Wednesday 31 December 2014

میں " نیا سال مبارک ہو " کہہ نہ سکا


میں ابھی ابھی دسمبر کی آخری رات کا آخری لمحہ اس جگہ گزار کر واپس آیا ہوں جہاں ہم تین دوست دسمبر کی اس آخری رات کا آخری لمحہ گزارا کرتے تھے اور پچھلے سال دسمبر کی آخری رات کو میں نے ان گزرے لمحوں کی یاد بھی تازہ کی تھی میں 11 بجے رات کو گھر سے نکلا تو اس مرتبہ دسمبر کی یہ آخری رات اس قدر سرد اور کہر آلود نہیں تھی جتنی یہ اس وقت ہوا کرتی تھی ، آسمان پر تارے چمک رہے تھے اور نو ربیع الاول کا چاند پوری آب و تاب سے ضوفشانی کررہا تھا اور اپنے گھر سے نکل جب میں سڑک پر آیا جو کہ مرے گھر سے بس دو قدم کے فاصلے پر ہے تو اس مرتبہ سڑک اس طرح سے ویران نہیں تھی جتنی اس وقت ہوا کرتی تھی ، طارق آباد سے پانچ بلاک اور نو بلاک کے درمیان سے گزرتی سڑک پر بھی اب کچھ رونق تھی ورنہ ان دنوں تو سرشام ہی سناٹا چھا جاتا تھا جبکہ چھے اور دس بلاک کے درمیان سے لیکر نو اور سات بلاک کے درمیان اور اس سے آگے آٹھ بلاک سے گیارہ بلاک کے درمیان تو سڑک پر خوب رونق تھی نجانے مجھے یہ چہل پہل اور رونق کیوں اچھی نہیں لگ رہی تھی میں نے وہاں سے خلاف معمول ٹرن لیا اور میں چوک سنگلہ والہ کی طرف آگیا اور تمباکو نوشی جسے میں کچھ عرصہ سے ترک کرچکا تھا اس ترک کو میں نے ترک کیا اور بھیاری پان والے سے دو کیپٹن بلیک کے سگریٹ لئے اور جیسے ہی میں سرسید روڈ پر آیا تو میں نے ایک سگریٹ جسے امریکن لٹل سگار بھی کہتے ہیں سلگا لیا اور نہ جانے کیوں مجھے لگا کہ اب جیسے ہی میں کالج روڈ پر چڑھوں گا تو گورنمنٹ گرلز کالج کی دیوار سے ایک سایہ کود کر اترے گا اور ہمارے ساتھ شامل ہوجائے گا میں نے اپنی ٹیب آن کی اور سکائپ پر سیکنہ زیدی کو کال کرنے لگا ، اس نے وڈیو کال جیسے ہی رسیو کی میں نے گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کی طرف کیمرے کو زوم کیا اور اس دیوار کے ساتھ کھڑا ہوا جہاں سے وہ بنک لگایا کرتی تھی ،وہ اس مرتبہ بھی دریائے پراگ کے پل پر رسیوں سے بنی ریلنگ کو تھامے کھڑی تھی ، ویسی ہی دھان پان سی تھی اور لگتا تھا جیسے عمر اس پر ٹھہر سی گئی ہے موٹو ! وزن کافی بھڑگیا ہے ، پیٹ پر ہی نہيں ، گالوں پر بھی چربی چڑھ گئی ہے اس کی آواز سنکر جیسے مجھ میں بھی زندگی کی چابی سی بھرگئی تھی ، میں نے برجستہ کہا ہاں یار تم اور وقار تو اب یہاں ہو نہیں جن کے ساتھ میں راتوں کو شہر کی سڑکیں ناپتا پھرتا تھا اور تمہارے بعد اس شہر میں ایک ہی چارہ ساز تھا اور وہ بس اپنے ڈرائنگ روم کے اندر ہی مراقبہ زن ہے اس سے باہر نکلتا نہيں ہآں یار سناؤ ،کامران کیا کررہا ہے ؟ تمہارا تو گروسمان ہے ، اس کی موسیقی کی ریاضت کہاں تک پہنچی ؟ کیا کوئی چیز سامنے بھی آئی سیکنہ نے بے اختیار پوچھا میں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کہا کہ ٹوٹے خوابوں کی چبھن لئے کامران نے تو اپنے آپ کو افیم اور اس کے کشید کردہ مشروب میں غرق کردیا لیکن یہ ان خوابوں کی کرچیوں سے پیدا ہونے والی تکلیف ہے کم ہونے کا نام نہیں لیتی اچھا یہ بتاؤ یہ وقار کہاں گم ہے ، اس کی بھی کوئی خبر نہیں ہے ، سکینہ نے پوچھا یار مجھے لگتا ہے کہ وہ ہمیں راندہ درگاہ کرنے کے بعد خود دنیاداری کے دھندوں میں لگ گیا ہے ، شہر آتا بھی ہے تو کبھی مرے پاس نہیں آتا ، نوید باٹی کے پاس جاتا ہے ، لگتا ہے اسے اب ہماری ضرورت نہیں ہے اور ویسے بھی میں بدلے ہوئے وقار سے ملنے کا خواہش مند بھی نہیں ہوں ، آج سے بہت عرصہ پہلے میں نے اپنے پرانے وقار کو اپنے اندر محفوظ کرلیا تھا اور آج بھی اسے اپنی جیکٹ کی اندرونی جیب میں رکھکر لایا ہوں سکائپ پر ہماری یہ گفتگو جاری تھی اور میں نے کالج روڈ پر آگے سفر شروع کردیا تھا اور میں چلتے چلتے سینٹ جوزف اسکول اور اس سے ملحقہ چرچ کے سامنے آگیا تھا ، میں نے سیکنہ کو کلیسا کا مینار ، اسکول کا بورڑ دکھایا اور اندر کلیسا کے صحن میں جاکر عین اس جگہ کھڑا ہوگیا جہاں کئی سالوں سے ہم دسمبر کی آخری رات کے آخری لمحات گزارا کرتے تھے اور میں جب بھی شہر میں ہوتا ہوں تو ان لمحات کو یہاں پر ہی گزارتا ہوں سیکنہ نے کہا یار اس وقار کو تو اپنی جیب سے باہر نکالو تاکہ ہماری ٹرائیکا پوری ہو اور ہم سال گزشتہ کی اس آخری رات کی محفل سجائیں میں نے سکینہ کی یہ بات سنکر اپنی جیکٹ کی اندرونی جیب میں ہاتھ ڈالا اور چند کاغذ نکالے ، یہ وہ کاغذ کے ٹکڑے تھے جو وقار اپنے لمبے سے کوٹ کی جیبوں میں ٹھونسے رکھتا تھا جو اس نے مختلف اوقات میں لکھے ہوتے تھے میں نے اکثر وہ ٹکڑے اس سے مانگ لیا کرتا تھا ، ایسا ہی ایک ٹکڑا 1999ء کا تھا جب دسمبر میں دھند پڑنے کے اگلے پچھلے سارے ریکارڈ ٹوٹے تھے اور ملک اک مرتبہ پھر مارشل لاء کی لپیٹ میں تھا ، یہ افتخار عارف کی اک نظم " خوف کے موسم میں لکھی گئی ایک نظم " پر مشتمل تھا میں نے سیکنہ کو دکھانے کے لیے وہ ٹکڑا کیمرے کے سامنے کیا اور اس کو زوم کیا سکینہ کہنے لگی زرا ٹھہرو ، وقار سے کہو ابھی نہ سنائے پہلے زرا ووڈکا کا ایک ،ایک جام نوش کرلیا جائے یہ کہہ کر اس نے اپنے لانگ اوورکوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور پیٹروسکایا ووڈکا کی بوتل نکال لی ، اس کا کارک کھولنے میں مصروف ہوگئی میں نے بھی ترک مئے نوشی کو اس رات کے لیے ترک کیا اور اپنی جیب سے وہ بوتل برآمد کی جو آج سارے دن کی تگ و دود کے بعد اپنے ایک دوست کے ہاں سے حاصل کی تھی ، مری بیوری کی بنی ووڈکا اور میں نے دانتوں سے اس کی سیل توڑی اور اتنے میں وہ بھی بوتل کا کارک کھول چکی تھی ہم نے ایک دوسرے کی جانب بوتل کو ہلایا اور فوری طور پر اس کے دو گھونٹ بھرے ، تلخی مئے سے مرے چہرے کے زاويے حسب معمول بگڑے اور مجھے لگا کہ مرے سینے پر کسی نے چھری چلادی ہو مگر سیکن کے چہرے کے زاويے معمول پر رہے ، اس نے ایسے دو گھونٹ بھرے جیسے کسی شریں مشروب سے شغل کررہی ہو مرے بگڑے چہرے کو دیکھ کر ہنسنے لگی اور کہا اس معاملے میں تم ابھی بھی مبتدیوں کی صف ميں کھڑے ہو ، منہ تو ایسے بنارہے ہو جیسے آج پہلی مرتبہ نیٹ کا گھونٹ بھرا ہو میں نے اس کے طنز کو نظر انداز کیا اور وقار سے کہا کہ وہ افتتاح کرے جیسے وہ وہاں واقعی موجود ہو، میں نے اس کے انداز میں بالوں کو پیچھے کی جانب جھٹکا اور کاغذ کے ٹکڑے کو سامنے رکھکر پڑھنے لگا وہ طائر جو کبھی اپنے بال و پر آزمانا چاہتے تھے ہواؤں کے خدوخال آزمانا چاہتے تھے آشیانوں کی طرف جاتے ہوئے ڈرنے لگے ہیں کون جانے کون ساصیاد کیسی وضع کے جال آزمانا چاہتا ہو کون سی شاخوں پہ کیسا گل کھلانا چاہتا ہو شکاری اپنے باطن کی طرح اندھے شکاری حرمتوں کے موسموں سے نابلد ہیں اور نشانے مستند ہیں جگمگاتی شاخوں کو بے آواز رکھنا چاہتے ہیں ستم گاری کے سب در باز رکھنا چاہتے ہیں خداوند ! تجھے سہمے ہوئے باغوں کی سوگند صداؤں کے ثمر کی منتظر شاخوں کی سوگند اڑانوں کے لیے پر تولنے والوں پر اک سایہ تحفظ کی ضمانت دینے والا کوئی مسم بشارت دینے والا یہ نظم ختم ہوئی تو سیکنہ نے امجد اسلام امجد کی نظم "دسمبر " سنانا شروع کی آخری چند دن دسمبر کے ہر برس ہی گراں گزرتے ہیں خواہشوں کے نگار خانے میں کیسے کیسے گماں گزرتے ہیں اس نظم کے بعد ہم دونوں خاموش ہوگئے ، کیونکہ یادوں کے ریلے نے ہم دونوں کو گھیر لیا تھا ، مجھے دسمبر کی وہ آخری رات بھی یاد آئی جو کراچی میں گزری تھی اور صدر میں ایک سیلون میں ہما علی نے مجھے کلین شیو ہونے اور اپنی داڑھی ،مونچھوں سے پہلی مرتبہ دستبردار ہونے پر مجبور کردیا تھا اور میں نے پہلی مرتبہ جینز پہنی تھی ، ہما علی منوں مٹی تلے جا سوئی ، سروش ایرانی نہ جانے کہاں ہوگا ، مجھے ڈرلگا رہتا ہے کہ کہیں شام یا عراق سے اس کے کسی محاز پر لڑتے ہوئے جان سے گزرجانے کی خبر نہ آجائے ، ایسا ہی تھا ، شہر بانو اور ہما علی ، علی احمد مرزا کے ساتھ عالم مثال ( جس کے نہ ہونے کا میں صدا قائل رہا ) اکٹھے ہوئے ہوں گے اور نہج البلاغہ کی مادی تعبیروں پر مجھ پر عتاب نازل کررہے ہوں گے کیونکہ مری مادیت پرستی کے باوجود وہ مجھے دوست خیال کرتے تھے اور دوستوں پر تبراء نہیں بلکہ عتاب ہوا کرتا ہے ابھی چند دن پہلے کی بات ہے کہ میں نے اک نظم " کیا فرق پڑتا ہے " لکھی جس کے پیچھے ایک پس منظر تھا اور نہ جانے کس رو میں میں اس پس منظر پر روشنی ڈال بیٹھا اور مجھے اپنا افسانہ " عشق ناتمام "یاد آیا ہاں لارنس گارڈن لاہور کو کیسے بھول سکتا ہوں اور وہاں پر بدھا کے اس درخت کو جو مجھے اپنی طرح ہجر وفراق کا مارا لگتا ہے ، براذیل کے جنگلوں سے اکھاڑ کر اسے وہاں لگادیا گیا تھا اور بادشاہی مسجد کے عقب میں اقبان حسین کا کوٹھا جہاں اب کوکوڈین ریسٹورنٹ بنا ہوا ہے جہاں اقبال کے بنائے ہوئے مجسمے اور مورتیوں نے مجھے جکڑ لیا تھا اور وہاں سے آنے کو من نہیں کرتا تھا ، آج وہاں نجانے کون ،کون آیا ہوگا اور ہاں انار کلی تو کل کی آگ میں جھلس کر مرجانے والوں کے غم میں بند پڑی ہے اور اس کے سامنے ٹولنٹن مارکیٹ کے چوک میں کوئی کھڑا مرا انتظار تو کرتا نہیں ہوگا کیونکہ جسے انتظار کرنا تھا وہ تو مشی گن سٹیٹ کے ٹاؤن میں کہیں مری طرح یاد کے ریلے کی زد میں ہوگا اور بہے چلا جارہا ہوگا میں وہآں سے اٹھکر کھڑا ہوگیا جبکہ سیکنہ دریائے پراگ کے لکڑی کے پل پر بیٹھ گئی تھی اور مراقبے میں گم تھی ، جب میں کلیسا سے نکل کر ایس پی چوک پر آگیا تو میں نے اور سیکنہ نے اکٹھے بے اختیار اپنی اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈالا اور موم بتیوں کے پیکٹ باہر نکالے ہمیں بہت سے لوگوں کی یاد میں شمعیں جلانا ہوتی تھیں ، ان میں مری اور سکینہ علی کی طرف سے بارہ آئمہ، شہر بانو ، ہما علی ، احمد علی مرزا ، فاطمہ بنت محمد ، زینب شریکۃ الحسین سمیت جملہ اہل بیت کے لیے جبکہ ابوزر غفاری ، کارل مارکس ، اینگلس ، لینن سمیت اشتراکی مجاہدوں کے لیے بشمول بھگت سنگھ ، بھٹو ، شاہ نواز کے لیے پھر اس میں مرتضی کا اضافہ ہوگیا ، استاد سبط جعفر اور اس سے پہلے شہید بے نظیر بھٹو سمیت بہت سے شہیدوں کا اضافہ ہماری ٹرائيکا کے تتر بتر ہوجانے کے بعد ہوا اور ان سب کے نام ان شمعوں کی لو کو کیا جاتا رہا اور اس مرتبہ اس میں 138 بچوں اور آٹھ مرد و خواتین کا نام بھی شامل تھا اور میں نے شمعیں روشن کرتے ہوئے ان 22 ہزار شیعہ اور 10 ہزار صوفی سنّی کو بھی یاد کیا اور لاہور ، کوئٹہ میں شہید ہونے والوں کو جن کا جرم ان کی مذھبی شناخت بنی ، اس یاد میں وہ مزدور ، اساتذہ اور غریب لوگ بھی شامل تھے جوبلوچستان میں بلوچ نہ ہونے کی وجہ سے ماردئے گئے اور وہ 4000 سے زائد بلوچ بھی جو بلوچستان میں بلوچ ہونے کی بنا پر مارے گئے اور وہ سندھی قوم پرست کارکن بھی جن کی مسخ شدہ لاشیں ویران سے ملیں ، دسمبر کی آخری رات کے آخری پہر میں کوئی خوشی پاس پھٹک کر نہیں دی ، اپنی ساری امید پرستی کے باوجود گزرجانے والوں کی یاد اس قدر بھاری تھی کہ کوئی خوش کن خواب پلکوں پر اس نے سجانے نہیں دیا ، صبا دشتیاری، ڈاکٹر شبیہ الحسن ، استاد سبط جعفر ، ڈاکٹر علی حیدر سمیت کئی چہرے سامنے آئے اور سوال ایک تھا کہ کیا علم و آگاہی سے سرفراز ہونے اور اس کی روشنی گھر ،گھر پہنچانے کا صلہ ہماری زندگیوں کے چراغ گل کرنا ہی تھا ؟ میں نے سال 2014ء کے ختم ہوتے ہی یکم جنوری 2015 ء کے آغاز پر ہی امید پرستی کو آواز دینا چاہی تو وہ مجھے بہت دور کھڑی نظر آئی اور میں نے اپنے جھکے سر کو مزید جھکا لیا اور سیکنہ علی زیدی کو بغیر " نیا سال مبارک ہو " کہے بغیر سکائپ بند کردیا اور گھر لوٹ آیا

Monday 24 November 2014

دفن ہوجانے والا باغ اور مرجانے والا محمد رانا محمد حسین


یوسف پارک خانیوال
میں جب اندرون شہر رہتا تھا تو اکثر گرمیوں کی دوپہر اور شام کو اپنے گھر سے کچھ فاصلے پر بنے ایک باغ میں چلا جاتا تھا ، یہ یوسف پارک کہلاتا تھا اور یہاں سینکڑوں درخت اور پودے تھے اور وہاں گراؤنڈ میں پڑے بنچوں میں سے ایک بنچ پر بیٹھ جاتا اور اس باغ میں بیٹھ کر میں نے بلامبالغہ کئی سو کتابیں پڑھی ہوں گی ، ریڈیو پر کرکٹ اور ہاکی میچوں کی کمنٹری سنی ہوں گی اور بی بی سی اردو سروس ، صدائے روس ماسکو ریڈیو ، ریڈیو سیلون اور آل اںڈیا ریڈیو سروس کی نشریات سنی ہوں گی میں نے اس باغ کے درختوں تلے بنچ اور گھاس پر زرا دیر سستانے والے ان دیہاتی مرد و خواتین کو دیکھا جو دور دراز کے دیہاتوں سے شہر سودا سلف لینے ، کورٹ کچہریوں اور ڈی سی ، اے سی کے ہاں پیشیاں بھگتنے آتے یا اپنے کسی مریض کے ساتھ آتے اور ان کے پاس کہیں ٹھکانہ نہ ہوتا اور وہ یہاں باغ میں ڈیرا ڈال دیتے لیکن ایک ڈی سی او عثمان عظمت جس کی سکن بلیک اور ذھنیت سفید فام نکلی نے اس باغ کو اجاڈ دیا اور اس کی جگہ اپنے سے بڑی سفید فام زھینت دکھنے والے شوباز کو خوش کرنے کے لیے ماڈل بازار بنانے کے لیے سینکڑوں درخت کاٹ ڈالے اور اب وہاں دو کروڑ کی مٹی ڈلواکر اس باغ کو دفن کرنے کا کام کیا جارہا تھا اور اسے وہ ترقی کا نام دے رہا تھا میں اس اجڑے باغ کو حسرت کی تصویر بنا دیکھ رہا تھا جو ایک کالے انگریز کی فرعونیت کی بھینٹ چڑھ گیا تھا اور ستم یہ تھا کہ سینکڑوں درخت کاٹے جانے اور ایک تاریخی باغ کو اجاڑے جانے کے واقعے پر سارا شہر خاموش تھا اور کہیں سے کوئی صدائے احتجاج بلند نہ ہوئی ، کسی نے ایک احتجاجی بینر تک نہ لگا، اس شہر کی وکلآ کی بار میں اس روز پنجاب بار کونسل کے الیکشن میں جیت جانے والے دو وکلاء کے چیمبرز کے سامنے مٹھائیاں تقسیم ہورہی تھیں ، ڈھول بجائے جارہے تھے اور مبارکبادیں دی جارہی تھیں اور میں سوچ رہا تھا کہ کیا اس شہر میں کوئی بھی انسان اب زندہ نہیں رہا ؟ کیا یہ سماج مردوں پر مشتمل رہ گیا ہے باغ اجڑنا ، درختوں کا کٹنا ، ایک تاریخی اہمیت کے پارک کا ختم ہونا یہ سب کسی کے لیے المناک اور اس شہر کے ماحول کی تباہی کے لیے اتنا بڑا واقہ شاید تھا ہی نہیں میں پریس کلب گيا اور وہاں پر ایک صحافی نے یہ سوال اٹھایا کہ اس نے ایک ڈائری میں اس منصوبے کا زکر کیا اور کچھ لوگوں سے رابطہ بھی کیا لیکن کسی نے بھی کوئی عملی قدم نہ اٹھایا میں نے ایک واجبی سی تعلیم کے حامل ایک شخص کو دیکھا کہ وہ ایک وکیل کے زریعے اس باغ کو اجڑںے سے بچانے کی سبیل کرتا نظر آیا اور ایسے میں وہ عام سا آدمی مجھے اس شہر خموشاں میں واحد زندہ آدمی لگا جس نے اپنی آدمیت کو ابتک برقرار رکھا ہوا تھا اس باغ کے عین سامنے رانا مارکیٹ بنی ہوئی ہے میں نے اس مارکیٹ کی طرف سر اٹھا کر دیکھا اچانک مجھے خیال آیا کہ یہاں بھی تو ایک شخص رانا محمد حسین نام کا رہا کرتا تھا جو اپنی زات میں ایک تاریخ تھا جس نے اس وقت اس ملک کے مزدروں اور کسانوں ، طالب علموں ، عورتوں اور سیاسی کارکنوں کے حقوق ، شہری آزادیوں ، جمہوریت اور سماجی انصاف کے حصول کی لڑائی لڑنی شروع کی تھی جب اس کی مسیں بھی پوری نہیں بھیگی تھیں ڈی ایس ایف ، پھر نیشنل عوامی پارٹی پھر پی ڈی پی اور پھر پی این پی اور اس کے بعد اے این پی کی تاسیس رکھنے والوں میں وہ شامل تھا اور اس نے باچا خان ، ولی خان ، مولانا بھاشانی ، محمود الحق عثمانی ، اجمل خٹک ، سی آر اسلم ، میاں محمود ، فیض ، صفدر میر ، سبط حسن ، سجاد ظہیر ، عبداللہ ملک ، دادا امیر حیدر ، میر غوث بخش بزنجو ، عطاء اللہ مینگل ، نواب خیر بخش مری ، شیر باز مزاری ، عطاء اللہ ملک ، جمال بوٹا ، قصور گردیزی ، رانا ریاست ، مرزا اعجاز بیگ الغرض کے سیاست کے بڑے نامی گرامی لوگوں کے ساتھ کام کیا رانا محمد حسین کی " رانا مارکیٹ " جب ضیاء دور میں محض ڈھانچہ تھی تو اس زمانے میں اس کے کونے کھدرے سیاسی کارکنوں ، طالب علموں کی پناہ گاہ تھے جہاں وہ ضیاء الحق کی مارشل لآئی عفریتوں سے ان کو پناہ دیتا اور انھیں گرفتاری سے بچاتا تھا ، یہ مارکیٹ کے کئی کمروں میں اس شہر میں تعلیم حاصل کرنے اور اپنی قسمت آزمانے والے نوجوانوں کو مفت اور کبھی کبھار نہایت معمولی سے کرائے پر ٹہرا لیتا اور کئی بار تو وہ دور دراز علاقوں سے آنے والے نوجوان صبح اور رات کا کھانا بھی اس سے کھاتے اور کئی ایک کی یہ اپنی جیب سے امداد بھی کرتا تھا یہ ایک دور میں رانا محمد علی ایڈوکیٹ والد رانا ندیم عبداللہ ، رانا ریاست ، کامریڈ اعظم خان ، شیر عالم شیرازی سابق جنرل سیکرٹری پی پی پی کا ٹھکانہ ہوتا تھا اور یہیں پر لاہور ، کراچی ، کوئٹہ ، پشاور اور دیگر شہروں سے آنے والے سیاسی کارکنوں کا جھمگٹا لگا رہتا تھا اور رانا محمد حسین نے ایک وقت تک بہت فعال سیاسی زندگی گزاری اور شعور و بیداری کی شمع فروزاں کئے رکھی اور ایک طرح سے اس کی مارکیٹ سیاسی تھڑا تھی اور پھر جب بے ضمیری کی ہوا چلی اور سیاست مال بنانے اور اشراف کے گھر کی لونڈی بن گئی تو میں نے دیکھا کہ رانا محمد حسین بھی جیسے خود اپنے اندر ہی سمیٹ کر رہ گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی بینائی بھی جاتی رہی اور اب تو وہ چہرے پہچان بھی نہیں سکتا تھا زمانہ بہت ظالم ہے اس نے بھی اپنے اندر سکڑ جانے اور سمٹ جانے والے اس شخص محمد حسین کو بھلا دیا یہ شام کا تارہ جسے تم چھوڑ گئے صحرائے محبت میں نشان غم ہے واقعی رانا محمد حسین شام کا وہ تارہ تھے جنھیں سب بھول گئے اور چھوڑ گئے اور صحرائے محبت میں وہ نشان غم بنکر زندگی گزارتے رہے لیکن یہ کیا کہ ایک دن جب وہ شخص مرگیا تو بھی ایک بھی شخص نے اسے یاد نہ کیا اور نہ ہی کسی طرف سے اس کی خدمات پر ایک لفظ تحسین بھی نہیں لکھا گیا کیا آج کے شہر اور اس کے باسی اتنے کٹھور اور ظالم ہوگئے ہیں جو ساری عمر انصاف ، آزادی ، حقوق کے لیے لڑتے رہے ، جنھوں نے صلیب جھٹکی اور دار کو چوم لیا ، آج ان کو کوئی یاد کرنے والا اس شہر میں نہیں تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ وہ جو اعزاز کے ساتھ دفنانے کی بات تھی وہ بھی شاید ختم ہوگئی ہے کیا رانا محمد حسین کی موت بس اس کے بیٹے سورج کے لیے کوئی المناک خبر تھی ، اس کی بیوہ کے لیے آنسو بہانے کی بات تھی ، کیا وہ صرف اس کے خون کے رشتوں کے لیے اہمیت رکھنے والا شخص تھا میں یہ سب باتیں سوچ رہا تھا اور ایک مرتبہ تو جی میں آئی یہیں سڑک پر کھڑے کھڑے لوگوں کو سقراط کی طرح روک روک کر ان سے سوال کروں حسن کیا ہے ؟ فنا کسے کہتے ہیں سچائی اور صداقت کیا ہوتی ہے اور پھر ان سے سوال کروں محمد حسین جیسے لوگ کیا تھے اور اس طریقے سے ان کو احساس دلاتا کہ کس بے حسی ، خود غرضی اور جہالت کے سرد جہنم میں وہ فریز ہوکر پڑے ہیں اور ان کو بڑے سے بڑا واقعہ اب جھنجھوڑتا نہیں ہے لیکن سچی بات ہے کہ میں یہ سب باتیں سوچ کر ہی رہ گیا ، کیونکہ مجھے لگا کہ اگر اس مدینہ میں رہنا ہے تو مجھے بھی رکھنی پڑے گی منافقوں کے ساتھ میرے پیچھے اجڑا ہوا یوسف باغ تھا اور آگے رانا محمد حسین کے بغیر کھڑی رانا مارکیٹ تھی جو تمام تر رنگوں کے باوجود اجڑی اجڑی لگ رہی تھی اور میں جب شام کے سائے گہرے تر ہوتے جاتے تھے تھکے تھکے قدموں اور احساس شکست کے ساتھ اپنے گھر کی طرف چل دیا

Sunday 2 November 2014

قدیم ثقافتی شامی شہر سلمیہ پر داعش کا منڈلاتا بھوت اور قصّہ شاعر الماغوط کا


محمد عیسی احمد الماغوط
کل رات کو امام بارگاہ سے واپس آیا تو فوری طور پر نیند نہیں آرہی تھی اور میں نے ننید کی دیوی کو راضی کرنے کے لیے خالد احمد کی کتاب : پاکستان میں فرقہ وارانہ جنگ ۔۔۔۔۔۔۔۔" کا دوسرا باب پڑھنا شروع ہی کیا تھا تو میری شریک حیات نے حسب معمول کہا کہ " کبھی اپنے جسم اور ذھن کو آرام بھی کرنے دیا کریں " تو میں نے حسب معمول ایک پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ان کو کہا کہ " آرام کرنے کی خواہش جب اندر سے جنم لے گی تو آنکھیں خوبخود بند ہوجائیں گی " انھوں نے اس پر میری طرف تشویش سے دیکھا اور پھر آنکھیں موند لیں ، اسی دوران شام میں دمشق یونیورسٹی کے اسامہ شہود کا پیغام مجھے اپنے موبائل پر فیس بک میسجنر کے زریعے موصول ہوا عامر کیا تمہیں معلوم ہے ؟ محمد عیسی احمد الماغوط کا شہر سلیمۃ پر داعش کے خون آشام سائے منڈلارہے ہیں ؟ داعش سلمیۃ شہر پر دستک دینے اور اسے تباہ کرنے کو بے تاب ہے ؟ نوٹ :پیغام عربی میں تھا ، اس کا رف سا مفہوم میں اردو میں آپ تک ترجمہ کرکے پہنچا رہا ہوں ، کیونکہ میں نے عربی تھوری سی باقاعدہ اور باقی بے قاعدہ سیکھی تھی اور اسامہ شہود کی انگریزی بہت بری جبکہ عربی اور فرنچ ، کرد ، ترکش بہت ہی شاندار ہیں اور میں فرنچ سے کجھ شد بد رکھتا ہوں ، کرد ش رسم الخط تو بالکل سمجھ سے باہر ہے اور ترکش رسم الخط بھی میری عقل سے باہر ہے حالانکہ اس کے اکثر الفاظ اردو میں موجود ہیں میں نے یہ پیغام پڑھا تو خالد احمد کی کتاب ایک طرف رکھ دی - کیونکہ میرے زھن میں ایک دم سے بہت سی یادوں نے گھر کرلیا تھا اور مجھے کراچی یونیورسٹی میں عربی ادب پر ایم فل کرنے والا ایک شامی عرب جوڑا یاد آگیا - ہشام الماغوط اور سنیۃ ہشام ، دونوں میاں بیوی تھے اور پکّے سوشلسٹ تھے اور ان کا تعلق ایک اسماعیلی شیعی شامی عرب خاندان سے تھا اور یہ دونوں میری کلاس فیلو ، دوست ہما علی کے دوست تھے اور صدر کراچی میں میرے ایک پسندیدہ ایرانی ریسٹورنٹ میں ملنے والی ایک کردش کھانے کی ڈش کی دعوت پر ہما علی نے ان سے میرا تعارف کرایا تھا اس ملاقات کے بعد ہم سب گہرے دوست بن گئے تھے اور مجھے ہشام اور سنیۃ نے یہ بتاکر حیران کیا تھا کہ ثانیہ کا نام پہلے لیلی تھا جو اس نے بدل کر ثانیہ کرلیا تھا اور ہشام نے اپنے نام کے ساتھ الماغوط کا اضافہ کیا تھا اور مجھے اس تبدیلی و اضافے کے پس پردہ وجہ جاننے کا اشتیاق ہوا تو دونوں نے میری طرف حیرت سے دیکھا اور ہشام نے کہا تم نزار قبانی سے واقف ہو ، تو محمد عیسی احمد الماغوط سے واقف نہیں ہو؟ اور ثانیہ نے کہا کہ تم بیروت سے شایع ہونے والے ادبی میگزین " الشاعر " میں چھپی فیض احمد فیض کی شاعری بارے کرتے ہو اور تمہیں ثانیۃ الصالح کے بارے میں معلوم نہیں ہے ، حیرت ہے میں نے کہا تھا کہ ہاں یہ ایسے ہی ہے جیسے تم فیض احمد فیض سے واقف ہو لیکن تمہیں احمد فراز کا نہیں پتہ ، شکیب جلالی کا نہیں معلوم اور یقینی بات ہے کہ تمہیں پروین شاکر ، فہمیدہ ریاض اور سارا شگفتہ کا بھی پتہ نہیں ہوگا اس پر وہ دونوں سر ہلانے لگے اور پھر میں نے ان ناموں کے بارے میں بتایا کہ وہ کون ہیں اور ہما سے کہا کہ وہ احمد فراز کی " محاصرہ " کا ایک عام فہم سا عربی ترجمہ ہشام اور ثانیہ کو کرکے بتائیں ، سنیۃ کو میں نے فہمیدہ کی کچھ ںطموں کا خلاصہ بتایا تھا اور پھر اس رات ہشام نے اپنے ہاسٹل کے کمرے سے مجھے محمد عیسی احمد الماغوط کی شاعری کی پہلی کتاب " حزن فی ضوء القمر " ( چاند کی روشنی میں اداسی ) دی ، جس میں اصل عربی متن کے ساتھ انگریزی ترجمہ بھی موجود تھا اور یہ کتاب بعد میں ہشام نے مجھے تحفے ميں دے ڈالی ، ہشام نے مجھے شام سے نکلنے والے ایک معروف اخبار " تشرین (اکتوبر ) کے بھی کچھ تراشے دکھائے تھے جس کے مدیر محمد عیسی احمد الماغوط تھے اور ان تراشوں میں سے ایک تراشے میں ماغوط کا ایک فقرہ جیسے میرے دماغ پر نقش ہوکر رہ گیا ماغوط کہتا ہے کہ بیدو تحریر العقل العربی اصعب تحریر الفلسطین یعنی عرب کی عقل کی آزادی فلسطین کی آزادی سے زیادہ مشکل ہے ایک شعر ماغوط کا یوں تھا کہ ہمارا جرم اس کے سوا اور کیا ہے کہ ہم عرب ہیں عربوں کے لیے باالعموم اور شامی و لبنانیوں کے لیے بالخصوص الماغوط کا نام اجنبی نہیں ہے اور وہ اسے بطور ایک باغی شاعر ، دانشور ، ڈرامہ نگار ، مزاح نگار ، صحافی اور سیاسی مفکر کے طور پر جانتے ہیں اور الماغوط کی جنم بھومی دریائے عاصی کے کنارے آباد ایک انتہائی قدیم شہر سلیمۃ میں ہوئی تھی اور یہ شہر ہمیشہ سے باغی دانشوروں کے جنم و پرداخت میں مشہور رہا ہے اور یہ باغی دانشور بھی سلیمۃ میں ہمیشہ انتہائی غریب گھرانوں میں جنم لیتے رہے اور اسی شہر میں مصر میں پہلی فاطمی سلطنت کی بنیادیں رکھنے والے اسماعیلی تحریک کے روح رواں دانشور اور سپہ سالاروں نے جنم لیا اور یہی وہ شہر ہے جہاں فاطمی سلطنت کا پہلا خلیفہ اور قاہرہ میں عالم اسلام کی سب سے قدیم اور بین الاقوامی شہرت کی حامل یونیورسٹی الازھر کی بنیاد رکھنے والا دانشور خلیفہ عبداللہ المہدی نے جنم لیا تھا اور آج بھی سلمیۃ شہر ایسے ہی باغی دانشوروں اور سماجی اصلاح کاروں کی جائے پیدائش اور ابتدائی دن گزارنے کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے اور اس شہر نے شام کے اندر سوشلسٹ انقلابی اور عرب نیشنلسٹ تحریک کو بہت سے دانشور دئے جن میں محمد عیسی احمد الماغوط کا نام بہت اہم ہے انتہائی غربت ، بے روزگاری اور مادی پسماندگی کے باوجود یہاں کے باشندوں کی دانشورانہ امارت میں کوئی فرق نہیں آیا اور ہشام و سنیۃ بھی اس قصبے سلمیۃ میں پیدا ہوئے تھے اور پھر علم کی پیاس میں وہ کراچی یونیورسٹی چلے آئے تھے اور جب کبھی وہ کراچی کے ساحل سمندر جاتے تو انھیں دریائے عاصی کی یاد ستانے لگتی تھی ہشام اور ثانیہ پھر شام واپس چلے گئے ، پہلے وہ دمشق میں رہے ، اس کے بعد بیروت اور پھر پتہ چلا کہ دونوں حزب اللہ میں شامل ہوگئے اور مجھے ان سوشلسٹوں کے حزب اللہ میں جانے کا پس منظر سمجھ میں نہیں آیا تھا ، جبکہ ہما علی کا کہنا تھا کہ وہ سوشلسٹ نظریات سے دستبردار بھی نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی اپنے اسماعیلی پس منظر کو کبھی بھول پائے تھے ، پھر جب ہما علی آغا خان کے کینسر وارڈ میں اپنی زندگی کے آخری دن گزار رہی تھی تو اس کی موت سے دو دن پہلے ہشام اور سنیۃ کے ایک کار بم دھماکے میں ہلاک ہوجانے کی خبر آگئی تھی آج اسامہ شہود کے اس پیغام نے مجھے یہ سب کچھ یاد دلادیا تھا اور میں نے اپنی کتابوں کی الماری میں بنے " عرب سیکشن " میں سے ہشام کی دی ہوئی کتاب " حزن فی ضوء القمر " کو نکالا اور بے اختیار ایک نظم پر میری نظریں ٹھہر گئیں سامحيني أنا فقيرٌ يا جميلة. .حياتي حبرٌ ومغلّفات وليلٌ بلا نجوم. .شبابي باردٌ كالوحل، عتيقٌ كالطفولة مجھے معاف کردینا ۔ میں تہی دست ہوں اے جمیلہ میری زندگی ایک سیاہی کی مانند ہے اور میں پابہ زنچیر ہوں اور ایسی رات ہوں جو اماؤس کی ہو جس میں ستارے غائب ہوجاتے ہیں میرا شباب وحول کی طرح سرد ہے اور میری بلوغت بچے کی طرح ہے اس کتاب میں ماغوط کی بیوی سنيۃ الصالح کا مقدمہ شامل ہے اور اس میں سنیۃ بتاتی ہے کہ ماغوط خود کو شاعر نہیں سمجھتا تھا اور شام کے اندر "آزاد نظم " کی بجائے پابند نظم کا چلن تھا ، یہ اس کی بیوی سنیۃ تھی جس نے ماغوط کے لکھے سینکڑوں صفحات کو پڑھا تو اس نے ماغوط کے اندر چھپے شاعر کو ڈھونڈ نکالا تھا اور اسے پتہ چلا تھا کہ ماغوط فرانسیسی باغی شاعر بادلئیر سے کس قدر متاثر تھا خود سنیۃ الصالح بھی بیروت کی ایک باغی روح تھی ، اس نے بھی بیروت میں بہت خون ریزی ، خانہ جنگی اور پھر اشراف کی کرپشن ، مذھبی جنون دیکھا تھا اور اس کی اپنی شاعری کے اندر بھی جہاں رومان ہے وہیں تلخی اور حیات کی سختیوں کا زکر بھی ہے اور جب ماغوط بیروت میں جلاوطن ہوکر آیا تھا تو اس کی شاعری نے سنيۃ کو بہت متاثر کیا تھا اور وہ اس کی مداح بن گئی تھی اور پھر یہ رشتہ محبت میں بدلا اور ماغوط و سنيۃ ایک ہوگئے اس کتاب کے شروع میں ایک خالی صفحہ پر میں نے ایک شعر عربی کا اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا ہے جس کا مفہوم کچھ یوں بنتا ہے کہ میں یہ گمان رکھتا تھا کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو میں یہ گمان کرتے ہوئے بھول گیا تھا کہ اکثر گمان گناہ ہوا کرتے ہین ماغوط طنزکے اظہار کے لیے استعاراتی زبان و بیان کے استعمال کا بادشاہ تصور کیا جاتا ہے اور مجھے خیال آتا ہے کہ اس کی اسی بادشاہت فن کی مثال سامنے رکھنے کے لیے میں نے کتاب کے شروع میں یہ شعر لکھکر رکھ لیا تھا ، ماغوط کو اپنے شام کی بہت فکر تھی اور اپنے شہر سلیمۃ سے بھی اسے بہت پیار تھا اور شام سے اس کی محبت کا یہ عالم تھا کہ بار ، بار وہ یہاں قید ہوا اور اس نے بہت نفرت اور غضب کا سامنا بھی کیا لیکن وہ جلاوطنی کاٹ کر بھی پھر شام لوٹ آتا رہا بلکہ اسے دکھ ہوتا تھا کہ شام کے اکثر دانشور ، شاعر ، ادیب یہاں موجود جبر ، آمریت اور گھٹن سے تنگ آکر مغرب کی جانب ہجرت کرجاتے تھے ، اس نے اس المیہ پر ایک ڈرامہ "مہجر " کے نام سے بھی لکھا اور اس نے ایک ڈرامہ جو شام کی سیاسی - سماجی صورت حال کا زبردست عکاس تھا طنزیہ پیرائے میں لکھا تھا ، جس کا نام تھا " کا سک یا وطنی " اور اس کی ایک اور کتاب " سآخون وطنی " اے میر ے ہم وطن میں تجھ سے بغاوت کربیٹھوں گا تو بہت ہی شہرت کی حامل ہے اور اس سے شام کے اہل دانش بخوبی واقف ہیں ابھی میں نے شیخ باقر نمر النمر کی ایک تقریر عوامیہ سعودی عرب میں کی گئی سنی تھی جس میں نمر بار بار کہتا ہے کہ " یہ وطن کیا ہوتا ہے ؟ یہ مٹی کیا ہوتی ہے ؟ یہ زمین کیا ہوتی ہے ؟ وہ سعودی عرب کے آل سعود کی مذمت کررہا تھا اگرچہ میں اس کی آل سعود کے خلاف مزاحمت اور جدوجہد کا بےپناہ مداح ہوں اور اس کی سیاسی عدم تشدد پر مبنی تحریک کا بھی قائل ہوں ، لیکن مجھے لگا کہ وہ ماغوط ، محمود درویش ، نزار قبانی ، فیض احمد فیض ، ناظم حکمت ، حمزہ رسول جیسوں کی مٹی کی محبت اور زمین سے جڑت کے فلسفے کی حلاوت سے شاید اس لیے ناآشنا ہے کہ وہ مقاومت و مزاحمت کے سفر کی طرف تھیوکریٹک راستے سے آيا ہے ، اسی لیے اس کے ہاں زمین ، مٹی اور اس کی ثقافت سے محبت کا معاملہ زرا کمزور نظر آتا ہے ، لیکن پھر مجھے یہ خیال بھی آتا ہے کہ کیا نمر نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکّہ سے محبت اور اس سے جدائی پر کہے جانے والے جملے نہیں سنے ہوں گے اور خود جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو سخت سردی میں ابن عباس نے کوفہ میں کانپتے ہوئے دیکھکر صوف کا لباس پہننے کو کہا تھا تو ان کا یہ جملہ نہیں سنا تھا کہ ابن عباس مجھے یہ مدینہ سے لایا ہوا باریک لباس یہاں کے صوف سے ہزار گناہ زیادہ عزیز ہے اور بھی ایسے کئی جملے تاریخ میں خود آئمہ سے مٹی اور زمین کی محبت میں مرقوم ہیں خیر یہ جملہ ہائے معترضہ تھے ماغوط نے "کاسک یا وطنی " میں درید الحم جو کہ شام کا معروف کامیڈین ہے کے ساتھ خود بھی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے وہابیت کے ہاں ان سب چیزوں کی بھلا کیا حثیت واہمیت ہوسکتی ہے اور سلیمۃ کی تاریخ و ثقافت کی قدامت سے انھیں کیا لینا دینا ہے ، وہ تو اپنے پیورٹن ازم کے جوش میں سب کو تباہ و برباد کرنے کے درپے ہیں ، سلیمۃ ان کے نزدیک مرتدوں اور اسلام کے دشمنوں کا شہر ہے ، جیسے وہ حماۃ کو بھی یہاں موجود قدیم ترین کنیسۃ یعنی کلیساؤں ، صوفی سنّی مزارات اور مساجد کی وجہ سے شرک و ضلالت کا گڑھ قرار دیتے ہیں اور وہ خود کو واپس اس دور میں پاتے ہیں جب فاطمیوں کی تحریک عروج پر تھی اور اسے کفر و ضلالت کی تحریک قرار دیکر اس کے خلاف جہاد فی سبیل اللہ کے فتوے دئے جارہے تھے اور اب سلیمۃ کے اسماعیلی باشندے نہ تو کوئی سلطنت رکھتے ہیں ، نہ وہ کسی ریاست کی تعمیر کے علمبردار ہیں ، وہ تو بمشکل اپنی روٹی روزی کرنے کے قابل ہوتے ہیں اور داعش ان کو اسلام کے لیے سب سے بڑاخطرہ قرار دیکر صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتی ہے شام کا صوبہ حماۃ جس کا دارالحکومت حماۃ شہر ہے جوکہ قدیم شہر ہے اور اس شہر کی تاریخ پیدائش 6970 قبل مسیح بتائی جاتی ہے اور یہ شام کا پانچواں بڑا شہر ہے جبکہ دیگر بڑے شہروں میں دمشق ، حمص ، حلب اور الیپو شامل ہیں - یہیں سے شام کا مشہور دریاء عاصی گزرتا ہے جوکہ اس خطے کا واحد دریا ہے جو کہ جنوب سے شمال کی طرف بہتا ہے اور یہ دریا بہار اللبوہ کی پہاڑیوں سے نکلتا ہے اور اللبوہ(عربی میں اس کا مطلب قلب ہوتا ہے اور یہ عبرانی زبان سے نکلا ہے اور اسی دریا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہی اصل میں لیونٹ دریا تھا ) شام کا ایک پہاڑی شہر ہے جہاں سات سو قبل مسیح تہذیب کے آثار پائے جاتے ہیں حماۃ اصل میں سارے کا سارا ماقبل مسیح ، مابعد مسیح اور پھر مابعد اسلام تہذیب و ثقافت کے حوالے سے بہت زرخیز خطّہ ہے اور اس خطّہ میں عبرانی ، سریانی اور عربی زبانوں نے بھی بہت سی ارتقاء کی منزلیں طے کی ہیں اور شام کا یہ صوبہ مختلف نسلوں اور زبانوں کے ارتقاء سے جنم لینے والی شامی عرب نسل کا مرکز ہے اور حماۃ صوبے میں سنّی ، شیعہ ، کرسچن ، اسماعیلی شیعہ اور اسی طرح عرب اور کرد آبادی موجود ہے میں بھی کہاں کھوگیا ، چاہتا ہوں کہ شام کی لینڈ سکیپ سے ناواقف دوستوں میں حماۃ جہاں داعش سے نجات کا آخری معرکہ لڑا جارہا ہے ، اس بارے میں اپنے پڑھنے والوں کو کچھ بنیادی معلومات بھی فراہم کردوں حماۃ دمشق سے 133 کلومیٹر اور حمص سے 45 کلومیٹر دور ہے - دمشق کے شمال میں حمص اور حماۃ واقع ہیں اور حماۃ کے گردونواح میں ایک چھوٹا سا شہر سلمیۃ بھی ہے اور یہ بھی بہت قدیمی شہر ہے ، جس میں آج اسماعیلی شیعہ فرقے کے لوگ اکثریت کے ساتھ آباد ہیں اور کئی صدیوں سے سلمیۃ اس شہر میں آباد چلے آرہے ہیں ، جہاں ان کی عبادت گاہیں بنی ہوئی ہیں اور وہ یہاں بہت امن و سکون سے رہتے آئے ہیں ، لیکن ان کا سکون اور آرام اب باقی نہیں رہا ہے کیونکہ وہابی -دیوبندی سلفی دھشت گرد تنظیم سلیمۃ کے دیہی علاقوں میں پہنچ چکی ہے اور اس شہر کی اسماعیلی آبادی کو شدید خطرہ لاحق ہے -کیونکہ داعش نے غیر وہابی -دیوبندی سلفی مسلمان فرقوں کو مرتد قرار دے رکھا ہے اور وہ ان کے سب مردوں کو زبح کرنے اور عورتوں کو لونڈیاں بنانے کو اسلامی فریضہ خیال کرتی ہے اگرچہ بشار الاسد کی فوج نے حماۃ شہر اور اس سے ملحقہ اکثر علاقوں پر دوبارہ سے کنٹرول حاصل کرلیا ہے لیکن سلمیۃ کے نزدیک اور مشرقی دیہی علاقوں میں اب تک داعش اور شام کی افواج کے درمیان لڑائی جاری ہے اور داعش نے مقامی آبادی کو دھشت زدہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے گلف عرب ریاستوں کا سرکاری کنٹرول میں موجود میڈیا اور ترکی کا رجب طیب اردوغان کا حامی میڈیا سلمیۃ شہر کے گرد منڈلاتے داعش کے سائے اور یہاں کی اسماعیلی آبادی کو درپیش خطرے کے بارے میں ایک سنگل کالمی خبر بھی شایع نہیں کررہا ہے اور نہ ہی وہ بشارالاسد کی افواج کی حماۃ صوبے کو داعش سے آزاد کرانے کے لیے فوجی آپریشن میں ہونے والی کامیابیوں کے بارے میں کوئی خبر شایع کررہا ہے ، جبکہ پاکستان کے اندر مڈل ایسٹ میں شیعہ کریسنٹ کی مفروضاتی سازشی تھیوریز پھیلانے والے بھی اسماعیلی آبادی کو درپیش بقا کے اس خطرے بارے کچھ بتانے سے قاصر ہیں ، کیونکہ ایسے نظریہ ساز اپنی تحریروں کی بنیاد زیادہ تر امریکی اخبارات اور الجزیرہ ، شرق الاوسط ، العربیۃ جیسے ٹی وی جینل و اخبارات کی ویب سائٹ پر ہائی لائٹ ہونے والی خبروں پر ہی رکھتے ہیں اور اس میں بھی اپنے پروجیکٹ کو ترقی دینے والے ایشوز پر ہی فوکس ہوتا ہے سلمیۃ کے لوگ کہتے ہیں کہ داعش ہمارے دروازوں پر آن کھڑی ہوئی ہے سلمیۃ حماۃ کے اہم ترین راستوں میں سے ایک راستے پر واقع ہے اور یہ بشارالاسد اور داعش دونوں کی فوجوں کے لیے اہم ہے اور یہ عدلیب و حماۃ شہروں کے عین درمیان میں واقع ہے اور سب سے اہم یہ کہ اس شہر سے حماۃ کا فوجی ہوائی اڈا صرف آدھے فاصلے پر ہے اور الیپو شہر کا مضافاتی قصبہ خانسیر بھی اتنے ہی فاصلے پر ہے جس سے الیپو شہر پر قبضہ آسان ہے السعن ، صبورۃ اور عقارب نامی قصبات جوکہ سلمیۃ کے شمال مشرق میں واقع ہیں اس شہر کی ڈیفنس لائن ہیں ان چھوٹے بدوی قصبوں کے خلاف جوکہ داعش کے کنٹرول میں ہیں اگرچہ کرنل سہیل الحسن کو الیپو سے بشار الاسد نے مغربی اطراف میں رہبۃ الخطاب اور مرہضۃ کو پھر سے کنٹرول میں لینے کے لیے بھیجا ہے لیکن ان علاقوں کے مقامی باشندے ابتک غیر یقینی کیفیت کا شکار ہیں اور ان کو ابھی پورا یقین نہیں ہے کا اگر داعش نے ان کے قصبوں پر حملہ کیا تو ان کے قصبون کا دفاع ہوبھی سکے گا کہ نہیں - مگر بشارالاسد کی فوج نے حماۃ کے مغربی سمت اور شمال میں مرق کا کنٹرول جو حاصل کیا ہے اس سے سلمیۃ کے لوگوں میں کچھ امید پیدا ہوئی ہے سلمیۃ کے گردونواح میں کچھ بدوی قصبات بھی موجود ہیں جہاں پر وہابیت تیزی سے گلف اور ترکی کی امداد سے پھیلائی گئی اور یہآن پر تکفیری قوتوں نے اپنا فوکس سلمیۃ کی اسماعیلی آبادی کے خلاف پروپیگنڈے پر رکھا جبکہ صوفی سنّی اسلام کے ماننے والوں کو لالچ اور جبر کے زریعے وہابیت اختیار کرنے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے اور داعش میں شامل عرب شامی بدو اس شہر کو دارالکفر کہتے ہیں اور اور وہ اس شہر میں موجود قدیمی ثقافتی ورثے کو کفر اور شرک و ارتداد کی نشانیاں قرار دیکر مٹانے کے درپے ہیں جبکہ یہ ٹاؤن فاطمی سلطنت کے پہلے خلیفہ اور بانی عبیداللہ المہدی کی جائے پیدائش ہے سلمیۃ وہ شہر ہے جہاں سے شامی انقلاب کے بڑے بڑے مظاہرے شروع ہوئے تھے اور ان مظاہروں میں شریک لوگوں نے بہت فخر سے کہا تھا کہ وہ کسی مذھبی پیشوائیت کے زیر اثر جمہوریت اور سماجی انصاف کی جدوجہد میں شریک نہیں ہوئے اور نہ ہی ان کے پیچھے کسی عرب وہابی ریاست یا امریکی سامراجیت سے فنڈ لینے والی کسی تنظیم کا ہاتھ ہے ، جبکہ اس مظاہرے میں شریک کئی ایک لوگ جام مئے لہراتے ہوئے بھی دیکھے گئے تھے اور اس شہر کے باسیوں نے اپنے باغی دانشورانہ ورثے پر فخر و مباہات کا مظاہرہ بھی کیا تھا اس شہر میں ایسے لوگ بھی تھے جو اسماعیلوں کے امام آغا خان کے کہنے پر بشارالاسد اور وہابی داعش کے درمیان ہونے والی جنگ میں غیرجانبدار بھی بنے رہے تھے ، لیکن یہ غیرجانبداری ان کو خاصی مہنگی پڑ گئی اور آج داعش ان کے دروازوں پر آن کھڑی ہوئی اور آغاخان تو وہاں آکر ان کو بچا نہیں سکتے ،لے دے کر شامی فوج ہے جس سے ان کو امیدیں وابستہ ہیں ، لیکن سلمیۃ کے گردو نواح میں جیسے السعن کے باسی ہیں وہ غیر جانبدار نہیں رہے بلکہ وہ داعش سے دست بدست لڑائی لڑرہے ہیں اور انھوں نے داعش کا راستہ روکا ہے نام نہاد اعتدال پسند ، ماڈریٹ اور جمہوریت پسند آزاد شامی فوج تو کہیں بھی نظر نہیں آرہی اور ان کو ملنے والا اسلحہ بھی اس کے کمانڈرز نے داعش کو بیچ دیا ہے اور ڈالر ہڑپ کرگئے ہیں اور غآئب ہوگئے ہیں ، میں نے اسامہ شہود کو جوزف دھر کا چار حصّوں میں شایع ہونے والا اوپن ڈیموکریسی ڈاٹ اوآرجی پر شایع ہونے والا آرٹیکل بھیجا اور اس سے پوچھا کہ اپریل 2014ء میں یہ آرٹیکل شایع ہوا تھا کیا وہاں حماۃ اور سلیمۃ میں کوئی انقلابی ملیشیا ہے جو وہاں کے لوگوں کو داعش سے بچاسکے اسامہ شہود نے الٹا مجھ سے سوال کرڈالا کہ کیا کسی اور جگہ کسی سوشلسٹ انقلابی ملیشیا داعش ، جبہۃ النصرۃ سے شامیوں کو بچاپائی ہے ؟ اس نے پوچھا کہ لوگوں کو کسی سوشلسٹ متبادل نہ ہونے کی وجہ سے کیا ہاتھ پر ہاتھ دھر کر اپنے زبح ہونے کا انتظار کرنا چاہئیے جبکہ داعش ان کو مرتد کہہ کر سوائے موت کا آڈر جاری کرنے کے اور کوئی آپشن چھوڑ نہ رہی ہو اور کیا ان کو اپنی ثقافت کی موت کا اںتظار کرنا چاہئیے ؟ اور جیسے آغا خان نے کہا تھا کہ بشار اور وہابی بنیاد پرستوں کی لڑائی میں غیرجانبدار رہیں اسی طرح غیرجانبدار ہوکر داعش کے آگے سرجھکا دینا چاہئيے ؟ پاکستان کے اندر بہت سے لوگ تنبیہ کررہے ہیں کہ کراچی سے لیکر صادق آباد تک اور پشاور میں افغان مہاجرین کے جلوزئی کیمپ تک داعش کے سیاہ جھنڈے لہرارہے ہیں لیکن سب کے سب اس تنبیہ کو خاطر میں نہیں لارہے اور ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ سامراج اور سرمایہ داری کے خلاف نعرے مار کر داعش کے اندر سے اور طالبان ازم کے اندر سے ہی ترقی پسندی پر مبنی مزاحمت کا سودا بیچنے کے لیے نکال لیا جائے کچھ لوگ شام کے انقلاب اور بہار شام کے ابتک زندہ ہونے اور اس کے پھر سے نمودار ہونے کی جھوٹی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں اور اس بنیاد پر یہاں پھیلتی وہابیت -دیوبندیت پر مبنی تکفیریت بارے ابہام پھیلاتے ہیں آخر میں ایک خبر اور بھی جو میرے لیے تو خاصی حیران کن تھی ، سنتے چلئے اور وہ یہ کہ ماروی سرمد فرقہ پرست سیکولر کی خانم لشکر جھنگوی کے سیکنڈ چیف اکرم لاہوری کی سگی بھانجی ہیں

Wednesday 29 October 2014

عاشور ، اجتماعی شعور ، دیومالائیت اور سلفی وہابی دیوبندی پیورٹن


خزعل الماجدی
ابھی کل کی بات ہے کہ میں محرم کی مناسبت سے اپنی کچھ یادوں کو ترتیب دے کر ایک رپورتاژ لکھنے کا ارادہ باندھ رہا تھا کہ مجھے علامہ ایاز نظامی کا ایک ٹوئٹ پڑھنے کو ملا ، جس میں انھوں نے عزاداری کو ایک وحشیانہ اور تہذیب سے عاری فعل قرار دے ڈالا اور ایک بہت ہی معلوماتی گروپ ہے فری تھنکررز جہاں پر تاریخ میں مذھبی روایات ، الہامی کتب اور دیگر مقدس کتابوں کے متن پر بحث کی جاتی ہے اور اکثر اوقات مذھب سے ٹریٹمنٹ خاصی معاندانہ بھی ہوجاتی ہے اور ایسے لگنے لگتا ہے جیسے ایک جنگ مذھب کے خلاف چھیڑ دی گئی ہے ، اس گروپ میں زیادہ تر لوگ اسلام کو ترک کرکے الحاد کی جانب آئے ہیں تو اسلام اور اس کے مختلف مکاتب فکر ہی زیادہ تر اس معاندانہ مہم کی زد میں آتے ہیں علامہ ایاز نظامی دیوبندی مکتبہ فکر کے ایک مدرسے میں بقول ان کے پڑھتے رہے اور وہیں سے وہ آخرکار ملحد ہوگئے ، ان کی تحریریں جب میں نے پڑھنا شروع کیں تو مجھے ایسے لگا جیسے میں علامہ تمنا عمادی ، مولانا اسد ، غلام احمد پرویز ، ڈاکٹر داؤد اور محمود عباسی اور ان کے شاگردوں کی مجلس میں آگیا ہوں اور مجھے فری تھنکر گروپ اس فکر کی لہر کو ازسر نو زندگی بخشنے والا لگا جوکہ ہمارے ہاں کبھی کالج ، یونیورسٹی کے اندر عقلیت پسندوں کی شکل میں سامنے آیا تھا اور یہ رجحان مصر سے چلا تھا جہاں پر طہ حسین ، ڈاکٹر امین مصری سمیت ایک بہت بڑا مکتبہ فکر ایسا سامنے آیا تھا جس نے ‍پہلے تو حدیث ، تاریخ اور مسلم تاریخ کے اکثر کرداروں اور واقعات کو غیر مستند ، فرضی ، قصّے کہانیاں کہہ کر رد کردیا تھا اور پھر ان میں سے کچھ اس سے بھی آگے گئے اور انھوں نے خود قرآن کے متن کو بھی دیگر کتابوں سے ماخوذ قرار دے ڈالا تھا مسلم متداول تاریخ اور کتب حدیث کی صحت بارے مستشرقین نے بھی خاصے تشکیک بھرے مواد کو پھیلایا اور ان کا بھی اثر اس عقلیت پسند گروپ پر پڑا ،پاکستان کے اندر اس مہم سے سب سے زیادہ دیوبندی اور وہابی پس منظر رکھنے والے لوگ متاثر ہوئے اور انھوں نے اس فکر کو باقاعدہ منضبط کرنا شروع کیا - دیوبند میں مولوی عبداللہ چکڑالوی ، مولوی حسین بھچرواں ، مولوی غلام اللہ خان بانی جامعہ تعلیمات ‍قرآن راولپنڈی ، تمنّا عمادی ، محمود عباسی سمیت بہت سارے لوگ اسی فکری لہر سے وابستہ تھے ، ایک اور بات جو اس نام نہاد عقلیت پسند گروپ میں مشترکہ ہے وہ یہ ہے کہ انھوں نے جہاں تصوف سے جڑے کلچر کو اور اس سے پیدا ہونے والے تنوع کو عجمی قرار دیکر مسترد کیا ، وہیں ان کی جانب سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ، اور دیگر آئمہ اہل بیت کی جانب بھی سخت معاندت دیکھنے کو ملی اور ان کے ہاں بنو امیہ کو ترجیح دینے کا رجحان بھی طاقتور نظر آیا اور یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں معرکہ کربلاء کو جھٹلانے ، یزید کی حمائت کرنے ، اس کے لیے جواز تلاش کرنے کا رجحان بھی بہت طاقتور نظر آیا میں ایسے مارکسسٹوں سے بھی ملا جوکہ قرون وسطی کی مسلم تاریخ میں علی اور معاویہ کی لڑائی کو قبائلی جمہوریت بمقابلہ ملوکیت کے تناظر میں دیکھتے اور یہ ثابت کرتے کہ پیداواری قوتوں کی ترقی کی وجہ سے قـبائلی جمہوری نظام مسلم دنیا میں چل نہیں سکتا تھا اور اس کی جگہ ملوکیت نے لی جو اس سے زیادہ ترقی پسند تھا اور وہ بنو امیہ والوں کو زیادہ ترقی پسند قرار دیتے اور علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو ایک رجعتی اور ازکار رفتہ نظام کو بچانے کی ناکام کوشش کرنے والا قرار دیتے اور آپ کی سیاست کو ناکام سیاست بھی کہتے تھے اس لیے مجھے اس وقت بھی حیرانی نہ ہوئی جب ایک مرتبہ پھر محمود عباسی کی کربلا کے قصّے کو جھوٹ قرار دینے والی تحقیق کو پھر سے زندہ کیا گیا ، یہ کتاب جنرل ضیاء الحق کے دور میں شایع ہوئی اور پھر جب اس پر شدید احتجاج ہو تو اس پر پابندی لگ گئی ،محمود عباسی جو کہ کٹر دیوبندی اور مماتی دیوبندی گروپ کہلاتے تھے جوکہ برزخی حیات کے قآئل نہ تھے نے واقعہ کربلا کو سرے سے جھوٹ قرار دیا ، انھوں نے تین دن بھوکے ، پیاسے رہنے کو ماننے سے انکار کردیا اور یہ بھی کہا کہ حسین اصل میں عراق آئے ہی نہیں تھے اور محمود عباسی سے جتنے بھی لوگ ملے وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ محمود عباسی کو نہ صرف حسین سے چڑ تھی بلکہ پوری آل ابی طالب سے اسے کوئي اللہ واسطے کا بیر تھا اگر اس کے بیر اور دشمنی کی کہانی کا احوال پڑھنا ہو تو مولانا صائم چشتی کی کتاب " ایمان ابی طالب " کی دو جلدیں پڑھنا کافی ہوں گی اسی کی دھائی میں محمود عباسی ، تمنّا عمادی اور مولوی طاہر کی تحریروں نے ایک اودھم مچا رکھا تھا اور یہ وہ زمانہ تھا جب صرف اہل تشیع ہی نہیں بلکہ اہل سنت المعروف بریلویوں کو بھی میدان میں اترنا پڑا اور یہ سلسلہ یہیں پر نہیں رکا ، وہ وہابی و دیوبندی جو تاریخ اسلام کے ہر اس واقعے اور قصّہ کو رد کئے جانے پر بہت خوش تھے جس سے بنو امیہ پر زد آتی تھی جب معاملہ صحاح ستّہ اور نفس حدیث تک جاپہنچا تو پھر ان کو ہوش آنے لگا اور ان سے اظہار برآت بھی کرنے کی فکر پڑی ، یہ معاملہ یہاں میرا موضوع نہیں ہے کیونکہ اس زمانے کے اندر اس موضوع پر بہت سی کتابیں منظر عام پر آئیں اور دوبارہ غائب ہوگئیں آج پھر ایسی کوششیں ہورہی ہیں اور الحاد کے نام پر ایسی کوششیں کرنے والوں کی جانب سے بظاہر تو یہ کہا جاتا ہے کہ انھیں کسی مذھب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ، نہ ہی وہ کسی فرقے کے اثبات میں دلچسپی رکھتے ہیں اور میں یہ خیال کرتا ہوں کہ وہ کہتے بھی ٹھیک ہیں لیکن مسئلہ ان کے لاشعور میں جاگزیں اس نفرت اور اس نفی کی شدت کا ہے جو وہ کبھی عقلیت پسندی اور اصول درائت کے نام پر شیعت ، تصوف اور تاریخ اسلام سے ابھرنے والے کلچر کو ایرانی ، مجوسی اور نہ جانے کیا کیا بنیاد دیکر روا رکھتے رہے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی جب کہوہ ملحد ہوگئے اور مذھب کی اساس کے انکاری ہیں لیکن وہ مڈل ایسٹ ، جنوبی ایشیا میں کلچر ، تہذیب کے سوال کو سیکولر انداز سے لینے اور ہمارے ہاں محرم ، عید میلاد النبی ، شب برآت ، عرس ، میلے ٹھیلے اور ان سے جڑی رسموں ، رواجوں اور کلچرل رنگا رنگی کو اس طرح سے لینے کو تیار نظر نہیں آتے جیسے وہ دیوالی کو لیتے ہیں ، کرسمس کو لیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دیوبندی تکفیری عزاداری کو فرقہ پرستانہ بنیادوں پر بند کرانا چاہتا ہے اور وہ عاشور کے جلوس کو چاردیواری میں قید کرنے کا مطالبہ کرتا ہے تو ایاز نظامی اور ان کے جیسے اور بہت سارے لوگ جو ملحد ، سیکولر ، لبرل ہونے کا دعوی کرتے ہیں ان چیزوں کو وحشیانہ ، تہذیب سے عاری ، معاشی ترقی میں روکاوٹ قرار دیکر ان کو چاردیواری میں قید کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن مجھے ان کی یہ تنقید بربنائے عقلیت پرستی ، الحادیت کی بجائے ان کے لاشعور میں بیٹھی نفرت پر مبنی لگتی ہے جو انھوں نے شعیت ، بریلویت اور صوفی اسلام وغیرہ کو اسلام میں ایک اجنبی ، ایرانی ، عجمی سازش قرار دینے والے دنوں میں گزارا اور اس کا آظہار ایسے ہی وہ اب الحادیت ، سیکولر ازم اور روشن خیالی کے نام پر کرتے ہیں پاک و ہند کے عظیم اور بڑے روشن خیال اشتراکی ، لبرل ، ترقی پسندوں کا یہ وتیرہ کبھی نہیں رہا ہے - سب کو معلوم ہے کہ فیض احمد فیض ، صفدر میر ، دادا فیروز الدین منصور ، کامریڈ احسان اللہی قربان یہ لاہور میں ایام محرم میں حویلی نثار لاہور آیا کرتے تھے اور جبکہ نویں اور دسویں محرم کے جلوسوں میں شریک بھی ہوتے تھے ، ان سے جب اس حوالے سے سوال کیا جاتا تو وہ اسے کلچرل معاملہ قرار دیتے تھے اور یہی حال سجاد ظہیر ، سبط حسن ، مظفر علی ، احمد علی ، آپا رشید جہاں ، علی سردار جعفری ، کیفی اعظمی ، دادا امیر حیدر ، کامریڈ ڈانگے وغیرہ کا تھا اور آج بھی سی پی آئی مارکسسٹ اور سی پی آئی ، سماج واد پارٹی وغیرہ کے کامریڈ عید ، عاشور ، شب برآت ، دیوالی اور دیگر تہواروں ، عرس خواجہ اجیمر جشتی ، خاجہ نظام الدین اولیاء وغیرہ میں شرکت کرتے ہیں اور اسے ہندوستانی کلچر کی سیکولر بنیادوں کا لازمی جزو قرار دیتے ہیں اور انھوں نے کبھی کوئی سیکولر وہابیانہ ، پیورٹن تحریک ان سب کے خاتمے کے لیے نہیں چلائی اور نہ ہی کبھی عقلی ، سائنسی اور مذھبی بنیادوں سے ان کلچرل ریتوں اور معاشرے میں پائی جانے والی مائتھولوجی کو رفیوٹ یا غلط ثابت کرنے کی کوشش کی اور کلچر کی طرف ایس طرح سے اپروچ کرنا ایک اور طرح کی بنیاد پرستی ہے اور اس کا فری تھنکنگ ، آزاد خیالی سے رشتہ کم اور اپنے لاشعور میں بیٹھی نفرت کا اظہار زیادہ ہے مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ جیسے مغرب میں وہابی - دیوبندی فاشزم کے ردعمل میں اسلامو فوبیا سامنے آیا ہے ، ایسے ہی ہمارے ہاں بھی شیعہ فوبیا بہت پایا جاتا ہے اور شیعہ فوب صرف مذھب پرستوں میں ہی نہیں پائے جاتے یہ ملحدوں میں بھی پائے جاتے ہیں اور یہ اینٹی مائتھولوجیکل عقلیت پسندی کے راستے سے اپنے شیعہ فوبیا کا اظہار کرتے ہیں مجھے کلچرل لہروں کے سفر میں محرم کی وہ راتیں یاد ہیں جب حویلی نثار میں اہل تشیع کم اور اہل سنت کے نوجوان مرد و عورتیں زیادہ نظر آتی تھیں اور کراچی میں بھی یہی معاملہ تھا اور آج بھی اگرچہ پہلے سے زرا کم یہ سلسلہ جاری ہے اور ایک مائتھولوجیکل لہر اپنے کلچر میں رواں دواں نظر آتی تھی جس کا اثر اب پاکستان میں مسلسل پھیلنے والے شیعہ و تصوف فوبیا کی وجہ سے کم ہوتا نظر آتا ہے میں اس حوالے سے خاصا پریشان تھا اور اس دوران یہ بھی سوچ رہا تھا کہ اس حوالے سے جب بھی کوئی بات کرنے کی کوشش ہو تو ایسے بہت سے لوگ آن لائن موجود ہیں جو فوری طور پر آپ کو فرقہ پرست ، رجعتی اور نہ جانے کیا کچھ کہنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں پاکستان میں شیعہ نسل کشی ، شیعہ فوبیا ، صوفی سنّیوں اور تصوف سے ابھرنے والے کلچرل مقامات پر حملے ایک حقیقت ہیں لیکن ایسے ٹھگ موجود ہیں جو ایک طرف تو اسے دو فرقوں کی باہمی جنگ بناکر پیش کرتے ہیں تو دوسری طرف وہ ان حملوں کے زمہ دار دیوبندی وہابی تنظیموں کے لیے جواز ڈھونڈتے ہوئے فرضی طور پر شیعہ اور صوفی سنّی ملیشیاؤں کا وجود پاکستان میں ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، میں ردعمل میں شیعہ کے اندر یا صوفی سنیوں میں انفرادی طور پر غیر منظم تشدد اور دھشت کے اظہار اور مظاہرے کا انکار پاکستان میں نہیں کرتا لیکن اس انفرادی اور انتہائی شاز و نادر و انتہائی غیر منظم اطءار دھشت و انتہا پسندی کو اگر وہابی - دیوبندی تکفیری فسطائی منظم دھشت گردی اور نسل کشی کرنے کے فعل کے برابر ٹھہرایا جائے تو یہ سوائے شیعہ فوبیا کے شکار ہونے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے خیر یہ سب تو چلتا ہی رہے گا ، واقعہ کربلا اور شہادت حسین یہ سب ایک مائتھولوجی کے طور پر جنوبی ایشیا ، مڈل ایسٹ کے معاشروں اور سماج کا حصّہ بن گئے ہیں اور یہ جو محرم ، عاشور کے بارے میں ہمارے معاشرے کی اکثریت دیومالائی انداز میں سوچتی اور عمل کرتی ہے تو یہ دیومالائی طرز فکر مائتھولوجیکل تھنکنگ صرف ہم سے ہی خاص نہیں ہے بلکہ یہ ایرانیوں اور عربوں دونوں کے بارے میں سچ ہے میں اس بارے میں سوچ رہا تھا کہ مجھے میرے ایک لبنان سے تعلق رکھنے والے دوست راحیل دنداش نے اپنا ایک مضمون بھیجا جوکہ عراق کے معروف ماہر تاریخ و آثار قدیمہ خزعل الماجدی کے عرب دیومالائیت کے بارے میں تھا اور یہ میل مجھے اس وقت ملی جب میں محرم ، عاشور ، واقعہ کربلا اور خانوادہ اہل بیت کے بارے میں مسلمانوں ، ہندؤں ، عیسائیوں اور یہاں تک کہ کسی مذھب کے نہ ماننے والوں کے اندر پائی جانے والی دیومالائی رومانویت اور عقیدت بارے سوچ رہا تھا مجھے خیال آیا کہ مین جب طالب علم تھا اور مارکسی اسٹڈی اسکول لیا کرتا تھا تو ہمارے چند سنئیر کامریڈ کہتے تھے کہ شیعہ خدا کا انکاری ہوجائے ، مذھب ترک بھی کردے اور کمیونسٹ ہوجائے لیکن وہ علی و خانوادہ اہل بیت کا انکاری نہیں ہوتا ، اس اعتبار سے رہتا شیعہ ہی ہے یہ بات ظاہر ہے ازراہ مذاق کہی جاتی تھی اور جب میں نے اس بات کی گہرائی میں جاکر سوچا اور میرے سامنے فیض احمد فیض ، سجاد ظہیر ، کیفی اعظمی ، سبط حسن سمیت کئی ایک ترقی پسندوں کے معمولات سامنے آئے اور عاشور و محرم کی رسومات ، مجالس سے ان کا شغف دیکھا اور میرے سامنے اپنے گھر میں کئی ایک پکّے کمیونسٹوں کی مثالیں تھیں جو سرخ سویرا طلوع ہوتے دیکھنے کے خواہش مند تھے ، شیعہ ملّاؤں سے اور ایرانی آیت اللہ سے اتنے ہی بیزار تھے جتنے وہ دوسرے مذھبی ملّاؤں ، پادریوں ، پنڈتوں سے بے زار تھے لیکن عاشور ان کی زندگی میں ایک اہم کلچرل ، ثقافتی ، تہذیبی سرگرمی کا درجہ رکھتا تھا اور علی ، ابو زر ، عمار یاسر ، سلمان فارسی ، حسن ، حسین وغیرہ ان کے ہاں مزاحمت ، بغاوت ، سچائی ، صداقت ، انقلاب کے استعارے تھے اور ظالموں کے خلاف قیام و مقاومت کا روشن چہرہ تھے اور ان کے ہاں یہ کسی فرقے اور کسی مذھب کو سچا اور حقیقی ثابت کرنے کا معاملہ نہیں تھا اور نہ ہی کسی منصوص من اللہ کی ولایت کو ثابت کرنے کا معاملہ تھا بلکہ اس کی دو جہتیں تھیں کہ ایک جہت ثقافتی و تہذیبی دیومالائی اور دوسری اس کی استعاراتی ، تشبہاتی حثیت تھی اور پہلی حثیت میں ان کو یہ کٹھ ملائیت اور پیورٹن ازم جسے ہم وہابیت کہہ سکتے ہیں اور اسے ہم مذھبی پیشوائیت یعنی تھیوکریسی بھی کہہ سکتے ہیں کے خلاف ایک مضبوط میڈیم لگتی تھی جوکہ یہ ہے بھی اور دوسری حثیت میں یہ ان کو استحصال ، ظلم ، جبر ، کے نوآبادیاتی ، سرمایہ دارانہ ، سامراجی ضابطوں کے خلاف مدد دینے والے استعارے اور تشبیات لگتی تھیں اور انھوں نے اس سے کام بھی لیا راحیل دنداش کی میل نے مجھے ڈاکٹر علی شریعتی کی عاشور ، محرم ، علی ، حسین کے ساتھ ٹریمنٹ اور برتاؤ یاد کرایا اور ان لیکچر " علی ایک دیومالائی سچ " میرے سامنے آگیا اور مجھے ایسے لگنے لگا کہ جیسے میں تہران یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں ان دو لاکھ ایرانی طلباء و ظالبات کے ساتھ موجود ہوں جن کے سامنے عاشور کے ایام میں شریعتی نے یہ لیکچر دیا تھا اور پھر یہی لیکچر شہادت علی کے موقعہ پر شریعتی نے جامعہ حسینیہ ارشاد میں دیا تھا اور دونوں جگہوں پر مجھے ایرانی کمیونسٹ پارٹی یعنی تودے پارٹی سے تعلق رکھنے والے طلباء و طالبات کی کثیر تعداد بھی نظر آرہی ہے اور ان دنوں تودے پارٹی کا طلباء ونگ تہران یونیورسٹی کے کمیپس پر چھایا ہوا تھا اور ان کا عاشور کے بارے میں برتاؤ ، شعور ، رویہ یقینا وہ نہیں تھا جو آیت اللہ خمینی ، مرتضی مطہری ، بہشتی کے ماننے والوں کا تھا لیکن دونوں عاشور کو ایک رجعت پرست ، تہذیب سے عاری اور وحشیانہ شئے خیال ہرگز نہیں کرتے تھے خزعل ماجدی کے حوالے سے لکھے آرٹیکل میں راحیل نداش نے بات یہاں سے شروع کی ہے کہ عرب سماج میں دیومالائی طرز پر سوچنا ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے اور اس کے خیال میں یہ بات صرف عرب سماج کے بارے میں ہی درست نہیں ہے بلکہ یہ پوری مسلم دنیا کے سماجوں کے بارے مین درست ہے - بلکہ وہ کہتا ہے کہ پوری دنیا مین لوگوں کی اکثریت کا شعور اور بیداری کا انحصار مائتھولوجی پر ہے اور اس کی وجہ و سبب کو کئی طریقوں سے واضح کیا جاسکتا ہے -اور وہ اس حوالے سے خزعل الماجدی عراقی ماہر تاریخ کے خیالات پیش کرتا ہے ، جس نے بہت تحقیق اور عالمانہ انداز میں یہ ثابت کیا ہے کہ دیومالائیت کا عربوں کے اجتماعی شعور میں بہت ہی اہم کردار ہے خزعل ماجدی کہتا ہے کہ دیوملائیت کلچر اور تہذیب کے دھاروں کی جان ہوتی ہے اور دیومالائی کہانیاں ، ان سے ابھرنے والی رسومات اور خیالات کسی بھی سماج کی ثقافتی بنت کاری میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں لیکن اس کے خيال میں جب کسی مذھب کے نام پر کوئی پیورٹن تحریک جس میں وہ وہابیت ، سلفیت کی مثال دیتا ہے جب اس دیومالائی کہانیوں اور اس سے جنم لینے والی رسومات اور طور تحریکوں کو اس مذھب سے اور اسی بنیاد پر اس سماج کے کلچر ، تہذیب سے نکالنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر تباہی ، بربادی سامنے آتی ہے اور اس طرح سے کسی طرح کی سچائی سامنے آنے کی بجائے ایک اور طرح کی دیومالائیت ، مائتھولوجیکل وے آف تھنکنگ سامنے آجااتا ہے اور وہ طرز فکر خزعل الماجدی کی ںظر میں آج عرب معاشروں کی تباہی کا باعث بنا ہوا ہے خزعل الماجدی کا کہنا ہے کہ عرب معاشرے سلفی وہابی تحریک کی شکل میں آج بھی قرون وسطی کے ایک نئی دیومالائیت کے ساتھ رہنے کی کوشش کررہے ہیں جو ان سماجوں کی جدیدیت کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ بن چکی ہے اور یہ ترقی نہ کرنے اور سائنسی سوچ سے ہم آہنگ نہ ہونے کا اظہار بھی ہے ماجدی کہتا ہے کہ اس طرح کی سلفیت کی سب سے خطرناک چیز یہ ہے کہ قرون وسطی سے ایسے مائتھ اور لیجنڈ ماضی کے اندھیری غاروں سے نکال کر لاتی ہے اور ان کو اجتماعی شعور کا حصّہ بناتی ہے کہ وہ سب کے سب استعاراتی شکل میں ایسے نعروں اور تمثیلوں میں دھل جاتے ہیں جن سے دھشت گردی کو ایندھن ملتا ہے ، تصادم ظہور پذیر ہوتا ہے ، خانہ جنگی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور اکثر یہ استعاراتی عمل خدا کے نام پر اور مقدس علامتوں کے زریعے کیا جاتا ہے خزعل الماجدی کہتا ہے کہ سلفیت عرب معاشروں کی ثقافتی روح میں رواں دواں مائیتھولوجی اور اس سے ابھرنے والی رسوم اور طریقوں کو شرک ، بدعت قرار دیکر ان کی جگہ جو مقدس علامتیں مسلط کرنے کی کوشش کرتی ہے ان علامتوں نے پھر کار بم ، مذھبی وہابی دیوبندی دھشت گرد گروپوں ، اکثر چئیرٹی ، خیراتی اداروں ، نعروں ، علامتوں ، بینرز اور شہادت فی سبیل اللہ کے نعرے ہی ان نئی دیومالائیت کی شکل اختیار کرجاتے ہیں اور خزعل یہ بھی کہتا ہے کہ مائتھولوجی کو زیادہ سے زیادہ سادہ بنانےکا رجحان توحیدی مذاہب میں پایا جاتا ہے اور پیورٹن جیسے ہمارے سلفی ہیں وہ اس کو بالکل ہی ختم کرنے کے درپے ہیں ہوتے ہیں اور مدنیت یعنی شہری زندگی کی چکاچوند کو وہ واپس بدویانہ دور میں لیجانے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی کے بطن سے انارکی جنم لیتی ہے کلچر کو خشک ملائیت اور اس کی انتہائی شکل وہابیت- دیوبندیت اور اس سے جنم لینے والی تکفیریت سے جن خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، ان کی بدترین شکلیں مڈل ایسٹ کے اندر نظر آرہی ہیں

Friday 17 October 2014

کرد گوریلا خواتین کی جدوجہد ۔ سامراجیت اور جنگجو مزاحمت کار عورتوں کی فیٹشائزیشن


آج کل مغربی میڈیا ، سوشل میڈیا میں کرد عورتوں کی عسکری تنطیم پی وائی جے کی داعش کے خلاف جدوجہد بارے بہت کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے اور فیشن انڈسٹری بھی پیچھے نہیں رہی ، اس نے کرد گوریلا خواتین جو خاکی گرین جمپ سوٹ پہنتی ہیں ،ان کو فیشن کے طور پر متعارف کرایا ہے ، ایک سویڈش فیشن ٹیلر کمپنی ایچ اینڈ ایم نے جب اس کو بطور ماڈرن فیشن کے متعارف کرایا تو اس پر کردوں کی جانب سے تو سخت تنقید ہوئی بلکہ فیمنسٹ حلقوں نے بھی اس پر سوال اٹھائے فیمنسٹ حلقوں کو پی وائی جے کی گوریلا خواتین کی مغربی پروجیکشن اور اس حوالے سے ہونے والی میڈیا رپورٹنگ اور سرخیوں وغیرہ پر تشویش ہے اور وہ اسے عورت مخالف پدرسری طاقت کی تجسید قرار دے رہے ہیں رقیہ شمس الدین لبنانی نژاد امریکی فیمنسٹ سکالر خاتون ہیں ، اور " لیٹرز فرام انڈر گراؤنڈ " کے عنوان سے کالم لکھتی ہیں ، ان کے اکثر آرٹیکل عرب ملکوں کے اخبارات اور جرائد میں شایع ہوتے رہتے ہیں ، ابھی کچھ دن پہلے انہوں نے کرد گوریلاجنگجوؤں میں خواتین گوریلا فائٹرز کا معروف یونٹ پی وائی جے کی داعش کے خلاف شام میں جنگ کے حوالے سے ایک آرٹیکل لکھا جس کا عنوان تھا Women as tools: on the selective fetishization of female resistance fighters. یہ آرٹیکل کرخواتین گوریلا فائٹرز خواتین کی داعش کے خلاف عین العرب - کوبانی میں لڑائی کو مغربی میڈیا کی جانب سے ایک انوکھی اور فیسی نیٹ جدوجہد کے طور پر پیش کرنے اور ان گوریلا خواتین کے مخصوص جمپ سوٹ کو ان سے ہی حاص کرنے پر فیمنسٹ تنقید پر مشتمل ہے اور میں نے کم از کم پاکستانی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا و سوشل میڈیا میں اس حوالے سے ابتک کوئی نوٹ یا پوسٹ ، آرٹیکل ، فیچر نہیں دیکھا رقیہ شمس الدین نے اپنے ارٹیکل کے آغاز ہی میں ایک زبردست آئيڈیالوجیکل رجحان کی طرف اشارہ کیا ہے جوکہ اس کے خیال میں جنگ کے دنوں میں عام طور پر اور جنگ میں شریک ہوجانے والی عورتوں کے حوالے سے پدر سری معاشروں میں دیکھنے کو ملتا ہے رقیہ اس کو فیٹشائزیشن آف ویمن کہہ کر پکارتی ہے اور وہ اسے جنگ میں مصروف عورتوں کی فیٹشائزیشن کا نام دیتی ہے اور اس کے خیال میں یہ پدر سری تجریدی طاقت کی ٹھوس مادی و تجسیمی شکل کا اظہار ہوتا ہے ، وہ لکھتی ہے کہ The fetishization of women during times of war, especially women in combat, can be argued as being a reification of patriarchal power; the patriarchal view of female violence as being a demonstration of chaos reimagined as tolerable and even acceptable so long as this violence serves patriarchy, militant or otherwise. Despite the female identity being granted space for violent expression, the sexualization of these spaces and the bodies which take up these spaces, has become normalized. عورتوں کی جانب سے تشدد تشدد کئے جانے بارے جو تصور پدر سریت کے حامی دانشوروں میں پایا جاتا ہے اس کی دوبارہ سے ایسے تشکیل کہ اس کا جواز فراہم کیا جائے رقیہ کے بقول جنگ کے دنوں میں اس وقت کیا جاتا ہے جب عورتوں کا یہ تشدد پدر سریت کی خدمت کررہا ہو اور پدر سری عسکریت پسندی کا خادم ہو تو نسائی شناخت کے حامل اس تشدد کے اظہار کے لیے جگہ اور ان جگہوں میں نسائی اجسام کے آنے کو قول کیا جاتا ہے اور اسے نارملائزڈ بھی کیا جاتا ہے رقیہ اسی تناظر میں یہ بھی بتاتی ہے کہ "عورتوں کے تشدد اور ان کی عسکریت پسندی یا سیاسی وآئلنس کی فیٹشائزیشن " کا اسی طریقہ کار اور ٹون کے ساتھ ہر اطلاق نہیں کیا جاتا ، بلکہ کئی ایسے گروپ جو اسی طرح کی فیٹشائزیشن کا کریکٹر رکھتے ہیں ان کو اس سے خارج کردیا جاتا ہے رقیہ ایک 21 سالہ آرٹسٹ عاور حسینی کا حوالہ دیتی ہیں جوکہ کہتی ہے کہ یہ جو کردش ویمن پی وائی جے گوریلا یونٹ ہے اس کے بارے میں مغرب کے اندر ہم جو فیسی نیشن دیکھ رہے ہیں اس کی جڑیں سرمایہ داری کے ڈھانچے میں پیوست ہیں ، یہ سرمایہ داری کسی بھی شئے سے پیسے بنانے کے بارے میں سوچتی ہے تو میڈیا عورتوں کی جدوجہد کو مردوں کی طرح سے پیش کرے گا تو جنگ کے حوالے سے اس کی میڈیا پروڈکشن ویسے نہیں بکے گی جیسے کرد گوریلا عورتوں کی لڑائی کو ایک خاص الخاص انوکھا عمل بناکر دکھانے کی وجہ سے بک رہی ہے مغربی میڈیا کرد گوریلا عورتوں کا داعش کے خلاف لڑنا ، ایسے دکھارہا ہے جیسے کرد عورتیں صرف داعش سے ہی لڑنے باہر آگئی ہیں اور اس سے پہلے تو وہ میدان کارزار میں تھیں ہی نہیں عاور حسینی کہتی ہیں کہ کر د گوریلوں چاہے وہ مرد ہوں کہ عورتیں ، ان کی جدوجہد کا حسن یہ ہے کہ وہ ہر عورت اور مرد کے حق کے لیے لڑرہے ہیں جو داعش کے ظلم کا نشانہ بنے ہیں ،چاہے ان مردوں اور عورتوں کی نسل اور مذھب کچھ ہی ہے ، اور میرے خیال میں مغربی میڈیا اس جدوجہد کی اس خوبصورتی کو پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ وہ اس خوبصورتی کو ہضم نہیں کرپاتے وائی پے جے کرد عورتوں کی صرف ایک عسکری گوریلا ملیشیا ہی نہیں ہے بلکہ یہ مردوں اور عورتوں کی برابری کی تحریک ہے جو کرد سماج کے اندر عورتوں کے لیے مخصوص قسم کے نام نہاد نسائی کردار اور کام کی ادائیگی پر اصرار کرنے والے سماجی تصورات اور رواجوں کے خلاف جدوجہد کی ایک طویل تاریخ رکھتی ہے اور آج وائی پی جے کی جدوجہد کو پیش کرتے ہوئے مغربی میڈیا اس پہلو کو پیش کرنے سے قاصر رہا ہے رقیہ کہتی ہے کہ مغربی میڈیا پی وائی جے میں شامل کرد گوریلا عورتوں کی جانب سے داعش کے ممبران کو مارنے اور ان کے خلاف عسکری جنگ لڑنے کو سرخیوں میں ایسے پیش کرتی ہے جیسے کرد گوریلا عورتوں کی یہ جدوجہد داعش کے خلاف شروع ہوئی ہو اور اس سے پہلے یہ کرد خواتین گھریلو عورتیں ہوں ، یہ تصویر شرمناک ، حقائق چھپانے والی ہے کرد عورتیں کئی عشروں سے اپنے حقوق کی جنگ لڑرہی ہیں اور پی وائی جے یونٹ کرد عورتوں کی برابری کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ کردوں کی آزادی کی جنگ میں بھی کرد مردوں کے شانہ بشانہ لڑرہا ہے رقیہ کہتی ہے کہ داعش کے خلاف کرد خواتین کی گوریلا لڑائی کو مغرب جس طرح سے پیش کررہا ہے ،وہ دنیا بھر میں چلنے والی مزاحمت و آزادی کی تحریکوں میں شریک عورتوں کی جدوجہد کو چھپانے کے مترادف بھی ہے رقیہ مغربی فیشن انڈسٹری کی جانب سے پی وائی جے کی گوریلا خواتین کی یونیفارم کو بھی ایک فیشن پروڈکٹ بنانے اور اسے کرد عورتوں سے مخصوص کرنے کے بڑھتے رجحان پر بھی تنقید کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ کیسے کرد گوریلا عورتوں کے پہنے جانے والے جمپ سوٹ کو فیشن کے طور پر متعارف کرایا جارہا ہے ایک سویڈش ریٹیل کلوتھنگ کمپنی آیچ اینڈ ایم نے حال ہی میں ایک جمپ سوٹ بطور کردش انسپائرڈ جمپ سوٹ کے طور پر مارکیٹ میں پیش کیا ، جس پر اسے سوشل میڈیا پر خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے اس پر معافی مانگ لی اس معافی پر امریکی جریدے فارن پالیسی کے اسسٹنٹ ایڈیٹر الیس گرول نے یہ خیال ظاہر کیا کہ ایچ اینڈ ایم کمپنی کو معافی مانگنے کی ضرورت نہیں تھی اور اس طرح کے کردش انسپائرڈ جمپ سوٹ سے کرد گوریلا عورتوں کو ژزید توجہ ملتی اور لوگوں کو پتہ چلتا کہ پی وائی جے کرد عورتوں کا یونٹ کتنا زبردست ہے جو داعش کے خلاف لڑرہا ہے الیس گرول پہلا آدمی نہیں ہے جو اس خاص قسم کی ڈریس فیٹشائزیشن کو ، کرد گوریلا عورتوں کی جانب سے کیموفلاج عسکری ڈریس پہنے جانے کو ان سے خاص کرکے دکھانے کو ،اور اسے بطور کردش فیشن جمپ سوٹ کے طور پر پروموٹ کرنے کو ان کے لیے توجہ کا باعث قرار دے رہا ہے ، بلکہ اس طرح کی سوچ جوکہ ادارہ جاتی نسل پرستی کی شکل ہے رکھتی ہے رقیہ کے خیال میں یہ کردوں کی ایک ہمہ جہت جدوجہد کو فلم کے ٹریلر میں بدلنے کے مترادف ہے جس کا نام " کرد گوریلا عورتیں بمقابلہ داعش " ہے رقیہ فیشن انڈسٹری میں عورتوں کی عسکری جدوجہد کے دوران سامنے آنے والی بعض ثقافتی علامتوں کو فیشن میں ڈھالنے اور پیسہ کمانے کا زریعہ بنانے کے اس عمل بارے ٹھیک طور پر یہ کہتی ہیں کہ یہ عمل فیشن انڈسٹری میں نیا نہیں ہے ، فلسطینی عورتیں اسرائیل کے خلاف عسکری جدوجہد میں جو کفایہ استعمال کرتی رہیں ، وہ بطور فیشن مغرب اور مشرق میں یکساں مقبول رہے لیکن رقیہ کہتی ہیں کہ فلسطینی عربی کفایہ تو مغربی فیشن انڈسٹری میں مقبول ہوئے لیکن فلسطینوں کی جدوجہد اور ان کی عسکری بغاوت کو مغرب اور خاص طور پر امریکیوں کے ہاں وہ قبول عام نہیں ملا جو پی وائی جے کی کرد گوریلا عورتوں کی داعش کے خلاف جدوجہد اور مزاحمت کو لتا ںظر آتا ہے اس کی وجہ امریکیوں کی اکثریت کا اسرائیل اور اسرائیلی حکومت نواز ہونا تھا ،اسی لیے لیلی خالد اور اس کی جدوجہد مغرب میں ایک فیسینیٹ عمل کے طور پر نہیں دیکھی گئی ، بلکہ اس کو دھشت گردی کے طور پر تعبیر کیا گیا رقیہ کے یہ جملے قابل غور ہیں جو اس نے فلسطینی عورتوں کی مزاحمت اور کرد عورتوں کی مزاحمت بارے مغرب کے دوھرے ردعمل اور متضاد رويے کو بے نقاب کرنے کے لیے لکھے ہیں critics have long associated female Palestinian resistance with subservience and sexual inhibition while, as we see recently, offering Kurdish women fighters a place of subservience to patriarchy without the disdain. Women are allowed to travel outside what society deems their natural status, that of beautified nurturers, and take part in the horrors of war so long as their targets are castigated by those in power, and in the case of Palestinian resistance this is a hard sell for Americans, for example, who remain unashamedly pro-Israel. Regardless, both associations are destructive as they identify women as tools in conquest or tools of conquest, and while presently Kurdish violence in the vacuum of resistance against ISIS is righteous we notice that Palestinian violence exerted in response to brutal settler-colonialism is reviled. عورتوں کی برابری کا ایک طویل عرصے سے کام کی جگہ ، ٹریڈ یونین ، سیاسی جماعتیں ، اکیڈیمک انسٹی ٹیوشن وغیرہ میں انکار کیا جارہا ہے ، جہاں پر ان کے ساتھ برابر کے انسان کا سلوک روا نہیں رکھا جاتا ، کام کی جگہ پر ان سے ناانصافی جاری ہے ، لیکن جنگوں میں عورتوں کے ایک پیچیدہ اور تہہ دار موضوع کے طور پر جنگ کا حصّہ ہونے یا جنگ کا نشانہ ہونے کو معمول کی اشیاء کی تاریخ کے طور پر ویسے ہی پیش کیا جارہا ہے ،جیسے پیش کیا جاتا رہا ہے اور ان کو ایسے ماحول میں کاموڈوفائی کیا جارہا ہے جو زیادہ تر ، بہت زیادہ عورت مخالف اور ان کا سب سے زیادہ استحصال کرنے والا ہے رقیہ شمس الدین جنگ اور تنازعوں میں عورتوں کی عسکریت پسندی اور ان کے جنگ کا نشانہ بن جانے پر مغربی میڈیا کی ڈیلنگ اور ان کی جدوجہد کو سرمایہ داری سٹرکچر میں دیکھے جانے کے عمل پر اس تنقید کے ساتھ سامنے آئی ہیں جو میڈیا اور سوشل میڈیا میں بہت کم دیکھنے کو ملی ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ پاکستان میں فیمنسٹ حلقے اس تنقید میں اپنی بصیرت کے ساتھ مزید اضافہ کریں گے http://english.al-akhbar.com/content/women-tools-selective-fetishization-female-resistance-fighters http://roqayah.co/about/ http://www.ibtimes.co.uk/fashion-house-hm-denies-khaki-green-jumpsuit-based-kurdish-female-fighters-uniform-1468782 https://www.yahoo.com/style/h-m-kurdish-fighters-apology-99412095013.html

Thursday 16 October 2014

برکھا رت اور شمشان گھاٹ


برکها رت اداسی لیکر آتی ہے ، باہر جل تهل تو اندر بهی جل تهل اور ساته ہی موسم کی بے اعتباری کے اندر سے جهانکتے انسانی کرداروں کا بهی بے اعتبار پن ، یعنی ایک موسم کتنے سارے منظر ساته ساته مصور کرتا چلا جاتا ہے اور ساته ہی ہلکی ہلکی خنک فضا من کے اندر بهی ایک عجب سی هیلنک فلسفیانہ اداسی لیکر آتی ہے مجهے وہ شام یاد آرہی ہے جب ایک کیفے میں چائے کی پیالی کب کی میرے سامنے پڑی تهی اور میں اس کیفے میں ایک الگ تهلگ سے کونے میں تنہا بیٹها اسے یاد کرتا تها ،جس کے مرنے کی خبر مجهے ڈاکیے کی طرف سے ملنے والے ایک پارسل سے نکلنے والے ایک خط سے ملی اور پارسل میں مرنے والی شخصیت کی هاته سے لکهی ڈائریاں تهیں اور میں نے ایک نشست میں ہی دونوں ڈائریوں کے سارے ہی پنے پڑه ڈالے تهے ، الفاظ ، جملے سبهی ہی تصویریں بنکر میرے ساته چل رہے تهے اور اس دن بهی خوب بارش ہوئی تهی ، برکها تهی کہ تهمنے کا نام ہی نہیں لے رہی تهی اور جب میں نے اس کے لکهے پنے پڑه ڈالے تو میں ایک سیلانی سی کیفیت میں گهر سے باہر نکل گیا اور سیدهی لمبی سڑک کراس کرتا ہوا نہ جانے کیوں میں اس ویرانے میں آگیا تها جہاں کبهی تقسیم سے پہلے شمشان گهاٹ ہوا کرتا تها اور شاید اس کا سبب یہ تها کہ مجهے جس کرب اوردرد کا سامنا تها اس پر کسی زندہ لاش سے بات کرنا مجهے عبث لگا تها اور یہ وہ دن تهے جب ابهی میں ہما علی کی رفاقت سے محروم ہونے کے صدمے سے نہیں سنبهلا تها اور مجهے وہ سارے لمحات آسیب بنکر اپنے ساته چلتے محسوس ہوتے تهے جو ہم نے اکٹهے گزارے تهے اور اب اس کے مرنے کی خبر ہی نہیں آئی تهی بلکہ اس نے اپنے سارے کرب ، دکه ، ملال اور مصیبت کو لفظوں میں سموکر مجهے روانہ کردیا تها میں شمشان گهاٹ میں پهرتی کسی بے قرار آتما کو اپنی کتها سنانا چاہتا تها اور دن جب میں شمشان گهاٹ پہنچا تو بارش مزید تیز ہوگئی تهی ، میں نے چهاتہ بند کیا اور ٹین کے بنے شیڈ کے نیچے جاکهڑا ہوا ، شمشان گهاٹ ایک کهنڈر میں بدل چکا تها اور جهاڑ جهنکاڑ چاروں اور اگا ہوا تها اور اس وقت شام کےسائے گہرے ہورہے تهے اور یہاں تو دن کے اجالے میں گزرتے ہوئے لوگ گهبراتے تهے ، کیونکہ ہمیں وہموں اور اندیشوں سے جتنا خوف آتا ہے اتنا جیتے جاگتے انسانوں کی حیوانیت سے خوف نہیں آتا اس شام شمشان گهاٹ میں اس ٹین کے شیڈ پر بارش کی چهن چهن ہورہی تهی اور یہ چهن چهن مجهے اس صبح کی یاد بهی آئی تهی جب میں کراچی میں برنس روڈ پر ایسے ہی سخت بارش میں اس کا انتظار کررہا تها کہ ملکر گولے کباب کهانے کا پروگرام تها ، ویسے اس روز اس کی آمد کافی دیر سے ہوئی تهی اور دیری کا سبب یہ تها کہ وہ گولے کباب پر مشتاق یوسفی کی تحریر سے اس دعوت کی محفل کو کشت زعفران بنانے کا منصوبہ رکهتی تهی اور واقعی ایسا ہوا بهی تها مجهے وہ صبح بهی یاد ہے جب ایسے ہی بارش برس رہی تهی اور میں نے ایک نظم اسی مناسبت سے منظوم کی تهی اور جو اس نظم کو منظوم کرنے کا سبب بنا تها اس کو بهیج دی تهی شمشان گهاٹ سے واپسی رات گئے ہوئے تهی اور اگلے چند سال تو بہت ہی کرب کی کیفیت میں گزرے تهے اور یادوں کی مالائیں گلے میں پڑی تهیں اور ان مالاوں کے دانے بار بار چهنچهناتے تهے اور میں حال سے گرفتار ماضی ہوجاتا تها اور ایسی ہی کیفیت اس رات ، اس کیفے میں دور خاموش سے گوشے میں ایک میز کے سامنے بیٹهے مجه پر طاری ہوگئی تهی ،جیسے آج اس برکها رت میں رات کے اس پہر طاری ہوگئی ہے اور کتنی عجیب بات ہے کہ وہی کیفے ، وہی میز ہے اور باہر اسی طرح سے بارش ہورہی ہے اور ایک بارش من کے اندر بهی شروع ہوچکی ہے ، ویسے اس وقت میں اور آج کے وقت میں فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت میں کوئی حسن کوزہ گر اور کوئی شہرزاد میری شناسا نہ تهی ،آج حسن کوزہ گر کو میں مشہود پاتا ہوں اور شہرزاد کو بهی اور بغداد کی گلیاں لگتا ہے ہجرت کرکے میرے تخیل کے جہان میں پیوست ہوگئی ہیں اور بغداد کی راتیں بهی کیونکہ اصل بغداد میں تو اب باردود کی بو رچی بسی ہے ، انسانی جسموں کے لوتهڑے ہر سمت بکهرے پڑے ہیں اور دیواروں پر لہو کے چهینٹے پڑے ہیں اور مجهے هلاکو خان کی روح بهی اس بربریت اور خون آشامی پر شرمندہ ، شرمندہ لگتی ہے ابهی مجهے یوں لگتا ہے کہ بوڑهی عرب عورت عرفہ کی روح ان گلیوں کے ساته چلی آئی ہےاور مجهے وہ قصہ سناتی ہے جسے میں مسلمانوں کے اس شہر میں بیان کرنے سے قاصر ہوں اور کسی اخوان الصفاء کی طرز کے پوشیدہ لکهاری کی تلاش میں ہوں جو دو اونٹوں کے ساته بانده کر چیر دی گئی اس بوڑهی عورت کی المیہ پر مبنی کہانی بیان کرسکے اور اس کی نوجوان بیٹی کا المیہ رقم کرسکے ویسے ہی جیسے داعش نے دو کاروں سے بانده کرایک عورت کو چیر دیا ہے جس کا المیہ ہر کوئی بیان کرتا ہے اور میں تاریخ کے اس دوہرائے جانے اور تاریخ میں ایک ہزار سال سے زیادہ اس بوڑهی عورت کی آتما ہمارا پیچها کرتی ہوئی یہاں تک آن پہنچی ہے

Tuesday 14 October 2014

مہاجر کمیپ تک آنے والی جنگ اور دھوئیں کے بادلوں کی اوٹ سے جھانکتی شامی موسیقی


میں نے جب اپنا کالم " خوف میں جینا سیکھ لو " لکھا تھا تو مجھے ہرگز نہیں معلوم تھا کہ اس کرہ ارض پر ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو خوف کے ساتھ پورے تخلیقی وفور کے ساتھ جیتے ہیں اور اپنے خوف ، اندیشوں ، مصائب کو ایسی موسیقی میں بدلتے ہیں کہ وہ سب کے سب ایک نئے انداز سے سامنے آتے ہیں اور ایسی موسیقی پھٹتے بموں ، برستی گولیوں ، جلے ہوئے مکانوں اور خیموں کی راکھ سے اٹھتے ہوئے دھوئیں کی آسمان پر بنتی سیاہ لیکروں اور دیواروں پر پڑے خون کے چھینٹوں سے ملکر تشکیل پارہی ہوگی نوے کی دھائی میں ایڈورڈ سعید نے فلسطینی اور اسرائیلی نوجوانوں پر مشتمل ایک آرکسٹرا تشکیل دیا تھا جس نے جنگ اور خون کے درمیان کی امن کی آشا کو بڑھایا اور ناممکن کو ممکن کردکھایا تھا میں نے تو ابھی سماجی رابطے کے نیٹ ورکس پر کھدرے ، سپاٹ ، اور انتہائی فرسٹریشن میں لکھے گئے تبصرے اور زیادہ سے زیادہ جذباتی لکیروں کا ایک جال ہی دیکھا تھا ، اسے تخلیق میں ڈھلتا نہیں دیکھا تھا مڈل ایسٹ ، شمالی افریقہ اور جنوبی ایشیا میں سامراج ، آمر و ملوک حکومتوں ، گماشتہ جمہوریتوں اور ان کی کھوکھ سے جنم لینے والی تکفیریت اور مذھبی فاشزم کے تفاعل سے پیدا ہونے والی تباہی ، گھٹن ، حبس پر میں غیر جمالیاتی ، بھدے جملوں اور عبارتوں سے اوب جاتا تو بے اختیار کبھی محمود درویش کو تو کبھی نزار قبانی ، کبھی ناظم حکمت کو تو کبھی فیض احمد فیض اور جالب کو یاد کرنے لگتا اور بیروت کے مائیکل خلائف کی کی موسیقی سننے لگتا تھا اور پھر کل رات ایسا ہوا کہ ریڈیو ٹیون کرتے ہوئے ایک بیروت کا ریڈیو اسٹیشن لگ گیا اور وہاں سے ایک پروگرام شامی ریپ میوزک کے بارے میں نشر ہورہا تھا اور پروگرام پیش کرنے والے نے ایسے شامی ریپرز کا احوال سنایا اور ان کی موسیقی سنوائی کہ میرے دل کی دنیا ہی بدل گئی اور میں اب تک اس سحر سے نہیں نکل سکا Your face is sweeter without the shelling The shelling that’s become a living thing Taking to human flesh a liking And like you, water is missing My throat is dry, so I’m wishing Water would come, even if it’s dripping Six months of starvation, the truce comes for the dying While the graveyard is growing, and growing یہ گل گامش کی "نظم 15" کے مصرعے ہیں کہ چھے ماہ کی بھوک ہے ، اور شب حون موت آوری کے ساتھ آتا ہے اور قبرستان ہے کہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے پاپ میوزک شام میں 1990ء سے شامی نوجوانوں میں مقبول ہونا شروع ہوا اور تب سے شامی نوجوانوں نے اس میوزک کے زریعے سے اپنی پریشانیوں اور اپنی دلچسپی کے مرکز موضوعات کا اظہار جاری رکھا ہوا ہے - لیکن 2011ء میں اس دلچسپی میں ایک ریڈیکل تبدیلی اس وقت واقع ہوئی جب شامی نوجوانوں نے خود کو انقلاب ، جنگ ، فرقہ واریت ، اسد کی اپوزیشن اور اسد کی حمائت جیسے ایشوز میں گھرا ہوا پایا اور اس میں جلاوطنی اور بے دخلی دونوں بھی ساتھ ساتھ سامنے آگئیں تھیں جس نے نوجوانوں کو ایک نئی زندگي سے آشنا کیا جو ایک مقام سے دوسرے مقام پر بالکل پہلے سے یکسر مختلف تھی - ان حالات کے درمیان میں پاپ میوزک ان چیلنجز سے نبٹنے میں بہترین آؤٹ لیٹ ثابت ہوا I thought the siege between us a barrier Distance is tough, but waiting is grittier Living in a horror film, in an abattoir You say I’m nasty except corpses are nastier (loose translation of an excerpt from Poem 15 – the besieged Yarmouk camp( شامی نوجوان کے پاس سوائے اس کی آواز کے کچھ نہیں بچا تھا - نہ خوراک ، نہ پانی ، نہ سونا ، نہ بجلی ۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی تو نہیں تھا اس کے پاس - اس کے پاس بس اپنی آواز ہی تھی جسے وہ اپنے دکھ اور تکلیف کے اظہار کے لیے موسیقی میں بدل سکتا تھا ، اور یہ وہ سب کچھ تھا جو اس جیسے کسی نوجوان کو یرموک کے محاصرے میں گھر جانے کے دنوں کے دوران سہنا پڑا تھا اور اس نے اس سب کو اپنے گیتوں میں ڈھال دیا تھا
ان تمام چیزوں کو کھونے سے پہلے ریڈ گوہنیم یا گل گامش جس نام سے وہ اب جانا جاتا ہے کو میمزک سے پیار تھا جوکہ عربی ریپ میوزک کے ساتھ 2008ء میں شروع ہوا تھا - اور پھر یہ اس کا ساری عمر کا شوق بنکر رہ گیا وہ کہتا ہے کہ میں اپنے میوزک کو فلسطینی مہاجروں اور کیمپوں میں رہنے والے نوجوانوں کی مشکلات کی عکاسی کرنے کے لیے استعمال کرتا تھا - میری کوشش بہت سادہ اور معمولی تھیں - پھر جنگ ان کیمپوں کو آئی اور موت ہمارے ہاں معمول ہوگئی - گل گامش نے سوائے اپنے موسیقی سے عشق کے سب کچھ کھودیا موسیقی سے اس کا عشق ایسا نہیں تھا کہ جسے ترک کردیا جاتا - جنگ جو اس کے کیمپ تک بھی آگئی تھی ، اس نے ہر ایک خیز کو تباہ کردیا - اور اس جنگ نے اسے ہر اس مادی شئے سے محروم کردیا تھا جو موسیقی بنانے میں مددگار ثابت ہوسکتی تھی - جیسے سٹوڈیو ، ریکارڈنگ انسٹرومنٹ ، ، کی بورڑ وغیرہ وغیرہ ، وہ اپنے درد کو موسیقی میں بدلنا چاہتا تھا لیکن ایسا نہیں ہورہا تھا تو اس نے اس نے کسی بیٹ کے بغیر اس کو لفظوں میں ڈھال کر گیتوں میں بدل دیا ، اس نے اپنے موبائل فون کو ریکارڈ میں بدل ڈالا اور میوزک کو یو ٹیوب پر اپ لوڈ کردیا گل گامش نے یہ سب محاصرے کے دنوں میں کیا - وہ اپنے گنگنانے کے مںظر کو اپنے موبائل میں فلمبند کرتا اور اس وقت کوئی میوزک انسٹرومنٹ اس کے پاس نہ ہوتا اور اس فلم کو وہ یو ٹیوب پر پوسٹ کردیتا تھا - وہ ایک جگہ لکھتا ہے کہ جب آپ محاصرے میں گھرے ہوتے ہیں ، آپ کی مصیبتیں دن بدن بڑھ رہی ہوتی ہیں تو آپ کی ترجیح لکھنا بن جاتا ہے اور آپ اپنے درد کو دنیا تک پہنچانا چاہتے ہو ، ان کو آگاہ کرنا چاہتے ہو اس بھوک سے جس کا آپ کو سامنا ہوتا ہے کیمپ چھوڑنے سے پہلے گل گامش نے ایک میوزک فلم بنائی جس کا ثائٹل " نظم 15 " تھا Your face is sweeter without the shelling The shelling that’s become a living thing Taking to human flesh a liking And like you, water is missing My throat is dry, so I’m wishing Water would come, even if it’s dripping Six months of starvation, the truce comes for the dying While the graveyard is growing, and growing (loose translation of an excerpt from Poem 15). گل گامش نے " نظم 15 " لکھی اور یرموک سے چلا گیا - اس نے لبنان میں پناہ لی اور اپنے آپ سے سوال کیا کہ اب اسے کیا کرنا چاہئیے تو وہ بیروت میں بہت سے ریپرز سے ملا جن میں سے کچھ کے ساتھ اس کے پہلے سے روابط تھے جب وہ کیمپ میں تھا اور اس کا میموزک سے عشق بھی جوان تھا تو اس نے ان ریپرز سے ملکر ایک گروپ بنایا اور پناہ گزینوں کی کہانی بیان کرنے کا سوچا جوکہ دوسرے ملکوں اور علاقوں میں کسمپرسی کی زندگی کزار رہے تھے اور اس نے اس کہانی کو بیان کرنے کی کوشش کی جب غیر قانونی طور پر سمگل ہونے کے دوران ان مہاجرین کی کشتیاں ڈوب جاتی ہیں اور ان میں سے کوئی خوش نصیب ہوتا ہوگا جو ڈوبنے سے اور سمندری مخلوق کی خوراک بننے سے بچ جاتا ہوگا ایک اور شامی موسیقار ہے جو کہ واٹر کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور وہ دمشق کے ضلع سروجہ سے ہے اور آج کل بیروت میں ہے -وہ سروجہ میں گشت کرتی موت سے جان بچا کر فرار ہوا اور بیروت آگیا ، موت سوجہ میں کسی کو نہیں بخش رہی تھی ، اس کے سب دوستوں کو بھی نگل گئی ، یہ وہ تھا جو موت کے شکنجے میں آنے سے بچ گيا اور واٹر کا اصلی نام خیری عبش ہے وہ ایک مہاجر ہوجانے سے پہلے شام میں ایک بینڈ کے ساتھ منسلک تھا اور کئی ماہ تک وہ برستے بموں اور چلتی گولیوں کے درمیان پھنسا ہوا تھا ، موت جہاں کھانے ، پینے کی طرح معمول ہوگئی تھی ، یہ سارا عرصہ اس نے ایک سٹوڈیو میں گزارا اور اس زمانے میں اس کی موسیقی کے لیے انسپائریشن ، اس کے گیتوں کے لیے مہیج کا کام شیلنگ اور وہ بے عزتی بن گئی تھی جس کا سامنا اسے چیک پوسٹوں پر کرنا پڑتا تھا - انقلاب اور روزمرہ زندگی کے دوران جو تجربات اس نے کئے ، وہ بھی اس کے گیتوں کے لیے اکسیر ثابت ہوئے I lay on the ground wondering, Has anyone seen my Adam’s apple? On the side of the road lies half of my intestines outside my stomach, and beside me writes a banner, “beware, martyr.” I lay on the ground wondering, The black car thrown behind me, I remember it was blue, Is there a microwave big enough to fit it? (excerpt from the song Boom Boom Bam( وہ اب بیروت میں ہے اور اپنے درد دل کو رقم کرتا ہے اور بہت سے ایشوز پر لکھتا ہے - اس کے خیال میں ہر چیز بدل چکی ہے ، سماجی ہو کہ سیاسی فضا یا کام ہو کہ موسیقی - بہت سے در ہیں جو اس کے بقول اس پر وا ہوچکے اور بیروت میں ایک وسیع موسیقی کی ثقافت موجود ہے اور یہ ڈرامائی موسیقی کے لیے بہت موزوں جگہ ہے جس کی کوئی بھی مماثلت شام کے تھیٹر کے ساتھ نہیں ہے شامی موسیقاروں کے لیے تصویر ابھی تک خاصی دھندلی ہے ، ماحول بدل چکا ہے جو ان کے خیالات کی صورت گری میں بہت اہم کردار ادا کررہا ہے ، ان کی موسیقی کو نئی شکل دے رہا ہے ، ان کے گيتوں کی ترکیب کو بدل رہا ہے اور ان کی فطرت بھی بدل سی رہی ہے تو ان کی قبولیت میں بھی فرق پڑ رہا ہے بیروت کی فضاؤں میں بھی خیری عبش کو ایک نامعلوم قسم کے حبس اور گھٹن کی فضاء محسوس ہوتی ہے ، اسے لگتا ہے کہ یہاں بھی وہ سب کچھ کہنے ، لکھنے اور بیان کرنے میں مکمل آزاد نہیں ہے اور شاید اس کے لیے اسے ابھی اور وقت کا انتظار کرنا پڑے گا ، جب وہہ روکاوٹیں ہٹ جائیں گی جو سب کچھ کہنے میں مانع ہے I stand on my feet feeling lightness, I see my remains in front me and as it turns out I left my body, and here is my neighbor thrown in the middle, every piece of him is thrown over the hallowed street My wife lays next to him, she did not follow me yet, she is struggling, I sat and waited till the remaining of this street’s occupants followed me. (Excerpt from the song Boom Boom Bam( خیری عبش نے بیروت کو اپنی نظر سے دیکھا ہے اور وہ کہتا ہے کہ بیروت کے پاس ہر ایک کو سکھانے کے لیے کچھ ہے - اس کے مطابق بیروت کے اپنے راستے ہیڑ اور ابھی تک اسے جو نظر آیا وہ یہ ہے کہ بیروت کے دو چہرے ہیں ، ایک وہ جو آپ کو یہ بتاتا ہے کہ آپ دوسروں سے بہت حد تک بہتر ہیں اور دوسرا چہرہ آپ کو یہ بتاتا ہے کہ ابھی تو آپ کو اور بہتر ہونا پڑے گا وہ ایک جگہ لکھتا ہے موسیقی کے میدان میں بیروت میں میرا تجربہ مختلف قومیتیوں کے لوگوں کے ساتھ اختلاط سے نمو پایا ہے اور یہ بہت قابل قدر تجربہ ہے جو مجھے شام میں نہیں ہوسکتا تھا اور مجھے یہاں مصر ، اردن ، بیروت اور عراقی موسیقاروں کے ساتھ کام کرنے اور ان کی فطرت سے آشنا ہونے کا موقعہ ملا ہے وہ کہتا ہے کہ بیروت اور شام میں فرق یہ ہے کہ وہاں حبس تھا ، گھٹن تھی ، کچھ کہنا مشکل ہوگیا تھا اور ہر طرف برستی گولیا ں تھیں ، پھٹتے بم تھے ، شعلوں میں گھری عمارتیں اور کئی عمارتوں کے کھنڈرات کی راکھ سے اٹھتا دھواں تھا ، گلیوں میں پڑی لاشیں ، کئی ایک کے کٹے پھٹے پیٹوں سے باہر آتی آنتیں تھیں ، کلچر ، مقدس اور قدیمی عمارتوں کے مٹتے آثار تھے اور ان سب پر بولنے کی آزادی مفقود اور ہر سمت پھرتے داعش ، نصرہ کے وہ خون آشام جہادی تھے جو بہت دور سے اپنے تئیں شام کو آزاد کرانے آئے تھے اور شام کو شامیوں سے پاک کرنے کا کام بخوبی سرانجام دے رہے تھے - اور ستم یہ تھا کہ ان سب چیزوں کو بیان کرنے کی وہاں اجازت نہیں تھی اور آزادی دینے والوں کو موسیقی ، ثقافت ، تاریخ ، آرٹ ، کتابوں سے نفرت تھی اور ان کو جو موسیقار مل جاتا وہ اسے فوری طور پر ماردیتے تھے تاکہ شام آزاد ہوسکے اور یہ بیروت ہے جہاں کم ازکم میں جو کہنا چاہتا ہوں کہہ سکتا ہوں ، جس خیال کو گیت بنانا چاہوں بنا سکتا ہوں ، کسی بھی طرح کی طربیہ و المیہ موسیقی ترتیب دے سکتا ہوں

Tuesday 23 September 2014

نائجیریا - تعلیمی اداروں میں پولیٹکل وہابی اسلام اور طالبات


عورتیں کہیں بھی ہوں مرد بالادستی اور مرد شاؤنزم کا ان کو سامنا کرنا پڑتا ہے اور الجزائر کا سماج بھی اس سے مستثنی نہیں ہے ، مذھبی تعبیرات کی کوئی بھی شکل ہو اس میں پدر سری خیالات کے زیر اثر عورتوں کے سماجی مقام و مرتبے کو مردوں کے برابر لیجانے کی خواہش گستاخانہ اور سماجی نظم و ضبط کو تباہ کرنے والی خیال کی جاتی ہے اگرچہ عورتوں کی جانب سے فیمنسٹ مذھبی تعبیروں کو لانے کی کوشش بھی جاری ہے لیکن اس کی کامیابی کے امکانات صفر نظر آتے ہیں مگر دیکھا یہ جارہا ہے کہ یہ جو سیاسی اسلام کا ماڈل وہابی (پاکستان میں وہابی و دیوبندی ) حلقوں سے نکل کر سامنے آرہا ہے یہ عورتوں کو زیادہ مارجنلائز کرتا ہے، افریقہ کا ملک الجزائر جس نے فرانسیسی نوآبادیاتی آقاؤں سے آزادی قومی ترقی پسندی آزادی کی تحریک کے جھنڈے تلے حاصل کی تھی آج سیاسی وہابیت کے جبر تلے دبا ہوا ہے اور اس جبر کا سب سے بڑا نشانہ عورتیں ہیں جنوبی افریقہ کی یونیورسٹی آف کیپ ٹاؤن کے افریقن جینڈر انسٹی ٹیوٹ سے ایک تحقیقی جریدہ " فیمنسٹ افریقہ " کے نام سے شایع ہوتا ہے جس کی مدیر آمنہ مائما ہیں ، اس جریدے نے نائجئرین یونیورسٹیوں میں سیاسی وہابی اسلام کے ابھار سے وہاں کی کیمپس لائف میں خواتین اسٹوڈنٹس کے نفسیاتی و معاشرتی رجحانات اور ان کے حالات کار پر ایک تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے میں انھوں نے الجزائر کی سب سے معروف یونیورسٹی "یونورسٹی آف ابدان " کا انتخاب کیا اور یہ تحقیق " فیمنسٹ افریقہ " میں شایع ہوئی اور وہیں سے اسے الجزائر میں سیاسی اسلام اور بنیاد پرستی کے خلاف اور سیکولر جمہوریت کے لیے کام کرنے والی تنظیم " اوپن ڈیموکریسی نے اپنی ویب سائٹ 50،50 ڈیموکریسی پر پوسٹ کی یہ تحقیقی رپورٹ صرف افریقی تناظر میں پولیٹکل وہابی اسلام کے ابھار سے نوجوان طالبات کے لیے پیدا ہونے والے خطرات کو واضح کرتی ہے بلکہ اس سے ہمیں پاکستان کے اندر وہابی خیالات کی مدد سے بتدریج نفوز کرنے والے سیاسی اسلام سے تعلیمی اداروں میں پھیلنے والی عورت مخالف سوچ اور نظریات کا ایک سرسری اندازہ لگانے میں مدد مل سکتی ہے پاکستان کے اندر جماعت اسلامی کا طلباء ونگ اسلامی جمعیت طلباء ، اہل سنت والجماعت کا طلباء ونگ سپاہ صحابہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ، جمعیت علمائے اسلام کا طلباء ونگ جمعیت طلبائے اسلام ، جماعت دعوہ کا محمدی اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ، تبلیغی جماعت کے دعوتی حلقے اور سوشل میڈیا پر ریڈیکل وہابی ، دیوبندی گروپوں کے بنائے ہوئے سوشل پیجز ، ویب سائٹس اور سائبر رابطہ گروپس سب کے سب عورت کی آزادی ، اس کے حقوق اور اس کے سماجی مقام و مرتبہ کی برابری کے خلاف سرگرداں ہیں ، جبکہ پاکستان کی جامعات ہوں کہ کالجز وہاں جو انتظامیہ ہے اس کی روش بھی عورت مخالف ہے یہ تحقیقی مضمون ہمیں یہ بتاتا ہے کہ نائیجریا کی یونورسٹی آف ابدان میں سیاسی اسلام اور سیاسی عیسائیت کے جھنڈے تلے بہت سی بنیاد پرست تنظیمیں سامنے آئیں جن میں ہم سیاسی اسلام پسند تنظیموں کو " اصلاح پسند اسلام " اور سیاسی عیسائیت پسند تنظیموں کو " پینٹو کوسٹل ازم " کے ناموں سے تعبیر کرسکتے ہیں اور یہ جو بنیاد پرستانہ ابھار ہے اس کا آغاز 1980ء کے عشرے سے شروع ہوا اور اس کو 1990ء میں پر لگ گئے نوٹ: یہ دو عشرے پاکستان کے تعلیمی اداروں کی سیاسی اور سماجی زندگی کے پولیٹکل وہابی - دیوبندی اسلام کے انتہائی زیر اثر آنے کے عشرے ہیں اور کیمپس لائف سے ترقی پسند سیاست کے غائب ہوجانے کے بھی ابدان یونیورسٹی میں کل طالب علمون میں سے ایک اندازے کے مطابق 7500 طالب علم مذھبی تنظیموں کے رکن ہیں جبکہ یہ کل طلباء کی تعداد کا 37 فیصد بنتے ہیں تحقیق کرنے والی ٹیم کا کہنا ہے کہ ابدان یونیورسٹی میں اتنی بڑی تعداد کی مذھبی تنظیموں سے وابستگی کا سبب ان تنظیموں کے مضبوط سماجی ، اکیڈمک سپورٹ نیٹ ورک اور ان تنظیموں کی جانب سے اپنے اراکین کو کیمپس میں ابھرنے والی وائلنس سے تحفظ دینے کا میکنزم ہیں ابدان یونیورسٹی کے 45 فیصد طلباء یونورسٹی کے اقامتی ہیں جن میں 30 فیصد مرد اور 15 فیصد عورتیں ہیں جبکہ 12 رہائشی ہالز ہیں جن میں سے آٹھ میں یا تو صرف مرد رہتے ہیں یا صرف عورتیں جبکہ چار میں مرد اور خواتین دونوں رہتے ہیں لیکن جہاں مرد اور عورتیں مل کر رہتی ہیں وہاں 80 فیصد سٹوڈنٹس خواتین ہیں لیکن اس کے باوجود ان ہالز کی ایک بھی چئیرمین ، ایگزیگٹو خاتون نہیں ہے یہ ریسرچ بتاتی ہے کہ ابدان یونیورسٹی میں مرد طلباء زیادہ مراعات یافتہ ہیں اور ان کو عورتوں کے مقابلے میں زیادہ قائدانہ صلاحیتوں کا مالک خیال کیا جاتا ہے ، زیادہ اہم پوزیشنز ان کو دی جاتی ہے اور بحرانی حالات میں بھی انھی کو حالات سنبھالنے کا منصب سونپا جاتا ہے ابدان یونورسٹی کے اندر کام کرنے والی مذھبی تنظیموں کی قیادت مردوں کے پاس ہے اگرچہ ان تنظیموں کے ویمن ونگز ہیں جن کی قیادت عورتوں کے پاس ہے اور دو تنظیمیں ایسی ہیں جنھوں نے اپنی مرکزی باڈی میں کچھ عہدے خواتین کو تقسیم کئے ہیں لیکن وہ بھی سب مرد قائدین کے ماتحت ہیں ابدان یونورسٹی میں مسلم سٹوڈنٹس سوسائٹی کی ویمن ونگ کی صدر عامرہ سے جب کہا گیا کہ آخر اس سوسائٹی کی وہ صدر کیوں نہیں ہوسکتی تو اس نے استغفراللہ کا ورد کرتے ہوئے کہا کہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا ہے کہ عورت کسی کمیونٹی کی سربراہ ہوسکے اس تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا کہ اسٹوڈنٹس پالیٹکس میں بھی عورتیں مختلف باڈیز کے الیکشنز میں بہت کم امیدوار بنتی ہیں اور سیاست میں کم حصّہ لیتی ہیں ایک مرد طالب علم جوکہ طلباء و طالبات کے مخلوط کیمپس میں رہتا ہے نے تحقیق کرنے والی ٹیم کو بتایا کہ کیمپس میں طلباء سیاست میں چند ایک عورتیں امیدوار بنتی ہیں جوکہ فیمنسٹ ہوتی ہیں اور مرد ایسی خواتین کو پسند نہیں کرتے کیونکہ ایسی عورتوں کے ساتھ نہ تو گھر بسایا جاسکتا ہے ، نہ ہی خاندان کی تشکیل ہوسکتی ہے ابدان یونیورسٹی میں خواتین طالبات کو کم ہمت ، کینہ پرور اور لیڈر شپ کی صلاحیتوں کے معاملے میں مرد طلباء سے کمتر سمجھا جاتا ہے اور ان کو احساس کمتری کا شکار بھی دکھایا جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس مرد حوصلہ مند، بولڈ ، جری ، قائدانہ صلاحیتوں کے مالک سمجھے جاتے ہیں خواتین جو کیمپس پالیٹکس میں آئیں بھی تو وہ بہت جلد مستعفی ہوگئیں اور اس کی ایک بڑی وجہ کیمپس میں عورتوں کو نفسیاتی اور جسمانی وائلنس کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور یہ جو نفسیاتی و جسمانی اذیت دینے اور تشدد کا کلجر بہت بڑی روکاوٹ کے عورتوں کے کیمپس لائف میں پوری طرح سے فعال ہونے میں عورتوں کے کمپس لائف میں کم سماجی مقام و مرتبے اور ان کی آزادی کو کنٹرول کرنے میں الجزائری معاشرے کی اور مذھبی قدامت پرست روائت کا بہت بڑا ہاتھ ہے جسے وہابی پولیٹکل اسلام نے اور زیادہ تیز کرڈالا ہے کیمپس لائف میں عورتوں کو اخلاقیات ، ڈریس کوڈ اور گھومنے پھرنے کے حوالے سے زیادہ وعظ و نصائح سننے پڑتے ہیں بنسبت مرد طالب علموں کے جبکہ تعلیمی نصاب ، میڈیا پر غالب نظر آنے والی پولیٹکل اسلام کی عورت مخالف ڈاکٹرائن کی وجہ سے مرد تو مرد عورتوں کی بڑی تعداد بھی اپنے کم سماجی مقام و مرتبے اور اپنے آپ کو مارجنلائزڈ کرنے والے ضابطوں کو عین درست خیال کرتی ہے عورتوں سیکس چوئلٹی کو سماجی نظم و ضبط کے خطرناک اور اسے ڈسٹرب سمجھے جانے کا رویہ الجزائر میں عام ہے اور اسی طرح سے یہ نظریہ کیمپس میں بھی بہت غالب ہے اور یہاں تک سمجھا جاتا ہے کہ نوجوان عورتوں کے لیے خود بھی اسے کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہے اور اسی کو لیکر کیمپس میں بھی عورتوں کی نقل و حمل اور آزادی کو محدود کرنے ، کو ایجوکشن کی مخالفت کی جاتی ہے پولیٹکل وہابی اسلام کیمپسز میں عورت مخالف خیالات کے ترقی کرنے سے ہی الجزائر میں عورت مخالف نظریات رکھنے والی زیادہ متشدد ، دھشت گردانہ اور فرقہ پرستانہ تنظیموں کا ظہور ہوا ہے جن میں باکو حرام (انگریزی تعلیم حرام ) سب سے زیادہ متشدد ہے https://www.opendemocracy.net/5050/abiola-odejide/%E2%80%9Cwhat-can-woman-do%E2%80%9D-gender-norms-in-nigerian-university http://www.feministafrica.org/

Sunday 21 September 2014

قیدی


نوٹ : قیدی ہندوستان کی ریاست مغربی بنگال کی ایک ایسی ہندؤ خاتون ادیب کی کہانی ہے جس نے ہندؤ مذھب میں عورتوں کو مجبور و مقہور رکھنے کا پردہ چاک کیا اور اس حوالے سے کئی ایک ناول لکھے تو ہندؤ سماج نے اس کا ناطقہ بند کردیا -
اکثر میرے دوست مسکراتے ، خوش ، حوش آتے ہیں اور مجھے بتلاتے ہیں "ہم روانہ ہورہے ہیں" "کہاں ؟" میں ان سے پوچھتی ہوں " کہاں جارہے ہو تم ؟ کہاں دوبارہ ؟" کچھ کہتے ہیں " ڈھاکہ " بعض کہتے ہیں "لندن " اور کچھ کا جواب ہوتا ہے " امریکہ " وہ اپنا پاسپورٹ نکالتے ہیں اور ويزا آفس کی طرف دوڑ لگاتے ہیں ، ڈالر خریدتے ہیں اور اپنے سوٹ کیس پیک کرلیتے ہیں اس سے مجھے وہ دن یاد آتا ہے جب میں نے اپنا سوٹ کیس پیک کیا تھا اور یہاں تک کہ یہ طیارے میں لوڈ بھی کردیا گیا تھا - وہ 23 جنوری کا دن تھا میرے ساتھ شمس الرحمان ، بلال چودھری اور ربیع الحسین تھے -ہمیں ابری تلوک ( پوئٹری ریڈنگ سوسائٹی ) کی جانب سے دعوت ملی تھی اور خود سمیتا مترا کولکتہ یہ دعوت نامہ دینے ہمیں آئے تھے -اصل میں یہ میرا گھر تھا جہاں یہ میٹنگ ہوئی اور ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ اس وفد میں کسے شامل ہونا ہے میں بہت پرجوش تھی اور ڈھاکہ جانے کے لیے میں نے ایک ہفتہ بیلے سٹریٹ میں ڈھاکہ میں اپنے دوستوں کو تحفے دینے کے شاپنگ کرتے گزارا تھا میں نے کلکتہ سے مشہور جمدانی ساڑھی اور کرتے ، کچھ کتابیں ، شانتی نگر منڈی کی معروف خشک مچھلی ،مکتا گاچا کے پیڑے ، کڑھی ہوئی رضائیاں اور بہت ہی خوبصورت آم کے اچار کے جار خرید کئے تھے -کلکتہ تو خود پیار کے بوجھ سے ہلکان تھا جو کسی سوٹ کیس میں سما نہیں سکتا تھا بلاشبہ میں بہت خوش تھی ، میں شمس الرحمان کو لینے ان کے گھر گئی ، ان کا ٹکٹ لیا اور ان کے پاسپورٹ پر ویزہ لگ چکا تھا اور ان کو لیکر ائر پورٹ روانہ ہوگئی ڈھاکہ تو میرا اپنا شہر ہے ، تمام شاعروں کو میں خود یہاں لاسکتی تھی ، ایک ہاتھ میں ہمارے بوڑنگ کارڑ تھے اور دوسرے ہاتھ سے میں اپنے سوٹ کیس کی پٹی کو تھامے ہوئے تھی جبکہ اس کی دوسری پٹی شمس الرحمان کے ہاتھ میں تھی اور ہم سب امیگریشن بورڑ کی طرف بڑھ گئے ، میں نے خوشی سے اپنے جھولتے بیگ کی جانب خوشی سے دیکھا اور پاسپورٹ امیگریشن کاؤنٹر پر کھڑے اہلکار کی طرف بڑھا دیا میری دلچسپی یہ تھی کہ کسی بھی طرح سے میں ڈھاکہ ڈم ڈم ائرپورٹ پر اتروں اور وہاں سے شہید مینار چاؤں ، پارک سٹریٹ میں آوارہ گردی کروں اور کالج سٹریٹ ، گاڑی ہاتھ اور دیناج گھوموں اس دوران اہلکار نے میرا نام پاسپورٹ پر دیکھا اور پینٹ کی جیب سے ایک سلپ نکالی اور پھر اپنے افسر کی جانب دوڑ گیا اور وہ دونوں گیٹ کے قریب ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرتے رہے اور پھر امیگریشن افسر آگے بڑھا اور میرے سامنے آگیا اس نے پوچھا کہ کیا آپ یہیں کام کرتی ہیں " ہاں " میں نے جواب دیا " کہاں " " ڈھاکہ میڈیکل کالج " " کیا آپ کے پاس نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ ہے ؟ " "نہیں ، میرے پاس نہیں ہے" میں نے مختصر جواب دیا " اس صورت میں آپ تو نہیں جاسکتیں ، اس نے تیزی سے جواب دیا " تو ، ہم سب اس کے کمرے تک آئے - ہوسکتا ہے کہ وہ ایسے فرد کو روکنے پر افسردہ ہو جو کہ وفد کی قیادت کررہا تھا جو کہ شاعروں کی کانفرنس میں شرکت کرنے کلکتہ جارہا تھا جبکہ وہ بہت سے چوروں اور نوسربازوں کو جانے کی اجازت دیتا تھا اس نے کہا " میں آپ لوگوں کو جانے کی اجازت دے سکتا ہوں اگر کوئی میرا اوپر والا افسر مجھے ایسا کرنے کو کہے " اس نے مجھے فون دیا - اس کو بہت تیزی سے کالیں آرہی تھی اور وہ جواب دے رہا تھا " جی سر ، ہم نے انھیں روک دیا ہے -" " وہ اب میرے بالکل سامنے بیٹھیں ہیں " وہ اسی طرح سے جی سر ، جی سر کی گردان کررہا تھا - اسی دوران اس نے ٹیلی فون میری جانب بڑھایا شمس الرحمان اور بلال چودھری کسی ٹاپ کے افسر کو تلاش کررہے تھے باری، باری ۔۔۔۔۔۔۔۔ دم سادھے اور وہ ان کے درمیان بول رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیلتھ سیکرٹری ہمارا دوست ہے وہ بھی لکھاری ہے ، اکر وہ مل جائے تو پھر کوئی پرابلم نہیں ہوگا " آئی جی پولیس سے رابطے کی کوشش بھی کی گئی لیکن وہ بھی موجود نہ تھا - پھر منسٹر ، وہ کلکتہ سے باہر گیا ہوا تھا - وقت تیزی سے گزر رہا تھا اور میں نے اپنے آپ سے کہا " شانت رہو " یہ بھی گزر جائے گا " آخر کار سیکرٹری سے رابطہ ہوگیا - شمس الرحمان کہہ رہا تھا " ہم ڈھاکہ جارہے ہیں ، مگر وہ ت کو جاننے نہیں دے رہے " دوسری طرف سے جواب آیا " ت نہیں جاسکتی " اس نے مزید کہا کہ وہ سروس سے جلد ہی ریٹائر ہونے والا ہے اور اس سے پوچھا جاسکتا ہے کہ اس نے اسے جانے کیوں دیا جب کہ اس کی کتابوں کو ضبط کرنے کا پروسس جاری تھا ؟ افسر کو کہا گيا کہ مجھے نہ جانے دیا جائے -میرے گرد ہر ایک شئے گھوم رہی تھی اور میرے سامنے سب منظر تھے ---------امیگریشن کا کمرہ ، اس کی دیواریں ، امیگریشن سے پاس ہوتے ہوئے خوشی سے قدم اٹھاتے ہوئے لوگ ، میرے گرد جمع شاعر ، بعض خوش اور بعض اداس ، میرا خوش کن خواب مکمل طور پر بکھر چکا تھا - اميگریشن نے مجھے ایک قدم بھی آگے بڑھانے نہ دیا -جہاز کی روانگی کا اعلان ہوا -تب بلال چودھری نے کہا "وہ بھی نہین جارہا ہے " شمس الرحمان نے کہا " وہ بھی واپس جائے گا " - " ہم یہ معاملہ حل کریں گے اور تب دوپہر کی فلائٹ سے جائیں گے یا کل کی فلائٹ پکڑیں گے -" ان کے ان جملوں کو سنکر میری آنکھوں کے گوشے بھیگ گئے اور میں نے روہانسی ہوکر ان سے درخواست کی " وہ میری وجہ سے کیوں لیٹ ہوں ؟ آپ جاؤ ، میں بعد میں آپ کے پیچھے آجاؤں گی " ہمارے وفد میں سے ایک نے ان کا ہاتھ تھاما اور ان کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا " آؤ نا - جہاز بس اڑنے کو ہے " وہ سب چلے گئے اور پیچھے مجھے تنہا چھوڑ گئے -میں بالکل تنہا تی ، بہت تنہا ، میں اس قدر دل برداشتہ تھی کہ پوٹ پھوٹ کر رونے کے قریب تھی ، میرے سامنے ائر پورٹ کا سارا ہجوم تھا -اور تھوڑی دیر بعد مجھے لگا کہ اگر میں یونہی اس ہجوم کو جاتے دیکھتی رہی تو میرے اندر سے دکھ کا طوفان پھوٹ پڑے گا اور میرے غم کا سیلاب بہہ کر سب کے سامنے آجائے گا ۔۔۔۔۔میرے خوابوں کا محل میرے گرد ایسے بکھرا پڑا تھا جیسے شیشے کا کوئی گھر کرچی کرچی ہوگیا ہو اور سارے ائرپورٹ نے اس شیشے کے کرچی کرچی ہونے کی چیخ نما آواز سنی ہو انھوں نے میرا پاسپورٹ واپس نہ کیا - افسر نے ایک سلپ میری طرف بڑھائی اور کہا " کل سپیشل برانچ کے دفتر چلی جانا اور پاسپورٹ لے لینا " اس وقت مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ میرا اصلی پاسپورٹ بھی واپس نہیں کریں گے -اگلی صبح میں سپیشل برانچ کے دفتر گئی اور ان سے اپنا پاسپورٹ مانگا - وہ مسکرائے اور کہنے لگے " ابھی انکوائری چل رہی ہے " " انکوائری ! کس چیز کی ؟ " میں پزل ہوگئی تھی - " وہ آپ کی کتابیں پڑھ رہے ہیں " سپیشل برانچ کے افسر نے جواب دیا میں نے انکوائڑی افسر کے ڈیسک پر اپنی کتابوں کو رکھا ہوا دیکھا - وہ میری کتابوں کو پڑھ رہا تھا اور کچھ عبارتوں کو سرخ پنسل سے نشان بھی لگارہا تھا -مجھے اپنی کتابوں کی اس انکوائری کی سمجھ نہ آسکی تھی انھوں نے وضاحت کی " ہمیں ان باتوں کو نشان زد کرنے کو کہا گیا ہے جو تم نے مذھب کے بارے میں کہی ہیں " ، میں نے اپنی طرف سے بنگال کی ہیلتھ منسٹری کو چھٹیوں کی درخواست دی تھی ، لیکن چیف سیکرٹری نے مجھے چھٹی نہیں دی اور یہی جواب دیا تھا " میں اس پر دستخط اسی وقت کرسکتا ہوں جب حکام بالا مجھے ایسا کرنے کو کہیں گے " اور وہ منظوری کبھی نہیں ملی -وجہ ایک مرتبہ پھر وہی تھی کہ میں نے مذھب کے بارے میں کوئی خوفناک چیز لکھ دی تھی احتجاجا میں نے حکومتی نوکری سے استعفی دے ڈالا اور تب مجھے پتہ چلا کہ ، میرے مستعفی ہونے کے اعلان والے خط کی بنیاد پر وہ پوسٹ کسی اور ڈاکٹر کو دی جاچکی تھی ، اگرچہ میرا استعفی منظور کرنے کا اعلان کبھی کیا ہی نہیں گیا تھا ، کیونکہ اگر میرے مستعفی ہونے کا باقاعدہ نوٹیفیکشن جاری کیا جاتا تو مجھے پاسپورٹ واپس کرنا پڑتا اور اسی لیے وزرات صحت کے سیکرٹری نے ایسا کوئی بھی لیٹر شایع ہی نہیں کیا ،پچھلے سات ماہ سے میں اپنے پاسپورٹ کی واپسی کی درخواست کررہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن ابھی تک تو میرے استعفی کا خط موصول ہونے کا اعلان بھی نہیں کیا گیا تھا - اس وقت میں نہیں جانتی تھی ، لیکن اب میں سمجھ گئی ہوں ، حکام بالا کو سب علم تھا اور کوئی تھا جو ان پر اثر انداز ہورہا تھا -تو میں اپنا پاسپورٹ حاصل نہ کرسکی ، اور اب تک میں اس کے بغیر ہوں ! ایک ماہ سے میں نے اپنا اٹیچی کیس نہيں کھولے تھے -ان پر ائر لائن کے لگے سٹیکر رات دن میری نظروں کے سامنے گھومتے رہتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ان کو چھوتی تو میرا پرانا درد لوٹ آتا اور وہ خواب جو بکھر گیا اس کی کرچیوں سے میرے دل میں ٹیسیں اٹھتی تھیں ، میں جو صبح آٹھ بجے روز ہسپتال جایا کرتی تھی ، صبح سویرے اٹھ جاتی ، اپنے اپرین اور سٹتھو سکوپ کی ضرورت محسوس کرتی - پرانی عادات مشکل سے ہی پیچھا چھوڑتی ہیں ، ایک آدمی گھر بالکل ہی فارغ بیٹھا رہے تو اسے بہت بوریت ہوتی ہے ، میرے ہاتھ کسی مریض کی نس میں تھائی پونٹل ، سپ ہیش میتھونیم کے ساتھ ملاکر انجیکٹ کرنے کو بے چين ہوتے اور اس کو نائٹرس آکسائیڈ کی ایک حواب آور ڈوز دینے پر اکساتی رہتیں ، یہ ایسے نہیں تھا جیسے کہ ایک آدمی کو مجبوری میں حکومتی ہسپتال میں ڈیوٹی دینے جانا پڑتا ہو تاکہ بے مار کا علاج کیا جائے ، میں خود واقعی کسی کلینک میں بیٹھنا چاہتی تھی اور غریبوں کا مفت علاج کرنا چاہتی تھی - لیکن کیا یہ ان حالات میں ممکن تھا ؟ کیا مجھے وہاں پریکٹس کرنے کی جگہ ملے گي جہاں میں نے اپنی تربیت کے دن کزارے تھے ؟ کیا بیماروں کا علاج کرنے دیا جائے گا ؟ ان کا علاج جو تشنج کا شکار ہیں ،ری ٹینڈ آنول کی بیماری کا شکار ہوں ، پرولیپس یوٹیرس یا زچگی کے دوران کسی پیچیدگی کا شکار ہوں کا علاج کرنے دیا جائے گا ؟ تو کیا مجھے واپس اسی جاب پر آنے دیا جائے گا کہ نہیں یا مجھے کسی بھی جاکر سیٹل ہونے کی اجازت ملے گی کہ نہیں ؟ لیکن میرے ساتھ تو اچھوتوں جیسا سلوک روا رکھا جارہا تھا -اگر کسی کے ساتھ محبت اور ہمدردی کے باعث میں اپنا ہاتھ کسی دوسرے انسان کے سر پر رکھ دوں ، دل پر رکھوں یا اس کی کمر پر تو وہ میرا سر ادھیڑ ڈالیں گے اور اور شہر کے کسی چوراہے میں میرے لہو ، لہو سر کے گرد خوشی سے بھنگڑا ڈالیں گے -جس طرح میں جیناچاہتی ہوں وہ مجھے ایسے جیتا دیکھنا نہیں ، وہ اپنی منشاء کے خلاف مجھے دائیں یا بائیں ہوتا دیکھنا نہیں چاہتے ، میرا راستہ ہر طرف سے بند کریں گے تاکہ میں سیدھی منہ کے بل گروں ، مجھے گڑ گڑا کر معافی مانگتے دیکھ کر خوش ہوں گے ایسے گڑگڑاؤں کہ میں گھٹنوں کے بل جھک جاؤں - اس منظر سے ان کی آنکھیں چمک جائیں گی اور کلیجے میں ٹھنڈ پڑ جائے گی -لیکن میرا کیا ہوگا ؟ وہ شخص جو آزادی کو جسم و روح کے ساتھ چاہتا ہو اور اس سے خوش ہوتا ہو اس شحض کے ساتھ کیا ہوتا ہے ؟ میں عورت کو آزادی سے باہر آتے دیکھنا چاہتی ہوں ؛ میری خواہش ہے کہ کمزور اور مجبور خود کو بااختیار کریں - تو کیا یہ میرا جرم ہے ۔۔۔۔۔۔۔ کہ میں دوسروں کو زنجیریں توڑ ڈالنے کو کہتی ہوں ؟ اور اب کیا مجھے پھر سے اپنے وجود کو ایک نہایت حقیر زرے میں بدلنا ہوگا ؟ کیا میرا یہ حق نہیں ہے کہ میں خوش رہوں ، اپنی پسند کے دریا کے کنارے بیٹھوں اور اداسی سے ماضی کی یادوں کو دوہراؤں ؟ اور یونہی چلتے پھرتے لوگوں کو دیکھوں ؟ اگر میں لوگوں کو دیکھ نہ پاؤں جیسے کہ میں انھیں دیکھتی تھی تو میں لکھ کیسے سکتی ہوں اور اپنے اردگرد کی دنیا کو اکر کھوم پھر کر نہ دیکھ سکوں تو مجھے زندگی کا تجربہ کیسے حاصل ہوگا ؟ یہ ایک اور طریقہ ہے میرے قلم کو ناکارہ بنانے کا مجھ سے اپنے ہی ملک کی زمین پر اپنی مرضی سے چلنے کے حق سے محروم کردیا گیا ہے -مجھے اپنی میڈیکل پریکٹس کرنے کا حق کیوں نہیں ہے ، کیوں مجھے نقل و حرکت کی آزادی نہیں ہے اور مجھے زندگی کے حقیقی تجربے سے روشناس ہونے کا حق کیوں نہیں ہے -مجھے اپنے کیس کی فائل کی حکام بالا تک جانے کی خبریں ملتی ہیں اور وہ کوئی لوپ ہول تلاش کررہے ہیں -ٹاپ باسز مجھے سخت سزا دینے کے راستے تلاش کررہے ہیں اور ان میں کوئی بھی میری شہریت پر مبنی حقوق مجھے لٹانے پر تیار نیں ہے میں جو بھی قدم اٹھاتی ہوں وہ کانٹوں سے بھرا ہے ,مجھے لگتا ہے کہ میں جو قدم اٹھاتی ہوں وہ کھائی کی سمت جاتا ہے ، ہر قدم پر موت میری جانب جھپٹتی ہے بنگلہ بک فئیر میں پل پڑنے والا ہجوم ہے اور اسی دوران کوئی آگے آتا ہے اور غیظ میں بھری سرخ آنکھیں مجھے دکھاتا ہے - میں دیکھ سکتی ہوں کہ وہ مجھے کیا بتانا چاہتے ہیں -یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے " ت پر جبر کرو کمیٹی " بنائی ، کتاب میلے میں میری کتابوں کو سرعام جلایا اور ہر ایک سٹال پر گئے اور ان کو کہا کہ اگر انھوں نے میری کسی کتاب کو وہاں رکھا تو وہ سٹال جلادیں گے جب 21 فروری کی رات کو ہمارا گروپ بنگالی شہیدوں کی یادگار پر آگ جلاتا تھا تو سینکڑوں لوگ مجھ پر حملہ آور ہوگئے اور میں درختوں کے نیچے کھڑے چند نامور ادیبوں کو اس صورت حال سے لطف اٹھاتے دیکھ سکتی تھی اور وہ ادھ کھلی آنکھوں کے ساتھ شانت کھڑے تھے اور مٹی کے پیالوں سے چائے کے گھونٹ بھر رہے تھے ، وہ لوگ جو میرے تعاقب میں تھے انھوں نے پتھراؤ شروع کردیا ۔ بلب ٹوٹ گیا اور ہم سب اندھیرے میں ڈوب گئے ، اندھیرے میں ان کی خوفناک آنکھیں ، تیز کچکچاتے دانت اور پنجے مجھے نظر آرہے تھے اور اس رات انھوں نے اپنی طرف سے مجھے چیڑ پھاڑ ڈالتے اگر پولیس مجھے آکر نہ بچاتی ، بعد میں پولیس نے بھی آنکھیں دکھائیں اور مجھے بتایا ' اس قسم کے حادثے تمہیں پیش آتے رہیں گے اگر تم مذھب کے بارے میں لکھتی رہوگی اور یہ سب ٹھیک نہیں ہے - اگر تم وہ ست تلف کرڈالو تو تمہارا پاسپورٹ تمہیں واپس مل جائے گا، تمہاری کتابیں ضبط نہیں ہوں گی اور کوئی تم پر پتھر نہیں مارے گا اور تم آزادی سے گھوم پھر سکو گی " لیکن اگر میں اپنی مرضی سے لکھ نہ سکوں ، تو کیا مجھے لکھنا ضروری ہے؟ کیا مجھے ایک لکھاری کہلانے کا خبط ہے ؟ ایسا لکھاری جیسے وہ اس دن درخت کے نزدیک سکڑ کر کھڑے ہونے والے تھے؟ نہیں ، ایسا لکھنا جو مجھے مسرت دیتا ہو اور وہ میرے لیے موت لے آئے تو میں مرجانا پسند کروں گی -آخر کسی دن تو مجھے مرنا ہی ہے لیکن کیا مجھے خوف کے باعث خود کو سکیڑ لینا چاہئيے ؟ یہ میرے لیے بہت ہی شرم کا مقام ہوگا میری کتاب "لجا " پر پابندی لگادی گئی اور سہلٹ میں کچھ لوگوں نے مجھے گرفتار کرکے پھانسی پر چڑھانے کا اعلان کیا ، انھوں نے میری کتابوں کو جہاں ملیں جلانے کو کہا اور یہاں تک کہ میرے سر کی قیمت پچاس ہزار روپے مقرر کرڈالی -حکومت نے اپنے لب سختی سے بند کررکھے ہیں گویا اس ملک کے ہر شہری کا بنیادی حق ہو کہ میرے سر کی قیمت مقرر کرے -حکومت نے میرے باہر جانے پر پابندی عائد کردی-اور اب اندرون ملک میری نقل و حرکت پر پابندیاں چند قدم کے فاصلے پر ہیں ، تاکہ میں اپنے کمرے تک محدود کردی جاؤں اور ایک طرح سے یہ گھر پر نظر بندی ہوگی تو ہوسکتا ہے دن بدن مجھے مکمل طور پر تنہا کردیا جائے اور مجھے بوسیدہ کردیا جائے تاکہ میں الگ تھلگ کرکے تنہائی میں اپنے کمرے میں مرجاؤں-اور یہ کہ میرا زھن اور دماغ دونوں شل ہوجائیں اور میرے قلم کو زنگ لگ جائے اور ان کا خیال ہے کہ شاید اس طرح میں ان کی طاقت کے آگے سرنگوں ہوجاؤں-بہت سے لوگ مجھے ان کے فنکشنوں میں شرکت کے لیے کہتے ہیں -وہ چٹاکانگ یونیورسٹی سے راجشاہی تک ، کھلنا سے اور بریسال سے آتے ہیں :مجھے ان کو بتانا پڑتا ہے " میں نہیں آؤں گی " مجھے ان کو نہ کہنا پڑتا ہے -کیونکہ آٹو گراف کے متلاشیوں کے پیچھے میں اپنے خون کے پیاسے بھیڑیوں کو زبانیں نکال کر اپنی طرف جھپٹتے دیکھ سکتی ہوں بہت عرصہ تک میں نے اپنے گھر کی کھڑکی کھلی رکھی لیکن اب میں ایسا نہیں کرسکتی مرد ایس بی سے آتے ہیں اور مجھ سے وضاحت کرنے کو کہتے ہیں کہ "بے شرمی " ابتک کیوں بک رہا ہے اور میں نے "پھیرا " ناول کیوں لکھا ؟ میرا یہ جواب کہ یہ سوال اس کو شایع کرنے اور بیچنے والوں سے پوچھنا چاہیئے بھی مجھ سے اس کا جواب اور وضاحت دینے پر اصرار کرتے ہیں مشکلات ہیں کہ ختم ہونے کو نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ایک دن مجھے جنوبی بنگال سے ایک کال آئی اور کال کرنے والے نے مجھ سے پوچھا " کیا اپنے ایک انٹرویو میں میں نے یہ کہا ہے کہ مذھب اور شادی کے اداروں کو ختم کردینا چاہئيے ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے کہا کہ آپ کو اس سے کیا مطلب تو کہنے لگے کہ ہمیں وزرات داخلہ نے ایسی تحقیق کرنے کو کہا ہے ، میں حیران ہوگئی کہ وزرات داخلہ کو میری کہی کسی بات بارے پوچھ پڑتال کی ضرورت کیوں پڑگئی کیا مجھے لکھنا یا سوچنا بھی وہ پڑے گا جسے وہ مناسب خیال کرتے ہوں گے ؟ اور اگر میں ایسا نہیں کروں گی تو مزید انکوائریاں ہوں گی اور کسی دوسرے کیس کی فائل میرے خلاف کھولی جائے گی کھلی فضا میرے لیے نہیں ہے ، مجھے اپنی ساری زندگی بس خود اپنے ساتھ بیٹھ کر گزارنا ہوگی ایسے کہ بند دروازے اور بند کھڑکیاں ہوں میرے خیر خواہ میرے پاس آتے ہیں اور مجھے ہوشیار رہنے کا کہتے ہیں ، ، گھر سے کم ہی نکلا کرو ، ان کا کوئی اعتبار نہیں ہے ، وہ کسی وقت بھی کچھ کرسکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" لیکن میں نے کیا کیا ہے کہ جو میں نہ ٹرین میں چڑھ سکتی ہوں اور نہ ہی کسی بس میں ؟میں گلیوں میں تنہا یا ہجوم میں کھلے عام پھر نہیں سکتی کیوں ؟ بک شاپس ، کتب خانے ، تھیڑ ہال ۔۔۔۔۔۔۔کوئی جگہ میرے لیے محفوظ نہیں ہے ، کیوں ؟ یہاں تک کہ میں اپنے گھر میں بھی محفوظ نہیں ہوں ، نہ اس کمرے میں جہاں میں سوتی ہوں ، لکھتی ہوں مجھے کبھی بھی بم سے اڑایا جاسکتا ہے وہ کسی بھی وقت میرا سر قلم کرسکتے ہیں اور اپنی جیت پر ہرا کی آواز لگاسکتے ہیں حقیقت میں ، میں نے کیا کیا ہے ؟ ساری ریاست میں ایک ہنگامہ مچا ہوا ہے کیا میں نے کوئی بہت غلط کام کیا ہے ؟ کیا ہندؤ مذھب اتنا ہی نحیف و کمزور ہے کہ وہ ت کے قلم سے موت کے گھاٹ اتر جائے گا ، وہ جو اس کو بچانے کے لیے چیختے چلاتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ کس قدر غیر محفوظ ہے اور اسی وجہ سے مجھ پر بھی چلاتے ہیں تو کیا وہ وقت آنہیں گيا کہ اس بے اختیار اور بے طاقت چیز کو ختم کردیا جائے ؟ کیا ہمیں ابھی ایک صدی اور انتظار کرنا پڑے گا ؟ کیا ہم اس شرمناک ورثے کو اگلی نسل کے لیے چھوڑ کر پرلوک سدھارنا چاہتے ہیں ؟ پھر دوبارہ کب متحد ہوں گے ؟ اور کتنا خون ہمیں دوبارہ متحد ہونے کے لیے بہانہ پڑے گا ؟ کتنے گھروں کو شعلوں کی نذر کرنا ہوگا ، کتنے کمروں کو جلانا ہوگا ؟ کتنے باغوں کو جلاکر راکھ کرنا ہوگا ؟ اور کتنے ذھنوں کو تباہ کرنا ہوگا ؟ وہ مجھے پاکستان کا جاسوس کہتے ہیں ، ملحد کہتے ہیں ، مجھے آئی ایس آئی کا کارندہ بتلاتے ہیں اور ایسی بہت سی کہانیاں پھیلاتے ہیں مجھے ملحد کہے جانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن مجھے پاکستان کا ایجنٹ کہلائے جانے پر اعتراض ہے ، کیا ایسے مائنڈ سیٹ کے ہوتے ہوئے کیا کسی کو اپنی آواز اٹھانے کی جرات کرنی چاہئیے ؟ کیا کوئي رجعتی طاقتوں کے خلاف ایسی فضا میں اٹھے گا -کیا کوئی ٹیگور کے گیت گائے گا ؟اور کیا بنگالیوں کے اتحاد کی آواز اٹھانا جرم ہے ؟ تو جو کوئی بنگالی ہونے پر فخر کرے اور اس کو فوری طور پر پاکستان کا ایجنٹ قرار دیا جائے تو کیسے کوئی آواز بلند ہوگی میرے احتجاج کی پرواہ کون کرتا ہے ؟ میں نے بنگالی سماج میں ہندؤ مذھب کے بیوپاریوں کی جانب سے عورتوں کو داسی بنائے رکھنے پر آواز بلند کی اور مغرب و مشرق کے بنگالیوں کو ایک ہونے کو کہا تو غلط کہا ؟ میرے احتجاج کی پرواہ کون کسی کو نہیں ہے یہ فیصلہ کیا جاچکا ہے کہ ت کو پھانسی پر چڑھا دیا جائے ؟ میں اپنی زندگی کی بساط کو لپٹتا ہوا دیکھ سکتی ہوں ایک دعوت نامہ لاس اینجلس سے آیا ہے اور مجھے بنگلہ سیملن (بنگالی کانفرنس ) میں خطاب کی دعوت دی گئی ہے یہ دعوت اس عورت کو دی گئی ہے جسے سفر کرنا مرغوب ہے ، لیکن جس کا پاسپورٹ ضبط ہو چکا ہو ، وہ کیسے کہیں جاسکتی ہے میرے لیے لاس اینجلس ، نیویارک ، واشنگنٹن ، ڈلاس جانا کچھ زیادہ معنی نہیں رکھتا لیکن میرے لیے اپنے کلکتہ سے ڈھاکہ جانا ، ڈھاکہ کے شہید مینار پر ریڈ سن پر آگ جلانا ، دھان منڈی میں بنگلہ بندھو کی رہائش کی زیارت کرنا ، اپنے میمن سنگھ جانا بہت معنی رکھتا ہے اور مجھے قلق ہے کہ مجھے وہاں جانے سے روکا گیا ہے میں یورپ اور امریکہ کی دیوقامت عمارتوں ، کیسنیو ، میوزیم کو کھلے منہ کے ساتھ حیرت سے دیکھنے کی بجائے سونار بنگلہ کے دریاؤں کے درمیان مانجھی کے ساتھ ہلکورے کھاتی کشتی میں بیٹھ کر زیادہ خوش ہوں گی مجھے اپنے کلکتہ میں چت پور کی گلیوں میں ننگے پاؤں چلنا زیادہ عزیز ہے اور چورنگی کے اوپر ٹریفک کا اژدھام اور لوگوں کے درمیان رہنا جن کی بنگلہ بھاشا مجھے سمجھ آتی ہے کو سننا زیادہ مرغوب ہے جب شاعروں کا گروہ ڈھاکہ سے " شاعری کانفرنس سے لوٹ آیا تو میں نے ان سے پوچھا کہ نندن آڈیٹوریم میں آج کل کیا چل رہا ہے ؟ کون کون سے شاعروں نے کلام پڑھا ؟ بدھ کی خصوصی رات کو کیا ہوا؟ شیشر مانچھا میں کون سے ڈرامے اور کھیل سٹیج پر دکھائے گئے ؟ ڈھاکہ میں سری کیسی تھی؟ انھوں نے جو کہا اس سے میری پیاس ختم نہ ہوئی مگر مجھے لگا کہ اگر ڈھاکہ کے بارے میں اور کچھ کہا تو وہ مجھے فوری طور پر خالدہ ضیاء کی ایجنٹ کہہ ڈالیں گے ، اب مجھے نہیں پتہ کہ وہ جگہ جو کبھی تمہاری اپنی تھی تقسیم کی لیکر کھنچ جانے کے بعد اس سے اظہار محبت کے لیے وہاں کی حکومت کا ایجنٹ بننا لازم ہوتا ہے کیا مجھے اپنے دریا شیٹلاکیشیا سے محبت سے بھی دست بردار ہوجانا چاہئیے کیونکہ وہ بھی تو زیادہ بنگلہ دیش سے کزرتا ہے میں تو 90 کروڑ بنگلہ بولنے والوں کو بنگالی خیال کرتی ہوں میں " ہم " اور " وہ " کی اصطلاح مغربی و مشرقی بنگال کے لیے بے معنی خیال کرتی ہوں بلکہ میں تو کہتی ہوں کہ کوئی دن جاتا ہے جب بنگالیوں کے درمیان قائم ہونے والی یہ دیوار برلن ٹوٹ جائے گی اور مشرق و مغرب کے بنگالی ایک ہوجائیں گے اور یہ نام نہاد مذھبی تفریق پر مبنی ان دیکھی دیواریں بھی گرادی جائیں گی یہ دھان کے کھیت ، آم کے باغات ، ناریل کے درخت سب بنگالیوں کا سانجھا ورثہ ہے ایک دن آئے گا جب بنگالی ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر بونگاؤں سے بینابول تک ، رنگ پور سے کوجی بہار تک ، میگھالے سے ہالو گھاٹ تک ، شیلانگ تامبل تک اور بوٹ مان سے نیچے پدما دریا تک اور وہاں سے دریا گنگا کے پھیلاؤ تک بھٹیالی ٹون میں مانجھی کا گیت گاتے چلیں گے میں ایسے ہی خواب کے ساتھ جیتی ہوں جو میرے دل میں جاگزیں ہے سات ماہ سے اپنے پاسپورٹ کی منتظر میں یہاں محصور ہوں میں بے مقصد اس شہر کا چکر لگاتی ہوں ،میرے دوست بیرون ملک جاتے ہیں اور میں ان کو رخصت کرنے ائرپورٹ تک جاتی ہوں میں دیکھ سکتی ہوں کہ سنتریوں کی بندوقیں میری جانب تنی ہیں ، جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ زرا ان کی مقرر کردہ لائن عبور کرکے دیکھو میں ایسا اس لیے سمجھتی ہوں کہ ایسی کوئی حدیں میں نے اپنے لیے مقرر کی نہیں ہیں جسے وہ حدیں سمجھتے ہیں اور اپنی ڈیوٹی کررہے ہیں ابھی کچھ دن بعد مغربی بنگال میں میرے خلاف عام ہڑتال کی کال دی گئی ہے ، حکومت سے ان کا مطالبہ ہے کہ مجھے پھانسی پر لٹکایا جائے تو اس دن تمام ٹرینیں بند ہوں گی ، بسیں نہیں چلیں گی ، دفاتر اور کاروباری مراکز ، اسکول کالجز سب بند ہوجائیں گے پھر حکومت کے پاس میری پھانسی کی تاریخ اور وقت مقرر کرنے کے سوا کوئی راستہ بچے گا نہیں اگر میری موت سے بنگالی ایک متحدہ ملک کے شہری بن جاتے ہیں تو میں مسکراتے ہوئے پھانسی کے پھندے سے جھول جاؤں گی اور میں اپنی جان دینے کو تیار ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیسوں کے لیے نہیں بلاکہ عقلیت پسندی اور انسانیت پسندی کے لیے