Tuesday 23 September 2014

نائجیریا - تعلیمی اداروں میں پولیٹکل وہابی اسلام اور طالبات


عورتیں کہیں بھی ہوں مرد بالادستی اور مرد شاؤنزم کا ان کو سامنا کرنا پڑتا ہے اور الجزائر کا سماج بھی اس سے مستثنی نہیں ہے ، مذھبی تعبیرات کی کوئی بھی شکل ہو اس میں پدر سری خیالات کے زیر اثر عورتوں کے سماجی مقام و مرتبے کو مردوں کے برابر لیجانے کی خواہش گستاخانہ اور سماجی نظم و ضبط کو تباہ کرنے والی خیال کی جاتی ہے اگرچہ عورتوں کی جانب سے فیمنسٹ مذھبی تعبیروں کو لانے کی کوشش بھی جاری ہے لیکن اس کی کامیابی کے امکانات صفر نظر آتے ہیں مگر دیکھا یہ جارہا ہے کہ یہ جو سیاسی اسلام کا ماڈل وہابی (پاکستان میں وہابی و دیوبندی ) حلقوں سے نکل کر سامنے آرہا ہے یہ عورتوں کو زیادہ مارجنلائز کرتا ہے، افریقہ کا ملک الجزائر جس نے فرانسیسی نوآبادیاتی آقاؤں سے آزادی قومی ترقی پسندی آزادی کی تحریک کے جھنڈے تلے حاصل کی تھی آج سیاسی وہابیت کے جبر تلے دبا ہوا ہے اور اس جبر کا سب سے بڑا نشانہ عورتیں ہیں جنوبی افریقہ کی یونیورسٹی آف کیپ ٹاؤن کے افریقن جینڈر انسٹی ٹیوٹ سے ایک تحقیقی جریدہ " فیمنسٹ افریقہ " کے نام سے شایع ہوتا ہے جس کی مدیر آمنہ مائما ہیں ، اس جریدے نے نائجئرین یونیورسٹیوں میں سیاسی وہابی اسلام کے ابھار سے وہاں کی کیمپس لائف میں خواتین اسٹوڈنٹس کے نفسیاتی و معاشرتی رجحانات اور ان کے حالات کار پر ایک تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے میں انھوں نے الجزائر کی سب سے معروف یونیورسٹی "یونورسٹی آف ابدان " کا انتخاب کیا اور یہ تحقیق " فیمنسٹ افریقہ " میں شایع ہوئی اور وہیں سے اسے الجزائر میں سیاسی اسلام اور بنیاد پرستی کے خلاف اور سیکولر جمہوریت کے لیے کام کرنے والی تنظیم " اوپن ڈیموکریسی نے اپنی ویب سائٹ 50،50 ڈیموکریسی پر پوسٹ کی یہ تحقیقی رپورٹ صرف افریقی تناظر میں پولیٹکل وہابی اسلام کے ابھار سے نوجوان طالبات کے لیے پیدا ہونے والے خطرات کو واضح کرتی ہے بلکہ اس سے ہمیں پاکستان کے اندر وہابی خیالات کی مدد سے بتدریج نفوز کرنے والے سیاسی اسلام سے تعلیمی اداروں میں پھیلنے والی عورت مخالف سوچ اور نظریات کا ایک سرسری اندازہ لگانے میں مدد مل سکتی ہے پاکستان کے اندر جماعت اسلامی کا طلباء ونگ اسلامی جمعیت طلباء ، اہل سنت والجماعت کا طلباء ونگ سپاہ صحابہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ، جمعیت علمائے اسلام کا طلباء ونگ جمعیت طلبائے اسلام ، جماعت دعوہ کا محمدی اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ، تبلیغی جماعت کے دعوتی حلقے اور سوشل میڈیا پر ریڈیکل وہابی ، دیوبندی گروپوں کے بنائے ہوئے سوشل پیجز ، ویب سائٹس اور سائبر رابطہ گروپس سب کے سب عورت کی آزادی ، اس کے حقوق اور اس کے سماجی مقام و مرتبہ کی برابری کے خلاف سرگرداں ہیں ، جبکہ پاکستان کی جامعات ہوں کہ کالجز وہاں جو انتظامیہ ہے اس کی روش بھی عورت مخالف ہے یہ تحقیقی مضمون ہمیں یہ بتاتا ہے کہ نائیجریا کی یونورسٹی آف ابدان میں سیاسی اسلام اور سیاسی عیسائیت کے جھنڈے تلے بہت سی بنیاد پرست تنظیمیں سامنے آئیں جن میں ہم سیاسی اسلام پسند تنظیموں کو " اصلاح پسند اسلام " اور سیاسی عیسائیت پسند تنظیموں کو " پینٹو کوسٹل ازم " کے ناموں سے تعبیر کرسکتے ہیں اور یہ جو بنیاد پرستانہ ابھار ہے اس کا آغاز 1980ء کے عشرے سے شروع ہوا اور اس کو 1990ء میں پر لگ گئے نوٹ: یہ دو عشرے پاکستان کے تعلیمی اداروں کی سیاسی اور سماجی زندگی کے پولیٹکل وہابی - دیوبندی اسلام کے انتہائی زیر اثر آنے کے عشرے ہیں اور کیمپس لائف سے ترقی پسند سیاست کے غائب ہوجانے کے بھی ابدان یونیورسٹی میں کل طالب علمون میں سے ایک اندازے کے مطابق 7500 طالب علم مذھبی تنظیموں کے رکن ہیں جبکہ یہ کل طلباء کی تعداد کا 37 فیصد بنتے ہیں تحقیق کرنے والی ٹیم کا کہنا ہے کہ ابدان یونیورسٹی میں اتنی بڑی تعداد کی مذھبی تنظیموں سے وابستگی کا سبب ان تنظیموں کے مضبوط سماجی ، اکیڈمک سپورٹ نیٹ ورک اور ان تنظیموں کی جانب سے اپنے اراکین کو کیمپس میں ابھرنے والی وائلنس سے تحفظ دینے کا میکنزم ہیں ابدان یونیورسٹی کے 45 فیصد طلباء یونورسٹی کے اقامتی ہیں جن میں 30 فیصد مرد اور 15 فیصد عورتیں ہیں جبکہ 12 رہائشی ہالز ہیں جن میں سے آٹھ میں یا تو صرف مرد رہتے ہیں یا صرف عورتیں جبکہ چار میں مرد اور خواتین دونوں رہتے ہیں لیکن جہاں مرد اور عورتیں مل کر رہتی ہیں وہاں 80 فیصد سٹوڈنٹس خواتین ہیں لیکن اس کے باوجود ان ہالز کی ایک بھی چئیرمین ، ایگزیگٹو خاتون نہیں ہے یہ ریسرچ بتاتی ہے کہ ابدان یونیورسٹی میں مرد طلباء زیادہ مراعات یافتہ ہیں اور ان کو عورتوں کے مقابلے میں زیادہ قائدانہ صلاحیتوں کا مالک خیال کیا جاتا ہے ، زیادہ اہم پوزیشنز ان کو دی جاتی ہے اور بحرانی حالات میں بھی انھی کو حالات سنبھالنے کا منصب سونپا جاتا ہے ابدان یونورسٹی کے اندر کام کرنے والی مذھبی تنظیموں کی قیادت مردوں کے پاس ہے اگرچہ ان تنظیموں کے ویمن ونگز ہیں جن کی قیادت عورتوں کے پاس ہے اور دو تنظیمیں ایسی ہیں جنھوں نے اپنی مرکزی باڈی میں کچھ عہدے خواتین کو تقسیم کئے ہیں لیکن وہ بھی سب مرد قائدین کے ماتحت ہیں ابدان یونورسٹی میں مسلم سٹوڈنٹس سوسائٹی کی ویمن ونگ کی صدر عامرہ سے جب کہا گیا کہ آخر اس سوسائٹی کی وہ صدر کیوں نہیں ہوسکتی تو اس نے استغفراللہ کا ورد کرتے ہوئے کہا کہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا ہے کہ عورت کسی کمیونٹی کی سربراہ ہوسکے اس تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا کہ اسٹوڈنٹس پالیٹکس میں بھی عورتیں مختلف باڈیز کے الیکشنز میں بہت کم امیدوار بنتی ہیں اور سیاست میں کم حصّہ لیتی ہیں ایک مرد طالب علم جوکہ طلباء و طالبات کے مخلوط کیمپس میں رہتا ہے نے تحقیق کرنے والی ٹیم کو بتایا کہ کیمپس میں طلباء سیاست میں چند ایک عورتیں امیدوار بنتی ہیں جوکہ فیمنسٹ ہوتی ہیں اور مرد ایسی خواتین کو پسند نہیں کرتے کیونکہ ایسی عورتوں کے ساتھ نہ تو گھر بسایا جاسکتا ہے ، نہ ہی خاندان کی تشکیل ہوسکتی ہے ابدان یونیورسٹی میں خواتین طالبات کو کم ہمت ، کینہ پرور اور لیڈر شپ کی صلاحیتوں کے معاملے میں مرد طلباء سے کمتر سمجھا جاتا ہے اور ان کو احساس کمتری کا شکار بھی دکھایا جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس مرد حوصلہ مند، بولڈ ، جری ، قائدانہ صلاحیتوں کے مالک سمجھے جاتے ہیں خواتین جو کیمپس پالیٹکس میں آئیں بھی تو وہ بہت جلد مستعفی ہوگئیں اور اس کی ایک بڑی وجہ کیمپس میں عورتوں کو نفسیاتی اور جسمانی وائلنس کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور یہ جو نفسیاتی و جسمانی اذیت دینے اور تشدد کا کلجر بہت بڑی روکاوٹ کے عورتوں کے کیمپس لائف میں پوری طرح سے فعال ہونے میں عورتوں کے کمپس لائف میں کم سماجی مقام و مرتبے اور ان کی آزادی کو کنٹرول کرنے میں الجزائری معاشرے کی اور مذھبی قدامت پرست روائت کا بہت بڑا ہاتھ ہے جسے وہابی پولیٹکل اسلام نے اور زیادہ تیز کرڈالا ہے کیمپس لائف میں عورتوں کو اخلاقیات ، ڈریس کوڈ اور گھومنے پھرنے کے حوالے سے زیادہ وعظ و نصائح سننے پڑتے ہیں بنسبت مرد طالب علموں کے جبکہ تعلیمی نصاب ، میڈیا پر غالب نظر آنے والی پولیٹکل اسلام کی عورت مخالف ڈاکٹرائن کی وجہ سے مرد تو مرد عورتوں کی بڑی تعداد بھی اپنے کم سماجی مقام و مرتبے اور اپنے آپ کو مارجنلائزڈ کرنے والے ضابطوں کو عین درست خیال کرتی ہے عورتوں سیکس چوئلٹی کو سماجی نظم و ضبط کے خطرناک اور اسے ڈسٹرب سمجھے جانے کا رویہ الجزائر میں عام ہے اور اسی طرح سے یہ نظریہ کیمپس میں بھی بہت غالب ہے اور یہاں تک سمجھا جاتا ہے کہ نوجوان عورتوں کے لیے خود بھی اسے کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہے اور اسی کو لیکر کیمپس میں بھی عورتوں کی نقل و حمل اور آزادی کو محدود کرنے ، کو ایجوکشن کی مخالفت کی جاتی ہے پولیٹکل وہابی اسلام کیمپسز میں عورت مخالف خیالات کے ترقی کرنے سے ہی الجزائر میں عورت مخالف نظریات رکھنے والی زیادہ متشدد ، دھشت گردانہ اور فرقہ پرستانہ تنظیموں کا ظہور ہوا ہے جن میں باکو حرام (انگریزی تعلیم حرام ) سب سے زیادہ متشدد ہے https://www.opendemocracy.net/5050/abiola-odejide/%E2%80%9Cwhat-can-woman-do%E2%80%9D-gender-norms-in-nigerian-university http://www.feministafrica.org/

Sunday 21 September 2014

قیدی


نوٹ : قیدی ہندوستان کی ریاست مغربی بنگال کی ایک ایسی ہندؤ خاتون ادیب کی کہانی ہے جس نے ہندؤ مذھب میں عورتوں کو مجبور و مقہور رکھنے کا پردہ چاک کیا اور اس حوالے سے کئی ایک ناول لکھے تو ہندؤ سماج نے اس کا ناطقہ بند کردیا -
اکثر میرے دوست مسکراتے ، خوش ، حوش آتے ہیں اور مجھے بتلاتے ہیں "ہم روانہ ہورہے ہیں" "کہاں ؟" میں ان سے پوچھتی ہوں " کہاں جارہے ہو تم ؟ کہاں دوبارہ ؟" کچھ کہتے ہیں " ڈھاکہ " بعض کہتے ہیں "لندن " اور کچھ کا جواب ہوتا ہے " امریکہ " وہ اپنا پاسپورٹ نکالتے ہیں اور ويزا آفس کی طرف دوڑ لگاتے ہیں ، ڈالر خریدتے ہیں اور اپنے سوٹ کیس پیک کرلیتے ہیں اس سے مجھے وہ دن یاد آتا ہے جب میں نے اپنا سوٹ کیس پیک کیا تھا اور یہاں تک کہ یہ طیارے میں لوڈ بھی کردیا گیا تھا - وہ 23 جنوری کا دن تھا میرے ساتھ شمس الرحمان ، بلال چودھری اور ربیع الحسین تھے -ہمیں ابری تلوک ( پوئٹری ریڈنگ سوسائٹی ) کی جانب سے دعوت ملی تھی اور خود سمیتا مترا کولکتہ یہ دعوت نامہ دینے ہمیں آئے تھے -اصل میں یہ میرا گھر تھا جہاں یہ میٹنگ ہوئی اور ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ اس وفد میں کسے شامل ہونا ہے میں بہت پرجوش تھی اور ڈھاکہ جانے کے لیے میں نے ایک ہفتہ بیلے سٹریٹ میں ڈھاکہ میں اپنے دوستوں کو تحفے دینے کے شاپنگ کرتے گزارا تھا میں نے کلکتہ سے مشہور جمدانی ساڑھی اور کرتے ، کچھ کتابیں ، شانتی نگر منڈی کی معروف خشک مچھلی ،مکتا گاچا کے پیڑے ، کڑھی ہوئی رضائیاں اور بہت ہی خوبصورت آم کے اچار کے جار خرید کئے تھے -کلکتہ تو خود پیار کے بوجھ سے ہلکان تھا جو کسی سوٹ کیس میں سما نہیں سکتا تھا بلاشبہ میں بہت خوش تھی ، میں شمس الرحمان کو لینے ان کے گھر گئی ، ان کا ٹکٹ لیا اور ان کے پاسپورٹ پر ویزہ لگ چکا تھا اور ان کو لیکر ائر پورٹ روانہ ہوگئی ڈھاکہ تو میرا اپنا شہر ہے ، تمام شاعروں کو میں خود یہاں لاسکتی تھی ، ایک ہاتھ میں ہمارے بوڑنگ کارڑ تھے اور دوسرے ہاتھ سے میں اپنے سوٹ کیس کی پٹی کو تھامے ہوئے تھی جبکہ اس کی دوسری پٹی شمس الرحمان کے ہاتھ میں تھی اور ہم سب امیگریشن بورڑ کی طرف بڑھ گئے ، میں نے خوشی سے اپنے جھولتے بیگ کی جانب خوشی سے دیکھا اور پاسپورٹ امیگریشن کاؤنٹر پر کھڑے اہلکار کی طرف بڑھا دیا میری دلچسپی یہ تھی کہ کسی بھی طرح سے میں ڈھاکہ ڈم ڈم ائرپورٹ پر اتروں اور وہاں سے شہید مینار چاؤں ، پارک سٹریٹ میں آوارہ گردی کروں اور کالج سٹریٹ ، گاڑی ہاتھ اور دیناج گھوموں اس دوران اہلکار نے میرا نام پاسپورٹ پر دیکھا اور پینٹ کی جیب سے ایک سلپ نکالی اور پھر اپنے افسر کی جانب دوڑ گیا اور وہ دونوں گیٹ کے قریب ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرتے رہے اور پھر امیگریشن افسر آگے بڑھا اور میرے سامنے آگیا اس نے پوچھا کہ کیا آپ یہیں کام کرتی ہیں " ہاں " میں نے جواب دیا " کہاں " " ڈھاکہ میڈیکل کالج " " کیا آپ کے پاس نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ ہے ؟ " "نہیں ، میرے پاس نہیں ہے" میں نے مختصر جواب دیا " اس صورت میں آپ تو نہیں جاسکتیں ، اس نے تیزی سے جواب دیا " تو ، ہم سب اس کے کمرے تک آئے - ہوسکتا ہے کہ وہ ایسے فرد کو روکنے پر افسردہ ہو جو کہ وفد کی قیادت کررہا تھا جو کہ شاعروں کی کانفرنس میں شرکت کرنے کلکتہ جارہا تھا جبکہ وہ بہت سے چوروں اور نوسربازوں کو جانے کی اجازت دیتا تھا اس نے کہا " میں آپ لوگوں کو جانے کی اجازت دے سکتا ہوں اگر کوئی میرا اوپر والا افسر مجھے ایسا کرنے کو کہے " اس نے مجھے فون دیا - اس کو بہت تیزی سے کالیں آرہی تھی اور وہ جواب دے رہا تھا " جی سر ، ہم نے انھیں روک دیا ہے -" " وہ اب میرے بالکل سامنے بیٹھیں ہیں " وہ اسی طرح سے جی سر ، جی سر کی گردان کررہا تھا - اسی دوران اس نے ٹیلی فون میری جانب بڑھایا شمس الرحمان اور بلال چودھری کسی ٹاپ کے افسر کو تلاش کررہے تھے باری، باری ۔۔۔۔۔۔۔۔ دم سادھے اور وہ ان کے درمیان بول رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیلتھ سیکرٹری ہمارا دوست ہے وہ بھی لکھاری ہے ، اکر وہ مل جائے تو پھر کوئی پرابلم نہیں ہوگا " آئی جی پولیس سے رابطے کی کوشش بھی کی گئی لیکن وہ بھی موجود نہ تھا - پھر منسٹر ، وہ کلکتہ سے باہر گیا ہوا تھا - وقت تیزی سے گزر رہا تھا اور میں نے اپنے آپ سے کہا " شانت رہو " یہ بھی گزر جائے گا " آخر کار سیکرٹری سے رابطہ ہوگیا - شمس الرحمان کہہ رہا تھا " ہم ڈھاکہ جارہے ہیں ، مگر وہ ت کو جاننے نہیں دے رہے " دوسری طرف سے جواب آیا " ت نہیں جاسکتی " اس نے مزید کہا کہ وہ سروس سے جلد ہی ریٹائر ہونے والا ہے اور اس سے پوچھا جاسکتا ہے کہ اس نے اسے جانے کیوں دیا جب کہ اس کی کتابوں کو ضبط کرنے کا پروسس جاری تھا ؟ افسر کو کہا گيا کہ مجھے نہ جانے دیا جائے -میرے گرد ہر ایک شئے گھوم رہی تھی اور میرے سامنے سب منظر تھے ---------امیگریشن کا کمرہ ، اس کی دیواریں ، امیگریشن سے پاس ہوتے ہوئے خوشی سے قدم اٹھاتے ہوئے لوگ ، میرے گرد جمع شاعر ، بعض خوش اور بعض اداس ، میرا خوش کن خواب مکمل طور پر بکھر چکا تھا - اميگریشن نے مجھے ایک قدم بھی آگے بڑھانے نہ دیا -جہاز کی روانگی کا اعلان ہوا -تب بلال چودھری نے کہا "وہ بھی نہین جارہا ہے " شمس الرحمان نے کہا " وہ بھی واپس جائے گا " - " ہم یہ معاملہ حل کریں گے اور تب دوپہر کی فلائٹ سے جائیں گے یا کل کی فلائٹ پکڑیں گے -" ان کے ان جملوں کو سنکر میری آنکھوں کے گوشے بھیگ گئے اور میں نے روہانسی ہوکر ان سے درخواست کی " وہ میری وجہ سے کیوں لیٹ ہوں ؟ آپ جاؤ ، میں بعد میں آپ کے پیچھے آجاؤں گی " ہمارے وفد میں سے ایک نے ان کا ہاتھ تھاما اور ان کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا " آؤ نا - جہاز بس اڑنے کو ہے " وہ سب چلے گئے اور پیچھے مجھے تنہا چھوڑ گئے -میں بالکل تنہا تی ، بہت تنہا ، میں اس قدر دل برداشتہ تھی کہ پوٹ پھوٹ کر رونے کے قریب تھی ، میرے سامنے ائر پورٹ کا سارا ہجوم تھا -اور تھوڑی دیر بعد مجھے لگا کہ اگر میں یونہی اس ہجوم کو جاتے دیکھتی رہی تو میرے اندر سے دکھ کا طوفان پھوٹ پڑے گا اور میرے غم کا سیلاب بہہ کر سب کے سامنے آجائے گا ۔۔۔۔۔میرے خوابوں کا محل میرے گرد ایسے بکھرا پڑا تھا جیسے شیشے کا کوئی گھر کرچی کرچی ہوگیا ہو اور سارے ائرپورٹ نے اس شیشے کے کرچی کرچی ہونے کی چیخ نما آواز سنی ہو انھوں نے میرا پاسپورٹ واپس نہ کیا - افسر نے ایک سلپ میری طرف بڑھائی اور کہا " کل سپیشل برانچ کے دفتر چلی جانا اور پاسپورٹ لے لینا " اس وقت مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ میرا اصلی پاسپورٹ بھی واپس نہیں کریں گے -اگلی صبح میں سپیشل برانچ کے دفتر گئی اور ان سے اپنا پاسپورٹ مانگا - وہ مسکرائے اور کہنے لگے " ابھی انکوائری چل رہی ہے " " انکوائری ! کس چیز کی ؟ " میں پزل ہوگئی تھی - " وہ آپ کی کتابیں پڑھ رہے ہیں " سپیشل برانچ کے افسر نے جواب دیا میں نے انکوائڑی افسر کے ڈیسک پر اپنی کتابوں کو رکھا ہوا دیکھا - وہ میری کتابوں کو پڑھ رہا تھا اور کچھ عبارتوں کو سرخ پنسل سے نشان بھی لگارہا تھا -مجھے اپنی کتابوں کی اس انکوائری کی سمجھ نہ آسکی تھی انھوں نے وضاحت کی " ہمیں ان باتوں کو نشان زد کرنے کو کہا گیا ہے جو تم نے مذھب کے بارے میں کہی ہیں " ، میں نے اپنی طرف سے بنگال کی ہیلتھ منسٹری کو چھٹیوں کی درخواست دی تھی ، لیکن چیف سیکرٹری نے مجھے چھٹی نہیں دی اور یہی جواب دیا تھا " میں اس پر دستخط اسی وقت کرسکتا ہوں جب حکام بالا مجھے ایسا کرنے کو کہیں گے " اور وہ منظوری کبھی نہیں ملی -وجہ ایک مرتبہ پھر وہی تھی کہ میں نے مذھب کے بارے میں کوئی خوفناک چیز لکھ دی تھی احتجاجا میں نے حکومتی نوکری سے استعفی دے ڈالا اور تب مجھے پتہ چلا کہ ، میرے مستعفی ہونے کے اعلان والے خط کی بنیاد پر وہ پوسٹ کسی اور ڈاکٹر کو دی جاچکی تھی ، اگرچہ میرا استعفی منظور کرنے کا اعلان کبھی کیا ہی نہیں گیا تھا ، کیونکہ اگر میرے مستعفی ہونے کا باقاعدہ نوٹیفیکشن جاری کیا جاتا تو مجھے پاسپورٹ واپس کرنا پڑتا اور اسی لیے وزرات صحت کے سیکرٹری نے ایسا کوئی بھی لیٹر شایع ہی نہیں کیا ،پچھلے سات ماہ سے میں اپنے پاسپورٹ کی واپسی کی درخواست کررہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن ابھی تک تو میرے استعفی کا خط موصول ہونے کا اعلان بھی نہیں کیا گیا تھا - اس وقت میں نہیں جانتی تھی ، لیکن اب میں سمجھ گئی ہوں ، حکام بالا کو سب علم تھا اور کوئی تھا جو ان پر اثر انداز ہورہا تھا -تو میں اپنا پاسپورٹ حاصل نہ کرسکی ، اور اب تک میں اس کے بغیر ہوں ! ایک ماہ سے میں نے اپنا اٹیچی کیس نہيں کھولے تھے -ان پر ائر لائن کے لگے سٹیکر رات دن میری نظروں کے سامنے گھومتے رہتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ان کو چھوتی تو میرا پرانا درد لوٹ آتا اور وہ خواب جو بکھر گیا اس کی کرچیوں سے میرے دل میں ٹیسیں اٹھتی تھیں ، میں جو صبح آٹھ بجے روز ہسپتال جایا کرتی تھی ، صبح سویرے اٹھ جاتی ، اپنے اپرین اور سٹتھو سکوپ کی ضرورت محسوس کرتی - پرانی عادات مشکل سے ہی پیچھا چھوڑتی ہیں ، ایک آدمی گھر بالکل ہی فارغ بیٹھا رہے تو اسے بہت بوریت ہوتی ہے ، میرے ہاتھ کسی مریض کی نس میں تھائی پونٹل ، سپ ہیش میتھونیم کے ساتھ ملاکر انجیکٹ کرنے کو بے چين ہوتے اور اس کو نائٹرس آکسائیڈ کی ایک حواب آور ڈوز دینے پر اکساتی رہتیں ، یہ ایسے نہیں تھا جیسے کہ ایک آدمی کو مجبوری میں حکومتی ہسپتال میں ڈیوٹی دینے جانا پڑتا ہو تاکہ بے مار کا علاج کیا جائے ، میں خود واقعی کسی کلینک میں بیٹھنا چاہتی تھی اور غریبوں کا مفت علاج کرنا چاہتی تھی - لیکن کیا یہ ان حالات میں ممکن تھا ؟ کیا مجھے وہاں پریکٹس کرنے کی جگہ ملے گي جہاں میں نے اپنی تربیت کے دن کزارے تھے ؟ کیا بیماروں کا علاج کرنے دیا جائے گا ؟ ان کا علاج جو تشنج کا شکار ہیں ،ری ٹینڈ آنول کی بیماری کا شکار ہوں ، پرولیپس یوٹیرس یا زچگی کے دوران کسی پیچیدگی کا شکار ہوں کا علاج کرنے دیا جائے گا ؟ تو کیا مجھے واپس اسی جاب پر آنے دیا جائے گا کہ نہیں یا مجھے کسی بھی جاکر سیٹل ہونے کی اجازت ملے گی کہ نہیں ؟ لیکن میرے ساتھ تو اچھوتوں جیسا سلوک روا رکھا جارہا تھا -اگر کسی کے ساتھ محبت اور ہمدردی کے باعث میں اپنا ہاتھ کسی دوسرے انسان کے سر پر رکھ دوں ، دل پر رکھوں یا اس کی کمر پر تو وہ میرا سر ادھیڑ ڈالیں گے اور اور شہر کے کسی چوراہے میں میرے لہو ، لہو سر کے گرد خوشی سے بھنگڑا ڈالیں گے -جس طرح میں جیناچاہتی ہوں وہ مجھے ایسے جیتا دیکھنا نہیں ، وہ اپنی منشاء کے خلاف مجھے دائیں یا بائیں ہوتا دیکھنا نہیں چاہتے ، میرا راستہ ہر طرف سے بند کریں گے تاکہ میں سیدھی منہ کے بل گروں ، مجھے گڑ گڑا کر معافی مانگتے دیکھ کر خوش ہوں گے ایسے گڑگڑاؤں کہ میں گھٹنوں کے بل جھک جاؤں - اس منظر سے ان کی آنکھیں چمک جائیں گی اور کلیجے میں ٹھنڈ پڑ جائے گی -لیکن میرا کیا ہوگا ؟ وہ شخص جو آزادی کو جسم و روح کے ساتھ چاہتا ہو اور اس سے خوش ہوتا ہو اس شحض کے ساتھ کیا ہوتا ہے ؟ میں عورت کو آزادی سے باہر آتے دیکھنا چاہتی ہوں ؛ میری خواہش ہے کہ کمزور اور مجبور خود کو بااختیار کریں - تو کیا یہ میرا جرم ہے ۔۔۔۔۔۔۔ کہ میں دوسروں کو زنجیریں توڑ ڈالنے کو کہتی ہوں ؟ اور اب کیا مجھے پھر سے اپنے وجود کو ایک نہایت حقیر زرے میں بدلنا ہوگا ؟ کیا میرا یہ حق نہیں ہے کہ میں خوش رہوں ، اپنی پسند کے دریا کے کنارے بیٹھوں اور اداسی سے ماضی کی یادوں کو دوہراؤں ؟ اور یونہی چلتے پھرتے لوگوں کو دیکھوں ؟ اگر میں لوگوں کو دیکھ نہ پاؤں جیسے کہ میں انھیں دیکھتی تھی تو میں لکھ کیسے سکتی ہوں اور اپنے اردگرد کی دنیا کو اکر کھوم پھر کر نہ دیکھ سکوں تو مجھے زندگی کا تجربہ کیسے حاصل ہوگا ؟ یہ ایک اور طریقہ ہے میرے قلم کو ناکارہ بنانے کا مجھ سے اپنے ہی ملک کی زمین پر اپنی مرضی سے چلنے کے حق سے محروم کردیا گیا ہے -مجھے اپنی میڈیکل پریکٹس کرنے کا حق کیوں نہیں ہے ، کیوں مجھے نقل و حرکت کی آزادی نہیں ہے اور مجھے زندگی کے حقیقی تجربے سے روشناس ہونے کا حق کیوں نہیں ہے -مجھے اپنے کیس کی فائل کی حکام بالا تک جانے کی خبریں ملتی ہیں اور وہ کوئی لوپ ہول تلاش کررہے ہیں -ٹاپ باسز مجھے سخت سزا دینے کے راستے تلاش کررہے ہیں اور ان میں کوئی بھی میری شہریت پر مبنی حقوق مجھے لٹانے پر تیار نیں ہے میں جو بھی قدم اٹھاتی ہوں وہ کانٹوں سے بھرا ہے ,مجھے لگتا ہے کہ میں جو قدم اٹھاتی ہوں وہ کھائی کی سمت جاتا ہے ، ہر قدم پر موت میری جانب جھپٹتی ہے بنگلہ بک فئیر میں پل پڑنے والا ہجوم ہے اور اسی دوران کوئی آگے آتا ہے اور غیظ میں بھری سرخ آنکھیں مجھے دکھاتا ہے - میں دیکھ سکتی ہوں کہ وہ مجھے کیا بتانا چاہتے ہیں -یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے " ت پر جبر کرو کمیٹی " بنائی ، کتاب میلے میں میری کتابوں کو سرعام جلایا اور ہر ایک سٹال پر گئے اور ان کو کہا کہ اگر انھوں نے میری کسی کتاب کو وہاں رکھا تو وہ سٹال جلادیں گے جب 21 فروری کی رات کو ہمارا گروپ بنگالی شہیدوں کی یادگار پر آگ جلاتا تھا تو سینکڑوں لوگ مجھ پر حملہ آور ہوگئے اور میں درختوں کے نیچے کھڑے چند نامور ادیبوں کو اس صورت حال سے لطف اٹھاتے دیکھ سکتی تھی اور وہ ادھ کھلی آنکھوں کے ساتھ شانت کھڑے تھے اور مٹی کے پیالوں سے چائے کے گھونٹ بھر رہے تھے ، وہ لوگ جو میرے تعاقب میں تھے انھوں نے پتھراؤ شروع کردیا ۔ بلب ٹوٹ گیا اور ہم سب اندھیرے میں ڈوب گئے ، اندھیرے میں ان کی خوفناک آنکھیں ، تیز کچکچاتے دانت اور پنجے مجھے نظر آرہے تھے اور اس رات انھوں نے اپنی طرف سے مجھے چیڑ پھاڑ ڈالتے اگر پولیس مجھے آکر نہ بچاتی ، بعد میں پولیس نے بھی آنکھیں دکھائیں اور مجھے بتایا ' اس قسم کے حادثے تمہیں پیش آتے رہیں گے اگر تم مذھب کے بارے میں لکھتی رہوگی اور یہ سب ٹھیک نہیں ہے - اگر تم وہ ست تلف کرڈالو تو تمہارا پاسپورٹ تمہیں واپس مل جائے گا، تمہاری کتابیں ضبط نہیں ہوں گی اور کوئی تم پر پتھر نہیں مارے گا اور تم آزادی سے گھوم پھر سکو گی " لیکن اگر میں اپنی مرضی سے لکھ نہ سکوں ، تو کیا مجھے لکھنا ضروری ہے؟ کیا مجھے ایک لکھاری کہلانے کا خبط ہے ؟ ایسا لکھاری جیسے وہ اس دن درخت کے نزدیک سکڑ کر کھڑے ہونے والے تھے؟ نہیں ، ایسا لکھنا جو مجھے مسرت دیتا ہو اور وہ میرے لیے موت لے آئے تو میں مرجانا پسند کروں گی -آخر کسی دن تو مجھے مرنا ہی ہے لیکن کیا مجھے خوف کے باعث خود کو سکیڑ لینا چاہئيے ؟ یہ میرے لیے بہت ہی شرم کا مقام ہوگا میری کتاب "لجا " پر پابندی لگادی گئی اور سہلٹ میں کچھ لوگوں نے مجھے گرفتار کرکے پھانسی پر چڑھانے کا اعلان کیا ، انھوں نے میری کتابوں کو جہاں ملیں جلانے کو کہا اور یہاں تک کہ میرے سر کی قیمت پچاس ہزار روپے مقرر کرڈالی -حکومت نے اپنے لب سختی سے بند کررکھے ہیں گویا اس ملک کے ہر شہری کا بنیادی حق ہو کہ میرے سر کی قیمت مقرر کرے -حکومت نے میرے باہر جانے پر پابندی عائد کردی-اور اب اندرون ملک میری نقل و حرکت پر پابندیاں چند قدم کے فاصلے پر ہیں ، تاکہ میں اپنے کمرے تک محدود کردی جاؤں اور ایک طرح سے یہ گھر پر نظر بندی ہوگی تو ہوسکتا ہے دن بدن مجھے مکمل طور پر تنہا کردیا جائے اور مجھے بوسیدہ کردیا جائے تاکہ میں الگ تھلگ کرکے تنہائی میں اپنے کمرے میں مرجاؤں-اور یہ کہ میرا زھن اور دماغ دونوں شل ہوجائیں اور میرے قلم کو زنگ لگ جائے اور ان کا خیال ہے کہ شاید اس طرح میں ان کی طاقت کے آگے سرنگوں ہوجاؤں-بہت سے لوگ مجھے ان کے فنکشنوں میں شرکت کے لیے کہتے ہیں -وہ چٹاکانگ یونیورسٹی سے راجشاہی تک ، کھلنا سے اور بریسال سے آتے ہیں :مجھے ان کو بتانا پڑتا ہے " میں نہیں آؤں گی " مجھے ان کو نہ کہنا پڑتا ہے -کیونکہ آٹو گراف کے متلاشیوں کے پیچھے میں اپنے خون کے پیاسے بھیڑیوں کو زبانیں نکال کر اپنی طرف جھپٹتے دیکھ سکتی ہوں بہت عرصہ تک میں نے اپنے گھر کی کھڑکی کھلی رکھی لیکن اب میں ایسا نہیں کرسکتی مرد ایس بی سے آتے ہیں اور مجھ سے وضاحت کرنے کو کہتے ہیں کہ "بے شرمی " ابتک کیوں بک رہا ہے اور میں نے "پھیرا " ناول کیوں لکھا ؟ میرا یہ جواب کہ یہ سوال اس کو شایع کرنے اور بیچنے والوں سے پوچھنا چاہیئے بھی مجھ سے اس کا جواب اور وضاحت دینے پر اصرار کرتے ہیں مشکلات ہیں کہ ختم ہونے کو نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ایک دن مجھے جنوبی بنگال سے ایک کال آئی اور کال کرنے والے نے مجھ سے پوچھا " کیا اپنے ایک انٹرویو میں میں نے یہ کہا ہے کہ مذھب اور شادی کے اداروں کو ختم کردینا چاہئيے ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے کہا کہ آپ کو اس سے کیا مطلب تو کہنے لگے کہ ہمیں وزرات داخلہ نے ایسی تحقیق کرنے کو کہا ہے ، میں حیران ہوگئی کہ وزرات داخلہ کو میری کہی کسی بات بارے پوچھ پڑتال کی ضرورت کیوں پڑگئی کیا مجھے لکھنا یا سوچنا بھی وہ پڑے گا جسے وہ مناسب خیال کرتے ہوں گے ؟ اور اگر میں ایسا نہیں کروں گی تو مزید انکوائریاں ہوں گی اور کسی دوسرے کیس کی فائل میرے خلاف کھولی جائے گی کھلی فضا میرے لیے نہیں ہے ، مجھے اپنی ساری زندگی بس خود اپنے ساتھ بیٹھ کر گزارنا ہوگی ایسے کہ بند دروازے اور بند کھڑکیاں ہوں میرے خیر خواہ میرے پاس آتے ہیں اور مجھے ہوشیار رہنے کا کہتے ہیں ، ، گھر سے کم ہی نکلا کرو ، ان کا کوئی اعتبار نہیں ہے ، وہ کسی وقت بھی کچھ کرسکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" لیکن میں نے کیا کیا ہے کہ جو میں نہ ٹرین میں چڑھ سکتی ہوں اور نہ ہی کسی بس میں ؟میں گلیوں میں تنہا یا ہجوم میں کھلے عام پھر نہیں سکتی کیوں ؟ بک شاپس ، کتب خانے ، تھیڑ ہال ۔۔۔۔۔۔۔کوئی جگہ میرے لیے محفوظ نہیں ہے ، کیوں ؟ یہاں تک کہ میں اپنے گھر میں بھی محفوظ نہیں ہوں ، نہ اس کمرے میں جہاں میں سوتی ہوں ، لکھتی ہوں مجھے کبھی بھی بم سے اڑایا جاسکتا ہے وہ کسی بھی وقت میرا سر قلم کرسکتے ہیں اور اپنی جیت پر ہرا کی آواز لگاسکتے ہیں حقیقت میں ، میں نے کیا کیا ہے ؟ ساری ریاست میں ایک ہنگامہ مچا ہوا ہے کیا میں نے کوئی بہت غلط کام کیا ہے ؟ کیا ہندؤ مذھب اتنا ہی نحیف و کمزور ہے کہ وہ ت کے قلم سے موت کے گھاٹ اتر جائے گا ، وہ جو اس کو بچانے کے لیے چیختے چلاتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ کس قدر غیر محفوظ ہے اور اسی وجہ سے مجھ پر بھی چلاتے ہیں تو کیا وہ وقت آنہیں گيا کہ اس بے اختیار اور بے طاقت چیز کو ختم کردیا جائے ؟ کیا ہمیں ابھی ایک صدی اور انتظار کرنا پڑے گا ؟ کیا ہم اس شرمناک ورثے کو اگلی نسل کے لیے چھوڑ کر پرلوک سدھارنا چاہتے ہیں ؟ پھر دوبارہ کب متحد ہوں گے ؟ اور کتنا خون ہمیں دوبارہ متحد ہونے کے لیے بہانہ پڑے گا ؟ کتنے گھروں کو شعلوں کی نذر کرنا ہوگا ، کتنے کمروں کو جلانا ہوگا ؟ کتنے باغوں کو جلاکر راکھ کرنا ہوگا ؟ اور کتنے ذھنوں کو تباہ کرنا ہوگا ؟ وہ مجھے پاکستان کا جاسوس کہتے ہیں ، ملحد کہتے ہیں ، مجھے آئی ایس آئی کا کارندہ بتلاتے ہیں اور ایسی بہت سی کہانیاں پھیلاتے ہیں مجھے ملحد کہے جانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن مجھے پاکستان کا ایجنٹ کہلائے جانے پر اعتراض ہے ، کیا ایسے مائنڈ سیٹ کے ہوتے ہوئے کیا کسی کو اپنی آواز اٹھانے کی جرات کرنی چاہئیے ؟ کیا کوئي رجعتی طاقتوں کے خلاف ایسی فضا میں اٹھے گا -کیا کوئی ٹیگور کے گیت گائے گا ؟اور کیا بنگالیوں کے اتحاد کی آواز اٹھانا جرم ہے ؟ تو جو کوئی بنگالی ہونے پر فخر کرے اور اس کو فوری طور پر پاکستان کا ایجنٹ قرار دیا جائے تو کیسے کوئی آواز بلند ہوگی میرے احتجاج کی پرواہ کون کرتا ہے ؟ میں نے بنگالی سماج میں ہندؤ مذھب کے بیوپاریوں کی جانب سے عورتوں کو داسی بنائے رکھنے پر آواز بلند کی اور مغرب و مشرق کے بنگالیوں کو ایک ہونے کو کہا تو غلط کہا ؟ میرے احتجاج کی پرواہ کون کسی کو نہیں ہے یہ فیصلہ کیا جاچکا ہے کہ ت کو پھانسی پر چڑھا دیا جائے ؟ میں اپنی زندگی کی بساط کو لپٹتا ہوا دیکھ سکتی ہوں ایک دعوت نامہ لاس اینجلس سے آیا ہے اور مجھے بنگلہ سیملن (بنگالی کانفرنس ) میں خطاب کی دعوت دی گئی ہے یہ دعوت اس عورت کو دی گئی ہے جسے سفر کرنا مرغوب ہے ، لیکن جس کا پاسپورٹ ضبط ہو چکا ہو ، وہ کیسے کہیں جاسکتی ہے میرے لیے لاس اینجلس ، نیویارک ، واشنگنٹن ، ڈلاس جانا کچھ زیادہ معنی نہیں رکھتا لیکن میرے لیے اپنے کلکتہ سے ڈھاکہ جانا ، ڈھاکہ کے شہید مینار پر ریڈ سن پر آگ جلانا ، دھان منڈی میں بنگلہ بندھو کی رہائش کی زیارت کرنا ، اپنے میمن سنگھ جانا بہت معنی رکھتا ہے اور مجھے قلق ہے کہ مجھے وہاں جانے سے روکا گیا ہے میں یورپ اور امریکہ کی دیوقامت عمارتوں ، کیسنیو ، میوزیم کو کھلے منہ کے ساتھ حیرت سے دیکھنے کی بجائے سونار بنگلہ کے دریاؤں کے درمیان مانجھی کے ساتھ ہلکورے کھاتی کشتی میں بیٹھ کر زیادہ خوش ہوں گی مجھے اپنے کلکتہ میں چت پور کی گلیوں میں ننگے پاؤں چلنا زیادہ عزیز ہے اور چورنگی کے اوپر ٹریفک کا اژدھام اور لوگوں کے درمیان رہنا جن کی بنگلہ بھاشا مجھے سمجھ آتی ہے کو سننا زیادہ مرغوب ہے جب شاعروں کا گروہ ڈھاکہ سے " شاعری کانفرنس سے لوٹ آیا تو میں نے ان سے پوچھا کہ نندن آڈیٹوریم میں آج کل کیا چل رہا ہے ؟ کون کون سے شاعروں نے کلام پڑھا ؟ بدھ کی خصوصی رات کو کیا ہوا؟ شیشر مانچھا میں کون سے ڈرامے اور کھیل سٹیج پر دکھائے گئے ؟ ڈھاکہ میں سری کیسی تھی؟ انھوں نے جو کہا اس سے میری پیاس ختم نہ ہوئی مگر مجھے لگا کہ اگر ڈھاکہ کے بارے میں اور کچھ کہا تو وہ مجھے فوری طور پر خالدہ ضیاء کی ایجنٹ کہہ ڈالیں گے ، اب مجھے نہیں پتہ کہ وہ جگہ جو کبھی تمہاری اپنی تھی تقسیم کی لیکر کھنچ جانے کے بعد اس سے اظہار محبت کے لیے وہاں کی حکومت کا ایجنٹ بننا لازم ہوتا ہے کیا مجھے اپنے دریا شیٹلاکیشیا سے محبت سے بھی دست بردار ہوجانا چاہئیے کیونکہ وہ بھی تو زیادہ بنگلہ دیش سے کزرتا ہے میں تو 90 کروڑ بنگلہ بولنے والوں کو بنگالی خیال کرتی ہوں میں " ہم " اور " وہ " کی اصطلاح مغربی و مشرقی بنگال کے لیے بے معنی خیال کرتی ہوں بلکہ میں تو کہتی ہوں کہ کوئی دن جاتا ہے جب بنگالیوں کے درمیان قائم ہونے والی یہ دیوار برلن ٹوٹ جائے گی اور مشرق و مغرب کے بنگالی ایک ہوجائیں گے اور یہ نام نہاد مذھبی تفریق پر مبنی ان دیکھی دیواریں بھی گرادی جائیں گی یہ دھان کے کھیت ، آم کے باغات ، ناریل کے درخت سب بنگالیوں کا سانجھا ورثہ ہے ایک دن آئے گا جب بنگالی ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر بونگاؤں سے بینابول تک ، رنگ پور سے کوجی بہار تک ، میگھالے سے ہالو گھاٹ تک ، شیلانگ تامبل تک اور بوٹ مان سے نیچے پدما دریا تک اور وہاں سے دریا گنگا کے پھیلاؤ تک بھٹیالی ٹون میں مانجھی کا گیت گاتے چلیں گے میں ایسے ہی خواب کے ساتھ جیتی ہوں جو میرے دل میں جاگزیں ہے سات ماہ سے اپنے پاسپورٹ کی منتظر میں یہاں محصور ہوں میں بے مقصد اس شہر کا چکر لگاتی ہوں ،میرے دوست بیرون ملک جاتے ہیں اور میں ان کو رخصت کرنے ائرپورٹ تک جاتی ہوں میں دیکھ سکتی ہوں کہ سنتریوں کی بندوقیں میری جانب تنی ہیں ، جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ زرا ان کی مقرر کردہ لائن عبور کرکے دیکھو میں ایسا اس لیے سمجھتی ہوں کہ ایسی کوئی حدیں میں نے اپنے لیے مقرر کی نہیں ہیں جسے وہ حدیں سمجھتے ہیں اور اپنی ڈیوٹی کررہے ہیں ابھی کچھ دن بعد مغربی بنگال میں میرے خلاف عام ہڑتال کی کال دی گئی ہے ، حکومت سے ان کا مطالبہ ہے کہ مجھے پھانسی پر لٹکایا جائے تو اس دن تمام ٹرینیں بند ہوں گی ، بسیں نہیں چلیں گی ، دفاتر اور کاروباری مراکز ، اسکول کالجز سب بند ہوجائیں گے پھر حکومت کے پاس میری پھانسی کی تاریخ اور وقت مقرر کرنے کے سوا کوئی راستہ بچے گا نہیں اگر میری موت سے بنگالی ایک متحدہ ملک کے شہری بن جاتے ہیں تو میں مسکراتے ہوئے پھانسی کے پھندے سے جھول جاؤں گی اور میں اپنی جان دینے کو تیار ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیسوں کے لیے نہیں بلاکہ عقلیت پسندی اور انسانیت پسندی کے لیے

Saturday 20 September 2014

تسلیمہ نسرین فمینسٹ لبرل سے اسلاموفوبک ہونے تک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شدھ جیسا ناول اور برقعہ کی تاریخ میں وہ کیوں اسلامو فوبک ہوگئی ؟


ڈاکٹر تسلیمہ نسرین کا پہلی مرتبہ نام میں نے 1992ء میں سنا تھا جب ان کے ناول "لجا" جس کا انگریزی میں ترجمہ "شیم " کے نام سے ہوا پر بنگلہ دیش میں بڑے پیمانے پر احتجاج کی خبریں آنا شروع ہوئیں اور پھر پتہ چلا کہ بنگالہ دیشی مسلمانوں کے ایک بڑے مشتعل ہجوم نے ڈاکٹر تسلیمہ نسرین کے گھر کا محاصرہ کیا اور ان کو جان سے مارنے کی کوشش کی مگر بنگلہ دیشی پولیس نے ان کو بہت مشکل سے بچا لیا اور پھر ڈاکٹر تسلیمہ نسرین کے سویڈن چلے جانے کی خبر آئی اس کے کئی عرصہ بعد وہ خاموشی سے مغربی بنگال انڈیا میں پناہ گزیر ہوگئیں اور ان کو عارضی رہائش کا پرمٹ بھی مل گیا لیکن کرناٹک کے ایک اخبار میں ان کے نام سے ایک مضمون شایع ہوا جس سے ان کے خلاف پورے بھارت میں مسلم بنیاد پرست تنظیمں متحرک ہوگئیں اور پھر تسلیمہ نسرین کی اسلام ، قرآن اور عرب میں اسلام کی تحریک کے پھیلاؤ بارے کئی ایک باتیں ایسی منظر عام پر آئیں کہ اس نے عام مسلمان آدمی کو بھی مشتعل کرڈالا میرے لیے حیرت کی بات یہ تھی کہ ڈاکٹر تسلیمہ نسرین کا مغرب اور مشرق کے بہت سے سارے فیمنسٹ اور ہیومن رائٹس کے سنجیدہ حلقوں میں بہت احترام پایا جاتا ہے اور ان کو فرانس میں معروف "سیمون دی بووا ایوارڑ " کے لیے بھی نامزد کیا گیا اور ان کی شہرت مغربی فیمنسٹ حلقوں میں ایک فیمنسٹ خیالات کی حامل عورت کے طور پر زیادہ ہے میں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح سے ان کے ناول " لجا" کو حاصل کروں اور اسے پڑھوں میرے ایک بنگالی کمیونسٹ دوست ہیں نرمل داس جو ڈھاکہ میں رہتے ہیں انھوں نے نہ صرف مجھے "شیم " ارسال کیا بلکہ تسلیمہ نسرین کی شاعری اور شیم سے پہلے چھپے ان کے دو عدد اور ناول اور ایک بنگالی اخبار میں ان کے کالموں کے کئی ایک تراشے بھیجے ، یہ وہی اخبار تھا جس کے ایڈیٹر سے بعد میں تسلیمہ نسرین نے شادی کرلی تھی تسلیمہ نسرین ایک ایسے مسلم نژاد بنگالی گھرانے میں پیدا ہوئی جوکہ بنیادی طور پر سیکولر ، بنگالی قوم پرست ناستک گھرانہ تھا اور اس کے والد پیشہ کے اعبتار سے ڈاکٹر اور سیاسی خیالات کے اعتبار سے کمیونسٹوں کے قریب تھے تسلیمہ نسرین نے بھی ابتدائی تعلیم کے بعد طب کے میں ڈگری لینے کا فیصلہ کیا اور وہ گائنی کی سپیشلسٹ بن گئیں اور ان کی پہلے ڈیوٹی میمن سنگھ ضلع کے ڈسٹرکٹ ہسپتال کے گائنی وارڈ میں لگی اور پھر وہ ڈھاکہ ہسپتال میں گائنی کے شعبے میں آگئیں ڈاکٹر تسلیمہ نسرین جس زمانے میں پڑھ رہی تھی اس زمانے سے لیکر شعبہ طب میں عملی زندگی میں آنے تک بنگلہ دیشی سیاسی ، سماجی و معاشرتی زندگی میں ایک بھونچال کی سی کیفیت تھی آزاد بنگلہ دیش میں ایک طرف تو یہ ہوا کہ بنگلہ بدھو ایک فوجی بغاوت میں پورے خاندان سمیت قتل کردئے گئے اور پھر ضیاء الرحمان کے زمانے میں ہی بنگلہ دیش کے اندر کمیونل ازم نے دوبارہ سراٹھانا شروع کردیا اور آمر ارشاد حسین کے زمانے میں یہ اپنے عروج کو پہنچا اور اس کے بعد جب جمہوری ادوار شروع ہوئے تو اسی دوران آٹھویں ترمیم سامنے آئی جس کے تحت آئین کے شروع میں بسم اللہ شامل کی گئی اور آئین میں اسلام کو قومی مذھب قرار دے دیا گیا اس دوران بنگلہ دیش میں عورتیں عام طور پر اور ہندؤ عورتیں خاص طور پر مرد شاؤنزم اور کمیونل ازم کی بربریت کا نشانہ بننے لگیں خود تسلیمہ نسرین کو بچپن میں ہی ایک مولوی کے ہاتھوں ریپ کا نشانہ بننا پڑا تھا اور پھر ہسپتال میں اس نے ریپ کا شکار کئی معصوم بچیوں اور عورتوں کے کیس ہینڈل کئے جن کو نہ تو عدالتوں اور پولیس سے انصاف نہ ملا اور نہ ہی بنگلہ دیشی سماج نے ایسی عورتوں اور بچیوں کو عزت سے جینے کا موقعہ فراہم کیا اور اس ضمن میں جماعت اسلامی سمیت مسلم بنیاد پرست جماعتوں اور حلقوں کا جو کردار رہا اور جس طرح سے ان کی مذھبی فسطائيت کو اسلام بناکر پیش کیا جاتا رہا اور اس سے اختلاف کرنے والوں کا سانس لینا بھی محال بنادیا گیا ،اس نے ڈاکٹر تسلیمہ نسرین کے اندر سخت ردعمل کو جنم دیا میں نے تسلیمہ نسرین کی شاعری اور ان کے ابتداء میں شایع ہونے والے مضامین کو پڑھا ہے ، ان میں بنگلہ دیش کے اندر مذھب کی رجعت پسندانہ تعبیرات کرنے اور اس کو مسلط کرنے پر تنقید ملتی ہے اور تسلیمہ نسرین بذات خود اسلام کو بطور مذھب الزام دیتی نظر نہیں آتیں ان کی ابتدائی دنوں کی شاعری میں عورتوں کی محکومیت ، ان پر جبر ظلم ، جہیز نہ ہونے کی وجہ سے شادی کا نہ ہونا ، کم جہیز کی وجہ سے ان کا ماردیا جانا ، موسمی وباؤں سے غریبوں کی اموات ، کم سنی بچیوں اور اسکول ، کالج یا انتہائی کم عمری میں غربت و بے روزگاری باعث جسم فروشی پر مجبور ہونے والی لڑکیوں کی حالت زار ، منافقت پر مبنی مذھبیت ، امیر لوگوں کی ہوس ناکی اور مذھبی عدم برداشت جیسے موضوعات سے معاملہ کرتی نظر آتی ہے اور ان کے "شیم " سے پہلے ناول میں بھی اسی طرح کے موضوعات سے معاملہ نظر آتا ہے مڈل ایسٹ کوارٹرلی ایک جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے تسلیم نسرین نے اپنے لکھنے کی شروعات کے بارے میں خود اس طرح سے بتایا Taslima Nasrin: I started writing a newspaper column in 1989 based on my experiences as a doctor and on my observation generally about the plight of women and their oppression in the male-dominated society of Bangladesh. I defended the rights of women against religion and patriarchy, which I see as the causes of women's suffering. In particular, I wrote about the role of religion in this ill-treatment of women. With more than 80 percent of the country's population Muslim, Islam is the country's most important religion. Many of my countrymen, fundamentalist Muslims and ordinary religious Bengalis alike, did not agree with what I wrote, and started to hate me. The fundamentalists organized demonstrations and processions against they attacked and sacked the newspaper office where I used to write my columns, they burnt my books in public, and finally they filed a case against me in the courts. جماعت اسلامی کے زیر اثر بنگلہ دیش میں مسلم بنیاد پرستی کی جو لہر بنگلہ دیش کے اندر بنگالی سماج کے نیچے تک جو سرايت کرگئی اس نے بنگلہ دیش میں بھی عام مسلم ذھن کی پرداخت بھی اسی طرح سے کی ہے کہ وہاں مسلم سماج کے اندر عورتوں ، مذھبی و نسلی اقلیتوں سے مذھبی تعبیرات کی بنیاد پر جو سلوک کیا جاتا ہے اس پر ہونے والی تنقید کا جواب نفرت ، انتہا پسندی ، فتوے بازی اور آخر میں بلوؤں سے دیا جاتا رہا ہے ،تسلیمہ کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ جب تسلیمہ نسرین نے اپنے تجربے اور مشاہدے میں عورت پر ہونے والے جبر اور اس میں مذھبی تعبیرات کے عمل دخل پر لکھنا شروع کیا اور تنقید شروع کی تو ان کے خلاف جماعت اسلامی ، تبلیغی جماعت اور نام نہاد جہادی تنظیموں نے مہم شروع کردی اور ان کے خلاف دائیں بازو کے پریس میں بہت زیادہ شور ہونا شروع ہوگیا تسلیمہ نسرین پر بنگلہ دیش کے مسلم خاندانی سسٹم اور ریت و رواج کو ختم کرنے اور اسلامی روایات کے بارے میں ہرزہ سرائی کا الزام عائد کیا گیا پاکستانی پریس میں کئی ایک دائیں بازو کے اخبارات نے تو حقائق سے ہٹ کر یکسر غلط رپورٹنگ کرنے سے بھی گریز نہ کیا -روزنامہ نئی بات "جوکہ ایک جہادی تنظیم سے وابستہ گروپ کا آحبار ہے اس نے اپنی ایک خـر میں یہ تک کہہ ڈالا کہ تسلیمہ نسرین نے کبھی بھی ڈاکٹری کی پریکٹس نہیں کی جوکہ حقائق کے بالگل منافی بات تھی
میں سمجھتا ہوں کہ یہ وہ دور تھا جب تسلیمہ نسرین نے خود اسلام اور اسلام کی بنیادی کتابوں اور تعلیمات کو بنگلہ دیشی عورت ، مذھبی اقلیتوں کی مظلومیت اور مجبوری کا زمہ دار قرار دینے کی کوشش نہیں کی تھی بلکہ ان کی تنقید " مذھب " سے زیادہ ملائیت ، مذھبی پیشوائیت اور لوگوں کے منافقانہ سماجی رویوں پر تھی برصغیر پاک و ہند میں جماعت اسلامی ، جماعت الاحرار سمیت مسلم بنیاد پرست تنظیموں اور ان کے نام نہاد سکالرز اور مقررین کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ وہ اپنے ناقدین کی ڈی مونائزیشن کرنے میں بہت طاق ہیں اور وہ عام مسلمان کے جذبات کو اپنے کسی ناقد کے خلاف بھڑکانے میں بھی ید طولی رکھتے ہیں ہم نے پاکستان کے اندر ایسی مثالیں بہت مرتبہ دیکھی ہیں ، سلمان تاثیر ، شہباز بھٹی کی مثالیں تو حال ہی کی ہیں ، راشد رحمان ، جنید حفیظ ، آسیہ و رمشاء مسیح کے معاملات بھی ہمارے سامنے ہیں ، یہ لوگ تو کوئی بڑے لکھت کار نہیں تھے اور نہ ہی اتنے بڑے ادیب تھے ، پاکستان کے اندر جمشید نایاب کے ساتھ کیا ہوا تھا سب کو معلوم ہے فروری 1993ء میں جب تسلیمہ نسرین کا ناول "لجا " شایع ہوا تو اس سے پہلے ان کے تین ناول چھپ چکے تھے اور یہ ان کا چوتھا ناول تھا تسلیمہ نسرین نے یہ ناول دسمبر 1992ء میں ایودھیا میں بابری مسجد گرائے جانے کے خلاف بنگلہ دیش کے اندر ہونے والے احتجاج اور بلوؤں کے دوران سینکڑوں مندر ، دکانیں ، گھر نذر آتش کئے جانے ، توڑ پھوڑ کرنے ، ہندؤ عورتوں اور بچیوں کے اغواء ، ریپ کئے جانے اور بڑے پیمانے پر غریب ہندؤں کے بے گھر ہوجانے اور بہت بڑی تعداد کے اںڈیا ہجرت کرجانے کے واقعات ، اور اس دوران جماعت اسلامی سمیت بنگالی مسلم بنیاد پرستوں کی جانب سے مذھبی فسطائیت کے ننگے اور بے شرم مظاہروں اور وحشت و درندگی کے ننگے ناچ کے تناظر میں لکھا تھا اس ناول میں تسلیمہ نسرین نے ڈاکومنٹری ناول کی تکنیک استعمال کی اور بنگلہ دیش کے اندر سیکولر ازم ، جمہوریت ، تکثریت کے زوال ، عورتوں کی مجموعی بے بسی ، مسلم رجعت پرستی سے ابھرنے والے مسلم کمیونلزم کے مقابلے میں ہندؤں ، کرسچن اور بدھسٹوں میں ابھرنے والے ردعمل پر مبنی کمیونل ازم کی جہاں عکاسی کی وہیں پر اس نے ایک طرف تو بنگلہ دیش میں نام نہاد سول سوسائٹی اور ترقی پسندوں کی مسلم پرتوں کی منافقت کا پردہ چاک کیا تو وہیں پر انھوں نے خود ہندؤں ، کرسچن اور بدھسٹ پس منظر سے آنے والے ترقی پسند حلقوں میں ردعمل کے طور پر کمیونل سوچ کے درآنے کا زکر بھی کیا ہے جو میرے خیال میں پاکستان کے اندر " وہابی -دیوبندی فرقہ پرستی " اور اس کے جواب میں " شیعہ ، بریلوی ، کرسچن ، ہندؤ ، عیسائی فرقہ پرستی " یا ان کی جانب سے ہونے والی کمیونل سیاست اور سوچ کے تناظر میں بہت اہمیت کی حامل ہے تسلیمہ نسرین نے اپنے ناول " لجا " کے منظر عام پر آنے اور اس پر بنگلہ دیشی سماج کے اندر سے آنے والے ردعمل پر لکھا ہے " it was my fourth novel; it came out in February 1993. It is a documentary novel about the precarious existence of the Hindu minority in Bangladesh especially in the aftermath of the destruction of the Babri Mosque in Ayodhya, India, by Hindu fundamentalists on December 6, 1992. The Muslim mobs in Bangladesh took their revenge on the Hindu minority. I was writing about the oppression of the Hindus by the Muslim majority in the name of religion. They smashed the houses of the Hindus in the name of religion, and looted their shops. Of course, as a result many Hindus left Bangladesh for India. I was protesting the torture of Hindu communities. My book was banned in 1993 on charges of disturbing communal harmony. In 1994 a newspaper in Calcutta published an interview with me, where I said that the Shari‘a [sacred law of Islam] should be abolished. Unfortunately, the newspaper misquoted me as saying that I thought "the Qur'an should be revised thoroughly." تسلیمہ نسرین کا کندھا ہندؤ فاشسٹوں نے بھی استعمال کرنے کی کوشش کی اور ایک کرناٹکی اخبار نے ان کے نام پر ایسا رکیک مضمون شایع کیا جو کہ کسی بھی عام مسلمان آدمی کے لیے ناقبال برداشت تھا اور اسی مضمون کو لیکر ہندوستان میں بھی تسلیمہ نسرین کے خلاف سخت ردعمل سامنے آنے لگا جبکہ تسلیمہ نسرین نے بہت کہا کہ اس نے یہ مضمون نہیں لکدا ، مجھے لگتا ہے کہ یہ وہ دور تھا جب تسلیمہ نسرین بہت زیادہ انتہا پسندی کے جواب میں اسی شدت کی بنتہا پسندی پر اتر آئی تسلیمہ نسرین کے ناول "لجا " میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا کہ جس کی بنیاد پر یہ کہا جاتا کہ وہ توھین اسلام یا مذھب کی مرتکب ہوئی ہیں ، یہ بات میں ہی نہیں کہہ رہا بلکہ اس بات کو ہندوستان سے شایع ہونے والے معروف روزنامہ سیاست حیدرآباد دکن نے بھی اپنے ایک مضمون میں تحریر کیا اور لکھا کہ "تسلیمہ نسرین کے ناول "لجا" میں تو کچھ بھی ایسا نہیں تھا جس کو بلاسفیمی کہا جاسکتا یہ تو اس کی بعد کی کتابوں ميں نظر آیا " میں تسلیمہ نسرین کا یہ ناول پڑھا ہے اور اس میں مجھے تسلیمہ نسرین بار بار جماعت اسلامی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے درمیان مشابہت تلاش کرتی نظر آتی ہے لجاء ميں ہندؤ نژاد ایک گھرانے کی کہانی مرکزی کردار کی حامل ہے جس کا سربراہ سدوہامے ڈاکٹر اور ناستک کمیونسٹ ہے اور سیکولرازم پر یقین رکھتا ہے اور وہ بنگلہ دیش کو اپنی دھرتی ماں اور سن آف دی سوائل ہونے کا علمبردار بھی ہے جب بابری مسجد کے انہدام کے بعد بنگلہ دیش میں ہندؤں پر حملے شروع ہوتے ہیں تو اس کا خاندان اسے ہندوستان چلے جانے کو کہتا ہے ، اس نے بنگلہ دیش میں تمام تر ناانصافی ، مذھبی شناختوں کی بنیاد پر ہونے والے امتیازی سلوک کے خلاف جم کر جدوجہد کی ہوتی ہے اور وہ کہیں بھی جانے سے انکار کرتا ہے لیکن کمیونل ازم کا اژدھا پہلے اس کی بیٹی کی عصمت دری کا منظر اسے دکھاتا ہے اور پھر اس کا بیٹا عجیب طرح کے نفسیاتی مالیخولیا میں مبتلاء ہوجاتا ہے اور بالآخر جب انتہا ہوجاتی ہے تو ڈاکٹر سدوہامے فیصلہ کرتا ہے کہ ان کو ہندوستان چلے جانا چاہئيے اور جب وہ اپنے فیصلے سے بیٹے کو آکاہ کررہا ہوتا ہے تو اس کے چہرے پر ایک لجا یعنی شرم ہوتی ہے جسے وہ چھپانے کی بے سبب کوشش کرتا ہے اس ناول میں ڈاکٹر تسلیمہ نسرین بہت ہی مایوس کن تصویر کشی بنگلہ دیش کی کرتی ہیں اور جس ماحول میں یہ ناول لکھا گیا تھا اس ماحول میں کسی امید پرست تصویر کا بنانا ان کے لیے ہی نہیں کسی اور کے لیے بھی ناممکن ہوتا لیکن میں نے اس ناول میں یہ بھی دیکھا کہ انھوں نے کسی حد تک ہندوستان کی ایک دلفریب تصویر کشی کرنے مثال کے طور پر اسی ناول میں صفحہ 137 پر اس ناول میں سدوھامے کا بیٹا سرنجن کا ایک دوست کجل دا کہتا ہے کہ "ہندوستان میں مسلمان دوسرے درجے کے شہری نہیں ہیں اور نہ ہی ان سے وہ سلوک ہوتا ہے جو بنگلہ دیش ميں مسلمان ہندؤں کے ساتھ کررہے ہیں " تسلیمہ نسرین بنگلہ دیش سے ہندوستان چلے جانے کا سفر جس دلفریب تصور کے ساتھ دکھاتی ہیں ،اس پر مجھے بے اختیار ہنسی بھی آئی اور ان کی سادگی طبع پر حیرانی بھی ہوئی خیر ہندوستان کی حکومت ، اس کی ریاستوں کی حکومتیں اور خود مغربی بنگال کی کمیونسٹ حکومت کس قدر بنگلہ دیشی حکومت سے مختلف تھیں اس کا اندازہ تسلیمہ نسرین کو ہندوستان جاکر بہت اچھی طرح سے ہوگیا مجھے اس ناول پر ابھی مزید ایک دو باتیں اور لکھنی ہیں ، اس ناول کا ایک کردار سرنجن ہے جس کے زریعے سے زیادہ تر کمیونل فساد کے زمانے کے بنگلہ دیش کی تصویر تسلیمہ نے ہمیں دکھانے کی کوشش کی ہے سرنجن فرقہ وارانہ فساد کے زمانے میں بلکہ ہندؤں پر مسلمان بنیاد پرستوں کے حملوں کے زمانے میں کہنا زیادہ درست ہوگا گھر نہیں بیٹھتا اور وہ اپنے دوستوں کی خیرخیریت جاننے چل پڑتا ہے ، اسی طرح ایک دن وہ اپنے ایک دوست کے ہاں پہنچتا ہے تو وہاں اس کے بہت سے دوست جمع ہوتے ہيں اور ان میں ایک کے سوا باقی سب ہندؤ ہوتے ہیں اور اس میں ایک کردار کجل دا کا ہے جس نے ترقی پسند ہونے کے باوجود ایک ہندؤ - بدھسٹ -کرسچن ایسوسی ایشن بنالی ہوتی ہے سرنجن کو کجل دا اور اس کے ساتھیوں کا یہ فعل کمیونل لگتا ہے اور وہ کہتا ہے کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ تم ایک نان کمیونل گروپ بناتے ؟ اور اس میں سعید الرحمان کیوں نہیں ہے؟ اس گفتگو میں شریک ایک اور کردار جیتن چکر ورتی سرنجن کو جواب دیتا ہے سعید الرحمان کا اس گروپ میں نہ ہونا ہماری ناکامی نہیں ہے بلکہ یہ ان کی ناکامی ہے جنھوں نے بنگلہ دیش کا قومی مذھب اسلام ہونے کا آئیڈیا پیش کیا جب تک ایسا نہیں ہوا تھا تو ہمارے پاس ایسا گروپ بنانے کا جواز نہیں تھا لیکن اب کیوں ہے ؟ تو اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ بنگلہ دیش خود بخود تو وجود میں نہیں آیا تھا بلکہ یہ مسلمان ، ہندؤ ، بدھسٹ اور کرسچن سب نے ملکر بنایا تھا مگر اس کے برعکس اس ملک کا قومی مذھب محض اسلام کو قرار دینا دوسری مذھبی برادریوں سے زیادتی ہے ، وطن سے محبت ہر ایک آدمی کی ہوتی ہے جو اس ملک میں رہتا ہے اور یہ ایک سے دوسرے کے ہاں محض مذھب کی وجہ سے بدل نہیں جاتی اور مذھب کی بنیاد پر اس حوالے سے کسی سے کوئی امتیاز برتا نہیں جاسکتا -وطن سے محبت تو عالمگیر احساس ہے تو جب بعض مذھبی برادریاں یہ دیکھتی ہیں کہ ان کی ریاست کا قومی مذھب ایک ایسے مذھب کو قرار دے دیا گیا ہے جس سے ان کا کوئی تعلق نہ ہے تو ان کو بہت واضح یہ احساس ہوتا ہے کہ ریاست کے نزدیک ان کا مذھب شاید دوسرے بلکہ تیسرے درجے کا ہے اور ریاست کے نزدیک وہ بھی دوسرے یا تیسرے درجے کے شہری ہیں جب وہ دوسرے ، تیسرے درجے کے شہری بنائے جاتے ہیں تو ان کی عزت نفس پر بہت کاری ضرب پڑتی ہے تو ایسے میں اگر ان کا نیشنلزم کمیونل ازم میں بدل جائے تو ان کو کیسے الزام دیا جاسکتا ہے سرنجن اس پر کہتا ہے کہ ایک جدید ریاست میں کمیونل ایسوسی ایشن کا جواز کیسے پیش کیا جاسکتا ہے ؟ اس پر جیتن چکرورتی کہتا ہے اقلیتوں میں کمیونل ازم کا احساس پیدا کرنے کا زمہ دار کون ہے ؟ تم خود ہی تو کہتے تھے کہ اس کی زمہ داری کسی ایک مذھب کو ریاست کا قومی مذھب بنانے والوں پر عائد ہوتی ہے ، جب کسی ایک کمیونٹی کے مذھب کو اس ریاست کا قومی مذھب قرار دے دیا جاتا ہے تو اس ریاست کی قومی یک جہتی کی ساخت مسمار ہوجاتی ہے اور ایسا ملک تھیوکریٹک ریاست قرار پاتا ہے یہ ملک بتدریج کمیونل ہوتا جارہا ہے اور اس وقت قومی یک جہتی کی بات تو مذاق لگتی ہے ،آٹھویں ترمیم اقلیتوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے اور یہ اقلیتیں ہیں جنھوں نے اس کا خمیازہ بھگتا ہے اور اب انھوں نے یہ سمجھنا شروع کردیا ہے سرنجن یہ سنکر کہتا ہے کہ تو کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ اس ترمیم سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچے گا ؟ جیتن چکرورتی کہتا ہے ہرگز نہیں لیکن اس بات کو سمجھنے میں مسلمانوں کو ابھی بہت دیر لگے گی اسی جگہ ناول کا ایک اور کردار کہتا ہے کہ جب تک سیکولر ازم مکمل طور پر ریاست نہیں اپنائے گی اس وقت تک کمیمونل ایشو حل نہیں ہوگا اور اس کا ایک مطلب تمام مذاہب کی جانب یکساں اور برابری کے سلوک کو آئینی تحفظ دینا بھی ہوتا ہے اور سیاست سے مذھب کی مکمل چھٹی کا نام ہے تسلیمہ نسرین نے فیمنزم ، سیکولر ازم ، انسانی حقوق اور جمہوریت کے حواہے سے بہت شاندار شروعات کیں تھیں اور بنگالی سماج کی منافقتوں کو بہت زبردست تکنیک کے ساتھ بے نقاب کرنے کی صلاحیت حاصل کی تھی لیکن 1993ء میں ان کے ناول کی اشاعت کے بعد ان کے خلاف جو ردعمل شروع ہوا اور ان کے گرد جس طرح سے گھیرا تنگ ہوا اور جن مصائب کا انھیں سامنا کرنا پڑا وہ چونکہ مذھب کے ٹھیکے داروں نے کئے تھے اور مسلم بنیاد پرستی کا اس میں سب سے بڑا ہاتھ تھا تو وہ خود بھی ایک اور انتہا پسندی کا شکار ہوئے بغیر نہ رہ سکیں اور اپنی جلاوطنی کے دنوں میں انھوں نے اسلام ، قران ، پیغمبر اسلام کے بارے ميں جن خیالات کا اظہار کیا اس نے خود ان کی مشکلات کو بھی بڑھایا بلکہ پاکستان ، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں خود سیکولر ، لبرل ، فیمنسٹ حلقوں کے لیے بھی کافی مشکل حالات پیدا کرڈالے اور ان کا دفاع بھی کسی طرح سے کیا نہیں جاسکتا اس کا سب سے بڑ نقصان یہ ہوا کہ ان کی شاعری ، ان کے لجاء تک کے ادبی سرمایہ میں عورتوں ، مذھبی اقلیتوں اور سیکولر روایت کے شیدائیوں کے لیے سیکھنے اور شعور حاصل کرنے کے جو بے پناہ امکانات تھے وہ تسلیمہ کی انتہائی ردعمل کے ردعمل میں سامنے آنے والے تنازعات اور ان کے شور میں گم اور دب گئیں اگر انھوں نے حوصلے اور تحمل اور اعتدال پسندی سے کام لیا ہوتا تو آج بنگلہ دیش میں عوامی ليگ مذھبی فاشزم اور جماعت اسلامی کی بنیادوں کے خلاف جو سیکولر جدوجہد کررہی ہے وہ اس کی نظریاتی رہنماء ہوتیں اور ان کا پیغام پاکستان کی عام پسی ہوئی ، مظلوم عورت کی ڈھارس بھی بندھواتا انیس سو بانوے میں ان کی ایک تحریر " میں قیدی ہوں " سامنے آئی اور یہ اس وقت لکھی گئی تھی جب بنگلہ دیش کی حکومت نے ان کو ائرپورٹ پر اس وقت کلکتہ میں شاعری پر ہونے والی کانفرنس میں شرکت سے اس وقت روک دیا تھا جب وہ بلال چودھری ، شمس الرحمان جیسے بنگلہ دیشی معروف شاعروں کے وفد کی قیادت کرتے ہوئے جہاز میں سوار ہونا چاہتی تھیں ، ان کی کتابیں جو وہ کلکتہ اپنے دوستوں کو ارسال کررہی تھیں ائرپورٹ کا عملہ ان کے پیرا گراف پڑھ رہا تھا اور کچھ کو نشان زد بھی کررہا تھا اس وقت جس کیفیت کا وہ شکار تھیں اسے انھوں نے لکھا اور اس کے آخری جملے یہ تھے If my death helps uniting the Bengalees, to be citizens of a single country, I would climb up to the gallows smilingly. I am willing to give up my life—not in exchange for money but for rationality and humanism.
تسلیمہ نسرین کس قدر شدید شاک سے گزریں اپنی قید تنہائی میں اور کم سن بچیوں ، عورتوں پر مرد جاتی کے مظالم سے ان کی ذھنی کیفیات کیا تھیں ؟ اور اپنی آزادی کے سلب ہوجانے پر ان کے خیالات کیا تھے ،میں یہاں ان کی نظمیں اپنے پڑھنے والوں کی نظر سے گزار رہا ہوں - یہ ان کی کتاب "محبت کی نظمیں " سے لی گئی ہیں -ان نظموں کو پڑھ کر ہم اندازہ کرسکتے ہیں ان کے جذبات ، خیالات ، فکر اور نظریات کس بھونچال کا شکار ہوئے Freedom Let all of you together find a fault with me, at least a fault you all jointly work out, or else, a harm shall befall you. Let you all combine speak out why you've sent me in exile. Say: Taslima, you're at the root of a pestilence, infant deaths or you've committed as atrocious a crime as rape or genocide; Say something like this, at least two or three of the stigmas to substantiate my banishment. Until you detect a suitable blemish in me, until you make me stand in the witness box, to raise your accusing fingers in spiteful wrath at your black sheep, how can you pardon yourselves? Had you been able to say where I'm wrong, the pangs of banishment wouldn't have engulfed me so harrowingly. I'm eager to see you detect my wrong, so that I can embrace you as my well-wishers. Name my fault that made you ostracize me, specify at least a loophole in my character. By apportioning a blame on me, you ensure your own acquittal. Why should you let the history frown at you? Why have you eclipsed the light of civilization, by rooming with the darkness of medievalism? Establish a cause for your action, and if you can't, then set me free, not to save me, but for your own survival. ......................................................................... Can't I Have A Homeland To Call My Own? Am I so dangerous a criminal, so vicious an enemy of humanity, Such a traitor to my country that I can't have a homeland to call my own? So that my land will snatch away from the rest of my life my homeland? Blindly from the northern to the southern hemisphere, Through mountains and oceans and rows and rows of trees, Blindly in the heavens, in the moon, in the mists and in sunshine, Blindly groping through grass and creepers and shrubs, earth and mankind, I have gone Searching for my homeland. Once I had exhausted the world, I touched the shores Of my homeland to exhaust my span of life, Only to have the sense of security of an utterly exhausted thirsty soul Brutally uprooted, and you throw away the little water cupped in my hand, And sentence me to death, what name can I have for you, land? You stand on my chest like an enormous mountain, You stamp on my throat with your legs in boots, You have gouged out my eyes, You have drawn my tongue out and snapped it into pieces, You have lashed and bloodied my body, broken both my legs, You have pulverized my toes, prized open my skull to squash my brain, You have arrested me, so that I die, Yet I call you my homeland, call you with infinite love. I've uttered a few home truths, hence I am a traitor to my homeland. I'm a traitor because you've chosen to walk shoulder to shoulder with liars in procession. You've warned me with raised fingers to give a damn to humanity, And whatever else I may have or not, I can't have a homeland to call my own. My land, you dug into my heart and hacked out of my life my own homeland. .............................................. At The Back Of Progress The fellow who sits in the air-conditioned office is the one who in his youth raped a dozen or so young girls, and, at cocktail parties, is secretly stricken with lust, fastening his eyes on lovelies' bellybuttons. In five-star hotels, he tries out his different sexual tastes with a variety of women, then returns home and beats his wife because of an over-ironed handkerchief or shirt collar. In his office Mr. Big puffs on a cigarette, shuffles through files, rings for his employee shouts, demands tea, drinks, and returns to writing people's character references. His employee speaks in such a low voice that no one would ever suspect how, at home, he also raises his voice, is vile to his family but with his buddies on the porch or at a movie indulges in loud harangues on politics, art, literature, and how some female - his mother, grandmother, or great-grandmother - committed suicide. Bidding goodbye to his buddies, he returns home, beats his wife over a bar of soap or the baby's pneumonia. Next day, at work, he pleasantly brings the tea, keeps the lighter in his pocket, receives a tip of a couple of taka, and tells no one that he divorced his first wife for her sterility, his second for giving birth to a daughter, his third for not bringing a sufficient dowry. Now, with wife number four, he again has someone: To beat over a green chili or a handful of rice. References : http://www.meforum.org/73/taslima-nasrin-they-wanted-to-kill-me Lajja --------Shame by Taslima Nasreen Published Penguin India. Peoms of Love by Taslima Nasrin Published Penguin India. http://www.outlookindia.com/article/Lets-Think-Again-About-The-Burqa/233670 I Never Penned Any Article For A Newspaper: Taslima ... Video for articles on taslima nasreen in bangladeshi newspapers► 16:33► 16:33 www.youtube.com/watch?v=Vk0yXg4X3Cg http://taslimanasrin.com/tn_articles_by.html

Monday 8 September 2014

اپنا نام بدل لیں ؟ خوف میں جینے کی عادت ڈال لیں ؟


مئی کا مہینہ تھا اور سال تھا 2007ء جب ایم ایس یونیورسٹی برودا گجرات انڈیا کے ایک طالب علم چندر موہن نے تین مذھبی تھیم پر مبنی پینٹنگز ایک مقامی گیلری میں طالب علموں اور ماہرین کے معائنے کے لیے پیش کیں تو جس گیلری میں یہ نمائش ہورہی تھی اس گیلری پر وشوا ہندو پریشد والوں نے نتیش جین نامی ہندؤ فاشسٹ لیڈر کی قیادت میں دھاوا بول دیا اور اس نے الزام لگایا کہ چندر موہن کی تصویریں ہندؤ مذھب کی توھین کرتی ہیں ،چندر موہن کو گرفتار کرلیا گیا اور اسے تین دن اور تین راتیں جیل میں گزارنا پڑیں اس سے پہلے ہندؤ فسطائیوں نے معروف مصور ایف ایم حسین کی جانب سے ہندؤ دیوی و دیوتاؤں کی جو پینٹنگز بنائی تھیں اس پر طوفان کھڑا کردیا تھا ، ان کی گیلری پر حملہ کیا گیا ، ان کے گھر پر حملے ہوئے اور ان کی جان کو خطرہ لاحق ہوا تو وہ ہندوستان سے باہر چلے گئے
نوث : ایف ایم حسین کی اس تصویر میں گاندھی کے مقابل ہٹلر کو جان بوجھ کر ننگا دکھایا ہے اور ایسا اس نے اس کو بے عزت کرنے کے لیے کیا ہے ، لین کسی کو لباس فطرت میں پوز کرنے کا مطلب ہر مرتبہ تذلیل نہیں ہوتا جو ہندؤ فسطاغيوں نے لیا جب ایف ایم حسین نے بعض نیوڈ تصویریں بنائیں
ساجد رشید نے ممبئی سے نکلنے والے ایک ہندی اخبار کا اداریہ لکھا جو اگلے روز شایع ہوا تو جب اس شام وہ اخبار کے دفتر سے باہر گھر جارہے تھے تو ان پر حملہ کیا گیا اور ان کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی ، ان پر توھین مذھب اسلام کا الزام لگادیا گیا جب یہ واقعات یکے بعد دیگرے رونما ہوئے تو ممبئی کے سب سے پرانے آرٹ مرکز جہانگیر آرٹ گیلری میں "موہن چندر رہا کرو کیمٹی " کے تحت ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا 2007ء میں اس تقریب میں 200 کے قریب ہندوستان کے آرٹسٹس ، بلاگرز ، لائرز ، ٹریڈ یونین کارکن ، بیوروکریٹس اور یہاں تک کہ صدر آف روٹری کلب ممبئی بھی شامل ہوئے اور یہ سب کے سب اس بات پر متفق تھے کہ چندر موہن ، ایف ایم حسین اور ساجد رشید سمیت کسی کے خلاف بھی ہندؤ فاشزم کی فسطائیت برداشت نہیں کی جائے گی ، اس کے خلاف بھرپور مزاحمت کی جائے گی میں نے اس تقریب کی براہ راست کاروائی انٹرنیٹ پر دیکھی تھی اور اس تقریب میں میں بہت سے لوگوں کو چند ایک پوسٹر کے ساتھ کھڑے دیکھا جس پر لکھا ہوا تھا Do,nt Sing , Paint , write , Love , live in Fear اور اس تقریب میں بار بار یہ بات کی گئی کہ جرمنی میں بھی نازی ازم کا آغاز کتابیں جلانے اور آرٹ پر پابندیاں لگانے سے ہوا تھا اور ہندؤ فاشزم بھی اسی راستے پر گامزن ہے میں نے یہ دیکھا کہ ہندوستان کے شاعر ، ادیب ، سماجی علوم کے ماہر ، فنون لطیفہ کے خلاق ، صحافی ، بلاگرز اپنے اپنے فن کے زریعے ہندوتواء ، ہندؤ فاشزم ، اور دیوبندی -وہابی فاشزم کے خلاف جدوجہد میں مصروف ہوگئے اور کسی حد تک انھوں نے اس فاشزم کے خلاف کامیاب جدوجہد کی اسی دوران مجھے جرمنی کا جان فیلڈ ہارٹ بھی یاد آیا جو 1891ء میں پیدا ہوا اور 26 اپریل 1968ء میں اس کی وفات ہوئی جوکہ جارج گروس کے ساتھ ملکر نازی ازم اور فاشزم کے خلاف فوٹو مونو ٹیگ آرٹ کو استعمال میں لایا تھا اور اس کے بعد فوٹو مونو ٹیگ آرٹ کی مدد سے جرمنی کے آرٹسٹوں نے اینٹی نازی آرٹ کو فروغ دیا تھا اور جان فیلڈ ہارٹ وہ آرٹسٹ تھا جس کا اصل نام تو ہملیٹ جان ہرش تھا اور اس نے اسے جان فیلڈ ہارٹ اس وقت کردیا تھا جب جرمنی میں برٹش لوگوں کے خلاف جنونیت اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی
نوٹ :اوپر دی گئی تصویر جان ہارٹ فیلڈ کا نازی مخالف ، فسطائی مخالف انتہائی غیر معمولی فوٹو مونو ٹیگ آرٹ ہے
نوٹ: اوپر نازی مخالف فوٹو مونو ٹیگ آرٹ کی امثال ہیں میں بے اختیار سوچنے لگا تھا کہ ہمارے ہاں کیا کوئی آرٹسٹ ایسا بھی ہوگا کہ جس نے بلوچ ، شیعہ ، صوفی سنّیوں ، احمدیوں ، کرسچن ، ہندؤ کے خلاف بڑھتے ہوئے جنون کے خلاف احتجاج میں اپنا نام تبدیل کیا ہوگا اور خاص طور پر شیعہ اور صوفی سنّیوں میں تو آئمہ اہل بیت اطہار کے ناموں پر رکھے جانے والے نام تو آجکل نام والے فرد کے لئے موت کا سرٹیفکیٹ خریدنے کے مترادف ہوچکا ہے فوٹو مونو ٹیگ ایسا آرٹ تھا جس میں دو یا دو سے زیادہ تصویروں کو جوڑ کر اینٹی نازی و اینٹی فاشسٹ بیانیہ جرمن آرٹسٹ تیار کرتے تھے اور جدید دور میں یہ کام سافٹ وئیرز کے زریعے فوٹو شاپ میں ہوتا ہے اور اس میں بعد میں برش اور وژیول کو بھی استعمال کیا گیا سوویت روس میں آرٹسٹوں کے ایک پورے مکتبہ فکر نے اس آرٹ کو استعمال کیا اور اس آرٹ کو برتھولیٹ بریخت ، سنکلئر ، ایرون پیسیکٹر کے سٹیج ڈراموں کو پیش کرتے ہوئے سٹیج پر استعمال کیا گیا جوزف رینوا نامی ایک آرٹسٹ نے تھیم آف ڈریمز کے عنوان سے امریکی اور نارتھ امریکہ کی سرمایہ دار معاشرتوں میں صارفیت کے کلچر پر تنقید کے لیے اس آرٹ کو استعمال کیا اور جب ارجنٹائن کا معروف مصور گریٹ سٹرن جرمنی میں جلاوطنی کے دن گزار رہا تھا تو اس نے بھی اس آرٹ کے زریعے ارجنٹائن میں آمریت ، نیوکالونیل ازم پر تنقید کے لیے اس آرٹ کو استعمال کیا تھا میں یہ سب باتیں اصل میں اپنے مضمون "تصویری نمائش ، مقابلہ کہانی نویسی " کے اندر بیان کردہ ٹریجڈی کے تناظر میں کررہا ہوں کل جب یہ مضمون لکھ چکا تو مجھے سید عمیر شاہ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر دوستی کی درخواست ارسال کی اور میں نے جب ان کی وال کا جائزل لیا تو مجھے پتہ چلا کہ انھوں نے وہاں پر ایک بلاگ "جرآت تحقیق " کے بہت سے امیج شئیر کئے ہوئے تھے اور مجھے یہ فوٹو مونو ٹیگ کی ہی قسم لگے اور پاکستان میں میرے خیال میں کم از کم مذھبی فاشزم کے خلاف یہ سب سے بہتر کام ہے
رضوان عطاء بھی ویسے اس معاملے میں خاصے تخلیقی ذھن کے حامل ہیں
لیکن مجھے ابھی بھی یہ کہنا ہے کہ "شیعہ نسل کشی " پاکستان کے اندر ایک ایسی ٹریجڈی اور پاکستان کے اندر مذھبی فاشزم کا ایسا پہلو ہے جس کی پاکستانی آرٹ ، ادب اور صحافت میں ابھی تک ٹھیک ٹھیک عکاسی نہیں ہوئی ہے اور اس حوالے سے بہت سا ابہام موجود ہے ، بہت سی پیچیدگی ہے اور بہت حد تک گول مول ، ڈھلمل رويے پاکستان کی لبرل ، ترقی پسند اور لیفٹ کمیونٹی کے اندر پائے جاتے ہیں بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں اس دوران وہ ہوا ہے جو شاید پوری دنیا میں مذھبی فاشزم کے ابھار اور اس کی مزاحمت کی تاریخ میں کسی بھی جگہ دیکھنے کو نہیں ملا ہمارے پڑوسی ملک بھارت اور بنگلہ دیش ، ایران میں بھی یہ دیکھنے کو نہیں ملا اور وہ یہ ہے کہ یہاں بہت سے لبرل اعلانیہ یا غیر اعلانیہ مذھبی فاشسٹوں سے اتحاد بناکر بیٹھ گئے ہیں اور یہ اتحاد انھوں نے شیعہ ، صوفی سنّی ، غیر مسلم اقلیتوں کے قاتل اور ان پر فسطائيت مسلط کرنے والے دیوبندی فاشسٹوں سے کیا ہے اور وہ مظلوموں کی بجائے ظالموں کے کیمپ میں جاکر کھڑے ہوگئے ہیں اور ان کا بہت بڑا ہاتھ ہے اس وقت شیعہ نسل کشی ، صوفی سنّی نسل کشی اور مذھبی اقلیتوں کے خلاف منظم دھشت گردی کے مرتکب دیوبندی مذھبی فاشسٹوں کے خلاف ایک منظم اور صاف و واضح جدوجہد کے سامنے نہ آنے دینے میں اور اس حوالے سے مسلسل ابہام پھیلانے میں اگرچہ اس حوالے سے بعض لوگوں کا کام عمومی مذھبی و نسلی فاشزم کے خلاف کافی ولولہ انگیز ہے جیسے کے بی فراق کی نظمیں ہوں ، رفیع رضا کی شاعری ہے ، احمد فقیہہ ہیں ، عابد حسین عابد ہیں ، شہزاد نئیر ہیں ، اسد فاطمی ہیں اوربہت زیادہ استعاراتی شعروں کے لبادے میں بات کہنے کی کوشش کرنے والے قمر رضا شہزاد ہیں ، رضی الدین رضی تو شعر اور نثر دونوں میں اس بارے میں بہت کچھ لکھ رہے ہیں لیکن شیعہ نسل کشی جس بڑے پیمانے کی ٹریجڈی ہے اسے محض فرقہ واریت جیسی انتہائی گمراہ کن اور فریب و ابہام میں لپٹی اصطلاح بلکہ میں عینک کہوں تو زیادہ بہتر ہوگا اس ٹریجڈی کی وسعت اور پھیلاؤ کو انتہائی سیکڑ کر دیکھنے کے مترادف ہے میں پاکستانی آرٹ میں فیقا کے خاکوں ، کارٹون ، ظہور نظر ، صابر نظر کے آرٹ کو کہہ سکتا ہوں کہ انھوں نے اپنے فن میں اس ٹریجڈی کی ریفلیکشن دینے کی کوشش بہت عمدگی سے کی لیکن جوکہ ان کا کام مالکان میڈیا انڈسٹری کی پالیسی کے تابع ہوتا ہے اور جو کہانی سنسر شپ اور بے جا گلہ گھونٹنے والی سرمایہ دار زھنیت کی کہانی فیکا نے سنائی اس کے بعد یہآں سے اس لہر کے اٹھنے کی امید کم نظر آتی ہے جس لہر کی نایابی کا تذکرہ میں پاکستان کے آرٹ کی غلام گردشوں پائے جانے کا مسلسل کررہا ہوں میں آرٹ کی دنیا کا آدمی نہیں ہوں ، نہ ہی اس ماحول میں پلا پڑھا ہوں کہ جہاں آرٹ اور بورژوائی خصلتوں کے ساتھ ساتھ خودکار طریقے سے من میں جگہ بناتا چلا جاتا ہے لیکن شاکر علی مرحوم کے بقول کسی بھی شہ پارے کو جان لینے کے لیے اس کو بار بار دیکھو کہیں نہ کہیں وہ اپنے حضور آپ کو باریاب ہونے کی اجازت دے ہی دے گا ، جیسے شائستہ مومن کا مشکور ہوں کہ ان کے فن پاروں کے امیج دیکھ دیکھ کر اس فن کی تھوڑی بہت شد بد مجھ میں آنے لگی ہے