Sunday 25 January 2015

کمٹمنٹ (افسانہ )


وہ بیس سال بعد اس شہر میں آیا تھا اور میرے پاس فیصل کا فون آیا کہنے لگا یار کل تم جو ادبی نشست رکھنے جارہے ہو ، اس کا مہمان احمد کو بنالو ، وہ بہت سالوں بعد آیا ہے میں نے کہا ، ٹھیک ہے ایسا ہی کرلیتے ہیں میں نے ناجد کو کہا کہ پروگرام بدل گیا ہے ، اب کل کی نشست کا مہمان احمد ہوگا ، تم اسی کے مطابق پروگرام ترتیب دے لو ،ناجد نے کہا کہ ایسا ہی ہوگا احمد کا میں نے نام تو سن رکھا تھا ،لیکن کبھی اسے ملا نہیں تھا کتنی عجیب بات تھی کہ وہ دو عشروں تک لاہور رہا اور میں نے بھی ایک عشرہ لاہور گزارا لیکن کبھی ملاقات نہیں ہوسکی ،ہاں کئی بار وہاں دوست اس کا تذکرہ کرتے ، میں سنتا اور چپ کرجاتا اور آج وہ خود چل کر اس شہر میں آگیا تھا تقریب ہوگئی ،اس نے اپنے شعر بھی سنا ڈالے ، تقریب سے فارغ ہوکرمیں نے اس کو کھانے کی پیشکش کی تو کہنے لگا کہ چلیں باؤ محمد علی کے زمیندارہ ہوٹل چلتے ہیں ، وہاں کے چنے کھائیں گے اور پرانی یاد تازہ کریں گے اور ساتھ ہی رحمان سويٹس پو جاکر دیسی گھی میں بنی گلاب جامن کھائیں گے اور ساتھ رحمان صاحب کی باتوں سے بھی لطف اٹھائیں گے ، احسان کی چائے پئیں گے اور چھانو کے ہوٹل پر سیاسی کارکنوں کی بحث بھی سنیں گے وہ ایک ہی سانس میں یہ سب باتیں کرگیا میں زرا شاک میں آیا اور تھوڑی دیر تک کچھ نہ کہہ سکا کیا واقعی اس نے ان بیس سالوں میں اس شہر کی کوئی خبر نہ رکھی تھی خاموش کیوں ہوگئے ؟ کیا باؤ جی سے کوئی ناراضگی ہے ؟ احمد بولا نہیں باؤ جی سے کوئی ناراض ہوسکتا تھا ؟ وہ تو ایسے آدمی ہی نہیں تھے میں نے فوری طور پر کہا "تھے" کیا مطلب باؤ محمد علی تو کب کے " تھے " ہوگئے اور ان کے ساتھ "زمیندار ہوٹل " اور اس کے "چنے " بھی تھے ہوگئے ، میں نے کہا اوہ ۔۔۔۔۔۔۔۔احمد نے کہا اور وہ رحمان سویٹس ، احسان اور چھانو کے چائے کے ہوٹل ، وہاں جمتی سیاسی محفلیں جب رحمان ، احسان اور چھانو ہی نہ رہے تو ان کے ٹھکانے کیسے رہتے ، اور تم تو جانتے ہی ہو کہ ضیاءالحق کے بچوں نے جوان ہوکر سیاست ہی نہ رہنے دی تو سیاسی کارکن کہاں سے باقی رہتے ، اب کسے سیاسی کارکنوں کی ضرورت ہے ، ہاں کہتے ہو تو شہر خموشاں چلتے ہیں وہاں یہ سب ہوں گے ، ان سے مل لیں گے میں نے احمد ، فیصل کو ساتھ لیا اور ایک ہوٹل میں جاکر کھانا کھایا کھانا کھانے کے بعد ہم جب ہوٹل سے نکلے تو اچانک دھند پڑنے لگی آپ کہاں بیٹھتے ہیں ؟ احمد بولا ایک کیفے ہے جسے لطیف ٹی سٹال کہتے ہیں ، حالانکہ اچھی خاصی دکان ہے مڈووالے چوک میں وہاں بیٹھتا ہوں ، پرسکون ہے ، شور زرا بھی نہیں ، میں نے کہا چلو وہیں چلتے اور زرا بیچ شہر سے چلو میں شہر کی گلیوں اور سڑکوں کو دیکھنا چاہتا ہوں احمد بولا مجھے پتہ لگ رہا تھا کہ بیس سال کے بعد اس کی واپسی بے سبب نہیں ہے ، وہ کسی چیز کو تلاش کرنے واپس آیا ہے اور اسے لگتا ہے کہ یہیں کہیں اب بھی بیس سال بعد اسے اچانک وہ مل جائے گی میں فیصل اور وہ آہستہ آہستہ ، چھوٹے ،چھوٹے قدموں کے ساتھ ایوب روڈ سے ہوتے ہوئے ، گوردوارہ روڈ سے جب چوک سنگلہ والے پہنچے تو بے اختیار ہماری نظریں اس جانب اٹھیں جہاں کبھی زمیندارہ ہوٹل ہوتا تھا مگر وہاں اب کچھ بھی ویسا نہیں تھا ، جنت روڈ سنسان پڑا تھا ،چھانو کا ہوٹل جو نہیں رہا تھا اور رحمان سویٹس والی دکانیں بھی بند پڑی تھیں اور گلی بھی سنسان تھی ، یار وہ شیخ پیرو ، عالم شیرازی ، عطا عاصی کوئی بھی تو نہیں نظر آرہا ہاں شیخ پیرو تو وہیں گئے جہاں باؤ جی اور رحمان و چھانو گئے ، جبکہ عطا عاصی ک اس شہر میں ہونا نہ ہونا برابر ہے ، شیر عالم شیرازی لاہور ہجرت کرگئے اور پھر نہیں پلٹے ہم چلتے چلتے جب گپّی والے چوک پہنچے تو وہآن چوک تو کشادہ ہوگیا تھا لیکن نہ بوہڑ کا درخت تھا اور نہ اس کے نیچے گپی کا پھٹا اور نہ اس کے اردگرد بچھی کرسیوں پر بیٹھے شعیب الرحمان ، اکرام القادری ، قدیر طاہر ، شمس القمر تھے یار ! یہ چوک کی کشادگی مجھے نجانے کیوں اچھی نہیں لگ رہی احمد دھیرے سے بولا ہم یہ سنکر چپ رہے ، کیونکہ کہنے کے لیے کچھ تھا ہی نہیں چلتے ، چلتے ہم لطیف ٹی سٹال پہنچ ہی گئے اور وہاں بیٹھے میں نے بیٹھتے ہی سگریٹ سلگانی چاہی تو دیکھا احمد فرید کھانس رہا تھا لگتا ہے آپ کو سگریٹ سے پرابلم ہوگی ، میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ارے نہیں ، میں تو خود چین سموکر ہوں ، آج بس طبیعت نہیں کررہی کجھ دیر کے لیے ہم سب خاموش ہوگئے ہاں تو شہر کیوں چھوڑا تھا ، اجآنک میں نے اس سے سوال کیا کمٹمنٹ کے لیے ، اس کے منہ سے بے اختیار نکلا کمٹمنٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں یار ، میں " کالا بابا " تانگے والے کا بیٹا " کمٹمنٹ " کے لیے یہ شہر چھوڑ گیا تھا کالونی میں جہاں ہم رہتے تھے ساتھ ہی شفقت بھائی کا گھر تھا جو اس وقت نیشنل سٹودنٹس فیڈریشن پنجاب کے صدر تھے ، ان کے گھر ہمارا بہت آنا جانا تھا بلکہ ان کی اماں ہم سب کی اماں بھی تھی ، ان کی بیٹھک میں ایک سالخوردہ الماری کتابوں سے بھری تھی ، میں پانچویں کاس میں تھا جب میں نے ساحر ، منٹو ، فیض ، علی سردار جعفری ، امرتا پریتم ، عصمت چغتائی ، سبط حسن ، بنّے میآں سب کے کام کو چکھ چکا تھا ، اور تک بندی تک کرنے لگا تھا ارے اس وقت تو میں عمروعیار ، ٹارزن کی کہانیاں پڑھ رہا تھا اور ان گنت دیو تھے جن سے ہر وقت ڈرتا رہتا تھا ، چڑیلیں ، بھوت پریت تھے جن کے خوف سے دل کی دھڑکن تیز ہوجایا کرتی تھی اور پریوں کے دیس کوہ قاف کے خواب دیکھا کرتا تھا ، میں نے کہا نہیں ایسا بچپن تو مرے قریب بھی نہیں پھٹکا ۔۔۔۔احمد نے کہا اوہ تو آپ " انوکھے لاڈلے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔" زرا بڑا ہوا تو شفقت بھائی کے گھر میں نے معراج محمد خان ، فتح یاب علی خان ، افراسیاب خٹک جیسے کمیونسٹوں اور ترقی پسندوں کو آتے جاتے دیکھا افراسیاب ۔۔۔۔۔۔۔ہا ہاہا ۔۔۔۔۔۔میں نے قہقہہ لگایا ہنسے کیوں ۔۔۔۔۔۔۔ احمد نے پوچھا افراسیاب کو کمیونسٹ اور ترقی پسند کہنے پر ہنسی آئی ہاں نا ،ایسے تو کئی لوگوں کو سابقین کہنا پڑے گا ، احمد بولا سابق نہيں بلکہ مرحوم کیمونسٹ ، ترقی پسند کہو ، مغفور مت کہنا اس کا مجھے یقین نہیں ہے ،میں نے کہا شفقت بھائی ہمارے گرو تھے ، اسٹڈی سرکل لیتے تھے اور ایسے ہی ایک تربیتی سیشن میں انھوں نے مجھے کہا احمد ! اس دنیا میں اگر کوئی شئے سب سے قابل قدر اور مقصود ہے تو وہ کمٹمنٹ ہے ، اپنے ںظریات کے ساتھ میں نے ان کی بات کو پلّے باندھ لیا شفقت بھائی مرے آئیڈیل تھے ، وہ بھی ایک غریب گھر سے تعلق رکھتے تھے ، صحافت کا شوق تھا تو اسے بطور پیشہ بھی اختیار کرلیا اور "روزنامہ امروز ملتان " میں ملازم ہوگئے ، دن رات طالب علموں کو کمٹمنٹ کا درس دیتے تھے اور اکثر فیض کی نظم " بول کہ لب آزاد ہیں تیرے " گنگناتے رہتے اور میں نے بھی لب آزاد کر ليے ، اپنی زبان کو اپنا سمجھ لیا ، قفل کھولے ، زنجیر کا دامن پھیلا لیا اور کمٹمنٹ سے بندھ گیا ایک دن شفقت بھائی نے کہا کہ انقلاب کی جدوجہد کا مثالی مرکز " صنعتی شہر " ہوا کرتا ہے اور وہاں کمٹیڈ دانشوروں کی ضرورت ہمہ وقت رہتی ہے تو میں نے بھی انقلاب کے مرکز میں جانے کا فیصلہ کرلیا اور لاہور چلا آیا اس کے بعد اپنی کمٹمنٹ سے جڑا میں چھوٹے ،بڑے اداروں میں قلم کی مزدوریاں کرتا رہا اور سماج بدلنے کے خواب دیکھتا رہا یہ وہ زمانہ تھا جب سوویت یونیں روبہ زوال تھا ، سماجی تبدیلی کا خواب انقلاب کے راستے دیکھنے والے مغرب سے آنے والی این جی اوز آندھیوں اور جھکڑ میں گم ہوتے جاتے تھے ، کوئی انسانی حقوق کا علمبردار ، تو کوئی بانڈڈ لیبر کا محافظ تو کوئی روشن خیالی کا پروجیکٹ چلارہا تھا اور تبدیلی کے دھارے کی کایا کلپ سول سوسائٹی کے نام سے ہوگئی تھی اور مرے بہت سے سنگی ساتھی این جی اوز کو پیارے ہوگئے تھے این ایس ایف ، قومی محاز آزادی ، کمیونسٹ پارٹی ، کسان کمیٹی ، ٹریڈ یونین سب قصہ رفتہ ہوئیں اور ان کی جگہ ایچ آر سی پی ، سیپ ، عورت فاؤنڈیشن ، شرکت گاہ نے لے لی اور اب سب پروجیکٹ تھا ، میں کمٹمنٹ کے ساتھ چمٹا ہوا تھا پھر ایک دن مجھے شفقت بھائی کا خط ملا ، خط پر ان کا پتہ فیض آباد اسلام آباد کی ایک سٹریٹ کے مکان کا لکھا تھا یہاں تک بیان کرکے احمد نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک کاغذ نکالا جو خاصا پرانا ہوچکا تھا اور اسے ضایع ہونے سے بچانے کے لیے اس کی لیمینشن کرالی گئی تھی احمد نے وہ کاغذ مری جانب بڑھا دیا میں نے وہ کاغذ جو تہہ کیا ہوا تھا کھولا تو وہ ایک خط تھا جو احمد کے نام تھا پیارے احمد سلام ! امید ہے خیریت سے ہوں گے ، کل مجھے چھوٹا بھائی مہتاب ملا ، اس سے میں نے تمہارے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ تم " جنگ " ميں سب ایڈیٹر کی نوکری کرتے ہو اور ابتک کوئی ٹھکانہ لاہور میں نہیں بناسکے ، جنگ کے دفتر میں نيچے پریس کے گودام ميں نیوز پرنٹ کے بنڈلوں پر سوتے ہو ، اور اس نے بتایا کہ ابتک تم " سماج بدلنے " کا خواب دیکھتے ہو اور بار بار " کمٹمنٹ " کا حوالہ دیتے ہو مجھے یہ سب سنکر بہت تعجب ہوا کہ اتنے برس لاہور شہر میں گزارنے کے باوجود اور اس شہر کے کاسمو پولٹن کلچر سے آشنائی کے باوجود بھی تم نے اپنے ماہ و سال بدلنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور تم اب تک " شراب احمر قدیم " کی محبت میں گرفتار ہو میں تمہیں کہتا ہوں کہ اس سراب سے باہر نکلو ، حقیقت پسندی سے کام لو ، اور ایک بات دھیان سے سن لو " دنیا میں " کمٹمنٹ نام کی کوئی چیز نہیں ہے ، اس سے " چو۔۔۔۔یا اور کوئی چیز نہیں ہے ، یہاں مرے پاس چلے آؤ ، مرے پاس تمہارے لیے اپنی این جی او میں شاندار پروجکیٹ موجود ہے ، بہت جلد تمہارے پاس سب کچھ ہوگآ ، مہتاب کو دیکھا ہے نا تم نے کیسی زندگی گزار رہا ہے اور یہاں آغاز میں بھی تمہیں رہائش ، گاڑی کی فکر نہیں ہوگی ، مری کوٹھی میں رہنا احمد ! وہ سب بکواس تھی جو اس کالونی کے اس ادھ کچے پکّے گھر میں اس بیٹھک میں ، میں تم سے کیا کرتا تھا ، زرا اپنے بھائی کو دیکھو کم از کم اس نے مکان پکا کرلیا ہے ، اور سارا گھر چلا رہا ہے ، تم دیکھو نا اس کمٹمنٹ کی گردان نے تمہیں کیا دیا اس لیے یہ خط ملتے ہی بوریا بستر باندھو اور مرے پاس اسلام آباد چلے آؤ فقط والسلام تمہارا بھائی شفقت۔۔۔۔۔۔۔

Saturday 24 January 2015

تخلیقیت کے ریشم بننتے بنتے مرجانے والا منٹو


تخلیقیت کے ریشم بنتے بنتے مرجانے والا منٹو اٹھارہ جنوری 1955 ء اردو کے معروف افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی وفات کا دن تھا اور اس دن پوری دنیا میں منٹو کے چاہنے والوں نے منٹو کو یاد کیا ، اس دن ہندوستان کی ایک معروف فلم میکر نے منٹو کی زندگی پر فلم بنانے کا اعلان کیا جس نے اس سے پہلے طوطی ہند رگھو پتی ناتھ سہائے فراق پر فلم بنائی تھی میں بھی اس دن کی مناسبت سے سعادت حسن منٹو کو یاد کرنے بیٹھا تو مجھے دنیا زاد کے شمارے چالیس میں چھپا افسانہ نگار ، نقاد محمد حمید شاید کا سراج الدین اسلم مرحوم کو بعد از مرگ لکھا خط یاد آیا ،جس کے آغاز میں انھوں نے سراج الدین اسلم کا ادب اور ادیب بارے یہ لکھا یہ بیان نقل کیا تھا امید اور نا امیدی کے درمیان ایک پیچاک ہی ادب ، خاص طور پر فکشن کا موضوع ہے اور اسی پیچاک کے درمیان ایک پڑاو برج عاج ہے جس میں بیٹھ کر ادیب خواب و خیال کے لچھوں سے جھوجھتا رہتا ہے ، کچھ کو سلجھا لیتا ہے ، کچھ میں ریشم کے کیٹرے کی طرح الجھ کر رہ جاتا ہے اور انجام کار مرجاتامگر دنیا کو تخلیقیت کا ریشم دے جاتا ہے منٹو برج عاج میں بیٹھا ایسا ادیب تھا جس کی تخلیقیت کے ریشم کی آب و تاب ، اور قدر و قیمت اردو ادب کے دیگر ادیبوں کی تخلیقیت کے ریشم سے کہیں زیادہ ہے اور شاید اسی لیے منٹو خون تھوکتے 18 جنوری 1955 ء کو بہت جلد اس دنیا سے رخصت ہوگیا یوسا نے ایک جگہ لکھا کہ فنکار بہت پیچیدہ لوگ ہوتے ہیں ، ان کو نہ تو مثالیت زدگی کے ساتھ دیکھنا چاہئیے ، نہ ہی ان کو مجسم شیطان ، ان کا فن ہے جو اہم ہوتا ہے نہ کہ ان کی زندگی ، ان کو سادھو سنت یا شیطان سمجھنا غلطی ہوگی اسی لیے منٹو کو اگر ہم اس کے کام سے الگ کرکے دیکھیں گے تو اسے سمجھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا احمد راہی سے کسی نے منٹو کی نرگسیت اور انانیت بارے پوچھا تم انھوں نے کہا تھا منٹو کی انانیت و نرگسیت اس کی تنہائی کے ساتھ اس کے تفاعل کا نتیجہ تھی ، منٹو کو امرتسر سے دلی اور وہاں سے ممبئی تک دفتر میسر رہا جو لاہور میں کبھی میسر نہیں آیا ادیب کے خود بین ، انانیت اور نرگسیت میں مبتلا ہونے میں شمس الرحمان فاروقی کو بھی کوئی برائی نظر نہیں آئی تھی اور اس موقعہ پر انھوں نے اشعر نجمی کو کہا تھا منٹو جس قدر انانیت پسند اور جتنا بڑا خود بیں و بڑا نرگسی تھا ، اس کا اپنا فن بھی اتنا بڑا تھا جبکہ حنیف رامے نے کہا تھا کہ سماج اگر ایک دیو ہے تو منٹو وہ پرندہ جس میں اس کی جان ہے ، منٹو انا کی بادشاہت کا اکیلا مالک تھا اور اس کے مرنے سے انا کی بادشاہت کا خاتمہ ہوگیا ابھی فیس بک پر مرے دوست جمیل خان نے وسیم علی کا ایک مضمون شئیر کیا جس میں انھوں نے برطانوی ڈرامہ نگار ابسن کے حوالے سے لکھا کہ ابسن نے اپنے ڈرامے میں ایک عورت کو مرد کو طلاق دیتے ہوئے دکھایا تو اس زمانے کا برطانوی معاشرہ ڈرامے میں بھی ایک عورت کی جرات رندانہ کو برداشت نہ کرسکا اور ابسن پر سخت تنقید ہوئی منٹو نے جس زمانے میں افسانے لکھنا شروع کئے تو ان افسانوں میں دکھائے جانے والے کرداروں کو قدامت پرست تو کیا قبول کرتے ، خرد افروزی ، روشن خیالی ، عقلیت پسندی ، صنفی برابری ، مساوات کے علمبرداروں نے اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا سعادت حسن منٹو پاک و ہند کے ایک ایسے ادیب تھے جنھوں نے سچائی کے ساتھ سماج کے ان کرداروں کی زندگی پر کہانیاں لکھیں جن کے بارے میں کوئی بات کرنا ایک ٹیبو خیال کیا جاتا تھا اور سماج کے اندر منافقانہ طور پر اخلاقیاتی ملمع کاری کرتے ہوئے اس کے بدترین پہلووں کو چھپائے جانے کی جو روائت تھی اس کو انہوں نے توڑدیا ، منٹو کی اس بے باکی اور ہمت کو متحدہ ہندوستان میں بھی اردو کی ادب ، صحافت کی دنیا پر چھائی اشرافیہ نے قبول نہ کیا ، یہاں تک کہ اس وقت کے جو اشتراکی خیالات کے مالک ترقی پسند ادیب تھے وہ بھی منٹو کی اس سچ بیانی و تلخ بیانی کو برداشت نہ کرسکے اور ایک وقت وہ بھی آیا کہ منٹو کو ترقی پسند تحریک کا حصہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا گیا سعادت حسن منٹو کے افسانوں کو شاہد دہلوی نے اپنے رسالے میں شایع کرنا شروع کیا اور اس حوالے سے منٹو کے افسانے " بو " کو شایع کرنے پر ان کو بطور رسالے کے ناشر و ایڈیٹر لاہور کی ایک عدالت میں ماخوز بھی کیا گیا ، شاہد دہلوی نے منٹو پر لکھے اپنے خاکے میں اس بارے کافی تفصیل سے بتایا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ منٹو کو اپنے خلاف مقدمات کی کوئی پرواہ نہیں تھی اور اس پر وہ پریشان نہیں ہوتے تھے نندنا داس سچیتا کہتی ہیں کہ جب وہ طالب علم تھیں تو انہوں نے منٹو کو پہلے انگریزی میں پڑھا اور اس کے بعد انہوں نے دیوناگری خط میں لکھی اردو کہانیاں پڑھیں تو منٹو نے ان کو پوری طرح سے اپنی گرفت میں لے لیا منٹو نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز تراجم سے کیا اور اس سلسلے میں وہ معروف کمیونسٹ ادیب و تاریخ دان باری علیگ کے ساتھ ہوئے اور یہ امرتسر میں ان کی ادبی زندگی کا بطور ایک اشتراکی ادیب کے آغاز تھا ، ہندوستان کے معروف ادیب ڈاکٹر علی فاطمی نے " کامریڈ منٹو " کے حوالے سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں ان کی اشتراکی خیال کے زیر اثر لکھی تحریروں کا جائزہ اور فہرست پیش کی ہے ، منٹو نے اردو ادب کے قاری کو روسی فکشن نگاروں سے واقف کرایا ، چیخوف کے گورکی کے نام خط کے تراجم کئے اور روس کے معروف ادیبوں کی کہانیوں اور شاعری کے منتخب تراجم کئے جن کے مستند ہونے پر کسی کو شک نہیں ہے فیض صاحب نے بھی ایک جگہ منٹو کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کی زمانہ طالب علمی کی چند جھلکیاں دکھائیں ، جس میں منٹو کو نصابی تعلیم سے باغی مگر ادب کا زھین طالب علم کی جھلکیاں دکھائی ہیں ، آزاد منش طبعیت منٹو کی آغاز کار سے تھی اور یہی آزاد منشی تھی جو منٹو کو ممبئی تک لے گئی تھی پطرس بخاری نے بھی آل انڈیا ریڈیو سروس میں منٹو کی زندگی کی کچھ جھلکیاں ہمیں دکھائی ہیں منٹو کے بارے میں حمید شاہد نے بھی بہت ہی پیاری بات لکھی ہے کہ اردو ادب کبھی بھی منٹو کے سحر سے باہر نہیں آسکا اور اردو ادب کو دوسرا منٹو بھی کبھی میسر نہ آسکا منٹو نے کالونیل دور میں انگریز راج بارے عام آدمی اور سفید فام آقا کی زھنیت کو بے نقاب کرنے والے کئی ایک افسانے بھی لکھے جن میں " نیا قانون " ایک ایسا افسانہ ہے جو کوئی بھی پڑھتا ہے تو اسے فراموش نہیں کرپاتا ، منٹو نے فرنگی راج کے خاتمے سے ایک عام آدمی کو کیا توقعات تھیں اسے منگو کوچوان کی شکل میں دکھانے کی کوشش کی ، اس زمانے میں 1935 کا انڈیا ایکٹ نافذ کئے جانے کی باتیں ہورہی تھیں اور اسے ہندوستان کی عام طور پر اور پنجاب کی سیاسی اشرافیہ اور وکلاء وغیرہ اسے بہت بڑا کارنامہ بتلارہے تھے ، ایسے میں " نیا قانون " کا مطلب ایک تانگہ چلانے والے کوچوان نے کیا لیا اور جب اس نے آزادی کے اپنے معنی متعین کرتے ہوئے اس پر عمل کیا تو اس کے ساتھ کیا بنا ، بین السطور اس افسانے میں منٹو نے پوسٹ کالونیل دور ، ہندوستان کے برطانوی قبضے سے آزاد ہونے کے بعد کی صورت حال کی پیشن گوئی بھی کرنے کی کوشش کی جو بعد میں گماشتہ ریاست ، گماشتہ سرمایہ داری ، گماشتہ حکمران طبقے کے ساتھ ہمارے سامنے آن کھڑی ہوئی اور اس کو جب نیو کالونیل یا نو آبادیاتی دور کہا گیا جس میں سفید جلد والے آقا تو چلے گئے تھے لیکن ان کی جگہ کالے ، زرد جلد والے جن کے نام ، خدوخال ، زبان ہماری جیسی تھی لیکن زھنیت وہی سفید آقا والی تھی اور بقول فرانز فینن کہ کالونی بن جانے والے علاقوں کے لوگ جو محکومیت اور غلامی کے تجربے سے گزرے تھے ان پر غلام بنائے جانے کا اثر یہ ہوا کہ وہ خود بھی آقا جیسے بننے کے خبط میں مبتلا ہوگئے منٹو نے تقسیم ہندوستان کو " ٹوبہ ٹیک سنگھ " میں تصویر کیا اور اسے ایک طرح سے پاگل پن اور جنون سے تعبیر کیا اور اس سے جو تقسیم کلچرل سطح پر ہونی تھی اور اس سے ایک عام آدمی کو اپنی جنم بھومی کے اچانک اجنبی بن جانے کا جو صدمہ اٹھانا پڑرہا تھا اور اپنے شہر ، گاوں اور محلے کے یک دم کوئی اور جگہ بن جانے کا جو نقابل فہم عمل تھا اس سے جو صورت حال پیدا ہوئی اسے پاگلوں کی مذھبی شناخت کے حوالے سے تبادلہ آبادی کی صورت بیان کیا ہے ، ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں جائے گا ، اس کے پیچھے دراصل نئے بننے والے دونوں ملکوں کو اصل میں ایسی جگہ بن جاتے ہوئے دکھائے جانے کا عمل ہے کہ کسی کو بھی اپنی جنم بھومی نہیں ملتی اور سب اپنے اپنے ٹوبہ ٹیک سنگھ ڈھونڈنے میں لگے ہوئے ہیں آج اس افسانے کی کہیں زیادہ بڑی تفہیم کی جاسکتی ہے کہ ایک طرف تو پاکستان کے اندر بسنے والی قومیتیں بلوچ ، سندھی ، پشتون ، سرائیکی ، گلگتی بلتی ، کشمیری اور یہاں تک کہ خود پنجابی بھی اپنا ٹوبہ ٹیک سنگھ تلاش کررہی ہیں ، جبکہ 1971ء میں بنگالی اپنا ٹوبہ ٹیک سنگھ بنانے کے لئے بنگلہ دیش کی منزل تک پہنچ گئے تھے ، ادھر ہندوستان میں کشمیری ، ناگا لینڈ ، آسام ، چھتیس گڑھ سمیت ساوتھ انڈین اپنے اپنے ٹوبہ ٹیک سنگھ کو تلاش کررہے ہیں ، اسی طرح سے برصغیر پاک ہند کی مذھبی اقلیتوں ، نسلی گروہوں ، عورتوں کو بھی اپنے ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تلاش ہے ، ٹوبہ ٹیک سنگھ کی رٹ لگانے والا بشن سنگھ نو مین لینڈ پر جم کر کھڑا ہوجاتا ہے اور بالآخر دم توڑ دیتا ہے اور بشن سنگھ کا نو مین لینڈ جہاں نہ پاکستان تھا اور نہ ہندوستان تھا پر کھڑے ہوجانا ایک طرح سے ہندوستان اور پاکستان کے ان لوگوں ، گروہوں اور اقوام کا المیہ ہے جن کو تاحال اپنا ٹوبہ ٹیک سنگھ نہیں مل سکا اور وہ ان ملکوں میں اصل میں نو مین لینڈ پر کھڑے ہیں نو مین لینڈ پر پاکستان میں ہندو ، کرسچن ، احمدی بھی کھڑے ہیں اور مذھبی دہشت گردی کے سامنے آنے کے بعد نومین لینڈ پر کھڑے برصغیر کی متنوع اور تکثیر المذھبیت کی نمائیندگی کرنے والے بھی کھڑے ہیں جن کو ان کے مخصوص عقیدے اور یہاں تک کے مخصوص ناموں کی وجہ سے مارے جانے کا سلسلہ جاری ہے اور ا ن کی بہت بڑی تعداد ہجرت زدگی کا شکار ہوئی ہے ایسی نو مین لینڈ ہندوستان میں مسلمانوں ، کرسچن کے لئے بنی ہوئی ہے جن کو آر ایس آیس ، بجرنگ دل جیسی ہندو فسطائی تنظیموں کے جبر کا سامنا ہے منٹو نے ہندوستان کی تقسیم کے دوران افراتفری ، نفسانفسی کے دوران کئی ایک تصویروں کے زریعے اس طرح کی شاک تھراپی سے کام لیا ہے کہ اس کا سامنا ایک منافق سماج کرہی نہیں سکتا ٹوبہ ٹیک سنگھ افسانے کے بارے میں پاکستانی نژاد ن-م -دانش نے ایک مضمون میں لکھا کہ یہ افسانہ ادب میں Irony کی بہترین مثال ہے ، اس میں راوی کے بیانات سے ، کرداروں کی گفتگو سے ، عمل سے اور کہیں بیان و عمل کے درمیان اور کہیں پوری صورت حال میں ، کہیں پیراڈوکس کی شکل میں اور کہیں دبے ہوئے طنز میں ،یہاں تک کہ اس کے پورے سٹرکچرل نیچر سے یہ Irony جھلک رہی ہے تقسیم کے وقت ایک پاگل پن ظہور پذیر ہوا جس نے پوری فضا کو Ironic کردیا کالی شلوار ، کھول دو ، ٹھنڈا گوشت ، موزیل ، بابو گوپی ناتھ ، یزید جیسے افسانے گہرے طنز کے ساتھ ساتھ جس بدنمائی کو بے نقاب کرتے ہیں اس بدنمائی کو دیکھ کر ہمارے بہت سے واعظ ، محتسب ، مفتی ، قاضی ، اخلاقیات کے ٹھیکے دار کل بھی منٹو کو کوستے تھے اور آج بھی منٹو ان کے ہاں معتوب ہے پاکستان ، بنگلہ دیش ، ہندوستان ان تینوں ملکوں میں سچائی کی اس سرحد پر جاپہنچنے والوں کو کبھی بھی برداشت نہیں کیا گیا جس سرحد پر کئی ایک ٹیبو بے نقاب ہوتی ہوں ،یا ان ملکوں کی ریاستوں اور اس کی نام نہاد نظریاتی سرحدوں کی پول کھلتی ہو ، یا کوئی ایسا شخص کارہائے نمایاں سرانجام دے دے جس کی مذھبی شناخت کو تمام برائیوں کی جڑ قرار دے دیا گیا ، ایسے لوگ ان سماجوں میں بقول وسیم الطاف مس فٹ ٹھہرادئے گئے قرہ العین حیدر کو پاکستان سے واپس اس لئے جانا پڑا کہ ان کے ناول ، کہانیاں ، افسانے پاکستان کی ریاست اور اس کے نظریاتی نام نہاد محافظوں کے بیانئے سے مطابقت نہیں رکھتے تھے سجاد ظہیر کو اپنے اشتراکی خیالات کی بنیاد پر پاکستان میں رہنا محال نظر آیا تو واہس ہندوستان چلے گئے ، ڈاکٹر عبدالسلام کو اس ملک نے ان کی مذھبی شناخت کی وجہ سے قبول نہ کیا ساحر لدھیانوی کو سویرا رسالے میں اشتراکی خیالات کی ترویج کرنے کی بنا پر بغاوت کا مرتکب ٹھہرایا گیا اور ان کو بھی ہندوستان جانے پر مجبور کیا گیا لیکن خود ہندوستان میں صورت حال کیا ہے ، ایف ایم حسین کو آرٹ کی وجہ سے قطر بھاگنا پڑا ، ساجد رشید قاتلانہ حملے میں بال بال بچے ، ارون دھتی رائےنے جب ہندوتوا ، سرمایہ دارانہ تصور ترقی کے بخئیے ادھیڑتے ہوئے ماوسٹ تحریک اور کشمیر سمیت دیگر علاقوں کی ٹھیک ٹھیک صورت حال بیان کی اور ابھی حال ہی میں دی ڈاکٹر اینڈ سینٹ میں انہوں نے مہاتما گاندھی کی رد تشکیل کی اور ڈاکٹر امبیدکر کو ہندوستان کا حقیقی مہاتما قراردیا تو اس پر بھی شور مچ گیا منٹو کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا اور ان کی سچ بیانی پر مشتمل ان کا آرٹ کسی کو بھی نہیں بھایا اگرچہ منٹو کو عام آدمی کی طرف سے خوب پذیرائی ملی لیکن منٹو کے ذھبی سٹریس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ کیسے وہ اس سٹریس کے تحت پاگل خانے جاپہنچے اور ایک دن خون تھوکتے مرگئے منٹو کو مشرف عالم زوقی نے انگلش میں منتقل کیا تو ایک لاکھ سے زیادہ کاپیاں ہاتھوں ھاتھ بک گئیں اور انگریزی پڑھنے والے یورپی نقادوں نے اسے موپساں کے ہم پلہ قرار دیا منٹو نے اپنے فکشن اور نان فکشن میں جن حقیقتوں کو منکشف کرنے اور حقیقت و فسانہ سے ملاکر جس فنتاسی کو تخلیق کیا وہ نقل بمطابق اصل تو تھی ہی لیکن پورا فکشن بھی تھی اور اتنی تلخ تھی کہ اس کی تلخی سے صرف منہ ہی کڑوا نہیں ہوتا تھا بلکہ اس سے چہرے بھی بری طرح سے بگڑ جاتے تھے ، کہتے ہیں کہ عبداللہ حسین ، انتظار حسین اور مشتاق یوسفی نے بھی تو اسی ادب سے لاکھوں روپے کمائے لیکن مرا خیال یہ ہے کہ وہ اس چڑھائی پر کبھی نہیں چڑھے جہاں چڑھنا منٹو کے لئے کھیل تماشے سے زیادہ نہ تھا اور ارباب اختیار اور اس ملک کے اخلاقی کوڑے رکھنے والوں کے لئے اس چڑھائی پر چڑھنا ناقابل معافی جرم تھا اس لئے منٹو کو وہ سکون نہیں ملا جو کم از کم انتظار حسین ، عبداللہ حسین وغیرہ کے حصے میں آگیا ، ہمارے ہاں تو جانگلوس کی ڈرامائی تشکیل ہی ریاست اور حکمران طبقہ بچا سکا تھا وہ منٹو کا ٹوبہ ٹیک سنگھ کیسے بچا پاتا عاصم بٹ نے ایک جگہ لکھا تھا کہ سٹیفن ہاکنگ نے "وقت کے سفر " میں لکھا تھا ایسے طاقتور اور عظیم الجثہ ستارے موجودہیں جو حجم میں بڑے ہونے کی وجہ سے اپنی روشنی خود کھاجاتے ہیں ، ان کا بڑا ہوناان کے حق میں بہتر ثابت نہیں ہوتا .......مگر اس وقت مجھے ایسے چھوٹے ستاروں کا خیال آرہا ہے جو چھوٹے ہونے کے باوجود بڑے ہونے کا زعم رکھتے ہیں اس لئے بڑے ہونہیں پاتے اسی وجہ سے وہ اپنی روشنی ساری کی ساری کھاجاتے ہیں ، ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ بڑے سیاروں کا بڑا پن ان کی روشنی کو کھاجانے سے پتہ چلتا ہے مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ بڑے سیارے تو روشنی کھانے سے پہلے بھی بڑے ہوتے ہیں جبکہ بونے اگر اپنی روشنی کھائیں تو وہ اپنے آپ کو مضحکہ خیز بنالیتے ہیں پاکستان کے اندر منٹو نے جس ٹوبہ ٹیک سنگھ کی نشاندہی کی تھی اس سے یار لوگوں نے ضیاءالحق کے نظریات کے مطابق پاکستانیت برآمد کرنے کی کوشش کی بالکل ایسے ہی جیسے سیکولر ، لبرل ، اعتدال پسند جناح اور مسٹر اقبال کو مولوی بنانے کی کوشش کی گئی تھی ، منٹو پاکستانی تھا یا ہندوستانییہ بحث اصل میں چھوٹے سیاروں کا بڑے ہونے کے زعم میں مبتلا ہونا اور منٹو کی روشنی کو کھانے کی کوسش ہے شاید ایسے ہی بڑے ہونے کا زعم رکھنے والے لوگوں کے بارے میں ہندوستانی نکسل باڑی شاعر پاش نے " کاغذی شیراں دے ناں " ایک نظم لکھی اور کہا تھا تسی اتر ہو نہ دکھن تیرنہ تلوار تے ایہہ جو سلھ والی کچی کندھ اے تسیں ایس وچلیاں دو موریاں ہو جینہاں وچوں کندھ پچھلا شیطان آپنا ڈیفنس تکدا اے تسیں کنک دے وڑھ وچ کرے ہوئے چھولے او تے مٹی تہاڈا وی حساب کرنااے سادے لئے تسی اک ٹھوکر وی نئیں شاید تہانوں آپنی ہوند دا وہم اے میں دسدا آن تسیں کیہ او تسیں کیکر دے بی او جاں ٹٹیا ہویا ٹوکرا جو کجھ وی چکن توں امرتھ او تسیں ایہہ ائر گن موڈھے تے لٹکائی پھردے او تسیں قتل نئیں کرسکدے صرف ست اکونجا دے مدعی ہوسکدے او منٹو کو کیکر کے بیج، ست اکونجا دے مدعی بن سکن آلے دفن نہیں کرسکدے منٹو ایک ایسا فکشن نگار ہے کہ جس کی تحریریں نت نئے معنی اور تفہیم کا در وا کرتی رہیں گی اور جیسے جیسے وقت گزررہا ہے اس کی تحریروں میں چھپے معانی کی پرتیں کھلتی جاتی ہیں اور اس کی تخلیقیت زیادہ سے ہمارے سماج سے متعلق ہوتی جاتی ہے نوٹ : انجمن ترقی پسند مصنفین خانیوال شاخ کی دوسری ادبی نشست کے لئے لکھا جانے والا مضمون ، منٹو کی یوم وفات کے حوالے سے لکھا گیا )