے تمہارے جانے کے بعد ابا سے پوچھا تھا -تو انھوں نے کہا تھا کہ بیٹا تمہارے دادا قربان الی بھی اسے ہی ہوا کرتے تھے-وہ گھر تو کم ہی رہتے تھے-اکثر دوسرے تیسرے مہنے پولیس والے گھر آتے اور ان کی کسی کہانی یا نظم کی پاداش میں ان کو گرفتار کر کے لیجاتے تھے-ان کی پسندیدہ کتابوں کو قبضے میں کر لیتے دادا ہنسی خوشی ان کے ساتھ جاتے اور کہتے بس آدھی ریل میں اور آدھی جیل میں کٹ جانی ہے-میرے ابا نے دادا کا رستہ نہ اپنایا اور وہ عبری مندی میں کاروبار کرنے لگے-میں بھی دو جمع دو کا راہی ہوں-ابا اور اماں کی موت کے بعد میں ڈیفنس میں اپنی نئی کوٹھی میں شفٹ ہوگیا-اس مکان کو نہ تو میں پیچنا چاہتا ہوں نہ ہی کرائے پر چڑھانا -تم یہاں رہو -مجھے یقین ہے کہ ابا اور دادا کی روحیں اس سے خوش ہوں گی-تو میں اس وقت سے اس مکان میں رہ رہا ہوں-بوڑھی ماں کو بھی یہاں لے آیا -

زہین اور فطین لگتے ہو-کیوں خود کو خراب کر رہے ہو-افسر بولا -کیا تکلیف ہے-کیوں دوسرے نوجوانوں کی طرح کوئی نوکری تلاش نہیں کر لیتے-یہ ریاست کے خلاف یدہ جیسی نظمیں کیوں لکھتے ہو -

نوجوان یہ سن کر بولا "صاحب!آپ نے شاید کوہلو میں میرا گاؤں نہیں دیکھا -بڑی سڑک سے تیس کلو میٹر یا تو گدھے پر سواری کرو اگر پیسے جیب میں ہوں تو ،یا پھر پیدل چلو-اس گاؤں میں پینے کا پانی بارش ہونے پر مھنسر ہے-ایک جوہڑ ہے-جہاں جانور اور انسان اکھٹے پانی پیتے ہیں-ہم بلوچوں کو مہینوں نہ نہانے کا طعنہ دینے والوں کو یہ سب نظر نہیں آتا-وہاں پیدا ہونے والے بچے کی ماں سے جڑی ناڑ کو گھاس پھوس کی بنی جھونپڑی میں پتھر پر پتھر سے اس لئے کاٹنا پڑتا ہے کہ وہاں کوئی میٹرنٹی ہوم نہیں ہے-وہاں سے نکلنے والی گیس اور کوئلہ کبھی وہاں کے چولہے نہیں جلاتے -نہیں ہی سردیوں میں گرمی دے پتے ہیں-آپ کو معلوم ہے -میں اور میری ماں اس دور ترقی میں بھی ٧٢ گھنٹوں کا سفر طے کر کے لاہور پہنچے تھے-میری ماں خشک انگار پہاڑوں میں پلی بڑھی تھی-تبھی زندہ رہی-لاہور اور کوہلو کا یہ فرق ہے جو مجھے آرام سے رہنے نہیں دیتی-

تم گویا اپنے گاؤں تک پکی سڑک نہ ہونے یا میٹرنٹی ہوم کے نہ ہونے کا ذمہ دار ریاست کو ٹھہراتے ہو؟اپنے سردار کو کیوں نہیں کہتے جو اس کا ذمہ دار ہے-بس ریاست سے لڑنے چل نکلے ہو-افسر چیخ کر بولا -

نہیں صاحب میں تو کمزور آدمی ہوں-میں سردار سے یا ریاست سے کیسے لور سکتا ہوں-میں تو اسی لڑائی سے خوفزدہ ہو کر لاہور چلا آیا تھا-وہاں رہتا تو کسی ایک کی طرف سے لڑنا پڑتا -اور مرا جانا یقینی تھا-

بکواس بند کرو-افسر یہ کہ کر جانے کا اشارہ کرنے لگا -وہ اور اس کے ماتحت واپس جانے کے لئے مڑے تھے کہ ان کی نظر ایک الماری پر پڑ گئی-اس نے اپنے ماتحت کو کہا کہ الماری کھول کر دیکھے-ایک ماتحت اس املاری کی طرف بڑھا تو نوجوان نے آگے بڑھ کر اس کو روکنے کی کوشش کی -اس کو دو آدمیوں نے بازؤں میں جکڑ لیا-الماری کھولی گئی تو اس میں ایک ڈبہ تھا -ڈبے کو کھولا تو اس میں ایک قمیض تھی-جس پر خون کے دھبے تھے-جو زرد ہو چکے تھے-افسر نے تیزی سے آگے بڑھ کر قمیض کو پکڑا -اور اس کو نوجوان کی آنکھوں کے سامنے لہرا کر کہنے لگا -یہ کیا ہے؟کسی زخمی ہوئے سرمچار کی نشانی سنبھال کر رکھی ہے کیا؟نوجوان نے اپنے آپ کو ایک مرتبہ پھر خود کو چھڑانے کی کوشش کرنتے ہوئے کہا -صاحب یہ وہ نہیں جو تم سمجھ رہے ہو-

لگتا ہے تم ڈرائنگ روم ٹریٹ منٹ کے بعد ہی کچھ بتاؤ گے-افسر بولا-

لے چلو -اس نے اپنے ماتحتوں سے کہا-

وہ نوجوان کو گھسیٹتے ہوئے لیجانے لگے-سیڑھیاں اترتے ہوئے دیکھا کہ درمیاں کی سیڑھی پر اس کی ماں پڑی تھی-اس کی پیشانی سے خوں بہ رہا تھا-نوجوان نے چیختے ہوئے ماں کی طرف بڑھنے کی کوشش کی -مگر وہ اس کو گھسیٹتے ہوئے لے گئے-
صبح کے وقت ساتھ گھر سے ایک عورت کسی کام سے جب سرمد کے گھر جانے کے لئے مکان میں داخل ہوئی تو اس نے سیڑھیوں پر اس کی ماں کی لاش کو دیکھ کر چیختی ہوئی باہر نکلی -لوگ جمع ہو گئے-علاقے کی پولیس آ گئی-انور بٹ کو بھی بلا لیا گیا-پوسٹمارٹم ہوا اور لاش انور کے حوالے کر دی گئی -انور نے سرمد کی گمشدگی کی رپورٹ لکھا دی-لکین اسے پتہ تھا کہ رات کے اندھیرے میں یوں گم ہو جانے والوں کی خبر مشکل سے ہی ملتی ہے-انور اور محلے والوں نے مل کر سرمد کی ماں کی تجہیز و تدفین کی-
دو سال ہو گئی تھے سرمد کو گم ہوئے -اس کا کچھ پتہ نہیں تھا-پھر وہ دیں آیا -جب ابھی رات کا کچھ اندھیرا باقی تھا-جانی مسیح کرسچن کالونی سے جین مندر والی سڑک پر صفائی کرنے جب وہاں پہنچا تو اس نے کوڑے کے ایک ڈھیر کے پاس کسی کو پڑے دیکھا -پہلے وہ سمجھا کوئی نشئی ہوگا -جو یا تو نشے میں مدہوش ہوگا -یا نشے کی زیادتی سے مر گیا ہوگا -پاس گیا تو اس نے دیکھا کہ کوئی نوجوان تھا -جس کے ہاتھ کی مٹھی میں ایک قمیض دبی ہوئی تھی-اور پاس ہی ایک نوٹ بک اور چند کتابیں پڑی تھیں -نوجوان کا چہرہ اس کے گھنے لمبے بلوں میں چھپ گیا تھا-اس نے بلوں کو ذرا ہٹایا تو چونک پڑا-یہ شکل اسے جانی پہچانی لگی-تھوڑا سے غور کرنے پر جانی کو معلوم ہو گیا کہ یہ تو اپنا باؤ سرمد ہے-اس نے محلے والوں کو اکٹھا کیا-لوگوں نے پھر پولیس کو انفارم کیا-پولیس نے پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد لاش انور کے حوالے کردی-علاقہ کے ایس ایچ او نے انور کو بلایا اور مقتول سرمد کی مٹھی میں بند قمیض ،نوٹ بک اور چند کتابیں اس کے حوالے کر دیں -انور نے وہ چیزیں لا کر اپنے دفتر کی الماری میں رکھ دین-دو ہفتے گزرے تھے کہ اس کے دفتر میں ایک لڑکی اس کو ملنے آئے-وہ اس لڑکی کو دیکھ کر چونک گیا تھا-یہ کرن تھی -جو اکثر سرمد کے ساتھ نذر آیا کرتی تھی-انور حیران تھا کہ اس لڑکی کو اس نے سرمد کے جنازے پر بھی نہیں دیکھا تھا-اب وہ اس کے دفتر آ گئی تھی-سامنے کرسی پر بیٹھنے کے بعد اس نے انور کی طرف دیکھا اور کہنے لگی کہ میں لندن میں تھی-تین سال بعد آئی ہوں-تو مجھے سرمد کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا پتہ چلا ہے-مجھے تھانے والوں نے بتایا ہے کہ سرمد کی کچھ چیزیں انھوں نے آپ کے حوالے کی تھیں -کیا آپ مجھے دے سکتے ہیں-
انور نے اٹھ کر الماری کھولی اور نوٹ بک،چند کتابیں اور وہ قمیض کرن کے حوالے کر دی-انور نے چائے منگوائی-چائے پینے کے دوران انور نے کرن سے پوچھا کہ لوگ بتاتے ہیں کہ سرمد کے ہاتھ میں یہ قمیض دبی ہوئی تھی-اس قمیض کا قصہ اس کی سمجھ میں نہیں آیا -تو کرن نے پوچھا کہ کیا آپ نے سرمد کی نوٹ بک نہیں پڑھی -انور نے نفی میں سر ہلایا-اس پر کرن نے نوٹ بک کھولی اور اس کے صفحے پلٹنے لگی -ایک صفحہ پر اس کی نظریں جم گئیں-اور اس نے اسے انور کے سامنے کر دیا -
"کرن !
آج رات جب میں تم کو گھر لیکر واپس آیا تھا-تو شائد بجلی چلی گئی تھی-میں تم کو
کمرے میں بیٹھا کر نیچے بازار سے کچھ خانے کو لانے کے لئے سیڑھیاں اترنے لگا تو میرا پیر رپٹ گیا-میری کمر،پیشانی ،کہنیاں چھل گئیں تھیں-اور قمیص پر خون کے دھبے پڑ گئی تھے-میں بڑی مشکل سے اوپر آیا تھا-مدھم سی چراغ کی روشنی میں تم نے یہ سب دیکھا میری قمیض اتاری -اور میرے زخم صاف کئے-ان پر کریم ملی-تم سمجھی تھیں کہ شاید میں سو گیا ہوں-تم نے میری خون آلود قمیض اٹھائی-اور اس کو دیکھنا شروع کر دیا-تمہاری اداس آنکھوں میں محبت کے دیپ جل اٹھے تھے-ان کی روشنی مجھے قمیض میں لگے خون کے دھبوں میں جذب ہوتی لگی-تو میں نے اس قمیض کو ہمیشہ کے لئے محفوظ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے-تمہاری اداس آنکھوں میں جلتے محبتوں کے دیپ کی یہ انمول نشانی مجھے اپنی جان سے زیادہ پیاری ہے-
سرمد
انور نے یہ پڑھنے کے بعد نوٹ بک کرن کے حوالے کر دی -وہ انور کے دفتر سے ان چیزوں کو گلے لگے باہر نکلتی چلی گئی -

Thursday 13 October 2011

عشق ناتمام (افسنانہ )

عشق ناتمام (افسنانہ )
ہوسکتا ہے آپ کو میری یہ کہانی عجیب لگے-اور لگے میں نے کوئی فسانہ ترازی کر ڈالی ہے-حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے-پہلے میں آپ کو اپنے بارے میں بتاتا چلوں کہ میں کون ہوں-جو اچانک یوں آپ سے مخاطب ہو گیا ہوں-میرا نام حسن ناصر ہے-میرا یہ نام کیوں ہے ؟تو اس کی سادہ سی وجہ تو یہ ہے کہ میرے دادا کو معروف کیمونسٹ رہنما حسن ناصر سے بہت پیر تھا -جب میں پیدا ہوا تو انھوں نے میرا نام ان کے نام پر رکھ ڈالا -اب یہ اور بات کہ میری قسمت حسن ناصر جیسی نہیں تھی-کہ سرکار مجھے کسی عقوبت خانے میں رات کی تاریکی میں موت کے گھاٹ اتار دیتی -اور پھر میرا مرنا ایک تنازعہ بنا رہتا-ہاں یہ بات ٹھیک ہے کہ میں نے بھی اس سماج کو بدلنے کا خواب دیکھا-اس ملک کے حکمران طبقات کو خوب برا بھلا بھی کہا -لکین نقار خانے میں طوطی کی آواز نہ کل کوئی سنتا تھا جب یہ کہاوت بنی-اور نہ آج کوئی سنتا ہے جب اس کہاوت کو ہر کس و ناکس اپنی تحریر اور تقریر میں بلا کسی خوف و خطر کے لکھتا اور بولتا چلا آتا ہے-تو میں حسن ناصر نام کو اپنا لینے کے بعد بس یونہی اپنی زندگی گزارتا چلا آ رہا تھا-جوان بھی ہو گیا تو مجھے نہ تو کسی رہ چلتی لڑکی کا چہرہ یاد نہیں رہتا تھا-میں نجانے کن ویچروں میں گم رہتا تھا-آج خیال آتا ہے تو فسوس بھی ہوتا ہے-اور یہ خلش بھی کہ زندگی کا کس قدر حسین دور میں نے بس بے نیازی اور اپنے آپ میں گم ہو کر گزار دیا -اس دور کی کوئی حسین یاد نہیں رکھی-کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ آج اس کام کی یاد دل میں کسک بن کر ابھرتی تو چہرے پر شگوفے پھوٹنے لگتے -اور باسی کڑھی میں چلو ابال ہی آ جاتا-یہ نہیں تھا کہ میں اس زمانے میں صنف نازک کے ساتھ نہیں ملا تھا -مگر حقیقت یہ ہے کہ مل کر بھی نہیں مل پایا تھا-ایک لڑکی میری دوست بنی تھی-اور ہم دونو گویا مرد و زن تھے ہی نہیں-دوست تو تھے-مگر اس کے آگے کچھ نہیں تھا-اس نے میرا نام بدھو رام جی رکھا ہوا تھا-کہتی تھی بدھو اس لئے لگایا ہے کہ تم کرشن نہیں ہوسکتے اور میں سیتا -تو بدھو رام جی ہی ٹھیک ہے-میں ان لوگوں پر ہنس دیتا تھا جو اس کچی سی عمر میں بدن کے اندر ہونے والی کھٹی میٹھی سرگوشیوں کو عشق کا نام دیتے تھے -زندگی کے روپ اس وقت مجھے بہت عجیب و غریب لگا کرتے تھے-میں ایک مرتبہ تھر میں اپنے دوست کے ہاں گیا تو رات کو تھر کے صحرا میں اس نے راگ رنگ کی محفل سجائی تھی-ایک عورت جو تھر کے مخصوص لباس میں تھی-ناک میں ایک بڑا سا کوکا تھا-آنکھوں میں گہرا کاجل -کہنی تک کلائی میں چوڑیاں پہنے پاؤں سے ننگی-تھری رقص کرتی پرسوز آواز میں جدائی والا گیت گا رہی تھی-سارا تھر اس کی سوز بھری آواز میں گم سم اداس اداس لگتا تھا-میں اپنے دوست کو دیکھ کر حیران رہ گیا -جو بہت خوش باش رہنے والا تھا-آنکھوں میں آنسوؤں کی لہر لئے -آہ ،واہ کر رہا تھا-ایک بزرگ دانش وار میرے دوست تھے-ان کو عمر ٨٠ سال ہوگی-وہ اچانک بات کرتے کرتے مجھے کہنے لگے -وہ سب کچھ کرنے کے باوجود،دنیا بھر کے موضوعات پر تحقیق کرنے کے باوجود اپنی جوانی میں گزرے اس پل سے نہیں نکل سکے -جو یونیورسٹی کے ان کے ڈیپارٹمنٹ کے ایک برآمدے میں ان پر گزرا تھا-جب وہ گرفتار محبت ہو گئے تھے -کوئی آنکھیں ہیں جو آج بھی ان کی آنکھوں میں بسی ہیں-بند بوسن کا کمال بخش -جس کی بزرگی کی قسمیں سارا چک کھاتا تھا-جس کا کہا سچ ماں لیا جاتا تھا -ایک دن مجھے کہنے لگا -کہ حسن ناصر !مجھے تو لگتا ہے میں آج بھی اس کھیت میں کھڑا ہوں جہاں میں امرت کور کا انتظار کرتا تھا-وہ بٹوارے کی آگ میں کب کی جل کر رکھ ہوئی -میں وہیں کھڑا ہوں-کیا چمک تھی بابے کمال بخش کی آنکھوں میں-میں ان سارے جذبوں کی تپش محسوس کرتا تھا -لکین یہ تپش کبھی میرے دل اور جگر میں گرمی پیدا نہ کر سکی-میں ان دنوں کراچی کے سہل پر تنہا گھومتا تھا-اور میرے دوست رات کو جب ہاسٹل کے کمرے میں آتے تو ان کے پاس کئی کہانیاں ہوتی تھیں سنانے کو -میرا دوست ریاض مجھے کہتا کہ ظالم !تم کبھی اس آگ کو اندر اتارو تو سہی -تمھیں معلوم ہو کہ دیوانے کیوں اس آگ میں جلنے کی تمنا کرتے ہیں-ایک مرتبہ میں نے جوں ایلیا کا ایک شعر سنا جس کا مطلب تھا کہ اس کی محبت میں خود کو برباد کر لیا ہے -اور ہمیں کوئی ملال بھی نہیں ہے-میں ہنس پڑا تھا کہ کیسی دیوانگی ہے کہ خود کو برباد کرنے کے بعد بھی کسی ملال کے ہونے کی بات کی جا رہی ہے-
زندگی کے ماہ و سال گزرتے چلے گئے -میں کراچی کے سہلیوں سے ہجرت کر کے ماسکو جا پہنچا-میں بہت سرد موسم والے ملک میں آیا تھا -سو اپنے اندر کے سرد وجود کو اور سرد ہوتا محسوس کر رہا تھا -میں نے اس سردی سے بچنے کے لئے واڈکا کی ساری قسموں کی شراب کو اپنے اندر انڈیلنا شروع کر دیا -لکین باہر کی سردی کچھ کم ہوئی ہو تو ہوئی ہو-مگر اندر کی سردی لگتا تھا اور بڑھ گئی-
ایک مرتبہ میں ماسکو کہ ایک بار میں اپنے ایک دوست کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا-میرا یہ دوست پولینڈ سے تعلق رکھتا تھا-یہ پولش کامریڈ سٹیٹ یونیورسٹی آف ماسکو میں شعبہ تاریخ میں استاد تھا-اس نے مجھے راسپوٹیں کا قصہ سنایا-جب وہ یہ قصہ سنا رہا تھا تو ایک مقام پر اس نے کہا کہ دنیا راسپوٹیں کو بہت برا بھلا کہتی ہے-لکین میں کہتا ہوں کہ ہر آدمی کے اندر ایک راسپوٹیں ہوتا ہے-اس کی یہ بات سن کر ایک لمحہء کے لئے میں کھوگیا -میں نے خواہش کی کہ میرے اندر کا راسپوٹیں بھی کبھی جاگے -لکین اس سے پہلے مجھے یہ تو پتہ ہو کہ وہ ہے کہاں؟لکین یہ راسپوٹیں تو نجانے کہاں گم تھا-اس نے کبھی بھی نہیں جاگنا تھا-میں اس وقت ماسکو میں ہی تھا -جب روس سوویت یونین نہ رہا -نوبل بقدر ہوا -لوگ فریز ڈاگ خانے پر مجبور ہو گئے -اور میرا راسپوٹیں تو اس وقت بھی نہ جاگ کر دیا جب ایک کالی بریڈ کے بدلے آپ ماسکو کی کسی حسین دوشیزہ کو اپنے گھر لے آتے تھے-
نتاشا آج مجھے بہت یاد اتی ہے-کیوں؟معلوم نہیں؟وہ میری کلاس فیلو تھی -اور مجھ سے بہت مانوس تھی-کہتی تھی کہ تم مجھے اس لئے پسند ہو کے تمہارے جذبے مجھے بھوکے نہیں لگتے -میں ہنس دیتا تھا -ایک مرتبہ اپنے گرم فلیٹ میں بستر پر لیٹے میرے وجود کی سردی کو دیکھ کر بہت حیران ہو گئی -وہ کیمونسٹ لڑکی تھی-خدا کے وجود سے بیگانہ تھی-اچانک کہنے لگی
شائد خداوند یسوع مسیح نے سرد جذبوں
کا عذاب تمہارے کفارے میں رکھا ہے
میں اس کے مونہ سے نکلے ان خالصتا انجیلی جملوں پر بہت حیران ہوا تھا-اور اس سے پوچھ بیٹھا تھا کہ یہ آرتھوڈاکس کلیسا کے دوبارہ جی اٹھنے کا اثر تم پر کب سے ہوا؟تو ہنسنے لگی -اور کہنے لگی کہ میری مارکسی لغت تمہاری اس کیفیت کو بیان کرنے سے قاصر تھی تو مجھے انجیلی لغت کا سہارا لینا پر گیا-
میں اکثر سینٹرل لایبراری ماسکو جاتا تو وہاں کی انچارچ نٹ کھٹ سی،شوخ و چنچل لڑکی مجھے ایک مرتبہ دستو فسکی کا ناول ایڈیٹ پڑھتے دیکھ کر کہنے لگی کہ تم بھی مجھے اس ناول کے ہیرو لگتے ہو جو مرگی کے زیر اثر حسن کو کشید نہیں کر سکتا-مجھے یاد ہے کہ ایک میری دوست نے مجھے ایک ایرانی ریستوران میں کھانا دیا-ہم ایک کیبن میں بیٹھے تھے-وہ مجھ سے عجیب و غریب باتیں کرتی رہی-میں نے جو جواب اس دوران دے -اس میں وہ کچھ نہیں تھا جو وہ شائد سنانا چاہتی تھی- ڈفر .............یہ فقرہ میں نے سنا -اور اس کی جوتیوں کی کھٹ کھٹ میں دیر تک سنتا رہا -ڈفر کیوں تھا میں........یہ مجھے خود سمجھ نہیں آئے تھی-بس پھر یوں ہوا کہ ایک روز جب میں ڈھلتی عمر کی منزل میں تھا-ایسے ہی ایک مجلس میں اس سے ملاقات ہو گئی-میں نے اور اس نے ایک دوسرے کو بنا مانگے اور بنا پوچھے اپنے فون نمبرز دے ڈالے -فیس بک کے آئی ڈیز کا تبادلہ ہو گیا -اور میں بھی شائد اس سوز کا شکار ہو گیا -جو اس تھری عورت کی آواز میں تھا-وہ آگ جو ایک عرصۂ تک میری جلد سے آگے سفر نہیں کرتی تھی بس سارے وجود میں سرایت کر گئی-میں حسن ناصر عشق جو ناتمام ہے ابھی اس میں گرفتار ہو گیا -وہ اپنے گھر کے صحن میں جس میں تیسری چارپائی کی گنجایش نہیں ہے اور اس ڈرائنگ روم میں جس میں بجلی چلی جائے تو حبس بہت ہوتا ہے-اور اس بعید روم میں جس کا پنکھا شور بہت کرتا ہے -گھنٹوں مج سے بات کرتی ہے-کریدت بینک کی وہ شاخ جو ایک دیہات میں غریبوں کو بچت کرنے کی جھوٹی نوید سناتی ہے-اور ان کو سرمایہ داری کی جکڑ میں اور قید کرتی ہے -اس کی عمارت کے ایک ٹھنڈے کیبن میں وہ اعداد و شمار کے گورکھ دھندے سے ذرا فرصت نکل کر مجھ سے وہ باتیں کرتی ہے جو شید معشیت کی لغت میں ڈھونڈے سے بھی نہ ملیں -یہ کتاب کہیں لکھی ہوئی نہیں ہے-نہ نظر آنے والی سیاہی سے لکھا عشق ناتمام آج حسن ناصر تم کو بیان کرتا ہے-بیان نہیں ہو پاتا-میں کوئی حسن کوزہ گر نہیں -نہ مجھے کوئی نوں میم راشد ملا -تو میں نے یہ قصہ خود ہی لکھ ڈالا -ناتمام تو ہے مگر ناقص نہیں ہے-
(تحریر :عامر حسینی )

Tuesday 11 October 2011

دوجی جنس" کی اشاعت کے پچیس سال مکمل ہونے پر سیموں دی بوا کا انٹرویو (دوسرا حصہ )

"دوجی جنس" کی اشاعت کے پچیس سال مکمل ہونے پر سیموں دی بوا کا انٹرویو
(دوسرا حصہ )
ترجمہ و تلخیص /عامر حسینی
گراسی :لکین یہ شعور تو ان چند عورتوں تک محدود ہے جن کا تعلق لیفٹ سے ہے -وہ عورتیں جو سارے سماج کو مکمل طور پر بدلنا چاہتی ہیں -
بوا :آپ ٹھیک ہیں-اکثریت عورتوں کی قدامت پرست ہے -میرا مطلب ہے کہ جو ہے وہ اس کو باقی رکھنا چاہتی ہیں-رائٹ ونگ میں موجود خواتین اس کو بدلنا نہیں چاہتیں -وہ انقلاب کی حامی نہیں ہیں-وہ مائیں ،بیویاں ہیں اور اپنے ممردوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں-اور اگر وہ مزاحمت کار ہیں تو بس وہ کیک کا بڑاحصہ مانگتی ہیں-وہ زیادہ کمانا چاہتی ہیں،عورتوں کو اسمبلی میں زیادہ تعداد میں دیکھنے کی خواہش مند ہیں اور عورت کو صدر دیکھنا چاہتی ہیں-بنیادی طور پر وہ عدم مساوات کی قائل ہیں ،بس خود کو نیچے سے اوپر لانے کی خواہش مند ہیں-وہ نظام میں خود کو بہتر خیال کریں گی -اگر یہ نظام تھوڑا تبدیل ہو کر ان کو اس نظام میں کچھ بہتر جگہ دے ڈالے -اور ان کے مطالبات کو جگہ دے دے -سرمایہ داری نظام یہ برداشت کرتا ہے کہ وہ خواتین کو فوج یا پولیس میں لے لے -سرمیدارانہ نظام اتنا تو زہین ہے کہ وہ عورتوں کو اپنی نام نہاد سوشلسٹ حکومت میں لے لے اور اپنی پارٹی کی سیکرٹری جنرل بھی ان کو چن لے-یہ محظ اصلاحات ہیں جیسے سوشل سیکورٹی اور پیڈ ووکیشن ہوتی ہیں-پیڈ ووکیشن کو ایک ادارہ کی شکل دینے سے کیا سرمایہ دارانہ نظام کی عدم مساوات ختم ہو جاتی ہے؟کیا عورتوں کو مرد کے برابر تنخواہ دینے کے حق کو تسلیم کرنے سے چیک سماج میں مرد کی بالادستی کا خاتمہ ہو جائے گا ؟لکین کسی بھی سماج کے سارے نظام اقدار کو بدل ڈالنا -اور مدر ہوڈ کے تصور کو تباہ کر دینا بہرحال ایک انقلابی قدم ہے -
ایک فیمنسٹ چاہئے وہ اپنی آپ کو لیفٹسٹ کہلائے یا نہ کہلائے ہوتیوہ لیفٹسٹ ہی ہے -کیوں کہ فیمنسٹ ہونے کا مطلب ہی یہی ہے- کیوں کہ وہ اپنی برابری کے لئے جدوجہد کر رہی ہوتی ہے-اس کی جدوجہد کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کے اتنے ہی اہم اور مفید ہونے کا حق تسلیم کیا جائے -جتنا حق مرد کا تسلیم کیا جاتا ہے-تو صنف یا جنس کی برابری پر اصرار کرنا اور اس برابری کے لئے بغاوت کرنا بھی طبقاتی جدوجہد ہی ہے-
ایک ایسا سماج جہاں مرد بھی ماں والا کردار ادا کر سکتا ہو -جہاں فیمل انسٹی ٹیوٹ بھی مرد کے علم کی طرح اہم تسلیم کر لیا جائے -جہاں نرم اور خوئے دل نوازی کو سخت ہونے سے بہتر خیال کیا جائے -دوسرے لفظوں ایسا سماج جہاں ہر ایک آدمی کا تجربہ دوسرے کے برابر اور اہم خیال کیا جائے کے لئے جدوجہد کا مطلب معاشی اور سیاسی مساوات کی مانگ کرنا ہی ہے-بلکہ یہ اس سے کچھ زیادہ ہی ہے-تو جنس کی برابری کی جدوجہد طبقاتی برابری پر زور دیتی ہے -لکین یہ ضروری نہیں ہے کہ طبقاتی جدوجہد لازمی جنس کی برابری پر زور دے-فیمنسٹ سچی لیفٹسٹ ہیں-وہ در اصل آج کے روایتی لیفٹ کا لیفٹ ہیں-
گراسی :جیسا کہ آپ نے کہا کہ لائف کے اندر اس وقت جنس کی برابری کی جدوجہد ہو رہی ہے-تو کیا اس سے دوسرے سیاسی سیکٹرز میں جنس کی برابری کی جدوجہد متاثر نہیں ہو رہی -کیا اس سے لیفٹ کمزور نہیں پڑ رہا /
بوا :نہیں میں ایسا خیال نہیں کرتی-بلکہ یہ جدوجہد بلآخر لیفٹ کو مستحکم کرے گی-آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جنس کی برابری کی جدّوجہد نے لیفٹ کے زیادہ سے زیادہ گروپس کو عورتوں کے حوالے سے اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے پر مجبور کیا ہے-ہمارے رسالے "آزادی "کو دیکھ لیجئے -اب وہاں اس بات کو محسوس کیا گیا ہے کہ اس کے ادارتی بورڈ میں خاتوں ڈائرکٹر ہونی چاہئے -
یہ ترقی ہے کہ اب لیفٹسٹ مرد اپنی زبان کے استعمال پر بھی نظر رکھنے لگے ہیں-
گراسی:کیا یہ حقیقی طور پر ترقی ہے ؟کہ میں نے گروپ ڈسکشن کے دوران ،دش صاف کرتے ہوئے ،شاپنگ کرتے ،مکان کی صفائی کرتے ہوئے عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے ان کے لئے لفظ چکس استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے -تو کیا میں نے مرد اقدار کو مسترد کر دیا ہے؟
بوا:تمہارا مطلب ہے کہ تمہارے اندر میں(تبدیلی آ گئی ہے )؟بلنٹ ہونے کی کون پرواہ کرتا ہے ؟تم جنوب کے رہنے والے نسل پرست کو جانتی ہو -تم کو اس کی نسل پرستی کا اس لئے معلوم ہے کہ تم اس کو ایک لمبے عرصۂ سے جانتی ہو-یہ سب تم ایک لمحے کے لئے فرض کر لو -لکین اب وہ لفظ نیگر نہیں بولتا -وہ سیاہ فام کی تمام شکایات غور سے سنتا ہے -اور ان کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے-وہ دوسرے نسل پرستوں کو نیچا دیکھنے واے رستہ پر چلتا ہے-وہ اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ ان کے بچوں کو اوسط درجہ سے زیادہ تعلیم دی جائے -تاکہ ان کی وہ کمی پوری ہو جب ان کو تعلیم نہیں مل رہی تھی-وہ کالے آدمی کے للے کوشش کرتا ہے کہ ان کے قرضوں کی درخواستوں کے ساتھ سفارشی رقعہ بھی لگ جائے-وہ اپنے علاقے میں کالے امیدواروں کا ساتھ اپنے پیسے اور اپنی رقم سے بھی دیتا ہے-کیا تم سوچتے ہو کہ اب بھی کالا آدمی یہ خیال کرے گا کہ یہ جنوب کا آدمی اب بھی اپنی روح میں اتنا ہی نسل پرست ہے جتنا یہ پہلے ہوتا تھا ؟استحصال کے پیچھے ایک بہت بڑی وجہ عادت ہوتی ہے-اگر آپ ایسی عادت پر قابو پا لیتے ہو-اور اپنی اس قسم کی عادت پر نظر رکھنے لگتے ہو تو بھی یہ ایک بڑا قدم ہوتا ہے-تو اگر آپ برتن صاف کرتے ہو،گھر کی صفائی کرتے ہو -وہ سب کام کرتے ہو جو پہلے تم کو مردوں کے کرنے والے نہیں لگتے تھے -تو آپ ایک اچھا اور درست سمت میں قدم اٹھا رہے ہو-ایک دو نسلیں جب یہ محسوس کر لیتی ہیں کہ ان کو غیر نسل پرست نظر آنا چاہئے -تو وہ تسسری نسل اپنی فطرت کے لحاظ سے نسل پرستی سے پاک ہوتی ہے-تو جنس پرستی سے الگ ہونے کا کام جاری رہا تو ہماری آنے والی نسلیں فطری طور پر جنس کی برابری کی قائل ہوں گی -آپ برتن صاف کر لیتے ہوں گے -لکین آپ کو بچے کی نیپی تبدیل کرنا اچھا نہیں لگے گا -وہ کریں تو بات بنے-
گراسی:لکین میرے تو بچے نہیں ہیں-
بوا:کیوں نہیں ہیں؟کیا تم نے بچے نہ کرنے کا انتخاب کیا؟کیا تمہارے خیال میں جن ماؤں کو تم جانتے ہو انھوں نے خود بچے کرنوے کا انتخاب کیا ہے؟یا ان کو یہ باور کرایا گیا کہ ان کو یہ کرنے ہیں-یا سیدھی سے بات ہے کہ ان کو اس طرح سے پالا گیا کہ ان کو یہ سمجھنے پر مجبور کر دیا گیا کہ وہ یہ خیال کریں کہ عورت ہونے کا مطلب ہر حل میں بچے پیدا کرنا ہوتا ہے-تو انھوں نے بچے پیدہ کرنے کی چوئیس کی-لکین سوال یہ ہے کہ ان کے لئے اس انتخاب کو لازم کس نے بنایا ؟یہ وہ اقدار ہیں جن کو بدلنا چاہئے-

Monday 10 October 2011

دوجی جنس "کی اشاعت کو ٢٥ سال پورے ہونے پر سیموں دی بوا کا انٹرویو - ترجمہ و تلخیص :عامر حسینی

"دوجی جنس "کی اشاعت کو ٢٥ سال پورے ہونے پر سیموں دی بوا کا انٹرویو -
ترجمہ و تلخیص :عامر حسینی
گراسی :آج "دوجی جنس "کو چھپے ٢٥ سال ہو گئے ہیں-بہت سے لوگوں کا خیال یہ ہے کہ موجودہ دور کا جو فیمنزم ہے -اس کا آغاز اس کتاب کی اشاعت سے ہوا تھا -کیا آپ بھی ایسا ہی خیال کرتی ہیں ؟
بوا :میں ایسا خیال نہیں کرتی-آج جو فیمنسٹ تحریک موجود ہے -جس کا آغاز آج سے پانچ یا چھے سال قبل ہوا تھا -وہ تو اس کتاب سے واقف بھی نہیں لگتی-لکین اتنا ضرور
ہے کہ اس تحریک کے کچھ رہنماؤں نے اپنے نظریہ کی بنیادیں استوار کرنے میں اس کتاب کے اندر بیان کئے گئے کچھ نکات کو اپنی فکر کا حصہ ضرور بنایا ہے-
زیادہ ترخواتین جو اس تحریک کا حصہ بنیں تو جب یہ کتاب شایع ہوئے ١٩٤٩-٥٠ میں تو وہ بہت کم عمر تھیں-اس لئے میرا نہیں خیال کہ وہ اس کتاب سے متاثر ہوئی ہوں گی-
مجھے جس بات کی خوشی ہے-وہ یہ ہے کہ انھوں نے اس کتاب کو بعد میں دریافت کر لیا -ہاں کچھ بزرگ خواتین نے اس کو پڑھا بھی تھا اور اس کے زیر اثر بھی آئیں تھی-جیسے بیٹی فریڈمین -جنھوں نے اپنی کتاب "اسرار نسائیت"کا انتساب میرے نام کیا تھا-لکین جیسے کیٹ مل ہے -اس کے کام میں تو میں نے اپنی کتاب کا کوئی اثر نہیں دیکھا -یہ ہو سکتا ہے کہ وہ فیمنسٹ ہوں ان وجوہات کی بنا پر جن کو میں نے اپنی کتاب "دوجی جنس "میں بیان کیا -لکین یہ ٹھیک نہیں ہوگا کہ وہ میری کتاب پڑھ کر فیمنسٹ بنی ہیں-
گراسی :آپ کہتی ہیں کہ آپ کی فمینسٹ فکر اس وقت زیادہ بالغ ہوئی -جب آپ یہ کتاب لکھ رہی تھیں-تو آپ نے فیمنسٹ تحریک کو جن خطوط پر استوار ہوتے دیکھنا چاہا تھا -تو کیا اس کتاب کے بعد تحریک اسی طرح سے استوار ہوئی ہے ؟
بوا :"دوجی جنس "کو لکھتےہوئے مجھے یہ احساس ہو گیا تھا -کہ میں تو خود اب تک ایک غلط زندگی گزر رہی تھی-اور شاید نادانستہ طور پر مردوں کی بالا دستی والے سماج سے خود بھی فائدہ اٹھا رہی تھی -میری ابتدائی زندگی می کیا ہوا تھا -بس یہی نہ کہ میں نے مرد پرست اقسر کو اپنا لیا تھا -اور ان کے ساتھ زندگی بیتا رہی تھی-لکین پھر میں نے کامیابی کہ ساتھ یہ یقیندوبارہ حاصل کر لیا تھا کہ مرد اور عورت دونوں برابر ہو سکتے ہیں اگر عورتیں ایسا چاہئیں تو -دوسرے لفظوں میں یہ کہ میں خوش قسمت تھی کہ میں سرمایہ دار طبقے سے تھی تو مجھے یہ طبقہ بہترین اسکول بھیج سکتا تھا -اور مجھے آزادانہ طریقہ سے خیالات سے کھیلنے کی اجازت بی دیتا تھا-میں ایک دانشور بھی اسی لئے ہو گئی تھی-اسی وجہ سے میں کسی خاص قابل ذکر مشکل کے بغیر مردوں کی دنیا میں داخل ہو گئی تھی-میں نے دکھا دیا تھا کہ میں مردوں کی سطح پر ،ان کے برابر آرٹ ،فلسفہ ،ادب پر ڈسکس کر سکتی تھی-میں نے وہ سب بھی رکھا جو میری نسائیت کے حوالے سے خاص کیا جاتا تھا-میں اتنا ہی کما سکتی تھی جینا مرد دانشور کما رہے تھے-اور مجھے بھی اتنا ہی سنجیدگی سے لیا جاتا تھا -جتنی سنجیدگی سے میرے ہم عصر مردوں کو لیا جا رہا تھا-اپنے ہونے کے لحاظ سے میں کون ہوں ؟تو میں نے اس وقت یہ پایا کہ میں مردوں کی تہ سفر کر سکتی ہوں،ان کی طرح کیفے میں بیٹھ سکتی ہوں اور مرد لکھاریوں کی طرح لکھ سکتی ہوں -اور مجھے بھی ان کی طرح اتنی عزت مل سکتی ہےوغیرہ وغیرہ -تو ایسے ہر مرحلہ پر میرا جو آزادی اور مساوات کا جو احساس تھا وہ ایک حصار میں قید ہو گیا-اسی لئے میرے لئے یہ بھولنا آسان ہو گیا کہ وہ عورت جی کسی کی سیکرٹری ہو وہ ان سب کے ساتھ لطف اندوز نہیں ہو سکتی-وہ اس طرح کی ساکھ نہیں بنا سکتی اور نہ ہی اس کی ایسی کوئی ملکیت ہو سکتی ہے-وہ اس طرح نہ تو کیفے میں بیٹھ سکتی ہے-نہ ہی وہ آزادی کے ساتھ وہاں کتاب پڑھ سکتی ہے کہ کوئی اس کو میلی نظر سے نہ دیکھے-یا اس کے ساتھ کوئی بد اخلاقی نہ ہو -تو مجھے اس عورت کی مالی اور روحانی آزادی بارے سوچنا پڑا
جو کہ مرد پرست سماج میں کسی طرح سے بھی آزاد نہیں سمجھی جا سکتی-تو میں کہے بغیر یہ سوچ رہی تھی کہ جیسے میں کر سکتی ہوں اور سوچ سکتی ہوں کیا وہ بھی کر اور سوچ سکتی ہیں-
"دوجی جنس "کے حوالے سے تلاش اور لکھنے کے عمل کے دوران مجھے یہ پتہ چلا کہ میری مراعات در اصل میرے اغواء کا نتیجہ ہیں-دراصل مجھ سے میری ہست چھین کر مجھے یہ مراعات دی گئیں ہیں -کم از کم اگر ساری نہیں تو کئی پہلووں سے میری نسائیت مجھ سے چھین کر یہ مراعات مجھ کو دی گئی ہیں-اگر ہم اس کو طبقاتی معشیت کی اصطلاح میں ڈال دیں تو آپ اس کو آسانی سے سمجھ جائیں گیں -یعنی میں طبقاتی مصلحت پسند بن گئی تھی-صنفی جدوجہد میں میں اسی قسم کی قبیل سے ہو گئی تھی-
دوجی جنس کو لکھتے ہوئی مجھے یہ احساس ہوا کہ وہ جدوجہد کرنی چاہئے جس کی ضرورت ہے-مجھے اس سادہ سی بات کا پتہ چل گیا کہ جو چوئیس میرے پاس ہے وہ خواتین کی اکثریت کے پاس نہیں ہے-خواتین کی اکثریت اس سماج میں جو کہ مرد پرست سماج ہے کو دوسری جنس کے طور پر اور دوسرے درجے کی جنس کے طور پر لیا جاتا ہے -ان کا دوسرے درجہ کی جنس کے طور پر استحصال کیا جاتا ہے-اور اس سماج میں اگر مرد پرستی کا خاتمہ ہو جائے -اور اس کی مرد کی ترگ جھکاؤ والی جہت کا خاتمہ کر دیا جائے تو یہ جس ڈھانچہ پر استوار سماج ہے وہ سارا دھڑام سے نیچے آ جائے گیا -جس طرح سیاسی اور معاشی طور پر مغلوب لوگوں کے لئے مشکل ہوتا ہے کہ وہ اپنی مغلوبیت کو سمجھ لیں اور پھر اس کے خلاف کمر بستہ ہو جائیں -بلکل اسی طرح سے یہ عورتوں کو سمجھنا بھی مشکل ہوتا ہے-تو پہلے لوگوں کو اپنے اوپر غلبہ کر لینے والے نظام کو سمجھنا ہوتا ہے-پھر وہ اس نظام کے خلاف لڑائی کرنے نکلتے ہیں-پھر جو ان کے اتحاد اور اشتراک سے فائدہ اٹھانے جا رہے ہوتے ہیں ان کو ان کے انحراف کی قدر و قیمت کی پہچان کرنا ہوتی ہے-آخر کار جن کو اس طرح کے موقف اپنانے پر سب سے زیادہ کھونا ہوتا ہے جیسے میری طرح کی عورت جس نے اپنا مستقبل بڑی توجہ اور محنت سے بنایا ہوتا ہے -تو اس کو اس طرح کا مقف اور پوزیشن لیتے ہوئی بہت سے عدم تحفظات کو آواز دینا پڑتی ہے-اب یہ چاہئے انقلابی تبدیلی ہو یا دوسروں کی نظر میں محترم بننے کے لئے -بہرحال یہ خاصا دقت طلب کام ہوتا ہے-اور ان کو یہ بھی سمجھ لینا پڑتا ہے کہ ان کے ساتھ سب سے آخر میں جو شامل ہوں گی -وہ ان کی وہ بہنیں ہوں گی جن کا سب سے زیادہ استحصال ہوتا ہے-مثال کے طور پر ایک مزدور کی بیوی کے پاس تحریک میں شامل ہونے کے کم چانس ہوتے ہیں-وہ جانتی ہے کہ اس کے شوہر کا فیمنسٹ رہنماؤں سے زیادہ استحصال ہوتا ہے-اور اس کا شوہر کے گھر کی بقاء اس کہ گھریلو بیوی ہونے اور ایک اچھی ماں بننے پر ہے-بہرحال کوئی بھی وجہ ہو عورت متحرک نہیں ہو پاتی-ہاں کئی بہت ہی اچھی تحریکیں ہوتی ہیں جو عورت کی سیاسی اور معاشی شراکت داری کے لئے جدوجہد کرتی ہیں-میں ایسے گروپس سے ان کو جوڑ کر نہیں دیکھ سکی -پھر ١٩٦٨ آیا اور ہر چیز تبدیل ہو گئی -میں جانتی ہوں اس سے بھی پہلے کئی اہم باتیں رونما ہوئی تھیں-بیتی فریدن کی کتاب ٦٨ سے پہلے شایع ہو چکی تھی -امریکہ میں خواتین بہت آگے جا چکی تھیں-وہ اچھی طرح سے جانتی تھیں کے ٹیکنالوجی اور قدامت پرستوں میں کیا تضاد رونما ہوا ہے جو ٹیکنالوجی سے احبرنے والے تقاضوں کو نظر انداز کر کے عورتوں کو کچن تک محدود کرنا چاہتے تھے-ٹیکنا لوجی جب پھیلتی ہے تو عورتوں کو دوسرے درجہ کا جو کردار سونپا جا رہا ہوتا ہے اس کو برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے-امریکہ میں ٹیکنالوجی کی ایجادات بہت زیادہ ہو رہی تھیں تو عورتیں بھی اس سے جنم لینے والے تضادات میں گرفتار ہونے سے خود کو روک نہ سکیں-اسی لئے یہ بات حیرانی کا سبب نہیں ہونی چاہئے کہ سامراجی سرمایہ داری کا جو دل تھا امریکہ وہاں عورتوں کی تحریک نے سب سے زیادہ زور پکڑ لیا -یہاں تک کہ اس تحریک کا زیادہ دباؤ معاشی تھا -کام اگر مردوں کے برابر ہے تو پھر پیسے بھی ان کے برابر ہونے چاہئیں -لکین یہ سامراجیت مخالف تحریک تھی جس کے ابھار نے حقیقی فیمنسٹ شعور کو احبرنے کا موقعہ فراہم کیا-یہ ویت نام، مخالف تحریک ہو یا ٦٨ میں فرانس کے اندر چلنے والی پاپولر تحریک یا پھر مغربی ملکوں میں انقلابی ابھار اس نے عورتوں کو ٹھیک طرح سے ریڈیکل خیالات سے لیس کیا-جب یہ بات سمجھ میں آنا شروع ہوئی کہ اکثریت کی غربت کا سبب سرمایہ داری نظام ہے تو تو پھر عورتوں کی اکثریت نے طبقاتی جدوجہد میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا-اغرچہ انھوں نے طبقاتی جدوجہد کی اصطلاح کو قبول نہیں بھی کیا لکین وہ سرگرم ہو گئیں-انھوں نے مہم،جلسے،جلوس میں شرکت کرنی شروع کر دی اور وہ لیفٹ کے ملتینٹ زیر زمین گروپس کا حصہ بن گئیں -وہ مردوں کے شانہ بشانہ استحصال سے پاک اور بیگانگی سے پاک مستقبل کے لئے لڑیں -لکین ہوا کیا؟ان کو پتہ چلا کے وہ جن گروپس یا تنظیموں میں شامل ہوئی ہیں ان میں بھی ان کی حثیت اسی طرح دوسرے درجے کی جنس کی ہے جیسی اس سماج میں تھی جس کو وہ تبدیل کرنے نکلی تھیں-یہاں فرانس میں اور میں یہ بے باکی سے کہتی ہوں کہ امریکہ میں بھی انھوں نے دیکھا کہ لیڈر تو بس مرد ہی تھے-عورتیں تو ان نام نہاد گروپس میں ٹائپ کرنے والی اور کافی بنانے والی رہ گئیں تھیں-شائد مجھے نام نہاد نہیں کہنا چاہئے تھا -کیونکہ ان میں کئی مرد اصلی انقلابی بھی تھے-کیوں کہ یہ انقلابی بھی ایک مرد پرست سماج میں پلے تھے اور اسی میں ان کی تربیت ہوئی تھی تو یہ بھی تحریک اور تنظیم کو اسی سمت میں استوار کر گے-تو یہ بات سمجھ میں آنے والی تھی کہ یہ مرد بھی ان تنظیموں کی ساخت کو رضاکارانہ طور پر نہیں بدلنے والے تھے جس طرح سرمایہ دار طبقہ اپنی طاقت اور کنٹرول سے رضاکارانہ طور پر دست بردار نہیں ہوتا ہے-تو جس طرح غریبوں پر لازم ہوتقہ ہے کہ وہ سرمایہ داروں سے طاقت چھین لیں اسی طرح سے عورتوں پر لازم ہے کہ وہ مردوں سے اختیار چھین لیں-لکین اس کا مطلب مردوں کو مغلوب کرنا بھی نہیں ہے-اس کا مطلب برابری قائم کرنا ہے جس طرح اشتراکیت ،ایک حقیقی اشتراکیت تمام لوگوں میں معاشی برابری قائم کرتی ہے-تو فیمنسٹ تحریک نے بھی یہ سیکھا کہ اسے برابری قائم کرنے کے لئے مردوں سے تحریک میں پاورچھین لینا ہوگی -طبقاتی جدوجہد کے اند شمولیت کے ساتھ کسی لمحہ میں عورتوں کو یہ احساس ہوتا ہے کہ طبقاتی جدوجہد سے مردوں اور عورتوں کے درمیان نا برابری ختم نہیں ہوگی -بلکہ ان کو اس کے ساتھ ساتھ مرد پرستی کے خلاف بھی جدوجہد کرنا ہوگی-یہ وہ بات ہے جس کو بتانے کے لئے میں نے کہا تھا کہ میں اس بات سے پہلے سہمت تھی کہ سرمایہ دارانہ نظام کے ہوتے ہوئے مرد اور عورت برابر نہیں ہو سکتے تو ہمیں سرمایہ داری نظام کو تباہ کرنا ہوگا اس لئے -........تو یہ لفظ اس لئے ایک فکری مغالطہ تھا-کہ ہمیں پہلے صرف طبقاتی جدّوجہد کرنی چاہئے-یہ بات درست ہے ہے کہ جنسوں میں برابری سرمایہ داری نظام کے اندر نہیں ہو سکتی-ذرا غور کیجئے کہ اگر مرد اور عورت برابر ہو جائیں تو پیس ور،پارٹ ٹائم کام ،شاپس ،سٹور میں کام کلیساؤں ،آرمی فیکٹریوں کا کیا ہوگا جن پر سرمایہ داری انحصار کرتی ہے-یہ جو سستی لیبر اور پارٹ ٹائم ورک ہے اس کا سب سے زیادہ انحصار عورتوں کی محنت کے استحصال پر ہے-لکین یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ سوشلسٹ سماج عورتوں کے استحصال کو مکمل طور پر ختم کر دیتا ہے اور مرد و عورت کے درمیان برابری قائم کرتا ہے -روس اور اشتراکی ملکوں میں بھی مرد اور عورت کی برابری کے سوال پر الجھن موجود ہے-المیہ یہ ہے کہ کے پرولتاریہ کی فتح بھی آخر میں مردوں کی فتح بن جاتی ہے-تو عورتوں میں یہ جو شعور ہے کہ طبقاتی جدوجہد کی فتح ہی سے عورتوں کی مردوں سے برابری نہیں ہوتی یہ نیا شعور ہے-پدر سری اقدار کے خلاف بھی جدوجہد ساتھ ساتھ ہو گی-عورتیں اب زیادہ تر اس بات سے واقف ہیں اور ان کی تحریک بھی اس امر کو ساتھ لیکر چلتی ہے-اور یہ شعور مستقبل میں نئی تاریخ رقم کرے گا-

خالی راستہ عامر حسینی /افسانہ

خالی راستہ
عامر حسینی /افسانہ
الارم کب کا بج بج کر خاموش ہوگیا تھا-لکین نجانے کیوں آج اس کی آنکھ نہیں کھل سکی تھی-وہ تو بہت کم نیند لیتا تھا-اس کو ایک لمبی اور پرسکون نیند کی ہمیشہ سے آرزو رہی تھی-جاگتا تو خیالات کا ایک سیلاب بلا کی طرح اس کو بہائے لیجاتا تھا-اور سوتا تو خواب اس کو بے چین رکھتے تھے -اسے سونے اور جاگنے میں کیا فرق ہوتا ہے؟اس فرق کو تلاش کر لینے کی چاہ تھی-
وہ جلدی سے اٹھا تو اس کو احساس ہوا کے آج شائد وہ وقت پر یونیورسٹی نہ پہنچ سکے -تیزی سے اس نے ضروری کام نمٹائے-روکھا سوکھا ناشتہ کیا -اور صحن میں کھڑی پرانی سی موٹر سائیکل نکالی -اور روانہ ہو گیا-
یونیورسٹی پہنچ کر وہ سیدھا اپنے ڈیپارٹمنٹ گیا اور کلاس روم میں داخل ہو گیا-وہ انگریزی ڈیپارٹمنٹ میں کافی سالوں سے ورلڈ لیٹریچر کی کلاسس لے رہا تھا-وہ مدرسی طرز پر کلاس نہیں لیا کرتا تھا-اور نہ ہی اس کو روایتی طرز پر پڑھانا پسند تھا-وہ جب بھی کسی ادیب ،شاعر یا ناقد پر کوئی بات کرتا تو پہلے سے اس کے ذہن میں کوئی خاکہ موجود نہ ہوتا -اچانک سے الفاظ کی بنت شروع ہوتی اور وہ ایک خاص جذب کی کیفیت میں بولتا چلا جاتا تھا -اس نے کبھی نوٹس کا کاروبار نہیں کیا تھا-وہ فارمولہ تدریس کا سخت مخالف تھا-
آج اس کو پیرسیین ادب پر بات کرنا تھی -کل جب اس نے اپنے شاگردوں کو کہا تھا کہ ہم پیرس میں پیرس کو ان لوگوں کی نظر سے دیکھ کر پیدا ہونے والے ادب کا جائزہ لیں گے -جنھوں نے پیرس میں ایک تارک وطن کے طور پر قدم رکھا اور پھر پیرس کے بارے میں شاہکار ادب تخلیق کیا -تو اسے بے اختیار ہمنگوے یاد آگیا تھا-جس نے پیرس کے بارے میں جو کہانی لکھی اور جو ادب تخلیق کیا -اس نے بہت سے لوگوں کو اس رہ پر چلنے کی ترغیب دی-
آج جب وہ کلاس میں داخل ہو تو اس نے اپنے طالب علموں کے چہرے پرحیرانگی تھی کہ کبھی نہ لیٹ ہونے والا آج کیسے لیٹ ہو گیا تھا-اس نے ان کی حیرانگی کو دور کرتے ہوئے زرہ مزاح سے کام لیا -اور کہا کہ بھئی پیرس کوئی نزدیک تھوڑی ہے ہے-وہاں سے آتے ہوئے.اور پیرسیان ادب کو لاتے ہوئے تھوڑی دیر تو لگ ہی جاتی ہے-یہ سنکر کلاس ہنس پڑی-
پھر اس نے بولنا شروع کیا اور پتہ ہی نہیں چلا کہ کب لیکچر ختم ہوا -اور کب وہ کلاس سے باہر آگیا -
وہ سٹاف روم ،یا اپنے کمرے میں نہیں جایا کرتا تھا-وہ کسی تنہا سے گوشے میں جا کر بیٹھنے کا شائق تھا-آج بھی اسی ارادہ سے وہ ڈیپارٹمنٹ سے نکل کر کہیں کا رخ کرنے والا تھا کہ اس کو رخشانہ جمیل نے آ پکڑا-یہ بھی ان کے ڈیپارٹمنٹ میں لیٹریچر کی استاد تھیں -اور امریکہ سے انھوں نے پی ایچ ڈی کی تھی-
طارق کہاں چل دئے ؟رخسانہ بولی ،
بس کہیں نہیں ایسے ہی ،طارق نے جواب دیا -
ایسے تو تم کہیں نہیں جاتے -رخسانہ بولی -
بس ابھی لیکچر دیا تھا -تو ذرا گوشہ تنہائی کی تلاش میں تھا-
یہ سن کر رخسانہ ہنس پڑی اور کہنے لگی -
طارق !یار تم بھی عجیب ہو کہ فکشن کو خود پر تار رکھتے ہو -یہ بتاؤ آج کیا لیکچر تھا؟
بس پریسیان ادب بارے تھا -
اچھا -واؤ -یہ تو مجھے بھی پسند ہے -رخسانہ بولی -
اب طارق بھی ذرا دلچسپی سے بولا -رخسانہ !تمھیں پتہ ہے کہ میں نے جب منٹو اور ایک دو اور ادیبوں کے ہاں ممبئی کے بارے میں کہانیاں پڑھی تھیں تو مجھے بہت شوق تھا اس ممبئی کو دیکھنے کا جس کا ذکر منٹو نے خوب کیا تھا -لکین ہوا کیا کہ جب میں ممبئی پہنچا اور میں سارا ممبئی گھوم لیا تو یہ شہر مجھے عام شہروں کی طرح لگا تھا -
وہ سارا رومان تو ممبئی کی حقیقت میں کہیں چھپ گیا تھا-بہت کوشش کی تھی میں نے اس خوشبو کو سونگھنے کی جو یہاں قیام کرنے والے ادیبوں کو آتی تھی-مجھے تو یہاں کے موسم بھی عام سے موسم لگے تھے -
آج جب پیریسیان ادب بارے لیکچر تھا تو مجھے یہ بات یاد آ گئی تھی-مجھے یہ بھی یاد آ گیا تھا کہ کیسے ہمنگوے کو پڑھ کر پیرس آنے والے اور اس کی گلیوں میں سرگرداں پھرنے والے ادیبوں پر کیا گزری تھی-وہ تو ہمنگوے کا پیرس کبھی تلاش نہیں کر پائے تھے -
رخسانہ نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کہنے لگی ٹھیک کہتے ہو تم طارق -
میں بھی چار سال نیویارک میں رہ کر نیو یارکر کی نظر سے نیو یارک کو نہیں دیکھ سکی تھی -میں سمجھتی تھی کہ بس چپکے سے نیو یارک مجھ پر اپنا آپ کھول دے گا -لکین یہ تو مجھ پر اتنا بھی نہیں خلا جتنا یہ فلسطینی ایڈورڈ سعید پر کھل گیا تھا-
طارق کہنے لگا کہ اب دیکھو نہ کتنا عرصۂ ہو گیا ہے لاہور میں رہتے ہوئے -کتنی خزاں اور بہار ہیں جو میں نے دیکھی ہیں -لکین مال روڈ پر کسی فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے پاؤں کے نیچے پتوں کے چرچرانے کی آواز سننے کو کان اب بھی ترستے ہیں-مجھے متل کا لاہور تو ڈھونڈھ کرنے سے بھی نہیں ملتا -
یہ وطن میں بے وطنی بہت عجیب نہیں لگتی؟رخسانہ نے پوچھا -
ہاں بس عجیب تو لگتی ہے لکین بری نہیں-طارق بولا -
اس کے بعد طارق سے وہاں ٹھہرا نہیں گیا -وہ پارکنگ میں آیا -اور اپنے پرانے موٹر سائیکل کو نکالا -اس کو سٹارٹ کیا -اور یونیورسٹی سے نکلتا چلا گیا -رات بھر وہ ایک ہی خواب کو دیکھتا رہا کہ ایک لمبی سی سڑک ہے-جس پر آگے پیچھے دور دور تک کوئی نظر نہیں آتا -نہ ہی کوئی سنگ میل لگا ہوا ہے -اور وہ پہلے موٹر سائیکل پر اور جب وہ جواب دیتی ہے -تو پیدل چلا جاتا ہے-تیز دھوپ ہے مگر تپش کی بجائے وہ برف جیسی ٹھنڈک دے رہی ہے-سورج کی روشنی اندھیرا پھیلا رہی ہے-اور اس کے قدموں تلے زمین میں لگتا ہے کوئی احتجاجی صدا بلند ہو رہی ہے -وہ بس چلتا چلا جاتا ہے -اور خواب ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا -

Sunday 9 October 2011

الفاظ شاعر: ڈیانا گوینا

الفاظ

شاعر: ڈیانا گوینا

انگریزی مترجم :جوزے اعملو پشکو

اردو مترجم :عامر حسینی


دنیا کو لفظوں کی ضرورت نہیں ہوتی -

یہ تو دن کی روشنی میں،اپنے پتوں اور سایوں کے ساتھ خود کو خود ہی تشکیل دے لیتی ہے-

پتھر جو راستے میں پڑے ہوتے ہیں ،لیٹے ہوئے ،بے شمار وہ کم حقیقی نہیں ہوتے -

پتے اپنے ہونے کی خالص زبان میں کلام کرتے ہیں -

ایک بوسہ ابھی تک خود کو مکمل مشہود کرتا ہے-اگرچہ وہ کچھ نہیں بولتا -

Thursday 6 October 2011

دو ماشے کی انگوٹھی اور ایک لاکٹ

دو ماشے کی انگوٹھی اور ایک لاکٹ
افسانہ /عامر حسینی
ریلوے لائن کے اس پار ایک چھوٹی سی بستی ہے -عزیز نگر تھا اس کا نام-غریب لوگ یہاں رہتے تھے -شام کا وقت تھا -جب ایک مکان سے ایک لڑکی بغل میں ایک شاپر دبائے نکلی-گھبرائی ہوئے،سہمی ہوئی تیز تیز قدموں کے ساتھ وہ بستی سے نکلتی چلی گئی-ریلوے کی پٹٹری کو عبور کرتینے کے بعد وہ ریلوے اسٹیشن کی طرف چل دی-سارے رستے وقفے وقفے سے وہ پیچھے مڑ کر بھی دیکھ لیتی تھی-ریلوے اسٹیشن آ کر وہ سیدھی پلیٹ فارم کی طرف چلی گئی-پلیٹ فارم قدرے سنسان پڑا تھا-اکا دکا ماسفر موجود تھے-وہ زنانہ انتظار گاہ کی طرف گئی-یہ انتظار گاہ ایک بک سٹال کے قریب بنی ہوئی تھی-اس نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی اور ایک دم سے زنانہ انتظار گاہ میں داخل ہو گئی-نجانے کیا بات تھی کہ وہ انتظار گاہ میں بیٹھ نہیں پا رہی تھی،بغل میں دبے شاپر کے ساتھ وہ مضطرب سی کھڑی تھی-تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ انتظار گاہ کے دروازے سے باہر جھانک لیتی تھی-اتنے میں کوئی گاری پلیٹ فارم پر آ کر کھڑی ہوئی -وہ تیزی سے نکلی اور ایک ڈبے میں سوار ہو گئی-واش روم کے پاس بنی ایک سیٹ پر وہ بیٹھ گئی-سامنے والی سیٹ خالی تھی-جب ٹرین چلنے لگی تو ایک آدمی بھی اس میں سوار ہو گیا اور آکر اس کے سامنے والی سیٹ پر بیٹھ گیا-لڑکی تھوڑی دیر بعد اچانک اٹھی اور واش روم میں چلی گئی-کافی دیر تک جب وہ واش روم سے واپس نہ آئی-تو سامنے کی سیٹ پر بیٹھے آدمی کو تشویش لاحق ہوئی-وہ واش روم کی طرف گیا-اور پہلے دستک دی تو کوئی جواب نہیں آیا-جب اس نے دروازے کو دھکیلا تو معلوم ہوا کہ دروازہ بند نہیں تھا-اس آدمی نے دروازہ کھول دیا-اندر لڑکی کھڑی ہوئی تھی-اور اس کے چہرے سے سخت خوف جھلک رہا تھا-آدمی نے نرمی سے پوچھا !کیا بات ہے؟آپ سیٹ پر کیوں نہیں بیٹھتیں؟اور یہاں واش روم میں کیوں چلی آئیں ہیں؟کیا ٹکٹ نہیں ہے؟پہلے تو وہ خاموش رہی-جب دوسری بار اس آدمی نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟آپ بولتی کیوں نہیں ہیں؟تو وہ مری مری سی آواز سے بولی کہ میں کسی کے خوف کی وجہ سے یہاں آ کر چھپی ہوں-اس نے اگر مجھے دیکھ لیا تو پکڑ کر لے جائے گا -آدمی بولا کہ ایسے کیسے بھرے ڈبے میں کوئی تم کو پکڑ کر لے جائے گا-تن آرام سے اپنی سیٹ پر بیٹھو مت گھبراؤ -اس نے کہا نہیں وہ میرا باپ ہے-تم ذرا دیکھو کہ کوئی ہلکی ہلکی داڑھی والا،آسمانی کلر کا سوٹ پہنے،کاندھے پر ڈبی والا رومال ڈالے تو کوئی شخص ڈبے میں سوار نہیں ہے-آدمی ڈبے میں دیکھ کر آیا اسے پورے ڈبے میں ایسا کوئی آدمی نذر نہیں آیا-آکر اس نے لڑکی کو تسلی دی کہ کوئی ایسا آدمی ڈبے میں نہیں ہے-تو لڑکی واش روم سے نکلی اور سامنے والی سیٹ پر بیٹھ گئی-اب آدمی نے اس لڑکی سے پوچھا کہ وہ کون ہے؟کہاں سے آئی ہے؟اور کیوں اکیلے اس گاڑی میں سفر کر رہی ہے؟باپ اسے کیوں ڈھونڈھ رہا ہے اور وہ اس سے بچتی کیوں پھر رہی ہے؟یہ سارے سوال اس آدمی نے ایک دم کر ڈالے-یہ سوال سن کر اس لڑکی کی آنکھوں میں آنسو آ گئی-وہ بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگی کہ میں بدنصیب لڑکی ہوں،میری ماں مر چکی ہے-اور آج سے دو سال قبل میرے باپ نے دوسری شادی کر لی تھی-میں اور میری ایک چھوٹی بہن کو دوسری ماں نے قبول بھی نہیں کیا-نجانے میرے والد کو کیسے اس عورت نے قابو کر لیا تھا-جب سے گھر آئی تھی مجھے اسکول کی نوکری ترک کرنے کا کہتی تھی-میں نے والدہ کی وفات کے بعد پی تی سی کورس کر کے ایک پرائمری اسکول میں پڑھانا شروع کر دیا تھا-وہ مجھے کہتی تھی کہ میں اس نوکری کو ترک کر دوں -اور وہ مجھے ایسا کام دلائے گی کہ میں سونے میں لد جاؤں گی-یہ تو مجھے اس وقت پتا چلا کہ وہ کام کیا تھا جب میرا والد ایک دن شادی پر کسی دوسرے شہر گیا اور پیچھے سے سر شام ایک ادھیڑ عمر آدمی جس کو میں نے پہلے نہیں دیکھا تھا ہمارے گھر گھس آیا تھا-اس کے مونہ سے بدبو آ رہی تھی-ایسے لگتا تھا جیسے اس کی سانسوں کا خمیر کسی گندگی کے دھیر سے اٹھا ہو-میں در کر اندر کمرے میں چلی گئی اور کنڈی لگا لی میری سوتیلی ماں نے کئے بار دروازے پر دستک دی لکین میں نے دروازہ نہیں خولس-وہ کہنے لگی کہ وہ مجھے خوش کر دے گا-میں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں-ساری رات میں اس کمرے میں بند رہی صبیح ہوئی تو کنڈی کھول کر میں کمرے سے باہر آئی-نہ دھو کر اسکول جانے کے بہانے میں گھر سے نکل آئی-میں اب اپنی کھلاہ کے گھر ٹنڈو جام جانا چاہتی ہوں-
یہ رام کہانی سن کر اس آدمی نے کہا کہ تم ایکلے کیسے سفر کرو گی-رستے میں پولیس یا کسی اورآدمی کے ہتھے چڑھ گئیں تو ساری عمر ایک نئے جہنم سے دوچار رہو گی-یہ سن کر وہ لڑکی پریشان ہو گئی -اس نے کہا کہ پھر میں کیا کروں ؟تو آدمی نے کہا کہ میں تمھارے ساتھ چلتا ہوں اور تم کو ٹنڈوجام تک چھوڑ آتا ہوں-لڑکی کو ناجانے کیوں اس آدمی پر بھروسہ کرنے کو دل چاہ رہا تھا-سو اس نے ہاں کر دی-آدمی نے بتایا کے اس کا نام حبیب ہے-وہ ریلوے کالونی میں رہتا ہے-ایک عرصۂ سے کیمیا کی تلاش میں ہے-اور ویرانوں میں چلے کاٹتا پھرتا ہے-بس ہر مرتبہ تھوڑی سی کسر رہ جاتی ہے-لڑکی نے اپنا نام رانی بتایا اور بھولے سے لہجے میں پوچھنے لگی -حبیب!یہ کیمیا کیا ہوتا ہے-تو وہ کہنے لگا یہ ایک طریقہ ہے جس سے کسی بھی دوسری دھات کو سونے میں بدلہ جا سکتا ہے-وہ بہت حیران ہوئی اسے حبیب کو جھلا آدمی لگا-حبیب اسے بتانے لگا کہ وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ نہیں رہتا ان سے الگ ریلوے کے ایک کوارٹر میں وہ اپنی کتابوں اور ان چیزوں کے ساتھ رہتا ہے جو اس کے عمل کیمیا کے کام آتی ہیں-
رانی نے پوچھا تو کیا تنہائی اس کو تنگ نہیں کرتی؟کیا اس کو مشکل پیش نہیں آتی؟حبیب کہنے لگا کہ نہیں اس کو تو ہجوم سے وحشت ہوتی ہے-اس کو ویرانے اچھے لگتے ہیں-
سفر کافی لمبا تھا -حبیب بھی چاہتا تھا کہ کسی طرح یہ لمبا سفر باتوں میں کٹ جائے-اس نے رانی سے پوچھا کہ کیا وہ کتابوں کا شوق رکھتی ہے-تو رانی کہنے لگی کہ ہاں اس کی ماں کو کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا-وہ بی اے پاس تھی-بس قسمت کی بدنصیبی کے اس کی شادی میرے باپ سے ہو گئی-جس کو نشے سے فرصت نہیں ملتی تھی-میری ماں نے اس کو ،مجھے اور میری بہن کو محنت مزدوری کر کے پہلا وہ بھی استانی تھیں-مجھے انھوں نے ایم اے کروایا -میری دوسری بہن کو بی اے تک تعلیم دی اور پھر اس کو می خالہ تندو جام لے گئیں تھیں-ان کے میاں واپڈا ملازم تھے-دونوں کے کوئی اولاد نہ تھی تو بس فوزیہ کو انھونوں نے بیٹی بنا لیا-وہ اب وہیں رہتی ہے-ماں رات بھر کتابیں پڑھتی رہتی تھی-اس میں سے میں نے بھی کئے کتابیں پڑھ ڈالی تھیں-
حبیب کہنے لگا کہ کیا اس کو شاعر کون سا پسند ہے؟تو رانی کہنے لگی کہ اس کو شکیب جلالی بہت پسند ہے -یہ سن کر حبیب چونک گیا -کہنے لگا کہ ووہی تم کو کیوں پسن آیا؟رانی کہنے لگی کہ جب میں نے اس ک غزلوں کو پڑھنا شروع کیا تو مجھے لاغ کہ یہ سب تو میں کہنا چاہتی ہوں جو شکیب کہ رہا ہے-میرے ہاں تارے ٹوٹے ہوئی تھے-اور چاند بھی بھجا بھجا سا تھا-میرے گھر کے سہن میں بھی پتھر تو آ کر گرتے تھے لکین میرے آنگن میں لگے پیڑ کے پھل پس دیوار ہی گرتے تھے-میں نے بھی کسی کے قدموں میں گرنا نہیں سیکھا تھا-اور اپنے ہی قدموں پر ایسے گری تھی جیسے سایہ دیوار پر دیوار گر جاتی ہے-
مجھے بھی بستر کی سلوٹوں کو گننا اچھا لگتا تھا-اور صحرا ،دشت ،ببول ،ویرانی یہ سب میرے بھی رفیق تھے-نجانے کیوں شکیب مجھے کبھی اجنبی نہیں لگا تھا-
رانی باتوں میں گم تھی اور حبیب اس کی طرف دیکھ رہا تھا کہ وہ اپنے آپ میں جذب ہو چکی تھی-ایک عجب سی کیفیت گاڑی کے اس ڈبے میں ان دو سیٹوں کے درمیان تار ہوئی لگتی تھی اور حبیب بھی اس جذب میں خود کو گم سم سا کرتا جا رہا تھا-رانی کہنے لگی کہ وہ چھوٹی سی تھی تو تب سے اسے اپنے گھر میں عجب سی اداسی راج کرتی نظر آتی تھی- اس کی ماں اسے اور اس کو بہن کو ایک کمرے میں سلا دیتی تھی اور کمرے کی کنڈی باہر سے لگا دیتی تھی-نجانے رات کے کون سے پھر باہر اس کے باپ کے چیخنے اور چلانے کی آواز آتی اور ماں کی ڈبی ڈبی سسکیاں سنائے دیتیں تو ان کو موم ہو جاتا کہ باپ آ گیا ہے-بہت عرصۂ بعد جب وہ میٹرک میں تھی تو اسے پتہ چلا کے اس کا باپ رات کو نشے میں دھت ہو کر آتا تو ماں پر چڑھ دوڑتا -ماں کو ننگی گلیاں دیتا -اور ماں کو کہتا کہ وہ اپنے یار کا نام بتائے-
"مجھ سے اور فوزیہ سے اس نے کبھی پیار نہیں کیا -اس کی آنکھوں سے نفرت جھلکتی تھی-مجھے اس کی نفرت کا سبب اس وقت پتہ چلا جب میری ماں کو دل کا دورہ پڑا اور وہ آئی سی یو میں تھی-آخری وقت میری ماں نے مجھے اور میرے باپ کو بلایا اور کہا کے یامین !میں مرنے والی ہوں اور مرتے ہوے کوئی جھوٹ نہیں بولتا -یہ دونوں بچہ تمہارا خون ہیں -میں نے تم سے کوئی بیوفائی نہیں کی-میری بیٹیوں کا خیال رکھنا -یہ کہتے ہی میری ماں مجھے چھوڑ کر اس جہاں چلی گئی جہاں سے کوئی کبھی نہیں آتا-
رانی کی یہ باتیں سن کر حبیب کو بہت دکھ بھی ہوا اور اسے حیرت بھی ہوئی کہ سہمی سہمی اور دری دری سی نظر آنے والی اس لڑکی کی اندر کی دنیا میں کیا کچھ چھپا ہوا ہے-گاڑی اپنی رفتار سے بھاگ رہی تھی -دونوں کافی دیر تک خاموش رہے-پھر رانی نے پوچھا کہ حبیب آپ دنیا سے کیوں کٹ گئے؟کیا سونا بنانا لینے کی حرص دنیا تیاگ دینے جیسی اذیت سہنے کے لئے ٹھیک قیمت ہے-یہ سن کر حبیب مسکرایا اور کہنے لگا کہ رانی یہ کسی قیمتی دھات کو پا لینے کی تمنا نہیں ہے-نہ ہی امیر کبیر ہو جانے کی-کیمیا ایک ایسا عمل ہے کہ اس کو آج تک کرنے والا کوئی سونا نہیں بنا سکا -لکین یہ عمل آدمی کو ایسی دنیا میں ا جاتا ہے جہاں تگ و دود کبھی اختتام کو نہیں پہنچتی-یہ جہد مسلسل آدمی کو دنیا کی پلیدی سے دور کر دیتی ہے-میں ایک کالج میں استاد تھا-میں نے بھی ایک مجلسی زندگی گزاری لکین پھر نجانے کیسے ایک مرتبہ میں دریائے راوی کے کنارے گیا بہت ویرانی تھی وہاں اور جنگلے کے بیچ میں ایک جھونپڑی کو میں نے دیکھا-وہاں گیا تو ایک بوڑھے آدمی کو اندر جھونپڑی میں بیٹھے دیکھا -چراغ روشن تھا اور آگ پر ایک برتن میں وہ بوڑھا کچھ ہلا رہا تھا-میں اس کے پاس گیا -اس سے پوچھا کہ اس ویرانے میں وہ کیا کر رہا ہے-اس نے کہا یہاں ورانہ کہاں ہے؟یہ درخت،جھاڑیاں،یہ جانور اور دریا کے اندر مخلوق سب نے تو محفل سجائے ہوئی ہے-تم خود تو مردوں کے شہر سے آئی ہو تو اس لئے تمھیں یہ ورانہ لگتا ہے-میں اس آدمی کے پاس کچھ دن کے لئے رک گیا -میں نے اس کو پہلے کوئی خبطی سونے کی لالچ میں مبتلا خیال کیا تھا-لکین کیمیا کا رنگ مجھ پرر بھی خوب اترنے لگا-
رانی تمھیں پتہ ہے کہ یہ علم جابر بن حیان نامی ایک عرب نے بنایا تھا -وہ آج کے جدید علم کیمیا کا بانی کہلاتا ہے-یہ امام جعفر صادق کا شاگرد تھا-رانی کہنے لگی ہاں اس کو پتہ ہے-
کبھی کبھی مجھے لگتا ہے ہے کہ کہیں چپکے سے جابر میری روح میں اتر جاتا ہے اور مجھ پر آگاہی کے در وہ ہونے لگتے ہیں-میں اچانک کہیں اور پہنچ جاتا ہوں-اور پھر دھاتوں کا عمل تو کہیں بہت دور رہ جاتا ہے-وہاں تو کچھ اور ہوتا ہے جسے آج تک میں پہچان نہیں پایا-کبھی خاموشی کا جنگل بولنے لگتا ہے -تو کبھی شہروں کا شور چپ چپ لغتا ہے-میں ابھی تک اس کا ادرک نہیں کر پایا -شائد جس دن کروں تو کیمیا گری کی حقیقت کو پا جاؤں-
ابھی یہاں تک بات ہوئی تھی کہ ٹرین حیدر آباد کے پلیٹ فارم میں داخل ہو گئی-حبیب اور رانی حیدر آباد کے پلیٹ فارم پر اترے اور وہاں سے رکشے میں بیٹھ کر ہالہ ناکہ آ گئے-وہاں سے تندو جم جانے والی بس میں بیٹھ کر وہ تندو جام پہنچ گئے-وہاں واپڈا کالونی کی طرف جاتے ہوے رانی نے حبیب کو کہا کہ تم نے میری خاطر بہت کشٹ کتا ہے -میں اس نیکی کا بدلہ نہیں دے سکتی-
واپڈا کالونی میں فنک کر رانی حبیب کو ایک گھر کی طرف لے گئے-دستک دی تو ایک ادھیڑ عمر کی خاتون نے دروازہ کھولا -وہ رانی کو ایک اجنبی آدمی کے ساتھ دیکھ کر حیران ہوئی-لکین دونوں کو اندر بلا لیا-تھوڑی دائر بات چیت کے بعد اس خطوں نے حبیب کا شکریہ ادا کیا-اور اس کو رات ٹھہر جانے پر اصرار کیا-لکین حبیب وہاں نہیں رکا-اس نے کہا کے حیدر آباد میں گاڑی کھاتہ میں اس کے عزیز رہتے ہیں وہ وہاں چلا جائے گا-جاتے ہوئی رانی نے اس سے گھر کا پتہ لکھوا لیا -وہ حیدر آباد کچھ دن رہا اور پھر اپنے شہر لوٹ آیا-
دن گزرتے چلے گئے-رانی جس کی یاد کبھی کبھی اس کو رات کو اچانک آ جاتی اور وہ اپنے عمل کو جاری نہیں رکھ پاتا تھا -نجانے کہاں رہ گئے تھی-ایک صبیح جب وہ گھر سے نکلنے کی تیاری کر رہا تھا تو کورئیر سروس کا نمایندہ آیا اور اس کو ایک پارسل دے گیا -اس نے پارسل کھولا تو اس میں دو خط اور ایک بکس تھا-پہلا خط رانی کی خالہ کا تھا -جس میں لکھا تھا کہ آج رانی ہسپتال میں اپنی زندگی کی بازی ہار گئی-اس کے باپ نے اچانک ایک دن اس پر خالہ کے گھر آ کر فائر کھول دیا تھا-اس کو کئے گولیاں لگی تھیں-مرنے سے بیشتر اس نے خالہ کو بتایا تھا کہ اس کے صندوق منین ایک بکس اور ایک خط ہے جو حبیب کو روانہ کر دینا-حبیب نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ رنگین صفحۂ پر لکھا ہو خط کھولا اور پڑھنا شروع کر دیا -
کیمیا گر حبیب !
جب تمھیں یہ خط ملے گا تو شائد میں اس دنیا میں نہ ہوں-مجھے ایسا
لگتا ہے کہ مائیں اب زیادہ دیر زندہ رہنے والی نہیں ہوں-میری وجدانی
حس نے مجھے کبھی دھوکہ نہیں دیا ہے-میں تمھیں اس سفر کے دوران
ہی کہنا چاہتی تھی کہ جس کیمیا کی تم تلاش میں ہو وہ تو تمہارے سامنے
بیٹھی ہے-پھر جب تم واپس آنے لگے تو بھی میں تمھیں روک لینا چاہتی تھی-
مگر روک نہ پائی-میں تمھیں کسی سراب میں رکھنا بھی نہیں چاہتی تھی-
تمھیں معلوم ہے کہ یہاں ٹنڈو جام میں ایک مزار ہے -اس کے بارے میں مشہور
کہ یہاں جو مانگو ملتا ہے-میں وہاں گئی تھی-اور تمھیں مانگنا چاہتی تھی-
لکین عجیب بات کہ وہاں چاہنے کے باوجود میں تمھیں نہ مانگ سکی اور واپس
چلی آئی-لکین تمھیں کہنا چاہتی ہوں کہ تم ہو یا میں یا کوئی اور ہم سب کیمیا کی تلاش میں ہوتے ہیں-وہ کہیں اس پاس ہمارے سامنے ہوتا ہے اور ہم اسے کتابوں میں اور ویرانوں میں تلاش کر رہے ہوتے ہیں-بس وقت گزر جاتا ہے اور وہ کمیا کہیں دور بہت دور رہ جاتا ہے-ہم اس آدمی کی طرح ہیں جو پارس کی تلاش میں جھلا ہو گیا تھا اور لوگوں نے اس کو زنجیروں سے جکڑ دیا وہ یونہی پارس کی تلاش میں سر گردن پھرتا رہا اور ایک دن اس کے پیڑ سے پارس پتھر ٹکرایا اور سری زنجیریں سونا ہو گئیں -لکین اسے خبر نہ ہوئی-میں رہوں یا نہ رہوں -لکین تمھیں اپنی ماں کی طرف سے دی ہوئی انگوٹھی اور سونے کا لاکٹ بیجھ رہی ہوں-
میرے کیمیا گر !کبھی وقت ملے تو ان کو دیکھ لیا کرنا -بہت شرمندہ ہوں تمھیں پارس پتھر اور کیمیا دے نہ سکی -
فقط تمھاری
رانی
خط پڑھ کر حبیب کی آنکھوں سے دو آنسوں ٹپکے اور خط میں جذب ہو گئے-دور کہیں سسے آوازآتی تھی ............
مجھ کو گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں
جیسے سایہ دیوار پہ دیوار گرے

Monday 3 October 2011

گمشدہ روح کی تلاش

وہ کراچی کے علاقے الکریم سنٹر میں پیدا ہوا تھا -اس کو اس کے دادا نے پالا تھا-اس کا گھر کسی ہندو سنار کا گھر تھا جس میں ساگوان اور دیودار لکڑی کا بہت کام ہوا تھا-بہت قدیم سا گھر تھا یہ-لکن اس کی پر اسراریت اسے اچھی لگتی تھی-وہ اس مکان کے تنگ و تاریک کمروں کو بہت پسند کرتا تھا-جب وہ صبح سویرے اسکول کی طرف جاتا تو راستے میں ایک عمارت اس کو بہت خوبصورت لگتی تھی-اس نے ایک مرتبہ اس عمارت کو اندر سے دیکھنا چاہا تو ایک گارڈ نے اس کو روک دیا اور کہا کہ اس عمارت میں اس کو جانے کی اجازت نہیں ہے-یہ صرف پارسیوں کے لئے ہے-اس کے لئے یہ لفظ بھی نیا تھا-اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیوں ایک عمارت کو دیکھنے سے محروم رکھا جا رہا ہے جبکہ اس کا من کر رہا ہے-پھر ایک مرتبہ اس کے محلے میں بنی ایک مسجد پر دو فریقوں کے درمیاں لڑائی ہوگئی-اس نے لوگوں کو مسجد میں ھتیار بند ہو کر لوگوں کو لڑتے دیکھا تو اپنے دادا سے پوچھا "دادا/یہ لوگ خدا کے گھر پر ملکیت کے دعوے کیوں کرتے ہیں اور آخر سب انسان کیوں امن کی جگہ کو کچھ لوگوں کے لئے خاص کرنا چاہتے ہیں-وہ ٨ سال کا تھا جب پہلی مرتبہ لاہور آیا تھا اس نے پہلی مرتبہ جب فورٹ دیکھا اور مال روڈ پر وکٹورین طرز تعمیر دیکھا تو ایک دم سے اسے لگا کہ وہ ٢١ ویں صدی کی بجاے پھر سے ١٨ ویں صدی کے ہندوستان میں آ گیا ہے-اس نے جب لارنس باغ دیکھا تو یہ سخت سردی کا موسم تھا-دسمبر کی سرد ہوائیں بدن کو چیرے دے رہی تھیں -رات کا سماں تھا وہ ایک پیپل کے درخت کے نیچے کھڑا تھا اسے یوں لگتا تھا جسے درخت درخت نہ ہوں گم سم سے مجسمے ہوں اور سب کے سب گیاں دھیان میں مصروف ہوں-اس کے دادا نے اسے برگد کے درخت کے نیچے گوتم بدھ کی کہانی سنیی تھی-کیسے اس نے سنیاس لیا تھا-کیسے وہ برگد کے نیچے دھونی جما کر بیٹھا تھا-اور کیسے اس پر حقیقت کا کشف ہوا تھا-iاس وقت دادا اسے کوئی گورو لگے تھے جو نروان کے کے حصول میں اس کی مدد کر رہے تھے-دادا اس کو جب پہلی مرتبہ ہندوستان لے کر گئے اور اعظم گڑھ میں ان کی ہولی دکھائی تو نجانے کیوں اس کو لگا کے اس حویلی میں اس نے کوئی صدیاں گزاری ہوں گی-وہ محض دس سال کا تھا اس وقت لکن اس کو وہاں جاتے ایسے لگ رہا تھا کے وہ کوئی بچھڑی کونج ہے جو دوبارہ اپنے گھر آ پونچی ہے-کئی سالوں بعد جب دادا کو فوت ہوے دس سال گزر گئے تھے اس کو خیال آیا تھا کے ہجرتوں کے زخم کیوں نہیں بھر پاتے-کیوں ایسا ہوتا ہے کے آدمی کے کی وطن ہو جاتے ہیں اور سب سے اس کو پیر ہو جاتا ہے-وہ کراچی،اعظم گڑھ ،ماسکو کو بیک وقت یاد رکھتا تھا-تینو شہروں میں سے دو شہروں میں اس کی زندگی کے ماہ و سال گزرے تھے جب کے تیسرا شہر وہ تھا جہاں اس کے باپ دادا کی قبریں تھیں -اس کے قبیلے نے دو سو سال زندگی کے وہاں بسر کے تھے-اس کے جد امجد عرب سے اے تھے -ایک مرتبہ جب وہ ہیٹی کی کتاب عرب پڑھ رہا تھا تو اس کو یوں لگا جیسے اس نے اپنے جیون کا ایک حصہ وہاں بھی گزارہ تھا-اس کے ذہن میں کتنی دنیا آباد تھیں یہ بس ووہی جانتا تھا-اس کو نجانے کیوں سندھ کا سچل ،سرائیکی کا فرید ،پنجابی کا شاہ حسین،بلوچی کا سموں اور پشتو کا رحمان بابا اپنے اپنے لگتے تھے-یہ جو انس اور کشش تھی اس کو کیا نام وہ دیتا بس دل کے آنگن میں سب کو

سماے ہوے تھا -ایک مرتبہ جب وہ افغانستان گیا تو کابل میں ایک گلوکار کو اس نے فارسی کی غزل گاتے سنا تو اسے لگا کے گویا یہ بھی میرے دل میں ہے-

وہ ایک مرتبہ ملتان النگ پر بیٹھا تھا -ایک عورت آ ئی اس کی آنکھوں میں کوئی سحر تھا-لمبا قد تھا -اس کی سیاہ رنگت اس کو بدصورت نہیں بنا رہی تھی بلکہ یہ سیاہ حسن اس کے وقار میں اضافہ کر رہا تھا-عجیب عورت تھی وہ-اس کے ہاتھ کلائی تک چوڑیوں سے بھرے تھے-ناک میں ایک بڑا سا کوکا تھا جو اس کے کتابی چہرے پر بہت سج رہا تھا-آنکھوں میں کاجل کے ڈورے تیر رہے تھے-جھیل ساگر تھیں گویا وہ آنکھیں-فسوں پھونکتی تھیں جس پر پڑ جاتی تھیں-لکن عجیب بات تھی وہ پیروں سے ننگی تھی-بڑے بڑے پیر تھے جو اس کے لمبے قد کی وجہ سے بڑے نہ لگتے تھے-یہ کوئی جل پری تھی جی جل ساگر سے نکل کر آئی تھی-اس نے اس سے سوال کیا شاہ جی "میرے لئے دعا کرو کہ میں اپنی تمنا کو پالوں-وہ تو اس عورت کے سحر میں گم تھا-اس کو یوں لگ رہا تھا یہ کوئی اپسرا ہے جو آسمان سے اتری ہے-اس نے ہندوستان کی تاریخ میں آریہ ورش کے دور سے قبل ڈراویرد لوگوں کے بارے میںپڑھا تھا تو اسے یہ عورت اسی قبیل کی کوئی بچی نشانی لگی تھی-اس نے عورت سے پوچھا کہ اس کا کیا نام ہے-تو وہ کہنے لگی دھانو -یہ نام سن کر اسے لگا کے دور کہیں مندر میں گھنٹیاں بج اٹھیں ہوں-اور مندر کی دسیوں نے رقص شروع کر دیا ہو -دھانو تو وہاں سے چلی گی لکین وہ کئی روز تک دھانو دھانو کی مدھر سی موسیقی سنتا رہا اور اسے لگا کہیں ہے جو اس کو اپنی طرف بلاتا ہے-خواب اور طلسم تو اس کی زندگی کا گویا حصہ بن گئے تھے-بیٹھے بیٹھے ایک اپنی پسند کی دنیا کی وہ بنت کر لیتا -پھر کافی کافی دیر اس دنیا کا ایک فعال کردار بن کر رہتا -اس کو پرانی عمارتوں ،کھنڈرات ،ویرانوں میں مٹی ہوئی بستیاں جیتی جاگتی لگتی تھیں-اچانک اس کے سامنے کھنڈرات پھر سے آباد ہو جاتے اور کی صدیوں سے ویرانوں میں ہوئی ویرانی میں آبادی کا ہنگم ہو جاتا -وہ سوچ میں پڑ جاتا کہ اس کی یہ امیجری اس کو کہاں لیجانا چاہتی ہے- اس کو کبھی کسی کتاب کے اندر لکھ لفظوں میں پوشیدہ کردار زندہ نظر آنے لگتے تھے-پھر وہ بھی کوئی کردار بن جاتا-ایتھنز کی ایک گلی کے نکڑ پر ایک مرتبہ وہ ماضی میں چلا گیا تھا اور اس نے سقراط کو مکالمہ کرتے دیکھا تھا-عجیب ہیت کا انسان لکین بہت خوبصورت وچار تھے اس کے-یہ تو اس کی دوست اس کا کندھا نہ ہلاتی تو وہ شاید کافی دیر تک اس دونیہ سے واپس نہ آتا-

پراگندہ طبع لوگ (six)

پراگندہ طبع لوگ ہما علی کے ساتھ میری دوستی چلنے کیا بھاگنے لگی تھی-ہما ویسے تو بہت خوش مزاج لڑکی تھی-لیکن جب علمی بحث کا میدان آتا تو بہت سنجیدگی سے وہ بات کرتی تھی-مجھے اس نے اپنے ذہنی ارتقا کی کہانی بھی سنائی تھی-اس نی مجھے بتایا تھا کہ ایک مرتبہ اس نی اپنے دادا کے کتب خانے میں سے رسل کی ایک کتاب "فلسفہ کا پیش لفظ" پڑھی تو اس کتاب نے اس کو شک کرنا سکھایا-ہما جب یہ بات کر رہی تھی تو مجھے یاد آگیا تھا کہ تشکیک ایک ایسا مظہر ہوتا ہے جو کسی بھی سماج میں ترقی کی راہیں ہموار کر سکتا ہے-کتنی عجیب بات ہے کہ ہر مذھب کے پنڈت یہ درس دیتے اے ہیں کہ کسی سماج کا زوال اس سماج میں تشکیک سے پیدا ہوتا ہے -جب کہ فلسفہ کے رہگزار کہتے ہیں کہ زوال اس سماج کا مقدر ہوتا ہے جو شک کرنے اور سوال اٹھانے کو جرم قرار دے دیتا ہے- ہما علی اور میں ایک لڑکیوں کے مذہبی مدرسے کی ایک معلمہ سے ملے تھے-جو کہ پرانی منطق اور مسلم فلسفہ پر بہت عبور رکھتی تھیں-ان کا نام زاہدہ تھا-اصل میں میں اندلسی صوفی ،فلسفی،شاعر شیخ ابن عربی کے فلسفہ وحدت الوجود پر کام کر رہا تھا -میرا ٹاپک تھا "شیخ ابن عربی کے فلسفہ وحدت الوجود کی سماجی جہات "اس سلسے میں ہما اور میں نے عربی مدرسوں کی خاک چھانی-ان مدارس میں دورے کے دووران فلسفہ،منطق،حکمت کا درس دینے والے بہت کم ملے-جو ملے وہ ان مدراس کے طلبہ اور مدرسین کی نظر میں رہ راست سے ہٹ چکے تھے-زاہدہ بہت کمال کی خاتون تھیں-ان کا گھر اس مدرسے کی اندر تھا-ان کے شوہر اسلامیات میں پی ایچ دی تھے-بہت روشن خیال تھے-زاہدہ نے مجھے اور ہما کو اس قدیم خزانے کی سیر کرائی جو عرصہ دراز سے مدرسوں میں پڑھایا نہیں جا رہا تھا- میں نے ٹھیک طرح سے مسلم تہذیب کی ضو فشانیاں آٹھویں صدی میں پہلی مرتبہ یا تو ہما کی والدہ کی مدد سے دیکھیں تھیں یا پھر یہاں-زاہدہ نے تو ایک طرح سے ان کتابوں کو ٹائم مشین بنا ڈالا جس کے زریعے ہم نے ماضی کا سفر کیا آٹھویں صدی کا بغداد کیا شہر تھا-اس شہر میں اتنا ثقافتی تنوع تھا کہ آپ جتنا تصور کریں کم ہوگا-کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ اس شہر کے چوک میں کوئی ملحد کھڑا ہوکر خدا کے وجود پر بحث کرے گا-کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ١٦ سال کا ابو حنیفہ کوفہ کے ایک چوک میں ایک ملحدفلسفی سے بات چیت کر رہے ہوں گے اور ان کو سننے والے تحمل،برداشت کے ساتھ سن رہے ہوں گے-کیا کسی کو خبر ہے کہ ایک نابینا شاعر آخرت بارے یا دنیا کے فنا ہونے بارے کسقدر بیباکی سے شعر لکھتا تھا-کبھی وقت ملے تو ابن الراوندی کو پڑھنے کی کوشش کرنا-آپ کو حیرت ہوگی کہ یہ لوگ کیسے کوفہ،بغداد ،دمشق،اندلس میں نہ صرف زندہ تھے بلکہ اس شہر کی علمی اور ثقافتی زندگی کی جان بھی تھے-ان میں سے کسی کے ساتھ وہ نہیں ہوا جو سلمان تاثیر کے ساتھ ہوا تھا یا پھر ایک مسیح ملک شہباز بھٹی کے ساتھ ہوا تھا ایک شامی مسیح لکھاری بنو امیہ کے دور میں فلسفہ اور علم کلام کی سریانی،عبرانی میں لکھی کتب کے تراجم کرتا تھا اس کو سماج میں علم حکمت اور فلسفہ میں اتھارٹی خیال کیا جاتا تھا-کسی نے اس کے مذھب بارے نہیں پوچھا-اس زمانے میں جب عرب و عجم میں مسلم تہذیب کا طوطی بول رہا تھا تو ایک بات حقیقت تھی کہ کے فکری آزادی پر کوئی قدغن نہیں تھی-یعنی تہذیب کی ترقی اور آزاد خیالی کے آپس میں گہرے رشتے موجود تھے-تہذیب کی ترقی کا سفر بھی رک سا گیا جب آزاد خیالی کو پابند سلاسل کرنے کی کوشش ہوئی زاہدہ نے ایک مرتبہ مجھے فروعات فقیہ کی ایک کتاب دکھلائی جس میں ابو حنیفہ کا یہ قول لکھا تھا کہ "یقین شک سے زائل نہیں ہوتا-پھر ابو حنیفہ کا ہی قول تھا جو شک کرنا نہیں نہیں جانتا -وہ یقین کرنا بھی نہیں جانتا- ایک مرتبہ کسی نے ابو حنیفہ سے کہ کہ وضو نصف ایمان ہے-ابو حنیفہ فورا بولے کہ پھر ٹھیک ہے صاحب تم دو دفعہ وضو کرڈالو تمہارا ایمان تو مکمل ہو گیا-یہ ابو حنیفہ کہتے تھے کہ فارسی میں اگر کوئی نماز پڑھنا چاہے تو نماز پڑھ سکتا ہے-عقلیت پسندی کی بہت سی مثالیں ان کتب میں موجود تھیں- ہما نے ایک مرتبہ سپنوزا کے فلسفہ میں انجیل کی اخلاقیات سے فلسفہ کہ حقایق کو ملانے کا ذکر کرتے ہوے انسان،کاینات اور خدا کی تثلیث کو ایک مظہر کی تجلیاں قرار دینے کی طرف توجہ دلائی تھی-میں حیران رہ گیا کہ کس طرح شیخ ابن عربی سپونوزا سے بہت پہلے یہ کام قران اور فلسفہ کے ساتھ کرچکے تھے -وہ سپنوزا سے بڑے فلسفہ کے مالک تھے- میں ایران میں علمی صورتحال پر ایک کتاب وہاں کے عظیم دانشور عبدالکریم سروش پر لکھ رہا تھا -اس دورران سروش سے جب میری بات ہوئی تو سروش نے مجھے بتلایا کہ اب مغرب میں رومی اور ابن عربی کے کام کو دریافت کیا جارہا ہے-

پراگندہ طبع لوگ (5th part)

پراگندہ طبع لوگ (5th part)

میں نے ان سے ہی پہلی مرتبہ حماسہ دیوان میں عرب کے معروف شاعروں کا کلام سنا تھا--اور پھر ان سے سے ہی بنو عباس کے دور میں بغداد شہر سے اٹھنے والی آزاد خیالی کی تحریک اور اس کے نتیجے میں آزاد خیال کلچر کی نمود بارے سنا تھا-آج میں حیرانی سے سوچتا ہوں کہ بغداد میں بہت سے ایسے دانش ور موجود تھے جو علانیہ ملحد تھے-ان کی شاعری اور ان کی نثر آج بھی اس بات کی گواہی دیتی ہے-اسی طرح بہت سے غیر مسلم فلسی موجود تھے جو آزاد خیالی میں مشہور تھے-ہمارے یاں ایک دانش ور محمد کاظم صاحب ہیں جو ان دنو عربی ادب اور شعر پر احمد ندیم قاسمی مرحوم کے رسالے فنون میں مضامین لکھ رہے تھے -انھوں نے اس حوالے سے ایک مصری عالم دیں کا مضمون ترجمہ کیا تھا-جوشاید فسساد خلق کے ڈر سے مختصر تھا-یہ مضمون جب ہما کی والدہ نے پڑھا تو انھوں نے ایک تفصیلی مضمون قاسمی صاحب کو ارسال کیا جس کو چھاپنے سے انھوں نے معزرت کر لی-

ہما علی فلسفہ کی طرف اپنی لگن اور جستجو کے سبب سے آیی تھی-میں اس طرف حادثاتی طور پر آیا تھا-ہوا یوں کہ میں ایف ایس سی کے بعد بی ایس سی سے جان چھڑانا چاہتا تھا-تو میں نے بی اے (آنرز )میں داخلہ لے لیا تھا آسان سمجھ کر نفسیات اور فلسفہ جیسے مضمون رکھ لئے تھے-کیا معلوم تھا کہ آسمان سے گریں گے اور کجھور میں اٹک جاییں گے -بحرحال فلسفہ کے بارے میں اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ چھٹتی نہیں ہے یہ کافر منہ کو لگی ہوئی-ہمارے یہاں فلفہ کے نام پر عموما تطبیق اور تکلیم کا کام ہوتا رہا ہے-اگر پاکستان میں فلسفہ کے علم کا ارتقا دیکھنا ہے تو صاف نذر اے گا کے ہم نی گزشتہ ٦٦ سالوں میں انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر آزادانہ فلسفہ کی تشکیل کی کوشش نہیں کی-

ہمارے پاس کوئی فلسفی موجود نہیں ہے-علم کلام کے ماہر تو ہم نے بہت پیدا کے لکین آزاد اور مربوط فلسفہ تشکیل دینے والے فلسفی پیدا نہیں کر سکے-اصل میں مذھب کا تحکم ہم پر ہمیشہ سے رہا اور اسی لئے ہم نے مذھب اور فلسفہ کو الگ الگ رکھ کر دیکھنے کی کوئی کوشش نہیں کی-فلسفیانہ تفکر کے آ ڑے ہمیشہ اندھا اعتقاد آتا رہا ہے-

ویسے لہور اور کراچی میں اکثر جو نامور استازه تھے ان کی کوشش ایک نیا علم کلام تشکیل دینے کی رہی-ایم ایم شریف سے لیکر خلیفہ حکیم تک اور استازی ڈاکٹر منظور احمد سے لیکر قاضی جاوید تک سب درمیانی راہ کی تلاش میں تھے-جو آزاد خیال تھے اور اندھے یقین سے آگے کی طرف جانا چاہتے تھے وہ اس سماج کے جبر کے آگے لاچار نظر آتے تھے-

پراگندہ طبع لوگ(४थ पार्ट)

پراگندہ طبع لوگ

جب میں نے اس تحریر کو لکھنا شروع کیا تھا تو مجھے اندازہ نہیں تھا کہ بات اس قدر پھیل جائے گی اور میں ایک طرح حسے یاد گار زمانہ ہیں ہم لوگ جیسی کوئی داستان لکھنے کی طرف آ جاؤں گا-قبانی کا تذکرہ کرتے ہوے جابجا ہما علی کا تذکرہ آیا تو یادوں کا ایک سیلاب بھی ساتھ ساتھ چلا آیا-میں نے بہت دفعہ ہما علی کی یادیں لکھنے کا اردہ باندھا لکین بیچ میں ہی کمر ٹوٹ گئی-دو دن سوچتا رہا لکھوں یا نہ لکھوں -پھر ایک دوسدت نی اصرار کیا کہ پراگندہ طبع لوگ میں ایک نوٹ ہما علی پر بھی لکھا جانا ضروری ہے-میں نے پہلے چار نوٹس اپنے ایک دوست کو بھیجے تو اس نی بھی اصرار کیا ہما پر ضرور نوٹ لکھو-میں بری مشکل سے یہ سطریں لکھ رہا ہوں-میری ڈائری کے ایک تہائی صفحے اس کے یادوں سے بھرے ہوے ہیں-میں اس نوٹ کے پڑھنے والوں کو صاف صاف بتا دوں کے ہما ور میں دو دوست تھے بس اس کے علاوہ ہمارے درمیان کوئی رشتہ نہیں تھا-دوستی آدمی کا اپنا انتخاب ہوتی ہے جبکہ محبت اور عشق اس کا اپنا انتخاب نہیں ہوتے-ہما علی سے میری دوستی فلسفی ڈیپارٹمنٹ کراچی میں ہوئی تھی -جو کہ ظاہری طور پر اس کی جسمانی موت تک قائم رہی لکین وہ اب بھی قائم و دائم ہے-

یہ سردیوں کی ایک روشن صبح تھی-فلسفہ ڈیپارٹمنٹ میں ہمارا پہلا دن تھا- سعید عالم ایک ایک سے اس کا تعارف پوچھ رہے تھے-تیسرے درمیان والے ڈیسک پر ایک دھان پان سی لڑکی جینز کی پینٹ اور لمبی سی قیمض میں کھلے بالوں کے ساتھ سب سے الگ تھلگ نظر آ رہی تھی-اس کی باری آیی تو اس نےخاصا مزاحیہ انداز اختیار کیا-بظاہر ایسا لگتا تھا جیسے وہ بس وقت پاس کرنے آیی ہے-تعارف کے بعد استاد نے باری باری سب سے ان کے پسندیدہ فلسفی کا نام پوچھا تو اس لڑکی جس نی اپنا نام ہما علی بتایا تھا کہ اسے سپنوزا پسندہ ہے-سر کی عادت تھی جب ان کو کسی بات پر شک ہوتا یا وہ کسی کا امتحان لینا چاہتے تھے تو ان کے ہونٹوں پر مسکان کھل اٹھتی تھی-انھوں نے بری معصومیت سے ہما علی کو سپنوزا کے بارے میں کچھ بتانے کو کہا تو اچانک وہ شوخ و ترنگ میں ڈوبی نظر آنے والی لڑکی سنجیدہ ہو گی -اس نی اپنی گفتگو سے ایسا سماں باندھا کے ساری کلاس پر سکتہ چھا گیا -





سر بھی کافی دیر کی خاموشی کے بعد بولے اور کہنے لگے کہ دلی میں جب بھی کوئی شاعر مشاعرہ میں ایسے شعر کہتا جس کے بعد کوئی اور چیز سننے کی ضرورت نہ رہتی تو شمع گل کر دی جاتی اور نشست برخاست -تو اب سپنوزا پر اتنی خوبصورت تقریر کے بعد کلاس جاری رکھنا مزہ خراب کرنے کے مترادف ہوگی-اس طرح سے یہ پہلا تعارف تھا جو ہما سے ہوا-اب میں جب یاد کرتا ہوں کہ ہماری باقاعدہ دوستی کا آغاز کب ہوا تو مجھے یاد آتا ہے کہ یہ یونانی میتھالوجی پر اسباق چل رہے تھے تو ہما مجھ سے اس حوالے سے ڈسکس کرتی تھی-ایک مرتبہ ہم گراسی لان میں بیٹھے تھے تو گفتگو پہلی مرتبہ سبق سے ہٹ کر ایک دوسرے کے بارے میں جاننے پر چلی گئی-یہ ہماری دوستی کا باقاعدہ آغاز تھا-

ہما علی سندھی بخاری سید گھرانے سے تعلق رکھتی تھی-اس کے والد آکسفورڈ سے پڑھے تھے-وکالت کرتے تھے-جبکہ والدہ ڈاکٹر تھیں-اس کے تین بھائی منتظر،معصوم رضا ،مطاہر تھے جو امریکہ میں ہوتے تھے-ہما علی سندھی سوسایٹی میں ایک بہت پرانے سے بنگلے میں رہتی تھی-ان کا گاؤں لاڑکانہ میں تھا-بڑی سیکولر اور لبرل فیملی تھی-میں ایک مرتبہ ان کے گاؤں گیا تھا-تو گاؤں میں خاصے کٹر مذہبی رجحانات کے لوگ تھے-ہما نے مجھے ہنستے ہوے بتایا تھا کہ اس کے والد کو یہاں کافر سید کہا جاتا ہے-دراصل ہما علی کے دادا نے سب سے پہلے یہاں سے انگریزی تعلیم کی طرف قدم بڑھایا تھا-وہ سر سید کے علی گڑھ کالج گئے تو گاؤں میں مشہور ہو گیا بندے علی کا بیٹا کرسٹان ہوپ گیا -پھر یوں ہوا کہ ہما کے دادا نی تھری پیس سوٹ پہننا شروع کر دیا پھر تو کافر سید کے نام سے مشہور ہو گئے-ان کے والد نہ تو پیر بنے ،نہ ہی انہونے وہاں قایم دربار کو سنبھالا -وہ بھی کافر سید کے نام سے جانے جانے لگے-ہما کی والدہ بھی بہت نائس خاتون تھیں-ان کو ادب اور تاریخ سے بہت شغف تھا-میرے ساتھ ان کی خوب چھنتی تھی-وہ قدیم عربی ادبی تاریخ پر بہت عبور رکھتی تھیں-میں آج بھی ان کا شکر گزار ہوں کہ ان کے وجہ سے میں عربوں کے اندر روشن خیال اور خرد افروز تحریک سے واقف ہوا-بہت بعد میں جب میں عابد الجابری کی عرب ذہن پر تنقید پڑھی تو مجھے وہ بہت یاد آییں-

پراگندہ طبع لوگ (تیسرا حصہ

پراگندہ طبع لوگ (تیسرا حصہ

قبانی نے ایک نظم لکھی "ایک جھلی عورت کا خط "کیا کمال کی نظم تھی-قدامت پرستوں اور نام نہاد عورت کی آزادی کے علمبردار مردوں پر گہرا طنز -میری ڈائری میں اس کا اردو ترجمہ لکھا ہے -میں اس کو درج کرتا ہوں-


ایک جھلی عورت کا خط

میرے پیارے آقا ،

یہ خط ایک جھلی عورت نکی طرف سے ہے-

کیا تم کو لکھنے والی عورت جھلی ہے؟

میرا نام؟

آقا ناموں میں کیا رکھا ہے؟

رائنا ہو کہ زینب ،

ہند ہو کہ حیفہ ،

نام وام کو ایک طرف رکھو

دنیا میں یہ نام تو ہیں جو ہمرے پاس سب سے احمقانہ شے ہوتے ہیں-

٢

میرے آقا

میں اپنے خیالات تم پر ظاہر کرنے سے ڈرتی ہوں

مجھے لگتا ہے -اگر میرے خیالات کھلے تو ،

تمہاری جنت ان سے جل کر راکھ ہو جائے گی-

میرے آقا

تمہارا

مشرق

محبت کے نیل گوں خطوط ضبط کر لیتا ہے-

عورتوں کے سینے میں چھپے خوابوں کے خزانے لوٹ لیتا ہے-

عورتوں کے جذبات پر یہ اپنے جبر کی مشق کرتا ہے-

یہ چا قو استمعال کرتا ہے

کہیں بھالے اٹھا لاتا ہے-

بہار اور جذبات کے لئے

عورتوں کے بات کرنے پر

یہ قصائی بن کر آتا ہے-

ان کی سیاہ گندھی چوٹیوں کو کاٹنے کے درپے ہوتا ہے-

مرے آقا

تمہارا مسرق

اپنے دلکش تاج

عورتوں کی کھوپڑیوں سے بناتا ہے-

٣

میرے آقا

مجھ پر برافروختہ مت ہوں،

اگر میرا خط شکستہ ہے-

میں تو اس کو یوں لکھتی ہوں

کے دروازے کے پیچھے جلاد تلوار بدست کھڑا ہے-

اور میرے کمرے کے باہر

صر صر چلتی ہے-

کتے بھونکتے ہیں -

میرے آقا

انٹر ال عبیس میرے کمرے کے باہر کھڑا ہے-

وہ مجھ کو ذبح کر ڈالے

اگر اس خط کو پالے

وہ میرے صر کو تن سے جدا کر دے

اگر میں خود پر ہونے والے ظلم بیان کر دوں-

وہ مجھ کو ذبح کر دے

اگر میرے لباس کی باریکی دیکھ لے -

میرے آقا

تمہارے مشرق نے عورتوں کو

نیزوں سے گھیر رکھا ہے

میرے آقا

تمہارا مسرق

مردوں کو پیغمبر منتخب کرتا ہے-

اور

عورتوں کو مٹی میں گاڑ دیتا ہے-

٤

پراگندہ طبع لوگ (دوسرا حصہ )

میری ڈائری کے ریک ورق پپر لکھا ہے

"وصال دمشق کی وہ بیٹی تھی جس کی ٹریجڈی ہیر رانجھا ،لیلیٰ مجنوں سے زیادہ بڑی تھی-یہ کیسا سماج ہے جس میں کوئی فرد اپنی پسند سے اپنے جیوں ساتھ کا انتخاب بھی نہیں کرسکتا-وہ کس قدر تکلیف دہ لمحہ ہوتا ہے جب کوئی انسان اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی ختم کرنے کا فیصلہ کرتا ہے-پھر یہ فیصلہ کوئی نوجوان کرے تو اور زیادہ مشکل ہوتا ہے-ویسے بھی ہمارے سماج میں نوجنوں کو آزادی کے ساتھ فیصلوں کا یکتھیار کب ملتا ہے-اگے-age ازم ایک ایسا مظہر ہے جس پر ہمارے یہاں کبھی بات نہیں ہوتی-یہ جو عمر کا بڑا پن ہے ہے اس کو حکمت،دانائی.عقلمندی اور فیصلوں پر پورے اختیار کے ساتھ نتھی کر دیا جاتا ہے-"

قبانی بغداد یو نیورسٹی میں ایک دفعہ مہمان بن کر گئے تو وہاں ان کی ملاقات بلقیس سے ہوئی جو کہ ایک سچول میں ٹیچر تھیں-دونوں شاید پہلی ملاقات میں ہی ایک دوسرے کو دل دے بیٹھے تھے -کراچی یونی ورسٹی کے شعبہ فلسفہ کی عمارت کے کوری ڈور میں ایک لڑکا اور لڑکی دنیا و مافیا سے بےپرواہ ،اپنے آپ میں گم رہتے ہتھے میں ان کا انہماک دیکھتا تو مجھے قبانی اور بلقیس کا بغداد یونی ورسٹی میں ملنا یاد آتا تھا-میں بڑے گیں سے بڑے دھیان سے اس جوڑے کو دیکھتا اور کھو جاتا تھا- میری ڈائری میں ایک جگا لکھا ہے -

"آج پھر اپنے ڈیپارٹمنٹ میں اس جوڑے کو محبت کے سمندر میں غرق دیکھا کھو گیا اور پھر سے الف لیلیٰ کے شہر بغداد جا پہنچا -پھر سے کئی خواب دل نادان نے بن ڈالے -بہت ہی حسین منظر تھے جن میں گم تھا کے کہیں سے اچانک سپنوزا کی دیوانی،اس ملحد صوفی سے عشق کی حد تک لگاؤ رکھنے والی ہم علی ان دھمکی-میرے گیاں،دھیان کو توڑڈالا-میری عبادت میں خلل دل دیا-بڑی الجھن کے ساتھ پوچھا یار کہاں گم ہو جاتے ہو؟میں اسے کیا بتاتا؟"

اسی طرح ایک اور ورق پہ لکھا ہے -

"آج دل کچھ اداس تھا-میں نے ہم کو کہ کے کافی پینے ایرانی ریستوران میں چلتے ہیں-یہ کراچی صدر کا ریستوران مجھے اور ہمہ کو اپنی کافی کی وجہ سے بہت پسند ہے-آج موسم بھی کچھ ابر آلود تھا-اس موسم میں نجانے کیوں اداسی مجھ پر حملہ اور ہوجاتی ہے-میں اور ہم کیفے میں بیٹھے کافی سپ کر رہے تھے کہ میں بیٹھے بیٹھے کھو گیا اور میں سینٹرل لندن کی اس کففی شاپ میں جا پہنچا جہاں ایک شام قبانی نے اپنی نظم گیدڑوں کی بارات سنی تھی-میں نے خود کو اس نظم کی قرات سنتے دیکھا اور کسی مصرعہ پر بآواز بلند داد دی تو ہم نے کہ یار پاگل ہو گئے ہو کیا؟میں خاموش ہو گیا-ہمہ واپسی پر سارے راستے مجھ سے پوچھتی رہی میں اس کی مزاحیہ طبیعت سے واقف تھا اس نے مجھے چٹکیوں پر رکھ لینا تھا-"

پراگندہ طبع لوگ(१)

پراگندہ طبع لوگ

عامر حسینی

گرمیوں کی ایک شام تھی-میں لڑکپن کی سرحدوں کو بس پار کرنے والا تھا-ایک کتاب نے میرے دل و دماغ کی دنیا بدل ڈالی-یہ کتاب مجھے میرے ماموں کی لابریری سے ملی تھی-حیدر آباد شہر تھا-ایک اونچی پہاڑی پر آباد یہ دشهر مجھے بہت پسند رہا ہے-یہاں کی شام بہت سوہنی ہوتی ہے-جب سمندر کی ٹھنڈی ہوا آپ کا استقبال کرتی تھی تو گرمی کی سری کسل مندی دور ہوجاتی تھی-اس شہر میں ایک خوبصورت علاقہ ہیرا آباد تھا جہاں میرے ماموں رہا کرتے تھے-اس گھر کا سب سے پرسکون گوشہ ان کی لابریری تھی-یہیں اس دیں میں نے اس نئی چھپی کتاب کا مطالعہ شروع کیا تھا-کتاب کا متن عربی میں تھا-ساتھ ینفگلش میں ترجمہ تھا-یہ ایراب کے جدید شاعروں کے کلام کا انتخاب تھا-میں نے اس کتاب میں ایک شاعر نزار توفیق قبانی کی شاعری پڑھی تو یہ میرے ذہن پر نقش ہو کر رہ گئی-

مجھے آج بھی یاد ہے کے قبانی کی پہلی جو چیز میں نے پڑھی تھی وہ قبانی کا مرثیہ تھا جو اس نے اپنی بیوی کی یاد میں لکھا تھا-قبانی ور بلقیس کی کہانی کو میں نے خود سے تشکیل دیا ور کی منظر میں نے تشکیل دے تھے-غم و اندوہ سے بھرا قبانی کا چہرہ -کہیں ایک معصوم پر پیکر بلقیس-میری ایک استانی تھیں -ان کا چہرہ اکثر اداس ور آنکھیں ملول رہتی تھیں-میں کلاس میں جب بھی ان کو کرسی پر چھپ بیٹھے دیکھتا تھا تو مجھے قبانی کی محبوبہ بیوی بلقیس یاد آ جاتی تھی-ایک بار ورڈز ورتھ کو پڑھتے ہوے میں نے ان سے بلقیس کا ذکر چھیڑا تو نجانے مجھے کیوں لگا کہ میری استانی کی آنکھوں میں اداسی کے رنگ مزید گہرے ہو گئے تھے-

کبھی ایسا ہوتا کہ میں دمشق کے پرانے محلے میں بیٹھے بیٹھے پہنچ جاتا جہاں قبانی کا بچپن ور لڑکپن گزرا تھا-مجھے اپنا کالج دمشق کا کالج لگتا جہاں قبانی اپنی جوانی میں رومان سے بھری نظمیں لکھ رہا تھا-میں بلوغت کی شرہاد پر کھڑا تھا ور مرد و زن کے باہمی پرکشش تعلق کی کہانی کے کئی باب ورق در ورق مجھ پر کھولتا چلا جا رہا تھا-

دمسق ایک روایتی شہر تھا-قدامت پرستی سے لتھڑا ہوا-جہاں جمالیات کا گلا گھونٹ دیا گیا تھا-حسن ور عشق کی بات کرنا سنگین جرم تھا-قبانی کی اپنی بہن اس گھٹے گھٹے ماحول میں اپنی جان دے بیٹھی تھی-مجھے دمسق کی کہانی اپنے شہر کی کہانی لگتی تھی-ععورتوں پر نظم لکھنا قیامت تھا-قبانی مجھے اپنے یہاں کا کوئی باغی لگا تھا جس نے گھٹے گھٹے ماحول میں آزادانہ سانس لینے کی کوشش کر ڈالی تھی-

قبانی کی نظموں کی پہلی کتاب پر بہت شور مچا تھا- مولویوں کی ایک فوج اس کے پیچھے پڑ گئی تھی-میرے محلے کی مسجد کے ایک امام صاحب تھے-جن کی لاوڈ سپیکر میں آواز میرے کانوں کے پردے پھاڑے دیتی تھی وہ میرے ذہن میں آجاتے-میں محراب و منبر پر رگیں پھلا کر،منہ سے جھاگ نکلتے چہرے نذر آتے -میں قبانی کا چہرہ چشم تصور سے دیکھتا کہ اس کہ چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ ہے-وہ کندھے اچکا کر کہتا ہو

"جانے مری بلا "

قبانی نے یہ قدم کیوں اٹھایا تھا؟جوانی میں کیا یہ اس کے جوش جذبات کا نتیجہ تھا کہ ایک رومن بھری نظموں کی کتاب سامنے آ گی تھی-نہیں ایسا نہیں تھا-یہ اس کی بہن وصال کی خود کشی تھی جس نے اس کو باغی بنا دیا تھا-کتنا خوصورت نام ہے وصال -سارا ادب ،ساری شاعری اس لفظ کے گرد گھومتی ہے-یہ تمنا ہے ہر شاعر کی-یہ آرزو ہے ہر صوفی کی-یہ کلپنا ہے ہر جوگی سادھو کی-

وصال نے عین جوانی میں اس وقت خود کشی کر لی تھی جب اس کی شادی اس لڑکے کے ساتھ کرنے کی کوشش کی گئی جس سے وو پیار نہیں کرتی تھی-قبانی اپنی بہن سے بہت پیار کرتا تھا-اس کو بہت رنج تھا وصال کے جانے کا-وہ حیران تھا کیا اس طرح سے بھی ایک فرسودہ رسم کی بھینٹ اس کی بہن چڑھ سکتی تھی-

قبانی نے لکھا تھا

"اس کا جنازہ پڑھنے کے بعد جب میں اپنی بہن کا جوان جسم مٹی کی نذر کر رہا تھا تو میں نے عہد کیا تھا کے میں عرب سماج کو بدل کر رہوں گا-

ساجد رشید کا مرثیہ............افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی

ساجد رشید کا مرثیہ............افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی

عامر حسینی

ساجد رشید کو پاکستان کے ادبی حلقے تو خوب جانتے تھے-ادب کے کی قاری بھی ان سے واقف ہوں گے-لکین ساجد رشید کو پاکستان کا عام قاری اس طرح سے نہیں جانتا تھا جس طرح سے ساجد رشید کو ہندوستان اور اس کے صوبے مہاراشٹر کے لوگ جانتے تھے-ساجد رشید رشید جو کہ کہنہ مشق صحافی،ادیب ،مدیر تھے -وہ ایک عرصے تک روزنامہ صحافت کے مدیر بھی رہے -ممبئی کے ہسپتال میں ہارٹ سرجری کے ایک آپریشن کے دوران چل بسے-ان کی وفات پر پاکستان کے تمام ادیبوں نے خاموشی اختیار کر لی -کیونکہ ساجد رشید کا قلم ملا گردی کے خلاف خوب چلتا تھا-عجیب بات ہے کہ ساجد رشید مولویوں کے زیر عتاب تو تھا ہی اس کو بال ٹھاکرے کی شیو سینا کے عتاب کا بھی سامنا تھا-اس کے مرنے کے بعد پاکستان کے کسی ادیب میں اتنی ہمت نہیں ہوئی کے اس کی ادبی خدمات کا اطراف ہی کر لیا جاتا -تعزیتی ریفرینس تو دور کی بات ہے-ساجد رشید کے افسانوں کا ایک ہی مجموعہ ایک چھوٹا سا جہنم کے نام سےسامنے آیا تھا-ساجد کے یہ افسانے سماج پر گہرا طنز ہیں -

ساجد پاکستان آئےتھے تو ان سے ایک ملاقات ہوئی تھی-ان سی مل بہت خوشی ہوئی تھی-پاکستان میں اجمل کمال کو خدا سلامت رکھے انہی کا کام تھا کہ ساجد رشید کی کتاب اور ان کے رسالے "نیا ورق "کو وہ پبیچتے رہے-یہ اجمل کمال ہی تھے جنھوں نےہندوستان میں اردو،ہندی اور دیگر زبانوں میں شایع ہونے والے ادب کو یہاں پر متعارف کرایا-میری دو دن قبل رالف رسل کی خود نوشت کا ترجمہ کرنے والی ادیبہ اور جواہر لال نہرو یو نیورسٹی دہلی کے شعبہ اردو کی استاد ارجمند آرا سے بات ہو رہی تھی -وہ بھی اجمل کمال کی تعریف کر رہی تھیں کہ ان کی وجہ سے -پاکستان میں اردو قاری کو ان کا پتا چلا ہے-ساجد رشید کا نیا ورق میں کی سالوں سے پڑھ رہا تھا-یہ وہ رسالہ تھا جس کا مجھے انتظار رہتا تھا-ساجد رشید اس رسالے کے آغاز میں جو اداریہ لکھتے تھے وہ بہت کمال کی چیز ہوا کرتا تھا-ہندوستانی سماج سے مجھے ساجد رشید نے واقف کرایا -ساجد رشید لیفٹ نظریات کے حامی تھے لکین ان کی تنقید سے کیمونسٹ پارٹی بھی نہیں بچ پاتی تھی-نندی گرام میں بنگال کی کیمونسٹ پارٹی نے غریب کسانوں کو جس طرح سے مارا اور ان کو بیدخل کرنے کی کوشش کی اس پر ساجد رشید کا قلم نہیں رکا-مجھے ان کا باقر مہدی پر لکھا مضمون نہیں بھول سکتا جس میں انہونے کیمونسٹ اشرافیہ پر بیباک تنقید کی تھی-انھوں نے بال ٹھاکرے کے خلاف اس وقت کھل کر لکھا جب مہاراشٹر میں کوئی بال ٹھاکرے کے خلاف لکھنے کی ہمت نہیں کرتا تھا-بال ٹھاکرے نے ان پر کی حملے کروائے-لکینانھوں نے ہمت نہ ہاری-ساجد رشید نے اس وقت بھی سچائی کا ساتھ دیا جب گیاں چند کی کتاب ایک بھاشا دو لکھاوت پر ان کے کے ہندو ہونے کی وجہ سے مذمت کی جا رہی تھی-ساجد رشید نے بہت صاف صاف لکھا کہ ہندی کے حقوق ہندوں کو دینے اور اردو کے حقوق مسلمانوں کو دینے کی بات سراسر غلط ہے-وہ کسی بھی رسم الخط کو مقدس گائےبنانے کے بھی سخت مخالف تھے-جب ارون دھتیرائےکے خلاف طوفان بد تمیزی کھڑا ہوا تو ساجد رشید نے کھل کر ارون کی حمایت کی-ساجد ایف ایم حسین کی حمایت میں بھی آگے آئے -انھوں نے ایف ایم حسین کی پینٹگ جو متنازعہ بنی تھی اپنے رسالے کے سرورق پر چھاپ دی--ان کے بارے میں کئی مضامین لکھے--

ساجد نے ایک مرتبہ الیکشن بھی لڑا تھا-وہ بہت تھوڑے ووٹوں سے ہارے تھے-مہاراشٹر میں اور ممبئی میں ان کے چاہنے والے بہت تھے-انھوں نے جاوید اختر ،شبانہ اعظمی کے ساتھ مل کر سیکولر ڈیموکرسی نام کی مہم بھی چلائی تھی-وہ ساری زندگی رجعت پسندی،،جہالت،تعصب . ہٹ دھرمی کے خلاف لڑتے رہے-

پاکستان میں لبرل ادبی حلقوں کی مصلحت پسندی کا یہ حال ہو گیا ہے کہ اتنا بڑا ادیب دنیا سے چلا گیا لکین کسی نے ملا کے خوف سے افسوس تک کے پیغام میڈیا کو جاری نہیں کیے -ہوا کیا؟وہ جو سارادن اور ساری رات فیس بک پر گزارتے ہیں اور اپنی ادب پرستی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں وہ بھی خاموش بیٹھے ہیں-اس ملک میں سلمان تاثیر کا قتل ہوا تو قاتلکو پھولوں کے ہار پہنائے گئے-سلمان تاثیر کو شہید کہنے میں سب کی جان نکلنے لگی تھی-آج ساجد رشید کا کوئی پرسہ دینے کو تیار نہیں ہے-پاکستان میں ادیبوں اور اہل قلم کی یہ خاموشی مجرمانہ ہے-اس نازی-ازم کا مقابلہ کرنے سے ڈرنا بھی ایک جرم ہے-آج کی ترقی پسندی کیا ہے اس کا تعین کرنا بھی بہت ضروری یہ سوال ساجد رشید اپنی زندگی میں اٹھاتے رہے-وہ سچ کا ساتھ دیتے تھے -اس رہ میں کسی کی پرواہ نہیں کرتے تھے-مجھے ایک مرتبہ ملتان کے ادیب شاکر حسین شاکر ،رضی،لاہور کے کہنہ مشق صحافی دانش ور وجاہت مسعود وغیرہ کہنے لگے کہ میں بہت سختی سے خوفناک سچ لکھنے لگا ہوں -مجھے احتیاط سے کام لینا چاہے -ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آج کل خطرناک سچ کوئی بھی بولے لوگ اس سچ کو قبول نہیں کرتے -بولنے والا سولی پر چڑھ جائے تو سولی چڑھ جانے والے کو برا بھلا کہا جاتا ہے-سولی دینے والے کو کچھ نہیں کہ جاتا-یہ ساری باتیں اپنی جگہ ٹھیک ہیں-لکین کیا اس طرح خاموش ہو کررہجانا ٹھیک ہے-پاکستان کے بال ٹھاکروں سے در کر لکھنا بند کردیں؟

ا



ساجد رشید کی زندگی گواہی دیتی ہے کہ سچ کو پورا لکھنا اور وقت پر لکھنا بال ٹھاکروں کی مورت ہوا کرتا ہے-ساجد کے نزدیک عقیدہ پرستی رائٹ ونگ کی ہو یا لیفٹ ونگ کی بری ہوتی ہے-

مجھے بہت دیر سے ساجد رشید کی وفات کا پتا چلا-میں کل کتاب نگر شاکر صاحب کی دوکان پر گیا تھا وہاں انھوں نے مجھے ساجد کے انتقال کی خبر دی-وہ بھی دل آزردہ تھے کہ کسی چینل یا اخبار نے ان کے مرنے کی خبر تک نشر نہ کی-جب کہ بھارتی میڈیا نے تو ان کی بیماری سے لیکر مرنے تک کی خبر نشر کی-ہندوستان میں کئی پرچوں میں ساجد پر مضمون لکھے جانے کا سلسہ جاری ہے-میں نے شاکر سے کہا کہ مل کر ساجد کی یاد میں کوئی ریفرنس کرتے ہیں تو شاکر نے کہا کہ عامر مجھے کوئی عتراض نہیں ہے لکین ذرا خیال کرو کہ میں تازی کر کے کھاتا ہوں -ہمارے سب دوست ایسے ہی ہیں اگر ان کو کچھ ہو گیا تو بچے ،گھر والی سب کو جیتے جی مرنا ہوگا-شاکر کی بات سن کر مجھے ایک لمحے کے لئے بھی یہ خیال نہ آیا کہ شاکر بزدل ہو گیا ہے-یا میرے دوسرے دوست بزدل ہیں-ہرگز نہیں یہ تو ان معصوم بچوں کے مستقبل کا خیال ہے جن کو ہم اس دنیا میں لانے کا سبب بنے ہیں-میں نے شاکر کی بات سن لی لکین فیصلہ یہ کیا کہ پاکستان میں جس کے مرنے پہ کوئی خبر تک نہ چلی اور اس کے حق میں کسی کے دو جملے تک نہیں شایع نہیں ہوئےاس پر میں لکھوں گا-اس کواخبار،رسالہ تک ارسال گا-نہ چھپے لکینفیس بک پر تو اس کو پوسٹ کرنے سے کوئی مجھے نہیں روک سکتا -

ساجد"

گواہ رہنا تمہارے سچ کو ہم نے جس قدر ہو سکا پھیلانے کی کوشش کی ہے-تمہاری صدا کو کہیں گم نہیں ہونے دیا-تمہارے سچ کو زندہ رکھا ہے-تمہاری ادبی اور فکری تنہائی کو ہم نے جلوت میں بدل ڈالا ہے-ساجد تم زندہ رہو گے ہر محبت کرنے والے دل میں-تم زندہ رہو گے ہر انسانیت پرست کے من میں-تم زندہ رہو گے ہر اس دل میں جو لوگوں سے ان کے رنگ،جنس،مذہب،ذات،قبیلہ جیسی بنیادوں پر نفرت نہیں کرتا-تم ساجد محبت کے پجاری تھے اس لئے نہ کافروں نے تم کو قبول کیا نہ مومنوں نے-

تنہائی

تنہائی

ہمارے آنسوؤں کے پیچھے ایک لمبی کہانی ہے

جب رب جیسے ساتھی رستے میں کنارہ کش ہو جاتے ہیں

ہجر مقدر بن جاتا ہے

زندگی کا ہجر سے کیسا رشتہ ہے

جہاں کوئی خوشی کسی کے آنسو سے ٹپکتی ہے

آئن سٹائن تم نے مادہ اور توانائی کا باہمی رشتہ ڈھونڈھ نکالا تھا

کبھی ہجر کا ہے زندگی سے جو رشتہ

اس کو بھی تلاش کر لیتے

یہ اضافی تو نہیں لگتا

یہ کبھی ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا

یہ تو ساتھ ساتھ چلتا ہے

کبھی کمزور نہیں پڑتا

توانا ہوتا ہے

جب کوئی اس کو کمزور کرنا چاہے

ہجر ویسے تو زندگی کے ساتھ چلتا ہے

مگر کبھی کبھی اس کو جلوت میں بھی تنہا کرتا ہے

ہجرزدگی ایک مسلسل تنہائی ہے

ہجرزدگی عذاب مسلسل کا نام ہے

برگساں تمہارے زمان مسلسل میں

برگساں تمہارے مکان مسلسل میں

ہجر کیوں مسلسل رہتا ہے

وصال کیوں اضافی رہتا ہے

تنہائی کیوں اس میں مقدر ہے؟

ایک آتنک واد کی کتھا

ایک آتنک واد کی کتھا

عامر حسینی

میں کوئی گاندھی واد بھی نہیں تھا

میں کوئی عدم تشدد کا پیرو بھی نہیں تھا

جو صبر شکر کر کے رہ جاتا

میں کوئی پیغمبر بھی نہیں تھا

جو فقیری کو اپنا فخر بنا لیتا

میں کوئی صوفی بھی نہیں تھا

جو قناعت کو اپنی ڈھال بنا لیتا

میری ذلت اختیاری نہیں تھی

میری مسکینی میرے بس میں نہیں تھی

میں تو نظام زر کا تھا ڈسا ہوا

بھوک میری شناخت تو نہ تھی

ننگ میرا لباس تو نہ تھا

میری محنت کبھی بیگانہ نہ تھی

میرا ثمر کبھی میرا اپنا بھی تھا

میں اپنے گاؤں میں خوش باش بستا تھا

میں جو جنگلے میں ان نکلا ہوں

کوئی نروان پانے نہیں نکلا

کسی برگد کے سائے میں

میں دھونی جمانے نہیں آیا

خلا میں آسمانوں سے پرے

دور آکاش پر کسی دیوتا سے نہیں ملنا مجھے

میرے ساتھ کیا ہوا کہ میں گھر سے بے گھر ہو چلا

میرے گاؤں میں لوہا نکل آیا ہے

میرا گاؤں ٹاٹا اور متل کو اچھا لگنے لگا ہے

وہ چند روپوں کے عوض مجھ سے میری زمیں مانگتے ہیں

ترقی کا نام دیکر میری بستی اجاڑ دینے کی کوشش کرتے ہیں

میں اپنی زمیں چھوڑنا نہیں چاہتا

میں اپنی بستی ویران نہیں چاہتا

مجھے بھلا بڑی سڑک سے کیا لینا ہے

میں تو بس اپنی بستی کی زندگی بچانا چاہتا تھا

دہلی شہر کے رہنے والو

تم نے جو جنتر منتر میں

لندن کا ہائد پارک بنا رکھا ہے

وہاں میری کتھا کون سنے گا

میں نے اپنی تہذیب کو چمکتے ہندوستان کی قربان گاہ پر ذبح نہ کرنے کی مانگ کی تھی

ریاست نے لاکھوں سپاہ

میرا گاؤں فتح کرنے بھیج دی

گاؤں کو بچانے میں جنگل میں ان نکلا ہوں

یہاں ہتیار بند ہوئے ماؤ کے کامریڈ ہیں

جو ہمیں انوکھا مرن بھرت رکھنا سکھ رہے ہیں

اے کے فور رائفل

جو میرے کندھوں کو شل کئے دیتی تھی

اب مجھے اپنے وجود کا حصہ لگتی ہے

میں اپنے گاؤں کو سرمایہ کی مار سے بچانے نکلا ہوں

منموہن سنگھ لاکھ مجھے بڑا خطرہ کہے

میں اپنے گاؤں کو چمکتے ہندوستان پر قربان نہ ہونے دوں گا

میں جانتا ہوں

کسی دن باڈر فورس کے شیر جوان

کسی چوک پر

جعلی مقابلہ میں مجھے پار لگا دین گے

انعام و اکرام کے حقدار ٹھریں گے

دہلی کے میڈیا والے

میرے مرنے پر

حب الوطنی کے نغمے تیز کر دین گے

لال دھاگہ ،مذھب اور مارکس واد

اس مرتبہ جب سخی لال شہباز قلندر کا عرس آیا -تو میں نے دیکھا کہ امسال پہلے سے بھی زیادہ لال جھنڈے لہرا رہے تھے -جگہ جگہ جشن قلندر ہو رہا تھا-میں سوچتا ہوں کہ یہ سرخی جو ہر جگہ غالب تھی کس چیز کی علامت ہے-تو خیال آتا ہے یہ سخت قسم کی مذھب پرستی اور رسمیت پر مبنی ملائیت کے خلاف عوام کے احتجاج کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے -مرد و زن کے جھنڈ کے جھنڈ سخی لال قلندر کے مزار کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں تو ظاہر پرستی کے ایوانوں میں زلزلہ برپا ہو جاتا ہے-حافظ سعید کے ہاں صف ماتم پبا ہے تو قصر نجد کو اپنے قلعے مسمار ہوتے دکھائی دیتے ہیں-یہ ایک طرح سے اپنے کلچر ،تہذیب ،ثقافت کو بچانے کی کوشش ہوتی ہے-

ایک نوجوان بازار میں اچانک میری طرف بڑھا -اس نے ایک لال رنگ کا دھاگہ پکڑا ہوا تھا-اس نے کچھ کہے بنا میری کلائی تھامی- اور وہ دھاگہ میری کلائی میں باندھ دیا -اور یا علی مدد کہتا ہوا دوسرے آدمی کی طرف چلا گیا-یہ لال رنگ کا دھاگہ اب بھی میری کلائی میں بندھا ہوا ہے-میں نے جب اس لال رنگ کے دھاگے کے ساتھ گھر میں قدم رکھا تو سب سے پہلے اس پر میری بیوی کی نظر پڑی-وہ حیران بھی ہوئے اور خوش بھی-کیوں کے میں نے ایک بار اس کو امام ضامن باندھنے سے روکا تھا اور کہا تھا کہ ان سے کچھ نہیں ہونے والا -میرا مارکس واد کہیں کہیں وہابی-ازم سے جا ملتا تو میری بیوی کہہ اٹھتی تھی کہ مارکس واد ایک دوسری قسم کا کٹر پن ہے-لکین رفتہ رفتہ مجھے کلچر اور تہذیب کے عوامی رنگ اور تاثیر پر یقین آنے لگا -یہ غالباً ایران اور عراق کے سفر کی بات ہے جب بہت سے تاریخی مقامات پر مجھے ایسا لگا تھا کہ میں ان مقامات سے جڑی شخصیت اور واقعیات کا حصہ رہا ہوں-یہ لال رنگ کا دھاگہ بھی مجھے کہیں سے بھی رجعت پسندی نہیں لگ رہا تھا-لال رنگ ویسے بھی مکس وادیوں کو بہت بھلا لگتا ہے-یہ انقلاب کا رنگ ہے-یہ ظلم کے خلاف جدّوجہد کی علامت ہے-مارکس واد سے ہٹ کر یہ حقیقت ہے کہ شیعہ کے ہاں سرخ اور سیاہ رنگ بہت اہمیت کے حامل رہے ہیں-سوگ ،ماتم،احتجاج کا رنگ سیاہ اور مزاحمت،جدّوجہد،ریڈکل -ازم ،انقلاب یہ سب سرخ رنگ سے جڑے ہوئے ہیں-پچپن سے ان رنگوں سے میری دوستی رہی ہے-لکین میری کلائی کبھی ان رنگوں میں رنگے دھاگوں یا کڑوں سے مزین نہیں رہی تھی-اسی لئے تو میری بیوی کو خوش گوار حیرت کا سامنا تھا-میں تھوڑی دیر گھر بیٹھا اور پھر باہر آگیا -گلی،محلے اور بازار سے گزرتے میں نے کئے نوجوانوں کو دیکھا سب کے ہاتھ لال رنگ کے دھاگوں سے مزین تھے-مجھے یہ ایک خاموش اقرار کے اظہار کی طرح لگا -کہ لوگ اقرار کرتے ہیں کہ ہم سب ملائیت کو مسترد کرتے ہیں-کسی طالب کے کوڈآف ڈریس کو ہم نہیں مانتے-کسی نام نہاد موحد کے فلسفہ توحید کو ہم تسلیم نہیں کرتے جو ہم سے ہمارا کلچر چھین لے-

میں یہ سوچتا ہوا جا رہا تھا کہ خبر آ گئی کہ پنجاب حکومت نے وارث شاہ کے عرس پر میلہ نہیں لگنے دیا -شاہ حسین کا میلہ چراغاں بھی اسی طرح برباد ہوا تھا-طالب اور کیا چاہتے ہیں-پنجاب حکومت ٩ بجے مزاروں کو تالہ لگوا دیتی ہے-بی بی پاک دامن کا مزار ایک محاصرہ زادہ عمارت بن گیا تو حکومت کو کیا فرق پڑتا ہے-یہ ہم ہیں جن سے ان کی تاریخ،ان کا کلچر اور ان کی روح سلب کی جا رہی ہے-

میں رومی کیوں نہ بن سکا ؟

آج صبح سے سخت بخار میں مبتلا رہا -پورے جسم میں سخت درد تھا-اصل میں کل کی بارش میں خوب بھیگتا رہا-شاوی بیٹے کو کندھوں پر اٹھایا اور پورے سہن کا ایک چکر لگایا تو اس کی قلقاریوں میں اور خوشی سے نکلنے والی آوازوں میں گم ہوگیا-اس کو اس کی ماں کے پاس چوڑا-وہ برآمدے میں شائد کے نیچے ماں کی گود میں بیٹھا تالیاں بجا رہا تھا اور میں مستی و سرشاری میں جھومتا ہوا بھیگ رہا تھا-موسلا دھار بارش میں وسیب کے دھرتی بنگال کی ساحرہ کی طرح معلوم ہوتی تھی-میں تو کہیں اور نکل گیا تھا-گھر سے نجانے کب نکلا -کب سڑک پر آیا اور کب بہت دور بہت دور جا نکلا-رہ چلتے چلتے کسی کو برقی پیغام بھیجا کہ میگھا ملہار برس برس جاتی ہے بہت سہانا موسم ہے-اس نے کہا مجھے بھی ساتھ لے لو -اس کو ساتھ لیا تو پھر بس اپنا ہوش ہی کہاں رہا-پھر تو من یار شدی و یار تو شدی والا معاملہ ہو گیا (شعر میں تھوڑی سی تبدیلی پر معزرت)یہ دل بھی عجب ہے-بس اس کی مرضی پر اس کو چھوڑو تو اس کی مستی،اس کا جذب سنبھالے نہیں سنبھالتا -کچھ عیسیٰ ہی ہوا میرے ساتھ-بارش تو کب کی تھم چکی تھی لکین جذب و مستی کی کیفیت ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی-ہجر کے موسم میں اس جذب کا نشہ کچھ اور ہی ہوتا ہے-کاش مجھے وہ لفظ اور انداز بیان میسر آتا جو اس کو بیان کرنے میں میری مدد کرتا-لکین نہیں-اصل میں ہم جیسے ہجر زادوں کی بد نصیبی کا یہ عالم ہے کہ ہجر اور کرب کا موسم اس زمانے میں ہمارا مقدر بنا جب صوفی کا تصوف بھی امریکہ کا غلام ہو گیا ہے-اب بھلا ہم کیسے امریکی سفیر کو یہ کہیں کے صاحب ہمیں بھی کہیں سے شمس تبریز ڈھونڈ کر لا کر دو تاکہ اپنے اسحق کی روداد ہم بھی مثنوی عشق کے نام سے رقم کر ڈالیں-مولوی کے پاس ہم ویسے ہی نہیں جاتے کیوں کہ کسی نے خوب کہا ہے

"مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم "

بھلا یہ ابن تیمیہ اور محمد بن عبد الوہاب نجدی کے شاگرد کیسے ہمارے خام عشق کو تہذیب سکھائیں گے-بہرحال نجانے رات کے کس پھر گھر واپس آیا-گھر والی کہتی ہے ٢ بجے تھے رات کے-سحری میں بھی نہ اٹھا اور بغیر سحری کھائے روزہ رکھ لیا-اب یہ سوال مت کیجئے گا کہ ہم جیسا رند،مردود حرم کیسے متقی ،پرہیز گاروں کی چراگاہ میں کیسے داخل ہو جاتا ہے-بس یہ بھی معجزہ عشق کا ہے-ہوم منسٹر کا جو رنگ ڈھنگ ہوتا ہے -اس گھر کے گھر والے کو اس رنگ ڈھنگ کی پاسداری کرنا لازم ہوتی ہے ورنہ فساد لازم-ہم کوئی ایم کیو ایم بھی نہیں جو ہوم منسٹر کو اپنی مرضی کے مطابق چلا لیں گے-

صبح آنکھ کھلی تو تیز بخار میں جسم پھنک رہا تھا-لکین عجب بات تھی کہ دل میں کوئی بیزاری نہیں تھی-یہ جسم سے نکلتی گرمی اور تپش نجانے کیوں ذہن کو بھلی معلوم ہوتی تھی-ذہن میں گٹار اور ہارمونیم سے نکلنے والی مدھر تانوں اور سروں کی آواز گونج رہی تھی-ہاں یہ قصہ تھا پرسوں کا جب ہمارے دوست جعفری صاحب کے ہاں لبنان سے ہمارے ایک دوست حماد خلائف اور ہندوستانی دوست رام چند جی تشریف لائے ہوئے تھے-جعفری صاحب بیروت میں جب یونی ورسٹی میں زیر تعلیم تھے تو خلائف سے ان کی دوستی ہو گئی تھی -خلائف بعد مے ہمارے دوست بھی ہو گئے تھے-رام چند میری دریافت تھے-دراصل آج سے ایک سال قبل میں دہلی گیا تو ایک گھر میں paying گیسٹ کے طور پر ٹھہرا تھا-وہیں پر رام چند سے ملاقات ہو گئی تھی-رام چند ہارمونیم ایسا بجاتا ہے کہ ساری محفل کو مشور کر کے رکھ دیتا ہے-یہ اس کا شوق ہے پیشہ نہیں-خلائف پیشہ کے لحاظ سے استاد اور رام چند انجینئر ہے-موسیقی ان کا شوق اور جنوں ہے-لکین یہ ہنر اور کمال ان کے حلقہ یاراں تک محدود ہے-رمضان میں ایک سید زادے کے گھر موسیقی کا یہ پروگرام بس خفیہ طور پر ہو سکتا تھا جس طرح اخوان الصفا کے لوگوں کا اجلاس ہوتا ہے-درجن بھر مرد و زن اکٹھے ہو گئے-اور اپنے مہمان دوستوں کے فن سے محظوظ ہوئے-عرب اور ہندی گیتوں (رام چند اردو گیتوں کو ہندی گیت کہتا ہے مجھے نام اور چلکھے پر لڑنے کی کیا ضرورت ہے -مجھے تو نام والے کی ذات اور چھلکے کے اندر گودے سے لینا دینا ہے)کی دھنوں کی کمپوزنگ سن کر مزہ آگیا -بخار میں جلتے جسم کے ساتھ ان آوازوں کی ذہن میں گونج ایک عجب سا وجد تار کئے ہوئے تھی -سمجھ نہیں آتا تھا کس کو یہ حالت باتوں-

کیہ حال سناواں دل دا-کوئی محرم راز نہ ملدا

شکریہ خواجہ فرید سائیں آپ کا کہ کم از کم اس حالت کو بیان کرنے کا سلیقہ تو سکھا ڈالا -میں نے ایک یار من کو میسج بھیجا -اور بتلایا کہ کیا حالت ہے -اس نے جواب میں کہا اور لطف اٹھو بارش کا-کرو شرارتیں -یعنی وہ تو کسی نے کہا تھا یار من ترکی -ترکی نمی دانم -یہاں مجھے لگا من ترکی و یار من ترکی نہ دانم والا معاملہ ہو گیا - تھوریدی دیر بعد ان دوست کا میسج آیا کہ وہ امی کے ہاں جا رہے ہیں اور ان کے حضور پیغام رسانی بہت بڑی گستاخی خیال کی جاتی ہے-میں مایوس نہیں ہوا-ایک اور دوست کو فون کیا لمبی کال پیکج کے ساتھ -ان سے وعدہ کیا کہ ان کے دفتری کام میں کوئی حرج نہیں ہوگا -دوران گفتگو اگر کوئی کال سننی پڑی تو وہ بھی سننے کے مجاز ہوں گے-اس معاہدے کے ساتھ انھوں نے میری روداد سننی پسند کی-میرے یہ دوست ابھی میں ابتدا میں ہی تھا خود اپنی سفر شاعری کی داستان سنانے بیٹھ گئے-ایک صاحب جن سے ان کی یاد الله اس وقت سے تھی جب ان کے بقول یہ دوسری کلاس میں تھے -جو ان کی شاعری پر داد دینا کفر سمجھتے تھے-جن کا خیال یہ تھا کہ اگر ان کے کسی شعر کی داد اگر ان کے منہ سے خدا نخواستہ نکل گئی تو شائد دن اسلام کو خطرہ لاحق ہو جائے گا-ایک مرتبہ ان کی غزل کسی گائیک نے خوبصرت انداز میں گا دی -ہر شعر پر موصوف جھوم جھوم جاتے تھے -جیسے ہی مقطع آیا اور ان کا نام اس میں دیکھا تو ایک دم چھپ ہو گئے=-آخر میں بس اتنا بولے کہ بہت اچھا گیا تم نے ایک بری غزل کو -کیا کہنے حضور کے -اب ان کو یہ کہتا میں تو اچھا نہیں لگتا کہ حضور دودھ بھی دیا تو مینگنیاں کر کے-ویسے ہمرے دوست خاصے حوصلے والے ثابت ہوئے انھوں نے شادی کے بعد بھی شاعری سے توبہ نہ کی-ان کو بھی بس یہی کہا مہربانی ہے حضور کی -میں بندہ بشر سدا کا کمزور اس دوران انتظار کرتا رہا کے کب حضور میری داستان بھی سنیں گے -اسی دوران کسی کی کال آگئی -کسی کو اپنے انسورنس کارڈ کے بارے میں معلوم کرنا تھا -اس دوران غم یار سے غم دوران تک بات چلی اور میں سکون سے ان کی فراغت کا انتظار کرتا رہا -اس کے بعد جب وہ فارغ ہوئے تو نہ جنوں رہا نہ پڑی رہی والی واردات ہم پر گزر گئے تھی-اب بخار بھی برا لگ رہا تھا اور درد کی شدت کا احساس بھی ہونے لگا تھا-انھوں نے ہم سے پوچھا تو کیا کہ رہے تھے آپ ؟میں نے جاوید اختر کی کتاب ترکش اٹھائی اور ان کو نظم ہجر سنائی-پھر ایک غزل سنائی -اسی دوران ان کو کام کے سلسلے میں کہیں جانا تھا -تو انھوں نے مجھ سے اجازت مانگ لی-اس سے پہلے کہ میں مانگتا-تو اس طرح سے میرا دوست شمس تبریز بننے سے بچ گیا اور میں رومی بننے سے-