Monday 28 November 2011

گھر ........

گھر ........
میں آج بہت عرصۂ بعد اس گھر میں داخل ہوا ہوں-یہ گھر میری جنم بھومی نہیں ہے-لکین میں دو سال کا تھا -جب اس گھر میں رہنے والے دو مکین مجھے اس گھر میں لے آئے تھے-میں نجب ہوش سنبھالا تو اتنے بڑے گھر میں اپنے دادا ،دادی کے ساتھ خود کو اکیلا پایا -
بہت پرسرار اور خاموش سا لگا یہ گھر مجھے-اس گھر کی پیشانی پر لکھا ہوا ہے "لکشمی ہاؤس .....١٨٩٧"-اس گھر کا بڑاسا دروازہ -جو کے دیودار کی لکڑی سے بنا ہوا ہے-دو بڑے بڑے پٹ -جن پر نقش ہندو صنمیات عجب تاثر دیتی ہیں-پھر در وازے کے دائیں اور بائیں ہر بنی دو چوکیاں -اور سائیڈ پر بنے دو اوطاق جن میں شائد تیل کے چراغ جلا کرتے تھے-اندر داخل ہوتے ہی بہت بڑا صحناوپر سے نظر آتا آسمان-سامنے حال کمرہ-دائیں اور بائیں سمت بنے ٦ کمرے-ان میں سے ایک کمرے میں ایک چوکی پر مورتیاں سجی ہوئی تھیں-سائیڈ پر ایک کمرہ جس میں کتابیں بری ترتیب سے چاروں طرف ریک میں سجی ہوئی تھیں-ایک میز اور کرسی -دادا کا کہنا تھا کہ انھوں نے بس تین کمرے اس گھر کے اپنے استعمال میں رکھے تھے-اور باقی کو یونہی رہنے دیا تھا-کتابوں والا کمرہ اسے ہی سجا ہوا ملا تھا-بس اس میں دادا اور دادی نے اپنے طرف سے کتب کا اضافہ کیا تھا-انہوں نے عبادت والے کمرے کو بھی نہیں چھیڑا تھا--اس پر ایک مرتبہ دادا کو خاصی مشکل کا سامنا بھی کرنا پڑاتھا-انھیں جماعت اسلامی والوں نے ہندو مشہور کر دیا تھا-دادا اور دادی نے معمولی سی مرمت تو کروائی ہوگی-لکین اس مکان کے نقشے میں کبھی تبدیلی نہیں کی-دادا نے جب اس گھر کی اکلوتے کتب خانے میں کتابوں کوپڑھنا شروع کیا تو ان ک معلوم ہوا کہ یہ گھر رام لال نامی کسی ہندو نے تعمیر کروایا تھا-اور وہ سرکاری ٹھیکیداری کیا کرتا تھا-اور لکشمی اس کی بیٹی کا نام تھا-جس کے پیدا ہونے پر رام لال کا کاروبار چمک اٹھا تھا-اس نے جب اس گھر کی ١٨٩٧ میں تعمیر شروع کر وی تھی تو اس نے اس گھر کی پیشانی پر لکشمی ہاؤس کندہ کر وایا تھا-رام لال خود بھی کتابوں کا بہت رسیا معلوم ہوتا تھا-ایک مرتبہ میں اس کتب خانے میں رکھی ایک کتاب جو ہنو صنمیات کی ڈکشنری تھی-کودیکھ رہاتھا تو کتاب کے آغاز میں لال روشنائی سے کافی سارے حوالے اور تبصرے درج تھے-نیچے رام لال کا نام درج تھا-اکثر رام لال کے ساتھ ساتھ تاریخ اور وقت کے فرق کے ساتھ ساتھ ساتھ کرشن لال کا نام بھی لکھا نظر آتا تھا-جو دادا کے بقول شائد رام لال کابیٹا ہوگا-میں نے یہاں پر انگریزی ادب عالیہ کی بھبھٹ اچھی کلیکشن دیکھی تھی-اور اس پر جا بجا مجھے لکشمی دیوی کانام لکھا نظر آیا-لکشمی دیوی انگریزی ادب میں روشن خیالی اور خرد افروزی کی تحریک سے خاصی متاثر نظر آتی تھی-ان دنوں میرے ساتھ عجب معامله ہو رہا تھا-کہ میرے خیال کی پرواز بہت بلند ہو گئی تھی-میں رام لال،کرشن لال اور لکشمی دیوی کے پیکر تراش لیتا-اور ان کو اس کتاب گھر میں حاضر کر لیتا-کبھی میں لکشمی دیوی کو اپنی دادی کا روپ ڈیٹاور ان کو عبادت والے کمرے کی طرف دیکھ کر ان کے چہرے پر عجب سے مسکان دیکھ لیتا-لکشمی دیوی تو جدید الحاد کی تحریک سے بھی متاثر نظر آتی تھی-اسی لئے اس کے لکھ حوالوں میں بہت سے ہولو ایسے ہوتے تھے کہ جن سے اس کے اس طرف جھکاؤ کا پتا چلتا تھا-
میں جب بھی اس قسم کے کوئی پیکر تراشتا تو بعض اوقات ان کو لفظوں میں قیدکرنے کی کوشش بھی کرتا تھا-میری دادی اس پر ہنستی بھی-اور کبھی کبھی سنجیدہ ہو کر میرا حوصلہ ہی بڑھاتی تھیں-مجھے یہ گھر جدید اور قدیم کی کشمکش میں گرفتار لگتا تھا-اس گھر میں جو اصل مکین رہتےتھے-وہ تقسیم کے بعد کہاں گئے-ہمیں کچھ معلوم نہ تھا-اور یہ اب اس القہ میں واحد گھر ہے-جو اپنی اصل حالت میں موجود ہے-رات کو ایک سائے کی طرح ایستادہ نظر آتا ہے-باقی کے تمام گھر اب جدید طرز کے بنگلوں میں بدل چکے ہیں-دادا اور دادی کی وفات کے بعد بھی میں نے اس گھر میں میں کوئی تبدیلی نہیں کی-اس گھر میں اب دو کمرے اور اسے ہیں جن میں پر چیزیں ویسی کی ویسی ہیں جیسی وہ ١٩٩٨ میں تھیں جب دادی اس جہاں سے رخصت ہو کر دادا کے پاس چلی گئیں تھیں-
اس گھر کا جو ہال نما کمرہ ہے-اس کمرے میں کسی زمانے میںہر ہفتہ بہت رش ہوا کرتا تھا-ایک اسٹڈی سرکل ہوتا تھا-جس میں مزدور،استاد،ڈاکٹر،شوبز سے تعلق رکھنے والے نا جانے کونکوں شامل ہوتے تھے-اور وہ سب مل کرارٹ،فلسفہ،ادب،سیاست،معشیت وغیرہ پر نا جانے کیا کچھ پڑھا کرتے تھے-مجھے بہت سے کردار آج بھی یاد ہیں-ان میں وہ مصور لڑکی جو کسی پارسی خاندان سے تعلق رکھتی تھی-مجھے آج بھی یاد ہے-وہ پنکل سے خاکے تراشنے میں مہارت رکھتی تھی-اس کا خاص کمال وہ تھا کہ وہ اکتوبر کے ماہ میں جب روسی انقلاب کی سالگرہ قریب ہوتی تو بہت محنت کے ساتھ وہ لینن ،اس کی بیوی کروپسکایا کی تصویر بناتی تھی-یکم مئی کو وہ چند گمنام سے مزدوروں کے پیکر کپڑے پر تراشتی تھی--اس کو نہ خانے کا ہوش ہوتا تھا-نہ پینے کا-شوبھا نام تھا اس کا-پھر وہ لندن چلی گئی تھی-میں ایک مرتبہ صحافیوں کے ایک وفد کے ساتھ پراگ گیا تو پراگ یونیورسٹی میں بس اچانک اس سے ملاقات ہوگی-مجھے لگا جیسے اس کے ہاں کچھ بھی نہ بدلہ ہو-وہ اسی طرح سے دبلی پتلی تھی-لگتا تھا عمر اس پر کہیں آکر ٹھہر سی گئی تھی-شادی اس نے اب تک نہیں کی تھی-برطانیہ میں کسی یونیورسٹی میں استاد ہوگی تھی-ہم یونیورسٹی کے اس گراونڈ میں جا بیٹھے تھے جہاں پر طلبہ کو احتجاج کرتےہوئے نازی حملے کا سامنا کرنا پڑا تھا--میں نے اس سے پوچھا کہ کیا حال احوال ہیں-تو ایک لمبی رام کتھا سننے کو ملی-وہ اب بھی تصویریں بناتی تھی-میں حیران تھا کہ وہ کہتی تھی کہ اس کی تصویر کہانی کے کئی سورما اب راکھشش ہو چکے ہیں-جیسے سٹالن اور ٹیٹو-اور ایک راکھشش اب سورما -جیسے ٹراٹسکی-میں نے اس کوزیادہ نہیں چھیڑا -وہ مجھ کو اب بھی سات آٹھ سال کا بچہ سمجھ کر ڈائل کر رہی تھی-اور مجھے یہ سب اچھا لگ رہا تھا-میں نے جب اس کو رات کے خانے پر بلانے پر اصرار کیا تو اس نے کہا نہیں تم میرے مہمان بنو گے-خانے کے بعد جاتے ہوئے شوبھا نے مجھے رائد وائن کی بوتل کا تحفه یہ کہتے ہوئے دیا کہ آپ کے دادا جب اسی پراگ یونیورسٹی کے دورے پر میرے ساتھ آئے تھے تو ان کو ایک کامریڈ میزبان نے یہی تحفه دیا تھا-جو انھوں نے قبول کر لیا تھا-اور اپنے کامریڈ دوست کو اس بات کی ہوا بھی لگنے نہیں دی تھی کہووہ اس نعمت سے محروم تھے-الکوحل ان کے وجود کا کبھی حصہ نہیں بن سکی تھی-شوبھا کی یہ بات سن کر مجھے یاد آگیا کہ میں تو ماسکو کی سردی سے ڈر کر پہلے دن ہی وّدکا سے دوستی کر بیٹھا تھا-شوبھا کے علاوہ ایک اور کردار استاد صمدوتھے -یہ بیٹری ورکرز یونین کے صدر تھے-کسی سکول .کالج کا انھوں نے منہ نہیں دیکھا تھا-سارا سماج ان کا استاد تھا-لکین دنیا کی سات زبانوں پر ان کو عبور تھا-انگریزی ان کی سن کر دیکھ کر مجھے بھی شرم اتی تھی-میرے دادا کے بعد تاریخ میں یہ میرے استاد تھے -جن سے میں نے بہت کچھ سیکھا تھا-اس گھر میں آج اپنے پرانے کمرے میں لیتا میں یہ سب کچھ سوچ رہا تھا-وقت تیزی سے گزر جاتا ہے-اور پھر یہی گھر تو ہے جہاں میں اور ہما ہمیشہ سردیوں کی لمبی راتوں کو کتب خانے میں رات گئے تک کتابوں کو دیکھتے تھے-اور دادا دادی سے بہت سے قصے بھی سنتے تھے-یہیں پر کبھی کبھی ہما کی والدہ بھی آہ جاتی تھیں-اور پھر تاریخ کے کئی ایسے گوشے وہ ہوتے تھے-کہ بس آج بہت افسوس ہوتا ہے کہ کاش سٹیو جابز کی ایجاد اس وقت مجھے میسر ہوتی تو میں وہ تاریخی لمحات ریکارڈ کر لیتا-اور آج پھر سے ان کو اپنے سامنے ہوتا دیکھتا-مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ اسی طرح سے زیلھج کے آخری دن تھے-اور محرم شروع ہونے والا تھا-شائد وہ عید مباہلہ کی رات تھی-جی یہ وہ دن ہے جس دن کہا جاتا ہے کہ حضرت محمد علیھ السلام نے پنجتن پاک کولیکر مسیحیوں سے مناظرے کے لئے نکلے تھے-اور اسی دن بیبی سکینہ کی ولدت کا دن بھی بتایا جاتا ہے-یہ دن شیعہ کے ہاں بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے-میرے دادا ،دادی،اور ہما کی والدہ مسلم تاریخ کے اس طرح کے دنوں کی ریڈکل تبریروں پر غور و فکر کر رہے تھے-میں اور ہما ان کی باتیں سن رہے تھے -اس وقت ہم اس بات پر متفق تھے کہ دادا ،دادی اور ہما کی والدہ سب لاشعوری طور پر اپنے ورثہ کی نئی تعبیر کی کوشش کر رہے تھے-بہت بعد میں جا کر میں اور ہما اس رمز سے آشنا ہوسکے جو تاریخ میں مذہب کے ساتھ کہیں جڑ جاتی ہے اور اس سے ہم الگ نہیں ہو پاتے-میں آج جب یہ سطریں لکھ رہا تھا تو میری نظر اپنے دائیں ہاتھ کی انگلی میں پڑی انگوٹھی پر پر -اور کلائی پر بندھے ہوئے ایک کلپ پر-انگھوٹھی ملک شام سے بیبی زینب کے مزار سے آئی ہے-اور کلپ میں جڑا عقیق اس پر لکھا ہوا ہے یا علیمدد -یہ کبھی مجھ سے الگ نہیں ہوتے-بس یہہ وہ کہانی ہے-جو آج تک میری سمجھ میں نہیں آئی-یہ گھر نا جانے کب تک یونہی قائم رہے گا-

کربلا اور شہر بانو (کہانی ) عامر حسینی

آج میں کربلا میں ہوں لکین ستم ظریفی یہ ہے کہ میرے ساتھ شہر بانو نہیں ہے-میرا خیمہ خالی ہے-اور یہ کربلا جو مجھے کبھی ڈرا نہیں سکی نجانے کیوں میرے اندر وحشت پیدا کر رہی ہے-میں اس کربلا سے چلا جانا چاہتا ہوں-اور میں تو یہاں خیمہ بھی نہیں لگانا چاہتا تھا-لکین نجانے کون سی قوت مجھے اس کربلا میں کھینچ لائی ہے-اور میری یہ کربلا بھی عجیب ہے-مائیں جب اپنے مدینہ سے چلا تھا تو مہینہ تو رجب کا تھا لکین میں اپنے مدینہ سے غریب شہر ہو کر اس طرح سے نکلا تھا کہ میرے ساتھ کوئی نہیں تھا-میرے ساتھ تو شہر بانو بھی نہیں تھی اور مجھے یہ سفر تنہا کرنا پڑا-میں اپنے مدینہ سے چلا تو اس وقت تک کسی یزید نے مجھ سے میرا دست طلب نہیں کیا تھا-اور نہ ہی کوئی سپہ مجھے اپنے ساتھ لیجانے آئی تھی-لکین نجانے مجھے کیوں لگا کہ اب مدینہ میرا نہیں رہا اور مجھے اب یہاں سے ہجرت کرنی ہے-میں نجد کے صحرا سے گزرا تو مجھے خیال بھی نہیں تھا کہ کبھی اسی صحرا سے اٹھنے والے بدو میری شناخت کے درپے ہوجائیں گے-اور وہ مدینہ اور مکہ میں میری تہذیب کے تمام آثار کو بدعات قرار دے کر ان کو مسمار کر دیں گے-اور میں کیا میری ساری تہذیب وہاں اجنبی اور مہاجر ہو جائے گی-
یہ کربلا بھی عجیب ہے کہ کہیں پر بھی پرپہ ہوجاتی ہے-اور زمان و مکان کی قیود سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا-لکین ساری کی ساری کربلائیں جا کر اسی کربلا سے رشتہ جوڑ لیتی ہیں جو عراق میں موجود ہے-اور بس کوفہ سے تھوڑی دور ہے-اور کربلاؤں میں سارے خیمے،ساری جانیں ،اور سب کی سب شیادتیں اسی ایک کربلا سے جا کر مل جاتی ہیں-
ہجرت اور تنہائی یہ ساتھ ساتھ ہوتی ہیں-لکین زمانی اور مکانی ہجرت سے پہلے ایک ہجرت ذہنی ہوتی ہے-اور مادی بیگانگی کی سب سے لطیف شکل ذہنی بیگانگی ہوتی ہے-اور جب آپ کا رفیق آپ سے جدا ہوجائے تو اس کا آغاز ہوجاتا ہے-یہ اپنی کامل شکل میں ظہور پذیر ہونے میں بہت عرصۂ لیتی ہے-یہ شعب ابی طالب سے شروع ہوتی ہے اور وہاں کسی کی خدیجہ اور کسی کا کوئی غم خوار بزرگ اس سے جدا ہوجاتا ہے-تو وہ سال ہی غم اور حزن کا سال قرار پاتا ہے-لکین اس دوران کسی کو تنہائی کا وہ احساس نہیں ہوتا -جو اس کو ہجرت کے بعد مدنیہ میں اپنے رفیق کی وفات کے بعد ہوتا ہے-وہ اپنی جنت کے ساتھ اور اس جنت کے دو ننھے پھولوں کے ساتھ پہلے تو تنہا اپنے رفیق کی تدفین کرتا ہے-پھر اس کو سقیفہ کے قہر کا سامنا کرنا پڑتا ہے-اور وہ اپنے مختصر سے خاندان کو لیکر مدینہ کے گلی کوچوں میں جاتا ہے-اور وہاں جا کر ایک ایک کو بتاتا ہے کہ ابھی زیادہ وقت تو نہیں گزرا جب غدیر خم کے مقام پر کوئی عہد و پیمان باندھا گیا تھا-اور پھر عترت کے ساتھ صلہ رحمی کا پیمان بھی تو ہوا تھا -یہی مہینہ تھا زی الحج کا جب عید مباہلہ ہوئی تھی-اور پھر کس کو شہر علم نے اپنا دروازہ قرار دیا تھا-لکین اس سب کچھ کہنے کا کوئی فائدہ نظر نہیں آیا -اور تنہائی اور غربت ،ہجرت ذہنی نے جڑ پکڑنا شروع کر دی -ایک طرح سے یہ مدینہ سے بے دخلی کا نوٹس تھا-آپ اپنے مدینہ میں ہوتے ہوئے بھی نہیں تھے-اور یہ ہجرت ذہنی کسی کو رات رات بھر جگاتی تھی-اور کوئی اپنے مرنے کی طلب راتوں کے آخری پہر میں کیا کرتا تھا-اور ایک رات خاموشی سے وہ طلب پوری ہوجاتی ہے-لکین وہ تنہائی اور ہجرت سفر کرتی ہے -اور وہ جو باب علم کہلاتا ہے اس میں سرایت کر جاتی ہے-یادوں کی ایک سولی ہے جو گڑھی ہوتی ہے-اور ان سے سے بچنے کے لئے کوفہ کو ایک اور ہجرت کر لی جاتی ہے-لکین دیو مالائی سچ کا پیچھا تنہائی نہیں چھوڑتی -یہ ساتھ ساتھ چلتی ہے اور پھر ایک تلوار کا وار ہوتا ہے "فزت برب الکعبہ"کی صدا بلند ہوتی ہے -لوگ سمجھتے ہیں کہ شائد اب سفر ختم ہو گیا-اور قافلہ واپس اپنے مدینہ کو لوٹ جاتا ہے-لکین غربت،ہجرت،بیگانگی جیسے مقدر ہوجائے -یہ مقدر کسی کے جگر کو زہر سے کاٹ کر اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے بھی ساتھ ہی رہتا ہے-اور پھر ہجرت کا ایک اور سفر شروع ہوتا ہے اور اس کا اختمام کربلا میں ہوتا ہے-آج کے بعد جو بھی ہجرت ہوگی اور جو بھی بیگانگی کے سندور کو اپنی مانگ میں سجائے گا -اس کی ہجرت کا سفر کربلا میں ختم ہوگا اور بیگانگی کے سندور کو اپنی مانگ میں سجانے والی سہاگن کو اس کا پیا بھی اسی کربلا میں ملے گا-یہ کربلا بھی ایسی ہے کہ اس کی طرف سفر کرنا کبھی بھی آسان نہیں رہا-آج بھی اس کی طرف جاتے ہوئے خون کے سمندر کو عبور کرنا لازم ہوتا ہے-
لکین میری کربلا اگرچہ اسی کربلا سے جڑی ہوئی ہے-لکین نہ تو میری شہر بانو میرے ساتھ ہے-نہ ہی میرے خیمہ میں کوئی مجھے رخصت کرنے والا ہے-کوئی نہیں ہے جس سے میری آنکھیں چار ہوں اور ہم چند لمحوں میں ساری زندگی کی کہانی کو بیان کر جائیں-
مجھ پر غربت ،ہجرت،بیگانگی کا یہ عالم کیوں ہے ؟اس کو شائد میں کبھی بیان ہی نہ کر پاؤں-میں اپنی کربلا کی داستان رقم کرنے بیٹھا ہوں تو میری اس داستان کو کسی فرقہ یا مسلک کی تنگ نظری سے پرکھنے کی کوشش مت کیجئے گا-کیوں کہ دیو مالائی سچ جس روح کے ساتھ ہو جاتا ہے -وہ روح کسی مسلک اور کسی فرقہ کے قالب میں سما نہیں پاتی-لکین کربلا اس وقت ایک اعزاز ہوتی ہے جب آپ کی شہر بانو آپ کے ساتھ ہو -اور آپ کے خیمہ جاں میں وہ مقتل کی طرف جاتے ہوئے آپ کو رخصت کرتے وقت آنکھوں ہی آنکھوں میں ان کہی بہت سی باتیں کہ جائے-اور اگر وہ کہیں گم ہو جائے اور کربلا کا سفر آپ کو تنہا کرنا پڑے تو پھر جو عذاب آپ کی جاں پر اترتا ہے -اس کا بیان نہیں ہو سکتا-ہاں یہ سچ ہے کہ یادوں کی ایک مالا ہے جس کو میں اپنے عاشور کے آنے سے پہلے پہلے گلے میں لٹکا سکتا ہوں -اور اپنے سفر کو کچھ آسان کرسکتا ہوں-
مجھے اب سے کچھ دیر بعد اپنے خیمہ سے نکل کر جانا ہے -اور میں چاہتا ہوں کہ جانے سے پہلے کچھ اعتراف کرتا چلوں -وہ اعتراف کیا ہے -وہ یہ ہے کہ '
"شہر بانو !تم میری ساری کی ساری دیو مالا کا سر عنوان ہو-میری ہستی کا ہست ہو اور میرے وجود کا وجد ہو-میری کن کا کون ہو-اور میری هویت کا ہو ہو -میری بصیرت کا بصر ہو-میری سماعت کا سماع ہو-میرے مظہر کا جوہر ہو-اور تم بس تم ہو اور میں بھی تم ہو-میں دوئی کا تصور بھی کفر سمجھتا ہوں اور تم سے خود کو الگ تو کیا تمہارے بعد کسی اور کی هویت کو بھی محال خیال کرتا ہوں-لکین یہ جو حضوری ہے میری اس میں بھی ایک ہجر اور ایک فرق چھپا ہوا ہے-اور میں بس اس کی آگ مئی سلگرھا ہوں-اسی ہجر نے مجھے اس کربلا میں تنہا کر دیا ہے-اور تم جو میرے اند جذب ہو آج مجھے بہت دور نظر آتی ہو -لکین میری محبت ہے کہ وہ سرد ہونے کی بجائے اور گرم سے گرم تر ہوتی جاتی ہے-ہجر کی آگ اس کو جلانے کی بجائے اور تیز کرتی جاتی ہے-میں زندگی کے سارے عذابوں سے نکل کر آگیا -اور میں نے ہر نار نمرود کو پار کر لیا -لکین آج یہ کربلا مجھ سے پار نہیں ہونے والی -اس لئے یہ شہر بانو تم آج یہاں نہیں ہو-میں تم سے کہنا چاہتا ہوں کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں اور محبت کا دوسرا نام جذب ہونا اور کسی کا حصہ ہوجانا ہوتا ہے-اور دوئی کا مٹ جانا بھی -لکین یہ کیا کہ میری کربلا میں دوئی تو برقرار ہے اور میں یہاں تنہا ہوں اور تم نہیں ہو-مجھے لگتا ہے کہ کہ شہر بانو مائیں تمہارا امیر نہیں رہا-اور تم میری شہر بانو مجھ سے کہیں دور بہت دور چلی گئی ہو-میں جو کبھی ٹوٹ کر اور بکھر کر بھی نہیں بکھرا تھا آج میں ٹوٹ بھی رہا ہونن اور بکھر بھی رہا ہوں-میں جو سارے انتشار ذات میں تمہارے وجود سے متحد رہا تھا -اب کہ جو منتشر ہورہا ہوں تو پھر اتحاد کا کوئی امکان نہیں ہے-میری کہانی لگتا ہے -اس کربلا میں اختتام پذیر ہے اور وہ بھی ایسے کہ یہ اصلی کربلا سے جڑی کہانی سے نہیں جرننے والی-تم جو ہر شب کو میرے لئے مولا سے امان طلب کرتی تھیں-کافی دن ہو گئے -تمھاری طرف سے مجھے وہ امان طلب کرنے کی خبر رات کے تیسرے پہر نہیں ملی-اور یقین جانو میں بھی ان راتوں میں ایک پل کو بھی نہیں سوسکا -مجھے ایسے لگا کہ اس امان کے بغیر صحرا کے جنگلی کتے اور سور مجھ پر بھونکتے ہیں-اور میرا خیمہ ان دیکھےخطرات میں گھر گیا ہے-مجھے صبح ہونے کا انتظار ہے-لکین تمہارے بغیر یہ رات بہت طویل ہو گئی ہے-مجھے یہ بھی ڈر ہے کہ کہینمیں اسی رات میں کربلا میں اپنا سفر ختم کر بیٹھوں -اور میری عاشور نہ ہو پائے-مجھے لگتا ہے کہ میں وہ بد نصیب دلہن ہوں جو پیا بن رہے اور بنا سہاگن ہوئے اپنے ہست کو نابود کر دے-اور کربلا کا ایسا مسافر جو امام کے قافلے کو خیمہ زن دیکھ کر بھی ان کے ساتھ نہ ہو -اور عاشور اس کی زندگی میں نہ آئی اور رات کو وہ صحرا میں کسی جنگلی جانور کی بھوک مٹانے کا سبب بن جائے-میں بھی تمھارے بنا کربلا میں بس ایسا ہی مسافر ہوں-میں کربلا میں ہوں-اور خیمہ میں تم نہیں ہو شہر بانو -بس یہی احساس ہے جو مجھے منتشر کے جاتا ہے-"

Thursday 3 November 2011

سب کی کہانی ایک ہے (افسانہ )

سب کی کہانی ایک ہے (افسانہ )



عامر حسینی



وہ رات کو دس بجے بس سٹینڈ پر پہنچ گیا تھا-اور پھر ایک گھنٹہ وہ بیٹھا رہا -تب کہیں جا کر بس آئی-وہ ڈیزرٹ رحیم یار خان جانا چاہتا تھا-وہاں اس کے دوستوں نے ایک تقریب رکھی تھی-وہ اس تقریب میں شرکت کرنے جا رہا تھا-اس کو اتنا لمبا سفر کبھی بھی بس میں کرنا اچھا نہیں لگتا تھا-وہ تو لمبے سفر کو ٹرین میں بیٹھ کر کرنے کا خواہاں رہا تھا-لکین اس کا ملک تیسری دنیا کا وہ ملک تھا جہاں اچانک اور کمبائنڈ ترقی کا تجربہ اپنے عروج پر تھا-وہاں موٹر وے تھی-فوج نے ایٹم بم بنا لیا تھا-بلیسٹک مزائل بنانے میں خود کفیل ہوچکی تھی-لکین ریل وے کے پاس انجن نہیں تھے-ان کے پاس دیسل نہیں تھا-تو ٹرین بھی کسی وقت کی پابند نہیں رہی تھی-اس نے پھر بھی ریل وے اسٹیشن جا کرآزمائی کی تھی -لکین اے بسا خاک کے آرزو شد والا معاملہ ہی رہا-سو وہاں سے پھر بس ٹرمینل پر آیا -یہاں سے ایک پوش بس سروس کا ٹکٹ لیا -گاڑی لاہور سے آ رہی تھی-اس نے آگے کراچی تک جانا تھا-تو یہ ایک گھنٹہ لیٹ ہو گئی-گیارہ بجے گاڑی آئی -وہ اس میں سوار ہوا -اس کی سیٹ درمیان میں تھی-اور اس کی طرف کھڑکی تھی-رات کا وقت تھا -گاڑی اپنی منزل کی طرف چل پڑی-اس نے آئی پوڈ نکالا اور ہیڈ فون کو کان سے لگا لیا-آئی پوڈ کو نکالتے ہوئے اس کو اس کے موجد سٹیو جاب کا خیال آ گیا -کہ کیسے اس نے ایک سرمایہ دار سے کچھ پیسے لیکر ایپل کمپنی کی بنیاد رکھی تھی-اور پھر فون کی دنیا میں اور کمپیوٹر کی دنیا میں اس نے انقلاب برپا کر ڈالا تھا-اس نے آئی پوڈ کی طرف عقیدت سے دیکھا اور تھوڑی دیر کے لئے سر کو جھکا لیا -سٹیو جاب مر چکا تھا-لکین اس کی موجودگی کا احساس اس کو یہ آئی پوڈ دلا رہا تھا-آئی پوڈ پر گیت چل رہا تھا



تیری یاد ساتھ ہے



جاوید اختر نے یہ گیت لکھا تھا-اور راحت اپنی آواز کا جادو جگا رہا تھا-اس کو سفر میں یہ گیت بہت ہانٹ کرتا تھا-اس نے آنکھیں بند کر لیں -سر کو سیٹ سے ٹکا دیا -اور سوچوں کے سمندر میں گم ہوگیا -



ابھی جب ہمارا یہ مسافر ذرا آنکھیں بند کئے ہوئے ہے-تو ہم اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مسافر کا تعارف کرتے چلیں-یہ سید انور کاظمی ہے-شاعر بھی ہے-لکین اس کی نظموں کو پاکستان کے لوگ زیادہ نہیں جانتے -اس نے ایک دور میں بہت سرگرم سیاست کی تھی-جب ملک میں ایک خادم اسلام حکومت پر براجمان تھا-جس کو سیاست سے ہی نہیں بلکہ فنون لطیفہ سے بھی بیر تھا-انور کاظمی ان دنوں یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا-اس کو آنکھوں کے خراب زاویے رکھنے والا اور ٹانگوں کے غیر جمالیاتی پھیلاؤ کا مالک امیر المومنین ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا-اس نے ان دنوں ایک نظم "عقل سے بڑی بھینسیں "لکھی تھی-اس نے یہ نظم ملک میں ملٹری کورٹ بنانے پر لکھی تھی-



عقل سے بڑی بھینسیں مسند عدالت پر فیصلے سناتی ہیں



بھونکتے ہیں وردی پوش ،کاٹتی ہیں سنگینین



دس کروڑ لوگوں کو موت کی سزا دے دو



یہ نظم اس نے کیا لکھی -اس کا تو اس ملک میں جینا ہی دوبھر ہوگیا-وہ ایک دن چپکے سے ملک سے فرار ہو گیا -اور جرمنی جا پہنچا-وہاں ایک عرصۂ تک اس نے فرینکفرٹ میں گزارا-سیاسی پناہ گزین کے طور پر -پھر جب بھٹو کی بیٹی برسر اقتدار آئی تو وہ ملک واپس آگیا-لکین اس کو یہ ملک بہت بدلا ،بدلا لگا-یہاں تو طبقہ بدلنے کی ایک دوڑ لگی ہوئی تھی-پلاٹ،پرمٹ ،ایجنسی کا ٹھیکہ اور کوئی سفارشی نوکری -یہ تھی سیاست ان لڑکوں کی بھی-جن کے بالوں میں کہیں کہیں اب سیفدی جھلکتی تھی-اور وہ سب انقلاب کو بھول کر اپنے سماجی مقام کو تبدیل کرنے کو زور دے رہے تھے-اس کی محبوب لیڈر امریکہ سے بہتر تعلقات بنانے کے لئے ان سارے لوگوں کو بیک سیٹ پر جانے کا کہ رہی تھی -جو کبھی امریکی سامراج کے خلاف نعرے لگاتے تھے-اور بھٹو کی بیٹی ان کو بھٹو کے سپاہی کہتی تھی-اس نے مغربی جرمنی اپنے بعض سرخ ساتھیوں کو سبز ہوتے دیکھا تھا-وہ اچانک مغرب کی لبرل ڈیموکریسی اور فری مارکیٹ کے دلدادہ ہوگئے تھے-ان کو لگتا تھا جس ارضی جنت کی ان کو تلاش تھی -اس کو انھوں نے پا لیا ہے-



انور تو خود کو سیاسی پناہ گزین خیال کرتا تھا-اور وہ بس پیٹ کا اندھیں بھرنے اور بنیادی ضرورتیں پوری کرنے جتنی مزدوری کیا کرتا-ہر ہفتہ کو مختلف اخبارات کے دفاتر تک جاتا -پاکستان میں جمہوریت کی بحالی ،سیاسی آزادی کے لئے مغرب کے جمہوریت پسندوں کے ضمیر پر تازیانے برساتے بیانات اور مضامین دیتا -ان سے سوال کرتا کہ ان کا ضمیر کہاں ہے-جو ایک امر اور بنیاد پرست کو مال دینے اور اس کو مدد دینے پر بھی خاموش رہتا ہے-ریگن کو وہ مولوی ریگن اور تھیچر کو وہ نن تھیچر کہا کرتا تھا-لکین جب جمہوریت بحال ہوئی -اور وہ پاکستان بھاگا بھاگا آیا تو -یہاں کے حالات دیکھ کر اس کو سخت مایوسی ہوئی-اس نے ایک خاموشی سے واپس فرینکفرٹ کی فلائٹ پکڑی اور پاکستان چھوڑ دیا-واپس آکر بھی وہ بس زندگی کی گاڑی کو گھسیٹتا ہی رہا-پاکستان کی خبریں اس کو ملتی رہتی تھیں-جمہوریت کی آنکھ مچولی اچانک ١٢ اکتوبر کو ایک جنرل نے ختم کر دی-یہ جنرل آیا تو اس کی ایک تصویر اس نے جرمنی کے ایک بڑے اخبار میں دیکھی-دو کتے بغل میں دبائے وہ لبرل پوز کے ساتھ نظر آ رہا تھا-یار لوگوں نے اس کے ڈھمکوں وٹ دختر انگور کو پی کر تال پر جھومنے کو پاکستان سے رجعت پسندی سے نجات کی دلیل قرار دے ڈالا-وہ ہنستا تھا-اس کو نہ تو اے آر ڈی کے تماشے سے کوئی دلچسپی تھی-نا ہی اس کو فوجی کی لبرل مسخرہ گیری سے-لکین جس دن راول پنڈی کی سڑک پر بھٹو کی بیٹی کا خون گرا تھا تو ناجانے کہاں سے اس کے اندر کا وہی جیالہ انور بیدار ہو گیا تھا -جو اس کی جوانی کے سورج کے نصف النہار پر اس کے عمل اور قول سے جھلکتا رہتا تھا-وہ گڑھی خدا بخش کے قبرستان جا کر رویا بھی تھا-لکین اس نے دیکھا کہ یہ خون بھی ملک کی سیاست میں کوئی تبدیلی لانے سے قاصر رہا تھا-وہ جرمنی سے واپس جب آیا تھا تو اس نے اپنا لیپ ٹاپ ان کیا اور پھر فیس بک کھولی تو اس کے دوست ریاض نے اس کو ایک فوٹو ارسال کی تھی-اس فوٹو میں ملک کے وزیر داخلہ رحمان ملک کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری لیتے دکھایا گیا تھا-تصویر میں کھڑے ایک مرد اور عورت کو پہچانتا تھا-یہ تو ٧٠ میں اس کے ساتھ سرخ سرخ سیاست کرتے رہے تھے-اور انور کی کم علمی کا مذاق اڑایا کرتے تھے-آج ایک جاہل کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری دیتے ہوئے بہت خوش نظر آتے تھے-اس نے سوچا کے ریاض کو بھی یقین نہیں آتا ہوگا کہ لوگ ایسے بھی بدل جاتے ہیں-اس نے فیصلہ کیا تھا کہ کراچی جا کر ریاض کو ضرور کہانی سنائے گا کہ کیسے اس کے کئی دوست بدل گئے تھے -اسے منیر نیازی کا شعر یاد آیا


آنکھوں میں پھر رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول


عبرت سرائے دھر ہے ،اور ہم ہیں دوستو


لٹی محفلوں کی دھول بھی آنکھوں میں رڑک بن کر جب پھرتی ہے -تو تکلیف ہو بھی تو بتائی نہیں جاتی -بہت دور کسی رستے پر جا کر اچانک پتہ چلتا ہے کہ یہ رستہ تو کوئی اور رستہ تھا-اس وقت چہرے پر پہلے اداسی اور ملال کے رنگ صاف نظر آتے ہیں-ہمارا یہ مسافر ابھی کیوں کہ تھکا ہوا ہے-اس لئے سو رہا ہے-اس کا سر ساتھ والی سواری کے کندھوں پر جا لگا تھا-اس کے ساتھ بیٹھا ہوا مسافر کوئی بہت نرم دل والا لگتا تھا-جو خاموش تھا-اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اب تک کہ چکا ہوتا کہ اپنے سہارے پر نیند پوری کیجئے -ویسے ہمارا یہ مسافر جاگ رہا ہوتا تو شائد ابھی تک وہ بھی معافی کا طلبگار ہوجاتا-اس مرتبہ جب وہ پاکستان آیا تھا تو پاکستان میں اس کو یہ تبدیلی لگی تھی کہ اس ملک کا مڈل کلاس طبقہ کی نوجوان پرت انقلاب اور تبدیلی کی بات کر رہی تھی-ان میں اکثر نوجوان وہ تھے -جو اس کے زمانے میں جی سی لاہور یا ایف سی لاہور میں پڑھا کرتے تھے-اور اس زمانے کے فیشن کے مطابق وہ یا تو ہپی ازم کے دلدادہ ہوا کرتے تھے -یا بہت کیا تو سوشلسٹ ہوجاتے تھے-برگر سی یہ کلاس ان دنوں بھی انقلاب کی بات کرتی تھی تو بہت عجیب لگتا تھا-انور جیسے بہت سارے لڑکوں کی سمجھ میں یہ نہیں آتا تھا کہ ان کو کون سے دکھ اور تضاد اس لڑائی میں گھسیٹ لائے ہیں-آج کی یہ برگر کلاس بھی اس کو انقلاب کے سلوگن کے ساتھ بڑی عجیب لگی تھی-لاہور میں مینار پاکستان کے سائے میں کرکٹ کے سابق ستارے کی قیادت میں برگر فیملیز کے لڑکوں اور لڑکیوں کا جم غفیر تھا-اور ان میں بہت سے لوئر مڈل کلاس کے لڑکوں اور لڑکیوں کا ہجوم بھی تھا-جو برگر فیملی کے بچوں کی ڈریسنگ اور بولنے کے انداز سے ویسے ہی متاثر ہوئے جاتے تھے -جیسے کبھی انور اور اس کے ساتھی ہو جاتے تھے-ان کی آنکھوں میں رشک اور چند خواب اچانک سے آ کر جو چمکنے لگتے تھے -اس سے انور کو ایک ہی جلسہ میں ایک طبقے کی دو پرتوں کے درمیان کا فرق خوب معلوم ہو رہا تھا-بس اس مرتبہ فرق یہ تھا کہ اس جلسہ میں بھٹو کے ٧٠ والے اور اس کی بیٹی کے ٨٦ والے جلسوں کی طرح مزدوروں ،کسانوں اور غریبوں کی وہ پرتیں موجود نہ تھیں -جن کے بدن کی نیم عریانی چھپائے نہ چھپتی تھی-ان میں ٹپکتی چھت والا کوئی نہ تھا-ان میں جھگی میں رہنے والا کوئی نہیں تھا-ریلوے کی پٹٹری کے ساتھ ساتھ بسنے والی بستیوں کے مکینوں میں سے کوئی ادھر نہ تھا-وہ سارے لوگ کہاں گئے تھے -انقلاب اور تبدیلی جن کے سلوگن ہوا کرتے تھے-یہ وہ ملک تھا جس میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ٤٠ فیصد لوگ سطح غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے-شہری غریبوں کی شمولیت اس میں نہ تھی-یہ ایک نی مڈل کلاس تھی جو ٩٠ کی دہائی میں ابھر کر سامنے آئی تھی-اب اس مڈل کلاس کی نی نسل تبدیلی کے سلوگن کے ساتھ آگے تھی-

بس اپنے مقررہ رستے پر رواں دواں تھی کہ اچانک بریک لگنے سے زور کا جھٹکا لگا اور ہمارے مسافر کی آنکھ کھل گئی-انور نے کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا -گاڑی بہاول پور پہنچنے وی تھی-بس ہوسٹسس کہ رہی تھی کہ وہاں بس ٹرمینل پر پندرہ منٹ کا سٹاپ ہوگا-

بس ٹرمینل میں داخل ہو گئی-آسمان پر بدل چھائے ہوئے تھے-انور باہر نکلا اور ویٹنگ روم میں جانے کی بجائے باہر کھڑا ہوگیا -اس نے جیب سے سگریٹ کیس نکالا اور سگریٹ پینا شروع کر دی -بادلوں سے چاند آنکھ مچولی کھیل رہا تھا-ستارے آسمان میں کہیں نظر نہیں آ رہے تھے-انور کو بہاول پور کی رات ویسے بہت پسند تھی-ریاست کے پورے علاقے میں اس کو چاندنی راتوں سے عشق سا تھا-ایک مرتبہ جب وہ ضیاء آمریت سے بھاگا پھر رہا تھا تو اس نے کافی دن اور راتیں بہاول پور میں گزارے تھے-یہاں قائد اعظم میڈکل کالج سرخوں کا گڑھ تھا-آج اتنے عرصے کے بعد بس ٹرمینل پر کھڑے -رات کے اس پہر میں اور بادلوں کی چاند سے آنکھ مچولی دیکھ کر اس کو کئی کہانیاں سی یاد آ کر رہ گئی تھیں-اس کو بے اختیار میڈکل کالج کی نہال اختر کی یاد آئی تھی -وہ بھی مفروری کے دن کاٹ رہی تھی-وہ بھی عجب دن تھے -جب دانشوروں کی ایک پرت بہت جوش میں تھی-نہال اختر نے تازہ تازہ پولینڈ کا دورہ کیا تھا-وہاں کے دانشوروں نے ایک تحریک آمریت کے خلاف چلائی ہوئی تھی-وہ بھی بس اسی سے متاثر ہوکر نکل پڑی تھی-غضب کی تحریریں لکھتی تھی-ضیاء کو میڈک جیسی آنکھوں والا قرار دے ڈالا تھا-ہندو صنمیات کے کردار راون اور راکھشش سے اس خادم اسلام کو تعبیر کرنا بہت بڑا جرم تھا-بس مارش لاء کا حکم نمبر ١٩ کی زد میں آ گئی تھی وہ-سرو جیسا قد-غزال جیسی آنکھیں ،کتاب جیسا چہرہ ،ہرنی جیسی چال ،پتلی سی کمر ،یہ بڑی بڑی آنکھیں ،ان پر پڑی جھالر ،کمان کی طرح کھنچی ابرو -غرض ایک شاعر کے لئے وہ سارے سامان رکھتی تھی-جو شاعری میں بطور مواد کا کام کرتے ہیں-مگر وہ یہ سب چھوڑ چھاڑ سیاست کی پر خار وادی میں آ نکلی تھی-سیکولر تھی-مذھب سے بیزار تھی-آزاد خیال تھی-مگر یہ آزاد خیالی وہ نہیں تھی -جو جماعت اسلامی کا ہر صالح جوان اپنے گرد لوگوں کو بتلایا کرتا تھا-جمعیت کے لڑکوں کی اس سے جان جاتی تھی-پچھلی مرتبہ جب وہ جرمنی سے فرانس گیا تھا -تو پیرس میں اس کی ملاقات خالد احمد سے ہو گئی تھی-تو اس نے انور کو بتایا تھا کہ "یار!تم کو معلوم ہے کہ نہال اختر فرانس میں حزب الله کی خواتین ونگ کی انچارگ بن گئی ہے-اور وہ حجاب لینے لگی ہے-ساتھ ساتھ درس قرآن بھی دیتی ہے-"یہ سب سن کر انور کو بہت حیرانی ہوئی تھی-خالد اس کو نہال اختر سے ملانے لے گیا تھا-وہ پیرس کے پوش علاقے میں رہ رہی تھی-بہت خوبصورت فلیٹ تھا اس کا-ڈرائنگ روم میں نجف اشرف ،روضۂ امام حسین ،روضۂ بیبی زینب کی تصویر لگی تھیں-ایک طرف دیوار پر تلوار ذوالفقار کا نقش بنا ہوا تھا-یہ سب دیکھ کر اس کو بہت اچنبھا ہوا تھا-پھر جب ایک سیاہ عبایا میں لپٹی اور چہرے پر حجاب لئے جس میں سے صرف آنکھیں جھلک رہی تھیں نہال ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تھی -تو اس کو دیکھ کر یقین نہیں آتا تھا کہ یہ ووہی نہال ہے جس کی مذھب بیزاری کے قصے زبان زد عام ہوا کرتے تھے-اور آج وہ حزب الله جیسی کٹر بنیاد پرست جماعت کے ساتھ کھڑی تھی-انور نے اس سے ماضی کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا تھا-اس کے ذہن میں جرمنی میں ایک کیمونسٹ کی باتیں گھوم رہی تھیں-جس نے اس کو کہا تھا کہ یار یہ جو مڈل کلاس ہوتی ہے نا-اس کے کردار کی چنچ بہت مشکل ہوتی ہے-یہ کچھ بھی کر سکتی ہے-کئی بھیس بدل لیتی ہے-اور ہر کردار جم کر اور ڈوب کر کرتی ہے-نا جانے نہال اختر کیوں ایسے اس کیمونسٹ کی کہی ہوئی بات کا مصداق لگی تھی-اس کو خیال آیا تھا کہ کہیں اس نے نہال کو دیکھ کر تو یہ سب نہیں کہا تھا-وہ انہی خیالوں میں گم سگریٹ کے مرغولے اڑا رہا تھا -کہ اس کے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھ رکھا -اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو یہ اس کے ساتھ والا مسافر تھا-اس نے کہا -دوست گاڑی سفر کے لئے تیار کھڑی ہے-اس نے تشکر بھری نگاہ سے اپنے ہمسفر کو دیکھا -سگریٹ کو پاؤں سے مسلا اور گاڑی کی طرف چل دیا -

گاڑی اپنے رستے پر رواں دواں تھی-خیالوں کی یلغار تھی جو اس کو گھیرے ہوئے تھی-وہ یونہی خیالوں میں گم تھا-کہ کب احمد پور شرقیہ کا ٹول پلازہ آ گیا -نوابوں کا یہ ڈیرہ-جس کو ڈیرہ نواب صاحب بھی کہتے ہیں-اب وہ شان و شوکت نہیں رکھتا -جو کبھی رکھا کرتا تھا-بلکہ یہ تو انتہائی پسماندہ قصبے میں بدل چکا تھا-اس کو یاد تھا کہ ایک مرتبہ وہ یہاں دو راتیں رہا تھا-وہ برسات کے دن تھے-تو سارا احمد پور جوہڑ میں بدلا ہوا تھا-وہ جہاں ٹھہرا ہوا تھا -وہ صاحب بہت عالم فضل تھے-جج تھے-مگر جمہوریت کے بہت حامی تھے-ان کا گھر سرکار کے مفروروں کی جائے پناہ بنا ہوا تھا-گاڑی جہاں سے گزر رہی تھی -وہاں کنارے پر سی این جی فلنگ اسٹیشن اور جدید گیسٹ ہاؤس تھے-ایک پر لکھا تھا فوڈ کلب -وہ یہ ترقی اور پستی کی ساتھ ساتھ ہونے کی کہانی پورے پاکستان میں دیکھ چکا تھا-لکین پنجاب سے نکلتے ہوئے سرائیکی بیلٹ میں آتے ہوئے یہ ساتھ کچھ زیادہ ہی گھمبیر صورت اختیار کر لیتا تھا-

بس صبیح پانچ بجے چوک بہادر میں بنے بس ٹرمینل پر پہنچی -وہاں پر اس کو لینے رئیس بہادر آئے ہوئے تھے-رئیس اس کا یونیورسٹی فیلو تھا-اور جب وہ جرمنی سیاسی پناہ میں گیا تھا تو رئیس وہاں موجود تھا-وہ رحیم یار خان کی ایک جاگیردار فیملی کا چشم وچراغ تھا-رئیس نے اس کو سختی اور مشکل کے دنوں میں بہت سہارہ دیا تھا-ان کی دوستی بہت گھہری ہو گئی تھی-رئیس بہت نیک دل اور یاروں کا یار تھا-وہ کہیں جاتا یا نہ جاتا -پاکستان آ کر رئیس کے پاس ضرور رکتا تھا-اس مرتبہ رئیس نے اس کو ڈیزرٹ لیکر جانا تھا-رئیس اپنی لینڈ کروزر لیکر آیا تھا-بس سے اترا تو رئیس اس ک گرم جوشی سے ملا-

انور سائیں !لگتا ہے عمر کا ایک پھر تم پر آ کر ٹھہر گیا ہے-لگتا ہی نہیں ہے کہ تم عمر کی پچاسویں سیڑھی پر قدم رکھ چکے ہو -"رئیس نے اس کو دیکھ کر کہا-

انور کے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ تھی-یہ دیکھ کر رئیس بولا -یار !تم بس میں بیٹھ کر حسب معمول خیالوں کی گھاٹیوں میں اتر گئے ہوں گے-اور سالوں کا سفر چند گھنٹوں میں طے کر گئی ہونگے-یہ سن کر انور پھر مسکرایا -اور آہستہ سے بولا -

"رئیس!یاد ماضی ہم جیسے افتاد گان خاک کے ا عذاب ہوا کرتی ہے-یہ تم جیسے عرش نشینوں کے سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے-"

رئیس اور انور دونوں گری میں بیٹھ گئے-اور بس باتوں ہی باتوں میں رئیس کا بنگلہ آگیا -وہ تھکا ہوا سا تھا-رئیس نے اس کو آرام کرنے کو کہا-وہ جاتے ہی مہمان خانے میں ایک کمرے میں سو گیا-اور اس کو شام کو رئیس نے اٹھایا-اور کہا بابا بس کرو-اب اٹھو-نہاؤ اور فریش ہو کر ڈرائنگ روم میں چلے آؤ-ڈیزرٹ چلنا ہے-وہ فریش ہو کر ڈرائنگ روم میں آیا تو یہاں دو مرد اور اور ایک عورت موجود تھی-رئیس نے طرف کرایا-

ان محترمہ سے ملو !یہ میری خالہ کی بیٹی ہیں-سٹیٹس سے پڑھی ہیں-ان کا نام صوت فاطمه ہے-سوشیالوجی میں پی یہ ڈی کے ہوئے ہیں-کل آئی ہیں-بس ڈیزرٹ دیکھنے کا شوق ہے-اور یہ طارق ہیں-رئیس نے ایک فربہ سے آدمی کی طرف اشارہ کیا-یہ انکم ٹیکس افسر ہیں-یہ مراد علی ہیں-فروٹ بزنس سے وابستہ ہیں-اور دوستو!یہ انور کاظمی ہے-میرا یار !اور آپ کی پرخار سیاست کا ایک بھولا بسرا کردار-صوت فاطمه یہ سن کر چونکی-اور کہنے لگیں -اوہ !آپ ہیں وہ -رئیس نے مجھے امریکہ میں تمہاری بہت سی باتیں باتیں تھی-میں آپ سے ملنے کی مشتاق تھی-

انور نے بس شکریہ کہنے پر اکتفا کیا-وہاں جو بھی باتیں ہوتی رہیں-اس میں وہ ہوں ،ہاں سے زیادہ اضافہ نہیں کر سکا-پھر اتنے میں ملازم نے آ کر کہا کہ سامان گاڑیوں میں رکھوایا جا چکا ہے-دو گاڑیوں میں سے ایک میں بس صوت فاطمه اور انور تھے-جب کہ دوسری گاڑی میں رئیس اور اس کے دونوں دوست بیٹھ چکے تھے-گری جب پورج سے کھلے صحن کی طرف آئی تو اس نے دیکھا کہ اسسمن سیاہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا-ہلکی ہلکی پھوار پر رہی تھی-گاڑی شہر کی مختلف سڑکوں سے ہوتی ہوئی -کینٹ میں داخل ہو گئی-اور پھر ڈیزرٹ والے رستے کی طرف چل پڑی-فاطمه بولی ! یہ سڑک متحدہ عرب امارات کے خلیفہ نے بنوائی تھی--رستے میں اس کا محال بھی آیا تھا-خلیفہ اور اس کے دیگر لوگ اس علاقے میں آرام کرنے آتے تھے-اور پھر کئی کہانیاں سینہ بسینہ بھی چلی آتی تھیں-فاطمه اس کو کہنے لگی کہ کیسے غربت اور مجبوریاں ان عیاش بادشاہوں کو ان داتا اور غریب پرور ہونے کا خطاب دلا جاتی ہیں-انور فاطمه کے منہ سے یہ الفاظ سنکر چونکا تھا-اور اس نے فاطمه کے چہرے کی طرف دیکھا تھا-جو شدت جذبات سے سرخ نظر آتا تھا-وہ اپنے غصہ کو دبانے کی کوشش کر رہی تھی-

انور نے اس سے پوچھا کہ وہ کیوں اس سے ملنا چاہتی تھی-تو فاطمہ کہنے لگی کہ وہ جب امریکہ پڑھنے گئی تو وہاں ایک فلسطینی لڑکی اس کی دوست بن گئی تھی-جو کہ سوشلسٹ تھی-وہ اس سے پہلے سیاست کو بلکل پسند نہیں کرتی تھی-یہ لیلیٰ احمد تھی جس نے اس کو اس رستہ پر ڈالا تھا-اس نے امریکی معاشرے میں پائے جانے والے طبقاتی اور نسلی تضاد سے اس کو روشناس کرایا تھا-اس نے نیو یارک کی تنگ و تاریک گلیوں میں اور کسی متروک سب وے یا متروک گٹر لائن میں زندگی کو جبر مسلسل کی طرح کاٹتے کالوں کو دیکھا تھا-اور پھر امریکی سرمایہ کی چکا چوند میں زندگی بسر کرتے راک فیلروں کو بھی-تو اس کو احساس ہوا تھا کہ کیسے یہ فرق تو ہر جگہ موجود تھا-چند لوگوں کے پاس سب کچھ تھا-اور اکثریت کے پاس کچھ نہ ہونے کے برابر-اور وہ اس پر بھی لڑ رہے تھے-بس یہیں سے میری کیا کلپ ہوگی-میں نے چند کو چھوڑا اور اکثریت کے ساتھ ہو گئی-میں سٹیٹس میں سوشلسٹ ورکرز پارٹی کے ساتھ ہوں-لوگ ہمیں دیوانہ اور نہ جانے کیا کچھ کہتے ہیں -لکین ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہے-رئیس وہاں آیا تھا -تو اس نے دیکھا کہ میرا فلیٹ تو کمیون بنا ہوا ہے-تو اس نے میری باتیں سنی تو کہنے لگا کہ تم بھی مجھ کو دوسری انور کاظمی لگتی ہو -میں نے اس سے تمہارے بارے میں پوچھا تو اس نے جو بتایا -وہ تو ہم سے بہت قریب تھا-یہ کہ کر صوت فیتمہ خاموش ہو گئی-

اتنے میں گاڑی ڈیزرٹ میں داخل ہو گئی-رئیس وغیرہ بھی اتر آئی تھے-موسم بہت سہانا تھا-شام کا اندھیرا ابھی پھیلنے لگا تھا -رئیس کے دو ملزموں نے گاڑی سے سامان نکالا -اور پھر انھوں نے تھوڑی دائر میں دو خامے نسب کر ڈالے -اس کے دوست رات کو گاڑی میں لگی سرچ لائٹ کی مدد سے شکار کھیلنا چاہتے تھے-صوت فاطمه نے کہا کہ اس کو شکار سے کوئی دلچسپی نہیں ہے-انور کو بھی نہیں تھی-رئیس ہنس کر بولا کہ آپ ذرا دماغ سوزی کرو -ہم شکار سوزی کرتے ہیں-دور دور تک صحرا کی ریت پہلی ہوئی تھی-صوت فاطمه ڈارک مالٹائی کلر میں صحرا میں کھڑا کوئی صحرائی درخت لگ رہی تھی-وہ دونوں ریت کے ٹیلوں کے درمیان چلنے لگے -اور پھر ایک ٹیلے پر جو نسبتاً اونچائی پر تھا جا کر صوت فتیمنہ بیٹھ گئی-وہ دور کہیں دیکھ رہی تھی-انور نے اس کو واپس لانے کے لئے ہلایا-وہ چونک گئی-

کیا سوچ رہی تھیں ؟انور بولا

میں سوچ رہی تھی کہ یہ صحرا کس قدر خاموشی کے ساتھ چند اجنبی لوگوں کی آمد کو برداشت کے ہوئے ہے-جبکہ انسانوں کے ہاں یہ دستور نہیں ہے-وہاں تو ہجرتوں کے سلسلے بھی اب و دانہ کی تلاش میں ہوتے ہیں-یا قبضہ گیری لوگوں کو گھر سے بےگھر کر دیتی ہے-ہم تو مہاجر کونجوں کو بھی صحیح سلامت واپس وطن جانے نہیں دیتے -

انور بولا ٹھیک کہتی ہو -فاطمه انسانوں کے ہاں جب سے تقسیم شروع ہوئی تب سے کسی ہجرت کو خوش آمدید کہنے کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا-اب ہجرتیں مرضی سے نہیں بلکہ جبری طور پر ہوتی ہیں-مرضی سے تو بس سرمایہ حرکت کرتا ہے-اس کا جہاں دل کرتا ہے چلا جاتا ہے-منڈی کی دنیا میں آزادی بس اسی چیز کا نام ہے-

انور اور فاطمه نے اس رات بہت سے باتیں کی تھیں-صبیح کب ہوئی-کب وہ واپس آئی اور کب وہ جرمنی اور امریکہ میں اپنی اپنی منزلوں کو روانہ ہوئے -ان کو یاد نہیں تھا-ایک جست میں لگتا تھا یہ سارا سفر ہوگیا تھا-لکین دونوں کو لگتا تھا کہ وہ اپنا کچھ بلکہ بہت کچھ وہیں صحرا میں چھوڑ آئی تھے-یہ بہت کچھ کیا تھا ؟دونوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا-

نیو یارک میں بروک لیں کی ایک گلی میں ایک سٹریٹ میں صوت فاطمه کے فلیٹ پر وال سٹریٹ پر قبضہ کرلو تحریک کے تحت کل کے جلوس کی تیاری ہو رہی تھی-سٹرٹیجی کی بات تھی-فاطمه نے کچھ تجویزیں دین اور پھر چھپ ہو گئی-بیٹھے بیٹھے وہ اسی ڈیزرٹ میں پہنچ گئی-انور کو وہاں دیکھنے لگی-

ادھر انور ارجنٹائن میں بیونس آئرس میں ایک کیفے میں بیٹھا تھا-وہ یہاں اپنے محبوب رائیٹر پاؤلو کوہلو کے ایک پرگرام میں شریک ہونے کے بعد اس کے ساتھ کافی پینے چلا آیا تھا-کوہلو اس کو اپنی محبوبہ کی کہانی سنا رہا تھا -کہ کیسے وہ اس کو اس سفر میں ملی تھی جو اس نے نروان پانے کے لئے کیا تھا-وہ دیوار گریہ کے قرین یروشلم میں ملے تھے-وہاں اسرائیلی تاریخ سے لیکر صہونیت تک کی تاریخ کا سفر انھوں نے اکٹھا کیا تھا-بس اسی سفر کے دوران ان کو ایک دوسرے سے محبت ہو گئی تھی-اور وہ ایک ہو گئے تھے-

یہ سن کر انور نے وہیں بیٹھے بیٹھے صوت فاطمه کا نمبر ڈائل کرنے کے لئے موبیل نکالا تو اس پر پہلے ہی سکرین پر صوت فاطمه کا نمبر چمک رہا تھا-اس نے یس کا بٹن پش کر کے ہیلو کہا تو آگے سے فاطمه بولی -

"انور تم تھے کہتے تھے کہ سب کی کہانی ایک ہے-میں جرمنی آنا چاہتی ہوں-"

انور یہ سنکر بولا میں بھی تمھیں یہی کہنا چاہتا تھا-نہ تم جرمنی آؤ ،نہ میں امریکہ -ہم دونو پھر اسی ڈیزرٹ میں اکٹھے ہوں گے -اور اس مرتبہ ہجرت جبری نہیں بلکہ مرضی کے ساتھ ہوگی-