Monday 27 February 2012

انکار

انکار
افسانہ /عامر حسینی
وہ ریل وے اسٹیشن میں ایک روم میں بیٹھا ٹکٹ چیکرز سے کیش وصول کر رہا تھا-اسٹیشن پر تیز گام آکر رکی تھی-اس میں ایک نوجوان نکل کر اس کے کمرے میں داخل ہوا -اور اسی سے پوچھنے لگا کہ آپ میں سے عادل کون ہیں؟اس نے کہا کہ میرا نام عادل ہے-آپ کو کیا کام ہے؟نووارد نے کہا کہ اس کا نام حیدر ہے اور ایک کوپے میں ان کی اہلیہ آپ سے ملنا چاہتی ہیں-عادل کو بہت حیرانی تھی کہ اس کو کون خاتوں اور کیوں ملنا چاہتی ہیں؟عادل وہاں سے اٹھا اور اس نوجوان کے ساتھ تیز گام کے اس کوپے کی طرف چل پڑا-کوپے میں داخل ہوا تو سامنے جس کو بیٹھے دیکھا تو وہ ساکت ہوگیا -سامنے سرخی لگائے اور ایک شوخ سا لباس زیب تن کئے شاہین بیٹھی تھی-اس کے چہرے پر عجب سی اداسی تھی-اور یہ لباس اس کی ظاہری کیفیت سے لگا نہیں کھا رہا تھا-شاہین کے شوہر نے کھا کہ وہ جاکر اخبار لیکر آتا ہے-آپ باتیں کیجئے -یہ کہہ کر نوجوان چلا گیا -اور عادل اور شاہین کوپے میں تنہا رہ گئے-کچھ دائر کی خاموشی کے بعد شاہین کہنے لگی کہ عادل یہ لباس میں نے حیدر کے ضد کرنے پر پہنا ہے-عادل کی دنیا زیر و زبر ہوگی تھی-اس سے کوپے میں بیٹھا نہیں جارہا تھا-تھوڑی دیر بعد حیدر کوپے میں آگیا تو وہ بہانے بہانے سے اٹھ کر کپوپے سے باہر جاتا کبھی کچھ تو کبھی کچھ ان کو لاکر دیتا -حیدر نے کھا بھائی جان !آپ تشریف رکھیں-لیکن عادل کیا بتاتا کہ اس پر کیا گزر رہی ہے-اس دن تیز گام بھی ایسا لگتا تھا سست گام ہوگئی تھی-جو چلنے کا نام نہیں لے رہی تھی-خیر جیسے تیسے ٹرین وہاں سے روانہ ہوئی تو وہ کوپے سے اتر گیا-اس کی ذہنی حالت بہت خستہ تھی -اس نے اپنے ایک ساتھ کے ذمہ کام لگایا اور گھر چلا آیا-گھر آکر اپنے کمرے میں بیڈ پر دراز ہوگیا-اس کے ذہن پر ماضی کی ایک فلم چلنے لگی تھی-وہ ماضی کی یادوں میں کھوگیا-
اس کی ریل وے میں نئی نئی ملازمت ہوئی تھی-ٹرین میں اس کا سفر اور کھانا فری تھا-وہ پہلی مرتبہ ملازمت کے بعد کراچی گیا-اور وہاں اس اپنے ایک عزیز کے ہاں ٹھہرا -اس کے عزیز ایک رات اس کو نارتھ ناظم آباد ایک گھر لے گئے-یہ مصطفیٰ حیدری کا گھر تھا جو ایک عرصۂ ہوا وفات پا گئے تھے-ان کے بیٹے سعودی عرب ہوتے تھے-جبکہ گھر میں ان کی اہلیہ اور ایک بیٹی شاہین رہا کرتی تھیں-شاہین ایک اسکول میں ٹیچر تھیں-عادل جب وہاں گئے تو شاہین ان کو بہت زبردست ادبی اور جاملیاتی ذوق کی مالک خاتون لگیں-عادل کو بھی شعر و ادب اور موسیقی سے خاص لگاؤ تھا-شاہین کے پاس موسیقی کی بہت اچھی کلیکشن تھی-اور اس کا ایک مختصر سا کتب خانہ تھا-جس میں کتابوں کا انتخاب خوب تھا-دونوں میں خوب نبھ گئی تھی-شاہین نے عادل کو پیشکش کی وہ اس کو کراچی کی سیر کرتی ہے-عادل کو جس طرح سے شاہین نے کراچی کی تاریخی اور ثقافتی سیر کرائی وہ عادل کبھی نہیں بھول سکتا تھا-یہ سفر اس کے لئے یادگار سفر تھا-شاہین اس کی اچھی دوست بن گئی تھی-عادل کراچی سے واپس آگئے-لیکن دونوں میں خطوط کا تبادلۂ ہوتا رہا-دوستی مستحکم ہوگئی-
ہندوستان میں عادل کے ایک رشتہ دار کان پور میں رہا کرتے تھے-ان کو سب پیار سے پیارے میاں کہ کر بلاتے تھے-موصوف خوب گورے چٹے تھے-بہت وجیہ تھے-ان کو اپنی رعنائ پر ناز تھا-وہ پاکستان آئے-عادل کے پاس بھی ٹھہرے -اور پھر عادل کے ساتھ اپنے عزیز و اقارب سے ملنے کراچی بھی تشریف لے گئے-وہیں پر عادل کے ساتھ پیارے میاں بھی شاہین سے ملے-شاہین کو دیکھا تو دیکھ کر ان پر فریفتہ ہوگئے-اور عادل سے کہنے لگے کہ یار میں تو شاہین پر یہ دل ہار بیٹھا ہوں-اور عادل کو کہا کہ کوئی سبیل کرو کہ میں اظہار کر سکوں-عادل نے سمندر کی سیر کا پروگرام بنا لیا -اور ایک مقرہ دن تینوں سیر پر چلے گئے-کراچی کے ساحل سمندر پر سیر کرتے ہوئے پیارے میاں نے جب شاہین کو اپنے دل کا حال سنایا تو شاہین نے سختی سے پیارے میاں کو کہا کہ ان کے دل میں پیارے میاں مکے لئے کوئی جگہ نہیں ہے-وہ عادل کے دوست ہونے کی وجہ سے ان کی عزت کرتی ہے-سمندر سے واپسی آتے ہوئے شاہین نے کار میں بیٹھتے ہوئے عادل کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور اس کو ہلکا سا دبایا-اور جب عادل واپس اپنے شہر جانے لگا تو اس کو استاد امانت علی کی ایک کیسٹ دی جس میں ان کا صرف ایک ہی گانا ریکارڈ تھا-ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام بھی آئے-عادل جب گھر آیا اور اس کیسٹ میں یہ گانا بار بار سنا تھ اس کی حالت بھی دبدل گئی-ایک ہفتہ نباد عادل کو شاہین کا خط ملا -خط میں پہلی دفعہ اظہار محبت کیا گیا تھا-عادل نے بھی جواب میں محبت سے بھرا ایک پتر لکھا-یوں قیامت کے ناموں کا ایک سلسلہ چل نکلا-عادل کراچی جاتا تو شاہین اور وہ اکثر شامیں یا تو ساحل سمندر پر گزارتے یا پھر ان کی شامیں صدر میں بنے مختلف کیفوں میں گرتی تھیں-زندگی بہت حسین ہوگئی تھی-
عادل کو ایک دن شاہین نے فون کیا اور کہا کہ اس کا ایک رشتہ آیا ہے-اور وہ چاہتی ہے کہ تم کسی طرح سے اس کا ہاتھ مانگ لو-پھر بیشک شادی دس سال بعد کرلینا -عادل نے جب یہ سنا تو اس نے بہت ہمت کرنی چاہی کہ اپنی والدہ سے بات کرے مگر نہیں کر پایا-اس نے اپنے دوست رضا واسطی سے بات کی جو اس کی اس محبت سے واقف تھا-تو رضا واسطی اور ان کی بہن عادل کے گھر ان کی والدہ کے پاس گئے-اور ان سے عادل اور شاہین کے رشتہ کی بات چلانے کو کہا-شاہین کی رضا واسطی کی بہن نے بہت تعریف کی تو آدفل کی والدہ کہنے لگیں کہ ان کو شاہین کے بارے میں ان کی بھابی نے بتایا تھا-وہ بہت آزاد خیال ہے-اور ہم سادات کے ہاں ایسی آزاد خیالی کا تصور بھی نہیں ہے-انھوں نے سختی سے انکار کر دیا-رضا اور ان کی بہن میو ہوکر واپس آگئے-عادل اپنی ماں کا بہت فرمانبردار تھا -وہ ان کی نافرمانی کر کے جنت سے محروم نہیں ہونا چاہتا تھا-عادل بہت رنجیدگی کے ساتھ رات کو محسن شیرازی کے گھر پہنچا -جہاں رات کو محفل فسجا کرتی تھی-مشسن شیرازی کٹر مارکسی تھے-ان کا حلقہ احباب میں صرف عادل ہی مذہبی ترقی پسند تھا-محسن نے یہ لقب عادل کو دیا تھا-محسن نے جب عادل کے چہرے کو بھجا بھجا دیکھا تو پوچھا کیوں بھی شاہ جی!اس قدر اداس کیوں ہو-عادل نے پہلے ٹالنا چاہا مگر جب محسن کا اصرار زیادہ ہوا تو اس نے ساری کہانی کھول دی-یاس پر محسن تو بہت غصے میں آگیا-اور کہنے لگا عادل تم بہت زیادتی کر رہے ہو-ماں کے قدموں میں جنت ہوتی ہوگی لیکن اس کا مطلوب یہ نہیں ہے کہ اس جنت کے لئے تم ایک جہنم مستقل طور اپنے سینے میں آباد کر لو-محسن بہت کچھ کہتا رہا لیکن عادل خاموش رہا-
ایک ہفتہ بعد اس نے شاہین کو فون کیا کہ وہ کراچی آرہا ہے اس کو کوئی بات کرنا ہے-اس نے اپنے دوست علی واسطی کو فون کیا کہ وہ کراچی آرہا ہے-اپنے کسی عزیز کو بتانا نہیں چاہتا-اور اس مرتبہ اس کی کراچی آمد شائد ایک زندہ کی آمد ہو اور وہ واپس جاتا ہوا شائد زندہ نہ ہو-علی واسطی یہ سنکر بہت پریشان ہوا-عادل کراچی چلا آیا-اس نے شاہین کو صدر کے اس کیفے میں بلایا جہاں سے انھوں نے اکٹھے پہلی مرتبہ کھانا کھایا تھا-شاہین کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ وہ اس کو کیا کہنا والا ہے-شاہین آئی اور اس کے ساتھ بیٹھ گئی-اس نے شاہین کو بس دو جملے کہے کہ وہ اس سے شہدی نہیں کر سکتا اور وہ اس کو ہر عہد سے آزاد کرتا ہے-یہ سنکر شاہین بھی کچھ نہیں بولی اور خاموشی سے اٹھ کر چلی گئی-دو ماہ بعد عادل کو شاہین کی ماں کا فون آیا-اس نے عادل کو کراچی آنے کا کہا -عادل شاہین کے گھر پہنچا -شاہین ابھی اسکول سے نہیں آئی تھی-شاہین کی ماں نے کہا کہ عادل شاہین تمہاری بہت اچھی دوست ہے-اس کو نجانے کیا ہوا ہے-وہ اپنی فرمایش سے اپنے بھائی سے منگوایا ہوا سامان اپنے دوستوں میں بانٹ رہی ہے -ابھی کل اس نے نیا ٹائپ ریکارڈر اپنی ایک سہیلی کو دے ڈالا-اس نے جو پلات خریدا تھا وہ بھی اونے پونے بیچ ڈالا ہے-ہماری بات تو وہ سنتی نہیں ہے-تم ہی اس کو کہو-عادل کے دماغ میں آندھیاں چل رہی تھیں -اس کو ساحل سمندر پہ گزری شاموں کا احوال یاد آرہا تھا-شاہین نے اس کو بتایا تھا کہ اس کو جب معلوم ہوا کہ عادل کو ٹائپ ریکارڈر کا بہت شوق ہے تو اس نے اپنے بھیا کو کہہ کر وہ منگوا لیا-جب ان کی شہدی ہوگی تو وہ اس کو گفت کرے گی-اس نے اس طرح سے کراچی کے ایک پاپوش علاقے میں پلاٹ خریدا تھا کہ اس پر مکان بنوا کر وہ دونوں رہیں گے-کیسے کیسے کیسے خواب دیکھ تھے دونوں نے-آج جب ان کی تعبیر نہیں نکلی تو شاہین سارے خواب کدے اپنے ہاتھوں سے مسمار کر رہی تھی-عادل یہ سوچ کر اندر اندر لرز رہا تھا-اور اپنی سوچوں میں گم تھا کہ شاہین آگئی-گرمیوں کے دن تھے-شاہین کا چہرہ دھوپ کی تمازت سے تمتمایا ہوا تھا-سر کے بالوں کی کچھ لٹیں اس کے چہرے پر آگری تھیں-عادل سے وہ منظر دیکھا نہیں جارہا تھا-اس قدر حسین لگ رہی تھی وہ-مگر آنگون میں اداسی کے ساغر تھے-شاہین کو اس نے سلام کیا اور پھر جب وہ فریش ہوکر اس کے پاس آئی تو اس نے کہا کہ شاہین تم کیا کر رہی ہو-اور کیوں اپنی چیزیں اس طرح سے بانٹ رہی ہو-تو شاہین بولی-عادل اب یہ صرف میری زندگی ہے اور اس سے جڑی چیزیں بھی میری ہیں آپ کو اس بارے میں بولنے کا کوئی حق ماہی ہے-عادل نے یہ سنا تو اس کو چھپ لگ گئی اور وہ وہاں سے چلا آیا-کچھ ماہ بعد شاہین کی شادی کا کارڈ آگیا-وہ شادی میں نہیں گیا تھا-اور وہ تو جیسے دنیا سے بیگانہ ہوگیا تھا-اس نے اپنی بہنوں کی شادی کی- بھائیوں کی شادی کی -لیکن اپنی شادی سے گریز کیا-اسی دوران والدہ کا انتقال ہوگیا-اس کے بہن اور بھائی دوسرے شہروں میں شفٹ ہونے لگے-بھائیوں نے اس کو بھی لاہور چلنے کو کہا مگر اس نے ایسا کرنے سے انکار کیا-عادل کا کہنا تھا کہ اس شہر مینس کی ماں کی قبر ہے - وہ کیسے اس کو چھوڑ کر جاسکتا ہے-پھر اس پر شادی کے لئے دباؤ پڑا اور اس کی بری بہن جو اس کی ماں جیسی تھی-اس نے اپنا دوپٹہ پھیلا کر اس کو شادی کرنے کو کہا تو اس کو مجبوری میں شادی کرنا پڑی-مگر اس نے ساری زندگی اپنی بیوی کو اپنے زخم خوردہ ہونے کا احساس نہیں ہونے دیا-اس کے مرنے تک اس کو خوش و خرم رکھا-وہ یہ سب سوچ رہا تھا کہ اس کی چھوٹی سی بیٹی کمرے میں آئی اور تتلاتی زبان میں پوچھنے لگی بابا کیا ہوا ؟آپ نے آج ہمیں کھانا نہیں کھلانا؟تو وہ اٹھ کھڑا ہوا-اس نے اپنے بچوں کو کھانا کھلایا اور مغرب کی نماز پڑھ کر وہ گھر سے نکلا اور مکزی قزبرستان چلا آیا -وہاں آکر اس نے اپنی بیوی اور اپنی ماں کی قبر پر دیا جلایا-اور ان کے لئے خیر طلب کی-پھر بوجھل قدموں سے واپس گھر کی طرف لوٹ گیا-

Monday 13 February 2012

محبت کرنے والے کم نہیں ہوں گے



محبت کرنے والے کم نہیں ہوں گے
افسانہ /عامر حسینی
پورے روم میں خوف کی فضاء طاری تھی -شہنشاہ کے سپاہی روم کی گلیوں میں گشت کر رہے تھے-چوکوں اور چوراہوں پر پہرے اور ناکے لگے ہوئے تھے-گھر گھر تلاشی کا سلسلہ جاری تھا-اور سرکاری منادی کرنے والے منادی کرتے پھرتے تھے کہ خبردار روم کا کوئی شہری محبت کرنے کی کوشش نہ کرے اور کوئی پادری کسی گرجا میں کسی محبت کرنے والے جوڑے کی شادی نہ کرے-اگر کسی نے شادی کی رسومات ادا کیں تو اس کو سخت سزا کا سامنا کرنا ہوگا-شہنشاہ کا یہ فرمان روم کے کوچہ کوچہ اور قریہ قریہ میں گشت کر رہا تھا-نوجوان دبک کر بیٹھ گئے تھے-اسقف اعظم نے تمام گرجا گھروں کو سختی سے حکم دیا تھا کہ روم کے حاکم کے فرمان کو سختی سے نافذ کیا جائے-کوئی اس حکم کے خلاف بولنے کو تیار نہیں تھا-
روم میں مشرق کی طرف ایک قدیم محلہ تھا-جس کی ایک تنگ و تاریک گلی میں ایک دو منزلہ مکان میں جان پال نام کا ایک نوجوان بیچینی سے اپنے کمرے میں ٹہل رہا تھا-وہ ایک کلیسائی مدرسہ میں پڑھتا تھا -اور اس کو اس مدرسہ میں روز جانے کے لئے محلہ سینٹ پال سے گزرنا ہوتا تھا-اس محلہ کی ایک گلی سے جب بھی وہ گزرتا تھا تو ایک مکان جو سرخ اینٹوں سے بنا ہوا تھا کے ایک کمرے کی کھڑکی کھل جاتی تھی اور ایک نقاب پوش لڑکی وہاں سے جھانک رہی ہوتی تھی-اس کی آنکھوں میں کوئی سحر تھا جو اس کو جکڑ لیتا تھا-پہلے پہل وہ بس کی خیال نہ کرتا لیکن آہستہ آہستہ اس کو اب روز صبح ہونے کا انتظار رہنے لگا تھا-صبح سویرے جب وہ محلہ سینٹ پال کی گلی سے گزرتا اور اس مکان کے سامنے کچھ دیر ٹھہر جاتا تھا-اب کھڑکی پوری طرح سے کھلنے لگی تھی-اور اس میں سے اس لڑکی کا پورا سراپا دکھائی دیتا تھا-وہ کچھ دیر وہاں کھڑا رہتا اور جب گلی میں چہل پہل کے آثار نظر آنے لگتے تو وہاں سے چل پڑتا تھا-یہ سلسلہ یونہی چل رہا تھا کہ ایک دن جب وہ اس گلی میں اس مکان کے سامنے جا کر ٹھہرا تو کھڑکی سے جھانکتی نقاب پوش لڑکی نے ایک پھول اس کی طرف پھینکا جس کو اس نے کیچ کر لیا-سرخ گلوب کا پھول ترو تازہ تھا-اس میں سے بھینی بھینی مہک آرہی تھی-یہ نقاب پوش لڑکی کے جذبات کا اظہار تھا-پھر ایک دن جب وہ چھٹی والے دن مرکزی بازار سے گزر رہا تھا تو اس کو وہ نقاب سے جھانکتی آنکھیں نظر آئیں تو وہ اس کے پیچھے چل پڑا-لڑکی کے ساتھ ایک خاتون تھی-اور لڑکی نے بھی اس کو دیکھ لیا تھا-اس کی آنکھوں پر پلکوں کی جھالر اچانک نیچے جھکی گویا لڑکے کو سلام کیا گیا تھا -اس نے بھی آنکھ کے اشارے سے اس کو سلام کیا-ابھی وہ لڑکی کے قریب ہونا چاہتا تھا کہ اس کی نظر روم کے ایک فوجی گھڑ سوار دستے پر پڑی جو تیزی سے بازار میں داخل ہو رہا تھا-وہ چپ چاپ دوسری طرف نکل گیا-اس کو بہت افسوس تھا کہ وہ لڑکی سے کوئی بات نہ کر سکا-
آج اتوار تھا-اس نے فیصلہ کیا کہ اس دن عبادت وہ سینٹ پال محلے کے گرجا گھر میں کرے گا-وہ صبح تیار ہوکر سینٹ پال گرجا گھر چلا گیا-اور اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی جب نس نے اس لڑکی کو اسی طرح سے نقاب میں ایک خاتون کے ساتھ دیکھا-اس نے لڑکی کے پیچھے والی نشست سنبھال لی-اس نے رات کو بیٹھ کر کی ورق لکھے تھے اور پھر ایک ورق پر لکھا خط چن کر اس کو دینے کا فیصلہ کیا تھا-اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا-جب سب لوگ باری باری پادری برکت حاصل کر رہے تھے تو اس نے موقعہ پا کر اس لڑکی کے ہاتھ میں وہ خط تھما دیا-جس نے خط کو اپنی عبا میں چھپا لیا تھا-سینٹ پال کا پادری ایک نوجوان تھا-اس کے چہرے پر بہت معصومیت تھی-نور کی کرنیں اس کے جوان چہرے سے پھوٹتی محسوس ہوتی تھیں-اس نے بہت نرم دلی سے جان پال کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کو ڈھیروں دعائیں دے ڈالیں-جان پال بہت خوش تھا-وہ گرجا سے باہر نکل آیا -اگلی صبح جب وہ مدرسہ جا رہا تھا تو اسی گلی سے گرا-جب مکان کے پاس پہنچا تو کھڑکی کھلی ہوئی تھی-آج اس نقاب پوش لڑکی نے نقاب کھول رکھا تھا-اس کا چہرہ دیکھ کر جان پال کو لگا جیسے اس کا دل دھڑکنا بند ہوگیا ہو-ساری کائنات ٹھہر گئی ہو-لڑکی نے کوئی چیز اس کی طرف پھینکی جس کو اس نے اپنی جھولی میں کیچ کر لیا-یہ بند لفافہ تھا-اس نے اس کو اپنی قمیض کی جیب میں ڈال لیا -لڑکی اپنے ہاتھ کو ماتھے تک لے گئی اور اس کے لب حرکت کرتے نظر آئے-اس نے بھی ہاتھ کے اشارے سے اس کو سلام کیا اور چل پڑا-مدرسہ میں اس کا دل نہ لگا-وہ جلدی سے گھر جانا چاہتا تھا-شام کو جب چھٹی ہوئی تو اس نے اپنے کسی بھی ساتھ کی طرف نہ دیکھا اور تقریبا دوڑتے ہوئے گھر کی طرف روانہ ہوگیا-گھر میں اس کا مروہ سب سے اوپر والی منزل پر تھا-اس نے اوپر آکر بیتابی سے خط کھولا .............
میرے گمنام شہزادے ...........
سلام !
تمھیں میں ادھ کھلی کھڑکی سے روز گلی سے صبح سویرے گرزتے دیکھا کرتی تھی-مجھے نہیں معلوم کے کب تمھیں یوں چوری چھپے دیکھتے دیکھتے میں تم سے محبت کرنے لگی-مجھ میں ہمت نہیں تھی کہ تم سے اظہار کر پاتی-بس پھر جب تم بھی مجھے دیکھنے لگے اور اس دن بازار میں تمہارا بیتابی سے میری طرف کھنچے چلے آنا مجھے یقین دلا گیا کہ تم بھی مجھ سے پیر کرتے ہو-اس دن سنڈے کو تم نے جب گرجا گھر میں مجھے خط دیا تو مجھے معلوم ہوا کہ تمہارا نام جان پال ہے اور تم مدرسہ کے طالب علم ہو-میں اس خط کو رات بھر لیکر کرسی پر بیٹھی پڑھتی رہی-کئی بار اس خط کو سینے سے لگایا -پتہ ہی نہیں چلا کب صبیح ہوگئی-میں نے صبح تمہارے آنے سے پہلے یہ خط لکھنا شروع کیا تھا-تمہیں کیسے بتاؤں دل کا کیا حال ہے-ہمارے ملنے میں بہت سی مشکل حائل ہے-لیکن میں تمھیں کہتی ہوں اس مرتبہ جب تم گرجا گھر او تو میں سب سے نظریں بچا کر تم سے گرجا کے پیچھے والے صحن کی گیلری میں ملوں گی-تم بھی وہیں آجانا-
وسلام
تمھاری نتاشا ڈومینیکا
خط کو جان پال نے کئی مرتبہ پڑھا اور اس کو اپنے سینے سے لگا کر خونب خوب بھینچا -ساری رات اس کی بھی جاگتے گزری-اس کے دماغ میں نتاشا ڈومینکا کا سراپا گھوم رہا تھا-
پھر اتوار کا دن آپہنچا اور جب سب پادری سے برکت حاصل کر رہے تھے تو جان پال اور نتاشا ڈومینکا دونوں گرجا کی عمارت کے عقبی حصہ میں بنے ایک لان کے ساتھ بنی گیلری میں ملے-دونوں ایک دوسرے سے لپٹ گئے اور کافی دیر ایک دوسرے میں کھوئے رہے-پھر اچانک نتاشا ڈومینکا نے کہا کہ اس کی ملازمہ پریشن ہو جائے گی اب وہ چلتی ہے-دونوں نے اگلے اتوار پھر ملنے کا وعدہ کیا-
دونوں ہر اتوار گرجا گھر میں اسی طرح سے چوری چھپے ملتے رہے-روم میں محبت کرنے اور شادی کرنے پر پابندی لگ چکی تھی-شہنشاہ کو تجرید کی زندگی کو روم کا رواج اور قانون بنانے کا خبط ہوچلا تھا-اور کسی مذہبی رہنما میں جرات نہیں تھی کہ شہنشاہ کے اس خبط کو خبط کہہ کر رد کرنے کی ہمت کرے-چند ایک نوجوانوں لڑکے اور لڑکیوں قانون کی خلاف ورزی کی سخت سزا دی گئی تھی-ایسے میں جان پال اور نتاشا کیلئے بہت مشکل تھا کہ وہ ایک ہونے کی کوئی سبیل کرتے-
ایک اتوار کو جب وہ اسی گرجا گھر کی گیلری میں مل رہے تھے تو نجانے کہاں سے گرجا کا ووہی نوجوان پادری وہاں آنکلا تھا-وہ اس کو دیکھ کر سخت گھبرا گئے تھے-لیکن پادری نے نرم نگاہوں سے ان کو دیکھا -اور ان سے پوچھا کہ وہ کون ہیں-تعارف کے بعد پادری نے ان کو تنہائی میں چھوڑ دیا-جب وہ جانے لگے تو پادری نے کہا کہ آئندہ وہ اس کے دفتر میں مل سکتے ہیں-
روم میں شہنشاہ کے مخبروں نے یاس کو خبر کی کہ روم میں نوجوان محبت کرنے والے جوڑوں کو کوئی شخص ملنے اور ان کو خفیہ طور پر ایک کرنے کی کوشش کر رہا ہے-وہ ان جوڑوں کی شادی بھی کروا رہا ہے-شنشہ نے اپنے سپاہیوں کو تلاشی سخت کرنے اور جاسوسی کے محکمہ کو اس شخص کا پتہ چلانے کا حکم دیا-پورے روم میں سخت قسم کی تلاشی اور جاسوسی کا کام شروع کر دیا گیا -جلد ہی اسقف اعظم نے جاسوسی محکمہ کے سربراہ کو خبر دی کے سینٹ پال گرجا گھر کا ایک نجوان پادری اس طرح کی حرکت کا مرتکب ہورہا ہے-شہنشاہ تک جب یہ خبر پہنچی تو اس نے پفوری طور پر اس پادری کی گرفتاری سے گریز کیا-اور اسقف اعظم سے رائے مانگی کہ اس کو کس طرح سے گرفتار کیا جائے-اسقف اعظم نے اپنی مذہبی کونسل سے مشوره کیا اور شہنشاہ کو مشوره دیا کہ سینٹ پال کے پادری پر شیطان پر ایمان لانے کا الزام لگا دیا جائے-
جب روم کا شہنشاہ رات کو اسقف اعظم سے مشوره کر رہا تھا تو سینٹ پال گرجا گھر کے ایک کمرے میں پادری اور چند اس کے ماننے والے موجود تھے-جبکہ جان پال اور نتاشا ڈومینکا دلہا اور دلہن کے لباس میں موجود تھے-دونوں کو سینٹ پال کے پادری نے ایک کر دیا تھا-سینٹ پال کا پادری دونوں کو کہہ رہا تھا کہ وہ حلف دیں کے وہ جب تک زندہ رہیں گے تو محبت ،امن اور مساوات کے لئے قائم کرتے رہیں گے-
اگلی صبح اتوار تھی-لوگ سینٹ پال کے گرجا گھر میں اکٹھے تھے-سینٹ پال کا پادری انجیل مقدس کی طالوت کر رہا تھا-کہ اچانک مرکزی دروازہ زور سے کھلا اور شنشہ روم کے فوجی دندناتے ہوئے اندر آغسے اور انھوں نے سینٹ پال گرجا گھر کے پادری کو انجیل مقدس پڑھتے ہوئے گرفتار کر لیا-پادری کے چہرے پر ذرا خوف کے آثار نہیں تھے-وہ مسکراتے ہوئے سپاہیوں کے ساتھ چل پڑا -اس کو قید خانے میں ڈال دیا گیا-اور اس کے خلاف مقدمے کی کاروائی شروع ہوگئی-اسقف اعظم مقدمے کی سماعت کر رہا تھا-مذہبی کونسل کے دیگر اراکین بھی موجود تھے-اسقف اعظم نے محکمہ جاسوسی کے سربراہ کو پادری کے خلاف فرد جرم پڑھ کر سنانے کے لئے کہا-محکمہ جاسوسی کے سربراہ نے فرد جرم پڑھنا شروع کی-
،،"سینٹ پال گرجا گھر کا پادری ویلٹائن کے بارے میں ہمارے ایک جاسوس نے خبر دی کہ وہ شیطان کے فرقہ میں شامل ہوگیا ہے-وہ نوجوانوں کو گمراہ کر رہا ہے اور ان میں زنا کاری کو عام کر رہا ہے-وہ خفیہ طور پر سینٹ پال گرجا گھر کو شیطان کے پیروکاروں کا مرکز بنا رہا ہے-ہمارے کئی جاسوس اس کے پاس گئے اور پھر دکھاوے کے لئے شیطان کے فرقہ کے ممبر بن گئے-ویلنٹائن یہ سب کر رہا تھا-اور وہ کہتا ہے کہ شہنشاہ روم خداوند کے نائب نہیں ہیں-اور وہ یسوع کو مصلوب بھی خیال نہیں کرتا"
محکمہ جاسوسی کا سربراہ اور بھی الزامات لگاتا رہا- اس کے بعد اس نے گواہان پیش کرنے شروع کے-سب نے گواہی دی کہ ویلنٹائن ان سب جرائم میں ملوث تھا جن کا تذکرہ فرد جرم میں ہوا-
اسقف اعظم نے پوچھا کہ ویلنٹائن اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہتا ہے تو ویلنٹائن جو خندہ پیشانی سے سب کچھ سبن رہا تھا کہنے لگا کہ نہ تو وہ شیطان کا پیروکار ہے-نہ ہی کسی کو اس کی تبلیغ کرتا ہے-اس نے تو محبت اور شادی کو جرم قرار دینے والے شیطانی حکم کی خلاف ورزی کی ہے-اور یسوع مسیح کے محبت ،امن اور مساوات کی اقدار کو عام کیا ہے یهیگر جرم ہے تو وہ یہ کرتا رہے گا-ہاں شہنشاہ ہوںیا بادشاہ وہ خداوند کا نہ تو سایہ ہیں نہ ہی وہ نائب-وہ ناجیز قابض ہیں-خادوند ظالموں کو نائب تو کیا اپنا پیرو بھی نہیں بناتے-
یہ کہہ کر ویلنٹائن چپ ہوگیا-
اسقف اعظم اور اس کی کونسل کے ممبر کچھ دیر اٹھ کر اندر کمرے میں چلے گئے-گھنٹہ بعد کونسل دوبارہ آکر بیٹھی تو اسقف اعظم نے ایک کپڑے پر لکھی تحریر پڑھنا شروع کی جس میں لکھا تھا کہ پادری ویلنٹائن پر لگے الزام ثابت ہوئے ہیں اور اس کو ان الزامات کے ثابت ہونے پر سولی پر لٹکائے جانے کا حکم سنایا جاتا ہے-
14 فروری کا دن تھا-روم کے مرکزی چوک میں ایک تختہ گاڑھ کر اس پر پادری ویلنٹائن کو لٹکا دیا گیا تھا-کیلیں ٹھونکی جارہی تھیں اس کے ہاتھوں اور پیروں میں اور پادری ویلنٹائن کے چہرے پر کرب بھی تھا مگر ہونٹوں پر مسکان مٹائے نہ مٹتی تھی-جب اس نے لب کھولے اور انجیل مقدس میں یسوع کے محبت پر مبنی گیت گانے شروع کئے ٹچوک میں کئی آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی-ہجوم میں ایک جگہ جان پال اور نتاشا ڈومینکا بھی موجود تھے جو پادری ویلنٹائن کی مسلک محبت سے وابستگی کی وجہ سے ایک ہوگئے تھے-جان پال بہت بچیں نظر آتا تھا-وہ ویلنٹائن کو بچانا چاہتا تھا کہ اس کی نظریں ویلنٹائن کی نظروں سے مل گئیں -ویلنٹائن کی آنکھوں میں چمک آگئی اور جیسے وہ جان پال کے ارادے کو پہچان گیا ہو اس نے آنکھ کے اشارے سے پال کو وجہیں رک جانے کو کہا-اور پھر زور سے بولا
"جن سے محبت ،امن اور مساوات پھیلانے کا عہد ہوا ان کو چاہئے کہ وہ عہد پر قائم رہیں اور محبت کو امر کر دیں-مصیبت پر صبر کریں-مصلوب ہونا تو یسوع کی سنت ہے اس پر گھبرانا کیسا -اور مسلک محبت پر چلنے والوں کی جان سے زیادہ ان کی زبان سے نکلے لفظ خطرناک سمجھے جاتے ہیں-"
اسقف اعظم بہت بچیں نظر آتا تھا اس کو ڈر تھا کہ اگر ویلنٹائن اسی طرح سے بولتا رہا تو ہجوم بغاوت کر دے گا-اس نے چیخ کر جلادوں سے کہا کہ ویلنٹائن کی زبان کاٹ ڈالو -اس پر شیطان کا قبضہ ہوچکا ہے-اور پھر اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالو -جلاد یہ سنتے ہی آگے بڑھے اور ویلنٹائن کی زبان کاٹ ڈالی پھر ہاتھ اور پیر-اس کے بعد وائنتآئن کو مسلونب کر دیا گیا-
رات ہوچکی تھی اور روم کے کئی گھروں میں آج چراغ نہیں جلے تھے-کھانا نہیں پکا تھا-کئی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں سیاہ ماتمی لباس زیب تن کئے ہوئے تھے-
ویلنٹائن کو سولی دئے ایک سال گزر چکا تھا -اسقف اعظم اور شہنشاہ کی موت ہوچکی تھی-نئے شہنشاہ نے نئے اسقف اعظم کو کہہ کر محبت کرنے اور شادی کرنے کا قانون دوبارہ جاری کر دیا تھا-
14 فروری پھر ان پہنچا تھا -اس دن جان پال نے سرخ رنگ کے پھولوں کی ایک چادر لی اور نتاشا اور اپنے ایک سال کے بچے کے ساتھ اس چوک میں آگیا جہاں پر ویلنٹائن کو سولی دی گئی تھی-اس نے اس مقام پر جہاں ویلنٹائن کی سولی تھی پھولوں کی چادر رکھی اور علامتی طور پر اس نے نتاشا کو بوسہ دیا-ایک سال کے بیٹے جس کا نام انھوں نے والنتآئن رکھا تھا اس کو چوما-ابھی وہ وہاں کھرے ہی تھے کہ انھوں نے دیکھا کہ کئی اور لڑکے لڑکیاں پھول کی چادر اٹھائے چوک کی طرف آرہے تھے-سب ایک دوسرے سے اظہار محبت کر رہے تھے-چوک سرخ گلابوں سے بھر گیا تھا-شام کو جیسے سارے روم کے مرد اور عورتیں اس چوک میں اکٹھے ہوگئے تھے-سب نے مل کر موم بتیاں روشن کی تھیں-جان پال اور نتاشا ڈومینکا کو لگا کہ دور کہیں آسمان پر ویلنٹائن مسکرا رہا تھا اور کہہ رہا تھا
محبت کرنے والے کم نہیں ہوں گے

Saturday 4 February 2012

مجھے معاف کردینا (افسانہ) تحریر :عامرحسینی

غزالہ کا جنم ایک متوسط طبقے کے گھرانے میں ہوا تھا-اور وہ ایک پسماندہ علاقے میں پیدا ہوئی تھی-جہاں لڑکیوں کو بس دسویں تک تعلیم دلائے جانے کے بعد گھر بیٹھا لیا جاتا تھا اور پھر کوئی اچھا سا بر دیکھ کر اس کی شادی کر دی جاتی تھی-ایک تو وہ پسماندہ علاقے میں جنم پذیر ہوئی -دوسرا پھر وہ سید گھرانے کی بیٹی تھی-اس لئے جب وہ پانچویں کلاس میں پڑھتی تھی تو اس کو حجاب لینا پڑا-آج وہ سوچتی ہے تو اسے بہت عجیب لگتا ہے اتنی چھوٹی سی عمر میں مکمل لپٹے لپٹائے ہوکر گھر سے باہر نکلنا اور اسکول جانا-اس کے والد سید مستجاب حیدر بری فوج سے ریٹائر ہوچکے تھے لیکین وہ خود کو ابھی تک فوجی ان سروس خیال کرتے تھے-اس کی والدہ سیدہ خاتون بیگم پیشہ کے اعتبار سے استانی تھیں-اور ان میں سخت گیر استانیوں والی ساری عادتیں پائی جاتی تھیں-غزالہ نے میٹرک کیا تو کالج جانے پر اصرار کیا -اس کے والد اور بھائی اس کے کالج جانے کی مخالفت کرنے لگے-اس نے بہت زد کی تو ہتھیار دل دیے گئے لیکن باپور والد بلا ناغہ اس کو علاقے میں قائم ایک انٹر کالج تک چھوڑنے آیا کرتے تھے-وہاں اکثر لڑکیاں ایک عدد پہرے دار اور نگہبان کے ساتھ آتی تھیں-لیکن وہ واحد لڑکی تھی جو دو دو پہرے داروں کی نگرانی میں کالج آتی اور جاتی تھی-سر سے پیر تک ایک حجاب ہوتا ،ہاتھوں میں دستانے اور آنکھوں پر بلیک عدسوں کی عینک -گویا سر تا پیر تک اس کو اپنا آپ چھپانا پڑتا تھا-سردیوں میں تو یہ چل جاتا تھا لیکن گرمیوں میں اس کو اپنا سانس بند ہوتا ہوا محسوںس ہوتا تھا-دونوں پہریدار بہت عجیب تھے-کالج سے آتے ہوئے اور کالج جاتے ہوئے ان کے چہروں پر عجیب سے سختی جھلکتی تھی-بہت زیادہ سنجیدہ ہوتے-اس پاس وحشت سے دیکھتے ہوئے چلتے-اس کو بات کرنے کی تو کیا زور سے سانس لینے یا کھانسنے کی اجازت نہیں تھی-اس کو کہا جاتا نظریں نیچی رکھے اور چلتی چلی جائے-شروع میں تو بہت تکلیفیں اٹھانی پڑیں -اکثر اس کو ٹھوکر لگ جاتی اور وہ اپنی آواز بھی نکلنے نہیں دے دیتی تھی-جب تک گھر نہ آجاتا دونوں پہریداروں کا منہ سختی سے بند ہوجاتا تھا-پھر گھر آکر اس کو لگتا کہ باہر جو ابا اور بھائی تھے وہ کوئی اور تھے-یہ جو اندر گھر میں ہیں کوئی اور ہیں-پہلے فل اس کو اپنے ابا اور بھائی کی گھمبیرتا اور وحشت سے الجھن ہوتی بعد میں وہ ان کی وحشت اور الجھن سے لطف اٹھانے لگی تھی -اس کو بہت ہنسی آتی جب رستے میں ابا کا کوئی جانکر مل جاتا اور وہ ابا کو سلام کرتا اور ابا اس کو بہت تیزی سے اور عجیب سا منہ بنا کر جواب دیتے -وہ اپنی دبی دبی ہنسی کو آواز بننے سے روکنے میں مشکل سے کامیاب ہوتی تھی-یہ سلسلہ چلتا رہا-دو دو پہریداروں کو دیکھ کر نوجوان لڑکے اس صدور دور رہتے تھے-لیکن ان میں سے اکثر نظروں ہی نظروں میں پیغام رسانی کرتے اور ابا کی خوفناک نظروں کو دیکھ کر ان لڑکوں کے چہرے پر جو تاثر پیدا ہوتا -اس کی مضحکہ خیزی کو دیکھ کر اسے خوب ہنسی آتی اور مزہ بھی آتا تھا-ابا گھر آکر ماحول کے خراب ہونے کا تذکرہ کرتے اور اپنے زمانے کی سادگی کے گن گاتے تھے-اس کو کالج کے کتاب خانے سے منٹو اور عصمت چغتائی کی کتابیں پڑھنے کو مل گئیں جو اس نے نصابی کتاب میں چھپا کو گھر آکر پرہیں تو اس کو ابا کی جوانی کے زمانے کے سادہ ہونے کا خوب پتا چلا-اس کا بھائی جو ابا کے سامنے بہت زیادہ شریف بنا رہتا تھا اور اس کے ساتھ جاتا ہوا بہت بہت زیادہ سنجیدہ نظر آتا تھا-اس کو جیسے غزالہ کے کچھ ہونے کا ڈرلگا ہو -اووه رات کو اپنے کمرے میں موبائل فون پر اپنی کسی دوست سے لمبی گھنٹوں باتیں کیا کرتا-ایک مرتبہ وہ رات کو واش روم جانے کے لئے اٹھی تو اس کے کمرے کے پاس سے گزرتے ہوئے اس کے کانوں میں بھائی کی جو باتیں پڑیں تو وہ ان کو سن کر حیران بھی ہوئی اور اس کو خوب ہنسی بھی آئی-غزالہ کو ایک دن اپنے ابا اور امان کی لڑائی کے دوران آوازیں سنائی دین تو غزالہ کو معلوم ہوا کہ امان اس کے ابا کو کہہ رہی تھیں کہ ان کو معلوم ہیکہ تم اس بستی میں غریب بیوہ کو کھانا دینے کے بہانے کیا کرنے جاتے ہو-جوان بیٹی اور بیٹوں کے باپ ہوچکے ہو -لیکن تمہاری رنگینی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے-غزالہ نے یہ سب سنا تو بہت حیران ہوئی-ابا کی سخت مزاجی اس کو بس ایک ڈھونگ لگنے لگی تھی-یا پھر اندر کا کوئی چور تھا جو غزالہ کے اولے سے ان کو خدشات کا شکار رکھتا تھا-غزالہ نے انٹر کرنے کے بعد جب بی اے کرنے کے لئے یونیورسٹی جانے کی خواہش ظاہر کی تو پھر ایک ہنگامہ پبا ہوگیا-اس نے بھی بھوک ہڑتال کر ڈالی -دو دیں تک تو ابا نہ نرم ہوئے-تیسرے دن جب اس کی حالت غیر ہونے لگی تو امان کے دباؤ پر ابا راضی ہوگئے -

غزالہ لاہور چلی آئی-ایک بڑا شہر تھا-اور یونورستے اس کے خیالوں سے بھی زیادہ خوبصورت اور دلچسپ جگہ نکلی-پھر اس کو یونورسٹی کے ہاسٹل میں جگہ نہیں ملی تو ایک نجی ہاسٹل میں کمرہ لینا پڑا-ابا چھوڑ گئے تو پہلے دو تین ہفتوے اس نے حجاب میں یونیورسٹی جانا شروع کیا لیکن پھر اس نے حجاب کو ایک طرف رکھ دیا اور ایک چادر کے ساتھ یونیورسٹی جانا شروع کر دیا-بی اے میں اس نے نفسیات اور عمرانیات کے مضمون رکھ ڈالے-تھوڑا انگریزی ادب کا چسکہ بھی لگا-دیہی ماحول سے شہری اور وہ بھی ایک میٹرو پولٹن شہری کلچر سے اس کا واسطہ پڑا تو اس کو زندگی کے نئے روپ دکھائی دئے-اس کو بہت حیرانگی ہوئی شہری لڑکیوں کے اکثر ابا اور بھائیوں کو دیکھر -ان میں اکثر بہت کھلے دل و دماغ والے تھے-اس کو پتہ چلا کہ ہر ابا مستجاب حیدر نہیں ہوتا-ہر بھائی قدوس حسین نہیں ہوتا-اور ایک اپنی دوست مہرین کے ریٹائرڈ فوجی افسر ابا سے ملی تو اس کو پتہ چلا کہ ہر فوجی افسر اس کے ابا کی طرح دوہری زندگی نہیں گزارتا-وہ بی اے کر گئی-اور ایم اے نفسیات میں بھی اچھے نمبروں سے پاس ہوگی-پھر اس نے ایم فل بھی کرڈالا -اس کے گھر والے اس کو واپس آنے کا کہتے تھے-لیکن اس نے پھر پی ایچ ڈی کرنے کا سوچ لیا-گھر والوں نے خرچہ نہ ہونے کا بہانہ کیا تو اس نے پارٹ ٹائم جاب کر کے اپنا خرچہ نکل لیا-پی ایچ ڈی کرنے کے بعد اس کو ایک یونیورسٹی میں کنٹریکٹ جب مل گئی-یہیں پر اس کی ملاقات جوزف سے ہوئی-جووہاں پر کنٹریکٹ پر امریکہ سے فزکس پڑھنے آیا تھا-دونوں بہت تیزی کے ساتھ ایک دوسرے کے قریب ہوتے گئے-وہ نہیں چاہتی تھی کہ دونوں کے درمیانتبدلی مذھب کا کوئی سوال اٹھے لیکن ایک دن جوزف کو پتہ نہیں کیا ہوا اور اس نے غزالہ کو کہا کہ وہ شیعہ مسلم ہوچکا ہے-اس نے اپنا نیا نام علی اکبر رکھا ہے-اس نے کہا اس نے تو ایسا کچھ بھی نہیں کہا تھا-جوزف جو اب علی اکبر ہوچکا تھا کہنے لگا کہ بس اسے لگا کہ غزالہ سے اپنے تعلق کو مضبوط بنانے کے لئے اس کو یہ کرنا ہوگا-اس کے بعد اس نے غزالہ کو شادی کے لئے کہا-غزالہ نے جب اپنے گھر والوں کو بتایا تو ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا-اس کے والد اور بھائی اور ماموں اس کو گھر لیجانے کے لئے آگئے-غزالہ کو کہا جانے لگا کہ ایک نومسل غیر سید سے اس کی شادی نہیں ہوسکتی-غزالہ نے علی اکبر کی مدد سے انتظامیہ کی مدد لی-اور دونوں کورٹ میرج کا سوچنے لگے-جب اس کے والد نے دیکھا کہ معاملہ نہیں سدھر رہا تو اس نے غزالہ کو کہا کہ ہم تمھیں باعزت طریقے سے رخصت کریں گے-لیکن بعد میں کویتعلق نہیں رکھیں گے-غزالہ راضی ہوگئی اور گھر آئی-اس کے گھر والے اس کی شادی کی تیاری کرنے لگے-فروری کی چودہ تاریخ اس کی رخصتی کادن قرار پاگئی-شادی میں دو دن باقی تھے-وہ گھر میں ہونے والی تیاریاں دیکھ کر اپنے اندیکھے خدشات پر کو وہم سمجھ کر ترک کرچکی تھی-ایک رات کو اس کی ماں اس کے لئے چائے بنا کر لی-بڑا مگ تھا چائے کا-اس کو چائے پیش کی-اس نے امان کو کہا آپ نے کیوں تکلیف کی-ماں کہنے لی دو دن بعد تو چلی جائے گی-میں نے اپنے ارمان پورے کئے ہیں-ماں کے ہاتھ کانپ رہے تھے-اس نے سمجھا کے شائد دکھ اور جذبات کی وجہ سے ایسا ہے-اس نے چائے کا گھونٹ بھرا تو اس کو چائے کا ذائقہ عجیب لگا-اس نے ماں کے جذبات کو دیکھتے ہوئے کچھ اظہار نہ کیا-اور چائے سپ کرنے لگی-آدھ کپ پیا ہوگا کہ اس کو اچانک لگا کہ جیسے اس کا سینہ کوئی تیز چھری سے کاٹ رہا ہے -اس نے سینہ پکڑنے کی کوشش کی-لیکن اس کو لگا کہ اس کے ہاتھ پیر مفلوج ہوتے جاتے ہیں-آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا اس نے دیکھا کہ اس کی ماں کے آنکھوں سے آنسوں نکلے جارہے ہیں-اور وہ مشکل سے اپنی چیخوں کو دبا رہی ہے-بس آخری منظر جو اس نے دیکھا وہ یہ تھا کہ اس کی ماں کے ہاتھ اس کی طرف بڑھ رہے تھے-اور اس کے کانوں میں آواز آرہی تھی-بیٹی مجھے معاف کر دینا -