Monday 24 November 2014

دفن ہوجانے والا باغ اور مرجانے والا محمد رانا محمد حسین


یوسف پارک خانیوال
میں جب اندرون شہر رہتا تھا تو اکثر گرمیوں کی دوپہر اور شام کو اپنے گھر سے کچھ فاصلے پر بنے ایک باغ میں چلا جاتا تھا ، یہ یوسف پارک کہلاتا تھا اور یہاں سینکڑوں درخت اور پودے تھے اور وہاں گراؤنڈ میں پڑے بنچوں میں سے ایک بنچ پر بیٹھ جاتا اور اس باغ میں بیٹھ کر میں نے بلامبالغہ کئی سو کتابیں پڑھی ہوں گی ، ریڈیو پر کرکٹ اور ہاکی میچوں کی کمنٹری سنی ہوں گی اور بی بی سی اردو سروس ، صدائے روس ماسکو ریڈیو ، ریڈیو سیلون اور آل اںڈیا ریڈیو سروس کی نشریات سنی ہوں گی میں نے اس باغ کے درختوں تلے بنچ اور گھاس پر زرا دیر سستانے والے ان دیہاتی مرد و خواتین کو دیکھا جو دور دراز کے دیہاتوں سے شہر سودا سلف لینے ، کورٹ کچہریوں اور ڈی سی ، اے سی کے ہاں پیشیاں بھگتنے آتے یا اپنے کسی مریض کے ساتھ آتے اور ان کے پاس کہیں ٹھکانہ نہ ہوتا اور وہ یہاں باغ میں ڈیرا ڈال دیتے لیکن ایک ڈی سی او عثمان عظمت جس کی سکن بلیک اور ذھنیت سفید فام نکلی نے اس باغ کو اجاڈ دیا اور اس کی جگہ اپنے سے بڑی سفید فام زھینت دکھنے والے شوباز کو خوش کرنے کے لیے ماڈل بازار بنانے کے لیے سینکڑوں درخت کاٹ ڈالے اور اب وہاں دو کروڑ کی مٹی ڈلواکر اس باغ کو دفن کرنے کا کام کیا جارہا تھا اور اسے وہ ترقی کا نام دے رہا تھا میں اس اجڑے باغ کو حسرت کی تصویر بنا دیکھ رہا تھا جو ایک کالے انگریز کی فرعونیت کی بھینٹ چڑھ گیا تھا اور ستم یہ تھا کہ سینکڑوں درخت کاٹے جانے اور ایک تاریخی باغ کو اجاڑے جانے کے واقعے پر سارا شہر خاموش تھا اور کہیں سے کوئی صدائے احتجاج بلند نہ ہوئی ، کسی نے ایک احتجاجی بینر تک نہ لگا، اس شہر کی وکلآ کی بار میں اس روز پنجاب بار کونسل کے الیکشن میں جیت جانے والے دو وکلاء کے چیمبرز کے سامنے مٹھائیاں تقسیم ہورہی تھیں ، ڈھول بجائے جارہے تھے اور مبارکبادیں دی جارہی تھیں اور میں سوچ رہا تھا کہ کیا اس شہر میں کوئی بھی انسان اب زندہ نہیں رہا ؟ کیا یہ سماج مردوں پر مشتمل رہ گیا ہے باغ اجڑنا ، درختوں کا کٹنا ، ایک تاریخی اہمیت کے پارک کا ختم ہونا یہ سب کسی کے لیے المناک اور اس شہر کے ماحول کی تباہی کے لیے اتنا بڑا واقہ شاید تھا ہی نہیں میں پریس کلب گيا اور وہاں پر ایک صحافی نے یہ سوال اٹھایا کہ اس نے ایک ڈائری میں اس منصوبے کا زکر کیا اور کچھ لوگوں سے رابطہ بھی کیا لیکن کسی نے بھی کوئی عملی قدم نہ اٹھایا میں نے ایک واجبی سی تعلیم کے حامل ایک شخص کو دیکھا کہ وہ ایک وکیل کے زریعے اس باغ کو اجڑںے سے بچانے کی سبیل کرتا نظر آیا اور ایسے میں وہ عام سا آدمی مجھے اس شہر خموشاں میں واحد زندہ آدمی لگا جس نے اپنی آدمیت کو ابتک برقرار رکھا ہوا تھا اس باغ کے عین سامنے رانا مارکیٹ بنی ہوئی ہے میں نے اس مارکیٹ کی طرف سر اٹھا کر دیکھا اچانک مجھے خیال آیا کہ یہاں بھی تو ایک شخص رانا محمد حسین نام کا رہا کرتا تھا جو اپنی زات میں ایک تاریخ تھا جس نے اس وقت اس ملک کے مزدروں اور کسانوں ، طالب علموں ، عورتوں اور سیاسی کارکنوں کے حقوق ، شہری آزادیوں ، جمہوریت اور سماجی انصاف کے حصول کی لڑائی لڑنی شروع کی تھی جب اس کی مسیں بھی پوری نہیں بھیگی تھیں ڈی ایس ایف ، پھر نیشنل عوامی پارٹی پھر پی ڈی پی اور پھر پی این پی اور اس کے بعد اے این پی کی تاسیس رکھنے والوں میں وہ شامل تھا اور اس نے باچا خان ، ولی خان ، مولانا بھاشانی ، محمود الحق عثمانی ، اجمل خٹک ، سی آر اسلم ، میاں محمود ، فیض ، صفدر میر ، سبط حسن ، سجاد ظہیر ، عبداللہ ملک ، دادا امیر حیدر ، میر غوث بخش بزنجو ، عطاء اللہ مینگل ، نواب خیر بخش مری ، شیر باز مزاری ، عطاء اللہ ملک ، جمال بوٹا ، قصور گردیزی ، رانا ریاست ، مرزا اعجاز بیگ الغرض کے سیاست کے بڑے نامی گرامی لوگوں کے ساتھ کام کیا رانا محمد حسین کی " رانا مارکیٹ " جب ضیاء دور میں محض ڈھانچہ تھی تو اس زمانے میں اس کے کونے کھدرے سیاسی کارکنوں ، طالب علموں کی پناہ گاہ تھے جہاں وہ ضیاء الحق کی مارشل لآئی عفریتوں سے ان کو پناہ دیتا اور انھیں گرفتاری سے بچاتا تھا ، یہ مارکیٹ کے کئی کمروں میں اس شہر میں تعلیم حاصل کرنے اور اپنی قسمت آزمانے والے نوجوانوں کو مفت اور کبھی کبھار نہایت معمولی سے کرائے پر ٹہرا لیتا اور کئی بار تو وہ دور دراز علاقوں سے آنے والے نوجوان صبح اور رات کا کھانا بھی اس سے کھاتے اور کئی ایک کی یہ اپنی جیب سے امداد بھی کرتا تھا یہ ایک دور میں رانا محمد علی ایڈوکیٹ والد رانا ندیم عبداللہ ، رانا ریاست ، کامریڈ اعظم خان ، شیر عالم شیرازی سابق جنرل سیکرٹری پی پی پی کا ٹھکانہ ہوتا تھا اور یہیں پر لاہور ، کراچی ، کوئٹہ ، پشاور اور دیگر شہروں سے آنے والے سیاسی کارکنوں کا جھمگٹا لگا رہتا تھا اور رانا محمد حسین نے ایک وقت تک بہت فعال سیاسی زندگی گزاری اور شعور و بیداری کی شمع فروزاں کئے رکھی اور ایک طرح سے اس کی مارکیٹ سیاسی تھڑا تھی اور پھر جب بے ضمیری کی ہوا چلی اور سیاست مال بنانے اور اشراف کے گھر کی لونڈی بن گئی تو میں نے دیکھا کہ رانا محمد حسین بھی جیسے خود اپنے اندر ہی سمیٹ کر رہ گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی بینائی بھی جاتی رہی اور اب تو وہ چہرے پہچان بھی نہیں سکتا تھا زمانہ بہت ظالم ہے اس نے بھی اپنے اندر سکڑ جانے اور سمٹ جانے والے اس شخص محمد حسین کو بھلا دیا یہ شام کا تارہ جسے تم چھوڑ گئے صحرائے محبت میں نشان غم ہے واقعی رانا محمد حسین شام کا وہ تارہ تھے جنھیں سب بھول گئے اور چھوڑ گئے اور صحرائے محبت میں وہ نشان غم بنکر زندگی گزارتے رہے لیکن یہ کیا کہ ایک دن جب وہ شخص مرگیا تو بھی ایک بھی شخص نے اسے یاد نہ کیا اور نہ ہی کسی طرف سے اس کی خدمات پر ایک لفظ تحسین بھی نہیں لکھا گیا کیا آج کے شہر اور اس کے باسی اتنے کٹھور اور ظالم ہوگئے ہیں جو ساری عمر انصاف ، آزادی ، حقوق کے لیے لڑتے رہے ، جنھوں نے صلیب جھٹکی اور دار کو چوم لیا ، آج ان کو کوئی یاد کرنے والا اس شہر میں نہیں تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ وہ جو اعزاز کے ساتھ دفنانے کی بات تھی وہ بھی شاید ختم ہوگئی ہے کیا رانا محمد حسین کی موت بس اس کے بیٹے سورج کے لیے کوئی المناک خبر تھی ، اس کی بیوہ کے لیے آنسو بہانے کی بات تھی ، کیا وہ صرف اس کے خون کے رشتوں کے لیے اہمیت رکھنے والا شخص تھا میں یہ سب باتیں سوچ رہا تھا اور ایک مرتبہ تو جی میں آئی یہیں سڑک پر کھڑے کھڑے لوگوں کو سقراط کی طرح روک روک کر ان سے سوال کروں حسن کیا ہے ؟ فنا کسے کہتے ہیں سچائی اور صداقت کیا ہوتی ہے اور پھر ان سے سوال کروں محمد حسین جیسے لوگ کیا تھے اور اس طریقے سے ان کو احساس دلاتا کہ کس بے حسی ، خود غرضی اور جہالت کے سرد جہنم میں وہ فریز ہوکر پڑے ہیں اور ان کو بڑے سے بڑا واقعہ اب جھنجھوڑتا نہیں ہے لیکن سچی بات ہے کہ میں یہ سب باتیں سوچ کر ہی رہ گیا ، کیونکہ مجھے لگا کہ اگر اس مدینہ میں رہنا ہے تو مجھے بھی رکھنی پڑے گی منافقوں کے ساتھ میرے پیچھے اجڑا ہوا یوسف باغ تھا اور آگے رانا محمد حسین کے بغیر کھڑی رانا مارکیٹ تھی جو تمام تر رنگوں کے باوجود اجڑی اجڑی لگ رہی تھی اور میں جب شام کے سائے گہرے تر ہوتے جاتے تھے تھکے تھکے قدموں اور احساس شکست کے ساتھ اپنے گھر کی طرف چل دیا

Sunday 2 November 2014

قدیم ثقافتی شامی شہر سلمیہ پر داعش کا منڈلاتا بھوت اور قصّہ شاعر الماغوط کا


محمد عیسی احمد الماغوط
کل رات کو امام بارگاہ سے واپس آیا تو فوری طور پر نیند نہیں آرہی تھی اور میں نے ننید کی دیوی کو راضی کرنے کے لیے خالد احمد کی کتاب : پاکستان میں فرقہ وارانہ جنگ ۔۔۔۔۔۔۔۔" کا دوسرا باب پڑھنا شروع ہی کیا تھا تو میری شریک حیات نے حسب معمول کہا کہ " کبھی اپنے جسم اور ذھن کو آرام بھی کرنے دیا کریں " تو میں نے حسب معمول ایک پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ان کو کہا کہ " آرام کرنے کی خواہش جب اندر سے جنم لے گی تو آنکھیں خوبخود بند ہوجائیں گی " انھوں نے اس پر میری طرف تشویش سے دیکھا اور پھر آنکھیں موند لیں ، اسی دوران شام میں دمشق یونیورسٹی کے اسامہ شہود کا پیغام مجھے اپنے موبائل پر فیس بک میسجنر کے زریعے موصول ہوا عامر کیا تمہیں معلوم ہے ؟ محمد عیسی احمد الماغوط کا شہر سلیمۃ پر داعش کے خون آشام سائے منڈلارہے ہیں ؟ داعش سلمیۃ شہر پر دستک دینے اور اسے تباہ کرنے کو بے تاب ہے ؟ نوٹ :پیغام عربی میں تھا ، اس کا رف سا مفہوم میں اردو میں آپ تک ترجمہ کرکے پہنچا رہا ہوں ، کیونکہ میں نے عربی تھوری سی باقاعدہ اور باقی بے قاعدہ سیکھی تھی اور اسامہ شہود کی انگریزی بہت بری جبکہ عربی اور فرنچ ، کرد ، ترکش بہت ہی شاندار ہیں اور میں فرنچ سے کجھ شد بد رکھتا ہوں ، کرد ش رسم الخط تو بالکل سمجھ سے باہر ہے اور ترکش رسم الخط بھی میری عقل سے باہر ہے حالانکہ اس کے اکثر الفاظ اردو میں موجود ہیں میں نے یہ پیغام پڑھا تو خالد احمد کی کتاب ایک طرف رکھ دی - کیونکہ میرے زھن میں ایک دم سے بہت سی یادوں نے گھر کرلیا تھا اور مجھے کراچی یونیورسٹی میں عربی ادب پر ایم فل کرنے والا ایک شامی عرب جوڑا یاد آگیا - ہشام الماغوط اور سنیۃ ہشام ، دونوں میاں بیوی تھے اور پکّے سوشلسٹ تھے اور ان کا تعلق ایک اسماعیلی شیعی شامی عرب خاندان سے تھا اور یہ دونوں میری کلاس فیلو ، دوست ہما علی کے دوست تھے اور صدر کراچی میں میرے ایک پسندیدہ ایرانی ریسٹورنٹ میں ملنے والی ایک کردش کھانے کی ڈش کی دعوت پر ہما علی نے ان سے میرا تعارف کرایا تھا اس ملاقات کے بعد ہم سب گہرے دوست بن گئے تھے اور مجھے ہشام اور سنیۃ نے یہ بتاکر حیران کیا تھا کہ ثانیہ کا نام پہلے لیلی تھا جو اس نے بدل کر ثانیہ کرلیا تھا اور ہشام نے اپنے نام کے ساتھ الماغوط کا اضافہ کیا تھا اور مجھے اس تبدیلی و اضافے کے پس پردہ وجہ جاننے کا اشتیاق ہوا تو دونوں نے میری طرف حیرت سے دیکھا اور ہشام نے کہا تم نزار قبانی سے واقف ہو ، تو محمد عیسی احمد الماغوط سے واقف نہیں ہو؟ اور ثانیہ نے کہا کہ تم بیروت سے شایع ہونے والے ادبی میگزین " الشاعر " میں چھپی فیض احمد فیض کی شاعری بارے کرتے ہو اور تمہیں ثانیۃ الصالح کے بارے میں معلوم نہیں ہے ، حیرت ہے میں نے کہا تھا کہ ہاں یہ ایسے ہی ہے جیسے تم فیض احمد فیض سے واقف ہو لیکن تمہیں احمد فراز کا نہیں پتہ ، شکیب جلالی کا نہیں معلوم اور یقینی بات ہے کہ تمہیں پروین شاکر ، فہمیدہ ریاض اور سارا شگفتہ کا بھی پتہ نہیں ہوگا اس پر وہ دونوں سر ہلانے لگے اور پھر میں نے ان ناموں کے بارے میں بتایا کہ وہ کون ہیں اور ہما سے کہا کہ وہ احمد فراز کی " محاصرہ " کا ایک عام فہم سا عربی ترجمہ ہشام اور ثانیہ کو کرکے بتائیں ، سنیۃ کو میں نے فہمیدہ کی کچھ ںطموں کا خلاصہ بتایا تھا اور پھر اس رات ہشام نے اپنے ہاسٹل کے کمرے سے مجھے محمد عیسی احمد الماغوط کی شاعری کی پہلی کتاب " حزن فی ضوء القمر " ( چاند کی روشنی میں اداسی ) دی ، جس میں اصل عربی متن کے ساتھ انگریزی ترجمہ بھی موجود تھا اور یہ کتاب بعد میں ہشام نے مجھے تحفے ميں دے ڈالی ، ہشام نے مجھے شام سے نکلنے والے ایک معروف اخبار " تشرین (اکتوبر ) کے بھی کچھ تراشے دکھائے تھے جس کے مدیر محمد عیسی احمد الماغوط تھے اور ان تراشوں میں سے ایک تراشے میں ماغوط کا ایک فقرہ جیسے میرے دماغ پر نقش ہوکر رہ گیا ماغوط کہتا ہے کہ بیدو تحریر العقل العربی اصعب تحریر الفلسطین یعنی عرب کی عقل کی آزادی فلسطین کی آزادی سے زیادہ مشکل ہے ایک شعر ماغوط کا یوں تھا کہ ہمارا جرم اس کے سوا اور کیا ہے کہ ہم عرب ہیں عربوں کے لیے باالعموم اور شامی و لبنانیوں کے لیے بالخصوص الماغوط کا نام اجنبی نہیں ہے اور وہ اسے بطور ایک باغی شاعر ، دانشور ، ڈرامہ نگار ، مزاح نگار ، صحافی اور سیاسی مفکر کے طور پر جانتے ہیں اور الماغوط کی جنم بھومی دریائے عاصی کے کنارے آباد ایک انتہائی قدیم شہر سلیمۃ میں ہوئی تھی اور یہ شہر ہمیشہ سے باغی دانشوروں کے جنم و پرداخت میں مشہور رہا ہے اور یہ باغی دانشور بھی سلیمۃ میں ہمیشہ انتہائی غریب گھرانوں میں جنم لیتے رہے اور اسی شہر میں مصر میں پہلی فاطمی سلطنت کی بنیادیں رکھنے والے اسماعیلی تحریک کے روح رواں دانشور اور سپہ سالاروں نے جنم لیا اور یہی وہ شہر ہے جہاں فاطمی سلطنت کا پہلا خلیفہ اور قاہرہ میں عالم اسلام کی سب سے قدیم اور بین الاقوامی شہرت کی حامل یونیورسٹی الازھر کی بنیاد رکھنے والا دانشور خلیفہ عبداللہ المہدی نے جنم لیا تھا اور آج بھی سلمیۃ شہر ایسے ہی باغی دانشوروں اور سماجی اصلاح کاروں کی جائے پیدائش اور ابتدائی دن گزارنے کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے اور اس شہر نے شام کے اندر سوشلسٹ انقلابی اور عرب نیشنلسٹ تحریک کو بہت سے دانشور دئے جن میں محمد عیسی احمد الماغوط کا نام بہت اہم ہے انتہائی غربت ، بے روزگاری اور مادی پسماندگی کے باوجود یہاں کے باشندوں کی دانشورانہ امارت میں کوئی فرق نہیں آیا اور ہشام و سنیۃ بھی اس قصبے سلمیۃ میں پیدا ہوئے تھے اور پھر علم کی پیاس میں وہ کراچی یونیورسٹی چلے آئے تھے اور جب کبھی وہ کراچی کے ساحل سمندر جاتے تو انھیں دریائے عاصی کی یاد ستانے لگتی تھی ہشام اور ثانیہ پھر شام واپس چلے گئے ، پہلے وہ دمشق میں رہے ، اس کے بعد بیروت اور پھر پتہ چلا کہ دونوں حزب اللہ میں شامل ہوگئے اور مجھے ان سوشلسٹوں کے حزب اللہ میں جانے کا پس منظر سمجھ میں نہیں آیا تھا ، جبکہ ہما علی کا کہنا تھا کہ وہ سوشلسٹ نظریات سے دستبردار بھی نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی اپنے اسماعیلی پس منظر کو کبھی بھول پائے تھے ، پھر جب ہما علی آغا خان کے کینسر وارڈ میں اپنی زندگی کے آخری دن گزار رہی تھی تو اس کی موت سے دو دن پہلے ہشام اور سنیۃ کے ایک کار بم دھماکے میں ہلاک ہوجانے کی خبر آگئی تھی آج اسامہ شہود کے اس پیغام نے مجھے یہ سب کچھ یاد دلادیا تھا اور میں نے اپنی کتابوں کی الماری میں بنے " عرب سیکشن " میں سے ہشام کی دی ہوئی کتاب " حزن فی ضوء القمر " کو نکالا اور بے اختیار ایک نظم پر میری نظریں ٹھہر گئیں سامحيني أنا فقيرٌ يا جميلة. .حياتي حبرٌ ومغلّفات وليلٌ بلا نجوم. .شبابي باردٌ كالوحل، عتيقٌ كالطفولة مجھے معاف کردینا ۔ میں تہی دست ہوں اے جمیلہ میری زندگی ایک سیاہی کی مانند ہے اور میں پابہ زنچیر ہوں اور ایسی رات ہوں جو اماؤس کی ہو جس میں ستارے غائب ہوجاتے ہیں میرا شباب وحول کی طرح سرد ہے اور میری بلوغت بچے کی طرح ہے اس کتاب میں ماغوط کی بیوی سنيۃ الصالح کا مقدمہ شامل ہے اور اس میں سنیۃ بتاتی ہے کہ ماغوط خود کو شاعر نہیں سمجھتا تھا اور شام کے اندر "آزاد نظم " کی بجائے پابند نظم کا چلن تھا ، یہ اس کی بیوی سنیۃ تھی جس نے ماغوط کے لکھے سینکڑوں صفحات کو پڑھا تو اس نے ماغوط کے اندر چھپے شاعر کو ڈھونڈ نکالا تھا اور اسے پتہ چلا تھا کہ ماغوط فرانسیسی باغی شاعر بادلئیر سے کس قدر متاثر تھا خود سنیۃ الصالح بھی بیروت کی ایک باغی روح تھی ، اس نے بھی بیروت میں بہت خون ریزی ، خانہ جنگی اور پھر اشراف کی کرپشن ، مذھبی جنون دیکھا تھا اور اس کی اپنی شاعری کے اندر بھی جہاں رومان ہے وہیں تلخی اور حیات کی سختیوں کا زکر بھی ہے اور جب ماغوط بیروت میں جلاوطن ہوکر آیا تھا تو اس کی شاعری نے سنيۃ کو بہت متاثر کیا تھا اور وہ اس کی مداح بن گئی تھی اور پھر یہ رشتہ محبت میں بدلا اور ماغوط و سنيۃ ایک ہوگئے اس کتاب کے شروع میں ایک خالی صفحہ پر میں نے ایک شعر عربی کا اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا ہے جس کا مفہوم کچھ یوں بنتا ہے کہ میں یہ گمان رکھتا تھا کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو میں یہ گمان کرتے ہوئے بھول گیا تھا کہ اکثر گمان گناہ ہوا کرتے ہین ماغوط طنزکے اظہار کے لیے استعاراتی زبان و بیان کے استعمال کا بادشاہ تصور کیا جاتا ہے اور مجھے خیال آتا ہے کہ اس کی اسی بادشاہت فن کی مثال سامنے رکھنے کے لیے میں نے کتاب کے شروع میں یہ شعر لکھکر رکھ لیا تھا ، ماغوط کو اپنے شام کی بہت فکر تھی اور اپنے شہر سلیمۃ سے بھی اسے بہت پیار تھا اور شام سے اس کی محبت کا یہ عالم تھا کہ بار ، بار وہ یہاں قید ہوا اور اس نے بہت نفرت اور غضب کا سامنا بھی کیا لیکن وہ جلاوطنی کاٹ کر بھی پھر شام لوٹ آتا رہا بلکہ اسے دکھ ہوتا تھا کہ شام کے اکثر دانشور ، شاعر ، ادیب یہاں موجود جبر ، آمریت اور گھٹن سے تنگ آکر مغرب کی جانب ہجرت کرجاتے تھے ، اس نے اس المیہ پر ایک ڈرامہ "مہجر " کے نام سے بھی لکھا اور اس نے ایک ڈرامہ جو شام کی سیاسی - سماجی صورت حال کا زبردست عکاس تھا طنزیہ پیرائے میں لکھا تھا ، جس کا نام تھا " کا سک یا وطنی " اور اس کی ایک اور کتاب " سآخون وطنی " اے میر ے ہم وطن میں تجھ سے بغاوت کربیٹھوں گا تو بہت ہی شہرت کی حامل ہے اور اس سے شام کے اہل دانش بخوبی واقف ہیں ابھی میں نے شیخ باقر نمر النمر کی ایک تقریر عوامیہ سعودی عرب میں کی گئی سنی تھی جس میں نمر بار بار کہتا ہے کہ " یہ وطن کیا ہوتا ہے ؟ یہ مٹی کیا ہوتی ہے ؟ یہ زمین کیا ہوتی ہے ؟ وہ سعودی عرب کے آل سعود کی مذمت کررہا تھا اگرچہ میں اس کی آل سعود کے خلاف مزاحمت اور جدوجہد کا بےپناہ مداح ہوں اور اس کی سیاسی عدم تشدد پر مبنی تحریک کا بھی قائل ہوں ، لیکن مجھے لگا کہ وہ ماغوط ، محمود درویش ، نزار قبانی ، فیض احمد فیض ، ناظم حکمت ، حمزہ رسول جیسوں کی مٹی کی محبت اور زمین سے جڑت کے فلسفے کی حلاوت سے شاید اس لیے ناآشنا ہے کہ وہ مقاومت و مزاحمت کے سفر کی طرف تھیوکریٹک راستے سے آيا ہے ، اسی لیے اس کے ہاں زمین ، مٹی اور اس کی ثقافت سے محبت کا معاملہ زرا کمزور نظر آتا ہے ، لیکن پھر مجھے یہ خیال بھی آتا ہے کہ کیا نمر نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکّہ سے محبت اور اس سے جدائی پر کہے جانے والے جملے نہیں سنے ہوں گے اور خود جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو سخت سردی میں ابن عباس نے کوفہ میں کانپتے ہوئے دیکھکر صوف کا لباس پہننے کو کہا تھا تو ان کا یہ جملہ نہیں سنا تھا کہ ابن عباس مجھے یہ مدینہ سے لایا ہوا باریک لباس یہاں کے صوف سے ہزار گناہ زیادہ عزیز ہے اور بھی ایسے کئی جملے تاریخ میں خود آئمہ سے مٹی اور زمین کی محبت میں مرقوم ہیں خیر یہ جملہ ہائے معترضہ تھے ماغوط نے "کاسک یا وطنی " میں درید الحم جو کہ شام کا معروف کامیڈین ہے کے ساتھ خود بھی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے وہابیت کے ہاں ان سب چیزوں کی بھلا کیا حثیت واہمیت ہوسکتی ہے اور سلیمۃ کی تاریخ و ثقافت کی قدامت سے انھیں کیا لینا دینا ہے ، وہ تو اپنے پیورٹن ازم کے جوش میں سب کو تباہ و برباد کرنے کے درپے ہیں ، سلیمۃ ان کے نزدیک مرتدوں اور اسلام کے دشمنوں کا شہر ہے ، جیسے وہ حماۃ کو بھی یہاں موجود قدیم ترین کنیسۃ یعنی کلیساؤں ، صوفی سنّی مزارات اور مساجد کی وجہ سے شرک و ضلالت کا گڑھ قرار دیتے ہیں اور وہ خود کو واپس اس دور میں پاتے ہیں جب فاطمیوں کی تحریک عروج پر تھی اور اسے کفر و ضلالت کی تحریک قرار دیکر اس کے خلاف جہاد فی سبیل اللہ کے فتوے دئے جارہے تھے اور اب سلیمۃ کے اسماعیلی باشندے نہ تو کوئی سلطنت رکھتے ہیں ، نہ وہ کسی ریاست کی تعمیر کے علمبردار ہیں ، وہ تو بمشکل اپنی روٹی روزی کرنے کے قابل ہوتے ہیں اور داعش ان کو اسلام کے لیے سب سے بڑاخطرہ قرار دیکر صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتی ہے شام کا صوبہ حماۃ جس کا دارالحکومت حماۃ شہر ہے جوکہ قدیم شہر ہے اور اس شہر کی تاریخ پیدائش 6970 قبل مسیح بتائی جاتی ہے اور یہ شام کا پانچواں بڑا شہر ہے جبکہ دیگر بڑے شہروں میں دمشق ، حمص ، حلب اور الیپو شامل ہیں - یہیں سے شام کا مشہور دریاء عاصی گزرتا ہے جوکہ اس خطے کا واحد دریا ہے جو کہ جنوب سے شمال کی طرف بہتا ہے اور یہ دریا بہار اللبوہ کی پہاڑیوں سے نکلتا ہے اور اللبوہ(عربی میں اس کا مطلب قلب ہوتا ہے اور یہ عبرانی زبان سے نکلا ہے اور اسی دریا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہی اصل میں لیونٹ دریا تھا ) شام کا ایک پہاڑی شہر ہے جہاں سات سو قبل مسیح تہذیب کے آثار پائے جاتے ہیں حماۃ اصل میں سارے کا سارا ماقبل مسیح ، مابعد مسیح اور پھر مابعد اسلام تہذیب و ثقافت کے حوالے سے بہت زرخیز خطّہ ہے اور اس خطّہ میں عبرانی ، سریانی اور عربی زبانوں نے بھی بہت سی ارتقاء کی منزلیں طے کی ہیں اور شام کا یہ صوبہ مختلف نسلوں اور زبانوں کے ارتقاء سے جنم لینے والی شامی عرب نسل کا مرکز ہے اور حماۃ صوبے میں سنّی ، شیعہ ، کرسچن ، اسماعیلی شیعہ اور اسی طرح عرب اور کرد آبادی موجود ہے میں بھی کہاں کھوگیا ، چاہتا ہوں کہ شام کی لینڈ سکیپ سے ناواقف دوستوں میں حماۃ جہاں داعش سے نجات کا آخری معرکہ لڑا جارہا ہے ، اس بارے میں اپنے پڑھنے والوں کو کچھ بنیادی معلومات بھی فراہم کردوں حماۃ دمشق سے 133 کلومیٹر اور حمص سے 45 کلومیٹر دور ہے - دمشق کے شمال میں حمص اور حماۃ واقع ہیں اور حماۃ کے گردونواح میں ایک چھوٹا سا شہر سلمیۃ بھی ہے اور یہ بھی بہت قدیمی شہر ہے ، جس میں آج اسماعیلی شیعہ فرقے کے لوگ اکثریت کے ساتھ آباد ہیں اور کئی صدیوں سے سلمیۃ اس شہر میں آباد چلے آرہے ہیں ، جہاں ان کی عبادت گاہیں بنی ہوئی ہیں اور وہ یہاں بہت امن و سکون سے رہتے آئے ہیں ، لیکن ان کا سکون اور آرام اب باقی نہیں رہا ہے کیونکہ وہابی -دیوبندی سلفی دھشت گرد تنظیم سلیمۃ کے دیہی علاقوں میں پہنچ چکی ہے اور اس شہر کی اسماعیلی آبادی کو شدید خطرہ لاحق ہے -کیونکہ داعش نے غیر وہابی -دیوبندی سلفی مسلمان فرقوں کو مرتد قرار دے رکھا ہے اور وہ ان کے سب مردوں کو زبح کرنے اور عورتوں کو لونڈیاں بنانے کو اسلامی فریضہ خیال کرتی ہے اگرچہ بشار الاسد کی فوج نے حماۃ شہر اور اس سے ملحقہ اکثر علاقوں پر دوبارہ سے کنٹرول حاصل کرلیا ہے لیکن سلمیۃ کے نزدیک اور مشرقی دیہی علاقوں میں اب تک داعش اور شام کی افواج کے درمیان لڑائی جاری ہے اور داعش نے مقامی آبادی کو دھشت زدہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے گلف عرب ریاستوں کا سرکاری کنٹرول میں موجود میڈیا اور ترکی کا رجب طیب اردوغان کا حامی میڈیا سلمیۃ شہر کے گرد منڈلاتے داعش کے سائے اور یہاں کی اسماعیلی آبادی کو درپیش خطرے کے بارے میں ایک سنگل کالمی خبر بھی شایع نہیں کررہا ہے اور نہ ہی وہ بشارالاسد کی افواج کی حماۃ صوبے کو داعش سے آزاد کرانے کے لیے فوجی آپریشن میں ہونے والی کامیابیوں کے بارے میں کوئی خبر شایع کررہا ہے ، جبکہ پاکستان کے اندر مڈل ایسٹ میں شیعہ کریسنٹ کی مفروضاتی سازشی تھیوریز پھیلانے والے بھی اسماعیلی آبادی کو درپیش بقا کے اس خطرے بارے کچھ بتانے سے قاصر ہیں ، کیونکہ ایسے نظریہ ساز اپنی تحریروں کی بنیاد زیادہ تر امریکی اخبارات اور الجزیرہ ، شرق الاوسط ، العربیۃ جیسے ٹی وی جینل و اخبارات کی ویب سائٹ پر ہائی لائٹ ہونے والی خبروں پر ہی رکھتے ہیں اور اس میں بھی اپنے پروجیکٹ کو ترقی دینے والے ایشوز پر ہی فوکس ہوتا ہے سلمیۃ کے لوگ کہتے ہیں کہ داعش ہمارے دروازوں پر آن کھڑی ہوئی ہے سلمیۃ حماۃ کے اہم ترین راستوں میں سے ایک راستے پر واقع ہے اور یہ بشارالاسد اور داعش دونوں کی فوجوں کے لیے اہم ہے اور یہ عدلیب و حماۃ شہروں کے عین درمیان میں واقع ہے اور سب سے اہم یہ کہ اس شہر سے حماۃ کا فوجی ہوائی اڈا صرف آدھے فاصلے پر ہے اور الیپو شہر کا مضافاتی قصبہ خانسیر بھی اتنے ہی فاصلے پر ہے جس سے الیپو شہر پر قبضہ آسان ہے السعن ، صبورۃ اور عقارب نامی قصبات جوکہ سلمیۃ کے شمال مشرق میں واقع ہیں اس شہر کی ڈیفنس لائن ہیں ان چھوٹے بدوی قصبوں کے خلاف جوکہ داعش کے کنٹرول میں ہیں اگرچہ کرنل سہیل الحسن کو الیپو سے بشار الاسد نے مغربی اطراف میں رہبۃ الخطاب اور مرہضۃ کو پھر سے کنٹرول میں لینے کے لیے بھیجا ہے لیکن ان علاقوں کے مقامی باشندے ابتک غیر یقینی کیفیت کا شکار ہیں اور ان کو ابھی پورا یقین نہیں ہے کا اگر داعش نے ان کے قصبوں پر حملہ کیا تو ان کے قصبون کا دفاع ہوبھی سکے گا کہ نہیں - مگر بشارالاسد کی فوج نے حماۃ کے مغربی سمت اور شمال میں مرق کا کنٹرول جو حاصل کیا ہے اس سے سلمیۃ کے لوگوں میں کچھ امید پیدا ہوئی ہے سلمیۃ کے گردونواح میں کچھ بدوی قصبات بھی موجود ہیں جہاں پر وہابیت تیزی سے گلف اور ترکی کی امداد سے پھیلائی گئی اور یہآن پر تکفیری قوتوں نے اپنا فوکس سلمیۃ کی اسماعیلی آبادی کے خلاف پروپیگنڈے پر رکھا جبکہ صوفی سنّی اسلام کے ماننے والوں کو لالچ اور جبر کے زریعے وہابیت اختیار کرنے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے اور داعش میں شامل عرب شامی بدو اس شہر کو دارالکفر کہتے ہیں اور اور وہ اس شہر میں موجود قدیمی ثقافتی ورثے کو کفر اور شرک و ارتداد کی نشانیاں قرار دیکر مٹانے کے درپے ہیں جبکہ یہ ٹاؤن فاطمی سلطنت کے پہلے خلیفہ اور بانی عبیداللہ المہدی کی جائے پیدائش ہے سلمیۃ وہ شہر ہے جہاں سے شامی انقلاب کے بڑے بڑے مظاہرے شروع ہوئے تھے اور ان مظاہروں میں شریک لوگوں نے بہت فخر سے کہا تھا کہ وہ کسی مذھبی پیشوائیت کے زیر اثر جمہوریت اور سماجی انصاف کی جدوجہد میں شریک نہیں ہوئے اور نہ ہی ان کے پیچھے کسی عرب وہابی ریاست یا امریکی سامراجیت سے فنڈ لینے والی کسی تنظیم کا ہاتھ ہے ، جبکہ اس مظاہرے میں شریک کئی ایک لوگ جام مئے لہراتے ہوئے بھی دیکھے گئے تھے اور اس شہر کے باسیوں نے اپنے باغی دانشورانہ ورثے پر فخر و مباہات کا مظاہرہ بھی کیا تھا اس شہر میں ایسے لوگ بھی تھے جو اسماعیلوں کے امام آغا خان کے کہنے پر بشارالاسد اور وہابی داعش کے درمیان ہونے والی جنگ میں غیرجانبدار بھی بنے رہے تھے ، لیکن یہ غیرجانبداری ان کو خاصی مہنگی پڑ گئی اور آج داعش ان کے دروازوں پر آن کھڑی ہوئی اور آغاخان تو وہاں آکر ان کو بچا نہیں سکتے ،لے دے کر شامی فوج ہے جس سے ان کو امیدیں وابستہ ہیں ، لیکن سلمیۃ کے گردو نواح میں جیسے السعن کے باسی ہیں وہ غیر جانبدار نہیں رہے بلکہ وہ داعش سے دست بدست لڑائی لڑرہے ہیں اور انھوں نے داعش کا راستہ روکا ہے نام نہاد اعتدال پسند ، ماڈریٹ اور جمہوریت پسند آزاد شامی فوج تو کہیں بھی نظر نہیں آرہی اور ان کو ملنے والا اسلحہ بھی اس کے کمانڈرز نے داعش کو بیچ دیا ہے اور ڈالر ہڑپ کرگئے ہیں اور غآئب ہوگئے ہیں ، میں نے اسامہ شہود کو جوزف دھر کا چار حصّوں میں شایع ہونے والا اوپن ڈیموکریسی ڈاٹ اوآرجی پر شایع ہونے والا آرٹیکل بھیجا اور اس سے پوچھا کہ اپریل 2014ء میں یہ آرٹیکل شایع ہوا تھا کیا وہاں حماۃ اور سلیمۃ میں کوئی انقلابی ملیشیا ہے جو وہاں کے لوگوں کو داعش سے بچاسکے اسامہ شہود نے الٹا مجھ سے سوال کرڈالا کہ کیا کسی اور جگہ کسی سوشلسٹ انقلابی ملیشیا داعش ، جبہۃ النصرۃ سے شامیوں کو بچاپائی ہے ؟ اس نے پوچھا کہ لوگوں کو کسی سوشلسٹ متبادل نہ ہونے کی وجہ سے کیا ہاتھ پر ہاتھ دھر کر اپنے زبح ہونے کا انتظار کرنا چاہئیے جبکہ داعش ان کو مرتد کہہ کر سوائے موت کا آڈر جاری کرنے کے اور کوئی آپشن چھوڑ نہ رہی ہو اور کیا ان کو اپنی ثقافت کی موت کا اںتظار کرنا چاہئیے ؟ اور جیسے آغا خان نے کہا تھا کہ بشار اور وہابی بنیاد پرستوں کی لڑائی میں غیرجانبدار رہیں اسی طرح غیرجانبدار ہوکر داعش کے آگے سرجھکا دینا چاہئيے ؟ پاکستان کے اندر بہت سے لوگ تنبیہ کررہے ہیں کہ کراچی سے لیکر صادق آباد تک اور پشاور میں افغان مہاجرین کے جلوزئی کیمپ تک داعش کے سیاہ جھنڈے لہرارہے ہیں لیکن سب کے سب اس تنبیہ کو خاطر میں نہیں لارہے اور ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ سامراج اور سرمایہ داری کے خلاف نعرے مار کر داعش کے اندر سے اور طالبان ازم کے اندر سے ہی ترقی پسندی پر مبنی مزاحمت کا سودا بیچنے کے لیے نکال لیا جائے کچھ لوگ شام کے انقلاب اور بہار شام کے ابتک زندہ ہونے اور اس کے پھر سے نمودار ہونے کی جھوٹی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں اور اس بنیاد پر یہاں پھیلتی وہابیت -دیوبندیت پر مبنی تکفیریت بارے ابہام پھیلاتے ہیں آخر میں ایک خبر اور بھی جو میرے لیے تو خاصی حیران کن تھی ، سنتے چلئے اور وہ یہ کہ ماروی سرمد فرقہ پرست سیکولر کی خانم لشکر جھنگوی کے سیکنڈ چیف اکرم لاہوری کی سگی بھانجی ہیں