Monday 19 December 2011

دسمبر (افسانہ) عامرحسینی

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ میری رجائیت بہت تیزی سے ختم ہونے لگے گی -شک کے سائے طویل ہوجائیں گے-اور مجھ میں کوئی تلخی کسی جگر کو خوں کردینے والے زہر کی طرح میری ہستی میں گھل جائے گی -اور مجھے اپنے اعصاب پر ایک ان دیکھا خوف ہر دم طاری ہوا ملے گا-بہت خوبصورت دن تھے-اور بہت ہی خوبصورت راتیں تھیں-ایک جوش تھا من میں اور ایک جزبہ تھا دل میں -جسے شائد انگریزی کا شاعر ولیم بلیک جوانی کا جوش کہتا ہے-میرے ایک ہم دم رفیق تھے وقار اسلم بلوچ-ہم دن رات اکٹھے گزارتے تھے-وہ پرویز صاحب کے عاشق تھے اور میں کارل مارکس کا-لکین بہت مزے لیکر ادب اور شعر کی محفل سجاتے تھے-ہم نے سال کے آخری دنوں کی سردی کو لمبی دھند بھری راتوں میں تنہائی کو اکٹھے اپنے صحن میں،گلی،بازار میں اترتے دیکھا تھا-اور سارے جہاں کی باتیں تھیں جو ہم کرتے تھے-عجب رنگ کی اداسی تھی-جس میں مایوسی نہیں ہوتی تھی-اس اداسی میں بھی امید کے چراغ جلا کرتے تھے-شہر کا سناٹا ہمیں کاٹ خانے کو نہیں دوڑتا تھا-وہ اور میں رات کو جب نکلتے تھے تو گرلز ہاسٹل سے سحربھی ہمارے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلا کرتی تھی-خود کو گرم رکھنے کےلئے برانڈی کے چند گھونٹ ہم اپنے اپنے معدوں میں اتار لیا کرتے تھے-وقار اسلم ایسے موقعہ پر ہمیں پرانے شہر کی تنگ و تاریک گلیوں سے لیجاتا ہوا سول لائن میں آنکلتا تھا-اور یہ سول لائن کسی زمانے میں انگریزوں نے تعمیر کی تھی-اور آج یہاں کے اکثر بنگلے پرانی طرز کے تھے-اور ان میں پرانی اشرافیہ یادگار زمانہ کی طرح رہتی تھی-وقار اسلم کا معمول تھا کہ وہ ہمیں سول لائیں لیجانے سے پہلے کرسچن کی اس بستی سے ضرور گزارتا تھا -جہاں برصغیر کے وہ افتادگان خاک بستے تھے جو اپنی ذات کے چھوٹے پن کو ختم کرنے کے لئے کرسچن ہوئے تھے-لکین انگریز نے ان کو اپنے برابر میں بٹھانا پسند نہ کیا-اور ان کی بستی کو اس طرح سے بنایا کہ وہ انگریز حاکموں کی ترقی یافتہ کالونی اور غلام بنا لئے گئے ہندوستانی باشندوں کے پرانے شہر کی تنگ و تاریک گلیوں والے محلوں کے درمیان عملی طور پر ایک بفر زون بن کر رہ گئی-ان کا گرجا گھر بھی انگریز نے الگ بنایا تھا -یہ بستی پاکستان بننے کے بعد بھی ایک طرح سے بفر زون ہی بنی رہی پرانے شہر کی تنگ و تاریک گلیوں میں بسنے والی غریب عوام اور سول لائن میں قیام پذیر ہونے والی اشرافیہ کے درمیان -وقار اور ہم غریبوں اور اچھوتوں کے گرجا گھر کو دیکھتے اور پھر سول لائن میں بنی اس عظیم الشان عمارت کو بھی دیکھتے جو انگریزوں نے اپنے لئے تعمیر کی تھی-وقار اسلم نے ایک مرتبہ مجھے کہا کہ برطانیہ ایسٹ کمپنی کے فرنگی ان فرنگیوں سے زیادہ ہوشیار تھے جنہوں نے امریکہ اور آسٹریلیا میں جاکر قبضے کے تھے-اور انھوں نے اپنے وہاں کے رائد انڈینز کو نیست و نابود کر ڈالا تھا-جبکہ برطانوی سامراج نے یہاں کے مقامی ہندوستانی نیچ ذات کے لوگوں کو نیست و نابود نہیں کیا بلکہ ان کو اپنے ہم مذھب بنا کر ان کی ایسی کایا کلپ کی کہ وہ اپنے ہی دیس میں اجنبی ہوگئے-اور برطانوی سامراج کے محکوم ہوگئے-ہم سول لائن کے ارد گرد بننے والی نئی کالونیوں کو بھی دیکھا کرتے تھے-یہ کالونیاں ایک اور تہذیب کی آئنہ دار تھیں-اور وہ تھی کارپوریٹ امریکی تہذیب -ایک مرتبہ ہمیں سول لائن میں سابق وزیر خارجہ عزیز احمد کی کوٹھی میں جانے کا اتفاق ہوا-یہاں میاں اعجاز رہتے تھے-انھوں نے ہمیں جس ڈرائنگ روم میں بٹھایا وہ پرانے وکٹوریائی طرز پر بنا ہوا تھا-یہ جنگلے والی کوٹھی کے نام سے مشہور کوٹھی تھی-اور اس کو ایک آباد کار رائے جسونت سنگھ نے بنایا تھا-جس کے نام پر ایک علاقہ جسونت نگر اب بھی اس شہر میں موجود تھا-میاں اعجاز ہم سے کہنے لگے کے نو دولتیوں نے ملک ملک میں تہذیب اور ثقافت کو تباہ کر دیا ہے-یہ ایک ایسا فقرہ ہے جو ہم نے بارہا سنا تھا-اور لکھا ہوا بھی دیکھا -جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے ١٨٥٧ میں دلی اجاڑ دی اور پورے ہندوستان میں وکٹوریائی کلچر ابھرا تو فارسی اور اردو کی تہذیب والی اشرافیہ کچھ ایسا ہی مرثیہ پڑھتی نظر آتی تھی-اور جب فرنگی کلچر سے امریکی کلچر ظہور پذیر ہوا تو ہم نے فرنگی دور کے امراء سے ایسا ہی گلہ سنا -میں، وقار اور سحر علی تینوں ہنستے ہوئے کوٹھی سے باہر آگئے تھے-بس کچھ ایسے ہی وہ دسمبر کے آخری دن تھے-ہوا بھی بہت سرد تھی-اور ہم راتوں کو اسی طرح سے مٹر گشت کرتے تھے-اور جب دسمبر کی آخری تاریخ تھی-اور رات کے دس بج چکے تھے-ہم تینوں باہر نکلے تھے-اس چھوٹے سے شہر میں شائد ہم تین ہی تھے جو سال نو کا جشن منانے رات کو نکلے تھے-اور کوئی نہیں تھا جو یہ جشن مناتا -اس مرتبہ ہم نے یہ رات ایک شمشان گھاٹ میں منانے کا فیصلہ کیا تھا-یہ شمشان گھاٹ اس دور کی یاد گار تھا جب اس شہر میں ہندو ،مسلم،سکھ اور کرسچن سب ہی تو رہتے تھے-اس شہر کے بیچ میں ایک گردوارہ بھی تھا-جس کے درمیان ایک بازار تھا -جس کو گردوارہ بازار کہتے تھے-یہاں جو بھی لاہور کی طرف جاتا یا لاہور کی طرف سے آتا تو وہ اس جگہ متھا ٹیک کر جاتا تھا-اسی طرح یہاں ایک خالصہ اسکول تھا-جو اب مسلم ہائی اسکول ہوگیا تھا-ایک رام چونترہ تھا جہاں سے دریا بکل سیدھا تھا-کہا جاتا ہے کہ رام کرشن اور سیتا جی یہاں آئے تھے تو کنارے پر وہ سیتا کو چھوڑ کر اشنان کرنے چل نکلے -اس وقت دریا کا رستہ ٹیڑھا تھا-انھوں نے دریا کے بیچ جا کر جب سیتا کو دیکھنا چاہا تو دریا کے کنارے بکل سیدھے ہوگئے-اس کو رام چونترہ کہتے تھے-یہ جگہ بھی بہت مقدس جگہ تھی-پیچھلے سال ہم نے نئے سال کا جشن وہیں منایا تھا-آج یہاں شمشان گھاٹ آئے تو بہت سی کہانیاں اس گھاٹ کے بارے میں مشہور تھیں-کہ یہاں رات کو پچھل پیری فرا کرتی تھیں-یہ بھی عجیب بات ہے کہ ایک مذھب کے ماننے والے اپنے مردوں کو روحیں اور دوسرے مذھب کے مردوں کو بدروحیں کہتے تھے-ویسے ہم تینوں کو پیچھل پیری دیکھنے کا بہت شوق تھا-لکین حمائ یہ خواہش پوری نہ ہوسکی-وقار کا طریقہ تھا کہ وہ اپنے لان کوٹ میں بہت سے کاغذ ٹھونسے ہوتا تھا-اور ہر کاغذ پر کچھ نہ کچھ لکھا ہوتا تھا -اس رات بھی اس نے کچھ کاغذ اپنی جیب میں ٹھونسے ہوئے تھے-ہم پہلے ٹیلی فون ایکسچینج گئے-اور وہاں جا کر ہم انتظار کرنے لگے عبد الله اور دوسرے دوستوں کی کال کا جو پیرس میں ایفل ٹاور کے نیچے رات کو سال نو کا جشن منانے اکٹھے ہورہے تھے-یہ زمانہ بھی خوب تھا -ابھی ہمارے یہاں ا کمپوٹر آیا تھا-نہ کوئی موبائل فون تھے-نہ انٹرنیٹ-رسائی اور وصال ایک دشوار مرحلہ ہوا کرتے تھے-ایسے ہی ٹرنک کال آئی-باری باری ہم نے بات کی-عبد الله نے کہا کہ وہ شیمپین کے ایک گھونٹ سے سال نو کے جشن کو ہمارا نام لیکر شروع کر رہا ہے-میں نے حیرانی سے کہا مولوی عبد الله حسین کیسے مسٹر بنا گیا-اور ہمیں مولوی بنانے کی انتھک کوشش کرنے والا عبد الله کی یہ کایا کلپ کیسے ہوئی -تو پیچھے سے راحیلہ نے آواز لگائی یہ نیلی آنکھوں والی نت کھٹ فرنچ لڑکی جینی کا کمال ہے-بات کرنے کے بعد ہم تینوں وہاں سے نکلے اور شمشان گھاٹ کی طرف چلنے لگے-وقار نے جینز کی پینٹ اور موتی سی شرٹ کے اوپر لان کوٹ پہنا ہوا تھا-اس نے سر سے لیکر کانوں تک ٹوپ لیا ہوا تھا -اس کے نیچے اس کے لمبے بال جو اس کے شانوں تک آتے تھے-بھکرے نہیں تھے-آج اس نے ان کی پونی بنا رکھی تھی-سحر علی نے بھی جینز ،شرٹ اور لانگ کوٹ پہن رکھا تھا-اس کے بال ٹوپ کے نیچے بکھر کر شانوں تک آئی ہوئے تھے-دونوں کے گال ریڈ وائن سے اور زیادہ سرخ ہو کر قندھاری اناروں کی طرح لگ رہے تھے-اور آنکھیں نشیلی تھیں-جبکہ میں حسب معمول شلوار کامیز اور اس کے اوپر کوٹ پہنے ہوئے ان کے ساتھ چل رہا تھا-میرا رنگ جو کبھی گندمی ہوا کرتا تھا -قدرے سانولا ہوگیا تھا-چلتے چلتے وقار کو جانے کیا سوجھی کہنے لگا تم ہمیں ایسا لگتا ہے کہ دراوڑ قوم کے باشندے ہو اور ہم کوئی آریہ جو ساتھ ساتھ چل رہے ہیں-آج کی رات تم کو مہمان بنایا ہے-تاکہ ہم اپنے بزرگوں کی غلطیوں کی تلافی کرسکیں-مجھے دونوں بہت عجیب لگے تھے-سحر علی اور وقار کا کہنا تھا کہ ہم سرخ و سفید رنگت والے ہندوستان کی وادی کے لوگ نہیں تھے-کتنی عجیب بات ہے کہ کرشن بھی تو کالے تھے گورے نہیں تھے-ہندوستان کا رام بھی گورے رنگ میں اپنے شہود کو پسند نہیں کرسکا- وقار کو جانے کیا ہوگیا تھا اس رات -وہ مجھے خود بھی کوئی دیو مالا کا کردار لگ رہا تھا-آج جب یہ سطریں لکھنے بیٹھا ہوں تو ووہی دسمبر کے آخری دن اور سرد لمبی راتیں ہیں-لکین اس چھوٹے شہر میں نہ تو سحر ہے اور نہ ہی وقار -اس رات وقار نے جانے کیوں امجد اسلام امجد کی نظم "دسمبر "ہمیں سنائی تھی-سماں باندھ دیا تھا-اس کی آواز ایک گونج کی صورت تھی-اور مجھے کبھی وہ لفظ بھولتے نہیں تھے-
"آخری چند دن دسمبر کے ہر برس ہی گراں گزرتے ہیں
خواہشوں کے نگار خانے سے کیسے کیسے گمان گرتے ہیں
یہ لائنیں مجھے اس لئے بھی یاد آگئیں کہ آج ایک دوست نے پیغام بھیجا کہ وہ آخری دسمبر میں اپنے دوستوں کی لسٹ مختصر کر رہا ہے-اور اس نے امجد کی یہ نظم لکھ ڈالی-مجھے خیال آیا کہ میں نے تو کبھی کاغذ پر یہ لسٹ بنائی نہیں تھی-اور دل کے کاغذ پر لکھی لسٹ پر کبھی نظر ثانی نہیں کی تھی-پھر آنے والا ہر دسمبر کیوں خود ہی اس لسٹ کو مختصر کرتا چلا گیا -آج بہت عرصۂ بعد وقار کا ایک میسج مجھے موبائل پر ملا -جانے اس کو میرا نمبر کس نے دیا -میسج کچھ یوں تھا
"میرے والد اسلم بلوچ دس دن قبل انتقال کر گئے تھے"
یہ مختصر سا میسج مجھے بہت کچھ بتا گیا تھا-وہ دس دن اپنےاندر حوصلہ پیدا کرتا رہا کہ مجھے اس کی خبر دے تو کیسے دے-مجھے یاد ہے کہ اس کو جتنے بھی دکھ ملے وہ دسمبر میں ملے تھے-وہ اکثر کہا کرتا ہے کہ یہ دسمبر جاتا جاتا چرکہ لگا ہی جاتا ہے-٢٧ دسمبر جب بینظیر بھتو شہید کی خبر آئی تو میں تنہا سول لائن کی اس سڑک پر گرجا کے سامنے کھڑا تھا جہاں ہم تینوں اکثر اکٹھے ہوتے تھے-واقعی دسمبر بہت ظالم ہوتا ہے-دسمبر کے ایک رات دادا روٹھ گئے تھے-اور دسمبر کی رات تھی جب دادی نے رخت سفر باندھا تھا-آج جب دسمبر کے آخری دن تھے تو اسلم صاحب کے جانے کی خبر آگئی-سحر علی کا مجھے پراگ سے فون آیا ہے-وہ بھی سخت دسمبر میں برفباری میں اس خبر سے پیدا ہونے والی اداسی کو ساتھ لئے دریائے پراگ پر بنے لکڑی کے ایک پل پر اکیلی کھڑی تھی-اس نے بتایا کہ وققر نے اس کی ہوں کال پک نہیں کی-اس نے تو میری کال بھی پک نہیں کی-اور ہاں اس کی بیوی جس کو حجن بی بی کہ کر بلاتا تھا-جو اس کی رندی اور اس کی مذھب بیزاری پر اسی طرح سے ماتم کرتی تھی -جس طرح سے میری بیوی کرتی ہے-اور سحر علی تو اب تک اکیلی ہے-اس لئے اس کو کوئی نہیں ملا جو اس پر ماتم کرے-وقار کی بو کہتی ہے کہ وہ کمرے میں بند بس خاموش بیٹھا ہے-کوئی بات نہیں کرتا-میں جانتا ہوں اس کی اس طویل خاموشی کا سبب -آخری رات جب وہ یہ شہر چھوڑ کر جانے والا تھا تو اس نے مجھے آکر بتایا تھا کہ اس نے ایک این جی او میں نوکری کرلی ہے-اور میں یہ خبر سن کر حیران تھا -اس لئے کہ وہ سی ایس پی اکیڈمی چھوڑ کر آگیا تھا-اور ایک رات وہ مجھے کافی دیر تک یہ بتاتا رہا تھا کہ این جی او اور سامراج کی باہمی رشتہ داری ہے کیا-اس سے قبل ایک مذہبی لڑکی سے شادی کر کے اس نے مجھے حیران کرڈالا تھا-جبکہ مجھے یاد ہے کہ جب میری شادی ارینج ہورہی تھی تو لڑکی کے مذہبی ہونے اور اس سے شادی کے بعد مل کر وہ مجھے روایتی مرد ہونے کا طعنہ دیتا رہا تھا-اور پھر خود بھی ایسی ہی ایک لڑکی سے شادی کر بیٹھا تھا-بس وہ ایسا ہی تو تھا-وہ سال کے دوسرے مہینوں میں تو چپ کا لباس پہنے رکھتا تھا-لکین دسمبر کے آتے ہی وہ کلام کی عبا پہن لیتا تھا-لکین اس دسمبر میں اس نے چپ کے لباس کو بدلنے سے نجانے کیوں انکار کرڈالا ہے-

Wednesday 14 December 2011

رخصتی

رخصتی (افسانہ)
عامر حسینی
احمر اور راشدہ بہت تیزی سے گھر کا سامان سمیٹ رہے تھے-احمر چہرے کے تاثرات کے اعتبار سے قدرے مطمئن نظر آتا تھا-لکین راشدہ بہت اداس تھی-وہ صبیح سے سامان سمیٹ رہے تھے-یہ گھر ایک یونیورسٹی کے احاطہ میں قائم تھا-آج سے چھے سال پہلے جب احمر لندن سے یہاں آیا تھا اور اس نے شعبہ فلسفہ میں بطور پروفیسر جوائننگ دی تھی تو یہ گھر ان کو الاٹ ہوا تھا-احمر بہت جوش اور جذبہ کے ساتھ یہاں آیا تھا-سامان سمیٹے ہوئے احمر نے جب اپنی چھے سللقبل کی لکھی ڈائری کو سامان میں رکھنے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو وہ بے اختیار کچھ دیر کے لئے ماضی میں کھوگیا -
اس نے لندن کے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی تھی جن کا جد ١٩٠٥ میں لندن میں تعلیم حاصل کرنے اتر پردیش کے شہر بلند شہر سے پڑھنے ایک بحری جہاز سے یہاں آگیا تھا-اور پھر لندن فضاء اس کو ایسی راس آئی کہ وہ بس یہیں کا ہوکر رہ گیا-یہیں شادی ہوئی اور یہیں پر ایک خاندان کی بنیاد پڑ گئی-احمر کو اپنے والد سے جہاں بہت سا تہذیبی ورثہ ملا تھا -وہیں پر ایک ورثہ اس کے پاس یہ تھا کہ وہ تقسیم کے بعد کے پاکستان سے بہت محبت بھی کرتا تھا-اس پاکستان کے لئے اس کے دل میں بہت درد تھا-اس نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی تھی-اور وہ لندن کے معروف کالج امپریل کالج میں استاد ہو گیا تھا-اس کالج میں وہ طلبا کو یونانی فلسفہ اور تاریخ فلسفہ پڑھاتا تھا-اس کی ذہانت اور وسعت علمی کی اس کالج کا ہر فرد گواہی دیتا تھا-اس کو مسلم دنیا کی علمی پسماندگی کا بہت قلق تھا-اور وہ مسلم دنیا میں فکری آزدی کے فقدان پر بہت زیادہ افسردہ بھی رہا کرتا تھا-وہ اس کے لئے کچھ کرنا بھی چاہتا تھا-
پھر ایسا ہوا کہ اس کے کالج نے جنوبی ایشیا کی یونیورسٹیوں کے شعبہ ہائے فلسفہ کی ایک کانگریس منعقد کی-اس کانگریس میں پاکستان کی ایک معروف یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ کے صدر ڈاکٹر منظور احمد بھی آئے-ان سے احمر کی ملاقات ہوئی-اور وہ ایک ہفتہ لندن رہے تو احمر سے مسلسل ان کی ملاقات ہوتی رہی-اس دوران ڈاکٹر منظور احمد سے پاکستان میں سماجی علوم کی زبوں حالی پر کافی بات چیت ہوئی-ڈاکٹر منظور احمد احمر کی اس بات سے متفق تھے کہ فکری آزادی کے بغیر مسلم سماج ترقی نہیں کر سکتے-اور اس کے لئے بہت ضروری ہے کہ وہاں کی یونیورسٹیز میں اکیڈمک آزادی کا رستہ ہموار ہو-اور یہ کام فلسفہ کی تعلیم کو فروغ دئے بنا ممکن نہیں ہے-ڈاکٹر منظور کہتے تھے کہ ان کی یونیورسٹی کو فلسفی استادوں کی ضرورت ہے-جو مشکل سے میسر آتے ہیں-انھوں نے احمر کو کہا کہ اگر اس جیسے لوگ تھوڑی قربانی دے ڈالیں تو پاکستان میں فکری انقلاب کی رہ ہموار ہوسکتی ہے-ڈاکٹر منظور احمد سے ملاقات کے بعد احمر کے ذہن میں ایک کشمکش شروع ہو گئی-اس کو یاد آیا کہ اس کے بابا کس قدر زور دیتے تھے احمر پر کہ اس کو پاکستان جا کر تدریس کرنی چاہئے-اور وہ پاکستان میں ان دنوں آمریت ہونے کی وجہ سے نہیں جاسکا تھا-کیونکہ جب اس نے پاکستان کی ایک یونیورسٹی میں اپلائی کیا تھا تو وہ انٹرویو کے لئے جب پاکستان میں سلیکشن بورڈ کے سامنے پیش ہوا تو اس سے انٹرویو لینے والے نے آیت الکرسی اور دعائے قنوت سنانے کے لئے کہا-اس کو بہت حیرانی ہوئی کہ فلسفہ کی تدریس سے اس کا کیا تعلق تھا-اس کو پتہ چلا کہ اس سے قبل کیمسٹری کے ایک ٹاپر کو اس لئے ریجکٹ کر دیا گیا تھا کہ اس کو رات کو سوتے وقت کی دعا یاد نہیں تھی-وہ واپس چلا آیا تھا-اس نے ڈاکٹر منظور کو اپنے خدشات سے آگاہ کیا تو انھوں نے تسلی کرائی کہ اب وہ دور چلا گیا ہے-سو اس نے پاکستان جانے کا فیصلہ کر لیا -اور وہاں ایک یونیورسٹی کو جوائن کر لیا-
یہاں آکر اس نے پہلے تو یہ دیکھا کہ لوگ فلسفہ جیسے اہم مضمون کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں تھے-بلکہ یہاں تو سرے سے علم کی تحقیر و توہین کو لوگوں نے رواج بنا رکھا تھا-اس کو ایسے لگا کہ وہ مغرب میں اس دور کے اندر واپس آگیا ہے جب کلیسا نے علم اور حکمت کے خلاف ایک مہم چلائی ہوئی تھی-وہ جب بھی یونیورسٹی کی واحد مسجد میں جمعہ کی نماز کے لئے جاتا تو اس کو مولوی صاحب کا سارا خطبہ علم کی تحقیر پر مبنی معلوم ہوتا تھا-اور ایسے لگتا تھا کہ سماجی علوم کی ترقی مولوی صاحب کے نزدیک کوئی بہت بڑا جرم تھی-اس کو خیال آتا کہ جب وہ نویں صدی میں عرب میں فلسفہ اور حکمت کی کتابوں کو جلائے جانے کا تذکرہ پڑھا کرتا تھا تو اس وقت وہ سوچا کرتا تھا کہ آجووہ فعل کرنے والے موجود ہوتے تو خود کتنی شرمندگی محسوس کرتے -لکین یہاں آکر اسے محسوس ہوا کہ پاکستان سمیت دیگر کئی ملکوں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی جو اب بھی اسی طرح کا فعل روا رکھنے کو مذہب اور سماج کی خدمت خیال کرتے تھے-اور جب بامیان میں طالبان نے بدھا کا مجسمہ گرا ڈالا تھا تو اس کو بہت حیرانی ہوئی تھی کہ اس کی یونیورسٹی کے کئی استاذہاس عمل کو ٹھیک کہ رہے تھے-یہ سب باتیں دیکھ کر اس کو اپنے فیصلے کے ٹھیک ہونے کا یقین آگیا تھا-اور وہ زیادہ تندہی سے فکری آزادی کے لئے کام کرنے لگا تھا-اس نے ناصرف اپنے شعبہ میں فکری آزادی کو پروان چڑھانے پر زور دینا شروع کیا بلکہ اس نے اس عمل کو پوری یونیورسٹی میں آگے لیکر جانے پر زور دیا-
اس کے اس عمل پر ایک مرتبہ ایک مذہبی تنظیم نے سخت رد عمل بھی دکھایا لکین اس نے کوئی پرواہ نہ کی-وہ یونیورسٹی کی ضابطہ کمیٹی کا رکن بھی تھا-احمر کو اپنی کوششوں کے دوران ہی یہ احساس ہوگیا کہ فکری آزادی کے عمل کو یونورستیز میں پھیلنے سے روکنے میں رجعت پسندوں سے زیادہ روکاوٹ وہ لوگ ہیں جو ترقی پسندی کا علم اٹھائے کھڑے ہیں-جو اپنی ہوس اور شہوت انگیزی کو ترقی پسندی کا نام دیتے ہیں-
احمر کو اس امر کا اندازہ اس وقت ہوا جب اس کے شعبہ کے ایک استاد نے پرچہ لیتے ہوئے تئیں لڑکیوں کے سوا سب لڑکیوں کو فیل کر ڈالا اور پھر جب ایک لڑکی نے اس کو آکر یہ شکایت کی کہ مذکورہ استاد کہتے ہیں کہ بی بی اگر پاس ہونا ہے توکچ لو اور کچھ دو پر عمل کرنا پڑے گا-اسی طرح شعبہ میں وزٹینگ اساتذہ کی بھرتی کے معاملے پر بھی ایسی ہی حرکت دیکھنے کو ملی-جس کا احمر نے کبھی لندن کے کسی تعلیمی ادارہ میں تصور بھی نہیں کیا تھا-اس نے جب اس پر اپنا رد عمل ظاہر کیا تیکسر لوگوں نے اس کو معمول کی بات قرار دیکر نظر انداز کرنے کی تجویز دی-لکینووہ ڈٹ گیا-اس وقت تک ڈاکٹر منظور بھی وی سی بن گئے تھے-انھوں نے بھی ان کا ساتھ دیا-تو اس روش پر قابو پالیا گیا-لکین اس نے دیکھا کہ تعلیمی ادارہ میں یہ تو ایک رجحان بنتا جا رہا ہے-اور ڈاکٹر منظور کے جانے کے بعد جب نئے وی سی آئے تو اس کو بہت زادہ تنہائی کا احساس ہونے لگا-اور ایک دن وہ ہوگیا جس کا اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا-
یہ سردیوں کے دن تھے-جب وہ اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا کہ اس کے شعبہ میں نئی بھرتی ہونے والی لیکچرر چخیتی ہوئی اس کے کمرے میں داخل ہوئیں-یہ مس ساجدہ تھیں-اس نے ان کو چھپ کرایا-وہ کہ رہی تھیں کہ ان کو بچا لیا جائے-ان کے پاس کوئی دوپٹہ یا چادر نہیں تھی-اس نے اپنا لانگ کوٹ مس ساجدہ کو پہنایا-ان کو تسلی ڈی-جب وہ بات کرنے کے قابل ہوئیں تو ان سے پوچھا کیا ہوا تھا؟تو وہ روتے ہوئے کہنے لگیں کہ آج ان کو سر صداقت نے اپنے روم میں بلایا تھا-اور ان کو کہا کہ یهداکومنٹ سوفٹ کاپی میں ان کے پی سی میں موجود ہیں-ان کو آکے پڑھئیے-جب وہ پڑھنے کے لئے قریب ہوئیں تو اچانک پیچھے سے ان کو صداقت نے پکڑ لیا اور ان کے گالوں کو چومنے کی کوشش کرنے لگے-اور اس دوران ان کی شال بھی اتار کر پھینک دی-انھوں نے خود کو بہت مشکل سے بچایا اور بھاگ کر اس کے کمرے میں اگائیں-احمر کو یہ سب سنکر بہت غصہ آیا-اس نے مس ساجدہ کو فوری طور پر اےکدرخوسٹ لکھنے کو کہا-درخواست لکھی گئی-وی اسی نے ضابطہ کمیٹی کو معاملے کی تحقیق کرنے کو کہا-ضابطہ کمیٹی میں کل پانچ رکن تھے-احمر کو اس وقت سخت اذیت کا سامنا کرنا پڑا-جب ضابطہ کمیٹی کا پہلا اجلاس ہوا-اور اس میں ضابطہ کمیٹی کے صدر نے جو کہ ساجدہ کے باپ کی عمر کے ہوں گے-اور یونیورسٹی میں ترقی پسندی کے گرو گھنٹال خیال کے جاتے تھے-بہت ہی گھٹیا انداز اختیار کرتے ہوئے یهکھنے لگے
ساجدہ کے بارے میں ایک بات تو کہنی پڑتی ہے کہ وہ ہے تو سیکس
بم جس کو دیکھ کر بہت سے لوگوںکا ایمان ڈول جاتا ہے-اگر صداقت
اگر صداقت صاحب بہک گئے تو کوئی بڑی بات نہیں-
ایک اور رکن بولے کہ "سالی صداقت کے قابو میں آجاتی تو سارے کس بل نکل گئے ہوتے اور اب فلاں رجعت پسند گروپ کو ہم پر باتیں بنانے کی جرات نہ ہوتی-
ایک اور کا خیال تھا کہ یہ سب سازش ایک مذہبی تنظیم کی کارستانی ہے-
احمر یہ سب باتیں سن کر حیران ہورہا تھا-اور اس وقت حد ہو گئی جب مس ساجدہ کو ضابطہ کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کا کہا گیا -اور کمیٹی کے وہ لوگ جو ان کے بارے میں توہین آمیز بیانات دی رہے تھے -ان کے ساتھ ایسے بیہودہ سوالات کرنےلگے کہ احمر کو اس پر سخت احتجاج کرنا پڑا -اور جب احمر نے صدر کمیٹی کے اصل چہرے کو بےنقاب کیا اور وی سی سے ان کو ضابطہ کمیٹی سے الگ کرنے کا کہا تو اگلے دنہمر کی حیرانگی کی انتہا نہ رہی جبوی سی نے ان کو ضابطہ کمیٹی سے الگ کر دیا-اور احمر پر جانبداری برتنے کا الزام لگایا-اور اسی دن اس گروپ کا بھی اجلاس ہوا جو خود کو یونیورسٹی میں مذہبی فاشزم کا مخالف کہا کرتا تھا-اس نے صداقت کو بیگناہ کہا اور یونیورسٹی میں کلاسوں کا بائیکاٹ کرنے کی دھمکی بھی دی-اور اسے یونیورسٹی میں طالبانیت کو پھیلانے والوں کی سازش بھی قرار دے ڈالا-
مس ساجدہ نے یہ صورت حال دیکھتے ہوئے نہ صرف درخواست کی پیروی کرنے سے انکار کر دیا -بلکہ یونیورسٹی جاب بھی ترک کردی-احمر کے لئے یہ بہت تکلیف دہ صورت حال تھی-وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ علم کی درسگاہوں میں یہ کھیل کھیلے جاتے ہونگے-اور ہوس کے پجاریس طرح سے فکری آزادی کے نام پر دندناتے ہونگے-اس کے بہت سے خواب تھے جوچکنا چور ہوگئے تھے-اس نے یہ سبدیکہ کر واپس جانے کا فیصلہ کیا-اس نے امپریل کالج کی انتظمیہ کو خط لکھا کہ ووہواپس آنا چاہتا ہے -اس کو اگلے دن ہی جواب موصول ہوا-امپریل کالج کے پرنسپل اور شعبہ فلسفہ کے ڈین نے لکھا تھا کہ اس کا پرانا آفس اور کلاس روم اس کی آمد کے شدت سے منتظر ہیں-آج وہ یہاں سے جا رہا تھا-وہ انہی خیالوں میں گم تھا کہ اس کی بیوی راشدہ کی آواز آئی کہ سامان گاڑی میں رکھا جاچکا ہے-آپ بھی آجائیے-وہ بھاری قدموں کے ساتھ چل کر گاڑی میں بیٹھ گیا-اور گاڑی ائر پورٹ کی طرف روانہ ہو گئی -جہاز میں اپنی سیٹ پر بیٹھ کر اسے یاد آتا رہا کہ کیسے کیسے خواب دیکھے تھے-اور کیا کچھ کرنے کا عزم کیا تھا اس نے-اس کو یاد آتا رہا کہ وہ تو پورے معاشرے میں فکری آزادی کی تحریک چلانے آیا تھا-اور چند پروفیسروں اور بابوؤں سے مار کھا گیا تھا-
بہت عرصۂ بعد لندن کی ایک کافی شاپ میں وہ بیروت سے آئے ایک پروفیسر کے ساتھ بیٹھا کاپی سپ کر رہا تھا-تو پروفیسر نے کہا کہ جنوبی لبنان کے اکثر ترقی پسند مرد اور خواتین حزب الله اور العمل کے کارکن بن گئے ہیں-اور انھوں نے ٹھیک کیا ہے-کیونکہ کھوکھلا اور بنجر لبرل ازم ان کو کچھ نہیں دی رہا تھا-احمر یہ سن کر چھپ رہا-اگر یہی فقرہ اس نے پاکستان جانے اور واپس آنے سے قبل سنا ہوتا تو وہ شائد مذکورہ پروفیسر سر لڑ پڑتا -اور بہت بحث کرتا-لکین اسے لگا کہ اس کی شکایت بھی بہت حد تک ٹھیک ہے-پھر اس پروفیسر نے احمر کو کہا کہ احمر ترقی پسندی اور انقلاب کیجنگ یونیورسٹیوں میں نہیں لڑی جاتی یہ تو باہر بیٹھ کر لڑی جاتی ہے-اوٹو بائر کو برداشت نہیں کیا تھا جرمنی والوںنے-نکال باہر کیا تھا-کارل مارکس کو بون میں نہیں نوکری ملی تھی-تیسری دنیا کے ملکوں میں کرئیر اور ریڈکل ازم ساتھ ساتھ نہ چل سکتے-زہین دماغ یا تو ہجرت کر کے مغربی ملکوں میں اپنی ذہانت سے سکوں پاتے ہیں یا پھر اپنے ملکوں میں غربت کے ساتھ لڑتے لڑتے جان دی دیتے ہیں-احمر یہ سب سن کر کافی شاپ سے اٹھا اور اس پروفیسر سے ہاتھ ملایا اور باہر کے دروازہ سے نکلتا چلا گیا ---------

Monday 12 December 2011

کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

کبھی کبھی آپ کو بہت مشکل ہوتی ہے کہ اپنا حال کسی کو بتا پائیں-اور شائد اسی مشکل کو دیکھتے ہوئے استعارہ اور مجاز کا سہارہ لیا جاتا ہے-کسی کی بات کر کے اپنی بات کہنے کی کوشش کی جاتی ہے-اور پھر کبھی تو یوں بھی ہوتا ہے کہ آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی کیفیت کے بیان کے لئے آپ کے الفاظ آپ کو کافی نہیں ہیں-اور یہ الفاظ اس کیفیت کو تصویر نہیں کر پا رہے -تو آپ پر بےبسی کی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے-آپ کا دل کرتا ہے کہ آپ دل کھول کر رکھ دین لکین دل کھول کر رکھا نہیں جاتا -اور یہ عجب بات ہے کہ جب ایسی کیفیت کا آپ شکار ہوتے ہیں تو پھر مجلس اور ہنگامے آپ کو پسند نہیں آتے اور آپ ویرانوں کی تلاش کرتے ہیں-اور یہ کتنی عجب بات ہے کہ جن باتوں کو آپ فساد خلق کے سبب سے مجلس میں نہیں کہ پاتے ان کو آسانی کے ساتھ آپ ویرانوں کو سنا ڈالتے ہیں-کہا جاتا ہے کہ امام علی اپنے دل کی باتیں ایک کنوئیں کو سنا ڈالتے تھے-اور یہ تو بڑے لوگ تھے -ان کی باتیں بھی بہت بڑی تھیں-میرے جیسے لوگوں کے پاس تو کہنے کو بھی بس چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں-میں وہ بھی نہیں کہ پاتا-اور اب تو شہر اتنے گنجان آباد ہوگئے ہیں کہ ویران جگہوں کی تلاش بھی ایک مسلہ بن جاتی ہے-

کبھی کبھی یوں ہوتا ہے کہ کوئی اپنے حالت میں گرفتار ہوتا ہے اور آپ اپنی تو دونوں میں کوئی کیمونیکیشن گیپ آجاتا ہے-اور کوئی ایک اس کو تجاہل عارفانہ سے تعبیر کرنے لگتا ہے-اور اس پر وہ حالات سے،اپنے آپ سے اور اس سے شکوہ کناں بھی ہو جاتا ہے-ایسے میں جو کیفیت ہوتی ہے وہ بیان سے باہر ہوتی ہے-اب اس کا کیا کیا جائے کہ ہم انسان ایک ہونے کی بہت کوشش کرتے ہیں لکین یہ جو حالات ہوتے ہیں یہ ہمیں الگ الگ ہونے کا احساس کراتے ہی چلے جاتے ہیں-ہم نے الفاظ اور احساسات کی جادوگری سے ایک طلسم خانہ ایسا ضرور بنا لیا ہے جو ہمیں ایک ہونے کا احساس دلاتا ہے لکین نجانے کیوں پھر کہیں الگ ہونے اور تنہا ہونے کا احساس مارے دیتا ہے-ابھی زیادہ دن نہیں گزرے مجھ سے میرے ایک غم خوار کہنے لگے کہ ہم اپنی مرضی سے زندگی گزارنا چاہتے ہیں لکین گزار نہیں پاتے -اور جب بھی ہمیں کوئی قربانی دینے کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے تو ہم اکثر روایتی انسان ثابت ہوتے ہیں-رسموں میں جکڑے جاتے ہیں-اور بہت سی زنجیریں ہوتی ہیں جو ہمارے آڑے آجاتی ہیں-اور ہم ان سے نکل نہیں پاتے-میں ان صاحب کو جانتا ہوں-وہ میری زندگی میں بہت سی تبدلیوں کا سبب بھی بنے این-لکین آج کل عجیب سے گلٹ میں مبتلا ہیں-اور خود کو نجانے کیوں ایسے جرموں کا مرتکب خیال کرتے ہیں جو انھوں نے کبھی کیے ہی نہیں ہیں-ان کی کیفیت کو میں سمجھ رہا ہوں اور وہ تو ظاہر ہے سمجھتے ہی ہیں لکین الفاظ کا دامن ان کے اظہار کو تنگ پڑ رہا ہے-ہم میں سے ہر ایک آزادی کا طالب بھی ہے اور کسی سے وابستہ اور کسی کے نام اپنی زندگی لگانا بھی چاہتا ہے-اور زندگی پہلے سے جن رشتوں اور ناتوں سے جڑ چکی ہے ان کو زنجیریں بھی خیال کرتا ہے-اور کبھی کبھی تو یہ دریچوں میں گڑی صلیبیں لگنے لگتی ہیں-کسی کی یاد دل کو جکڑے ہوتی ہے اور کسی کو اس سے دکھ پہنچنے کا اندیشہ اس یاد کو پھیلانے اور بر سرعام اس کا اظہار کرنے سے روکتا بھی ہے-ہے نا عجب تضاد سے بھری حالت -اسی حالت کے پیش نظر تو ویرانوں کا رخ کیا جاتا تھا-میں اکثر سوچتا تھا کہ خواجہ فرید سائیں روہی میں کیوں جا کر رہے تھے-ان کو روہی کے کنڈے ،توبے ،جھاڑیاں اور ون اور اونٹ کیوں پسند آئے تھے-اور ان میں حسن ازل کی جھلک کیوں نظر آئی تھی-یہ جو ملتان میں کسی سے عشق ہوا اور اس کی آگ روہی میں دہکتی رہی -وہاں اپنا رنگ دکھاتی رہی -اس کی کچھ کچھ سمجھ مجھے اب آتی ہے-

آج عجب سے بیچینی ہے-اور بیقراری بھی -لکین اس کو کیا نام دوں کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا-بہت دیر سے بہت سی چیزوں سے دل کو بہلانے کی کوشش کی لکین نہیں بہلا پایا -جانے وہ کون سی چیز ہے جس کے سبب آج دل میں کچھ درد سوا ہوتا ہے-لکین غالب ککی طرح کوئی تلخ نوائی مجھے نہیں کرنی ہے-ہاں بس کسی کمی کا احساس آج بہت شدت سے ہو رہا ہے-کوئی یاد آرہا ہے-کون؟کچھ کہ نہیں سکتا-کسی کو بلانے کو من کرتا ہے -کیسے ؟کچھ پتہ نہیں -کسی کے ساتھ ہونے کی خواہش ہے-کس کے؟یہ بھی تو نہیں معلوم--آپ اس کو تجاہل عارفانہ کہ سکتے ہیں لکین بس حالت کچھ ایسی ہی ہے-اتنی بےبسی تو کبھی دیکھی نہیں تھی-ایسا کیوں ہے کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے-اور آج تو یادیں اور علامتیں بھی دکھ کشدت کو کم نہیں کر پا رہیں-کیا کیا جائے-کوئی اپنی بیماری کو موسم کی تبدیلی کہ کر اصل بات چھپانا چاہئے تو بہت ہی تکلیف ہونے لگتی ہے-اصل معاملہ سمجھ کر-یہ دوری پاگل کر دیتی ہے-ہاں کر تو دیتی ہے-اور لفظوں پر ارتکاز بھی ختم ہونے لگتا ہے-آپ کو دوری عذاب لگتی ہے-لکین کبھی رواج اور کبھی طبقہ آڑے آجاتا ہے-اور کبھی وہ تعلقات جو آپ کے پیروں میں زنجیریں ڈالے ہوتے ہیں-یہ پاگل پن بھی عجیب سا پاگل پن ہوتا ہے-اس میں آپ سب کو اپنے ہوش حواس میں لگتے ہیں-اور آپ کو بھی اپنے ہونے کا احساس ہوتا ہے-اسی لئے خود فراموشی کی وہ منزل آپ کا مقدر نہیں بن آتی جہاں آپ ہر احساس سے بیگانہ ہو کر سب چیزیں فراموش کر ڈالتے ہو-مجھے تو پاگل بھی بھی ان فرزانگی میں دیوانگی رکھنے والوں سے بہتر لگتے ہیں-اور مجھے ان کا پاگل ن ایک انعام لگنے لگتا ہے-کاش یہ پاگل پن ہمارے حصہ میں آجاتا اور ہم اس عذاب سے بچ جاتے جس سے گزر رہے ہیں-

نہ نیند چینا.....نہ آپ آویں...نہ بھیجیں پتیاں

سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں

اندھیری رتیاں

Friday 9 December 2011

فرشتہ

فرشتہ
وہ نو محرم کی رات تھی جب اس کو درد زہ کی تکلیف شروع ہوئی تھی-یہ بہت تیز درد تھا-وہ بہت خوفزدہ تھی -حالنکہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا-لکین اس مرتبہ اس کو بہت خوف تھا-پچھلی مرتبہ جب وہ اس درد سے گزر رہی تھی اور نئے مہمان کے آنے کا وقت ہوا تھا تو مستجاب حیدر حسب روایت گھر کیا شہر میں نہیں تھے-وہ اکتوبر کا مہینہ تھا-اور ڈاکٹر نجیب کی برسی ان پہنچی تھی-مستجاب کو ان کے دوستوں نے افغانستان میں آنے کی دعوت دے ڈالی تھی-وہاں پر مستجاب کے کافی دوست آنے والے تھے-پرانے پرچمی اور خلقی جو کبھی سرخ انقلاب کے حامی تھے-اب یورپ اور امریکہ جا بسے تھے-وہ بھی نجیب کی برسی میں آ رہے تھے-ان سے ملے مستجاب کو عرصۂ ہو گیا تھا-وہ اس حالت میں نہ ہوتی تو مستجاب کے ساتھ ضرور جاتی -کیونکہ اس کے بہت سے دوست روس ،چیک اور پولینڈ سے آرہے تھے-یہ سب اس کے وہ دوست تھے -جو اس کو ماسکو میں تعلیم کے زمانے میں ملے تھے-
ماسکو جانے کی کہانی بھی بہت عجیب تھی-وہ اور مستجاب کراچی یونیورسٹی سے ماسٹرز کر کے فارغ ہوئے تھے-کہ دونوں کی شادی کردی گئی-اور مستجاب نے چپکے سے اپنے اور اس کے کاغذات ماسکو بھیجے -وہاں سے دونوں کا سکالرشپ ویزہ آگیا-جب کہ ان کی شادی کو ایک سال بھی نہیں ہوا تھا-دونوں ماسکو کی سرد ماحول میں چلے گئے لکین یہاں ان کے دوستوں نے ان کو سرد نہیں ہونے دیا-ماسکو سے آنے کے بعد ایک عرصۂ تک ان کی کسی سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی-سو جب مستجاب نے اس کو بتایا کہ وہ کابل جا رہا ہے جہاں نتاشا اور کروپسکایا ،میخوف بھی آ رہے ہیں-تو اس کو اپنی تکلیف کی وجہ سے وہاں نہ جانا برا لگا تھا-
وہ ١٨ اکتوبر کی رات تھی جب اس کو مستجاب کے بغیر اس درد سے گزرنا پڑا تھا-جس کے بارے میں اس نے سنا تھا کہ وہ جان نکال لیتا ہے-اس کو جب ڈاکٹر نے نشہ دیا تو وہ حالت مدہوشی میں بھی مستجاب کو پکار رہی تھی-اور بعد میں ہسپتال کی ایک نرس نے بتایا تھا کہ آپریشن کے دوران اس نے اس کا ہاتھ سختی سے پکڑ لیا تھا اور وہ مستجاب مستجاب پکار رہی تھی-ڈاکٹر بھی تھوڑا سا گھبرا گئے تھے-اورانہوں نے مستجاب کو بلانے کا کہا تھا-جب ان کو پتہ چلا کہ مستجاب ملک میں نہیں ہی تو وہ خاصے حیران ہوئے تھے-مستجاب اس کے بعد ایک مرتبہ جب اس کا چیک اپ کرانے اس لیڈی ڈاکٹر کے پاس گئے-تیس نے مستجاب کو دیکھ کر انہیں کافی کھڑی کھڑی سنائی تھیں-اور مستجاب جن کو اپنی سخن وری پر ناز تھا -بہت بوکھلائے ہوئے نظر آئے تھے-
اس مرتبہ وہ جیسے کہیں جانا بھول گئے تھے-وہ مسلسل تین ماہ ہوگئے تھے -شہر سے باہر نہیں گئے تھے-اور ان کی ہر شام اور رات گھر پر گزرتی تھی-وہ ان کی اس پابندی پر حیران تھی-اور وہ اسے بہت کم کوئی کام کرنے دیتے تھے-پھر جب آخری ماہ آیا تو وہ ساری ساری رات جاگ جڑ گزرتے تھے-تھوڑی سی تکلیف پرتھ جاتے-اور ہر ممکن طریقہ سے اس کا خیال رکھتے تھے-لکین اس کے اندر نجانے کہاں سے کوئی

خوف آ کر بیٹھ گیا تھا-وہ بہت کوشش کر کے بھی اپنے آپ کو سنبھال نہیں پاتی تھی-اس نے اپنے بہت سارے ڈر مستجاب سے چھپا رکھے تھے-لکین مستجاب کو نجانے کیسے پتہ چل جاتا تھا-رات کو ووہکرسی پر بیٹھے بظاہر کسی کتاب میں گم ہوتے تھے-اور وہ بعید پر لیتی آنکھیں بند کر کے یوں ظاہر کرتی تھی کہ سو رہی ہے-مستجاب اچانک کتاب پر سے نظریں ہٹا کر اس سے مخاطب ہوتے اور کہتے کہ "بتول کیا سوچ رہی ہو،"وہ ہڑبڑا جاتی اور کہتی کچھ بھی تو نہیں"مستجاب اس پر ہنس پڑتے اور کہتے کہ مولا کی بیٹی جھوٹ بولتی اچھی تو نہیں لگتی-اور ہاں تم سے کہا ہے کہ اندیشہ ہائے دور دراز سے خود کو ہلکان مت کیا کرو-
وہ مستجاب کی یہ بات سن کر حیران ہو جاتی کہ کیسے کتاب میں مگن ہونے کے باوجود وہ اس کی حالت جن جاتے تھے-وہ ان کے سامنے کوئی بات بھی سوچتے ہوئے ڈرتی تھی کہ ان کو پتہ چل جائے گا -
مستجاب کی شخصیت اس کو ہمیشہ سے بہت عجیب لگتی تھی-وہ اپنے چہرے کے تاثرات کے اعتبار سے کبھی ایسے نہیں لگتے تھے کہ ان کی شخصیت میں جذبات کوئی اہمیت رکھتے ہونگے-سخت اور سیاسی قسم کے ثقیل مضامین لکھنے یا پھر فلسفیانہ مباحث پر تحریروں کو دیکھ کر ہر کوئی یہ تاثر پکڑتا تھا کہ موصوف دل کے خانے میں کوئی پتھر ہی رکھتے ہوں گے-لکین ان کے اندرکے آدمی سے اس کی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ بہت بیمار ہوئی -یا کسی صدمہ سے اس کو گزرنا پڑا -عامحالات میں بھی وہ بہت خاموشی سے اپنے درد مند ہونے کا احساس دلاتے تھے-اور کبھی اس کا اعلان نہیں کرتے تھے-
اس مرتبہ وہ بہت زیادہ بدلے ہوئے نظر آئے-وہ کچھ دنوں کے لئے اسلام آباد گئے تھے-واپس آئے تو بہت بدلے ہوئے سے لگے تھے-مستجاب سے ان کی جو شکایتیں تھیں وہ ایک طرح سے ختم ہی ہو گئیں تھیں-مستجاب کو اہنوں نے زیادہ سگریٹ پینے سے روکا تو وہ رک گئے-اپنی صحت کا خیال رکھنے کو کہا تو وہ بات بھی مان لی-ان کو مستجاب میں یہ تبدیلی بہت عجیب لگی تھی-پھر ایک دن وہ بہت حیران ہوئی جب ان کو فون آیا کہ اسلام آباد میں ان کو وزیر آزم سے ملاقات کرنی ہے -لکین انھوں نے دوسری طرف بات کرنے والے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ کہ گھر میں ان مصروفیت ہے تو وہ نہیں آ سکتے-
دسمبر میں جب عاشور کا آغاز ہوا تو انھوں نے دیکھا کہ پہلی مرتبہ اتنے سالوں میں وہ عاشور میں رات کو مجلس سننے بھی جاتے رہے-یہ بہت عجیب سی تبدیلی تھی-کیونکہ ہر محرم ک آغاز پر بتول ان کو کہتی کہ مجلس سسنے چلیں یا امام بارگاہ چلنے کو کہتی تو وہ سختی سے انکار کر دیتے تھے-ایک دو مرتبہ بتول نے ان کو کہا تو اس کے بعد نہیں کہا-بتول اس وقت بہت حیران ہوئی تھی -جب وہ زیارات پر گئی تھی-اور واپس آکر انھوں نے مشہد سے امام علی رضا کے مزار سے لیا ہوا ایک نگ دوری میں پرو کر ان کی دائیں کلائی پر باندھا تو انھوں نے چھپ چاپ بندھوا لیا تھا-ورنہ ان کو یاد تھا کہ وہ جب کراچی سے ماسکو کے لئے روانہ ہوئے تھے تو ان کی اماں نے ان کو امام ضامن باندھنا چاہا تھا تو انھوں نے انکار کر دیا تھا -تو اس پر وہ بولی تھیں کہ بیٹا تو تو اپنے کیمونسٹ دادا سے بھی دو ہاتھ آگے ہے-وہ کم از کم ایسا تو نہیں کرتے تھے-تو تب جا کر وہ امام ضامن بندھوانے پر راضی ہوئے تھے-لکین اب تو چپ چاپ وہ یہ سب ہوتا دیکھ رہے تھے-اسی طرح ایک مرتبہ انھوں نے پہلی مرتبہ ان کے دائیں ہاتھ ہی دوسری انگلی میں ایک انگوٹھی daikhi -تو انھوں نے پوچھا یہ کہاںسے آئی-تو کہنے لگے ایک دوست شام گئی تھیں-اہنوں نے یہ بی بی زینب کے مزار سے میرے لئے لے لی تھی-تو میں نے پہن لی-اس مرتبہ وہ وہ عشرہ محرم میں پوری طرح سے شریک ہوئے-
نو محرم کی رات وہ ہسپتال داخل ہوگئیں تھیں-وہ رات سے وہیں اس کے پاس تھے-لکین فجر کی اذان سے پہلے یہ کہ کر نکل گئے کہ قاسم کی اذان کی آواز کانوں میں تبھی گونجے کی جب امام کی بارگاہ میں ہوں گا-اور بتول شانت رہنا -گھبرانا نہیں -جلوس معینجاؤں گا -عزاداران حسین کا ساتھ دینا بہت ضروری ہے-یہ کہ کر چلے گئے-دوپہر گزر گئی-اور اس کو آپریشن تھیٹر میں جب لیجایا جا رہا تھا تو مستجاب کا فون آگیا -کہا بتول گھبرانا مت -شہادت امام کے وقت تم عمل تخلیق سے گزرنے جا رہی ہو-بہت مبارک گھڑی ہے-مولا کرم کریں گے-اس کو ذرا دیر پہلے جو خوف تھا اور ڈر تھا-وہ سب دور ہوگیا -اس کو آپریشن تھیٹر جاتے ہوئے اپنے دادا کی بات یاد آئی جو کوئی بھی بات کہتے تو یہ ضرور کہتے تھے کہ مولا تجھ کو کوئی دکھ نہ دے سوائے غم حسین کے-بس جب آج کے دن کے بارے میں سوچا تو ایک ایک کر کے ساری تصویریں سامنے آنے لگیں-اور ایک عجب سی کیفیت طاری ہوئی اور وہ اپنی تکلیف بھول گئی-اپپریشن تھیٹر میں جب ڈاکٹر نے اس کو بیہوش کیا تو بیہوشی میں ادراک کا جو در وا ہوا وہ بھی بہت عجیب تھا-اس نے خود کو ایک حسین جمیل باغ میں پایا -جہاں ہر طیف گلاب کے پھولوں کی کیاریاں لگی تھیں-پیپل کے درخت تھے-اور درمیان میں ایک فوارہ تھا-جس سے رنگ برنگا پانی نکل رہا تھا-وہ اکیلی تھی-اچانک کہیں سے ایک سیاہ پوش عورت نمودار ہوئی -اس نے بتول کا ماتھا چوما -اور پھر اس کو ایک گلاب کا پھول دیا -اور کہا خوش قسمت ہو کہ عاشور حسین تمھاری قسمت میں لکھا گیا-وہ یہ خواب دہکتی رہی جوبیس کو ہوش آیا تو لیڈی ڈاکٹر نے اس کو مابرک بعد دی اور کہا کہ تمھارے بیٹا ہوا ہے-اس کو اپنا خواب یاد آیا-
ادھر مستجاب عزداران کے ساتھ جلوس میں تھا کہ اس کو فون پر بیٹے کے پیدا ہونے کی خبر ملی -اس نے فون پر بتول سے بات کی -اور کہا بتول ہم اس ننھے فرشتہ کا نام عاشور حسین رکھیں گے-بتول حیراںره گئی-اس نے مستجاب کو اپنا خواب سنایا -تو مستجاب نے ہنس کر اسے اس کے تخیل کی پرواز قرار دیا-اور بتول کو کہنے لگا آج جب وہ جلوس میں آیا توبہت سے لوگ اسے دیکھ کر کہنے لگے کافر سید مسلمان ہوگیا ہے-اور وہ یہ سن کر مسکراتا رہا-

Monday 28 November 2011

گھر ........

گھر ........
میں آج بہت عرصۂ بعد اس گھر میں داخل ہوا ہوں-یہ گھر میری جنم بھومی نہیں ہے-لکین میں دو سال کا تھا -جب اس گھر میں رہنے والے دو مکین مجھے اس گھر میں لے آئے تھے-میں نجب ہوش سنبھالا تو اتنے بڑے گھر میں اپنے دادا ،دادی کے ساتھ خود کو اکیلا پایا -
بہت پرسرار اور خاموش سا لگا یہ گھر مجھے-اس گھر کی پیشانی پر لکھا ہوا ہے "لکشمی ہاؤس .....١٨٩٧"-اس گھر کا بڑاسا دروازہ -جو کے دیودار کی لکڑی سے بنا ہوا ہے-دو بڑے بڑے پٹ -جن پر نقش ہندو صنمیات عجب تاثر دیتی ہیں-پھر در وازے کے دائیں اور بائیں ہر بنی دو چوکیاں -اور سائیڈ پر بنے دو اوطاق جن میں شائد تیل کے چراغ جلا کرتے تھے-اندر داخل ہوتے ہی بہت بڑا صحناوپر سے نظر آتا آسمان-سامنے حال کمرہ-دائیں اور بائیں سمت بنے ٦ کمرے-ان میں سے ایک کمرے میں ایک چوکی پر مورتیاں سجی ہوئی تھیں-سائیڈ پر ایک کمرہ جس میں کتابیں بری ترتیب سے چاروں طرف ریک میں سجی ہوئی تھیں-ایک میز اور کرسی -دادا کا کہنا تھا کہ انھوں نے بس تین کمرے اس گھر کے اپنے استعمال میں رکھے تھے-اور باقی کو یونہی رہنے دیا تھا-کتابوں والا کمرہ اسے ہی سجا ہوا ملا تھا-بس اس میں دادا اور دادی نے اپنے طرف سے کتب کا اضافہ کیا تھا-انہوں نے عبادت والے کمرے کو بھی نہیں چھیڑا تھا--اس پر ایک مرتبہ دادا کو خاصی مشکل کا سامنا بھی کرنا پڑاتھا-انھیں جماعت اسلامی والوں نے ہندو مشہور کر دیا تھا-دادا اور دادی نے معمولی سی مرمت تو کروائی ہوگی-لکین اس مکان کے نقشے میں کبھی تبدیلی نہیں کی-دادا نے جب اس گھر کی اکلوتے کتب خانے میں کتابوں کوپڑھنا شروع کیا تو ان ک معلوم ہوا کہ یہ گھر رام لال نامی کسی ہندو نے تعمیر کروایا تھا-اور وہ سرکاری ٹھیکیداری کیا کرتا تھا-اور لکشمی اس کی بیٹی کا نام تھا-جس کے پیدا ہونے پر رام لال کا کاروبار چمک اٹھا تھا-اس نے جب اس گھر کی ١٨٩٧ میں تعمیر شروع کر وی تھی تو اس نے اس گھر کی پیشانی پر لکشمی ہاؤس کندہ کر وایا تھا-رام لال خود بھی کتابوں کا بہت رسیا معلوم ہوتا تھا-ایک مرتبہ میں اس کتب خانے میں رکھی ایک کتاب جو ہنو صنمیات کی ڈکشنری تھی-کودیکھ رہاتھا تو کتاب کے آغاز میں لال روشنائی سے کافی سارے حوالے اور تبصرے درج تھے-نیچے رام لال کا نام درج تھا-اکثر رام لال کے ساتھ ساتھ تاریخ اور وقت کے فرق کے ساتھ ساتھ ساتھ کرشن لال کا نام بھی لکھا نظر آتا تھا-جو دادا کے بقول شائد رام لال کابیٹا ہوگا-میں نے یہاں پر انگریزی ادب عالیہ کی بھبھٹ اچھی کلیکشن دیکھی تھی-اور اس پر جا بجا مجھے لکشمی دیوی کانام لکھا نظر آیا-لکشمی دیوی انگریزی ادب میں روشن خیالی اور خرد افروزی کی تحریک سے خاصی متاثر نظر آتی تھی-ان دنوں میرے ساتھ عجب معامله ہو رہا تھا-کہ میرے خیال کی پرواز بہت بلند ہو گئی تھی-میں رام لال،کرشن لال اور لکشمی دیوی کے پیکر تراش لیتا-اور ان کو اس کتاب گھر میں حاضر کر لیتا-کبھی میں لکشمی دیوی کو اپنی دادی کا روپ ڈیٹاور ان کو عبادت والے کمرے کی طرف دیکھ کر ان کے چہرے پر عجب سے مسکان دیکھ لیتا-لکشمی دیوی تو جدید الحاد کی تحریک سے بھی متاثر نظر آتی تھی-اسی لئے اس کے لکھ حوالوں میں بہت سے ہولو ایسے ہوتے تھے کہ جن سے اس کے اس طرف جھکاؤ کا پتا چلتا تھا-
میں جب بھی اس قسم کے کوئی پیکر تراشتا تو بعض اوقات ان کو لفظوں میں قیدکرنے کی کوشش بھی کرتا تھا-میری دادی اس پر ہنستی بھی-اور کبھی کبھی سنجیدہ ہو کر میرا حوصلہ ہی بڑھاتی تھیں-مجھے یہ گھر جدید اور قدیم کی کشمکش میں گرفتار لگتا تھا-اس گھر میں جو اصل مکین رہتےتھے-وہ تقسیم کے بعد کہاں گئے-ہمیں کچھ معلوم نہ تھا-اور یہ اب اس القہ میں واحد گھر ہے-جو اپنی اصل حالت میں موجود ہے-رات کو ایک سائے کی طرح ایستادہ نظر آتا ہے-باقی کے تمام گھر اب جدید طرز کے بنگلوں میں بدل چکے ہیں-دادا اور دادی کی وفات کے بعد بھی میں نے اس گھر میں میں کوئی تبدیلی نہیں کی-اس گھر میں اب دو کمرے اور اسے ہیں جن میں پر چیزیں ویسی کی ویسی ہیں جیسی وہ ١٩٩٨ میں تھیں جب دادی اس جہاں سے رخصت ہو کر دادا کے پاس چلی گئیں تھیں-
اس گھر کا جو ہال نما کمرہ ہے-اس کمرے میں کسی زمانے میںہر ہفتہ بہت رش ہوا کرتا تھا-ایک اسٹڈی سرکل ہوتا تھا-جس میں مزدور،استاد،ڈاکٹر،شوبز سے تعلق رکھنے والے نا جانے کونکوں شامل ہوتے تھے-اور وہ سب مل کرارٹ،فلسفہ،ادب،سیاست،معشیت وغیرہ پر نا جانے کیا کچھ پڑھا کرتے تھے-مجھے بہت سے کردار آج بھی یاد ہیں-ان میں وہ مصور لڑکی جو کسی پارسی خاندان سے تعلق رکھتی تھی-مجھے آج بھی یاد ہے-وہ پنکل سے خاکے تراشنے میں مہارت رکھتی تھی-اس کا خاص کمال وہ تھا کہ وہ اکتوبر کے ماہ میں جب روسی انقلاب کی سالگرہ قریب ہوتی تو بہت محنت کے ساتھ وہ لینن ،اس کی بیوی کروپسکایا کی تصویر بناتی تھی-یکم مئی کو وہ چند گمنام سے مزدوروں کے پیکر کپڑے پر تراشتی تھی--اس کو نہ خانے کا ہوش ہوتا تھا-نہ پینے کا-شوبھا نام تھا اس کا-پھر وہ لندن چلی گئی تھی-میں ایک مرتبہ صحافیوں کے ایک وفد کے ساتھ پراگ گیا تو پراگ یونیورسٹی میں بس اچانک اس سے ملاقات ہوگی-مجھے لگا جیسے اس کے ہاں کچھ بھی نہ بدلہ ہو-وہ اسی طرح سے دبلی پتلی تھی-لگتا تھا عمر اس پر کہیں آکر ٹھہر سی گئی تھی-شادی اس نے اب تک نہیں کی تھی-برطانیہ میں کسی یونیورسٹی میں استاد ہوگی تھی-ہم یونیورسٹی کے اس گراونڈ میں جا بیٹھے تھے جہاں پر طلبہ کو احتجاج کرتےہوئے نازی حملے کا سامنا کرنا پڑا تھا--میں نے اس سے پوچھا کہ کیا حال احوال ہیں-تو ایک لمبی رام کتھا سننے کو ملی-وہ اب بھی تصویریں بناتی تھی-میں حیران تھا کہ وہ کہتی تھی کہ اس کی تصویر کہانی کے کئی سورما اب راکھشش ہو چکے ہیں-جیسے سٹالن اور ٹیٹو-اور ایک راکھشش اب سورما -جیسے ٹراٹسکی-میں نے اس کوزیادہ نہیں چھیڑا -وہ مجھ کو اب بھی سات آٹھ سال کا بچہ سمجھ کر ڈائل کر رہی تھی-اور مجھے یہ سب اچھا لگ رہا تھا-میں نے جب اس کو رات کے خانے پر بلانے پر اصرار کیا تو اس نے کہا نہیں تم میرے مہمان بنو گے-خانے کے بعد جاتے ہوئے شوبھا نے مجھے رائد وائن کی بوتل کا تحفه یہ کہتے ہوئے دیا کہ آپ کے دادا جب اسی پراگ یونیورسٹی کے دورے پر میرے ساتھ آئے تھے تو ان کو ایک کامریڈ میزبان نے یہی تحفه دیا تھا-جو انھوں نے قبول کر لیا تھا-اور اپنے کامریڈ دوست کو اس بات کی ہوا بھی لگنے نہیں دی تھی کہووہ اس نعمت سے محروم تھے-الکوحل ان کے وجود کا کبھی حصہ نہیں بن سکی تھی-شوبھا کی یہ بات سن کر مجھے یاد آگیا کہ میں تو ماسکو کی سردی سے ڈر کر پہلے دن ہی وّدکا سے دوستی کر بیٹھا تھا-شوبھا کے علاوہ ایک اور کردار استاد صمدوتھے -یہ بیٹری ورکرز یونین کے صدر تھے-کسی سکول .کالج کا انھوں نے منہ نہیں دیکھا تھا-سارا سماج ان کا استاد تھا-لکین دنیا کی سات زبانوں پر ان کو عبور تھا-انگریزی ان کی سن کر دیکھ کر مجھے بھی شرم اتی تھی-میرے دادا کے بعد تاریخ میں یہ میرے استاد تھے -جن سے میں نے بہت کچھ سیکھا تھا-اس گھر میں آج اپنے پرانے کمرے میں لیتا میں یہ سب کچھ سوچ رہا تھا-وقت تیزی سے گزر جاتا ہے-اور پھر یہی گھر تو ہے جہاں میں اور ہما ہمیشہ سردیوں کی لمبی راتوں کو کتب خانے میں رات گئے تک کتابوں کو دیکھتے تھے-اور دادا دادی سے بہت سے قصے بھی سنتے تھے-یہیں پر کبھی کبھی ہما کی والدہ بھی آہ جاتی تھیں-اور پھر تاریخ کے کئی ایسے گوشے وہ ہوتے تھے-کہ بس آج بہت افسوس ہوتا ہے کہ کاش سٹیو جابز کی ایجاد اس وقت مجھے میسر ہوتی تو میں وہ تاریخی لمحات ریکارڈ کر لیتا-اور آج پھر سے ان کو اپنے سامنے ہوتا دیکھتا-مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ اسی طرح سے زیلھج کے آخری دن تھے-اور محرم شروع ہونے والا تھا-شائد وہ عید مباہلہ کی رات تھی-جی یہ وہ دن ہے جس دن کہا جاتا ہے کہ حضرت محمد علیھ السلام نے پنجتن پاک کولیکر مسیحیوں سے مناظرے کے لئے نکلے تھے-اور اسی دن بیبی سکینہ کی ولدت کا دن بھی بتایا جاتا ہے-یہ دن شیعہ کے ہاں بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے-میرے دادا ،دادی،اور ہما کی والدہ مسلم تاریخ کے اس طرح کے دنوں کی ریڈکل تبریروں پر غور و فکر کر رہے تھے-میں اور ہما ان کی باتیں سن رہے تھے -اس وقت ہم اس بات پر متفق تھے کہ دادا ،دادی اور ہما کی والدہ سب لاشعوری طور پر اپنے ورثہ کی نئی تعبیر کی کوشش کر رہے تھے-بہت بعد میں جا کر میں اور ہما اس رمز سے آشنا ہوسکے جو تاریخ میں مذہب کے ساتھ کہیں جڑ جاتی ہے اور اس سے ہم الگ نہیں ہو پاتے-میں آج جب یہ سطریں لکھ رہا تھا تو میری نظر اپنے دائیں ہاتھ کی انگلی میں پڑی انگوٹھی پر پر -اور کلائی پر بندھے ہوئے ایک کلپ پر-انگھوٹھی ملک شام سے بیبی زینب کے مزار سے آئی ہے-اور کلپ میں جڑا عقیق اس پر لکھا ہوا ہے یا علیمدد -یہ کبھی مجھ سے الگ نہیں ہوتے-بس یہہ وہ کہانی ہے-جو آج تک میری سمجھ میں نہیں آئی-یہ گھر نا جانے کب تک یونہی قائم رہے گا-

کربلا اور شہر بانو (کہانی ) عامر حسینی

آج میں کربلا میں ہوں لکین ستم ظریفی یہ ہے کہ میرے ساتھ شہر بانو نہیں ہے-میرا خیمہ خالی ہے-اور یہ کربلا جو مجھے کبھی ڈرا نہیں سکی نجانے کیوں میرے اندر وحشت پیدا کر رہی ہے-میں اس کربلا سے چلا جانا چاہتا ہوں-اور میں تو یہاں خیمہ بھی نہیں لگانا چاہتا تھا-لکین نجانے کون سی قوت مجھے اس کربلا میں کھینچ لائی ہے-اور میری یہ کربلا بھی عجیب ہے-مائیں جب اپنے مدینہ سے چلا تھا تو مہینہ تو رجب کا تھا لکین میں اپنے مدینہ سے غریب شہر ہو کر اس طرح سے نکلا تھا کہ میرے ساتھ کوئی نہیں تھا-میرے ساتھ تو شہر بانو بھی نہیں تھی اور مجھے یہ سفر تنہا کرنا پڑا-میں اپنے مدینہ سے چلا تو اس وقت تک کسی یزید نے مجھ سے میرا دست طلب نہیں کیا تھا-اور نہ ہی کوئی سپہ مجھے اپنے ساتھ لیجانے آئی تھی-لکین نجانے مجھے کیوں لگا کہ اب مدینہ میرا نہیں رہا اور مجھے اب یہاں سے ہجرت کرنی ہے-میں نجد کے صحرا سے گزرا تو مجھے خیال بھی نہیں تھا کہ کبھی اسی صحرا سے اٹھنے والے بدو میری شناخت کے درپے ہوجائیں گے-اور وہ مدینہ اور مکہ میں میری تہذیب کے تمام آثار کو بدعات قرار دے کر ان کو مسمار کر دیں گے-اور میں کیا میری ساری تہذیب وہاں اجنبی اور مہاجر ہو جائے گی-
یہ کربلا بھی عجیب ہے کہ کہیں پر بھی پرپہ ہوجاتی ہے-اور زمان و مکان کی قیود سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا-لکین ساری کی ساری کربلائیں جا کر اسی کربلا سے رشتہ جوڑ لیتی ہیں جو عراق میں موجود ہے-اور بس کوفہ سے تھوڑی دور ہے-اور کربلاؤں میں سارے خیمے،ساری جانیں ،اور سب کی سب شیادتیں اسی ایک کربلا سے جا کر مل جاتی ہیں-
ہجرت اور تنہائی یہ ساتھ ساتھ ہوتی ہیں-لکین زمانی اور مکانی ہجرت سے پہلے ایک ہجرت ذہنی ہوتی ہے-اور مادی بیگانگی کی سب سے لطیف شکل ذہنی بیگانگی ہوتی ہے-اور جب آپ کا رفیق آپ سے جدا ہوجائے تو اس کا آغاز ہوجاتا ہے-یہ اپنی کامل شکل میں ظہور پذیر ہونے میں بہت عرصۂ لیتی ہے-یہ شعب ابی طالب سے شروع ہوتی ہے اور وہاں کسی کی خدیجہ اور کسی کا کوئی غم خوار بزرگ اس سے جدا ہوجاتا ہے-تو وہ سال ہی غم اور حزن کا سال قرار پاتا ہے-لکین اس دوران کسی کو تنہائی کا وہ احساس نہیں ہوتا -جو اس کو ہجرت کے بعد مدنیہ میں اپنے رفیق کی وفات کے بعد ہوتا ہے-وہ اپنی جنت کے ساتھ اور اس جنت کے دو ننھے پھولوں کے ساتھ پہلے تو تنہا اپنے رفیق کی تدفین کرتا ہے-پھر اس کو سقیفہ کے قہر کا سامنا کرنا پڑتا ہے-اور وہ اپنے مختصر سے خاندان کو لیکر مدینہ کے گلی کوچوں میں جاتا ہے-اور وہاں جا کر ایک ایک کو بتاتا ہے کہ ابھی زیادہ وقت تو نہیں گزرا جب غدیر خم کے مقام پر کوئی عہد و پیمان باندھا گیا تھا-اور پھر عترت کے ساتھ صلہ رحمی کا پیمان بھی تو ہوا تھا -یہی مہینہ تھا زی الحج کا جب عید مباہلہ ہوئی تھی-اور پھر کس کو شہر علم نے اپنا دروازہ قرار دیا تھا-لکین اس سب کچھ کہنے کا کوئی فائدہ نظر نہیں آیا -اور تنہائی اور غربت ،ہجرت ذہنی نے جڑ پکڑنا شروع کر دی -ایک طرح سے یہ مدینہ سے بے دخلی کا نوٹس تھا-آپ اپنے مدینہ میں ہوتے ہوئے بھی نہیں تھے-اور یہ ہجرت ذہنی کسی کو رات رات بھر جگاتی تھی-اور کوئی اپنے مرنے کی طلب راتوں کے آخری پہر میں کیا کرتا تھا-اور ایک رات خاموشی سے وہ طلب پوری ہوجاتی ہے-لکین وہ تنہائی اور ہجرت سفر کرتی ہے -اور وہ جو باب علم کہلاتا ہے اس میں سرایت کر جاتی ہے-یادوں کی ایک سولی ہے جو گڑھی ہوتی ہے-اور ان سے سے بچنے کے لئے کوفہ کو ایک اور ہجرت کر لی جاتی ہے-لکین دیو مالائی سچ کا پیچھا تنہائی نہیں چھوڑتی -یہ ساتھ ساتھ چلتی ہے اور پھر ایک تلوار کا وار ہوتا ہے "فزت برب الکعبہ"کی صدا بلند ہوتی ہے -لوگ سمجھتے ہیں کہ شائد اب سفر ختم ہو گیا-اور قافلہ واپس اپنے مدینہ کو لوٹ جاتا ہے-لکین غربت،ہجرت،بیگانگی جیسے مقدر ہوجائے -یہ مقدر کسی کے جگر کو زہر سے کاٹ کر اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے بھی ساتھ ہی رہتا ہے-اور پھر ہجرت کا ایک اور سفر شروع ہوتا ہے اور اس کا اختمام کربلا میں ہوتا ہے-آج کے بعد جو بھی ہجرت ہوگی اور جو بھی بیگانگی کے سندور کو اپنی مانگ میں سجائے گا -اس کی ہجرت کا سفر کربلا میں ختم ہوگا اور بیگانگی کے سندور کو اپنی مانگ میں سجانے والی سہاگن کو اس کا پیا بھی اسی کربلا میں ملے گا-یہ کربلا بھی ایسی ہے کہ اس کی طرف سفر کرنا کبھی بھی آسان نہیں رہا-آج بھی اس کی طرف جاتے ہوئے خون کے سمندر کو عبور کرنا لازم ہوتا ہے-
لکین میری کربلا اگرچہ اسی کربلا سے جڑی ہوئی ہے-لکین نہ تو میری شہر بانو میرے ساتھ ہے-نہ ہی میرے خیمہ میں کوئی مجھے رخصت کرنے والا ہے-کوئی نہیں ہے جس سے میری آنکھیں چار ہوں اور ہم چند لمحوں میں ساری زندگی کی کہانی کو بیان کر جائیں-
مجھ پر غربت ،ہجرت،بیگانگی کا یہ عالم کیوں ہے ؟اس کو شائد میں کبھی بیان ہی نہ کر پاؤں-میں اپنی کربلا کی داستان رقم کرنے بیٹھا ہوں تو میری اس داستان کو کسی فرقہ یا مسلک کی تنگ نظری سے پرکھنے کی کوشش مت کیجئے گا-کیوں کہ دیو مالائی سچ جس روح کے ساتھ ہو جاتا ہے -وہ روح کسی مسلک اور کسی فرقہ کے قالب میں سما نہیں پاتی-لکین کربلا اس وقت ایک اعزاز ہوتی ہے جب آپ کی شہر بانو آپ کے ساتھ ہو -اور آپ کے خیمہ جاں میں وہ مقتل کی طرف جاتے ہوئے آپ کو رخصت کرتے وقت آنکھوں ہی آنکھوں میں ان کہی بہت سی باتیں کہ جائے-اور اگر وہ کہیں گم ہو جائے اور کربلا کا سفر آپ کو تنہا کرنا پڑے تو پھر جو عذاب آپ کی جاں پر اترتا ہے -اس کا بیان نہیں ہو سکتا-ہاں یہ سچ ہے کہ یادوں کی ایک مالا ہے جس کو میں اپنے عاشور کے آنے سے پہلے پہلے گلے میں لٹکا سکتا ہوں -اور اپنے سفر کو کچھ آسان کرسکتا ہوں-
مجھے اب سے کچھ دیر بعد اپنے خیمہ سے نکل کر جانا ہے -اور میں چاہتا ہوں کہ جانے سے پہلے کچھ اعتراف کرتا چلوں -وہ اعتراف کیا ہے -وہ یہ ہے کہ '
"شہر بانو !تم میری ساری کی ساری دیو مالا کا سر عنوان ہو-میری ہستی کا ہست ہو اور میرے وجود کا وجد ہو-میری کن کا کون ہو-اور میری هویت کا ہو ہو -میری بصیرت کا بصر ہو-میری سماعت کا سماع ہو-میرے مظہر کا جوہر ہو-اور تم بس تم ہو اور میں بھی تم ہو-میں دوئی کا تصور بھی کفر سمجھتا ہوں اور تم سے خود کو الگ تو کیا تمہارے بعد کسی اور کی هویت کو بھی محال خیال کرتا ہوں-لکین یہ جو حضوری ہے میری اس میں بھی ایک ہجر اور ایک فرق چھپا ہوا ہے-اور میں بس اس کی آگ مئی سلگرھا ہوں-اسی ہجر نے مجھے اس کربلا میں تنہا کر دیا ہے-اور تم جو میرے اند جذب ہو آج مجھے بہت دور نظر آتی ہو -لکین میری محبت ہے کہ وہ سرد ہونے کی بجائے اور گرم سے گرم تر ہوتی جاتی ہے-ہجر کی آگ اس کو جلانے کی بجائے اور تیز کرتی جاتی ہے-میں زندگی کے سارے عذابوں سے نکل کر آگیا -اور میں نے ہر نار نمرود کو پار کر لیا -لکین آج یہ کربلا مجھ سے پار نہیں ہونے والی -اس لئے یہ شہر بانو تم آج یہاں نہیں ہو-میں تم سے کہنا چاہتا ہوں کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں اور محبت کا دوسرا نام جذب ہونا اور کسی کا حصہ ہوجانا ہوتا ہے-اور دوئی کا مٹ جانا بھی -لکین یہ کیا کہ میری کربلا میں دوئی تو برقرار ہے اور میں یہاں تنہا ہوں اور تم نہیں ہو-مجھے لگتا ہے کہ کہ شہر بانو مائیں تمہارا امیر نہیں رہا-اور تم میری شہر بانو مجھ سے کہیں دور بہت دور چلی گئی ہو-میں جو کبھی ٹوٹ کر اور بکھر کر بھی نہیں بکھرا تھا آج میں ٹوٹ بھی رہا ہونن اور بکھر بھی رہا ہوں-میں جو سارے انتشار ذات میں تمہارے وجود سے متحد رہا تھا -اب کہ جو منتشر ہورہا ہوں تو پھر اتحاد کا کوئی امکان نہیں ہے-میری کہانی لگتا ہے -اس کربلا میں اختتام پذیر ہے اور وہ بھی ایسے کہ یہ اصلی کربلا سے جڑی کہانی سے نہیں جرننے والی-تم جو ہر شب کو میرے لئے مولا سے امان طلب کرتی تھیں-کافی دن ہو گئے -تمھاری طرف سے مجھے وہ امان طلب کرنے کی خبر رات کے تیسرے پہر نہیں ملی-اور یقین جانو میں بھی ان راتوں میں ایک پل کو بھی نہیں سوسکا -مجھے ایسے لگا کہ اس امان کے بغیر صحرا کے جنگلی کتے اور سور مجھ پر بھونکتے ہیں-اور میرا خیمہ ان دیکھےخطرات میں گھر گیا ہے-مجھے صبح ہونے کا انتظار ہے-لکین تمہارے بغیر یہ رات بہت طویل ہو گئی ہے-مجھے یہ بھی ڈر ہے کہ کہینمیں اسی رات میں کربلا میں اپنا سفر ختم کر بیٹھوں -اور میری عاشور نہ ہو پائے-مجھے لگتا ہے کہ میں وہ بد نصیب دلہن ہوں جو پیا بن رہے اور بنا سہاگن ہوئے اپنے ہست کو نابود کر دے-اور کربلا کا ایسا مسافر جو امام کے قافلے کو خیمہ زن دیکھ کر بھی ان کے ساتھ نہ ہو -اور عاشور اس کی زندگی میں نہ آئی اور رات کو وہ صحرا میں کسی جنگلی جانور کی بھوک مٹانے کا سبب بن جائے-میں بھی تمھارے بنا کربلا میں بس ایسا ہی مسافر ہوں-میں کربلا میں ہوں-اور خیمہ میں تم نہیں ہو شہر بانو -بس یہی احساس ہے جو مجھے منتشر کے جاتا ہے-"

Thursday 3 November 2011

سب کی کہانی ایک ہے (افسانہ )

سب کی کہانی ایک ہے (افسانہ )



عامر حسینی



وہ رات کو دس بجے بس سٹینڈ پر پہنچ گیا تھا-اور پھر ایک گھنٹہ وہ بیٹھا رہا -تب کہیں جا کر بس آئی-وہ ڈیزرٹ رحیم یار خان جانا چاہتا تھا-وہاں اس کے دوستوں نے ایک تقریب رکھی تھی-وہ اس تقریب میں شرکت کرنے جا رہا تھا-اس کو اتنا لمبا سفر کبھی بھی بس میں کرنا اچھا نہیں لگتا تھا-وہ تو لمبے سفر کو ٹرین میں بیٹھ کر کرنے کا خواہاں رہا تھا-لکین اس کا ملک تیسری دنیا کا وہ ملک تھا جہاں اچانک اور کمبائنڈ ترقی کا تجربہ اپنے عروج پر تھا-وہاں موٹر وے تھی-فوج نے ایٹم بم بنا لیا تھا-بلیسٹک مزائل بنانے میں خود کفیل ہوچکی تھی-لکین ریل وے کے پاس انجن نہیں تھے-ان کے پاس دیسل نہیں تھا-تو ٹرین بھی کسی وقت کی پابند نہیں رہی تھی-اس نے پھر بھی ریل وے اسٹیشن جا کرآزمائی کی تھی -لکین اے بسا خاک کے آرزو شد والا معاملہ ہی رہا-سو وہاں سے پھر بس ٹرمینل پر آیا -یہاں سے ایک پوش بس سروس کا ٹکٹ لیا -گاڑی لاہور سے آ رہی تھی-اس نے آگے کراچی تک جانا تھا-تو یہ ایک گھنٹہ لیٹ ہو گئی-گیارہ بجے گاڑی آئی -وہ اس میں سوار ہوا -اس کی سیٹ درمیان میں تھی-اور اس کی طرف کھڑکی تھی-رات کا وقت تھا -گاڑی اپنی منزل کی طرف چل پڑی-اس نے آئی پوڈ نکالا اور ہیڈ فون کو کان سے لگا لیا-آئی پوڈ کو نکالتے ہوئے اس کو اس کے موجد سٹیو جاب کا خیال آ گیا -کہ کیسے اس نے ایک سرمایہ دار سے کچھ پیسے لیکر ایپل کمپنی کی بنیاد رکھی تھی-اور پھر فون کی دنیا میں اور کمپیوٹر کی دنیا میں اس نے انقلاب برپا کر ڈالا تھا-اس نے آئی پوڈ کی طرف عقیدت سے دیکھا اور تھوڑی دیر کے لئے سر کو جھکا لیا -سٹیو جاب مر چکا تھا-لکین اس کی موجودگی کا احساس اس کو یہ آئی پوڈ دلا رہا تھا-آئی پوڈ پر گیت چل رہا تھا



تیری یاد ساتھ ہے



جاوید اختر نے یہ گیت لکھا تھا-اور راحت اپنی آواز کا جادو جگا رہا تھا-اس کو سفر میں یہ گیت بہت ہانٹ کرتا تھا-اس نے آنکھیں بند کر لیں -سر کو سیٹ سے ٹکا دیا -اور سوچوں کے سمندر میں گم ہوگیا -



ابھی جب ہمارا یہ مسافر ذرا آنکھیں بند کئے ہوئے ہے-تو ہم اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مسافر کا تعارف کرتے چلیں-یہ سید انور کاظمی ہے-شاعر بھی ہے-لکین اس کی نظموں کو پاکستان کے لوگ زیادہ نہیں جانتے -اس نے ایک دور میں بہت سرگرم سیاست کی تھی-جب ملک میں ایک خادم اسلام حکومت پر براجمان تھا-جس کو سیاست سے ہی نہیں بلکہ فنون لطیفہ سے بھی بیر تھا-انور کاظمی ان دنوں یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا-اس کو آنکھوں کے خراب زاویے رکھنے والا اور ٹانگوں کے غیر جمالیاتی پھیلاؤ کا مالک امیر المومنین ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا-اس نے ان دنوں ایک نظم "عقل سے بڑی بھینسیں "لکھی تھی-اس نے یہ نظم ملک میں ملٹری کورٹ بنانے پر لکھی تھی-



عقل سے بڑی بھینسیں مسند عدالت پر فیصلے سناتی ہیں



بھونکتے ہیں وردی پوش ،کاٹتی ہیں سنگینین



دس کروڑ لوگوں کو موت کی سزا دے دو



یہ نظم اس نے کیا لکھی -اس کا تو اس ملک میں جینا ہی دوبھر ہوگیا-وہ ایک دن چپکے سے ملک سے فرار ہو گیا -اور جرمنی جا پہنچا-وہاں ایک عرصۂ تک اس نے فرینکفرٹ میں گزارا-سیاسی پناہ گزین کے طور پر -پھر جب بھٹو کی بیٹی برسر اقتدار آئی تو وہ ملک واپس آگیا-لکین اس کو یہ ملک بہت بدلا ،بدلا لگا-یہاں تو طبقہ بدلنے کی ایک دوڑ لگی ہوئی تھی-پلاٹ،پرمٹ ،ایجنسی کا ٹھیکہ اور کوئی سفارشی نوکری -یہ تھی سیاست ان لڑکوں کی بھی-جن کے بالوں میں کہیں کہیں اب سیفدی جھلکتی تھی-اور وہ سب انقلاب کو بھول کر اپنے سماجی مقام کو تبدیل کرنے کو زور دے رہے تھے-اس کی محبوب لیڈر امریکہ سے بہتر تعلقات بنانے کے لئے ان سارے لوگوں کو بیک سیٹ پر جانے کا کہ رہی تھی -جو کبھی امریکی سامراج کے خلاف نعرے لگاتے تھے-اور بھٹو کی بیٹی ان کو بھٹو کے سپاہی کہتی تھی-اس نے مغربی جرمنی اپنے بعض سرخ ساتھیوں کو سبز ہوتے دیکھا تھا-وہ اچانک مغرب کی لبرل ڈیموکریسی اور فری مارکیٹ کے دلدادہ ہوگئے تھے-ان کو لگتا تھا جس ارضی جنت کی ان کو تلاش تھی -اس کو انھوں نے پا لیا ہے-



انور تو خود کو سیاسی پناہ گزین خیال کرتا تھا-اور وہ بس پیٹ کا اندھیں بھرنے اور بنیادی ضرورتیں پوری کرنے جتنی مزدوری کیا کرتا-ہر ہفتہ کو مختلف اخبارات کے دفاتر تک جاتا -پاکستان میں جمہوریت کی بحالی ،سیاسی آزادی کے لئے مغرب کے جمہوریت پسندوں کے ضمیر پر تازیانے برساتے بیانات اور مضامین دیتا -ان سے سوال کرتا کہ ان کا ضمیر کہاں ہے-جو ایک امر اور بنیاد پرست کو مال دینے اور اس کو مدد دینے پر بھی خاموش رہتا ہے-ریگن کو وہ مولوی ریگن اور تھیچر کو وہ نن تھیچر کہا کرتا تھا-لکین جب جمہوریت بحال ہوئی -اور وہ پاکستان بھاگا بھاگا آیا تو -یہاں کے حالات دیکھ کر اس کو سخت مایوسی ہوئی-اس نے ایک خاموشی سے واپس فرینکفرٹ کی فلائٹ پکڑی اور پاکستان چھوڑ دیا-واپس آکر بھی وہ بس زندگی کی گاڑی کو گھسیٹتا ہی رہا-پاکستان کی خبریں اس کو ملتی رہتی تھیں-جمہوریت کی آنکھ مچولی اچانک ١٢ اکتوبر کو ایک جنرل نے ختم کر دی-یہ جنرل آیا تو اس کی ایک تصویر اس نے جرمنی کے ایک بڑے اخبار میں دیکھی-دو کتے بغل میں دبائے وہ لبرل پوز کے ساتھ نظر آ رہا تھا-یار لوگوں نے اس کے ڈھمکوں وٹ دختر انگور کو پی کر تال پر جھومنے کو پاکستان سے رجعت پسندی سے نجات کی دلیل قرار دے ڈالا-وہ ہنستا تھا-اس کو نہ تو اے آر ڈی کے تماشے سے کوئی دلچسپی تھی-نا ہی اس کو فوجی کی لبرل مسخرہ گیری سے-لکین جس دن راول پنڈی کی سڑک پر بھٹو کی بیٹی کا خون گرا تھا تو ناجانے کہاں سے اس کے اندر کا وہی جیالہ انور بیدار ہو گیا تھا -جو اس کی جوانی کے سورج کے نصف النہار پر اس کے عمل اور قول سے جھلکتا رہتا تھا-وہ گڑھی خدا بخش کے قبرستان جا کر رویا بھی تھا-لکین اس نے دیکھا کہ یہ خون بھی ملک کی سیاست میں کوئی تبدیلی لانے سے قاصر رہا تھا-وہ جرمنی سے واپس جب آیا تھا تو اس نے اپنا لیپ ٹاپ ان کیا اور پھر فیس بک کھولی تو اس کے دوست ریاض نے اس کو ایک فوٹو ارسال کی تھی-اس فوٹو میں ملک کے وزیر داخلہ رحمان ملک کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری لیتے دکھایا گیا تھا-تصویر میں کھڑے ایک مرد اور عورت کو پہچانتا تھا-یہ تو ٧٠ میں اس کے ساتھ سرخ سرخ سیاست کرتے رہے تھے-اور انور کی کم علمی کا مذاق اڑایا کرتے تھے-آج ایک جاہل کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری دیتے ہوئے بہت خوش نظر آتے تھے-اس نے سوچا کے ریاض کو بھی یقین نہیں آتا ہوگا کہ لوگ ایسے بھی بدل جاتے ہیں-اس نے فیصلہ کیا تھا کہ کراچی جا کر ریاض کو ضرور کہانی سنائے گا کہ کیسے اس کے کئی دوست بدل گئے تھے -اسے منیر نیازی کا شعر یاد آیا


آنکھوں میں پھر رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول


عبرت سرائے دھر ہے ،اور ہم ہیں دوستو


لٹی محفلوں کی دھول بھی آنکھوں میں رڑک بن کر جب پھرتی ہے -تو تکلیف ہو بھی تو بتائی نہیں جاتی -بہت دور کسی رستے پر جا کر اچانک پتہ چلتا ہے کہ یہ رستہ تو کوئی اور رستہ تھا-اس وقت چہرے پر پہلے اداسی اور ملال کے رنگ صاف نظر آتے ہیں-ہمارا یہ مسافر ابھی کیوں کہ تھکا ہوا ہے-اس لئے سو رہا ہے-اس کا سر ساتھ والی سواری کے کندھوں پر جا لگا تھا-اس کے ساتھ بیٹھا ہوا مسافر کوئی بہت نرم دل والا لگتا تھا-جو خاموش تھا-اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اب تک کہ چکا ہوتا کہ اپنے سہارے پر نیند پوری کیجئے -ویسے ہمارا یہ مسافر جاگ رہا ہوتا تو شائد ابھی تک وہ بھی معافی کا طلبگار ہوجاتا-اس مرتبہ جب وہ پاکستان آیا تھا تو پاکستان میں اس کو یہ تبدیلی لگی تھی کہ اس ملک کا مڈل کلاس طبقہ کی نوجوان پرت انقلاب اور تبدیلی کی بات کر رہی تھی-ان میں اکثر نوجوان وہ تھے -جو اس کے زمانے میں جی سی لاہور یا ایف سی لاہور میں پڑھا کرتے تھے-اور اس زمانے کے فیشن کے مطابق وہ یا تو ہپی ازم کے دلدادہ ہوا کرتے تھے -یا بہت کیا تو سوشلسٹ ہوجاتے تھے-برگر سی یہ کلاس ان دنوں بھی انقلاب کی بات کرتی تھی تو بہت عجیب لگتا تھا-انور جیسے بہت سارے لڑکوں کی سمجھ میں یہ نہیں آتا تھا کہ ان کو کون سے دکھ اور تضاد اس لڑائی میں گھسیٹ لائے ہیں-آج کی یہ برگر کلاس بھی اس کو انقلاب کے سلوگن کے ساتھ بڑی عجیب لگی تھی-لاہور میں مینار پاکستان کے سائے میں کرکٹ کے سابق ستارے کی قیادت میں برگر فیملیز کے لڑکوں اور لڑکیوں کا جم غفیر تھا-اور ان میں بہت سے لوئر مڈل کلاس کے لڑکوں اور لڑکیوں کا ہجوم بھی تھا-جو برگر فیملی کے بچوں کی ڈریسنگ اور بولنے کے انداز سے ویسے ہی متاثر ہوئے جاتے تھے -جیسے کبھی انور اور اس کے ساتھی ہو جاتے تھے-ان کی آنکھوں میں رشک اور چند خواب اچانک سے آ کر جو چمکنے لگتے تھے -اس سے انور کو ایک ہی جلسہ میں ایک طبقے کی دو پرتوں کے درمیان کا فرق خوب معلوم ہو رہا تھا-بس اس مرتبہ فرق یہ تھا کہ اس جلسہ میں بھٹو کے ٧٠ والے اور اس کی بیٹی کے ٨٦ والے جلسوں کی طرح مزدوروں ،کسانوں اور غریبوں کی وہ پرتیں موجود نہ تھیں -جن کے بدن کی نیم عریانی چھپائے نہ چھپتی تھی-ان میں ٹپکتی چھت والا کوئی نہ تھا-ان میں جھگی میں رہنے والا کوئی نہیں تھا-ریلوے کی پٹٹری کے ساتھ ساتھ بسنے والی بستیوں کے مکینوں میں سے کوئی ادھر نہ تھا-وہ سارے لوگ کہاں گئے تھے -انقلاب اور تبدیلی جن کے سلوگن ہوا کرتے تھے-یہ وہ ملک تھا جس میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ٤٠ فیصد لوگ سطح غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے-شہری غریبوں کی شمولیت اس میں نہ تھی-یہ ایک نی مڈل کلاس تھی جو ٩٠ کی دہائی میں ابھر کر سامنے آئی تھی-اب اس مڈل کلاس کی نی نسل تبدیلی کے سلوگن کے ساتھ آگے تھی-

بس اپنے مقررہ رستے پر رواں دواں تھی کہ اچانک بریک لگنے سے زور کا جھٹکا لگا اور ہمارے مسافر کی آنکھ کھل گئی-انور نے کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا -گاڑی بہاول پور پہنچنے وی تھی-بس ہوسٹسس کہ رہی تھی کہ وہاں بس ٹرمینل پر پندرہ منٹ کا سٹاپ ہوگا-

بس ٹرمینل میں داخل ہو گئی-آسمان پر بدل چھائے ہوئے تھے-انور باہر نکلا اور ویٹنگ روم میں جانے کی بجائے باہر کھڑا ہوگیا -اس نے جیب سے سگریٹ کیس نکالا اور سگریٹ پینا شروع کر دی -بادلوں سے چاند آنکھ مچولی کھیل رہا تھا-ستارے آسمان میں کہیں نظر نہیں آ رہے تھے-انور کو بہاول پور کی رات ویسے بہت پسند تھی-ریاست کے پورے علاقے میں اس کو چاندنی راتوں سے عشق سا تھا-ایک مرتبہ جب وہ ضیاء آمریت سے بھاگا پھر رہا تھا تو اس نے کافی دن اور راتیں بہاول پور میں گزارے تھے-یہاں قائد اعظم میڈکل کالج سرخوں کا گڑھ تھا-آج اتنے عرصے کے بعد بس ٹرمینل پر کھڑے -رات کے اس پہر میں اور بادلوں کی چاند سے آنکھ مچولی دیکھ کر اس کو کئی کہانیاں سی یاد آ کر رہ گئی تھیں-اس کو بے اختیار میڈکل کالج کی نہال اختر کی یاد آئی تھی -وہ بھی مفروری کے دن کاٹ رہی تھی-وہ بھی عجب دن تھے -جب دانشوروں کی ایک پرت بہت جوش میں تھی-نہال اختر نے تازہ تازہ پولینڈ کا دورہ کیا تھا-وہاں کے دانشوروں نے ایک تحریک آمریت کے خلاف چلائی ہوئی تھی-وہ بھی بس اسی سے متاثر ہوکر نکل پڑی تھی-غضب کی تحریریں لکھتی تھی-ضیاء کو میڈک جیسی آنکھوں والا قرار دے ڈالا تھا-ہندو صنمیات کے کردار راون اور راکھشش سے اس خادم اسلام کو تعبیر کرنا بہت بڑا جرم تھا-بس مارش لاء کا حکم نمبر ١٩ کی زد میں آ گئی تھی وہ-سرو جیسا قد-غزال جیسی آنکھیں ،کتاب جیسا چہرہ ،ہرنی جیسی چال ،پتلی سی کمر ،یہ بڑی بڑی آنکھیں ،ان پر پڑی جھالر ،کمان کی طرح کھنچی ابرو -غرض ایک شاعر کے لئے وہ سارے سامان رکھتی تھی-جو شاعری میں بطور مواد کا کام کرتے ہیں-مگر وہ یہ سب چھوڑ چھاڑ سیاست کی پر خار وادی میں آ نکلی تھی-سیکولر تھی-مذھب سے بیزار تھی-آزاد خیال تھی-مگر یہ آزاد خیالی وہ نہیں تھی -جو جماعت اسلامی کا ہر صالح جوان اپنے گرد لوگوں کو بتلایا کرتا تھا-جمعیت کے لڑکوں کی اس سے جان جاتی تھی-پچھلی مرتبہ جب وہ جرمنی سے فرانس گیا تھا -تو پیرس میں اس کی ملاقات خالد احمد سے ہو گئی تھی-تو اس نے انور کو بتایا تھا کہ "یار!تم کو معلوم ہے کہ نہال اختر فرانس میں حزب الله کی خواتین ونگ کی انچارگ بن گئی ہے-اور وہ حجاب لینے لگی ہے-ساتھ ساتھ درس قرآن بھی دیتی ہے-"یہ سب سن کر انور کو بہت حیرانی ہوئی تھی-خالد اس کو نہال اختر سے ملانے لے گیا تھا-وہ پیرس کے پوش علاقے میں رہ رہی تھی-بہت خوبصورت فلیٹ تھا اس کا-ڈرائنگ روم میں نجف اشرف ،روضۂ امام حسین ،روضۂ بیبی زینب کی تصویر لگی تھیں-ایک طرف دیوار پر تلوار ذوالفقار کا نقش بنا ہوا تھا-یہ سب دیکھ کر اس کو بہت اچنبھا ہوا تھا-پھر جب ایک سیاہ عبایا میں لپٹی اور چہرے پر حجاب لئے جس میں سے صرف آنکھیں جھلک رہی تھیں نہال ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تھی -تو اس کو دیکھ کر یقین نہیں آتا تھا کہ یہ ووہی نہال ہے جس کی مذھب بیزاری کے قصے زبان زد عام ہوا کرتے تھے-اور آج وہ حزب الله جیسی کٹر بنیاد پرست جماعت کے ساتھ کھڑی تھی-انور نے اس سے ماضی کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا تھا-اس کے ذہن میں جرمنی میں ایک کیمونسٹ کی باتیں گھوم رہی تھیں-جس نے اس کو کہا تھا کہ یار یہ جو مڈل کلاس ہوتی ہے نا-اس کے کردار کی چنچ بہت مشکل ہوتی ہے-یہ کچھ بھی کر سکتی ہے-کئی بھیس بدل لیتی ہے-اور ہر کردار جم کر اور ڈوب کر کرتی ہے-نا جانے نہال اختر کیوں ایسے اس کیمونسٹ کی کہی ہوئی بات کا مصداق لگی تھی-اس کو خیال آیا تھا کہ کہیں اس نے نہال کو دیکھ کر تو یہ سب نہیں کہا تھا-وہ انہی خیالوں میں گم سگریٹ کے مرغولے اڑا رہا تھا -کہ اس کے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھ رکھا -اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو یہ اس کے ساتھ والا مسافر تھا-اس نے کہا -دوست گاڑی سفر کے لئے تیار کھڑی ہے-اس نے تشکر بھری نگاہ سے اپنے ہمسفر کو دیکھا -سگریٹ کو پاؤں سے مسلا اور گاڑی کی طرف چل دیا -

گاڑی اپنے رستے پر رواں دواں تھی-خیالوں کی یلغار تھی جو اس کو گھیرے ہوئے تھی-وہ یونہی خیالوں میں گم تھا-کہ کب احمد پور شرقیہ کا ٹول پلازہ آ گیا -نوابوں کا یہ ڈیرہ-جس کو ڈیرہ نواب صاحب بھی کہتے ہیں-اب وہ شان و شوکت نہیں رکھتا -جو کبھی رکھا کرتا تھا-بلکہ یہ تو انتہائی پسماندہ قصبے میں بدل چکا تھا-اس کو یاد تھا کہ ایک مرتبہ وہ یہاں دو راتیں رہا تھا-وہ برسات کے دن تھے-تو سارا احمد پور جوہڑ میں بدلا ہوا تھا-وہ جہاں ٹھہرا ہوا تھا -وہ صاحب بہت عالم فضل تھے-جج تھے-مگر جمہوریت کے بہت حامی تھے-ان کا گھر سرکار کے مفروروں کی جائے پناہ بنا ہوا تھا-گاڑی جہاں سے گزر رہی تھی -وہاں کنارے پر سی این جی فلنگ اسٹیشن اور جدید گیسٹ ہاؤس تھے-ایک پر لکھا تھا فوڈ کلب -وہ یہ ترقی اور پستی کی ساتھ ساتھ ہونے کی کہانی پورے پاکستان میں دیکھ چکا تھا-لکین پنجاب سے نکلتے ہوئے سرائیکی بیلٹ میں آتے ہوئے یہ ساتھ کچھ زیادہ ہی گھمبیر صورت اختیار کر لیتا تھا-

بس صبیح پانچ بجے چوک بہادر میں بنے بس ٹرمینل پر پہنچی -وہاں پر اس کو لینے رئیس بہادر آئے ہوئے تھے-رئیس اس کا یونیورسٹی فیلو تھا-اور جب وہ جرمنی سیاسی پناہ میں گیا تھا تو رئیس وہاں موجود تھا-وہ رحیم یار خان کی ایک جاگیردار فیملی کا چشم وچراغ تھا-رئیس نے اس کو سختی اور مشکل کے دنوں میں بہت سہارہ دیا تھا-ان کی دوستی بہت گھہری ہو گئی تھی-رئیس بہت نیک دل اور یاروں کا یار تھا-وہ کہیں جاتا یا نہ جاتا -پاکستان آ کر رئیس کے پاس ضرور رکتا تھا-اس مرتبہ رئیس نے اس کو ڈیزرٹ لیکر جانا تھا-رئیس اپنی لینڈ کروزر لیکر آیا تھا-بس سے اترا تو رئیس اس ک گرم جوشی سے ملا-

انور سائیں !لگتا ہے عمر کا ایک پھر تم پر آ کر ٹھہر گیا ہے-لگتا ہی نہیں ہے کہ تم عمر کی پچاسویں سیڑھی پر قدم رکھ چکے ہو -"رئیس نے اس کو دیکھ کر کہا-

انور کے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ تھی-یہ دیکھ کر رئیس بولا -یار !تم بس میں بیٹھ کر حسب معمول خیالوں کی گھاٹیوں میں اتر گئے ہوں گے-اور سالوں کا سفر چند گھنٹوں میں طے کر گئی ہونگے-یہ سن کر انور پھر مسکرایا -اور آہستہ سے بولا -

"رئیس!یاد ماضی ہم جیسے افتاد گان خاک کے ا عذاب ہوا کرتی ہے-یہ تم جیسے عرش نشینوں کے سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے-"

رئیس اور انور دونوں گری میں بیٹھ گئے-اور بس باتوں ہی باتوں میں رئیس کا بنگلہ آگیا -وہ تھکا ہوا سا تھا-رئیس نے اس کو آرام کرنے کو کہا-وہ جاتے ہی مہمان خانے میں ایک کمرے میں سو گیا-اور اس کو شام کو رئیس نے اٹھایا-اور کہا بابا بس کرو-اب اٹھو-نہاؤ اور فریش ہو کر ڈرائنگ روم میں چلے آؤ-ڈیزرٹ چلنا ہے-وہ فریش ہو کر ڈرائنگ روم میں آیا تو یہاں دو مرد اور اور ایک عورت موجود تھی-رئیس نے طرف کرایا-

ان محترمہ سے ملو !یہ میری خالہ کی بیٹی ہیں-سٹیٹس سے پڑھی ہیں-ان کا نام صوت فاطمه ہے-سوشیالوجی میں پی یہ ڈی کے ہوئے ہیں-کل آئی ہیں-بس ڈیزرٹ دیکھنے کا شوق ہے-اور یہ طارق ہیں-رئیس نے ایک فربہ سے آدمی کی طرف اشارہ کیا-یہ انکم ٹیکس افسر ہیں-یہ مراد علی ہیں-فروٹ بزنس سے وابستہ ہیں-اور دوستو!یہ انور کاظمی ہے-میرا یار !اور آپ کی پرخار سیاست کا ایک بھولا بسرا کردار-صوت فاطمه یہ سن کر چونکی-اور کہنے لگیں -اوہ !آپ ہیں وہ -رئیس نے مجھے امریکہ میں تمہاری بہت سی باتیں باتیں تھی-میں آپ سے ملنے کی مشتاق تھی-

انور نے بس شکریہ کہنے پر اکتفا کیا-وہاں جو بھی باتیں ہوتی رہیں-اس میں وہ ہوں ،ہاں سے زیادہ اضافہ نہیں کر سکا-پھر اتنے میں ملازم نے آ کر کہا کہ سامان گاڑیوں میں رکھوایا جا چکا ہے-دو گاڑیوں میں سے ایک میں بس صوت فاطمه اور انور تھے-جب کہ دوسری گاڑی میں رئیس اور اس کے دونوں دوست بیٹھ چکے تھے-گری جب پورج سے کھلے صحن کی طرف آئی تو اس نے دیکھا کہ اسسمن سیاہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا-ہلکی ہلکی پھوار پر رہی تھی-گاڑی شہر کی مختلف سڑکوں سے ہوتی ہوئی -کینٹ میں داخل ہو گئی-اور پھر ڈیزرٹ والے رستے کی طرف چل پڑی-فاطمه بولی ! یہ سڑک متحدہ عرب امارات کے خلیفہ نے بنوائی تھی--رستے میں اس کا محال بھی آیا تھا-خلیفہ اور اس کے دیگر لوگ اس علاقے میں آرام کرنے آتے تھے-اور پھر کئی کہانیاں سینہ بسینہ بھی چلی آتی تھیں-فاطمه اس کو کہنے لگی کہ کیسے غربت اور مجبوریاں ان عیاش بادشاہوں کو ان داتا اور غریب پرور ہونے کا خطاب دلا جاتی ہیں-انور فاطمه کے منہ سے یہ الفاظ سنکر چونکا تھا-اور اس نے فاطمه کے چہرے کی طرف دیکھا تھا-جو شدت جذبات سے سرخ نظر آتا تھا-وہ اپنے غصہ کو دبانے کی کوشش کر رہی تھی-

انور نے اس سے پوچھا کہ وہ کیوں اس سے ملنا چاہتی تھی-تو فاطمہ کہنے لگی کہ وہ جب امریکہ پڑھنے گئی تو وہاں ایک فلسطینی لڑکی اس کی دوست بن گئی تھی-جو کہ سوشلسٹ تھی-وہ اس سے پہلے سیاست کو بلکل پسند نہیں کرتی تھی-یہ لیلیٰ احمد تھی جس نے اس کو اس رستہ پر ڈالا تھا-اس نے امریکی معاشرے میں پائے جانے والے طبقاتی اور نسلی تضاد سے اس کو روشناس کرایا تھا-اس نے نیو یارک کی تنگ و تاریک گلیوں میں اور کسی متروک سب وے یا متروک گٹر لائن میں زندگی کو جبر مسلسل کی طرح کاٹتے کالوں کو دیکھا تھا-اور پھر امریکی سرمایہ کی چکا چوند میں زندگی بسر کرتے راک فیلروں کو بھی-تو اس کو احساس ہوا تھا کہ کیسے یہ فرق تو ہر جگہ موجود تھا-چند لوگوں کے پاس سب کچھ تھا-اور اکثریت کے پاس کچھ نہ ہونے کے برابر-اور وہ اس پر بھی لڑ رہے تھے-بس یہیں سے میری کیا کلپ ہوگی-میں نے چند کو چھوڑا اور اکثریت کے ساتھ ہو گئی-میں سٹیٹس میں سوشلسٹ ورکرز پارٹی کے ساتھ ہوں-لوگ ہمیں دیوانہ اور نہ جانے کیا کچھ کہتے ہیں -لکین ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہے-رئیس وہاں آیا تھا -تو اس نے دیکھا کہ میرا فلیٹ تو کمیون بنا ہوا ہے-تو اس نے میری باتیں سنی تو کہنے لگا کہ تم بھی مجھ کو دوسری انور کاظمی لگتی ہو -میں نے اس سے تمہارے بارے میں پوچھا تو اس نے جو بتایا -وہ تو ہم سے بہت قریب تھا-یہ کہ کر صوت فیتمہ خاموش ہو گئی-

اتنے میں گاڑی ڈیزرٹ میں داخل ہو گئی-رئیس وغیرہ بھی اتر آئی تھے-موسم بہت سہانا تھا-شام کا اندھیرا ابھی پھیلنے لگا تھا -رئیس کے دو ملزموں نے گاڑی سے سامان نکالا -اور پھر انھوں نے تھوڑی دائر میں دو خامے نسب کر ڈالے -اس کے دوست رات کو گاڑی میں لگی سرچ لائٹ کی مدد سے شکار کھیلنا چاہتے تھے-صوت فاطمه نے کہا کہ اس کو شکار سے کوئی دلچسپی نہیں ہے-انور کو بھی نہیں تھی-رئیس ہنس کر بولا کہ آپ ذرا دماغ سوزی کرو -ہم شکار سوزی کرتے ہیں-دور دور تک صحرا کی ریت پہلی ہوئی تھی-صوت فاطمه ڈارک مالٹائی کلر میں صحرا میں کھڑا کوئی صحرائی درخت لگ رہی تھی-وہ دونوں ریت کے ٹیلوں کے درمیان چلنے لگے -اور پھر ایک ٹیلے پر جو نسبتاً اونچائی پر تھا جا کر صوت فتیمنہ بیٹھ گئی-وہ دور کہیں دیکھ رہی تھی-انور نے اس کو واپس لانے کے لئے ہلایا-وہ چونک گئی-

کیا سوچ رہی تھیں ؟انور بولا

میں سوچ رہی تھی کہ یہ صحرا کس قدر خاموشی کے ساتھ چند اجنبی لوگوں کی آمد کو برداشت کے ہوئے ہے-جبکہ انسانوں کے ہاں یہ دستور نہیں ہے-وہاں تو ہجرتوں کے سلسلے بھی اب و دانہ کی تلاش میں ہوتے ہیں-یا قبضہ گیری لوگوں کو گھر سے بےگھر کر دیتی ہے-ہم تو مہاجر کونجوں کو بھی صحیح سلامت واپس وطن جانے نہیں دیتے -

انور بولا ٹھیک کہتی ہو -فاطمه انسانوں کے ہاں جب سے تقسیم شروع ہوئی تب سے کسی ہجرت کو خوش آمدید کہنے کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا-اب ہجرتیں مرضی سے نہیں بلکہ جبری طور پر ہوتی ہیں-مرضی سے تو بس سرمایہ حرکت کرتا ہے-اس کا جہاں دل کرتا ہے چلا جاتا ہے-منڈی کی دنیا میں آزادی بس اسی چیز کا نام ہے-

انور اور فاطمه نے اس رات بہت سے باتیں کی تھیں-صبیح کب ہوئی-کب وہ واپس آئی اور کب وہ جرمنی اور امریکہ میں اپنی اپنی منزلوں کو روانہ ہوئے -ان کو یاد نہیں تھا-ایک جست میں لگتا تھا یہ سارا سفر ہوگیا تھا-لکین دونوں کو لگتا تھا کہ وہ اپنا کچھ بلکہ بہت کچھ وہیں صحرا میں چھوڑ آئی تھے-یہ بہت کچھ کیا تھا ؟دونوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا-

نیو یارک میں بروک لیں کی ایک گلی میں ایک سٹریٹ میں صوت فاطمه کے فلیٹ پر وال سٹریٹ پر قبضہ کرلو تحریک کے تحت کل کے جلوس کی تیاری ہو رہی تھی-سٹرٹیجی کی بات تھی-فاطمه نے کچھ تجویزیں دین اور پھر چھپ ہو گئی-بیٹھے بیٹھے وہ اسی ڈیزرٹ میں پہنچ گئی-انور کو وہاں دیکھنے لگی-

ادھر انور ارجنٹائن میں بیونس آئرس میں ایک کیفے میں بیٹھا تھا-وہ یہاں اپنے محبوب رائیٹر پاؤلو کوہلو کے ایک پرگرام میں شریک ہونے کے بعد اس کے ساتھ کافی پینے چلا آیا تھا-کوہلو اس کو اپنی محبوبہ کی کہانی سنا رہا تھا -کہ کیسے وہ اس کو اس سفر میں ملی تھی جو اس نے نروان پانے کے لئے کیا تھا-وہ دیوار گریہ کے قرین یروشلم میں ملے تھے-وہاں اسرائیلی تاریخ سے لیکر صہونیت تک کی تاریخ کا سفر انھوں نے اکٹھا کیا تھا-بس اسی سفر کے دوران ان کو ایک دوسرے سے محبت ہو گئی تھی-اور وہ ایک ہو گئے تھے-

یہ سن کر انور نے وہیں بیٹھے بیٹھے صوت فاطمه کا نمبر ڈائل کرنے کے لئے موبیل نکالا تو اس پر پہلے ہی سکرین پر صوت فاطمه کا نمبر چمک رہا تھا-اس نے یس کا بٹن پش کر کے ہیلو کہا تو آگے سے فاطمه بولی -

"انور تم تھے کہتے تھے کہ سب کی کہانی ایک ہے-میں جرمنی آنا چاہتی ہوں-"

انور یہ سنکر بولا میں بھی تمھیں یہی کہنا چاہتا تھا-نہ تم جرمنی آؤ ،نہ میں امریکہ -ہم دونو پھر اسی ڈیزرٹ میں اکٹھے ہوں گے -اور اس مرتبہ ہجرت جبری نہیں بلکہ مرضی کے ساتھ ہوگی-

Thursday 27 October 2011

بابا غنی (افسانہ ) عامر حسینی

غنی احمد چک ٣٤ ٹن آر کا رہنے والا تھا-اس کو سب بابا غنی کہتے تھے-وہ فوج میں سپاہی بھرتی ہوا تھا-ایک دن اس کو فوج سے یہ کہ کر ریٹائر کر دیا گیا کہ وہ اب فوج میں خدمات سر انجام نہیں دے سکتا-حالانکہ اس کی عمر بھی زیادہ نہیں تھی-وہ محض ٣٥ سال کا تھا-
سپاہی کی پوسٹ سے ریٹائر ہونے والوں کو افسروں کی طرح نہ تو رقبہ ملتا ہے-نہ ہی کوئی پیسہ بنانے کا موقعہ -وہ تو بس ریٹائر ہونے کے بعد یا تو کہیں دکان ڈال سکتے ہیں -یا پھر سیکورٹی گارڈ کے طور پر بھرتی ہوسکتے ہیں-غنی احمد نے بھی اپنے چک واپس آ کر سبزی کی دکان کرنا شروع کردی تھی-
گھر میں اس کی بیوی ،اور ایک بیٹا تھا جو ابھی سات سال کا تھا-وہ صبیح سویرے اٹھتا -فجر کی نماز پڑھ کر وہ چک کی سولنگ پار کرتا ہوا اس سڑک کے کنارے آ جاتا جہاں سے وہ اس رکشے میں بیٹھ جاتا جو شہر سبزی منڈی کی طرف جا رہا ہوتا تھا-اس میں اور بھی لوگ ہوتے جو سبزی منڈی کی طرف جا رہے ہوتے تھے-منڈی سے وہ سودا خرید کرتا اور واپس چک آ جاتا-
وہ ٣٥ سال کا تھا لکین سب اس کو بابا غنی کہتے تھے-وجہ یہ تھی کہ وہ دیکھنے میں ٦٠ سال کا لگتا تھا-اس کے سر کے سارے بال سفید ہو گئے تھے-جن کو اس نے لال مہندی کے خضاب سے رنگا ہوا تھا-اس کی مونچھوں کے بال بھی سفید ہو گئے تھے -ان کو بھی مہندی کے کذاب سے رنگے رہتا تھا-اس کے چہرے اور ہاتھوں کی جلد بھی مرجھا چکی تھی-وہ اسی لئے کسی کے اس کو بابا غنی کہ کر بلانے پر برا نہیں مناتا تھا-
وہ ایسا نہیں تھا-وہ تو اپنے گاؤں کا سب سے کڑیل جوان تھا-اس کی چھاتی بہت چوڑی تھی-قد اس کا ٦ فٹ سے بھی زیادہ تھا-اس کے کندھے چوڑے تھے-رنگ خوب گورا تھا-اس کے بازو کی مچھلیاں اس کی قمیض کو پھاڑ کر باہر آنے کو لگتی محسوس ہوتی تھیں-وہ چلتا تو اس کے چلنے سے زمین میں جو دھمک پیدا ہوتی -تو لوگ سمجھ جاتے غنی جا رہا ہے-وہ چک کے کئی جوانوں میں کھڑا دور سے نظر آ جاتا تھا-آج تک کوئی کبڈی میں اس کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکا تھا-اور اس کی پکڑ میں جو آ جاتا وہ پھر بھاگ نہیں پاتا تھا-
اس کی کڑیل جوانی ہی اس کو فوج میں لیجانے کا سبب بن گئی تھی-اسے یاد تھا کہ کیسے اس کے گاؤں میں فوج کی بھرتی والی موبایل وین ائی تھی-اور اس میں موجود ایک حوالدار نے اس کے قد کاٹھ کو دیکھ کر اس کو فوج میں بھرتی ہونے کو کہا تھا-فوج میں جانے کا اس کو بھی بہت شوق تھا-بچپن سے وہ بھی فوج کے شیر جوانوں کے قصے سنتا آیا تھا-گاؤں کے بوڑھے اس کو جب ٦٥ کی جنگ کے قصہ سناتے تھے تو اس کے من میں بھی محاز پر جا کر کافروں سے لڑنے کی خواہش طوفان بن کر مچلنے لگتی تھی-وہ فوج میں بھرتی ہو گیا-وہ پنجاب رجمنٹ کا حصہ بنا -اس کی پہلی پوسٹنگ فورٹ عباس کے نزدیک سرحد پر ہوئی تھی-وہ جن جذبوں کو لی کر فوج میں گیا تھا -اس پہلی پوسٹنگ پر ہی اس کو اپنے جذبے ماند پڑتے نظر آئے -جب اس نے اپنی یونٹ کے میجر صاحب کو سرحد پار سے شراب کی سمگلنگ کرنے والوں سے رشوت وصول کرتے اور ان کے ساتھ شراب و شباب کی محفلیں سجاتے دیکھا-اس کی یونٹ کے لوگ ملک میں مارشل لاء لگ جانے پر ایک کرنل صاحب کے ساتھ واپڈا میں مانٹرنگ ٹیم کے طور پر بھی کام کرنے گئے تھے-اس دوران اس نے اپنے کرنل کو رشوت لیتے اور ٹھیکے پاس کرنے کی قیمت وصول کرتے بھی دیکھا تھا-
ایک مرتبہ وہ جب کشمیر میں چکوٹھی سیکٹر میں تھا تو وہاں ایک استاد سے اس کی دوستی ہو گئی-اس نے ٦٥ کی جنگ بارے اس کو بتایا تھا کہ یہ جنگ جیتی نہیں بلکہ ہاری گئی تھی تو اس کو پہلے یقین نہ آیا -لکین جب اس کو ایک ریٹائر برگیڈئر جو کے استاد کا دوست تھا نے بتایا تو بڑا حیران ہوا تھا کہ کیسے اس کے ملک میں تاریخ کچھ کی کچھ بنا دی جاتی تھی-
اس نے دوران نوکری فوج میں طبقاتی تقسیم کو بھی بہت نزدیک سے دیکھ لیا تھا-افسروں کے میس سے لیکر گھر تک الگ تھے-اور ان کو سب کچھ ملتا تھا-اور وہ صرف ملٹری ڈیوٹی ہی نہیں کرتے تھے-بلکہ افسروں کی بیویوں اور بچوں کی چاکری کرتے تھے-اس نے اسی دوران سوچ لیا تھا کہ وہ اپنے بچے کو لکھا پڑھا کر افسر بنائے گا-
وہ ریٹائر ہونے کے بعد سخت محنت کر رہا تھا-لکین اس کے اندر لگتا تھا کہ ٹیزیسے کوئی شے کم ہو رہی تھی-وہ اپنی زندگی کو بہت بچا کر خرچ کر رہا تھا-لکین لگتا تھا کہ وہ بہت تھوڑی ہے جو بچانے کے بعد بھی ختم ہوتی جاتی ہے-کچھ دنوں سے اس کا بایاں بازو بہت درد کرنے لگا تھا-کبھی کبھی کندھوں میں پیچھے کی طرف زبردست دباؤ محسوس ہوتا تھا-بازو سن ہو جاتا تھا-اس نے درد کی گولیوں کا پتہ خرید کیا اور صبیح شام دو گولیاں کھانی شروع کر دیں-درد کم نہ ہوا -تو ایک دن شہر ڈاکٹر کے پاس چلا گے-اس نے کوئی چار پانچ ٹسٹ لکھ کر دے دئے اور بازار کی دوائیاں بھی-اس نے سب کو پھاڑ کر پھینک دین-گھر واپس آیا تو بیوی نے پوچھا کہ ڈاکٹر نے کیا کہا؟تو کہنے لگا "الله کی بندی ڈاکٹر کہتا ہے کہ تو چنگا بھلا ہے-معمولی سا درد ہے-ٹھیک ہو جائے گا-"یہ سن کر اس کی بیوی کہنے لگی کہ اتنے دنوں سے گولی کھا رہے ہو تو ٹھیک کیوں نا ہوا/صغرا !مجھے کچھ نہیں ہوا-اب تو درد بھی کم ہے-اس نے جھوٹ بولا-لا مجھے روٹی دے-اس کی بیوی نے اس کو کھانا دیا -اس نے کھانا کھایا -اور پھر جا کر وہ چارپائی پر لیٹ گیا-
چارپائی پر لیتے لیتے اس کو خیال آیا کہ اس کی جوانی کو شائد گھن نہ لگتا اگر وہ سیاچن نہ جاتا-وہ کشمیر کے محاذ پر تھا جب اس کو کئی اور یونٹوں سے چنے فوجیوں کے ساتھ سیاچن جانے کا حکم ملا-وہ اور اس کے ساتھ لام ہیلی کاپٹر کے ذریے سیاچن بنی ایک چاک پوسٹ پہنچا دئے گئے-ہر طرف برف ہی برف تھی-وہ ہر طرح سے بند لباس میں ہونے کے باوجود بھی سردی کو اپنی ہڈیوں میں گھستا محسوس کرتے تھے-برفپوش پہاڑ نا جانے اسے کیوں لگتا تھا کہ ان کی آمد سے ناراض تھے-اس کو یہ گھورتے ہوئے اور ناراض ناراض سے نظر آتے تھے-اس کو لگتا کہ پہاڑوں کے درمیان ہر طرف بارود کی بو اور خون کی سرانڈ پھیلی ہوئی ہے-بعض اوقات بدبو سے اس کا سر پھٹنے لگتا تھا-اور وہ الٹیاں کرنے لگتا-اس کو اپنی جوانی جمتی ہوئی لگتی تھی-سیاچن میں آئے اس کو تیسرا سال تھا -جب اس کو چکر آنے لگے-سانس پھولنے لگا-اور اس کے سر اور مونچھوں کے بال یک دم سفید ہونے لگے-پھر اس کو سان چڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنی ٹانگوں اور ہاتھوں کی جان نکلتی ہوئی محسوس ہونے لگی-ایک روز وہ بیہوش ہو کر گر پڑا-ہوش میں آیا تو وہ ملترے کے عارضی ہسپتال میں تھا-جہاں پر اس کا تفصیلی طبی معائنہ کرنے کے بعد اس کو سیاچن کے لئے ان فٹ قرار دے دیا گیا-وہ اپنی یونٹ میں واپس آ گیا-وہاں اس کو پھر طبی معائنہ کرانا پڑا -اس چیک اپ کے بعد اس کو فوج سے مکمل طور پر ریٹائر کر دیا گیا-جب وہ واپس اپنے چک آیا -تو جیسے ہی وہ بڑی سڑک سے اپنی چک کو جاتی سولنگ پر چڑھا تو راستے میں کئی اس کے چک والوں نے اس کو نہ پہچانا -اس کے بچپن کا دوست چھیما جب اجنبیوں کی طرح اس کے قریب سے گزرنے لگا تو اس نے بختیار اس کو آواز دے ڈالی-وہ اوز سن کر پلتا اور قریب آ کر جب غور سے اس کو دیکھنے لگا -اور اچانک چیخ کر بولا اوے یہ توں اے غنی -اور وہ بھی بہت حیران تھا اور دکھی بھی تھا -اس کو اس حال میں دیکھ کر-اس نے چھیمے کو بتایا تھا کہ ووہی نہیں سیاچن جانے والے اکثر سپاہی اسی عذاب میں گرفتار ہو جاتے تھے-گھر آیا تو اس کی بیوی کافی دیر سکتے میں کھڑی رہی-اس کو یقین نہیں آتا تھا کہ یہ اس ا مجازی خدا ہے-جس کی جوانی پر سارا چک رشک کرتا تھا-وہ جب چک میں لوگوں کو ملنا شروع ہوا تو اکثر اس کی عمر سے بڑے لوگوں نے اس کو بابا غنی کہ کر بلانا شروع کر ڈالا -تو وہ سارے چک کا بابا غنی بن گیا-یہ سب سوچتے ہوئے جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی-اور وہ سو گیا -صبیح سویرے وہ اٹھا -وضو کر کے مسجد کی طرف چل دیا-اس کے بازو میں سخت درد تھا-اس نے بیوی کو بتانا مناسب نہ سمجھا کہ وہ پریشن ہوگی-مسجد میں جماعت کھڑی ہوچکی تھی -ایک رکعت گزر چکی تھی-اس نے امام کے پیچھے نیت باندھی اور کھڑا ہو گیا-اس کو کھڑا ہونے میں اور بازوں پیٹ کے گرد باندھنے میں سخت تکلیف ہو رہی تھی-اس نے بڑی مشکل سے نماز ادا کی-اور جب وہ باہر آیا تو ابھی دو تین قدم چلا ہوگا کہ اس کو محسوس ہوا کے کمر میں کندھوں کے درمیان کا درد اب آگے سینے کو توڑ کر باہر کو نکلنے کی کوشش کر رہا ہے-اس نے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی -لکین تیز چکر آیا -اور سینے میں ایک شدید لہر درد کی اٹھی اور اس کی آنکھوں میں اندھیرا آیا -اور وہ دھڑام سے نیچے گرتا چلا گیا-مسجد سے نماز پڑھ کر نکلنے والوں نے اس کو گرتے دیکھا تو اس کو سنبھالنے کے لئے آگے بڑھے -مگر وہ گر چکا تھا-پاس جا کر نبض چیک کی وہاں تو کوئی جنبش نہیں تھی-پاس ایک گھر سے چارپائی پر اس کو ڈالا -اور اس کے گھر کی طرف لیکر چل پڑے-
صغراں ابھی بس نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تھی کہ دروازہ پر دستک ہوئی-وہ دروازہ پر گئی-پوچھا کون ہے/
دروازے کے پیچھے سے آواز ائی -صغراں پتر دروازہ کھول میں ماسی بشیراں ہوں-صغراں نے دروازہ کھول دیا-ماسی بشیراں اندر داخل ہوئی اور آتے ہی سینے پر دوہتر مار کر کہنے لگی-صغراں توں اجڑ گئی-تیرا سہاگ نہیں رہا-اتنے میں کچ مرد ایک چارپائی اٹھائے اندر آ گئے-اس پر غنی احمد لیتا ہوا تھا-چک کی اور عورتیں بھی صحن میں آ گئیں تھیں-کسی نے اس کے بیٹے کو جگایا اور کہا پتر تیرا پیو نہیں رہا-فوت ہونا کیا ہوتا ہے-یہ اس معصوم کو سمجھ میں نہیں آیا-اس کے باپ کا سوئم ہو گیا تو اس کی ماں نے اس سے کہا کہ پتر ہن تو سکول نہی جانا-دوکان کھولنی ہے-ماسی بشیراں کے پتر کے ساتھ توں سبزی منڈی جایا کر-اگلی صبیح وہ مونہ اندھیرے اٹھا اور چک سے سولنگ والے رستے پر چل پڑا -وہ چلتا ہوا سوچتا جاتا تھا کہ جن کے ابا نہیں ہوتے -وہ سکول نہیں جاتے-اور کیا اسی کو فوت ہونا کہتے ہیں-پیچھے گھر میں اس کی ماں کی سسکیاں ابھر رہی تھیں-وہ غنی کی تصویر کے سامنے کھڑی ہو کر کہ رہی تھی کہ زیشان کے پو مینوں معاف کریں میں تیرے پتر نوں افسر نہ بنا سکی -

Tuesday 18 October 2011

نوٹ بک اور خوں کے دھبوں والی قمیض

نوٹ بک اور خوں کے دھبوں والی قمیض


افسانہ /عامرحسینی


رات کے دو بج چکے تھے-جین مندر کا علاقہ سنسان پڑا تھا -دور دور تک کسی زی روح کا نشان نظر نہیں آتا تھا-خاموشی کا راج تھا-ہاں کبھی کبھی دور کہیں سے کسی کتے کے بھونکنے کی آواز سناٹے کو چیر دیتی تھی-اتنے میں ایک بند باڈی کی ویگن پرانی انار کلی کی طرف سے آ کر وہاں رکی -اس میں سے نصف درجن لوگ اترے-وہ سب سادہ لباس میں ملبوس تھے-اور وہ ایک گلی میں گھستے چلے گئے-ایک گھر کے سامنے جا کر کھڑے ہو گئے-ان میں سے ایک آدمی نے دروازہ زور سے بجایا-کچھ دیر بعد ایک کمزور سے آواز دروازے سے آئی-کون ہے؟تو دروازہ بجانے والے نے کہا -دروازہ کھولو-پولیس والے ہیں-تلاشی لینا ہے-دروازہ کھل گیا-دروازے کے سامنے ایک بوڑھی عورت کھڑی تھی-جس کے ہاتھ کمزوری سے کپکپاتے تھے-اور چہرے پر پر جھریاں گزرے ماہ و سال میں کاٹی جانے والی زندگی کی مشکلات کی کہانی سناتی تھیں-وہ آنے والوں سے شائد کچھ پوچھنا چاہتی تھی-اور اس کے لئے ابھی اپنے لب کھول ہی رہی تھی کہ ان میں سے ایک آدمی نے اپنے ہاتھوں سے اس کو دھکا دیا -اور مکان میں داخل ہو گئے -سامنے سیڑھیاں تھیں -ان پر چڑھتے چلے گئے-پہلی منزل پر سامنے ایک کمرے کے بند دروازوں سے ہلکی ہلکی روشنی باہر آتی دیک کر وہ سیدھے اس کمرے کی طرف گئے-دروازے کو دھکا مارا تو وہ چوپٹ کھل گیا-دروازے کے سامنے دوسری سمت میں ایک کرسی پر ایک نوجوان سامنے رکھی میز پر ایک نوٹ بک میں کچھ لکھ رہا تھا-دبلا پتلا سا یہ نوجوان تھا-اس کی شیو بڑھی ہوئی تھی-اس کی محویت ٹوٹ چکی تھی-وہ حیرت سے آنے والوں کو دیکھ رہا تھا-آنے والوں میں ایک جو ان کا افسر معلوم ہوتا تھا بڑھ کر وہ نوٹ بک اٹھا لی-کیا لکھ رہے تھے؟وہ افسر بولا -نوجوان نے سر اٹھا کر افسر کو دیکھا-اس کی آنکھیں لال سرخ تھیں-شائد کئی رت جگوں کا اثر تھا-بال بکھرے ہوئے تھے-لباس شکن آلود تھا-اس کے چہرے کو دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ کوئی سپنا دیکھ رہا تھا اور اسے اچنک اس سپنے سے جگا دیا گیا تھا-سفید پوش افسر کو کچھ دیر غور سے دیکھنے کے بعد اس نے کہا کہ میں جو لکھ رہا تھا -وہ اس نوٹ بک میں موجود ہے-جو اس وقت تم نے پکڑی ہوئی ہے-تم دیکھ سکتے ہو--افسر اس کی بات سن کر مسکرایا -اور طنزیہ انداز میں کہنے لگا -اوہو -ادائے دلبری بھی ہے-اور پھر نوٹ بک کا وہ صفحہ کھولا جس پر نوجوان کچھ لکھ رہا تھا -اور اس کو اونچی آواز میں پڑھنے لگا -


بارش میں بھیگتی نظم


سنو !


اے جن بہار


آجاؤ


یہ مست و الست بادل


یہ اٹھکھیلیاں کرتی ہوا


یہ برستی بارش کی بوندیں


سب تمھیں بلاتی ہیں


..........................


...........................


(١٤ اکتوبر ٢٠٠٧ )


واہ بھئی واہ !افسر بولا -تم تو رومانوی شاعری بھی کر لیتے ہو-ہم تو سمجھے تھے کہ بس آتنک واد کی کہانی اور بلوچ سرمچاروں کے نام جیسی کہانیاں ہی لکھتے ہو-اس نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا-وہ اس کے اشارے پر پورے کمرے کی تلاشی لینے لگے-اس کی میز پر دھری چند خستہ جلد والی کتابیں انھوں نے ایک تھیلے میں ڈال لیں -اس کے سی پی یو کو اپنے قبضے میں کر لیا-ساتھ ایک چارپائی کے نیچے صندوق کو کھنچ کر نکالا اور اس کے زنگ لگے کنڈے کو ایک جھٹکے سے توڑ ڈالا-اس میں چند پرانے سے کاغز نکلے ان کو ہی تھیلے میں ڈال لیا-


نوجوان خاموشی سے کھڑا یہ ساری کاروائی دیکھ رہا تھا-تلاشی کا عمل مکمل ہوا تو افسر اس نوجوان سے بولا -تمہارا نام سرمد بلوچ ہے-تم بلوچستان کے اکلاقہ کوہلو کے ایک گاؤں کے رہنے والے ہو-٢٠٠٠ میں تم بلوچستان کے کوٹے میں لاہور ایف سی کالج میں ڈاکہ ہوئے تھے-٢٠٠٤ میں تم وہاں سے اس بنا پر نکال دے گئے کہ تم پر الزام تھا کہ تم بلوچ طلبہ کو بغاوت پر اکسا رہے تھے-اس کے بعد بھی تم نے لاہور نہ چھوڑا-چوٹی موتی نوکریاں کرتے رہے-تم گھر سے بے گھر تھے-اچانک تم اس جین مندر والے مکان میں رہنے لگے -تمہاری ماں بھی تمہارے پاس آ کر رہنے لگی-یہ مکان تمہارے پاس کہاں سے آیا -اور ایک سال سے تم کچھ بھی نہیں کرتے تو گزارہ کہاں سے کرتے ہو؟


نوجوان یہ سب سن کر طنزیہ انداز میں افسر کی طرف دیکھنے لگا -اور پھر کہنے لگا -


"میں آپ سے یہ نہیں پوچھوں گا کہ آپ کا تعلق کس ادارہ سے ہے-اور اس ادرہ میں آپ کا مقام کیا ہے؟کیا میرے گھر کی تلاشی کا کوئی اجازت نامہ بھی ہے آپ کے پاس ؟کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ غلام قوم کے غلام فرد کے پاس یہ سارے سوال پوچھنے کا حق نہیں ہوتا-اور اگر پھر بھی میں نے کوئی سوال پوچھا تو آپ کا جواب مجھے معلوم ہے-"


زیادہ فلسفہ مت بگھارو -جو پوچھا ہے اس کا جواب دو -افسر ترشی سے بولا -


نوجوان کہنے لگا -میں کافی دن سے لاہور کی سڑکوں کے ساتھ بنی گرین بیلٹ پر سو کر راتیں گزار رہا تھا-اکثر پرانی انار کلی میں بنی فوڈ سٹریٹ میں رحیم ٹی سٹال پر جا کر رات گئے تک بیٹھا رہتا تھا-ایک رات وہاں بیٹھا تھا تو میرا ایف سی کالج کا دوست انور بٹ وہاں آیا اور میرے ساتھ بیٹھ گیا -وہ ان دنوں کوئی ٹریول ایجنسی چلا رہا تھا-وہ پہلے جین مندر میں ہی رہا کرتا تھا-اب اس نے بتایا کہ وہ ڈیفینس میں شفٹ ہو گیا ہے-باتوں باتوں میں نجانے اس نے کیسے اندازہ کر لیا کہ میں کسی ٹھکانے سے محروم ہوں-اچانک میرا ہاتھ پکڑا اور جین مندر والی سڑک کی طرف ہو لیا -گھر کے سامنے جا کر وہ رک گیا -گہرا کا تالہ کھولا -اور سیڑھیاں چڑھ کر اس کمرے میں آ گیا جس میں آپ آئے ہو-مجھے یہاں بیٹھا کر کہنے لگا -سرمد!تم جانتے ہو کہ میں نے تمھیں بتایا تھا کہ میرے ابا تمہاری کہانیوں اور نظموں کے فین ہیں-اور تم سے ملنے کے خواہش مند بھی-پھر تم میرے گھر آئے تھے-اس دن ابا تمہارے گلے لگ کر کچھ جذباتی ہو گئے تھے-

ہاں مجھے یاد ہے-سرمد بولا -میں حیران بھی ہوا تھا-

مجھے بھی حیرانی ہوئی تھی-انور بولا تھا -میں نے تمہارے جانے کے بعد ابا سے پوچھا تھا -تو انھوں نے کہا تھا کہ بیٹا تمہارے دادا قربان الی بھی اسے ہی ہوا کرتے تھے-وہ گھر تو کم ہی رہتے تھے-اکثر دوسرے تیسرے مہنے پولیس والے گھر آتے اور ان کی کسی کہانی یا نظم کی پاداش میں ان کو گرفتار کر کے لیجاتے تھے-ان کی پسندیدہ کتابوں کو قبضے میں کر لیتے دادا ہنسی خوشی ان کے ساتھ جاتے اور کہتے بس آدھی ریل میں اور آدھی جیل میں کٹ جانی ہے-میرے ابا نے دادا کا رستہ نہ اپنایا اور وہ عبری مندی میں کاروبار کرنے لگے-میں بھی دو جمع دو کا راہی ہوں-ابا اور اماں کی موت کے بعد میں ڈیفنس میں اپنی نئی کوٹھی میں شفٹ ہوگیا-اس مکان کو نہ تو میں پیچنا چاہتا ہوں نہ ہی کرائے پر چڑھانا -تم یہاں رہو -مجھے یقین ہے کہ ابا اور دادا کی روحیں اس سے خوش ہوں گی-تو میں اس وقت سے اس مکان میں رہ رہا ہوں-بوڑھی ماں کو بھی یہاں لے آیا -

زہین اور فطین لگتے ہو-کیوں خود کو خراب کر رہے ہو-افسر بولا -کیا تکلیف ہے-کیوں دوسرے نوجوانوں کی طرح کوئی نوکری تلاش نہیں کر لیتے-یہ ریاست کے خلاف یدہ جیسی نظمیں کیوں لکھتے ہو -

نوجوان یہ سن کر بولا "صاحب!آپ نے شاید کوہلو میں میرا گاؤں نہیں دیکھا -بڑی سڑک سے تیس کلو میٹر یا تو گدھے پر سواری کرو اگر پیسے جیب میں ہوں تو ،یا پھر پیدل چلو-اس گاؤں میں پینے کا پانی بارش ہونے پر مھنسر ہے-ایک جوہڑ ہے-جہاں جانور اور انسان اکھٹے پانی پیتے ہیں-ہم بلوچوں کو مہینوں نہ نہانے کا طعنہ دینے والوں کو یہ سب نظر نہیں آتا-وہاں پیدا ہونے والے بچے کی ماں سے جڑی ناڑ کو گھاس پھوس کی بنی جھونپڑی میں پتھر پر پتھر سے اس لئے کاٹنا پڑتا ہے کہ وہاں کوئی میٹرنٹی ہوم نہیں ہے-وہاں سے نکلنے والی گیس اور کوئلہ کبھی وہاں کے چولہے نہیں جلاتے -نہیں ہی سردیوں میں گرمی دے پتے ہیں-آپ کو معلوم ہے -میں اور میری ماں اس دور ترقی میں بھی ٧٢ گھنٹوں کا سفر طے کر کے لاہور پہنچے تھے-میری ماں خشک انگار پہاڑوں میں پلی بڑھی تھی-تبھی زندہ رہی-لاہور اور کوہلو کا یہ فرق ہے جو مجھے آرام سے رہنے نہیں دیتی-

تم گویا اپنے گاؤں تک پکی سڑک نہ ہونے یا میٹرنٹی ہوم کے نہ ہونے کا ذمہ دار ریاست کو ٹھہراتے ہو؟اپنے سردار کو کیوں نہیں کہتے جو اس کا ذمہ دار ہے-بس ریاست سے لڑنے چل نکلے ہو-افسر چیخ کر بولا -

نہیں صاحب میں تو کمزور آدمی ہوں-میں سردار سے یا ریاست سے کیسے لور سکتا ہوں-میں تو اسی لڑائی سے خوفزدہ ہو کر لاہور چلا آیا تھا-وہاں رہتا تو کسی ایک کی طرف سے لڑنا پڑتا -اور مرا جانا یقینی تھا-

بکواس بند کرو-افسر یہ کہ کر جانے کا اشارہ کرنے لگا -وہ اور اس کے ماتحت واپس جانے کے لئے مڑے تھے کہ ان کی نظر ایک الماری پر پڑ گئی-اس نے اپنے ماتحت کو کہا کہ الماری کھول کر دیکھے-ایک ماتحت اس املاری کی طرف بڑھا تو نوجوان نے آگے بڑھ کر اس کو روکنے کی کوشش کی -اس کو دو آدمیوں نے بازؤں میں جکڑ لیا-الماری کھولی گئی تو اس میں ایک ڈبہ تھا -ڈبے کو کھولا تو اس میں ایک قمیض تھی-جس پر خون کے دھبے تھے-جو زرد ہو چکے تھے-افسر نے تیزی سے آگے بڑھ کر قمیض کو پکڑا -اور اس کو نوجوان کی آنکھوں کے سامنے لہرا کر کہنے لگا -یہ کیا ہے؟کسی زخمی ہوئے سرمچار کی نشانی سنبھال کر رکھی ہے کیا؟نوجوان نے اپنے آپ کو ایک مرتبہ پھر خود کو چھڑانے کی کوشش کرنتے ہوئے کہا -صاحب یہ وہ نہیں جو تم سمجھ رہے ہو-

لگتا ہے تم ڈرائنگ روم ٹریٹ منٹ کے بعد ہی کچھ بتاؤ گے-افسر بولا-

لے چلو -اس نے اپنے ماتحتوں سے کہا-

وہ نوجوان کو گھسیٹتے ہوئے لیجانے لگے-سیڑھیاں اترتے ہوئے دیکھا کہ درمیاں کی سیڑھی پر اس کی ماں پڑی تھی-اس کی پیشانی سے خوں بہ رہا تھا-نوجوان نے چیختے ہوئے ماں کی طرف بڑھنے کی کوشش کی -مگر وہ اس کو گھسیٹتے ہوئے لے گئے-
صبح کے وقت ساتھ گھر سے ایک عورت کسی کام سے جب سرمد کے گھر جانے کے لئے مکان میں داخل ہوئی تو اس نے سیڑھیوں پر اس کی ماں کی لاش کو دیکھ کر چیختی ہوئی باہر نکلی -لوگ جمع ہو گئے-علاقے کی پولیس آ گئی-انور بٹ کو بھی بلا لیا گیا-پوسٹمارٹم ہوا اور لاش انور کے حوالے کر دی گئی -انور نے سرمد کی گمشدگی کی رپورٹ لکھا دی-لکین اسے پتہ تھا کہ رات کے اندھیرے میں یوں گم ہو جانے والوں کی خبر مشکل سے ہی ملتی ہے-انور اور محلے والوں نے مل کر سرمد کی ماں کی تجہیز و تدفین کی-
دو سال ہو گئی تھے سرمد کو گم ہوئے -اس کا کچھ پتہ نہیں تھا-پھر وہ دیں آیا -جب ابھی رات کا کچھ اندھیرا باقی تھا-جانی مسیح کرسچن کالونی سے جین مندر والی سڑک پر صفائی کرنے جب وہاں پہنچا تو اس نے کوڑے کے ایک ڈھیر کے پاس کسی کو پڑے دیکھا -پہلے وہ سمجھا کوئی نشئی ہوگا -جو یا تو نشے میں مدہوش ہوگا -یا نشے کی زیادتی سے مر گیا ہوگا -پاس گیا تو اس نے دیکھا کہ کوئی نوجوان تھا -جس کے ہاتھ کی مٹھی میں ایک قمیض دبی ہوئی تھی-اور پاس ہی ایک نوٹ بک اور چند کتابیں پڑی تھیں -نوجوان کا چہرہ اس کے گھنے لمبے بلوں میں چھپ گیا تھا-اس نے بلوں کو ذرا ہٹایا تو چونک پڑا-یہ شکل اسے جانی پہچانی لگی-تھوڑا سے غور کرنے پر جانی کو معلوم ہو گیا کہ یہ تو اپنا باؤ سرمد ہے-اس نے محلے والوں کو اکٹھا کیا-لوگوں نے پھر پولیس کو انفارم کیا-پولیس نے پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد لاش انور کے حوالے کردی-علاقہ کے ایس ایچ او نے انور کو بلایا اور مقتول سرمد کی مٹھی میں بند قمیض ،نوٹ بک اور چند کتابیں اس کے حوالے کر دیں -انور نے وہ چیزیں لا کر اپنے دفتر کی الماری میں رکھ دین-دو ہفتے گزرے تھے کہ اس کے دفتر میں ایک لڑکی اس کو ملنے آئے-وہ اس لڑکی کو دیکھ کر چونک گیا تھا-یہ کرن تھی -جو اکثر سرمد کے ساتھ نذر آیا کرتی تھی-انور حیران تھا کہ اس لڑکی کو اس نے سرمد کے جنازے پر بھی نہیں دیکھا تھا-اب وہ اس کے دفتر آ گئی تھی-سامنے کرسی پر بیٹھنے کے بعد اس نے انور کی طرف دیکھا اور کہنے لگی کہ میں لندن میں تھی-تین سال بعد آئی ہوں-تو مجھے سرمد کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا پتہ چلا ہے-مجھے تھانے والوں نے بتایا ہے کہ سرمد کی کچھ چیزیں انھوں نے آپ کے حوالے کی تھیں -کیا آپ مجھے دے سکتے ہیں-
انور نے اٹھ کر الماری کھولی اور نوٹ بک،چند کتابیں اور وہ قمیض کرن کے حوالے کر دی-انور نے چائے منگوائی-چائے پینے کے دوران انور نے کرن سے پوچھا کہ لوگ بتاتے ہیں کہ سرمد کے ہاتھ میں یہ قمیض دبی ہوئی تھی-اس قمیض کا قصہ اس کی سمجھ میں نہیں آیا -تو کرن نے پوچھا کہ کیا آپ نے سرمد کی نوٹ بک نہیں پڑھی -انور نے نفی میں سر ہلایا-اس پر کرن نے نوٹ بک کھولی اور اس کے صفحے پلٹنے لگی -ایک صفحہ پر اس کی نظریں جم گئیں-اور اس نے اسے انور کے سامنے کر دیا -
"کرن !
آج رات جب میں تم کو گھر لیکر واپس آیا تھا-تو شائد بجلی چلی گئی تھی-میں تم کو
کمرے میں بیٹھا کر نیچے بازار سے کچھ خانے کو لانے کے لئے سیڑھیاں اترنے لگا تو میرا پیر رپٹ گیا-میری کمر،پیشانی ،کہنیاں چھل گئیں تھیں-اور قمیص پر خون کے دھبے پڑ گئی تھے-میں بڑی مشکل سے اوپر آیا تھا-مدھم سی چراغ کی روشنی میں تم نے یہ سب دیکھا میری قمیض اتاری -اور میرے زخم صاف کئے-ان پر کریم ملی-تم سمجھی تھیں کہ شاید میں سو گیا ہوں-تم نے میری خون آلود قمیض اٹھائی-اور اس کو دیکھنا شروع کر دیا-تمہاری اداس آنکھوں میں محبت کے دیپ جل اٹھے تھے-ان کی روشنی مجھے قمیض میں لگے خون کے دھبوں میں جذب ہوتی لگی-تو میں نے اس قمیض کو ہمیشہ کے لئے محفوظ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے-تمہاری اداس آنکھوں میں جلتے محبتوں کے دیپ کی یہ انمول نشانی مجھے اپنی جان سے زیادہ پیاری ہے-
سرمد
انور نے یہ پڑھنے کے بعد نوٹ بک کرن کے حوالے کر دی -وہ انور کے دفتر سے ان چیزوں کو گلے لگے باہر نکلتی چلی گئی -

Thursday 13 October 2011

عشق ناتمام (افسنانہ )

عشق ناتمام (افسنانہ )
ہوسکتا ہے آپ کو میری یہ کہانی عجیب لگے-اور لگے میں نے کوئی فسانہ ترازی کر ڈالی ہے-حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے-پہلے میں آپ کو اپنے بارے میں بتاتا چلوں کہ میں کون ہوں-جو اچانک یوں آپ سے مخاطب ہو گیا ہوں-میرا نام حسن ناصر ہے-میرا یہ نام کیوں ہے ؟تو اس کی سادہ سی وجہ تو یہ ہے کہ میرے دادا کو معروف کیمونسٹ رہنما حسن ناصر سے بہت پیر تھا -جب میں پیدا ہوا تو انھوں نے میرا نام ان کے نام پر رکھ ڈالا -اب یہ اور بات کہ میری قسمت حسن ناصر جیسی نہیں تھی-کہ سرکار مجھے کسی عقوبت خانے میں رات کی تاریکی میں موت کے گھاٹ اتار دیتی -اور پھر میرا مرنا ایک تنازعہ بنا رہتا-ہاں یہ بات ٹھیک ہے کہ میں نے بھی اس سماج کو بدلنے کا خواب دیکھا-اس ملک کے حکمران طبقات کو خوب برا بھلا بھی کہا -لکین نقار خانے میں طوطی کی آواز نہ کل کوئی سنتا تھا جب یہ کہاوت بنی-اور نہ آج کوئی سنتا ہے جب اس کہاوت کو ہر کس و ناکس اپنی تحریر اور تقریر میں بلا کسی خوف و خطر کے لکھتا اور بولتا چلا آتا ہے-تو میں حسن ناصر نام کو اپنا لینے کے بعد بس یونہی اپنی زندگی گزارتا چلا آ رہا تھا-جوان بھی ہو گیا تو مجھے نہ تو کسی رہ چلتی لڑکی کا چہرہ یاد نہیں رہتا تھا-میں نجانے کن ویچروں میں گم رہتا تھا-آج خیال آتا ہے تو فسوس بھی ہوتا ہے-اور یہ خلش بھی کہ زندگی کا کس قدر حسین دور میں نے بس بے نیازی اور اپنے آپ میں گم ہو کر گزار دیا -اس دور کی کوئی حسین یاد نہیں رکھی-کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ آج اس کام کی یاد دل میں کسک بن کر ابھرتی تو چہرے پر شگوفے پھوٹنے لگتے -اور باسی کڑھی میں چلو ابال ہی آ جاتا-یہ نہیں تھا کہ میں اس زمانے میں صنف نازک کے ساتھ نہیں ملا تھا -مگر حقیقت یہ ہے کہ مل کر بھی نہیں مل پایا تھا-ایک لڑکی میری دوست بنی تھی-اور ہم دونو گویا مرد و زن تھے ہی نہیں-دوست تو تھے-مگر اس کے آگے کچھ نہیں تھا-اس نے میرا نام بدھو رام جی رکھا ہوا تھا-کہتی تھی بدھو اس لئے لگایا ہے کہ تم کرشن نہیں ہوسکتے اور میں سیتا -تو بدھو رام جی ہی ٹھیک ہے-میں ان لوگوں پر ہنس دیتا تھا جو اس کچی سی عمر میں بدن کے اندر ہونے والی کھٹی میٹھی سرگوشیوں کو عشق کا نام دیتے تھے -زندگی کے روپ اس وقت مجھے بہت عجیب و غریب لگا کرتے تھے-میں ایک مرتبہ تھر میں اپنے دوست کے ہاں گیا تو رات کو تھر کے صحرا میں اس نے راگ رنگ کی محفل سجائی تھی-ایک عورت جو تھر کے مخصوص لباس میں تھی-ناک میں ایک بڑا سا کوکا تھا-آنکھوں میں گہرا کاجل -کہنی تک کلائی میں چوڑیاں پہنے پاؤں سے ننگی-تھری رقص کرتی پرسوز آواز میں جدائی والا گیت گا رہی تھی-سارا تھر اس کی سوز بھری آواز میں گم سم اداس اداس لگتا تھا-میں اپنے دوست کو دیکھ کر حیران رہ گیا -جو بہت خوش باش رہنے والا تھا-آنکھوں میں آنسوؤں کی لہر لئے -آہ ،واہ کر رہا تھا-ایک بزرگ دانش وار میرے دوست تھے-ان کو عمر ٨٠ سال ہوگی-وہ اچانک بات کرتے کرتے مجھے کہنے لگے -وہ سب کچھ کرنے کے باوجود،دنیا بھر کے موضوعات پر تحقیق کرنے کے باوجود اپنی جوانی میں گزرے اس پل سے نہیں نکل سکے -جو یونیورسٹی کے ان کے ڈیپارٹمنٹ کے ایک برآمدے میں ان پر گزرا تھا-جب وہ گرفتار محبت ہو گئے تھے -کوئی آنکھیں ہیں جو آج بھی ان کی آنکھوں میں بسی ہیں-بند بوسن کا کمال بخش -جس کی بزرگی کی قسمیں سارا چک کھاتا تھا-جس کا کہا سچ ماں لیا جاتا تھا -ایک دن مجھے کہنے لگا -کہ حسن ناصر !مجھے تو لگتا ہے میں آج بھی اس کھیت میں کھڑا ہوں جہاں میں امرت کور کا انتظار کرتا تھا-وہ بٹوارے کی آگ میں کب کی جل کر رکھ ہوئی -میں وہیں کھڑا ہوں-کیا چمک تھی بابے کمال بخش کی آنکھوں میں-میں ان سارے جذبوں کی تپش محسوس کرتا تھا -لکین یہ تپش کبھی میرے دل اور جگر میں گرمی پیدا نہ کر سکی-میں ان دنوں کراچی کے سہل پر تنہا گھومتا تھا-اور میرے دوست رات کو جب ہاسٹل کے کمرے میں آتے تو ان کے پاس کئی کہانیاں ہوتی تھیں سنانے کو -میرا دوست ریاض مجھے کہتا کہ ظالم !تم کبھی اس آگ کو اندر اتارو تو سہی -تمھیں معلوم ہو کہ دیوانے کیوں اس آگ میں جلنے کی تمنا کرتے ہیں-ایک مرتبہ میں نے جوں ایلیا کا ایک شعر سنا جس کا مطلب تھا کہ اس کی محبت میں خود کو برباد کر لیا ہے -اور ہمیں کوئی ملال بھی نہیں ہے-میں ہنس پڑا تھا کہ کیسی دیوانگی ہے کہ خود کو برباد کرنے کے بعد بھی کسی ملال کے ہونے کی بات کی جا رہی ہے-
زندگی کے ماہ و سال گزرتے چلے گئے -میں کراچی کے سہلیوں سے ہجرت کر کے ماسکو جا پہنچا-میں بہت سرد موسم والے ملک میں آیا تھا -سو اپنے اندر کے سرد وجود کو اور سرد ہوتا محسوس کر رہا تھا -میں نے اس سردی سے بچنے کے لئے واڈکا کی ساری قسموں کی شراب کو اپنے اندر انڈیلنا شروع کر دیا -لکین باہر کی سردی کچھ کم ہوئی ہو تو ہوئی ہو-مگر اندر کی سردی لگتا تھا اور بڑھ گئی-
ایک مرتبہ میں ماسکو کہ ایک بار میں اپنے ایک دوست کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا-میرا یہ دوست پولینڈ سے تعلق رکھتا تھا-یہ پولش کامریڈ سٹیٹ یونیورسٹی آف ماسکو میں شعبہ تاریخ میں استاد تھا-اس نے مجھے راسپوٹیں کا قصہ سنایا-جب وہ یہ قصہ سنا رہا تھا تو ایک مقام پر اس نے کہا کہ دنیا راسپوٹیں کو بہت برا بھلا کہتی ہے-لکین میں کہتا ہوں کہ ہر آدمی کے اندر ایک راسپوٹیں ہوتا ہے-اس کی یہ بات سن کر ایک لمحہء کے لئے میں کھوگیا -میں نے خواہش کی کہ میرے اندر کا راسپوٹیں بھی کبھی جاگے -لکین اس سے پہلے مجھے یہ تو پتہ ہو کہ وہ ہے کہاں؟لکین یہ راسپوٹیں تو نجانے کہاں گم تھا-اس نے کبھی بھی نہیں جاگنا تھا-میں اس وقت ماسکو میں ہی تھا -جب روس سوویت یونین نہ رہا -نوبل بقدر ہوا -لوگ فریز ڈاگ خانے پر مجبور ہو گئے -اور میرا راسپوٹیں تو اس وقت بھی نہ جاگ کر دیا جب ایک کالی بریڈ کے بدلے آپ ماسکو کی کسی حسین دوشیزہ کو اپنے گھر لے آتے تھے-
نتاشا آج مجھے بہت یاد اتی ہے-کیوں؟معلوم نہیں؟وہ میری کلاس فیلو تھی -اور مجھ سے بہت مانوس تھی-کہتی تھی کہ تم مجھے اس لئے پسند ہو کے تمہارے جذبے مجھے بھوکے نہیں لگتے -میں ہنس دیتا تھا -ایک مرتبہ اپنے گرم فلیٹ میں بستر پر لیٹے میرے وجود کی سردی کو دیکھ کر بہت حیران ہو گئی -وہ کیمونسٹ لڑکی تھی-خدا کے وجود سے بیگانہ تھی-اچانک کہنے لگی
شائد خداوند یسوع مسیح نے سرد جذبوں
کا عذاب تمہارے کفارے میں رکھا ہے
میں اس کے مونہ سے نکلے ان خالصتا انجیلی جملوں پر بہت حیران ہوا تھا-اور اس سے پوچھ بیٹھا تھا کہ یہ آرتھوڈاکس کلیسا کے دوبارہ جی اٹھنے کا اثر تم پر کب سے ہوا؟تو ہنسنے لگی -اور کہنے لگی کہ میری مارکسی لغت تمہاری اس کیفیت کو بیان کرنے سے قاصر تھی تو مجھے انجیلی لغت کا سہارا لینا پر گیا-
میں اکثر سینٹرل لایبراری ماسکو جاتا تو وہاں کی انچارچ نٹ کھٹ سی،شوخ و چنچل لڑکی مجھے ایک مرتبہ دستو فسکی کا ناول ایڈیٹ پڑھتے دیکھ کر کہنے لگی کہ تم بھی مجھے اس ناول کے ہیرو لگتے ہو جو مرگی کے زیر اثر حسن کو کشید نہیں کر سکتا-مجھے یاد ہے کہ ایک میری دوست نے مجھے ایک ایرانی ریستوران میں کھانا دیا-ہم ایک کیبن میں بیٹھے تھے-وہ مجھ سے عجیب و غریب باتیں کرتی رہی-میں نے جو جواب اس دوران دے -اس میں وہ کچھ نہیں تھا جو وہ شائد سنانا چاہتی تھی- ڈفر .............یہ فقرہ میں نے سنا -اور اس کی جوتیوں کی کھٹ کھٹ میں دیر تک سنتا رہا -ڈفر کیوں تھا میں........یہ مجھے خود سمجھ نہیں آئے تھی-بس پھر یوں ہوا کہ ایک روز جب میں ڈھلتی عمر کی منزل میں تھا-ایسے ہی ایک مجلس میں اس سے ملاقات ہو گئی-میں نے اور اس نے ایک دوسرے کو بنا مانگے اور بنا پوچھے اپنے فون نمبرز دے ڈالے -فیس بک کے آئی ڈیز کا تبادلہ ہو گیا -اور میں بھی شائد اس سوز کا شکار ہو گیا -جو اس تھری عورت کی آواز میں تھا-وہ آگ جو ایک عرصۂ تک میری جلد سے آگے سفر نہیں کرتی تھی بس سارے وجود میں سرایت کر گئی-میں حسن ناصر عشق جو ناتمام ہے ابھی اس میں گرفتار ہو گیا -وہ اپنے گھر کے صحن میں جس میں تیسری چارپائی کی گنجایش نہیں ہے اور اس ڈرائنگ روم میں جس میں بجلی چلی جائے تو حبس بہت ہوتا ہے-اور اس بعید روم میں جس کا پنکھا شور بہت کرتا ہے -گھنٹوں مج سے بات کرتی ہے-کریدت بینک کی وہ شاخ جو ایک دیہات میں غریبوں کو بچت کرنے کی جھوٹی نوید سناتی ہے-اور ان کو سرمایہ داری کی جکڑ میں اور قید کرتی ہے -اس کی عمارت کے ایک ٹھنڈے کیبن میں وہ اعداد و شمار کے گورکھ دھندے سے ذرا فرصت نکل کر مجھ سے وہ باتیں کرتی ہے جو شید معشیت کی لغت میں ڈھونڈے سے بھی نہ ملیں -یہ کتاب کہیں لکھی ہوئی نہیں ہے-نہ نظر آنے والی سیاہی سے لکھا عشق ناتمام آج حسن ناصر تم کو بیان کرتا ہے-بیان نہیں ہو پاتا-میں کوئی حسن کوزہ گر نہیں -نہ مجھے کوئی نوں میم راشد ملا -تو میں نے یہ قصہ خود ہی لکھ ڈالا -ناتمام تو ہے مگر ناقص نہیں ہے-
(تحریر :عامر حسینی )

Tuesday 11 October 2011

دوجی جنس" کی اشاعت کے پچیس سال مکمل ہونے پر سیموں دی بوا کا انٹرویو (دوسرا حصہ )

"دوجی جنس" کی اشاعت کے پچیس سال مکمل ہونے پر سیموں دی بوا کا انٹرویو
(دوسرا حصہ )
ترجمہ و تلخیص /عامر حسینی
گراسی :لکین یہ شعور تو ان چند عورتوں تک محدود ہے جن کا تعلق لیفٹ سے ہے -وہ عورتیں جو سارے سماج کو مکمل طور پر بدلنا چاہتی ہیں -
بوا :آپ ٹھیک ہیں-اکثریت عورتوں کی قدامت پرست ہے -میرا مطلب ہے کہ جو ہے وہ اس کو باقی رکھنا چاہتی ہیں-رائٹ ونگ میں موجود خواتین اس کو بدلنا نہیں چاہتیں -وہ انقلاب کی حامی نہیں ہیں-وہ مائیں ،بیویاں ہیں اور اپنے ممردوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں-اور اگر وہ مزاحمت کار ہیں تو بس وہ کیک کا بڑاحصہ مانگتی ہیں-وہ زیادہ کمانا چاہتی ہیں،عورتوں کو اسمبلی میں زیادہ تعداد میں دیکھنے کی خواہش مند ہیں اور عورت کو صدر دیکھنا چاہتی ہیں-بنیادی طور پر وہ عدم مساوات کی قائل ہیں ،بس خود کو نیچے سے اوپر لانے کی خواہش مند ہیں-وہ نظام میں خود کو بہتر خیال کریں گی -اگر یہ نظام تھوڑا تبدیل ہو کر ان کو اس نظام میں کچھ بہتر جگہ دے ڈالے -اور ان کے مطالبات کو جگہ دے دے -سرمایہ داری نظام یہ برداشت کرتا ہے کہ وہ خواتین کو فوج یا پولیس میں لے لے -سرمیدارانہ نظام اتنا تو زہین ہے کہ وہ عورتوں کو اپنی نام نہاد سوشلسٹ حکومت میں لے لے اور اپنی پارٹی کی سیکرٹری جنرل بھی ان کو چن لے-یہ محظ اصلاحات ہیں جیسے سوشل سیکورٹی اور پیڈ ووکیشن ہوتی ہیں-پیڈ ووکیشن کو ایک ادارہ کی شکل دینے سے کیا سرمایہ دارانہ نظام کی عدم مساوات ختم ہو جاتی ہے؟کیا عورتوں کو مرد کے برابر تنخواہ دینے کے حق کو تسلیم کرنے سے چیک سماج میں مرد کی بالادستی کا خاتمہ ہو جائے گا ؟لکین کسی بھی سماج کے سارے نظام اقدار کو بدل ڈالنا -اور مدر ہوڈ کے تصور کو تباہ کر دینا بہرحال ایک انقلابی قدم ہے -
ایک فیمنسٹ چاہئے وہ اپنی آپ کو لیفٹسٹ کہلائے یا نہ کہلائے ہوتیوہ لیفٹسٹ ہی ہے -کیوں کہ فیمنسٹ ہونے کا مطلب ہی یہی ہے- کیوں کہ وہ اپنی برابری کے لئے جدوجہد کر رہی ہوتی ہے-اس کی جدوجہد کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کے اتنے ہی اہم اور مفید ہونے کا حق تسلیم کیا جائے -جتنا حق مرد کا تسلیم کیا جاتا ہے-تو صنف یا جنس کی برابری پر اصرار کرنا اور اس برابری کے لئے بغاوت کرنا بھی طبقاتی جدوجہد ہی ہے-
ایک ایسا سماج جہاں مرد بھی ماں والا کردار ادا کر سکتا ہو -جہاں فیمل انسٹی ٹیوٹ بھی مرد کے علم کی طرح اہم تسلیم کر لیا جائے -جہاں نرم اور خوئے دل نوازی کو سخت ہونے سے بہتر خیال کیا جائے -دوسرے لفظوں ایسا سماج جہاں ہر ایک آدمی کا تجربہ دوسرے کے برابر اور اہم خیال کیا جائے کے لئے جدوجہد کا مطلب معاشی اور سیاسی مساوات کی مانگ کرنا ہی ہے-بلکہ یہ اس سے کچھ زیادہ ہی ہے-تو جنس کی برابری کی جدوجہد طبقاتی برابری پر زور دیتی ہے -لکین یہ ضروری نہیں ہے کہ طبقاتی جدوجہد لازمی جنس کی برابری پر زور دے-فیمنسٹ سچی لیفٹسٹ ہیں-وہ در اصل آج کے روایتی لیفٹ کا لیفٹ ہیں-
گراسی :جیسا کہ آپ نے کہا کہ لائف کے اندر اس وقت جنس کی برابری کی جدوجہد ہو رہی ہے-تو کیا اس سے دوسرے سیاسی سیکٹرز میں جنس کی برابری کی جدوجہد متاثر نہیں ہو رہی -کیا اس سے لیفٹ کمزور نہیں پڑ رہا /
بوا :نہیں میں ایسا خیال نہیں کرتی-بلکہ یہ جدوجہد بلآخر لیفٹ کو مستحکم کرے گی-آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جنس کی برابری کی جدّوجہد نے لیفٹ کے زیادہ سے زیادہ گروپس کو عورتوں کے حوالے سے اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے پر مجبور کیا ہے-ہمارے رسالے "آزادی "کو دیکھ لیجئے -اب وہاں اس بات کو محسوس کیا گیا ہے کہ اس کے ادارتی بورڈ میں خاتوں ڈائرکٹر ہونی چاہئے -
یہ ترقی ہے کہ اب لیفٹسٹ مرد اپنی زبان کے استعمال پر بھی نظر رکھنے لگے ہیں-
گراسی:کیا یہ حقیقی طور پر ترقی ہے ؟کہ میں نے گروپ ڈسکشن کے دوران ،دش صاف کرتے ہوئے ،شاپنگ کرتے ،مکان کی صفائی کرتے ہوئے عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے ان کے لئے لفظ چکس استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے -تو کیا میں نے مرد اقدار کو مسترد کر دیا ہے؟
بوا:تمہارا مطلب ہے کہ تمہارے اندر میں(تبدیلی آ گئی ہے )؟بلنٹ ہونے کی کون پرواہ کرتا ہے ؟تم جنوب کے رہنے والے نسل پرست کو جانتی ہو -تم کو اس کی نسل پرستی کا اس لئے معلوم ہے کہ تم اس کو ایک لمبے عرصۂ سے جانتی ہو-یہ سب تم ایک لمحے کے لئے فرض کر لو -لکین اب وہ لفظ نیگر نہیں بولتا -وہ سیاہ فام کی تمام شکایات غور سے سنتا ہے -اور ان کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے-وہ دوسرے نسل پرستوں کو نیچا دیکھنے واے رستہ پر چلتا ہے-وہ اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ ان کے بچوں کو اوسط درجہ سے زیادہ تعلیم دی جائے -تاکہ ان کی وہ کمی پوری ہو جب ان کو تعلیم نہیں مل رہی تھی-وہ کالے آدمی کے للے کوشش کرتا ہے کہ ان کے قرضوں کی درخواستوں کے ساتھ سفارشی رقعہ بھی لگ جائے-وہ اپنے علاقے میں کالے امیدواروں کا ساتھ اپنے پیسے اور اپنی رقم سے بھی دیتا ہے-کیا تم سوچتے ہو کہ اب بھی کالا آدمی یہ خیال کرے گا کہ یہ جنوب کا آدمی اب بھی اپنی روح میں اتنا ہی نسل پرست ہے جتنا یہ پہلے ہوتا تھا ؟استحصال کے پیچھے ایک بہت بڑی وجہ عادت ہوتی ہے-اگر آپ ایسی عادت پر قابو پا لیتے ہو-اور اپنی اس قسم کی عادت پر نظر رکھنے لگتے ہو تو بھی یہ ایک بڑا قدم ہوتا ہے-تو اگر آپ برتن صاف کرتے ہو،گھر کی صفائی کرتے ہو -وہ سب کام کرتے ہو جو پہلے تم کو مردوں کے کرنے والے نہیں لگتے تھے -تو آپ ایک اچھا اور درست سمت میں قدم اٹھا رہے ہو-ایک دو نسلیں جب یہ محسوس کر لیتی ہیں کہ ان کو غیر نسل پرست نظر آنا چاہئے -تو وہ تسسری نسل اپنی فطرت کے لحاظ سے نسل پرستی سے پاک ہوتی ہے-تو جنس پرستی سے الگ ہونے کا کام جاری رہا تو ہماری آنے والی نسلیں فطری طور پر جنس کی برابری کی قائل ہوں گی -آپ برتن صاف کر لیتے ہوں گے -لکین آپ کو بچے کی نیپی تبدیل کرنا اچھا نہیں لگے گا -وہ کریں تو بات بنے-
گراسی:لکین میرے تو بچے نہیں ہیں-
بوا:کیوں نہیں ہیں؟کیا تم نے بچے نہ کرنے کا انتخاب کیا؟کیا تمہارے خیال میں جن ماؤں کو تم جانتے ہو انھوں نے خود بچے کرنوے کا انتخاب کیا ہے؟یا ان کو یہ باور کرایا گیا کہ ان کو یہ کرنے ہیں-یا سیدھی سے بات ہے کہ ان کو اس طرح سے پالا گیا کہ ان کو یہ سمجھنے پر مجبور کر دیا گیا کہ وہ یہ خیال کریں کہ عورت ہونے کا مطلب ہر حل میں بچے پیدا کرنا ہوتا ہے-تو انھوں نے بچے پیدہ کرنے کی چوئیس کی-لکین سوال یہ ہے کہ ان کے لئے اس انتخاب کو لازم کس نے بنایا ؟یہ وہ اقدار ہیں جن کو بدلنا چاہئے-

Monday 10 October 2011

دوجی جنس "کی اشاعت کو ٢٥ سال پورے ہونے پر سیموں دی بوا کا انٹرویو - ترجمہ و تلخیص :عامر حسینی

"دوجی جنس "کی اشاعت کو ٢٥ سال پورے ہونے پر سیموں دی بوا کا انٹرویو -
ترجمہ و تلخیص :عامر حسینی
گراسی :آج "دوجی جنس "کو چھپے ٢٥ سال ہو گئے ہیں-بہت سے لوگوں کا خیال یہ ہے کہ موجودہ دور کا جو فیمنزم ہے -اس کا آغاز اس کتاب کی اشاعت سے ہوا تھا -کیا آپ بھی ایسا ہی خیال کرتی ہیں ؟
بوا :میں ایسا خیال نہیں کرتی-آج جو فیمنسٹ تحریک موجود ہے -جس کا آغاز آج سے پانچ یا چھے سال قبل ہوا تھا -وہ تو اس کتاب سے واقف بھی نہیں لگتی-لکین اتنا ضرور
ہے کہ اس تحریک کے کچھ رہنماؤں نے اپنے نظریہ کی بنیادیں استوار کرنے میں اس کتاب کے اندر بیان کئے گئے کچھ نکات کو اپنی فکر کا حصہ ضرور بنایا ہے-
زیادہ ترخواتین جو اس تحریک کا حصہ بنیں تو جب یہ کتاب شایع ہوئے ١٩٤٩-٥٠ میں تو وہ بہت کم عمر تھیں-اس لئے میرا نہیں خیال کہ وہ اس کتاب سے متاثر ہوئی ہوں گی-
مجھے جس بات کی خوشی ہے-وہ یہ ہے کہ انھوں نے اس کتاب کو بعد میں دریافت کر لیا -ہاں کچھ بزرگ خواتین نے اس کو پڑھا بھی تھا اور اس کے زیر اثر بھی آئیں تھی-جیسے بیٹی فریڈمین -جنھوں نے اپنی کتاب "اسرار نسائیت"کا انتساب میرے نام کیا تھا-لکین جیسے کیٹ مل ہے -اس کے کام میں تو میں نے اپنی کتاب کا کوئی اثر نہیں دیکھا -یہ ہو سکتا ہے کہ وہ فیمنسٹ ہوں ان وجوہات کی بنا پر جن کو میں نے اپنی کتاب "دوجی جنس "میں بیان کیا -لکین یہ ٹھیک نہیں ہوگا کہ وہ میری کتاب پڑھ کر فیمنسٹ بنی ہیں-
گراسی :آپ کہتی ہیں کہ آپ کی فمینسٹ فکر اس وقت زیادہ بالغ ہوئی -جب آپ یہ کتاب لکھ رہی تھیں-تو آپ نے فیمنسٹ تحریک کو جن خطوط پر استوار ہوتے دیکھنا چاہا تھا -تو کیا اس کتاب کے بعد تحریک اسی طرح سے استوار ہوئی ہے ؟
بوا :"دوجی جنس "کو لکھتےہوئے مجھے یہ احساس ہو گیا تھا -کہ میں تو خود اب تک ایک غلط زندگی گزر رہی تھی-اور شاید نادانستہ طور پر مردوں کی بالا دستی والے سماج سے خود بھی فائدہ اٹھا رہی تھی -میری ابتدائی زندگی می کیا ہوا تھا -بس یہی نہ کہ میں نے مرد پرست اقسر کو اپنا لیا تھا -اور ان کے ساتھ زندگی بیتا رہی تھی-لکین پھر میں نے کامیابی کہ ساتھ یہ یقیندوبارہ حاصل کر لیا تھا کہ مرد اور عورت دونوں برابر ہو سکتے ہیں اگر عورتیں ایسا چاہئیں تو -دوسرے لفظوں میں یہ کہ میں خوش قسمت تھی کہ میں سرمایہ دار طبقے سے تھی تو مجھے یہ طبقہ بہترین اسکول بھیج سکتا تھا -اور مجھے آزادانہ طریقہ سے خیالات سے کھیلنے کی اجازت بی دیتا تھا-میں ایک دانشور بھی اسی لئے ہو گئی تھی-اسی وجہ سے میں کسی خاص قابل ذکر مشکل کے بغیر مردوں کی دنیا میں داخل ہو گئی تھی-میں نے دکھا دیا تھا کہ میں مردوں کی سطح پر ،ان کے برابر آرٹ ،فلسفہ ،ادب پر ڈسکس کر سکتی تھی-میں نے وہ سب بھی رکھا جو میری نسائیت کے حوالے سے خاص کیا جاتا تھا-میں اتنا ہی کما سکتی تھی جینا مرد دانشور کما رہے تھے-اور مجھے بھی اتنا ہی سنجیدگی سے لیا جاتا تھا -جتنی سنجیدگی سے میرے ہم عصر مردوں کو لیا جا رہا تھا-اپنے ہونے کے لحاظ سے میں کون ہوں ؟تو میں نے اس وقت یہ پایا کہ میں مردوں کی تہ سفر کر سکتی ہوں،ان کی طرح کیفے میں بیٹھ سکتی ہوں اور مرد لکھاریوں کی طرح لکھ سکتی ہوں -اور مجھے بھی ان کی طرح اتنی عزت مل سکتی ہےوغیرہ وغیرہ -تو ایسے ہر مرحلہ پر میرا جو آزادی اور مساوات کا جو احساس تھا وہ ایک حصار میں قید ہو گیا-اسی لئے میرے لئے یہ بھولنا آسان ہو گیا کہ وہ عورت جی کسی کی سیکرٹری ہو وہ ان سب کے ساتھ لطف اندوز نہیں ہو سکتی-وہ اس طرح کی ساکھ نہیں بنا سکتی اور نہ ہی اس کی ایسی کوئی ملکیت ہو سکتی ہے-وہ اس طرح نہ تو کیفے میں بیٹھ سکتی ہے-نہ ہی وہ آزادی کے ساتھ وہاں کتاب پڑھ سکتی ہے کہ کوئی اس کو میلی نظر سے نہ دیکھے-یا اس کے ساتھ کوئی بد اخلاقی نہ ہو -تو مجھے اس عورت کی مالی اور روحانی آزادی بارے سوچنا پڑا
جو کہ مرد پرست سماج میں کسی طرح سے بھی آزاد نہیں سمجھی جا سکتی-تو میں کہے بغیر یہ سوچ رہی تھی کہ جیسے میں کر سکتی ہوں اور سوچ سکتی ہوں کیا وہ بھی کر اور سوچ سکتی ہیں-
"دوجی جنس "کے حوالے سے تلاش اور لکھنے کے عمل کے دوران مجھے یہ پتہ چلا کہ میری مراعات در اصل میرے اغواء کا نتیجہ ہیں-دراصل مجھ سے میری ہست چھین کر مجھے یہ مراعات دی گئیں ہیں -کم از کم اگر ساری نہیں تو کئی پہلووں سے میری نسائیت مجھ سے چھین کر یہ مراعات مجھ کو دی گئی ہیں-اگر ہم اس کو طبقاتی معشیت کی اصطلاح میں ڈال دیں تو آپ اس کو آسانی سے سمجھ جائیں گیں -یعنی میں طبقاتی مصلحت پسند بن گئی تھی-صنفی جدوجہد میں میں اسی قسم کی قبیل سے ہو گئی تھی-
دوجی جنس کو لکھتے ہوئی مجھے یہ احساس ہوا کہ وہ جدوجہد کرنی چاہئے جس کی ضرورت ہے-مجھے اس سادہ سی بات کا پتہ چل گیا کہ جو چوئیس میرے پاس ہے وہ خواتین کی اکثریت کے پاس نہیں ہے-خواتین کی اکثریت اس سماج میں جو کہ مرد پرست سماج ہے کو دوسری جنس کے طور پر اور دوسرے درجے کی جنس کے طور پر لیا جاتا ہے -ان کا دوسرے درجہ کی جنس کے طور پر استحصال کیا جاتا ہے-اور اس سماج میں اگر مرد پرستی کا خاتمہ ہو جائے -اور اس کی مرد کی ترگ جھکاؤ والی جہت کا خاتمہ کر دیا جائے تو یہ جس ڈھانچہ پر استوار سماج ہے وہ سارا دھڑام سے نیچے آ جائے گیا -جس طرح سیاسی اور معاشی طور پر مغلوب لوگوں کے لئے مشکل ہوتا ہے کہ وہ اپنی مغلوبیت کو سمجھ لیں اور پھر اس کے خلاف کمر بستہ ہو جائیں -بلکل اسی طرح سے یہ عورتوں کو سمجھنا بھی مشکل ہوتا ہے-تو پہلے لوگوں کو اپنے اوپر غلبہ کر لینے والے نظام کو سمجھنا ہوتا ہے-پھر وہ اس نظام کے خلاف لڑائی کرنے نکلتے ہیں-پھر جو ان کے اتحاد اور اشتراک سے فائدہ اٹھانے جا رہے ہوتے ہیں ان کو ان کے انحراف کی قدر و قیمت کی پہچان کرنا ہوتی ہے-آخر کار جن کو اس طرح کے موقف اپنانے پر سب سے زیادہ کھونا ہوتا ہے جیسے میری طرح کی عورت جس نے اپنا مستقبل بڑی توجہ اور محنت سے بنایا ہوتا ہے -تو اس کو اس طرح کا مقف اور پوزیشن لیتے ہوئی بہت سے عدم تحفظات کو آواز دینا پڑتی ہے-اب یہ چاہئے انقلابی تبدیلی ہو یا دوسروں کی نظر میں محترم بننے کے لئے -بہرحال یہ خاصا دقت طلب کام ہوتا ہے-اور ان کو یہ بھی سمجھ لینا پڑتا ہے کہ ان کے ساتھ سب سے آخر میں جو شامل ہوں گی -وہ ان کی وہ بہنیں ہوں گی جن کا سب سے زیادہ استحصال ہوتا ہے-مثال کے طور پر ایک مزدور کی بیوی کے پاس تحریک میں شامل ہونے کے کم چانس ہوتے ہیں-وہ جانتی ہے کہ اس کے شوہر کا فیمنسٹ رہنماؤں سے زیادہ استحصال ہوتا ہے-اور اس کا شوہر کے گھر کی بقاء اس کہ گھریلو بیوی ہونے اور ایک اچھی ماں بننے پر ہے-بہرحال کوئی بھی وجہ ہو عورت متحرک نہیں ہو پاتی-ہاں کئی بہت ہی اچھی تحریکیں ہوتی ہیں جو عورت کی سیاسی اور معاشی شراکت داری کے لئے جدوجہد کرتی ہیں-میں ایسے گروپس سے ان کو جوڑ کر نہیں دیکھ سکی -پھر ١٩٦٨ آیا اور ہر چیز تبدیل ہو گئی -میں جانتی ہوں اس سے بھی پہلے کئی اہم باتیں رونما ہوئی تھیں-بیتی فریدن کی کتاب ٦٨ سے پہلے شایع ہو چکی تھی -امریکہ میں خواتین بہت آگے جا چکی تھیں-وہ اچھی طرح سے جانتی تھیں کے ٹیکنالوجی اور قدامت پرستوں میں کیا تضاد رونما ہوا ہے جو ٹیکنالوجی سے احبرنے والے تقاضوں کو نظر انداز کر کے عورتوں کو کچن تک محدود کرنا چاہتے تھے-ٹیکنا لوجی جب پھیلتی ہے تو عورتوں کو دوسرے درجہ کا جو کردار سونپا جا رہا ہوتا ہے اس کو برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے-امریکہ میں ٹیکنالوجی کی ایجادات بہت زیادہ ہو رہی تھیں تو عورتیں بھی اس سے جنم لینے والے تضادات میں گرفتار ہونے سے خود کو روک نہ سکیں-اسی لئے یہ بات حیرانی کا سبب نہیں ہونی چاہئے کہ سامراجی سرمایہ داری کا جو دل تھا امریکہ وہاں عورتوں کی تحریک نے سب سے زیادہ زور پکڑ لیا -یہاں تک کہ اس تحریک کا زیادہ دباؤ معاشی تھا -کام اگر مردوں کے برابر ہے تو پھر پیسے بھی ان کے برابر ہونے چاہئیں -لکین یہ سامراجیت مخالف تحریک تھی جس کے ابھار نے حقیقی فیمنسٹ شعور کو احبرنے کا موقعہ فراہم کیا-یہ ویت نام، مخالف تحریک ہو یا ٦٨ میں فرانس کے اندر چلنے والی پاپولر تحریک یا پھر مغربی ملکوں میں انقلابی ابھار اس نے عورتوں کو ٹھیک طرح سے ریڈیکل خیالات سے لیس کیا-جب یہ بات سمجھ میں آنا شروع ہوئی کہ اکثریت کی غربت کا سبب سرمایہ داری نظام ہے تو تو پھر عورتوں کی اکثریت نے طبقاتی جدوجہد میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا-اغرچہ انھوں نے طبقاتی جدوجہد کی اصطلاح کو قبول نہیں بھی کیا لکین وہ سرگرم ہو گئیں-انھوں نے مہم،جلسے،جلوس میں شرکت کرنی شروع کر دی اور وہ لیفٹ کے ملتینٹ زیر زمین گروپس کا حصہ بن گئیں -وہ مردوں کے شانہ بشانہ استحصال سے پاک اور بیگانگی سے پاک مستقبل کے لئے لڑیں -لکین ہوا کیا؟ان کو پتہ چلا کے وہ جن گروپس یا تنظیموں میں شامل ہوئی ہیں ان میں بھی ان کی حثیت اسی طرح دوسرے درجے کی جنس کی ہے جیسی اس سماج میں تھی جس کو وہ تبدیل کرنے نکلی تھیں-یہاں فرانس میں اور میں یہ بے باکی سے کہتی ہوں کہ امریکہ میں بھی انھوں نے دیکھا کہ لیڈر تو بس مرد ہی تھے-عورتیں تو ان نام نہاد گروپس میں ٹائپ کرنے والی اور کافی بنانے والی رہ گئیں تھیں-شائد مجھے نام نہاد نہیں کہنا چاہئے تھا -کیونکہ ان میں کئی مرد اصلی انقلابی بھی تھے-کیوں کہ یہ انقلابی بھی ایک مرد پرست سماج میں پلے تھے اور اسی میں ان کی تربیت ہوئی تھی تو یہ بھی تحریک اور تنظیم کو اسی سمت میں استوار کر گے-تو یہ بات سمجھ میں آنے والی تھی کہ یہ مرد بھی ان تنظیموں کی ساخت کو رضاکارانہ طور پر نہیں بدلنے والے تھے جس طرح سرمایہ دار طبقہ اپنی طاقت اور کنٹرول سے رضاکارانہ طور پر دست بردار نہیں ہوتا ہے-تو جس طرح غریبوں پر لازم ہوتقہ ہے کہ وہ سرمایہ داروں سے طاقت چھین لیں اسی طرح سے عورتوں پر لازم ہے کہ وہ مردوں سے اختیار چھین لیں-لکین اس کا مطلب مردوں کو مغلوب کرنا بھی نہیں ہے-اس کا مطلب برابری قائم کرنا ہے جس طرح اشتراکیت ،ایک حقیقی اشتراکیت تمام لوگوں میں معاشی برابری قائم کرتی ہے-تو فیمنسٹ تحریک نے بھی یہ سیکھا کہ اسے برابری قائم کرنے کے لئے مردوں سے تحریک میں پاورچھین لینا ہوگی -طبقاتی جدوجہد کے اند شمولیت کے ساتھ کسی لمحہ میں عورتوں کو یہ احساس ہوتا ہے کہ طبقاتی جدوجہد سے مردوں اور عورتوں کے درمیان نا برابری ختم نہیں ہوگی -بلکہ ان کو اس کے ساتھ ساتھ مرد پرستی کے خلاف بھی جدوجہد کرنا ہوگی-یہ وہ بات ہے جس کو بتانے کے لئے میں نے کہا تھا کہ میں اس بات سے پہلے سہمت تھی کہ سرمایہ دارانہ نظام کے ہوتے ہوئے مرد اور عورت برابر نہیں ہو سکتے تو ہمیں سرمایہ داری نظام کو تباہ کرنا ہوگا اس لئے -........تو یہ لفظ اس لئے ایک فکری مغالطہ تھا-کہ ہمیں پہلے صرف طبقاتی جدّوجہد کرنی چاہئے-یہ بات درست ہے ہے کہ جنسوں میں برابری سرمایہ داری نظام کے اندر نہیں ہو سکتی-ذرا غور کیجئے کہ اگر مرد اور عورت برابر ہو جائیں تو پیس ور،پارٹ ٹائم کام ،شاپس ،سٹور میں کام کلیساؤں ،آرمی فیکٹریوں کا کیا ہوگا جن پر سرمایہ داری انحصار کرتی ہے-یہ جو سستی لیبر اور پارٹ ٹائم ورک ہے اس کا سب سے زیادہ انحصار عورتوں کی محنت کے استحصال پر ہے-لکین یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ سوشلسٹ سماج عورتوں کے استحصال کو مکمل طور پر ختم کر دیتا ہے اور مرد و عورت کے درمیان برابری قائم کرتا ہے -روس اور اشتراکی ملکوں میں بھی مرد اور عورت کی برابری کے سوال پر الجھن موجود ہے-المیہ یہ ہے کہ کے پرولتاریہ کی فتح بھی آخر میں مردوں کی فتح بن جاتی ہے-تو عورتوں میں یہ جو شعور ہے کہ طبقاتی جدوجہد کی فتح ہی سے عورتوں کی مردوں سے برابری نہیں ہوتی یہ نیا شعور ہے-پدر سری اقدار کے خلاف بھی جدوجہد ساتھ ساتھ ہو گی-عورتیں اب زیادہ تر اس بات سے واقف ہیں اور ان کی تحریک بھی اس امر کو ساتھ لیکر چلتی ہے-اور یہ شعور مستقبل میں نئی تاریخ رقم کرے گا-