Monday 19 December 2011

دسمبر (افسانہ) عامرحسینی

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ میری رجائیت بہت تیزی سے ختم ہونے لگے گی -شک کے سائے طویل ہوجائیں گے-اور مجھ میں کوئی تلخی کسی جگر کو خوں کردینے والے زہر کی طرح میری ہستی میں گھل جائے گی -اور مجھے اپنے اعصاب پر ایک ان دیکھا خوف ہر دم طاری ہوا ملے گا-بہت خوبصورت دن تھے-اور بہت ہی خوبصورت راتیں تھیں-ایک جوش تھا من میں اور ایک جزبہ تھا دل میں -جسے شائد انگریزی کا شاعر ولیم بلیک جوانی کا جوش کہتا ہے-میرے ایک ہم دم رفیق تھے وقار اسلم بلوچ-ہم دن رات اکٹھے گزارتے تھے-وہ پرویز صاحب کے عاشق تھے اور میں کارل مارکس کا-لکین بہت مزے لیکر ادب اور شعر کی محفل سجاتے تھے-ہم نے سال کے آخری دنوں کی سردی کو لمبی دھند بھری راتوں میں تنہائی کو اکٹھے اپنے صحن میں،گلی،بازار میں اترتے دیکھا تھا-اور سارے جہاں کی باتیں تھیں جو ہم کرتے تھے-عجب رنگ کی اداسی تھی-جس میں مایوسی نہیں ہوتی تھی-اس اداسی میں بھی امید کے چراغ جلا کرتے تھے-شہر کا سناٹا ہمیں کاٹ خانے کو نہیں دوڑتا تھا-وہ اور میں رات کو جب نکلتے تھے تو گرلز ہاسٹل سے سحربھی ہمارے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلا کرتی تھی-خود کو گرم رکھنے کےلئے برانڈی کے چند گھونٹ ہم اپنے اپنے معدوں میں اتار لیا کرتے تھے-وقار اسلم ایسے موقعہ پر ہمیں پرانے شہر کی تنگ و تاریک گلیوں سے لیجاتا ہوا سول لائن میں آنکلتا تھا-اور یہ سول لائن کسی زمانے میں انگریزوں نے تعمیر کی تھی-اور آج یہاں کے اکثر بنگلے پرانی طرز کے تھے-اور ان میں پرانی اشرافیہ یادگار زمانہ کی طرح رہتی تھی-وقار اسلم کا معمول تھا کہ وہ ہمیں سول لائیں لیجانے سے پہلے کرسچن کی اس بستی سے ضرور گزارتا تھا -جہاں برصغیر کے وہ افتادگان خاک بستے تھے جو اپنی ذات کے چھوٹے پن کو ختم کرنے کے لئے کرسچن ہوئے تھے-لکین انگریز نے ان کو اپنے برابر میں بٹھانا پسند نہ کیا-اور ان کی بستی کو اس طرح سے بنایا کہ وہ انگریز حاکموں کی ترقی یافتہ کالونی اور غلام بنا لئے گئے ہندوستانی باشندوں کے پرانے شہر کی تنگ و تاریک گلیوں والے محلوں کے درمیان عملی طور پر ایک بفر زون بن کر رہ گئی-ان کا گرجا گھر بھی انگریز نے الگ بنایا تھا -یہ بستی پاکستان بننے کے بعد بھی ایک طرح سے بفر زون ہی بنی رہی پرانے شہر کی تنگ و تاریک گلیوں میں بسنے والی غریب عوام اور سول لائن میں قیام پذیر ہونے والی اشرافیہ کے درمیان -وقار اور ہم غریبوں اور اچھوتوں کے گرجا گھر کو دیکھتے اور پھر سول لائن میں بنی اس عظیم الشان عمارت کو بھی دیکھتے جو انگریزوں نے اپنے لئے تعمیر کی تھی-وقار اسلم نے ایک مرتبہ مجھے کہا کہ برطانیہ ایسٹ کمپنی کے فرنگی ان فرنگیوں سے زیادہ ہوشیار تھے جنہوں نے امریکہ اور آسٹریلیا میں جاکر قبضے کے تھے-اور انھوں نے اپنے وہاں کے رائد انڈینز کو نیست و نابود کر ڈالا تھا-جبکہ برطانوی سامراج نے یہاں کے مقامی ہندوستانی نیچ ذات کے لوگوں کو نیست و نابود نہیں کیا بلکہ ان کو اپنے ہم مذھب بنا کر ان کی ایسی کایا کلپ کی کہ وہ اپنے ہی دیس میں اجنبی ہوگئے-اور برطانوی سامراج کے محکوم ہوگئے-ہم سول لائن کے ارد گرد بننے والی نئی کالونیوں کو بھی دیکھا کرتے تھے-یہ کالونیاں ایک اور تہذیب کی آئنہ دار تھیں-اور وہ تھی کارپوریٹ امریکی تہذیب -ایک مرتبہ ہمیں سول لائن میں سابق وزیر خارجہ عزیز احمد کی کوٹھی میں جانے کا اتفاق ہوا-یہاں میاں اعجاز رہتے تھے-انھوں نے ہمیں جس ڈرائنگ روم میں بٹھایا وہ پرانے وکٹوریائی طرز پر بنا ہوا تھا-یہ جنگلے والی کوٹھی کے نام سے مشہور کوٹھی تھی-اور اس کو ایک آباد کار رائے جسونت سنگھ نے بنایا تھا-جس کے نام پر ایک علاقہ جسونت نگر اب بھی اس شہر میں موجود تھا-میاں اعجاز ہم سے کہنے لگے کے نو دولتیوں نے ملک ملک میں تہذیب اور ثقافت کو تباہ کر دیا ہے-یہ ایک ایسا فقرہ ہے جو ہم نے بارہا سنا تھا-اور لکھا ہوا بھی دیکھا -جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے ١٨٥٧ میں دلی اجاڑ دی اور پورے ہندوستان میں وکٹوریائی کلچر ابھرا تو فارسی اور اردو کی تہذیب والی اشرافیہ کچھ ایسا ہی مرثیہ پڑھتی نظر آتی تھی-اور جب فرنگی کلچر سے امریکی کلچر ظہور پذیر ہوا تو ہم نے فرنگی دور کے امراء سے ایسا ہی گلہ سنا -میں، وقار اور سحر علی تینوں ہنستے ہوئے کوٹھی سے باہر آگئے تھے-بس کچھ ایسے ہی وہ دسمبر کے آخری دن تھے-ہوا بھی بہت سرد تھی-اور ہم راتوں کو اسی طرح سے مٹر گشت کرتے تھے-اور جب دسمبر کی آخری تاریخ تھی-اور رات کے دس بج چکے تھے-ہم تینوں باہر نکلے تھے-اس چھوٹے سے شہر میں شائد ہم تین ہی تھے جو سال نو کا جشن منانے رات کو نکلے تھے-اور کوئی نہیں تھا جو یہ جشن مناتا -اس مرتبہ ہم نے یہ رات ایک شمشان گھاٹ میں منانے کا فیصلہ کیا تھا-یہ شمشان گھاٹ اس دور کی یاد گار تھا جب اس شہر میں ہندو ،مسلم،سکھ اور کرسچن سب ہی تو رہتے تھے-اس شہر کے بیچ میں ایک گردوارہ بھی تھا-جس کے درمیان ایک بازار تھا -جس کو گردوارہ بازار کہتے تھے-یہاں جو بھی لاہور کی طرف جاتا یا لاہور کی طرف سے آتا تو وہ اس جگہ متھا ٹیک کر جاتا تھا-اسی طرح یہاں ایک خالصہ اسکول تھا-جو اب مسلم ہائی اسکول ہوگیا تھا-ایک رام چونترہ تھا جہاں سے دریا بکل سیدھا تھا-کہا جاتا ہے کہ رام کرشن اور سیتا جی یہاں آئے تھے تو کنارے پر وہ سیتا کو چھوڑ کر اشنان کرنے چل نکلے -اس وقت دریا کا رستہ ٹیڑھا تھا-انھوں نے دریا کے بیچ جا کر جب سیتا کو دیکھنا چاہا تو دریا کے کنارے بکل سیدھے ہوگئے-اس کو رام چونترہ کہتے تھے-یہ جگہ بھی بہت مقدس جگہ تھی-پیچھلے سال ہم نے نئے سال کا جشن وہیں منایا تھا-آج یہاں شمشان گھاٹ آئے تو بہت سی کہانیاں اس گھاٹ کے بارے میں مشہور تھیں-کہ یہاں رات کو پچھل پیری فرا کرتی تھیں-یہ بھی عجیب بات ہے کہ ایک مذھب کے ماننے والے اپنے مردوں کو روحیں اور دوسرے مذھب کے مردوں کو بدروحیں کہتے تھے-ویسے ہم تینوں کو پیچھل پیری دیکھنے کا بہت شوق تھا-لکین حمائ یہ خواہش پوری نہ ہوسکی-وقار کا طریقہ تھا کہ وہ اپنے لان کوٹ میں بہت سے کاغذ ٹھونسے ہوتا تھا-اور ہر کاغذ پر کچھ نہ کچھ لکھا ہوتا تھا -اس رات بھی اس نے کچھ کاغذ اپنی جیب میں ٹھونسے ہوئے تھے-ہم پہلے ٹیلی فون ایکسچینج گئے-اور وہاں جا کر ہم انتظار کرنے لگے عبد الله اور دوسرے دوستوں کی کال کا جو پیرس میں ایفل ٹاور کے نیچے رات کو سال نو کا جشن منانے اکٹھے ہورہے تھے-یہ زمانہ بھی خوب تھا -ابھی ہمارے یہاں ا کمپوٹر آیا تھا-نہ کوئی موبائل فون تھے-نہ انٹرنیٹ-رسائی اور وصال ایک دشوار مرحلہ ہوا کرتے تھے-ایسے ہی ٹرنک کال آئی-باری باری ہم نے بات کی-عبد الله نے کہا کہ وہ شیمپین کے ایک گھونٹ سے سال نو کے جشن کو ہمارا نام لیکر شروع کر رہا ہے-میں نے حیرانی سے کہا مولوی عبد الله حسین کیسے مسٹر بنا گیا-اور ہمیں مولوی بنانے کی انتھک کوشش کرنے والا عبد الله کی یہ کایا کلپ کیسے ہوئی -تو پیچھے سے راحیلہ نے آواز لگائی یہ نیلی آنکھوں والی نت کھٹ فرنچ لڑکی جینی کا کمال ہے-بات کرنے کے بعد ہم تینوں وہاں سے نکلے اور شمشان گھاٹ کی طرف چلنے لگے-وقار نے جینز کی پینٹ اور موتی سی شرٹ کے اوپر لان کوٹ پہنا ہوا تھا-اس نے سر سے لیکر کانوں تک ٹوپ لیا ہوا تھا -اس کے نیچے اس کے لمبے بال جو اس کے شانوں تک آتے تھے-بھکرے نہیں تھے-آج اس نے ان کی پونی بنا رکھی تھی-سحر علی نے بھی جینز ،شرٹ اور لانگ کوٹ پہن رکھا تھا-اس کے بال ٹوپ کے نیچے بکھر کر شانوں تک آئی ہوئے تھے-دونوں کے گال ریڈ وائن سے اور زیادہ سرخ ہو کر قندھاری اناروں کی طرح لگ رہے تھے-اور آنکھیں نشیلی تھیں-جبکہ میں حسب معمول شلوار کامیز اور اس کے اوپر کوٹ پہنے ہوئے ان کے ساتھ چل رہا تھا-میرا رنگ جو کبھی گندمی ہوا کرتا تھا -قدرے سانولا ہوگیا تھا-چلتے چلتے وقار کو جانے کیا سوجھی کہنے لگا تم ہمیں ایسا لگتا ہے کہ دراوڑ قوم کے باشندے ہو اور ہم کوئی آریہ جو ساتھ ساتھ چل رہے ہیں-آج کی رات تم کو مہمان بنایا ہے-تاکہ ہم اپنے بزرگوں کی غلطیوں کی تلافی کرسکیں-مجھے دونوں بہت عجیب لگے تھے-سحر علی اور وقار کا کہنا تھا کہ ہم سرخ و سفید رنگت والے ہندوستان کی وادی کے لوگ نہیں تھے-کتنی عجیب بات ہے کہ کرشن بھی تو کالے تھے گورے نہیں تھے-ہندوستان کا رام بھی گورے رنگ میں اپنے شہود کو پسند نہیں کرسکا- وقار کو جانے کیا ہوگیا تھا اس رات -وہ مجھے خود بھی کوئی دیو مالا کا کردار لگ رہا تھا-آج جب یہ سطریں لکھنے بیٹھا ہوں تو ووہی دسمبر کے آخری دن اور سرد لمبی راتیں ہیں-لکین اس چھوٹے شہر میں نہ تو سحر ہے اور نہ ہی وقار -اس رات وقار نے جانے کیوں امجد اسلام امجد کی نظم "دسمبر "ہمیں سنائی تھی-سماں باندھ دیا تھا-اس کی آواز ایک گونج کی صورت تھی-اور مجھے کبھی وہ لفظ بھولتے نہیں تھے-
"آخری چند دن دسمبر کے ہر برس ہی گراں گزرتے ہیں
خواہشوں کے نگار خانے سے کیسے کیسے گمان گرتے ہیں
یہ لائنیں مجھے اس لئے بھی یاد آگئیں کہ آج ایک دوست نے پیغام بھیجا کہ وہ آخری دسمبر میں اپنے دوستوں کی لسٹ مختصر کر رہا ہے-اور اس نے امجد کی یہ نظم لکھ ڈالی-مجھے خیال آیا کہ میں نے تو کبھی کاغذ پر یہ لسٹ بنائی نہیں تھی-اور دل کے کاغذ پر لکھی لسٹ پر کبھی نظر ثانی نہیں کی تھی-پھر آنے والا ہر دسمبر کیوں خود ہی اس لسٹ کو مختصر کرتا چلا گیا -آج بہت عرصۂ بعد وقار کا ایک میسج مجھے موبائل پر ملا -جانے اس کو میرا نمبر کس نے دیا -میسج کچھ یوں تھا
"میرے والد اسلم بلوچ دس دن قبل انتقال کر گئے تھے"
یہ مختصر سا میسج مجھے بہت کچھ بتا گیا تھا-وہ دس دن اپنےاندر حوصلہ پیدا کرتا رہا کہ مجھے اس کی خبر دے تو کیسے دے-مجھے یاد ہے کہ اس کو جتنے بھی دکھ ملے وہ دسمبر میں ملے تھے-وہ اکثر کہا کرتا ہے کہ یہ دسمبر جاتا جاتا چرکہ لگا ہی جاتا ہے-٢٧ دسمبر جب بینظیر بھتو شہید کی خبر آئی تو میں تنہا سول لائن کی اس سڑک پر گرجا کے سامنے کھڑا تھا جہاں ہم تینوں اکثر اکٹھے ہوتے تھے-واقعی دسمبر بہت ظالم ہوتا ہے-دسمبر کے ایک رات دادا روٹھ گئے تھے-اور دسمبر کی رات تھی جب دادی نے رخت سفر باندھا تھا-آج جب دسمبر کے آخری دن تھے تو اسلم صاحب کے جانے کی خبر آگئی-سحر علی کا مجھے پراگ سے فون آیا ہے-وہ بھی سخت دسمبر میں برفباری میں اس خبر سے پیدا ہونے والی اداسی کو ساتھ لئے دریائے پراگ پر بنے لکڑی کے ایک پل پر اکیلی کھڑی تھی-اس نے بتایا کہ وققر نے اس کی ہوں کال پک نہیں کی-اس نے تو میری کال بھی پک نہیں کی-اور ہاں اس کی بیوی جس کو حجن بی بی کہ کر بلاتا تھا-جو اس کی رندی اور اس کی مذھب بیزاری پر اسی طرح سے ماتم کرتی تھی -جس طرح سے میری بیوی کرتی ہے-اور سحر علی تو اب تک اکیلی ہے-اس لئے اس کو کوئی نہیں ملا جو اس پر ماتم کرے-وقار کی بو کہتی ہے کہ وہ کمرے میں بند بس خاموش بیٹھا ہے-کوئی بات نہیں کرتا-میں جانتا ہوں اس کی اس طویل خاموشی کا سبب -آخری رات جب وہ یہ شہر چھوڑ کر جانے والا تھا تو اس نے مجھے آکر بتایا تھا کہ اس نے ایک این جی او میں نوکری کرلی ہے-اور میں یہ خبر سن کر حیران تھا -اس لئے کہ وہ سی ایس پی اکیڈمی چھوڑ کر آگیا تھا-اور ایک رات وہ مجھے کافی دیر تک یہ بتاتا رہا تھا کہ این جی او اور سامراج کی باہمی رشتہ داری ہے کیا-اس سے قبل ایک مذہبی لڑکی سے شادی کر کے اس نے مجھے حیران کرڈالا تھا-جبکہ مجھے یاد ہے کہ جب میری شادی ارینج ہورہی تھی تو لڑکی کے مذہبی ہونے اور اس سے شادی کے بعد مل کر وہ مجھے روایتی مرد ہونے کا طعنہ دیتا رہا تھا-اور پھر خود بھی ایسی ہی ایک لڑکی سے شادی کر بیٹھا تھا-بس وہ ایسا ہی تو تھا-وہ سال کے دوسرے مہینوں میں تو چپ کا لباس پہنے رکھتا تھا-لکین دسمبر کے آتے ہی وہ کلام کی عبا پہن لیتا تھا-لکین اس دسمبر میں اس نے چپ کے لباس کو بدلنے سے نجانے کیوں انکار کرڈالا ہے-

Wednesday 14 December 2011

رخصتی

رخصتی (افسانہ)
عامر حسینی
احمر اور راشدہ بہت تیزی سے گھر کا سامان سمیٹ رہے تھے-احمر چہرے کے تاثرات کے اعتبار سے قدرے مطمئن نظر آتا تھا-لکین راشدہ بہت اداس تھی-وہ صبیح سے سامان سمیٹ رہے تھے-یہ گھر ایک یونیورسٹی کے احاطہ میں قائم تھا-آج سے چھے سال پہلے جب احمر لندن سے یہاں آیا تھا اور اس نے شعبہ فلسفہ میں بطور پروفیسر جوائننگ دی تھی تو یہ گھر ان کو الاٹ ہوا تھا-احمر بہت جوش اور جذبہ کے ساتھ یہاں آیا تھا-سامان سمیٹے ہوئے احمر نے جب اپنی چھے سللقبل کی لکھی ڈائری کو سامان میں رکھنے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو وہ بے اختیار کچھ دیر کے لئے ماضی میں کھوگیا -
اس نے لندن کے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی تھی جن کا جد ١٩٠٥ میں لندن میں تعلیم حاصل کرنے اتر پردیش کے شہر بلند شہر سے پڑھنے ایک بحری جہاز سے یہاں آگیا تھا-اور پھر لندن فضاء اس کو ایسی راس آئی کہ وہ بس یہیں کا ہوکر رہ گیا-یہیں شادی ہوئی اور یہیں پر ایک خاندان کی بنیاد پڑ گئی-احمر کو اپنے والد سے جہاں بہت سا تہذیبی ورثہ ملا تھا -وہیں پر ایک ورثہ اس کے پاس یہ تھا کہ وہ تقسیم کے بعد کے پاکستان سے بہت محبت بھی کرتا تھا-اس پاکستان کے لئے اس کے دل میں بہت درد تھا-اس نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی تھی-اور وہ لندن کے معروف کالج امپریل کالج میں استاد ہو گیا تھا-اس کالج میں وہ طلبا کو یونانی فلسفہ اور تاریخ فلسفہ پڑھاتا تھا-اس کی ذہانت اور وسعت علمی کی اس کالج کا ہر فرد گواہی دیتا تھا-اس کو مسلم دنیا کی علمی پسماندگی کا بہت قلق تھا-اور وہ مسلم دنیا میں فکری آزدی کے فقدان پر بہت زیادہ افسردہ بھی رہا کرتا تھا-وہ اس کے لئے کچھ کرنا بھی چاہتا تھا-
پھر ایسا ہوا کہ اس کے کالج نے جنوبی ایشیا کی یونیورسٹیوں کے شعبہ ہائے فلسفہ کی ایک کانگریس منعقد کی-اس کانگریس میں پاکستان کی ایک معروف یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ کے صدر ڈاکٹر منظور احمد بھی آئے-ان سے احمر کی ملاقات ہوئی-اور وہ ایک ہفتہ لندن رہے تو احمر سے مسلسل ان کی ملاقات ہوتی رہی-اس دوران ڈاکٹر منظور احمد سے پاکستان میں سماجی علوم کی زبوں حالی پر کافی بات چیت ہوئی-ڈاکٹر منظور احمد احمر کی اس بات سے متفق تھے کہ فکری آزادی کے بغیر مسلم سماج ترقی نہیں کر سکتے-اور اس کے لئے بہت ضروری ہے کہ وہاں کی یونیورسٹیز میں اکیڈمک آزادی کا رستہ ہموار ہو-اور یہ کام فلسفہ کی تعلیم کو فروغ دئے بنا ممکن نہیں ہے-ڈاکٹر منظور کہتے تھے کہ ان کی یونیورسٹی کو فلسفی استادوں کی ضرورت ہے-جو مشکل سے میسر آتے ہیں-انھوں نے احمر کو کہا کہ اگر اس جیسے لوگ تھوڑی قربانی دے ڈالیں تو پاکستان میں فکری انقلاب کی رہ ہموار ہوسکتی ہے-ڈاکٹر منظور احمد سے ملاقات کے بعد احمر کے ذہن میں ایک کشمکش شروع ہو گئی-اس کو یاد آیا کہ اس کے بابا کس قدر زور دیتے تھے احمر پر کہ اس کو پاکستان جا کر تدریس کرنی چاہئے-اور وہ پاکستان میں ان دنوں آمریت ہونے کی وجہ سے نہیں جاسکا تھا-کیونکہ جب اس نے پاکستان کی ایک یونیورسٹی میں اپلائی کیا تھا تو وہ انٹرویو کے لئے جب پاکستان میں سلیکشن بورڈ کے سامنے پیش ہوا تو اس سے انٹرویو لینے والے نے آیت الکرسی اور دعائے قنوت سنانے کے لئے کہا-اس کو بہت حیرانی ہوئی کہ فلسفہ کی تدریس سے اس کا کیا تعلق تھا-اس کو پتہ چلا کہ اس سے قبل کیمسٹری کے ایک ٹاپر کو اس لئے ریجکٹ کر دیا گیا تھا کہ اس کو رات کو سوتے وقت کی دعا یاد نہیں تھی-وہ واپس چلا آیا تھا-اس نے ڈاکٹر منظور کو اپنے خدشات سے آگاہ کیا تو انھوں نے تسلی کرائی کہ اب وہ دور چلا گیا ہے-سو اس نے پاکستان جانے کا فیصلہ کر لیا -اور وہاں ایک یونیورسٹی کو جوائن کر لیا-
یہاں آکر اس نے پہلے تو یہ دیکھا کہ لوگ فلسفہ جیسے اہم مضمون کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں تھے-بلکہ یہاں تو سرے سے علم کی تحقیر و توہین کو لوگوں نے رواج بنا رکھا تھا-اس کو ایسے لگا کہ وہ مغرب میں اس دور کے اندر واپس آگیا ہے جب کلیسا نے علم اور حکمت کے خلاف ایک مہم چلائی ہوئی تھی-وہ جب بھی یونیورسٹی کی واحد مسجد میں جمعہ کی نماز کے لئے جاتا تو اس کو مولوی صاحب کا سارا خطبہ علم کی تحقیر پر مبنی معلوم ہوتا تھا-اور ایسے لگتا تھا کہ سماجی علوم کی ترقی مولوی صاحب کے نزدیک کوئی بہت بڑا جرم تھی-اس کو خیال آتا کہ جب وہ نویں صدی میں عرب میں فلسفہ اور حکمت کی کتابوں کو جلائے جانے کا تذکرہ پڑھا کرتا تھا تو اس وقت وہ سوچا کرتا تھا کہ آجووہ فعل کرنے والے موجود ہوتے تو خود کتنی شرمندگی محسوس کرتے -لکین یہاں آکر اسے محسوس ہوا کہ پاکستان سمیت دیگر کئی ملکوں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی جو اب بھی اسی طرح کا فعل روا رکھنے کو مذہب اور سماج کی خدمت خیال کرتے تھے-اور جب بامیان میں طالبان نے بدھا کا مجسمہ گرا ڈالا تھا تو اس کو بہت حیرانی ہوئی تھی کہ اس کی یونیورسٹی کے کئی استاذہاس عمل کو ٹھیک کہ رہے تھے-یہ سب باتیں دیکھ کر اس کو اپنے فیصلے کے ٹھیک ہونے کا یقین آگیا تھا-اور وہ زیادہ تندہی سے فکری آزادی کے لئے کام کرنے لگا تھا-اس نے ناصرف اپنے شعبہ میں فکری آزادی کو پروان چڑھانے پر زور دینا شروع کیا بلکہ اس نے اس عمل کو پوری یونیورسٹی میں آگے لیکر جانے پر زور دیا-
اس کے اس عمل پر ایک مرتبہ ایک مذہبی تنظیم نے سخت رد عمل بھی دکھایا لکین اس نے کوئی پرواہ نہ کی-وہ یونیورسٹی کی ضابطہ کمیٹی کا رکن بھی تھا-احمر کو اپنی کوششوں کے دوران ہی یہ احساس ہوگیا کہ فکری آزادی کے عمل کو یونورستیز میں پھیلنے سے روکنے میں رجعت پسندوں سے زیادہ روکاوٹ وہ لوگ ہیں جو ترقی پسندی کا علم اٹھائے کھڑے ہیں-جو اپنی ہوس اور شہوت انگیزی کو ترقی پسندی کا نام دیتے ہیں-
احمر کو اس امر کا اندازہ اس وقت ہوا جب اس کے شعبہ کے ایک استاد نے پرچہ لیتے ہوئے تئیں لڑکیوں کے سوا سب لڑکیوں کو فیل کر ڈالا اور پھر جب ایک لڑکی نے اس کو آکر یہ شکایت کی کہ مذکورہ استاد کہتے ہیں کہ بی بی اگر پاس ہونا ہے توکچ لو اور کچھ دو پر عمل کرنا پڑے گا-اسی طرح شعبہ میں وزٹینگ اساتذہ کی بھرتی کے معاملے پر بھی ایسی ہی حرکت دیکھنے کو ملی-جس کا احمر نے کبھی لندن کے کسی تعلیمی ادارہ میں تصور بھی نہیں کیا تھا-اس نے جب اس پر اپنا رد عمل ظاہر کیا تیکسر لوگوں نے اس کو معمول کی بات قرار دیکر نظر انداز کرنے کی تجویز دی-لکینووہ ڈٹ گیا-اس وقت تک ڈاکٹر منظور بھی وی سی بن گئے تھے-انھوں نے بھی ان کا ساتھ دیا-تو اس روش پر قابو پالیا گیا-لکین اس نے دیکھا کہ تعلیمی ادارہ میں یہ تو ایک رجحان بنتا جا رہا ہے-اور ڈاکٹر منظور کے جانے کے بعد جب نئے وی سی آئے تو اس کو بہت زادہ تنہائی کا احساس ہونے لگا-اور ایک دن وہ ہوگیا جس کا اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا-
یہ سردیوں کے دن تھے-جب وہ اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا کہ اس کے شعبہ میں نئی بھرتی ہونے والی لیکچرر چخیتی ہوئی اس کے کمرے میں داخل ہوئیں-یہ مس ساجدہ تھیں-اس نے ان کو چھپ کرایا-وہ کہ رہی تھیں کہ ان کو بچا لیا جائے-ان کے پاس کوئی دوپٹہ یا چادر نہیں تھی-اس نے اپنا لانگ کوٹ مس ساجدہ کو پہنایا-ان کو تسلی ڈی-جب وہ بات کرنے کے قابل ہوئیں تو ان سے پوچھا کیا ہوا تھا؟تو وہ روتے ہوئے کہنے لگیں کہ آج ان کو سر صداقت نے اپنے روم میں بلایا تھا-اور ان کو کہا کہ یهداکومنٹ سوفٹ کاپی میں ان کے پی سی میں موجود ہیں-ان کو آکے پڑھئیے-جب وہ پڑھنے کے لئے قریب ہوئیں تو اچانک پیچھے سے ان کو صداقت نے پکڑ لیا اور ان کے گالوں کو چومنے کی کوشش کرنے لگے-اور اس دوران ان کی شال بھی اتار کر پھینک دی-انھوں نے خود کو بہت مشکل سے بچایا اور بھاگ کر اس کے کمرے میں اگائیں-احمر کو یہ سب سنکر بہت غصہ آیا-اس نے مس ساجدہ کو فوری طور پر اےکدرخوسٹ لکھنے کو کہا-درخواست لکھی گئی-وی اسی نے ضابطہ کمیٹی کو معاملے کی تحقیق کرنے کو کہا-ضابطہ کمیٹی میں کل پانچ رکن تھے-احمر کو اس وقت سخت اذیت کا سامنا کرنا پڑا-جب ضابطہ کمیٹی کا پہلا اجلاس ہوا-اور اس میں ضابطہ کمیٹی کے صدر نے جو کہ ساجدہ کے باپ کی عمر کے ہوں گے-اور یونیورسٹی میں ترقی پسندی کے گرو گھنٹال خیال کے جاتے تھے-بہت ہی گھٹیا انداز اختیار کرتے ہوئے یهکھنے لگے
ساجدہ کے بارے میں ایک بات تو کہنی پڑتی ہے کہ وہ ہے تو سیکس
بم جس کو دیکھ کر بہت سے لوگوںکا ایمان ڈول جاتا ہے-اگر صداقت
اگر صداقت صاحب بہک گئے تو کوئی بڑی بات نہیں-
ایک اور رکن بولے کہ "سالی صداقت کے قابو میں آجاتی تو سارے کس بل نکل گئے ہوتے اور اب فلاں رجعت پسند گروپ کو ہم پر باتیں بنانے کی جرات نہ ہوتی-
ایک اور کا خیال تھا کہ یہ سب سازش ایک مذہبی تنظیم کی کارستانی ہے-
احمر یہ سب باتیں سن کر حیران ہورہا تھا-اور اس وقت حد ہو گئی جب مس ساجدہ کو ضابطہ کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کا کہا گیا -اور کمیٹی کے وہ لوگ جو ان کے بارے میں توہین آمیز بیانات دی رہے تھے -ان کے ساتھ ایسے بیہودہ سوالات کرنےلگے کہ احمر کو اس پر سخت احتجاج کرنا پڑا -اور جب احمر نے صدر کمیٹی کے اصل چہرے کو بےنقاب کیا اور وی سی سے ان کو ضابطہ کمیٹی سے الگ کرنے کا کہا تو اگلے دنہمر کی حیرانگی کی انتہا نہ رہی جبوی سی نے ان کو ضابطہ کمیٹی سے الگ کر دیا-اور احمر پر جانبداری برتنے کا الزام لگایا-اور اسی دن اس گروپ کا بھی اجلاس ہوا جو خود کو یونیورسٹی میں مذہبی فاشزم کا مخالف کہا کرتا تھا-اس نے صداقت کو بیگناہ کہا اور یونیورسٹی میں کلاسوں کا بائیکاٹ کرنے کی دھمکی بھی دی-اور اسے یونیورسٹی میں طالبانیت کو پھیلانے والوں کی سازش بھی قرار دے ڈالا-
مس ساجدہ نے یہ صورت حال دیکھتے ہوئے نہ صرف درخواست کی پیروی کرنے سے انکار کر دیا -بلکہ یونیورسٹی جاب بھی ترک کردی-احمر کے لئے یہ بہت تکلیف دہ صورت حال تھی-وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ علم کی درسگاہوں میں یہ کھیل کھیلے جاتے ہونگے-اور ہوس کے پجاریس طرح سے فکری آزادی کے نام پر دندناتے ہونگے-اس کے بہت سے خواب تھے جوچکنا چور ہوگئے تھے-اس نے یہ سبدیکہ کر واپس جانے کا فیصلہ کیا-اس نے امپریل کالج کی انتظمیہ کو خط لکھا کہ ووہواپس آنا چاہتا ہے -اس کو اگلے دن ہی جواب موصول ہوا-امپریل کالج کے پرنسپل اور شعبہ فلسفہ کے ڈین نے لکھا تھا کہ اس کا پرانا آفس اور کلاس روم اس کی آمد کے شدت سے منتظر ہیں-آج وہ یہاں سے جا رہا تھا-وہ انہی خیالوں میں گم تھا کہ اس کی بیوی راشدہ کی آواز آئی کہ سامان گاڑی میں رکھا جاچکا ہے-آپ بھی آجائیے-وہ بھاری قدموں کے ساتھ چل کر گاڑی میں بیٹھ گیا-اور گاڑی ائر پورٹ کی طرف روانہ ہو گئی -جہاز میں اپنی سیٹ پر بیٹھ کر اسے یاد آتا رہا کہ کیسے کیسے خواب دیکھے تھے-اور کیا کچھ کرنے کا عزم کیا تھا اس نے-اس کو یاد آتا رہا کہ وہ تو پورے معاشرے میں فکری آزادی کی تحریک چلانے آیا تھا-اور چند پروفیسروں اور بابوؤں سے مار کھا گیا تھا-
بہت عرصۂ بعد لندن کی ایک کافی شاپ میں وہ بیروت سے آئے ایک پروفیسر کے ساتھ بیٹھا کاپی سپ کر رہا تھا-تو پروفیسر نے کہا کہ جنوبی لبنان کے اکثر ترقی پسند مرد اور خواتین حزب الله اور العمل کے کارکن بن گئے ہیں-اور انھوں نے ٹھیک کیا ہے-کیونکہ کھوکھلا اور بنجر لبرل ازم ان کو کچھ نہیں دی رہا تھا-احمر یہ سن کر چھپ رہا-اگر یہی فقرہ اس نے پاکستان جانے اور واپس آنے سے قبل سنا ہوتا تو وہ شائد مذکورہ پروفیسر سر لڑ پڑتا -اور بہت بحث کرتا-لکین اسے لگا کہ اس کی شکایت بھی بہت حد تک ٹھیک ہے-پھر اس پروفیسر نے احمر کو کہا کہ احمر ترقی پسندی اور انقلاب کیجنگ یونیورسٹیوں میں نہیں لڑی جاتی یہ تو باہر بیٹھ کر لڑی جاتی ہے-اوٹو بائر کو برداشت نہیں کیا تھا جرمنی والوںنے-نکال باہر کیا تھا-کارل مارکس کو بون میں نہیں نوکری ملی تھی-تیسری دنیا کے ملکوں میں کرئیر اور ریڈکل ازم ساتھ ساتھ نہ چل سکتے-زہین دماغ یا تو ہجرت کر کے مغربی ملکوں میں اپنی ذہانت سے سکوں پاتے ہیں یا پھر اپنے ملکوں میں غربت کے ساتھ لڑتے لڑتے جان دی دیتے ہیں-احمر یہ سب سن کر کافی شاپ سے اٹھا اور اس پروفیسر سے ہاتھ ملایا اور باہر کے دروازہ سے نکلتا چلا گیا ---------

Monday 12 December 2011

کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

کبھی کبھی آپ کو بہت مشکل ہوتی ہے کہ اپنا حال کسی کو بتا پائیں-اور شائد اسی مشکل کو دیکھتے ہوئے استعارہ اور مجاز کا سہارہ لیا جاتا ہے-کسی کی بات کر کے اپنی بات کہنے کی کوشش کی جاتی ہے-اور پھر کبھی تو یوں بھی ہوتا ہے کہ آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی کیفیت کے بیان کے لئے آپ کے الفاظ آپ کو کافی نہیں ہیں-اور یہ الفاظ اس کیفیت کو تصویر نہیں کر پا رہے -تو آپ پر بےبسی کی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے-آپ کا دل کرتا ہے کہ آپ دل کھول کر رکھ دین لکین دل کھول کر رکھا نہیں جاتا -اور یہ عجب بات ہے کہ جب ایسی کیفیت کا آپ شکار ہوتے ہیں تو پھر مجلس اور ہنگامے آپ کو پسند نہیں آتے اور آپ ویرانوں کی تلاش کرتے ہیں-اور یہ کتنی عجب بات ہے کہ جن باتوں کو آپ فساد خلق کے سبب سے مجلس میں نہیں کہ پاتے ان کو آسانی کے ساتھ آپ ویرانوں کو سنا ڈالتے ہیں-کہا جاتا ہے کہ امام علی اپنے دل کی باتیں ایک کنوئیں کو سنا ڈالتے تھے-اور یہ تو بڑے لوگ تھے -ان کی باتیں بھی بہت بڑی تھیں-میرے جیسے لوگوں کے پاس تو کہنے کو بھی بس چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں-میں وہ بھی نہیں کہ پاتا-اور اب تو شہر اتنے گنجان آباد ہوگئے ہیں کہ ویران جگہوں کی تلاش بھی ایک مسلہ بن جاتی ہے-

کبھی کبھی یوں ہوتا ہے کہ کوئی اپنے حالت میں گرفتار ہوتا ہے اور آپ اپنی تو دونوں میں کوئی کیمونیکیشن گیپ آجاتا ہے-اور کوئی ایک اس کو تجاہل عارفانہ سے تعبیر کرنے لگتا ہے-اور اس پر وہ حالات سے،اپنے آپ سے اور اس سے شکوہ کناں بھی ہو جاتا ہے-ایسے میں جو کیفیت ہوتی ہے وہ بیان سے باہر ہوتی ہے-اب اس کا کیا کیا جائے کہ ہم انسان ایک ہونے کی بہت کوشش کرتے ہیں لکین یہ جو حالات ہوتے ہیں یہ ہمیں الگ الگ ہونے کا احساس کراتے ہی چلے جاتے ہیں-ہم نے الفاظ اور احساسات کی جادوگری سے ایک طلسم خانہ ایسا ضرور بنا لیا ہے جو ہمیں ایک ہونے کا احساس دلاتا ہے لکین نجانے کیوں پھر کہیں الگ ہونے اور تنہا ہونے کا احساس مارے دیتا ہے-ابھی زیادہ دن نہیں گزرے مجھ سے میرے ایک غم خوار کہنے لگے کہ ہم اپنی مرضی سے زندگی گزارنا چاہتے ہیں لکین گزار نہیں پاتے -اور جب بھی ہمیں کوئی قربانی دینے کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے تو ہم اکثر روایتی انسان ثابت ہوتے ہیں-رسموں میں جکڑے جاتے ہیں-اور بہت سی زنجیریں ہوتی ہیں جو ہمارے آڑے آجاتی ہیں-اور ہم ان سے نکل نہیں پاتے-میں ان صاحب کو جانتا ہوں-وہ میری زندگی میں بہت سی تبدلیوں کا سبب بھی بنے این-لکین آج کل عجیب سے گلٹ میں مبتلا ہیں-اور خود کو نجانے کیوں ایسے جرموں کا مرتکب خیال کرتے ہیں جو انھوں نے کبھی کیے ہی نہیں ہیں-ان کی کیفیت کو میں سمجھ رہا ہوں اور وہ تو ظاہر ہے سمجھتے ہی ہیں لکین الفاظ کا دامن ان کے اظہار کو تنگ پڑ رہا ہے-ہم میں سے ہر ایک آزادی کا طالب بھی ہے اور کسی سے وابستہ اور کسی کے نام اپنی زندگی لگانا بھی چاہتا ہے-اور زندگی پہلے سے جن رشتوں اور ناتوں سے جڑ چکی ہے ان کو زنجیریں بھی خیال کرتا ہے-اور کبھی کبھی تو یہ دریچوں میں گڑی صلیبیں لگنے لگتی ہیں-کسی کی یاد دل کو جکڑے ہوتی ہے اور کسی کو اس سے دکھ پہنچنے کا اندیشہ اس یاد کو پھیلانے اور بر سرعام اس کا اظہار کرنے سے روکتا بھی ہے-ہے نا عجب تضاد سے بھری حالت -اسی حالت کے پیش نظر تو ویرانوں کا رخ کیا جاتا تھا-میں اکثر سوچتا تھا کہ خواجہ فرید سائیں روہی میں کیوں جا کر رہے تھے-ان کو روہی کے کنڈے ،توبے ،جھاڑیاں اور ون اور اونٹ کیوں پسند آئے تھے-اور ان میں حسن ازل کی جھلک کیوں نظر آئی تھی-یہ جو ملتان میں کسی سے عشق ہوا اور اس کی آگ روہی میں دہکتی رہی -وہاں اپنا رنگ دکھاتی رہی -اس کی کچھ کچھ سمجھ مجھے اب آتی ہے-

آج عجب سے بیچینی ہے-اور بیقراری بھی -لکین اس کو کیا نام دوں کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا-بہت دیر سے بہت سی چیزوں سے دل کو بہلانے کی کوشش کی لکین نہیں بہلا پایا -جانے وہ کون سی چیز ہے جس کے سبب آج دل میں کچھ درد سوا ہوتا ہے-لکین غالب ککی طرح کوئی تلخ نوائی مجھے نہیں کرنی ہے-ہاں بس کسی کمی کا احساس آج بہت شدت سے ہو رہا ہے-کوئی یاد آرہا ہے-کون؟کچھ کہ نہیں سکتا-کسی کو بلانے کو من کرتا ہے -کیسے ؟کچھ پتہ نہیں -کسی کے ساتھ ہونے کی خواہش ہے-کس کے؟یہ بھی تو نہیں معلوم--آپ اس کو تجاہل عارفانہ کہ سکتے ہیں لکین بس حالت کچھ ایسی ہی ہے-اتنی بےبسی تو کبھی دیکھی نہیں تھی-ایسا کیوں ہے کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے-اور آج تو یادیں اور علامتیں بھی دکھ کشدت کو کم نہیں کر پا رہیں-کیا کیا جائے-کوئی اپنی بیماری کو موسم کی تبدیلی کہ کر اصل بات چھپانا چاہئے تو بہت ہی تکلیف ہونے لگتی ہے-اصل معاملہ سمجھ کر-یہ دوری پاگل کر دیتی ہے-ہاں کر تو دیتی ہے-اور لفظوں پر ارتکاز بھی ختم ہونے لگتا ہے-آپ کو دوری عذاب لگتی ہے-لکین کبھی رواج اور کبھی طبقہ آڑے آجاتا ہے-اور کبھی وہ تعلقات جو آپ کے پیروں میں زنجیریں ڈالے ہوتے ہیں-یہ پاگل پن بھی عجیب سا پاگل پن ہوتا ہے-اس میں آپ سب کو اپنے ہوش حواس میں لگتے ہیں-اور آپ کو بھی اپنے ہونے کا احساس ہوتا ہے-اسی لئے خود فراموشی کی وہ منزل آپ کا مقدر نہیں بن آتی جہاں آپ ہر احساس سے بیگانہ ہو کر سب چیزیں فراموش کر ڈالتے ہو-مجھے تو پاگل بھی بھی ان فرزانگی میں دیوانگی رکھنے والوں سے بہتر لگتے ہیں-اور مجھے ان کا پاگل ن ایک انعام لگنے لگتا ہے-کاش یہ پاگل پن ہمارے حصہ میں آجاتا اور ہم اس عذاب سے بچ جاتے جس سے گزر رہے ہیں-

نہ نیند چینا.....نہ آپ آویں...نہ بھیجیں پتیاں

سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں

اندھیری رتیاں

Friday 9 December 2011

فرشتہ

فرشتہ
وہ نو محرم کی رات تھی جب اس کو درد زہ کی تکلیف شروع ہوئی تھی-یہ بہت تیز درد تھا-وہ بہت خوفزدہ تھی -حالنکہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا-لکین اس مرتبہ اس کو بہت خوف تھا-پچھلی مرتبہ جب وہ اس درد سے گزر رہی تھی اور نئے مہمان کے آنے کا وقت ہوا تھا تو مستجاب حیدر حسب روایت گھر کیا شہر میں نہیں تھے-وہ اکتوبر کا مہینہ تھا-اور ڈاکٹر نجیب کی برسی ان پہنچی تھی-مستجاب کو ان کے دوستوں نے افغانستان میں آنے کی دعوت دے ڈالی تھی-وہاں پر مستجاب کے کافی دوست آنے والے تھے-پرانے پرچمی اور خلقی جو کبھی سرخ انقلاب کے حامی تھے-اب یورپ اور امریکہ جا بسے تھے-وہ بھی نجیب کی برسی میں آ رہے تھے-ان سے ملے مستجاب کو عرصۂ ہو گیا تھا-وہ اس حالت میں نہ ہوتی تو مستجاب کے ساتھ ضرور جاتی -کیونکہ اس کے بہت سے دوست روس ،چیک اور پولینڈ سے آرہے تھے-یہ سب اس کے وہ دوست تھے -جو اس کو ماسکو میں تعلیم کے زمانے میں ملے تھے-
ماسکو جانے کی کہانی بھی بہت عجیب تھی-وہ اور مستجاب کراچی یونیورسٹی سے ماسٹرز کر کے فارغ ہوئے تھے-کہ دونوں کی شادی کردی گئی-اور مستجاب نے چپکے سے اپنے اور اس کے کاغذات ماسکو بھیجے -وہاں سے دونوں کا سکالرشپ ویزہ آگیا-جب کہ ان کی شادی کو ایک سال بھی نہیں ہوا تھا-دونوں ماسکو کی سرد ماحول میں چلے گئے لکین یہاں ان کے دوستوں نے ان کو سرد نہیں ہونے دیا-ماسکو سے آنے کے بعد ایک عرصۂ تک ان کی کسی سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی-سو جب مستجاب نے اس کو بتایا کہ وہ کابل جا رہا ہے جہاں نتاشا اور کروپسکایا ،میخوف بھی آ رہے ہیں-تو اس کو اپنی تکلیف کی وجہ سے وہاں نہ جانا برا لگا تھا-
وہ ١٨ اکتوبر کی رات تھی جب اس کو مستجاب کے بغیر اس درد سے گزرنا پڑا تھا-جس کے بارے میں اس نے سنا تھا کہ وہ جان نکال لیتا ہے-اس کو جب ڈاکٹر نے نشہ دیا تو وہ حالت مدہوشی میں بھی مستجاب کو پکار رہی تھی-اور بعد میں ہسپتال کی ایک نرس نے بتایا تھا کہ آپریشن کے دوران اس نے اس کا ہاتھ سختی سے پکڑ لیا تھا اور وہ مستجاب مستجاب پکار رہی تھی-ڈاکٹر بھی تھوڑا سا گھبرا گئے تھے-اورانہوں نے مستجاب کو بلانے کا کہا تھا-جب ان کو پتہ چلا کہ مستجاب ملک میں نہیں ہی تو وہ خاصے حیران ہوئے تھے-مستجاب اس کے بعد ایک مرتبہ جب اس کا چیک اپ کرانے اس لیڈی ڈاکٹر کے پاس گئے-تیس نے مستجاب کو دیکھ کر انہیں کافی کھڑی کھڑی سنائی تھیں-اور مستجاب جن کو اپنی سخن وری پر ناز تھا -بہت بوکھلائے ہوئے نظر آئے تھے-
اس مرتبہ وہ جیسے کہیں جانا بھول گئے تھے-وہ مسلسل تین ماہ ہوگئے تھے -شہر سے باہر نہیں گئے تھے-اور ان کی ہر شام اور رات گھر پر گزرتی تھی-وہ ان کی اس پابندی پر حیران تھی-اور وہ اسے بہت کم کوئی کام کرنے دیتے تھے-پھر جب آخری ماہ آیا تو وہ ساری ساری رات جاگ جڑ گزرتے تھے-تھوڑی سی تکلیف پرتھ جاتے-اور ہر ممکن طریقہ سے اس کا خیال رکھتے تھے-لکین اس کے اندر نجانے کہاں سے کوئی

خوف آ کر بیٹھ گیا تھا-وہ بہت کوشش کر کے بھی اپنے آپ کو سنبھال نہیں پاتی تھی-اس نے اپنے بہت سارے ڈر مستجاب سے چھپا رکھے تھے-لکین مستجاب کو نجانے کیسے پتہ چل جاتا تھا-رات کو ووہکرسی پر بیٹھے بظاہر کسی کتاب میں گم ہوتے تھے-اور وہ بعید پر لیتی آنکھیں بند کر کے یوں ظاہر کرتی تھی کہ سو رہی ہے-مستجاب اچانک کتاب پر سے نظریں ہٹا کر اس سے مخاطب ہوتے اور کہتے کہ "بتول کیا سوچ رہی ہو،"وہ ہڑبڑا جاتی اور کہتی کچھ بھی تو نہیں"مستجاب اس پر ہنس پڑتے اور کہتے کہ مولا کی بیٹی جھوٹ بولتی اچھی تو نہیں لگتی-اور ہاں تم سے کہا ہے کہ اندیشہ ہائے دور دراز سے خود کو ہلکان مت کیا کرو-
وہ مستجاب کی یہ بات سن کر حیران ہو جاتی کہ کیسے کتاب میں مگن ہونے کے باوجود وہ اس کی حالت جن جاتے تھے-وہ ان کے سامنے کوئی بات بھی سوچتے ہوئے ڈرتی تھی کہ ان کو پتہ چل جائے گا -
مستجاب کی شخصیت اس کو ہمیشہ سے بہت عجیب لگتی تھی-وہ اپنے چہرے کے تاثرات کے اعتبار سے کبھی ایسے نہیں لگتے تھے کہ ان کی شخصیت میں جذبات کوئی اہمیت رکھتے ہونگے-سخت اور سیاسی قسم کے ثقیل مضامین لکھنے یا پھر فلسفیانہ مباحث پر تحریروں کو دیکھ کر ہر کوئی یہ تاثر پکڑتا تھا کہ موصوف دل کے خانے میں کوئی پتھر ہی رکھتے ہوں گے-لکین ان کے اندرکے آدمی سے اس کی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ بہت بیمار ہوئی -یا کسی صدمہ سے اس کو گزرنا پڑا -عامحالات میں بھی وہ بہت خاموشی سے اپنے درد مند ہونے کا احساس دلاتے تھے-اور کبھی اس کا اعلان نہیں کرتے تھے-
اس مرتبہ وہ بہت زیادہ بدلے ہوئے نظر آئے-وہ کچھ دنوں کے لئے اسلام آباد گئے تھے-واپس آئے تو بہت بدلے ہوئے سے لگے تھے-مستجاب سے ان کی جو شکایتیں تھیں وہ ایک طرح سے ختم ہی ہو گئیں تھیں-مستجاب کو اہنوں نے زیادہ سگریٹ پینے سے روکا تو وہ رک گئے-اپنی صحت کا خیال رکھنے کو کہا تو وہ بات بھی مان لی-ان کو مستجاب میں یہ تبدیلی بہت عجیب لگی تھی-پھر ایک دن وہ بہت حیران ہوئی جب ان کو فون آیا کہ اسلام آباد میں ان کو وزیر آزم سے ملاقات کرنی ہے -لکین انھوں نے دوسری طرف بات کرنے والے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ کہ گھر میں ان مصروفیت ہے تو وہ نہیں آ سکتے-
دسمبر میں جب عاشور کا آغاز ہوا تو انھوں نے دیکھا کہ پہلی مرتبہ اتنے سالوں میں وہ عاشور میں رات کو مجلس سننے بھی جاتے رہے-یہ بہت عجیب سی تبدیلی تھی-کیونکہ ہر محرم ک آغاز پر بتول ان کو کہتی کہ مجلس سسنے چلیں یا امام بارگاہ چلنے کو کہتی تو وہ سختی سے انکار کر دیتے تھے-ایک دو مرتبہ بتول نے ان کو کہا تو اس کے بعد نہیں کہا-بتول اس وقت بہت حیران ہوئی تھی -جب وہ زیارات پر گئی تھی-اور واپس آکر انھوں نے مشہد سے امام علی رضا کے مزار سے لیا ہوا ایک نگ دوری میں پرو کر ان کی دائیں کلائی پر باندھا تو انھوں نے چھپ چاپ بندھوا لیا تھا-ورنہ ان کو یاد تھا کہ وہ جب کراچی سے ماسکو کے لئے روانہ ہوئے تھے تو ان کی اماں نے ان کو امام ضامن باندھنا چاہا تھا تو انھوں نے انکار کر دیا تھا -تو اس پر وہ بولی تھیں کہ بیٹا تو تو اپنے کیمونسٹ دادا سے بھی دو ہاتھ آگے ہے-وہ کم از کم ایسا تو نہیں کرتے تھے-تو تب جا کر وہ امام ضامن بندھوانے پر راضی ہوئے تھے-لکین اب تو چپ چاپ وہ یہ سب ہوتا دیکھ رہے تھے-اسی طرح ایک مرتبہ انھوں نے پہلی مرتبہ ان کے دائیں ہاتھ ہی دوسری انگلی میں ایک انگوٹھی daikhi -تو انھوں نے پوچھا یہ کہاںسے آئی-تو کہنے لگے ایک دوست شام گئی تھیں-اہنوں نے یہ بی بی زینب کے مزار سے میرے لئے لے لی تھی-تو میں نے پہن لی-اس مرتبہ وہ وہ عشرہ محرم میں پوری طرح سے شریک ہوئے-
نو محرم کی رات وہ ہسپتال داخل ہوگئیں تھیں-وہ رات سے وہیں اس کے پاس تھے-لکین فجر کی اذان سے پہلے یہ کہ کر نکل گئے کہ قاسم کی اذان کی آواز کانوں میں تبھی گونجے کی جب امام کی بارگاہ میں ہوں گا-اور بتول شانت رہنا -گھبرانا نہیں -جلوس معینجاؤں گا -عزاداران حسین کا ساتھ دینا بہت ضروری ہے-یہ کہ کر چلے گئے-دوپہر گزر گئی-اور اس کو آپریشن تھیٹر میں جب لیجایا جا رہا تھا تو مستجاب کا فون آگیا -کہا بتول گھبرانا مت -شہادت امام کے وقت تم عمل تخلیق سے گزرنے جا رہی ہو-بہت مبارک گھڑی ہے-مولا کرم کریں گے-اس کو ذرا دیر پہلے جو خوف تھا اور ڈر تھا-وہ سب دور ہوگیا -اس کو آپریشن تھیٹر جاتے ہوئے اپنے دادا کی بات یاد آئی جو کوئی بھی بات کہتے تو یہ ضرور کہتے تھے کہ مولا تجھ کو کوئی دکھ نہ دے سوائے غم حسین کے-بس جب آج کے دن کے بارے میں سوچا تو ایک ایک کر کے ساری تصویریں سامنے آنے لگیں-اور ایک عجب سی کیفیت طاری ہوئی اور وہ اپنی تکلیف بھول گئی-اپپریشن تھیٹر میں جب ڈاکٹر نے اس کو بیہوش کیا تو بیہوشی میں ادراک کا جو در وا ہوا وہ بھی بہت عجیب تھا-اس نے خود کو ایک حسین جمیل باغ میں پایا -جہاں ہر طیف گلاب کے پھولوں کی کیاریاں لگی تھیں-پیپل کے درخت تھے-اور درمیان میں ایک فوارہ تھا-جس سے رنگ برنگا پانی نکل رہا تھا-وہ اکیلی تھی-اچانک کہیں سے ایک سیاہ پوش عورت نمودار ہوئی -اس نے بتول کا ماتھا چوما -اور پھر اس کو ایک گلاب کا پھول دیا -اور کہا خوش قسمت ہو کہ عاشور حسین تمھاری قسمت میں لکھا گیا-وہ یہ خواب دہکتی رہی جوبیس کو ہوش آیا تو لیڈی ڈاکٹر نے اس کو مابرک بعد دی اور کہا کہ تمھارے بیٹا ہوا ہے-اس کو اپنا خواب یاد آیا-
ادھر مستجاب عزداران کے ساتھ جلوس میں تھا کہ اس کو فون پر بیٹے کے پیدا ہونے کی خبر ملی -اس نے فون پر بتول سے بات کی -اور کہا بتول ہم اس ننھے فرشتہ کا نام عاشور حسین رکھیں گے-بتول حیراںره گئی-اس نے مستجاب کو اپنا خواب سنایا -تو مستجاب نے ہنس کر اسے اس کے تخیل کی پرواز قرار دیا-اور بتول کو کہنے لگا آج جب وہ جلوس میں آیا توبہت سے لوگ اسے دیکھ کر کہنے لگے کافر سید مسلمان ہوگیا ہے-اور وہ یہ سن کر مسکراتا رہا-