Monday 20 July 2015

مونا محمودی نژاد و قرۃ العین طاہرہ ----- خواب جو دیکھے تو مصلوب ہوئے


عید سے ایک روز قبل محترم حیدر جاوید سید کا پیغام ملا کہ میں نے ان سے قرۃ العین طاہرہ پر جو کالم لکھنے کی فرمائش کی تھی ، اس فرمائش کو انھوں نے پورا کرڈالا ہے ، مجھے زرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ شاہ جی کا لکھا کالم تو جیسے تیسے لکھا جائے گا اور میں عین عید کے روز قرۃ العین طاہرہ زریں تاج سے ایک اور ہی انداز میں ملاقات کروں گا ، یہ ملاقات کیسے ، کیسے رنگ دکھلائے گی ، اس کا مجھے گمان بھی نہيں تھا ، میں نے چاند رات کو اپنے ایک دوست سے کہا تھا کہ مجھے عید کے بعد ایران جانا ہے ، وہ اس کا بندوبست کرے اور میں قرۃ العین طاہرہ کا گھر ، اس کا بندی خانہ اور وہ باغ جہاں اسے پھانسی دی گئی دیکھنا چاہتا ہوں ، ابھی کچھ روز گزرے جب فرائیڈے ٹائمز میں ایک مضمون شایع ہوا ، جس میں کہا گيا کہ مصر کی قلوپطرہ ، عراق کی رابعہ بصری ، ایران کی قرۃ العین طاہرہ جس طرح کے لازوال فیمنسٹ کردار ہیں ، ویسا ہی کردار ہمیں پاکستان کے اندر بھی تلاشنے کی ضرورت ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ جیسے ہی میں نے یہ پڑھا تو مرے زھن میں " شگفتہ سارا " کا نام آیا ، پھر ڈرا کہ کہیں یہ نام لینے پر صاحبان جبّہ و دستار لٹھ لیکر مرے پیچھے نہ پڑھ جائیں ، ہندوستان میں اگر آج کوئی " قرۃ العین طاہرہ " کی ہمسری کرسکتی ہے تو وہ مرے نزدیک ارون دھتی رائے کے سوا اور کوئی نہیں ہے ، مرے خيال میں پاکستان کے اندر بہت ساری نوجوان عورتیں ہیں جو قرۃ العین طاہرہ بننے کے پروسس میں ہیں ، اب یہ حالات اور ان کی قوت برداشت پر منحصر ہے کہ وہ کب تک مزاحمت کرسکتی ہیں اور مرد شاؤنزم کے آگے سرجھکانے پر تیار نہیں ہوتیں ، ایسا ایک کردار مری زندگی میں " ہما علی " کا تھا اور پھر " شہر بانو " کا تھا دونوں ہی موت کے ہاتھوں قرۃ العین طاہرہ بننے کے پروسس میں ہی فنا کے گھاٹ اتریں اور ایک " شہر زاد " تھی تو اپنے بغداد میں حسن کوزہ گر کے سامنے دیکھتے ہی دیکھتے اپنی الجنھوں کا شکار ہوئی شہر بانو فلسفہ کی استاد اور عاشق قرۃ العین طاہرہ تھی ، ایک مرتبہ میں اس کے گھر گیا تو میں نے اس کے ریڈنگ روم میں ایک پینٹنگ دیکھی ، جس میں قرۃ العین طاہرہ کو باغ میں پھانسی دیتے ہوئے دکھایا گیا تھا اور ایک اور کیلی گرافک ورک کی پینٹنگ تھی ، جس میں قرۃ العین طاہرہ کے اشعار درج تھے ، یہ شام کا وہ وقت تھا ، جسے کہا جاتا ہے کہ اس لمحے میں دو وقت مل رہے ہوتے ہیں ، سورج مغرب میں ڈوبنے سے پہلے سرخ تانبے کی طرح دھکتا ہوا لگتا ہے اور مغربی افق پر دور تک لالی دکھائی دیتی ہے
ایک مرتبہ شہر بانو کہنے لگی کہ عامی ! تمہیں معلوم ہے کہ عاشق لوگوں نے افق مغرب پر پہلی اس سرخی بارے کیا متھ / اسطور بنا ؟ میں نے کہا نہیں جانتا تو شہر بانو کہنے لگی کہ
متھ یہ ہے کہ عاشور کی شب ، شام غریباں کے بعد آسمان سے خون کی بارش ہونے لگی ، ساری کربلا خون سے سرخ ہوگئی اور آسمان بھی سرخی سے بھر گیا اور پھر جب واقعہ کرب و بلاء کو دس سال گزرے تو سرخی کم ہونا شروع ہوئی اور کم ہوتے ہوتے اب یہ افق مغرب تک ہے اور یاد دلاتی ہے کربلاء کی خون ریز داستان کی اس دن شہر بانو کہنےلگی کہ اسے لگتا ہے کہ افق مغرب میں غروب آفتاب کے وقت اس سرخی میں کہیں زریں تاج قرۃ العین طاہرہ کا خون ناحق بھی ہے جو احتجاج کی علامت ہے
جیسا کہ میں نے پہلے بھی ایک اور تحریر میں بتایا تھا کہ شہر بانو " نہج البلاغہ " کے اسرار کو کھولنے کی ماہر تھی ، اس کا کہنا تھا کہ " نہج البلاغہ " نے اپنا آپ آشکار مجھے قرۃ العین طاہرہ کی شاعری کے زریعے سے کیا ، اس شام اس پر ایک خاص وجد طاری تھا اور اس حالت وجد میں اس نے ، ترنم کے ساتھ اس نے پڑھنا شروع کیا
-گربتو افتدم نظر چہرہ بہ چہرہ رو برو -اگر تو مرے رو برو ہوکر ، مرے چہرے کے سامنے آکر مجھ پر ایک نظر ڈالے -شرح وہم غم ترا نکتہ بہ نکتہ موبمو -تو میں غم محبت کی شرح تمام تر باریکی اور نکتہ ، نکتہ بیان کروں /از پئے دیدن رخت ، ہمچو صبا فتادہ ام خانہ بہ خانہ ،در بدر ، کوچہ بکوچہ ،کوبکو جیسے باد صباء چلتی ہے ، میں ایسے ہی تیری دید کی تلاش میں گھر ،گھر ، در ،در ، کوچہ ، کوچہ اور گلی ، گلی پھری /ہوں می رود از فراق تو خون دل از دو دیدہ ام / /دجلہ بہ دجلہ ، یم بہ یم ، چشمہ بہ چشمہ ، جو بجو ترے فراق میں جو خون دل مری آنکھوں سے نکلا ،وج اب دریا دریا ، سمندر ، سمندر ،چشمہ ،چشمہ اور ندی ، ندی بہہ رہا //ہے /مہر ترا دل خریں بافتہ بہ قماش بر جاں /رشتہ بہ رشتہ ، نخ بہ نخ ، تار بہ تار ، پو بہ پو ترے چہرے کو مرے غمزدہ دل نے ریشہ ، ریشہ دھاگہ ،دھاگہ اور باریک تار ، تار اپنی قماش جاں پر بن لیا ہے در دل خویش طاہرہ گشت و ندید جز ترا صفحہ بہ صفحہ ، لا بہ لا ، پردہ بہ پردہ ، تو بہ تو طاہرہ نے اپنے دل کی سیر کی اور وہاں ہر ورق ورق ، گوشہ ، گوشہ ، پردہ پردہ بس تجھے ہی پایا اور وہاں کوئی اور نہیں تھا
میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ " قرۃ العین طاہرہ " نے دروں بینی سے روشنی پانے کے بعد جب اس کائنات پر نظر ڈالی تو اسے پورا سماج تاریکی میں ڈوبا نظر آیا اور سب محبوب ازل سے بے خبر اور بے پرواہ نظر آئے تو اس نے سب کو اس محبوب ازل سے متعارف کرانے کی کوشش کی اور اس کوشش کے دوران اسے سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا اپنے زمانے کے ملّاؤں -کی جانب سے کرنا پڑا زریں گل کا زمانہ 1852ء کا ہے اور یہ ایران میں مسجد ، بازار ، امام بارگاہ ، تعلیمی مراکز پر ملّا کے قبضے اور غلبے کا زمانہ ہے اور اگر میں ڈاکٹر علی شریعتی کی اصطلاح استعمال کروں تو یہ " سیاہ شیعت " کے غلبے کا زمانہ تھا اور اس وقت ملّا نے رجعت پرستی اور پسماندگی کو ایران پر مسلط کررکھا تھا اور روشن گر ہر اک آواز کو زبردستی بند کرنے کا سلسلہ جاری و ساری تھا ، اس زژانے ميں نادر شاہ اور اس کے حکام بھی ملّا کے زریعے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے میں لگے تھے اور ایرانی سماج جاگیرداری رشتوں کی زوال پذیر باقیات کے اندر جکڑ کی وجہ سے اور زیادہ تنگ نظر ہوچکا تھا اور اس زمانے میں ایران کے اندر ایک نیا سماجی طبقہ ظہور پذیر ہورہا تھا اور یہ بنیادی طور پر جدید تاجر طبقہ تھا جو آگے بڑھ کر مالیاتی سرمائے کی طرف سفر کرنا چاہتا تھا اور پسماندہ شیعی ملائیت اس کے آڑے آرہی تھی اور فرسودہ تھیالوجی اس کی ترقی میں روکاوٹ بنی ہوئی تھی ، جس کو ہٹانے کے لئے ہمیں بابی تحریک کی بنیاد پڑتی نظر آئی ، جس نے کم از کم شیعت کے ہاں جو ظاہریت پسند ، کٹھ ملائیت کا رجحان تھا اسے مسترد کیا اور نئی راہیں متعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا ، بابی تحریک جو محمد علی باب کی سربراہی میں شروع ہوئی اس نے ایرانی سماج میں پہلی مرتبہ عورتوں کی آزادی ، ان کی سماج کے اندر فعال شرکت پر زور دیا اور فرسودگی کو مسترد کردیا ، ایک طرح سے ایران میں قرۃ العین طاہرہ جدید فیمنسٹ تحریک کی پہلی رہبر اور رہنماء کے طور پر سامنے آئیں اور انھوں نے ایرانی معاشرے کی مرد شاؤنزم پر مبنی بنیادوں کو ہلاکر رکھ دیا
قرۃ العین طاہرہ زریں تاج ملا صالح برغانی کے گھر پیدا ہوئی تھیں ، یہ گھرانہ تفسیر قرآن ، احادیث آئمہ اور کربلاء کے واقعات کے وعظ کے حوالے سے بہت معروف تھا اور ایرانی ملّائیت اسے مثالی گھرانا خیال کرتی تھی ، اس گھرانے نے ایرانی سماج کی پسماندگی ، رجعت پسندی اور تاریک گری کے جواز کے لئے شیعی تھیالوجی کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا تھا ، اس لئے اس گھر کی ایک خاتون زریں تاج جو خود بھی ان تمام علوم سے مسلح کی گئی تھی جو تعبیرات کے اعتبار سے مرد شاؤنزم اور مردانہ بالادستی کو تقویت پہنچاتے تھے اور جو بھی ان کا ماہر بنتا وہ رجعتی تعبیرات کی ہی حمائت کرتا تھا ، چاہے وہ عورت ہوتی یا مرد - شہر بانو اس دن ایک لپک کے ساتھ مجھے یہ سب بتارہی تھی ، اس کا چہرہ جوش جذبات سے دمک رہا تھا ، سرخ و سپید چہرہ بالکل گوہر آبدار جیسا ، جیسے سیپ سے نکلا موتی ، اور مجھے لگآ کہ قرۃ العین طاہرہ کے گھرانے کی ملائيت کور اس گھرانے کی قدامت پرستی و تھیالوجیکل مہارت پر عبور اور اس گھرانے کے کہے ہوئے جملوں کو ملنے والی پذیرائی بارے بتاکر ، وہ شعوری یا لاشعوری طور پر اپنے گھرانے کی مثال دینا چاہتی تھی ، اس کے آباؤاجداد ملّا زادے تھے اور سب کے سب مجتھد فی المذھب کے منصب پر فائز خیال کئے جاتے تھے اور صدیوں سے رواج تھا کہ اس گھر کی عورتوں کے لئے مکتب گھر ہی بنتا ، عربی ، فارسی ، منطق ، فلسفہ ، علم کلام ، تفسیر ، دروس ہائے اصول کافی و فروع کافی گھر ہی پر دے دئے جاتے اور باہر کیا ہورہا ہے ، اس سے بے خبر رکھا جاتا ، جب شہر بانو نے شعور سنبھالا تو ابتدائی کتب پڑھنے کے بعد اس نے بھی اسکول کی ضد کی اور اپنی ضد کی بنا پر وہ کالج اور وہاں سے یونیورسٹی جاپہنچی تھی ، شہر بانو نے جب فلسفہ میں ایم اے کرنے کی ٹھانی اور اس کے ارد گرد مغربی فلسفے کے ڈھیر لگے نظر آئے تو اس کے بابا ملّازادہ تقی کو بہت طیش آیا تھا اور شہر بانو کو پابند کرنے کی اس ملّا زادے نے بہت کوشش کی لیکن شہر بانو تو ایم اے کے بعد ایم فل اور پھر پی ایچ ڈی اور اس کے بعد فلسفے کی تدریس کرنے لگي تھی ، اس نے ایم اے فلسفہ کے لئے تھیسس بھی قرۃ العین طاہرہ کا چنا ، پھر اس نے ایم فل میں تھیسس کلارازیٹکن اور پی ایچ ڈی میں موضوع قرۃ العین طاہرہ اور شیخ ابن عربی کی شاعری میں موازانہ کا چنا تھا ، وہ کالج ، یونیورسٹی میں طاقتور فیمنسٹ آواز بنکر ابھری تھی ، اگرچہ اس کی باتوں پر ملائیت سخت طیش میں تھی اور یہآں تک ہوا کہ ملّا زادہ تقی نے شہر بانو پر ایک دن اپنے گھر کے دروازے بند کرڈالے تھے ، اس دن مختصر سا سامان لئے شہر بانو مرے شہر پہنچی تھی اور چند دن کے لئے پناہ کی خواستگار ہوئی تھی ، یہ اس کے عبوری بے کاری کے دن تھے ، کہیں جاب نہیں مل رہی تھی ، میں نے بھی بہت کوشش کی ، جس کالج سے اس نے بی اے کیا تھا ، وہاں فلاسفی ڈیپارٹمنٹ میں ایک سیٹ خالی ہوئی ، اس نے اپلائی کیا ، لیکن بدلے میں جو قیمت شہر بانو سے مانگی گئی ، اس نے دینے سے انکار کردیا ، ایک این جی او میں اپلائی کیا تو اس کے سی ای او نے شرمناک گفتگو کی ، سب سے مایوس ہوئی ، میں نے کوشش کرکے اسے ایک نجی کالج میں تدریس کی زمہ داری دلوائی ، وہ لاہور ميں ایک چھوٹے سے دو کمرے کے فلیٹ میں کسمپرسی کی زندگی گزارتی رہی اور پھر اس نے ایک یونیورسٹی میں اپلائی کیا اور اسے وہاں اسٹنٹ پروفیسر کی جاب ملی ، مگر وقت بہت تھوڑا تھا ، اس کے پاس ، اسی اثناء ميں اسے جرمنی کی ایک یونیورسٹی سے دعوت ملی ، جانا چاہتی تھی لیکن ایک دن جب وہ رات کو سونے گئی تو رات کے کسی پہر اس کا دل دھڑکنا بھول گیا اور وہ چلی گئی ، اگلے دن جب ایک مختصر سا قافلہ اس کے جنازے ميں شریک تھا تو سوال یہ اٹھا کہ نماز جنازہ کون پڑھائے گا ، اس کے بارے میں طرح ، طرح کی باتیں مشہور تھیں ، کسی کے ںزدیک وہ ناستک تھی ، کسی کے ںزدیک وہ احمدی تھی ، کسی کے ںزدیک رافضی اور رافضی کے ںزدیک وہ ناصبی تھی ، ملّا زادہ تقی کا گھرانہ تو کہنے لگا کہ " شہر بانو " ان کے لئے بہت پہلے مرگئی تھی ، ہم جنازے کو ٹاؤن شپ سے دور گڑھی شاہو لے گئے اور میں نے وہاں ایک مسجد کے مولوی سے جو مرا دوست تھا اور بہت قریب تھا درخواست کی ، اس نے جنازہ پڑھایا ، مجھے جب اس کا جنازہ پڑھایا جارہا تھا اور جب ہم اسے میانی صاحبکے قبرستان دفن کرنے جارہے تھے جبکہ ہم صرف آٹھ لوگ تھے جن میں تین شہر بانو کی شاگرد تھیں ، ہم ملاکر پانچ مرد تھے اور جب ہم نے اس کا جنازہ اٹھایا تو لگتا تھا کہ کوئی بھی تو اس چارپائی پر نہیں ہے ، بہت ہلکی پھلکی تھی ، اور مجھے وہ رات یاد آنے لگی تھی جب شہربانو نے مجھے کہا تھا کہ عامی ! یہ جو طاہرہ تھی نا ، اس کی روح کی پرواز اس قدر بلند تھی کہ اس بلندی تک پہنچنا کسی کے بس کی بات نہیں تھی ، یہ چیزوں کو جیسے دیکھ رہی تھی ، وہآں تک دیکھنے کےلئے جس بلند نگاہ کی ضرورت تھی وہ اس سماج میں بہت کم لوگوں کے پاس تھی ، طاہرہ کو ان لوگوں سے کوئی گلہ نہیں تھا ، وہ ان کو معذور خیال کرتی تھی خود شہر بانو کا بھی حال یہ تھا کہ وہ اپنے بابا ملّا تقی زادہ اور اپنے بھائیوں کا زرا بھی گلہ نہیں کرتی تھی ، کہا کرتی تھی کہ وہ ان کو معذور خیال کرتی ہے ، وہ اپنے اوپر طعن تشنیع کے تیر چلانے والوں کو بھی برا بھلا نہ کہا کرتی تھی ایک مرتبہ کہا کہ طاہرہ جیسی روح عشق کے اکمال سے سرفراز ہوتی ہیں ، اس لئے ان کو کوئے یار کے بعد اگر کوئی چیز مناسب معلوم ہوتی ہے تو وہ مصلوب ہونا ہوتا ہے ، کیوں کہ وہ عشق سے باز نہیں آتی اور یہ محتسب و قاضی وقت کے لئے ناقابل برداشت بات ہوتی ہے اور اس لئے پھر اس کو مصلوب کیا جاتا ہے طاہرہ کے ساتھ بھی یہی ہوا ، اس کو پہلے زندان میں قید کیا گیا ، اس کے بعد اس کو نادر شاہ کے دربار میں پیش کیا گیا اور اس بادشاہ نے طاہرہ کو اپنے حرم میں داخل کرنے کی کوشش کی اور بازآنے کو کہا ، لیکن اس نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو ایرانی ملّاؤں نے قرۃ العین طاہرہ کو مرتد قرار دیا اور اس کے قتل کا حکم صادر ہوا ، اسے ایک باغ میں لیجاکر گلہ گھونٹ کر شہید کردیا گیا اور وہیں گمنام جگہ پر دفن کردیا گیا ، کیونکہ ملّاؤں کو خطرہ تھا کہ " طاہرہ " کی قبر مرجع الخلائق بن جائے گی علامہ اقبال نے جاوید نامہ میں " نوائے طاہرہ " کے عنوان سے ایک نظم لکھی اور اس میں ایک جگہ انھوں نے یہ اشعار لکھے
آخر از دارودسن گیرد نصیب برنگرود زندہ از کوئے حبیب جلوہ او بنگر اندر شہر دشت تانہ پنداری کہ از عالم گزشت در ضمیر عصر خود پوشیدہ است اندریں خلوت چساں گنجیدہ است
جو بھی کوئے حبیب سے نکلتا ہے تو وہ زندہ نہیں رہتا ، دار ورسن اس کا نصیب ہوتا ہے ، اس کا جلوہ شہر دشت تک دکھلائی دینے لگتا ہے اور ایک عالم اسے چھپانے کی کوشش کرے نہیں چھپتا ، وہ تو ضمیر عصر میں پوشیدہ ہوتا ہے اور خلوت و جلوت میں اس کی رونمائی ہوتی ہے میں نے جب شہر بانو کی قبر کا کتبہ بنوایا تو یہی اشعار علامہ کے اس پر کندہ کروائے ایک مرتبہ میں ، ہما علی ، اور یزدانی مرا ایرانی دوست کراچی سے لاہور آئے اور ایک شام ہم شہر بانو سے ملنے گئے تو شہر بانو نے ہمیں بتایا کہ آج اس نے ہمیں Jacklenz کی فلم Mona ,s Dream مونا کا خواب دکھانے کا اہتمام کیا ہے اور یہی ہماری ٹریٹ ہے ، ہم نے یہ فلم پروجیکٹر کے زریعے سے دیکھی جو کہ " شہر بآنو " اپنی ایک کولیگ سے مستعار لیکر آئی تھی ، اس ميں ہم پہلی بار افشین نین ناز جام سے متعارف ہوئے ، جس نے اس فلم میں قرۃ العین طاہرہ کا کردار نبھایا تھا اس دن شہر بانو نے ہمیں ان ڈراموں اور پلے کے بارے میں بتایا جو "زریں گل قرۃ العین طاہرہ " پر لکھے گئے اور ان میں ہی ایک پلے پولش ، سوویٹ رائٹر Isabella Grnevoskaya
کا تھا اور اس کی تعریف لیوٹالسٹائی نے بھی کی تھی اور یہ 1904ء میں سینٹ پیترس برگ روس کے ایک تھیڑ میں دکھایا گیا اور پھر 1916ء اور 1917ء میں بھی اسے دکھایا گیا تھا ، اور یہ وہ دور تھا جب روس کی فضا انقلاب کے نعروں سے گونج رہی تھی اور قرۃ العین طاہرہ کی زندگی پر بنے اس کھیل نے اس انقلابی فضا پر اپنا ہی اثر چھوڑا تھا فلم " مونا کا خواب " اصل میں ایرانی بہائی خاتون " مونا محمودی نژاد " کی زندگی پر بنائی گئی تھی ، مونا محمودی نژاد 10 ستمبر 1965ء میں یمن کے معروف شہر عدن میں پیدا ہوئی تھيں اور ان کو 1983ء میں ایرانی ملائیت نے دوسری نو بہائی عورتوں کے ساتھ سزائے موت سنائی اور پھر شیخ سعدی کے شہر شیراز میں ان کو ایرانی بچوں کو گمراہ کرنے کے جرم میں سزائے موت سنادی گئی تھی ، مونا کا خواب کیا تھا ، اس کے لئے ہمیں قرۃ العین طاہرہ زریں تاج کے خوابوں کی تلاش کرنا ہوگی اور ان خوابوں کے نشان ہميں قرۃ العین طاہرہ کے خطوط میں ملے گا - --- ایسا ہی کہا تھا اس روز شہر بانو کے گھر اس فلم " مونا کا خواب " ميں ایک منظر علی آباد شیراز کی اس جیل کا تھا جو پاسداران انقلاب کی سپاہ کا تھا اور اس سپاہ کے اس بندی خانے میں " مونا محمدی نژاد " کو لٹاکر ایک المونیم کی موٹی تار سے اس کے پیروں پر ضربیں لگائے دکھایا جاتا ہے ، مونا اور دیگر نو عورتوں پر سپاہ انقلاب کے سپاہی تشدد کرتے ہوئے ، ایک ہی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مان لیں کہ اصل میں وہ صہیونیت کی ایجنٹ ہے اور بہائی مذھب ایران ميں صہیونیوں کی پراکسی ہے
زرا ان خواتین کے نام بھی پڑھ لیں جو سپاہ انقلاب کے ہاتھوں پھانسی چڑھ گئیں تھیں
نصرت یلدہ عمر 54 سال عزت جمانی ، عمر 50 سال رویا اشراقی بیٹ؛ عزت جمانی اشراقی کی ،عمر 22 سال طاہرہ سواشی عمر 32 سال زرین مقیمی ، عمر 28 سال شریں دلوند ، عمر 25 سال اختر ثابت ، عمر 19 سال سمین صابری عمر 20 سال ماہ شید نرومند ، 28 سال یہ سب خواتیں اس زمانے کی قرۃ العین طاہرہ تھیں ، جو ملائیت اور تکفیریت کی بھینٹ چڑھ گئی تھیں ، یہ ایران کی تاریخ کا تاریک ترین دن تھا Constance Faunt Le Roy Runcie امریکی ادیب ، موسیقار اور کمپوزر تھیں ، جس نے 8136 ء میں جنم لیا اور اس کی وفات 1911ء میں ہوئی ، اس کا مطلب ہے کہ وہ " قرۃ العین طاہرہ " کی ہم عصر تھی اور اس نے " باب کی تحریک " کے آغاز ، عروج اور اس کے سارے اہم واقعات کو اس زمانے میں دیکھا ہوگا اور وہ بھی باب کی تحریک کے اندر موجود فیمنسٹ بیجوں سے متعارف ہوئی ہوگی اور قرۃ العین طاہرہ کے کردار نے اسے بھی متاثر کیا ہوگا ، اس کا ناول باب اس کی عکاسی کرتا ہے اور اس میں زریں گل کا کردار بہت نمایاں ہے ہما علی نے اس شام ہمیں چند اشعار ترنم کے ساتھ سنائے تھے ، آپ بھی ان سے لطف اٹھائیں
قرۃ العنیم بیا اندر نوا بانواھای نوای نینوا تاربائی جملہ زرات نور ریزی از اشراق وجھی نار طور جان من برخیز باشور و شرر درنگر ہا چشم ساقی درنگر کو فتادہ جملہ زراتیان درفعید وحدہ اما صعقیان خیز از جانور چشم انظرم یاب ایشاں را بجذب اقدرم تابکی در قعر باشی طرحیہ تابکی مانی تو سر خافیہ
اور ایک جگہ قرۃ العین طاہرہ اپنی حضوری کا زکر کرتی اور ہردم بس اسی کے مقصود ہونے کا تذکرہ کرتی نظر آتی ہیں ، سرمستی عشق میں طاہرہ کے کہے ہوئے ان اشعار کو ملاحظہ کریں
باختہ جاں بولايش ھمہ شاھد باشید ایستادہ بوفایش ھمہ شاھد باشید روز اول کہ رسیدم بمقام ازلی محو بنمودہ سوایش ھمہ شاھد باشید دورھا کوز دہ ایں چرخ مدور حین ایستادم بوفايش ھمہ شاھد باشید ' قرۃ العین نگر با نظر پاک صفی کیست منظور بھایش ھمہ شاھد باشید
علامہ اقبال نے جاوید نامہ میں قرۃ العین طاہرہ کو اس طرح سے خراج تحسین پیش کیا تھا سوز و ساز عاشقان دردمند شورہای تازہ در جانم فکند اہل درد عاشقوں کے پر سوز ہنگاموں نے میری جاں میں نئے ہنگامے برہا کردیے مشکلات کہنہ سر بیرون زدند باز بر اندیشہ ام شبخون زدند پرانی مشکلات نے اپنا سر اٹھا لیا اور ایک مرتبہ پھر میری فکر پر شب خون مارا قلزم فکرم سراپا اضطراب ساحلش از زور طوفانی خراب میری فکر کا سمندر پوری طرح طوفان خیز بن گیا اور طوفان کی شدت سے اس کا ساحل خراب ہو گیا گفت رومی "وقت را از کف مدہ اے کہ می خواہی کشود ہر گرہ رومی نے کہا جو اپنی ہر مشک کا خواہاں ہے ، تو وقت کو ہاتھ سے نہ جانے دے چند در افکار خود باشی اسیر "این قیامت را برون ریز از ضمیر تو کب تک اپنے افکار میں اسیر رہے گا۔ضمیر کا یہ بوجھ باہر گرا دے اور احمد فراز کی کتاب " اے عشق جنوں پیشہ " میں قرۃ العین طاہرہ کی شاعری سے متاثر ہوکر ایک غزل موجود ہے جو انھوں نے اس کی ہی نذر کی ہے نذرِ قرۃ العین طاہرہ تجھ پہ اگر نظر پڑے تُو جو کبھی ہو رُو برو دل کے معاملے کروں تجھ سے بیان دو بدو ہے تیرے غم میں جانِ جاں آنکھوں سے خونِ دل رواں دجلہ بہ دجلہ یم بہ یم چشمہ بہ چشمہ جُو بہ جُو قوسِ لب و خُمِ دَہن، پہ دو زلفِ پُر شکن غنچہ بہ غنچہ گُل بہ گُل لالہ بہ لالہ بو بہ بو دامِ خیالِ یار کے ایسے اسیر ہم ہوئے طبع بہ طبع دل بہ دل مہر بہ مہر خو بہ خو ہم نے لباس درد کا قالبِ جاں پہ سی لیا رشتہ بہ رشتہ نخ بہ نخ تار بہ تار پو بہ پو نقش کتابِ دل پہ تھا ثبت اُسی کا طاہرہؔ صفحہ بہ صفحہ لا بہ لا پردہ بہ پردہ تو بہ تو شیشۂ ریختہ میں دیکھ لعبتِ فارسی فرازؔ خال بہ خال خد بہ خد نکتہ بہ نکتہ ہو بہ ہو (احمد فراز) (اے عشق جنوں پیشہ، ص106) مجھے تحریر کی طوالت کا ڈر نہ ہوتا تو اور بھی بہت کچھ اس حوالے سے اپنے قاری کی نذر کرتا لیکن طوالت سے کہیں مرے قاری گبھرا کر پڑھنا ترک نہ کردیں اور لکھنے کا مقصد فوت ہوجائے ، اپنے خیالات کے آگے بند باندھنے کی کوشش میں لگا ہوا ہوں یہ بھی بتاتا چلوں کہ کچھ عرصہ پہلے جب میں نے حیدر جاوید سید کے گھر شیخوپورہ حاضری دی تھی تو ان کے ریڈنگ روم جو ان کا بیڈ روم بھی ہے میں قرۃ العین طاہرہ پر لکھی ایک کتاب جو کراچی میں بہائی اشاعت گھر نے شایع کی تھی پڑھی تھی اور اس رات ایک نشست میں شاہ جی کے کتب خانے سے یہ فیض میں نے حاصل کیا تھا اور ساری رات تخیل کی پرواز کبھی مجھے شہر بانو کی قبر اور کبھی ہما علی کی قبر تک لیجاتی تھی اور اس کتاب کے کئی ایک پیراگراف ميں نے ان دونوں کو سنائے تھے مجھے یقین ہے کہ ایسے میں خود " طاہرہ " ، مونا محمودی نژاد اور اس کے ساتھ نو شہیدان وفا بھی موجود ہوں گی اور وہ سب سن رہی ہوں گی ابھی کچھ روز پہلے میں نے بیگم نگہت خان کا ایک سٹیٹس اپ ڈیٹ دیکھا جس میں انھوں نے کسی کانفرنس میں جانے کا زکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اس کے بعد پاکستان کے اندر فیمنسٹ تحریک پروجیکٹ میں بدل گئی تھی اور حقیقی پولیٹکل ایکٹو ازم گم ہوگیا تھا اور اس پر ان کو بہت افسوس تھا ، مجھے نئی نسل کی خواتین اور لڑکیوں سے امید ہے کہ وہ مرد شاؤنزم ، طبقاتی تفریق اور عورتوں کی آزادی کے لئے اس سیاسی ایکٹوازم کو پھر سے زندہ کریں گی ، میں نے سوشل ميڈیا پر دیکھا ہے کہ نوجوان عورتیں میل شاؤنزم ، عدم مساوات اور رجعت پسندی کے خلاف بہت بہادری سے سٹیٹس اپ ڈیٹ کرتی ہیں اور کام کی جگہوں پر بھی ان ميں بیداری کے آثار ہيں ، یہ بہت زیادہ تو نہیں پھر بھی امید کی ایک کرن کے نظر آنے کی مانند ہے حیدر جاوید سید نے کہا کہ جب قرۃ العین طاہرہ پر ان کا کالم چھپا تو ایک مولوی نے ان کو فون کرکے کہا کہ " اس نے بہت کوشش کی کہ کہيں سے ان پر گرفت کرلے لیکن افسوس حیدر کی بین السطور بات کہنے کے فن پر گرفت نے ان کو ایسا موقعہ فراہم نہیں کیا ، ایرانی ملّا کو اپنا قبلہ و کعبہ ماننے والے اس ملّا نے ٹھنڈے پیٹوں " طاہرہ " پر ایک سید زادے کا قلم اٹھایا جانا برداشت نہیں کیا ہوگا ، کیونکہ اس کے بزرگوں نے تو 1852ء میں طاہرہ کو زندیق قرار دیکر پھانسی دی اور اس کے ایک سو اکتیس سال بعد " طاہرہ " کی روش اختیار کرنے والی " مونا " اور نو عورتوں کو پھانسی دے ڈالی تھی اور آج بھی ایران میں قرۃ العین طاہرہ یا مونا کا تذکرہ سنگین جرم ہے مسلم سماج کے اندر عورتوںکی آزادی کا سوال ایک گرم ایشو ہے ، ہمارے ہآں آسیہ بی بی جیسے کردار ناکردہ گناہوں کی پاداش میں پھانسی کے تختے سے چند قدم کے فاصلے پر ہیں اور اگر کوئی " قرۃ العین طاہرہ " بننے کی کوشش کرے گی تو اس کا حشر کیا ہوگا میں اس موقعہ پر عصر حاضر کی ایک اور قرۃ العین طاہرہ کا زکر بھی کرنا چاہتا ہوں اور اس عید پر اسے بھی یاد رکھنا چاہتا ہوں اور وہ ہے وہ افغان عورت جسے کابل کی سڑک پر پتھر مار مار کر سنگسار کیا گیا اور جب افغانستان کے مردوں نے اس کے جنازے کو اٹھانے سے انکار کیا تو افغان عورتوں نے آگے بڑھکر جنازہ اٹھایا اور ثابت کیا عاشق کا جنازہ ہے زرا دھوم سے نکلے
افغانستان کی ملائیت کو سانپ سونگھ گیا ، میں منتظر ہوں کہ پاکستان کی عورتیں کب آسیہ کے لئے شہر ، شہر ، گلی ، گلی ، کوچہ ، کوچہ نکلیں گی اور آسیہ کی رہائی کا مطالبہ کريں گی ؟
آپ کو معلوم ہے کہ بحرین میں بھی عورتوں کی ایک بڑی تعداد آزادی اور حقوق کے لئے میدان مين ہے ، ان ميں خواجہ سسٹرز کا کردار بہت اہم ہے اور ایک نوجوان شاعرہ جس کی نظم " خلیفہ " نے قصر بحرین کے ستون ہلاڈالے ہیں ، اس نازک ، دھان پان لڑکی شاعری سے آل خلیفہ جتنی ڈرتی ہے اتنی کسی اور سے نہیں ، تبھی تو عورتوں سے بحرین کی جیليں بھری پڑی ہيں شام ميں کوبانی اور ديگر علاقوں ميں کرد عورتیں داعش کے خلاف سینہ سپر ہیں اور بزدل داعش والے یرغمال بنی عورتوں کو رقہ کے بازاروں ميں فروخت کررہے ہيں ،مڈل ایسٹ ، جنوبی ایشیا ، شمالی افریقہ کے مسلم سماجوں ميں عورتوں کو دوھری ، تہری مشکلات کا سامنا ہے اور پھر بھی استطاعت کے مطابق مزاحمت سامنے آرہی ہے ، ان کی آزادی کو یرغمال بنانے والی ملائیت ، تکفیریت ، کسی کی خلافت اور کسی کی بادشاہت اور کسی کی ولايت جتنی آج بے نقاب ہوئی ہے ، اتنی پہلے کبھی نہیں تھی ، اس لیے " طاہرہ " جیسے کرداروں کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے پاکستان میں عورتوں کی تحریک کے لئے "قرۃ العین طاہرہ " ایک عمل انگیز کا کام کرسکتی ہیں اور اس عید پر ہوئی قرۃ العین طاہرہ ، شہر بانو ، ہما علی ، شہر زاد ، مونا محمودی نژاد ، رویا اشرقی جیسی عورتوں سے ملاقات میں مجھے یہی پیغام ملا ہے ، یہ عید اس خواب کے نام جسے دیکھنے کی پاداش میں کئی طاہرہ اور کئی مونا مصلوب ہوگئیں

Tuesday 2 June 2015

بھگوڑا کامریڈ


پاش کی طویل نظم کامریڈ نال گل کی افسانوی تشکیل
نوٹ : رازق بگٹی بی ایس او کے مرکزی صدر بھی رہے اور وہ ایک زمانے تک معروف کرانتی کاری تھے ، پھر مشرف دور میں وہ بلوچ حکومت کے مشیر مکرر ہوگئے اور ان کے ہاں کرانتی کاری بارے نظریات بھی بدل گئے ، ایک دن وہ ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے اور ایک بلوچ گوریلا گروپ نے ان کی ھتھیا کی زمہ داری قبول کرلی ، یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ کسی مظلوم قوم کا کوئی فرد کرانتی کاری بنا ہو اور بندوق اٹھاکر ریاست سے لڑنے چلا گیا ہو اور پھر وہ ھتیھار ڈال کر پرامن سیاسی جدوجہد کا داعی بن جائے اور اس کو اس کے بعض پرانے کامریڈز غدار نہ کہیں ، الجزائر میں جب چینیوا اچیبے کے قبیلے نے اپنے علاقے کو الجزائر سے آزاد کرانے کے لئے لڑی جانے والی گوریلا وار میں ھتیار اٹھانے کے بعد ایک خاص وقت میں مسلح جدوجہد ترک کی تو ان پر انقلاب سے غداری کے فتوے لگے ، پاش سندھو نے بھی مشرقی پنجاب کو آزاد سوشلسٹ ریاست بنانے کے لئے نکسل باڑی تحریک کو جوائن کیا ، بندوق اٹھائی اور پھر رکھ دی اور ماو واد راستہ ترک کردیا تو اسے بھی غدار کہا گیا اور ایک دن اس کو گولی مار کر قید حیات سے نجات بھی اس کے اپنے کامریڈز نے دلائی نہ جانے کسی کو حزب المجاہدین کے کمانڈر اور سربراہ عبدالمجید ڈار بھی یاد ہیں کہ نہیں کہ جنھوں نے مشرف دور میں سیز فائر بند کرنے اور کشمیر کا ایشو بات چیت سے حل کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بندوق رکھ دی تو ایک دن اپنے گھر کے برآمدے میں ان کو گولیاں مارکر ھلاک کردیا گیا ، یہ سارے کردار مرے زھن میں تھے اور پاش کی نظم " کامریڈ دے نال گل " نے مجھے ان کرداروں کی ایک جھلک اپنی کہانی میں دکھانے پر مجبور کیا - عامر حسینی
رازق حسب معمول تربت کے مرکزی بازار سے کھانے پینے کی اشیاء لینے کے لئے گھر سے نکلا تو تھوڑا ہی فاصلہ طے کرپایا تھا کہ ایک شخص ساتھ والی پتلی سی گلی سے نکلا اور اس نے فوری طور پر رازق کو ایک کاغذ پکڑایا اور خود واپس اسی گلی میں غائب ہوگیا جہاں سے اچانک وہ نمودار ہوا تھا رازق ہکا بکا کھڑا تھا ، تجسس کے ھاتھوں مجبور ہوکر اس نے کاغذ کھولا تو اس میں ایک عبارت لکھی تھی رازق ! تم سے ملنا ہے ، آوران چلے آنا ، آگے ہمارے لوگ تمہیں ہم تک پہنچادیں گے مکتوب از بالاچ رازق اس طرح کی پیغام رسانی سے بخوبی واقف تھا اور اسے زرا بھی حیرت نہیں تھی کہ خط کے شروع اور آخر میں کہیں بھی اس کو " لال سلام " نہ لکھا گیا تھا ،بھلا ایک بھگوڑے کو لال سلام کیوں لکھا جاتا ،لیکن یادوں کا ایک ریلہ اس کے دل و دماغ پر فلم کی طرح چلنے لگا تھا وہ اور بالاچ پہلی مرتبہ " مست توکلی سائیں " کے میلے میں ملے تھے جو ہرسال تربت میں ہوتا تھا ، رازق اپنے والد علی بخش بلوچ کی انگلی پکڑے ایک سٹال کے پاس رکا تو اس کی نظر ایک رنگلے مٹی کے گھوڑے پر جمی تھی جوکہ ایک اور لڑکے کو اس کا باپ دلوارہاتھا ، رازق نے اپنے بابا کو کہا کہ یہ گھوڑا ہر صورت اس کو چاھہیے اور یہ الفاظ اس نے اسقدر زور سے بولے کہ اس لڑکے کو بھی سن گیا ، اس لڑکے نے رنگلا گھوڑا خرید تو لیا اور پھر تحفے میں وہ رازق کے سپرد کردیا اور یوں بالاچ کے ایثار سے رازق اور بگتی رشتہ دوستی میں بندھ گئے آج بہت برسوں بعد بالاچ کا پیغام ملا تو بچپن ، لڑکپن اور نوجوانی میں بیتے دنوں کی یادوں نے اس کو گھیر لیا وہ اور بالاچ ایک ساتھ ہی پھر اسکول داخل ہوئے ، وہاں سے کالج میں داخلہ اکٹھے کیا اور پھر وہاں سے میڈیکل کالج تک کا سفر بھی اکٹھے کیا اور دونوں کی شروع دب سے سیاست ، بلوچ قوم پرستی سے تعلق جڑھ گیا اور ابھی مارکسزم زرا دور تھا پھر ڈاکٹر شاہ ملے اور انہوں نے کارل مارکس ، اینگلس ، ولادیمیر لینن کی چاٹ لگائی رازق کو یاد آنے لگا کہ کیسے اس نے اور بالاچ نے اینگلس کی مالکی ، خاندان اور ریاست اکٹھے پڑھی تھی ، یہ کوئی حسن اتفاق تھا یا کوئی خون خوار اتفاق ، اب وہ ٹھیک سے کچھ کہہ نہیں سکتا تھا مگر اسے اتنا یاد تھا کہ اس کتاب کو پڑھتے دونوں کو ملکیت سے نفرت ہوچلی تھی اور دونوں ہی ریاست جس کی بنیاد مالکی پر ہو کو مٹانے کی خواہش رکھتے تھے اور اینگلس کے ہاں جب مزدروں ، کسانوں اور دیگر مظلوم و کچلے و پسے ہوئے گروپوں کی ایکتا کا زکر آیا تھا تو ان کو ایسے لگا تھا جیسے یہ ایکتا وہ دونوں بنانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں پھر ایک دن وہ دونوں ریاست کو مکانے کے لئے پہاڑوں پر مورچہ زن سرمچاروں کے ساتھ جاملے تھے ، ایک جوش تھا جو دونوں کو وہاں لے گیا تھا لیکن رازق کو کچھ ماہ بعد ہی بندوق کی نالی کے زریعے سے ریاست مکانے کا خواب یوٹوپیا لگنے لگا تھا ، پہلے پہل تو وہ کھویا ، کھویا رہا ، پھر اس نے اپنے احساسات بالاچ سے شئیر کئے ، لیکن اس نے کہا کہ وہ واپس جانے کا نہ سوچے وگرنہ مفت میں مارا جائے گا ماردئے جانے کی دھمکی اسے لطیفہ ہی لگی ، کیونکہ وہ تو پہلے ہی فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑے کئے جانے جیسی صورت حال سے دوچار تھے اور کسی بھی وقت کوئی گولی آکر کسی بھی سمت سے کسی کا بھی کام تمام کرسکتی تھی تو پھر ایک دن منہ اندھیرے وہ سرمچار کیمپ سے بھاگ نکلا تھا اور چپکے سے کئی برس وہ پہلے دبئی ، پھر مسقط اور اس کے بعد کئی سالوں تک جرمنی رہا تھا ، اس دوران بھٹو کو پھانسی ہوگئی ، پہاڑوں پر جانے والے سرمچار افغانستان چلے گئے اور پھر وہاں سے واپس بلوچستان اسلام آباد کے فراہم کردہ ھیلی کاپٹرز اور طیاروں میں آئے اس دوران وہ واپس تربت چلا گیا اور جب اپنے گاوں پہنچا تو نئے مسائل اس کے سامنے کھڑے تھے ، بالاچ اور اس کے والد اور بھائیوں کو فوج لیکر گئی تھی اور پھر کسی نے بتایا کہ قلی کیمپ میں ان کو ازیتیں دیکر ماردیا گیا اور لاشیں کئی اور لاشوں کے ساتھ اجتماعی قبر میں دفنادی گئیں تھیں ، پیچھے بالاچ کی ماں تو بالکل اکیلی ہوگئی تھی جبکہ رازق کی ماں کے پاس اس کو سنبھالنے کے لئے فرزانہ موجود تھی جسے وہ پیار سے گڈو کہتا تھا رازق بالاچ کے گھر پہنچا تو گھر کی ویرانی اسے کاٹ کھانے کو دوڑی تھی ، ایک چارپائی پر بالاچ کی ماں لیٹی ہوئی تھی ، اس نے جب اماں سموں کو پکارا تو کہنے لگی بالاچ تم آگئے ، دیکھو یہ وردی والے تمہارے بابا اور زاھد کو لیکر گئے ہیں ، کہتے ہیں کہ بالاچ غدار اور دہشت گرد ہے ، زرا ان کو جاکر بتاو کہ تم کوءی دھشت گرد تھوڑا ہی ہو ، تم تو ڈاکٹر ہو جو قوم کی مسیحائی کرے گا ، رازق اماں سموں کی یہ بات سنکر ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا تھا ، اس کی آمد کے ایک ہفتے کے اندر اندر اماں سموں چل بسی تھی اور اسے آخری وقت تک اپنے شوہر اور گمشدہ بیٹے بلکہ کسی گمنام قبر کا حصہ بن گئے باپ ، بیٹے کی آمد کا انتظار تھا اس نے معلوم کیا کہ بالاچ کے ساتھ کیا بنی تو معلوم پڑا کہ اس نے ضیاء الحق کے بھیجے طیارے میں واپس جانے سے انکار کیا اور فیصلہ کیا کہ سرمچاروں اور بلوچ جدوجہد کو پھر سے سرمچاروں کی لڑائی میں بدل دے گا ، وہ کابل میں تھا اور وہاں آنے والے بلوچوں کی تربیت میں لگا ہوا تھا ، اس نے کسی نہ کسی طرح سے بالاچ کو سارے حالات لکھکر بھیجنے کا انتظام کرلیا بالاچ کا اسے جواب موصول ہوا اے بلوچوں کی بہادری پر داغ بن جانے والے اے عین جنگ میں پیٹھ دکھاکر ، رات کی تاریکی میں فرار ہونے والے اور آگے بہت کچھ تھااس نے بالاچ کو ایک جوابی خط لکھا کامریڈ ! ایک غدار سرمچار کی جانب سے سرخ نہ سہی زرد سلام قبول کرو تم کیا جانو کہ اس دور کی دیگ میں کتنے وقت بیک وقت ابل رہے ہیں ، اور اس پرندے میں جو گولی کھانے کے بعد لڑھکتا ہوا زمین پر آگرا ہے کیسے نیلا امبر آسمان جم سا گیا ہے تمہارے ہاں بورژوازی جیسے لفظوں کی جگالی دیکھ کر مجھے کچھ حیرانی نہیں ہوئی ، تمہیں کیا معلوم کہ یہ بورژوازی ، سرمایہ داری پرانی شراب جیسی ہوگئی ہے جو بیت تیز اور سریع الاثر ہوا کرتی ہے اور میرے اور تیرے جیسے سابق اور حاضر سروس سرمچار گوشت کے اس ٹکڑے کی مانند جس پر بورژوازی شراب کے چند قطرے گریں تو فوری طور پر گل سڑجائیں -کامریڈ ! تمہیں شاید خبر نہیں ہے کہ اس دن جو قاصد تربت سے آیا تھا ، میں نے اس کی ساری باتیں سن لیں تھیں کہ ہمارے پہاڑوں پر چلے آنے کے بعد کیسے خفیہ والے تمہارے گھر کے سب مردوں کو لے گئے تھے اور کسی ایک کا بھی پتہ نہیں چلا ، جبکہ تمہاری ماں اکیلی پہاڑ جیسا جیون کاٹ رہی تھی اور مجھے بھی اپنی بہن گڈو اور ماں کی یاد ستانے لگی تھی ، مجھے لگتا تھا کہ جیسے ان سب کی مصبیتوں کا سبب میں ہوں ، ویسے بھی جس دن میں نے وہاں آر سی ڈی شاہراہ پر ایک بس سے اتارکر مزدوروں کو گولیاں کھاکر مرتے ہوئے دیکھا تھا تب سے میرا وشواس اس گوریلا جنگ کی افادیت سے اٹھ سا گیا تھا ، راتوں کو مجھے وہ مزدور خون آلود کپڑوں کے ساتھ مرے گرد گھومتے دکھائی دیتے تھے ، میں بھگوڑا ضرور ہوں کامریڈ ! مگر میں کسی میدان جنگ سے بھاگ جانے والا بھگوڑا نہیں ہوں بلکہ ایک پاگل خانے سے فرار ہوجانے والا ساتھی ہوں اور تمہارے ساتھی مجھے مارنے کے لیے بالکل وردی والوں کی طرح ڈھونڈتے رہے اور میں نے پھر بھی کسی قسم کی دشمنی ان سے محسوس نہیں کی ، کئی بار وردی والوں نے مرے زریعے سے تمہیں ڈھونڈ نکالنے کی کوشش کی لیکن میں نے کسی ایک کو بھی تمہارا سراغ لگنے نہیں دیا ، تمہیں میں ایک بھگوڑا لگتا ہوں لیکن کبھی تم سے ملاقات ہوئی تو بتاؤں گا کہ تمہارا میدان جنگ میں کھڑا رہنا اور میرا پیٹھ دکھاجانا دونوں ہی ٹھیک تھے لیکن جانتا ہوں تم کبھی سمجھ نہیں سکو گے ، کیوں کہ تم تو ایک ہی مینی فیسٹو سے واقف ہو اور وہ ہے " کمیونسٹ مینی فسٹو "، لیکن تمہیں بتاؤں کہ گھر آکر پہاڑوں سے اتر کر مجھے معلوم پڑگیا کہ مینی فیسٹو ایک نہیں کئی ہوتے ہیں اور ہر ایک کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں ، اسی لیے اب مجھے سرمچآریوں کے خفیہ اسکولوں سے کہیں زیادہ " سماج " بارے باتیں وہ لوگ سکھارہے ہیں جو روز زندگی کے عذاب کو پورے جوبن سے بھگتے ہیں ، میں معافی چاہتا ہوں کہ مجھے اتنی سخت باتیں لکھنا پڑیں لیکن کبھی خود کو مری جگہ رکھکر سوچوگے تو تمہیں پتہ لگ جائے گا کہ غلط میں بھی نہیں تھا اور غلط تم بھی نہیں ہو فقط تمہاری نظر میں ایک بھگوڑا کامریڈ یہ سب لکھکر اس نے خط کو لپیٹا اور واپس الماری میں رکھ دیا اور سوگیا ، اگلے دن وہ بازار میں ایک ہوٹل تک گیا ، یہ واجہ ظفر کا ہوٹل تھا اور اسے معلوم تھا کہ یہ ہوٹل سرمچاروں کے لیے رابطے آفس کا کام کرتا ہے ، وہ ظفر کی طرف بڑھا ، آؤ رازق ، کیا حال ہیں ؟ ظفر کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ تھی جب اس نے رازق کو اپنی جانب آتے دیکھا ، وہ کاؤنٹر کے پیچھے ایک سٹول پر براجمان تھا ٹھیک ہوں واجہ ۔۔۔۔ رازق نے مضمحل سی آواز میں جواب دیا اور غیر محسوس طریقے سے خط اس کی جانب کاؤنٹر کے نیچے سرکادیا اور ہلکی سی آواز میں کہا کہ بالاچ تک پہنچا دینا اور پھر اونچی آواز میں کہا کہ واجہ ! ایک پیالی قہوہ کی پلادو یہ کہہ کر رازق تھوڑے فاصلے پر پڑے بینچ پر بیٹھ گیا اور تھوڑی دیر بعد واجہ ظفر کے بھتیجے طارق مراد نے اس کو قہوہ کی پیالی پکڑادی لیکن اس کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات تھے جیسے وہ بادل ناخواستہ یہ خدمت سرانجام دے رہا ہو ، رازق اس کے چہرے کے بکڑے تاثرات دیکھکر پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ٹھنڈی سانس بھرنے لگآ ، اس نے جلدی جلدی قہوہ کے گھونٹ لئے اور پھر تیزی سے ہوٹل سے باہر نکل گیا وہ گھر جانے کی بجائے ویسے ہی تربت کے ہموار اور ناہموار راستوں پر چلنے لگا ،اس کے ذھن میں کزرے وقت کی یادیں آندھیوں کی طرح چل رہی تھیں ، اس کو یاد آیا کہ جب وہ واپس لوٹا تھا تو دوسرے ہی دن سادہ لباس میں اور چند خاکی وردیوں میں ملبوس لوگ اس کے محلے میں آکر اس کے گھر کے سامنے رک گئے تھے اور انھوں نے اسے گریبان سے پکڑکر ٹرک میں بیٹھا لیا تھا اور اس کی آنکھوں پر پٹی باندھی اور جب پٹی اتری تو اس نے اپنے آپ کو ایک اندھے غار کی طرح کے کمرے میں پایا تھا اور وہاں پر پہلے تو اس سے نرمی سے اس کے باقی ساتھیوں کے ٹھکانوں کے بارے میں پوچھا گیا ، پھر جب اس نے انکار کیا کہ وہ تو بس افغانستان سیر کے لیے نکل گيا تھا اور اس کا کوئی تعلق سرمچاروں سے نہیں ہے تو اس پر تشدد کی انتہا کردی گئی تھی ، وہ چھے ماہ اذیتیں سہتا رہا ، آخرکار اس کو لانے والوں کو یقین آگیا کہ اس کے پاس بتانے کے لیے کچھ نہيں ہے تو اسے چھوڑ دیا گیا لیکن اس دوران خفیہ والے اس کے پیچھے سائے کی طرح لگے رہے کہ دیکھیں کس سے ملتا ہے اور کس سے نہیں لیکن وہ کس سے ملتا ، اس کے سب جاننے والے تو اس سے نفرت کرنے لگے تھے ، آن کے خیال میں رازق ایک بھگوڑا تھا جس نے اپنی قوم کے گوریلوں سے غداری کی اور جب جنگ عروج پر تھی تو میدان سے بھاگ آیا تھا جب وہ گھر واپس لوٹا تھا تو اس نے اپنے کمرے کو بسی حالت میں پایا جیسا چھوڑ کر گیا تھا ، اس کی چھوٹی بہن فرازانہ جسے وہ پیار سے گڈو کہتا تھا نے اس کے کمرے کو صاف ستھرا رکھا تھا ، لکڑی کی ایک میز جو اس کی چارپائی کے سرہانے کے ساتھ لگی تھی اس پر ٹائم پیس اور اسکی ایک تصویر جو بالاچ کے ساتھ تھی ویسے ہی دھری ہوئی تھی لیکن اس کے کمرے میں سرخ جلدوں والی ایک بھی کتاب موجود نہیں تھی اس نے گڈو کی طرف منہ کیا اور پوچھا گڈو ! وہ میری کتابیں کدھر گئیں کونسی کتابیں ، مجھے کیا پتہ ؟ گڈو نے اس سے آنکھیں چار نہ کرتے ہوئے ، اٹک اٹک کر بولتے ہوئے کہا ، اس کا لہجہ اس کے لفظوں کا ساتھ نہیں دے رہا تھا دیکھو گڈو !مجھے پتہ ہے کہ پہلے بھی تم ان کتابوں کو اپنے پاؤں تلے چھپانے کی ناکام کوشش کرتی تھیں جب میں پہلے پہل ان کو لیکر آیا تھا اس نے گڈو کی طرف شکائتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا گڈو اس پر ایک دم پھٹ پڑی اور کیا کرتی ان کتابوں کے ساتھ ، گھڑا کھود کر دفنادیا ان کتابوں کو امڑی کہتی ہے کہ ان کتابوں ميں وہ جو گنجا شیطان (لینن ) اور وہ خبیث تھانیدار ( ماؤزے تنگ ) ہیں نا یہی مرے بچوں پر کسی بلا کے مسلط ہونے کا سبب بنے ہیں اور ان کتابوں کی نحوست کی وجہ سے تو ہمارے شہر سے یکے بعد دیگرے نوجوان غائب ہوتے جارہے ہیں ، امڑی کئیں تھیں امام مسجد کے پاس تو انھوں نے کہا تھا کہ ان کتابوں کی نحوست نے پورے محلے پر آسیب کررکھا ہے جتنی جلدی ہوسکے ان کو گڑھا کھود کر دفنا دیا جائے تو میں نے ان کو گراؤنڈ کے پاس ایک گڑھا کھود کر دفنا دیا تھا رازق گڈو اور اماں کی اس سوچ اور حرکت پر ایک مرتبہ تو کافی تلملایا لیکن پھر اس کی ہنسی چھوٹ گئی تھی اور اس نے اس وقت یہ بھی سوچا تھا کہ " گنجے شیطان اور خرانٹ تھانےدار کی کتابیں جو پڑھ لیتا ہے اس کو پھر حریت فکر کے آسیب سے نکالنا بہت مشکل ہوجاتا ہے ، کتابیں دفن کرنے سے فکر تو دفن نہیں ہوجاتی رازق کے لیے وہ دن بڑے صبر آزما تھے ، بالاچ کی ماں اکیلی ایک شکستہ سے مکان میں رہتی تھی اور ہوکے ، ٹھنڈی آہیں بھرتی رہتی تھی ، اس کی بینائی پر اثر پڑا تھا ، اس کا شوہر اور تین بیٹے بالاچ کے جانے کے بعد سرکار کے ہرکارے اٹھاکر لے گئے اور آج تک ان کا کچھ پتہ نہیں تھا ، سنا تھا کہ قلی کیمپ میں وہ رکھے گئے تھے ، بالاچ کو یاد کرتی اس کی ماں نے جب کبھی وہ اس سے ملنے گیا تو اس سے پوچھتی تھی کہ اکیلے کیوں آگئے ہو بالاچ کو بھی لے آنا تھا ، رازق نے گڈو کے زمے لگایا کہ وہ بالاچ کی ماں کی روز دیکھ بھال کرے یہ سب سوچتا ہوا وہ کب واپس گھر کے راستے کی طرف ہولیا اور کب گھر پہنچ کر اپنے کمرے میں آکر لیٹ گیا اس کو خبر نہ ہوئی ، یہ تو گڈو نے اس کو آکر جھنجھوڑا تو اسے گردوپیش کا ہوش آیا ماہ و سال یونہی گزرتے جارہے تھے ، اس نے تربت میں اپنے اوپر اٹھنے والی نظروں سے بچنے کے لیے ایک دن ماں اور بہن کے ساتھ کوئٹہ جانے کے لیے کمر کس لی ، گھر کو تالہ لگایا اور تین افراد کا یہ مختصر سا قافلہ کوئٹہ میں ایک کرائے کے گھر میں منتقل ہوگیا ، اس نے وہاں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کرلی اور ساتھ ہی ایوننگ شفٹ میں کوئٹہ یونیورسٹی میں انگلش ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لے لیا اس کی ماں آنکھوں کے کسی مرض میں متبلاء ہوئی تو وہ اس کی آنکھیں چیک کرانے سول ہسپتال لے گیا ، وہاں آنکھوں کے وارڈ میں جو ڈاکٹر مریضوں کو چیک کررہی تھی جب اس کے کمرے میں ماں کو لیکر وہ پہنچا تو ٹھٹھک کر رہ گيا ، یہ ڈاکٹر سموں تھی ، ان کی بولان میڈکل کالج کی کلاس فیلو اور بالاچ و سموں کی دوستی سارے کالج میں مشہور تھی ، سموں نے بھی رازق کو پہچان لیا ، وہ اماں کو بھی جانتی تھی کیونکہ بالاچ کے ساتھ وہ ایک مرتبہ تربت آئی تھی ، اس نے اماں سے سلام لیا اور اماں نے سموں کے سر پر ہاتھ پھیرا اور دعا دی ، اماں کے چیک اپ کے بعد اس نے رازق اور اماں کو اپنے ایک سرونٹ کے ہاتھ ہسپتال کے ساتھ بنے ڈاکڑز کی کالونی میں اپنے گھر بھجوایا اور کہا کہ وہ بس آدھے گھنٹے تک آتی ہے ، گھر میں سموں کی والدہ بھی موجود تھیں ، اماں سموں کی والدہ سے باتیں کرنے لگیں اور رازق سموں کے ڈرائنگ روم میں دائیں طرف ایک کونے میں پڑی شیلف میں سجی کتابیں دیکھنے لگآ اور کتابیں دیکھتے دیکھتے جب اس نے ایک کتاب زرا سرکائی تو پیچھے سے سرخ جلد کی ایک ڈائری آگے کو گرپڑی اور رازق نے نہ چاہتے ہوئے بھی وہ ڈائری نکالی اور اس کے ورق پلٹنے لگا ، ایک صفحے پر اس کی ںظریں جم گئیں کہ اس صفحے پر ایک خط چپکا ہوا تھا اور خط کی مخاطب سموں تھی پیاری سموں مجھے افسوس ہے کہ میں تمہیں ملے بغیر ہی اس سفر پر جارہا ہوں جس کا کوئی انت نہیں ہے ، مجھے اس بات کا بھی افسوس ہے کہ تم سموں ایک ایسے آدمی کے ساتھ نتھی ہوگئی تھیں جو کسی بھی لحاظ سے مست توکلی نہیں تھا ، میں اس قدر بدنصیب آدمی ہوں کہ تمہارے لیے وہ ںظم کبھی نہ لکھ سکا جو مجھے مکمل مست توکلی نہ سہی کم از کم تھوڑا بہت تو مست توکلی بناہی دیتی میں ایسی نظم لکھنے کا ہمیشہ سے جتن کرتا رہا جس میں بولان کی خوشبو ہوتی اور تمہارے آنچل کی سرسراہٹ کا زکر ہوتا اور کوئٹہ کی سرد جسم کو پتھرا دینے والی ہوا کا زکر ہوتا اور میں تمہیں بھیڑوں کی رکھوالی کرتی اس الہڑ مٹیار کے روپ میں تصویر کرتا جس میں تم بھیڑوں کا دودھ نکالتی اور برتن میں اس دودھ کا جھاگ نقش کردیتا اور تیرے جسم کے اندر جو کچھ میں نے دیکھا اس کو بھی تصویر کرتا اور تیرے چہرے کے خدوخال کی تصویر نقل بمطابق اصل کی طرح ہوتی ، میں اس نظم میں تیرے ہاتھوں کی مسکراتی لیکروں کو نقش کرنا چاہتا تھا ، اور اپنے بازوں کی پھڑکتی مچھلیوں کی تصویر جن سے میں نے تمہیں تھام رکھا ہوتا ، اور تیرے بالوں کی تصویر جن سے مرے بوسے کی خوشبو کی لپٹیں اٹھتی دکھائی دیتيں اور اس نظم میں تیرے اور مرے لیے زندگی کے سارے رنگ ہونے تھے لیکن اس دوران ایک بہت بڑی بدمزہ بات ہوئی اور وہ یہ کہ مجھے اس دنیا کے الجھے ہوئے نقشے میں اپنی دھرتی کی شناخت کو تلاشنا پڑا ، اور مجھے نظم کی تشکیل کو درمیان میں ہی چھوڑنا پڑگیا ، یہ نقشہ جو بہت الجھا ہوا ہے تم جانتی ہو کہ اسے ٹھیک کرنے اور سلجھانے کے لیے بندوق کی سنگین سے کام لینا پڑے گا اور یہ جنگ ہے جس میں اب ہمیں کودنا ہی پڑے گآ ، ایسے میں جب جنگ کا میدان تیار ہو تو پھر محبوب کے لبوں کو چومنے کی خواہش اور اس سے گلے ملنے کی آرزو شدید تو بہت ہوتی ہے لیکن یہ سب ایک مذاق ہی لگتی ہے تو میں ایسا نہیں کرسکا تم نے اور میں نے اپنا گھر بسانے اور اس گھر کے صحن میں کھیلتے اپنے بچوں کو دیکھنے کی خواہش کی تھی لیکن اس خواہش کو اور جنگ میں کود پڑنے کی آرزو کو ایک ہی قطار میں کھڑا کرنا بہت مشکل ہے پیار کرنا ویسا ہی کام ہے جیسے ظلم کو سہتے ہوئے خود کو لڑائی سے زرا پرے رکھنے کی ناکام کوشش کرنا اور پھر بھی آپ لڑائی سے الگ نہیں رہ سکتے ، گولی جسم کے اندر ہو اور یہ خواہش ہو کہ زخم بھرجائے گا ایک ناممکن سی بات کی خواہش کرنا ہے پیار کنا اور لڑسکنا یہی جینے پر ایمان رکھنے کا عملی ثبوت ہے ، جنگ میں دھرتی کی طرح کھڑے ہوجانا اور پھر اپنے آپ کو چیتے کی طرح سمیٹ کر حملے کے لیے تیار کرنا اور بارود کی طرح بھڑک جانا اور پھر ان عدالتوں میں پھٹ جانا جو ظالموں کو قانون کی چھتر چھایہ فراہم کرتی ہیں ، یہی تو جینے کا سلیقہ ہے ، جو ہمیشہ جوڑنے اور جمع کرنے جیسی عارت بد کا شکار ہوں ان کو جینے کا ڈھنگ کبھی نہیں آتا مجھے جینے کی بہت لالچ تھی ، میں گلے تک ڈوب کر جینا چاہتا تھا ، لیکن اب شاید ایسا نہ ہو ، تم مرے حصّے کا بھی جی لینا اور مجھے بھول جانا فقط والسلام تمہارا جو کبھی تھا بالاچ رازق جو اس خط کو پڑھنے میں مگن تھا ، اس کو خبر ہی نہ ہوئی کہ کب سموں وہاں آگئی اور وہ اس کے پیچھے کھڑی تھی ، پھر اس نے اس کو آواز دی تو وہ چونکا اور ہڑابڑا کر ڈائری واپس شیلف میں رکھ دی ، وہ شرمندہ شرمندہ نظر آنے لگا سوری ! مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئیے تھا رازق نے کہا معذرت کی کوئی ضرورت نہیں ، تم نے اچھا کیا جو خود سب کچھ پڑھ لیا اور مجھے تمہیں بتانا نہیں پڑے گا سموں نے کہا لیکن ایک بات تم سے ضرور کہنی ہے کہ سوچو کہ کیا ایک خط میں اس طرح کی باتیں لکھنے سے کوئی اپنے جیون کے سب سے حسین خواب کو بھول سکتا ہے اور کیا کسی کے کہنے سے کی ہی خواہش کردہ زندگی کوئی دوسرا جی سکتا ہے ؟ نہیں تو ۔۔۔۔۔۔ رازق نے آہستہ سے کہا تو پھر بالاچ کو یہ سب کچھ کیوں سمجھ نہیں آیا ؟ سموں نے انتہائی درد بھری آواز میں پوچھا سموں ! اصل میں ہم سب اپنے اپنے زمان و مکان کے اسیر ہوتے ہیں اور ہمیں سچائی اپنے اپنے زمان اور مکان کے مطابق دکھائی دیتی ہے اور ہر ایک کا سچ وہی ہے جو اس کا زمان اور مکان ہے ، تم ، اور بالاچ اور میں رازق سب اپنے اپنے سچ لیے گھوم رہے ہیں ، جو میرا سچ ہے وہ سرمچاریوں کے ہاں بھگوڑے پن کے سوا کچھ نہیں ، جو بالاچ کا سچ ہے وہ تمہیں گمراہ کن لگتا ہے اور بالاچ کو اپنا سچ ہی سب سے بڑا لگتا ہے ، ہم اپنے اپنے سچ کی صلیب پر لٹکے رہنے اور فاصلوں پر پڑے رہنے کے سوا کربھی کیا سکتے ہیں رازق نے کہا ارے رازق تم تو فلاسفر ہوگئے ہو ، ادیب بھی لگنے لگے ہو سموں نے اچانک موضوع تبدیل کیا لگتا تھا کہ اب وہ اس موضوع پر اور بات کرنا نہیں چاہتی ہے یہ بتاؤ کرکیا رہے ہو ، ڈاکٹر بننے کا خواب تو تمہارے سرمچاری دوست کی وجہ سے پورا نہ ہوسکا اس نے پوچھا صبح ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں نوکری کرتا ہوں اور شام کو ایم اے انگریزی کی کلاسیں ، رازق نے جواب دیا تو میں نے ٹھیک کہا تھا نا کہ تم میں فلسفیوں اور ادیبوں والے جراثیم آگئے ہیں ، انگریزی لٹریچر کا لکتا ہے اثر ہونے لکآ ہے تمہارے اوپر سموں نے کہا اس دن شام تک رازق اور اس کی اماں ڈاکٹر سموں کے گھر رہے اور پھر سرشام ڈاکٹر سموں ان کو اپنی گاڑی میں کھر تک چھوڑنے آئی اور وہاں پر گڈو سے ملی اور رات گئے واپس ہوئی سالہا سال گزر گئے 74ء میں جو گوریلا جنگ شروع ہوئی تھی وہ 78ء تک آتے آتے سرد پڑ گئی ، اس دوران ملک میں پی این اے کی تحریک چلی اور 79ء میں مارشل لاء لگ گیا ، حیدرآباد جیل سے سارے بڑے لیڈر ایک ایک کرکے رہا ہوگئے اور نیپ کے بطن سے کئی جماعتیں برآمد ہوئیں ، کابل چلے جانے والا خیر بخش مری کا قبیلہ فوجی آمر کے طیاروں میں بیٹھ کر واپس بلوچستان آگیا اور پھر وہ ڈکٹیٹر بھی آموں کی پیٹیوں کے ساتھ ہی ایک طیارے میں پھٹ گيا ، کئی نامی گرامی سرمچاری بعد میں اسلام آباد اور بلوچستان میں بننے والی حکومتوں ميں وزیر اعلی ، مشیر ، وزیر بنے اور کئی مغربی ممالک میں جاکر سبزنس مین بن گئے اور کئی ایک گلف ریاستوں میں جابسے ، بالاچ کی کوئی خیر خبر کافی عرصہ تک نہ ملی ، رازق کا خیال تھا کہ اب وہ بھی جلد ہی معمول کی زندگی گزارنے لگے گا ، پھر مشرف دور آیا تو 2002ء میں اسے ایک پرانے دوست نے بتایا کہ جب بلوچ سرمچاریوں کے لیے عام معافی کا اعلان اسلام آباد کررہا تھا تو بالاچ نے اس مانگے کی زندگی کو اختیار کرنے سے انکار کردیا اور وہ اپنے ساتھیوں سمیت ایرانی بلوچستان چلاگیا اور وہاں اس کے تعلقات جنداللہ سے استوار ہوئے ، رازق کو یقین نہیں آرہا تھا کہ بالاچ جیسا ماؤسٹ گوریلا ایک مذھبی جنونی جماعت کے ساتھ مل جائے گا اس کے اندر خیالات اور یادوں کا جو آتش فشاں تھا وہ بھی ایک دن نظموں اور افسانوں کی شکل ميں پھٹ کر باہر آگیا ، اس نے جو لکھا اسے بلوچ نوجوانوں ميں بے پناہ مقبولیت ملنے لگی ، اس کو پنجابی شاعر اور نکسلائٹوں ميں بھگوڑا کہے جانے والے پاش سے تشبیہ دی جانے لگی لیکن اس نے کبھی نہیں چاہا تھا کہ اس کا انجام پاش جیسا ہو دو سال مزید گزرے ہوں گے کہ بالاچ کا نام ایک مرتبہ پھر خبروں کی زینت بننے لگا ، رازق ان دنوں اپنی کنسلٹنٹ کمپنی چلارہا تھا جب اس کے دفتر کئی سالوں بعد خفیہ والے آئے تھے اور اس سے بالاچ کے بارے میں پوچھنے لگے تھے ، اس کو ظاہر ہے اتنا ہی پتہ تھا جتنا اخبارات میں چھپتا تھا ، اس لیے یہ پوچھ گچھ بیکار ثابت ہوئی لیکن رازق دیکھ رہا تھا کہ بلوچ نوجوانوں کے اندر اسلام آباد کے خلاف جذبات بہت بھڑک رہے تھے اور پھر جب وردی والوں نے اپنے ایک افسر کی ہوس کا نشانہ بننے والے لیڈی ڈاکٹر کی پکار پر کان نہ دھرے اور الٹا نجی محفلوں ميں یہ تک کہا کہ یہ قوم اسی سلوک کی مستحق ہے تو اس پر وہ بوڑھا بلوچ بھی بھڑک اٹھا جس نے 74ء میں خود بلوچستان کا سربراہ بنکر آزادی کا نام لینے والے بلوچوں کو موت کے سفر پر روانہ کیا تھا اور وہ سب بلوچوں کے لیے نفرت کا نشان بن گیا تھا ، اس بوڑھے بلوچ نے پہلی مرتبہ نوکریوں کے کوٹے ، گیس کی رائلٹی کی رشوت لینے سے انکار کرتے ہوئے پوری بلوچ قوم کے حقوق کی مانگ کی تو اس کے غار کو مزائیل مار کر تباہ کردیا گیا اور وہ بھی وہاں اپنے ساتھیوں سمیت اسی غار میں دفن ہوگیا ، اس طرح کی موت نے وفاق کے ایک سابق وفادار کو راتوں رات پوری بلوچ قوم کا ھیرو بنادیا اور پہلی مرتبہ بلوچوں ميں قبائلی جنگ کی بجآئے باقاعدہ قومی تحریک آزادی کے آثار نظر آئے انہی حالات کے بیچ رازق کو بالاچ کا خط ملا تھا اور اسے آواران آنے کو کہا گیا تھا ، ایک دن وہ چپکے سے حلیہ بدل کر نکلا اور آوران پہنچ گیا اور آواران پہنچ کر وہ اس پتے پر گیا جہاں اس کو رابطہ کرنے کو کہا گیا تھا ، وہاں سے ایک آدمی اس کو لیکر انجانے راستوں پر چلتا ہوا پہاڑوں تک پہنچا اور وہآں ایک غار میں اس نے خود کو بالاچ کے سامنے پایا ، جو ویسے تو صحت مند نظر آتا تھا لیکن اس کے سر کے سارے بال سفید ہوگئے تھے بالاچ اور وہ گلے ملے اور اس کے بعد بالاچ اس کو لیکر زرا کھلی جگہ میں لے آیا ، دونوں ایک چٹان کی ٹیک لیکر بیٹھ گئے ، اس نے بالاچ کو کافی حالات بتائے ، بالاچ نے سب سے پہلے اس سے پوچھا کہ کیا اس کی ماں کی ڈوب کر مرنے کی خبر سچی ہے ؟ پہلے تو رازق نے سوچا کہ اسے سچ بتادے لیکن پھر اس نے ایسا کرنے کا ارادہ ترک کردیا اور کہنا شروع کیا بالاچ ! تمہیں اخبار کبھی کبھی ملتی ہے ، اور تم ان اخباروں میں چھپی ساری خبروں کو کبھی سچ نہ مان لینا ، وہ جو ماں کے جوہڑ ميں گر کر ڈوب مرنے کی خبر تھی ٹھیک نہیں تھی ، بلکہ کوئی اور چيز ہوگی جو جوہڑ ميں گری ہوگی ، تمہاری ماں خفیہ والوں کے ہاتھ کبھی نہیں چڑھ سکی ، اسے شاید تمہارے ہمدردوں نے چھاپے سے پھیلے ہی نکال لیا تھا ، تمہاری ماں مجھے تو گورگی کے ناول میں تیرتی ہوئی اب بھی نظر آجاتی ہے اور وہ اس ناول کے کناروں کو گھورتی پائی جاتی ہے اور کبھی وہ اپنے سر کے بالوں کی طرح جھڑنے لگ جاتی ہے اور تم جانتے ہی ہوں گے ، تمہارے مخبروں نے خبر دی ہی ہوگی کہ میں نے بھی ٹارچر سیل میں اپنا منہ بند ہی رکھا ، درد کی اذیت سے چیخنے کے لیے تو منہ کھلا ہوگا ، کوئی راز بتانے کے لیے نہیں وہ یہ سب کچھ نجانے کس جذبے کے تحت بول گيا تھا ٹی پیکل مڈل کلاسی شہری خيالی دنیا میں رہنے والے شاعروں کی طرح باتیں کررہے ہو رازق ! بالاچ نے مری بات سنکر کہا ، ویسے تم سے مڈھلی طبقاتی سوچ تو پہاڑوں پر آنے کے بعد بھی جدا نہیں ہوئی تھی ، اور تبھی تم مجھے چھوڑ کر بھاگ گئے تھے ، تمہارا وہ جذباتی خط میں نے پڑھ لیا تھا اور اپنے آدمیوں کو تمہاری نگرانی کو ترک کردینے کا حکم دیا تھا رازق بالاچ کی بات سنکر بس تھوڑا سا مسکرا دیا اور بولا کچھ نہیں میں نے تمہیں اس لیے بلایا تھا کہ تمہیں بتاسکوں کہ تمہارے پاس ماضی میں کی جانے والی بیوقوفیوں کا تدارک کرنے کا موقعہ ہے ، مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے شعروں اور افسانوں سے متاثر ہونے والے بلوچ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد ہے ، تم بلوچ قوم کی آزادی کے لیے بہت کام آسکتے ہو ، لیکن جس طرح کی شاعری اور افسانے تم لکھ رہے ہو ، وہ شکست خوردگی ، بے یقینی اور ناامیدی کی علامت ہیں ، تم بلوچ قوم کے لیے وہ کردار ادا کرو جو انقلاب کے دنوں ميں گورکی نے ادا کیا تھا ، اس قوم کے کام آؤ ، اسے راہ دکھاؤ ، راہ سے بھٹکاؤ نہيں بالاچ ایک ہی سانس میں یہ سب کچھ کہہ گیا تھا کامریڈ ! مجھے نہیں پتہ کہ تم کیسے مرے بارے میں وہ سب کچھ فرض کئے بیٹھے ہو جو تم نے ابھی بولا ، میں نے نہ تو شعر کسی کو متاثر کرنے کے لیے لکھنا شروع کئے اور نہ ہی افسانے ، یہ سب تو مرے اندر چل رہی خیالات کی کشاکش ہے حو باہر آگئی اور نظموں و افسانوں کا روپ دھارنے لگی تھی تم مجھے کہتے ہو کہ میں پہلے سے بنے بنائے ، سوچے سمجھے پلاٹ کے تحت اس کرافٹ میں اپنی ںظميں اور افسانے لکھوں جو سرمچاریوں کے مطابق ہوں تو مجھے تم سے معذرت کرنی پڑے گی رازق نے اس سے کہا تم نہیں سمجھتے کہ اسلام آباد والوں کی ریاست کو اکھاڑے بغیر آذادی ملنا ممکن نہیں ہے ؟ بالاچ نے انتہائی تیز لہجے میں مجھ سے سوال کیا بالاچ ! مجھے یہ سب نہیں پتہ ، میں تو اتنا جانتا ہوں کہ جب میں یہآں سے بھاگ کر واپس گیا تھا تو مجھ سے منہ پھیرنے والے ، مجھے دیکھ کر زمین پر تھوکنے والے اور کبھی کبھی تو ننگی گالیوں سے میرا سواگت کرنے والوں کو مرے اندر مچے بھانبھڑ کا پتہ تک نہیں تھا تمہارے اور ان کے لیے یہ ریاست پانچ رومن اینٹوں والی ایک کھرلی ہوگی اور تمہیں لگتا ہوگا کہ تم اس سٹیٹ کو ویسے ہی اکھاڑ پھینکو جیسے پانچ رومن اینٹوں والی کھرلی کو پھینکا جاسکتا ہے ، تم 74ء میں بھی ریاست کو پانچ رومن اینٹوں والی کھرلی سمجھ کر اکھاڑنے نکل چلے تھے اور آج بھی ایسا ہی سمجھ رہے ہو ، لیکن مجھے نہیں معلوم کہ تم ایسا آج کرپاؤ گے کہ نہیں لیکن میں خود کو اس قابل نہیں پاتا ، میں شایک آوارہ سیدھی دستاویز ہوں ، عدالتیں مرے لئے اب ایک شبد یا اجنبی بھاشا نہیں رہیں ، سچی بات تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے دروازے کٹھکٹھاتی مائیں ، بیٹیاں ، بچے اور بوڑھے سب ہی مجھے رات کو خوابوں ميں مل کر بھی ڈراتے ہیں اور یہ ان کی پیشی کے دن بانس کی سوئی کی طرح مرے اندر اگے پڑے ہیں اور ریاست کی بربریت سے جنم لیتی اجتماعی قبریں اور ان سے نکلنے والی باقیات اور پھر سپریم کورٹ کی غلام گردشوں میں گونج بنکر ابھرنے والی آواز فرزانہ ہمشیر مجید بلوچ بنام سٹیٹ ماما قدیر پدر جلیل بلوچ بنام سٹیٹ زوجہ غلام محمد بلوچ بنام سٹیٹ بالاچ ! ان آوازوں کو سننے کے بعد نہ کوئی رازق رہ سکتا ہےس نہ ہی سٹیٹ مرے پاس تو ان سوالوں کا جواب نہیں ہے کہ ارسطو اور سٹالن صدیوں سے یہ جاننے کے لیے لمبی لڑائی میں مصروف ہیں کہ آدمی کس قسم کا جانور ہے ؟ بالاچ تم وقت کو قید کرنے کا اعلان آسانی سے کرسکتے ہو لیکن وقت کو قید کرنے کے ہر اعلان کے بعد شرمندگی کے سوا کچھ ہاتھ نہيں آتا بالاچ ! مجھے تو افلاطون کے گن راج ، ارسطو کے دھرم راج اور ٹراٹسکی کے دماغ میں کھب جانے والی کامنٹرن کی کلہاڑی تینوں کی ٹھنڈے فرش پر ٹارچر سیل ميں اس نوجوان کے گرم خون کے پھیل جانے کے درمیان کسی رشتے کی تلاش ہے جسے اچانک کسی بازار ، کالج ، یونیورسٹی کے ہاسٹل سے یا کسی ہسپال کے بیڈ سے فرشتوں نے اٹھايا تھا تم میری شاعری اور افسانوں کو مڈھلی طبقاتی سوچ کی پریشان خیالی کہتے ہو تو مجھے تمہاری رائے پر اعتراض نہیں ہے لیکن تم بھی تو لفظوں کی تراش خراش کرنا سیکھو ہو ان کے اندر تہہ در تہہ چھپے معانی تک تو تم بھی نہیں پہنچے تم نے اگر لفظوں کے اندر چھپے معانی کی تہہ در تہہ پرتوں کو ایسے دیکھا ہوتا جیسے انڈوں کے اندر مچلتے ہوئے چوزے ہوا کرتے ہیں یا برستی بارش کے اندر سے آتی سانولی روپہر کے اندر گھلی دھوپ ہو میں نے زندگی کے لفظوں کو ان کی تیکھی ، تیکھی نوکوں کے ساتھ بھگتا ہے اور یہ تیکھا پن کسی بھی کھرپے سے ختم نہیں کیا جاسکتا اور جن کو تم ںظمیں کہتے ہو وہ تو مرے اندر کا پل رہا آتش فشاں ہے جو کسی منصوبہ بند پلاٹ کے تحت باہر نہیں آیا بالاچ ! تم جیسے سرمچاری ہارے ہوؤں سے نفرت کرنا ہی سیکھ سکتے ہیں ، ان کو جان نہیں سکتے جو بس جیت ہی تو نہیں سکے تھے تمہیں کیا معلوم کہ تم اور تمہارے جیسے سرمچاریوں کی مائیں جب کبھی وردی والوں سے مڈبھیڑ میں مارے جانے کی خبر سنتی تھیں تو ہم جیسوں کم کہنا پڑتا تھا کہ وہ تم نہیں تھے اور وہ مائیں سرد بڑھاپے کی معصومیت کے ساتھ کہتیں تھیں کہ آنے دو ان نالائقوں کو ان کی خوب خبر لیں گی یقین کرو اگر اب بھی تم کسی دن گھر لوٹو گے تو وہتمہيں گھر کی کسی بھی شئے کے ساتھ مارے گی اور پھر تمہارے منہ میں خشک ہوا دودھ ٹھونس دے گی ان ساری عذاب بھری یادوں کو اٹھائے پھرنے کے باوجود ، بالاچ تم نے بلایا تو میں حاضر ہوگیا ہوں ، تم نجآنے مجھے کیا سمجھ بیٹھے ہو ، میں تو اس کبوتر کی طرح ہوں جو کسی ڈھے گئے گھر کے ملبے اور کھنڈرات ميں گھونسلا بنالے اور کوئی بھولا بٹھکا وہاں جائے تو اسے گھونسے سے جھانک کردیکھنے لگے ، میں تو پیار کا وہ خط ہوں جو سارا جل گیا ہو بس اس کا کوئی حرف جلنے سے بچ گيا ہو ، ميں تو وہ ہوں جو پردیس کمائی کرنے جائے اور اس کی بند تابوت میں لاش واپس آئے میں پاش کی طرح سرمایہ داروں کی فوج کی ماردھاڑ سے بچ کر آیا ہوں اور اپنے بچھے کچھے جثے کے ساتھ ، اپنے تمام تر بھگوڑے پن کے ساتھ ، تم چاہو تو مرے سینے پر اپنا لال پستول آزما سکتے ہو اور میری اداس نظموں سے جھلکتی اداس بورژوازی پن کے سرچشمے کو ختم کرسکتے ہو ، دیکھو میرے اندر جو آگ ہے اس سے کوئی سیدھی سادھی نعرے باز ںظم تخلیق نہيں ہوگی ، کوئی کرانتی کار سپاٹ افسانہ نہیں نکلے گآ ، بہت گنجلک اور الجھی ہوئی نظیميں اور افسانے نکلیں گے ، میں وہ نہيں بن سکتا جو تم چاہتے ہو یا سٹیٹ چاہتی ہے رازق ایک رو میں بولتا گیا اور جب وہ چپ ہوا تو اس نے دیکھا کہ بالاچ اس کی جانب مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا اچھا آش کھانا کھاتے ہیں - بالاچ نے اس سے کہا نہیں مجھے بھوک نہیں ہے ، بس واپس جانے کا انتظام کردو بالاچ نے اصرار نہیں کیا رازق واپس تربت پہنچا تو اس نے ایک ہوٹل ميں چائے پینے کا قصد کیا ، ہوٹل میں سناٹا تھا ، سب کے سب سامنے لگے ٹی وی کی طرف دیکھ رہے تھے ، ٹی وی سکرین پر بالاچ کی تصویر تھی اور ساتھ ہی کیپشن تھا پاکستانی شاہینوں کی بمباری سے خطرناک دھشت گرد بالاچ اپنے درجن بھر ساتھیوں کے ساتھ کيچ ضلع کے قریب بنی ایک کمین گاہ میں مارا گیا اس نے خبر سنی تو سکتے میں آگیا اور باہر نکلا تو دیکھ نہیں سکا کہ اس کے پیچھے پیچھے سرخ انگارہ آنکھیں لئے ایک نوجوان بھی نکلا ، جب وہ اس پتلی گلی کے قریب پہنچا جہاں سے ایک آدمی نے نکل کر اسے بالاچ کا خط دیا تھا تو اس انگاروں کی طرح دھکتی آنکھوں والے نے چادر ہٹاکر کندھے سے کلاشنکوف اتاری اور برسٹ مارا جو رازق کو لگا اور وہ لڑکھڑا کر گرا اور اس نے گردن موڑ کر نوجوان کو دیکھنا چاہا کہ ایک اور برسٹ نے اس کے سینے میں دوسرا شگاف کردیا اور اس کا دماغ گہرے اندھیروں میں گم ہوگیا کامریڈ ! بورژوازی پرانی شراب جیسی ہے جس میں ہمارے جیسے لوگ ایسے گل سڑ جاتے ہیں جیسے پرانی شراب میں گوشت

Thursday 16 April 2015

قمر رضا شہزاد کی شاعری اور ظفر اقبال کا محاکمہ


قمر رضا شہزاد کے بارے میں حال ہی میں ظفر اقبال کے دو کالم شایع ہوئےہیں ، پہلا کالم انھوں نے لکھا تو معلوم یہ ہوا کہ ظفر اقبال کی فرمائش پر انھوں نے اپنے تازہ اشعار ان کو ارسال کئے تھے جن کو پڑھ کر ظفر اقبال نے لکھا کہ ان کو سخت مایوسی ہوئی اور ان کے اشعار میں پہلا سا زور نظر نہیں آیا ، پھر ان کا اگلے روز ایک تفصیلی کالم شایع ہوا جس میں انھوں برملا اس بات کا اظہار کیا کہ انھوں نے قمر رضا شہزاد کی شاعری کو اپنی شاعری کی توسیع قرار دیا تھا تو اس وقت یہ ٹھیک بھی لگتا تھا مگر اب لگتا ہے کہ ایسا نہیں ہے اور ظفر اقبال نے قمر رضا کی اننگز کے ختم ہونے کی بات بھی اشارۃ کہہ ڈالی ہے مجھے قمر رضا کی شاعری کے زوال پذیر ہونے اور ان کے ہاں ایک جیسے مضامین کی تکرار کا احساس پیاس بھرا مشکیزہ کے بعد ان کی دوسری کتاب " ہارا ہوا عشق " اور پھر تیسری کتاب " یاد دھانی " کو پڑھ کر ہوا تھا ، ہارا ہوا عشق تو پھر بھی زرا توجہ سے قدرے انتخاب کے ساتھ مرتب کی ہوئی کتاب لگتی تھی لیکن ان کی تیسری کتاب " یاد دھانی " اگر نہ ہی آتی تو بہتر تھا
ظفر اقبال نے اپنے اور قمر رضا شہزاد کے درمیان مضافات سے آنے کا اشتراکی حوالہ درج کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انھوں نے ایسے شعر کہے جو علم و ادب کے بڑے شہری مراکز میں کم ہی کہے گئے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ظفر اقبال نے پڑھتے رہنے اور آتش تخلیق کو مسلسل سلگاتے رہنے کا کام بڑے شہر میں منتقل ہونے کے باوجود نہ چھوڑا اور وہ بہت زیادہ گروہ بندی اور اپنے آپ کو پیٹی جھگڑوں میں الجھانے کی بجائے مسلسل قرآت ، تصنیف و تالیف کے عمل سے جڑے رہے ہیں لیکن قمر رضا شہزاد کے ہآں ایک عرصے سے کتاب سے رشتہ بہت حد تک ٹوٹ چکا ہے اور وہ دوست داری اور دشمن داری کے سلسلے میں اتنے مگن ہوئے ہیں کہ ان کے پاس پڑھنے کا اور اس پڑھنے کو ہضم کرتے ہوئے اپنی تخلیق کی آگ کو مزید بھڑکانے کا وقت ہی نہیں بچتا اور میں نے اس " دشمن داری و دوست داری " میں ان کو کسی کی شعر و ادب کی قدر و قیمت کے تعین کے عمل کے دوران دیانت داری کا دامن بھی ہاتھ سے ترک کرتے ہوئے دیکھا ہے اور یہ عمل کسی بھی آدمی کے لیے سم قاتل ہوا کرتا ہے ، ظفر اقبال نے زرا پردے میں بات کرتے ہوئے قمر رضا شہزاد کے ہاں تعلی کی موجودگی کی جانب اشارہ دلاتے ہوئے یہ بات کہنے کی کوشش کی ہے کہ تعلی اس وقت جچتی ہے جب فن بھی بلندیوں کی سطح پر ہو ، جوش ، فراق ، حسن عسکری اور منٹو کے ہاں جسے ہم نرگسیت کہتے ہیں اور تعلی کہتے ہیں اگر بہت بڑی تھی تو ساتھ ہی اتنا ہی بڑا ان کا فن بھی تھا جس کی زوال پذیری ان کے ہاں کبھی نظر نہیں آئی اور میں یقین سے کہتا ہوں کہ اگر ان کو اس بحران کا سامنا کرنا پڑتا جس سے قمر رضا شہزاد دوچار ہیں تو وہ نہ صرف تعلی سے دستبردار ہوتے بلکہ کچھ عرصے کے لیے زبردستی شعر و فکشن سے الگ ہوجاتے اور انقباض اگر مستقل ہوتا تو ان کے ہاں تعلی کا دروازہ بھی مستقل بند ہوجاتا قمر رضا شہزاد سمیت بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی شاعری کی دھوم مچی تو تھی لیکن پھر ان کی شاعری شعلہ مستعجل ثابت ہوئی لیکن ان کے ہاں " پرانی محبت میں گرفتار " رہنے کی جذباتیت اسی طرح سے موجود ہے بلکہ اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ " تو مجھے حاجی کہہ میں تجھے مولوی کہوں گا " والی کہاوت ان پر صادق آنے لگی ہے ، ابھی کچھ دن ہوئے ان کی ایک شاعرہ کی سالگرہ پر کہی ہوئی نظم مری نظر سے گزری ، اب اس میں ان کی شاعری کے حوالے سے زمین و آسمان کے قلابے قمر رضا نے ملائے ہیں وہ تیسرے درجے کی گٹھیا خوشامد پرستی سے بھی کہیں نیچے کی چیز ہے ، اور خود وہ ںظم بھی مری نثری نظموں سے بھی کہیں نچلے درجے کی چیز ہے ، حالانکہ ایک مرتبہ جب میں نے نثری نظم لکھی تو ان کو سنائی کہنے لگے " آپ فکشن لکھو ، اس سے زیادہ بہتر کام کرلوگے " میں نے ان کی بات یوں پلّے باندھی کہ جب کبھی کتھارسس کی ضرورت پڑی اور کچھ لکھا تو اس کے حوالے سے کوئی تعلی کرنے سے گریز کیا اور یہ بھی مان لیا کہ یہ میدان ہمارا نہیں ہے لیکن میں حیران ہوا کہ جتنی ایماندارانہ رائے (جس پر میں ان کا بے حد ممنون ہوں ) انھوں نے مرے باب میں دی ، ویسی رائے وہ اکثر بہت سے لوگوں کے بارے میں کیوں نہیں دے سکے اور سب سے بڑھ کر خود اپنے بارے میں ان کی رائے اتنی ایماندارانہ کیوں نہیں ہوسکی چلتے چلتے میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ قمر رضا شہزاد پر مجھے یہ سب کچھ اس لیے لکھنا پڑا کہ میں نے جب شاکر حسین شاکر کے پاس "کتاب نگر " حسن آرکیڈ ملتان آنا شروع کیا اور یہ 94ء کے آس پاس کی بات ہے تو میں واقعی قمر رضا شہزاد تو کیا خانیوال ، ملتان ، بہاول پور کے کسی شاعر اور کسی گروہ سے واقف نہ نہیں تھا اور نہ ہی مجھے یہ معلوم تھا کہ قمر رصا شہزاد کا تعلق مرے ضلع سے ہے لیکن میں دیکھتا تھا کہ قمر رضا شہزاد اس وقت کے تمام اہم ادبی رسالے خرید کرتے ، انڈیا سے آنے والا شب خون ہو ، شاعر ہو کہ نیا ورق ، پاکستان سے قاسمی صاحب کا " فنون ہو کہ آغا صاحب کا اوراق اور پھر تسطیر ، آج ، اس کے ساتھ ساتھ وہ نئے پرانے ناول اور کئی ایک بڑے تراجم بھی باقاعدگی سے خرید کرتے تھے ، اگرچہ میں نے ان سے کبھی سنجیدہ ادبی موضوعات پر بات نہيں کی لیکن چند ایک ملاقاتوں میں مجھے یہ اندازہ ضرور ہوگیا کہ وہ کسی زمانے میں ترقی پسند تحریک اور ںطریہ سے متاثر ہوئے تھے لیکن اب اس سے کہیں دور ہیں اور سچی بات یہ ہے کہ وہ جس سطح کی کتابیں خرید کرتے تھے اس سطح کی تنقیدی ادبی گفتگو یا ادبی محافل میں تقری میں نے ان سے نہ سنی اور میں اسے ان کی کسر نفسی پر محمول کرتا رہا لیکن ان کی شاعری روز بروز تنزل کا شکار ہونے لگی تو سچی بات ہے کہ مجھے اپنا یہ بت بھربھراتا ہوا نظر آنے لگا اور پھر میں نے یہ بھی دیکھا کہ کئی ایک ادب کے بڑے بھائيوں کی خاطر انھوں نے " سچے اور کرنٹ رکھنے والے نوجوان شاعروں " کی تعریف میں بخل سے کام لینا شروع کردیا اور ایسا انھوں نے صرف یاری دوستی نبھانے کے لیے کیا اور مجھے ان کی اس روش سے سخت تکلیف ہوئی ، کیونکہ میں اسے ان کے قد کاٹھ کے منافی خیال کرتا تھا اور کرتا ہوں قمر رضا شہزاد پر دو ہزار سے زیادہ لفظ خرچ کرنے اور اپنے دماغ کا عرق نکال کر رکھ دینے کا صاف مطلب یہ بھی ہے کہ قمر رضا شہزاد کی شاعری کا زوال نظر انداز کردیئے جانے والی خبر نہیں ہے اور نہ ہی قمر کے ہاں بوسیدگی اور اس کی شاعری سے تازگی کا دور ہونا ایسا واقعہ ہے کہ جس کا نوٹس بھی نہ لیا جآئے ، اس کا نوٹس ظفر اقبال جیسے شاعر و نقاد و ادیب نے لیا تو اس کا مطلب ہے کہ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے اور مرے لیے یہ کالم کوئی خوشی کا سبب نہیں ہے کیونکہ قمر رضا شہزاد نے اپنی فکر ونظر سے کبیروالہ شہر کے اندر ہی نہیں بلکہ اپنے گھر کے اندر بھی ایک تبدیلی پیدا کی اور آج فرخ و انجم رضا کی جو بلوغت فکر ہے اس میں قمر رضا کا بہت بڑا ہاتھ ہے اور یقینی بات ہے کہ ان کے لیے " قمر رضا " ایک بت ہیں ، صنم ہیں جس کی ہر ادا عزیز ہوا کرتی ہے رضی الدین رضی ، شاکر حسین شاکر سمیت قمر رضا شہزاد کے بہت سے دوست مرے بھی دوست ہیں اور دوستی اور تعلق مجھے بھی عزیز ہے لیکن " ادب " ہو کہ " سیاست " اور پھر صحافت ہو میں نے ان تینوں میدانوں میں دیانت داری اور سچائی کو کبھی ترک نہيں کیا ، بطور انسان کے اور کئی اور خوبیوں کے ساتھ قمر رضا شہزاد مجھے بہت عزیز ہیں لیکن ان کی شاعری کے بارے میں میں جھوٹ نہیں بول سکتا اور چپ بھی نہیں رہ سکتا اس لیے ان سب دوستوں سے پیشگی معذرت خوا ہوں قمر رضا شہزاد کبیروالہ جیسے شہر سے تعلق رکھتے ہیں جہاں بیدل حیدری جیسے استاد شاعروں کی شاعری کے بڑے حصّے نے وجود پایا اور ایک جہان سے انھوں نے داد پائی لیکن قمر رضا شہزاد کا شعری سفر اتنی جلدی زوال پذیر ہوجائے گا ، سچی بات ہے کہ مجھے اس کا بالکل گمان نہیں تھا اور " یاد دھانی " پر جب میں نے اپنے تاثرات روزنامہ خبریں " ملتان میں شایع کئے تھے تو میں نے کہا تھا کہ " یہ مرا تاثر ہے جو غلط بھی ہوسکتا ہے " لیکن ظفر اقبال کے کالم پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ " مرا تاثر " حقیقت واقعی سے بہت قریب تھا ویسے " یاد دھانی " جب آئی تھی تو میں نے لکھا تھا کہ کبیروالہ میں " فیصل ہاشمی " کی شاعری ميں بہت زور اور دم ہے اور مجھے لگتا ہے کہ قمر رضا شہزاد کی شاعری میں شکستگی اور بوسیدگی کی تلافی قدرت فیصل ہاشمی کی جاندار شاعری کی صورت میں کررہی ہے ، ابھی چند دن ہوئے جب ہم نے " احمد فرید " سابق صدر حلقہ ارباب ذوق کے ساتھ انجمن ترقی پسند مصنفین کے پلیٹ فارم سے نشست کی تو وہاں فیصل ہاشمی نے تازہ غزل کے اشعار سنائے تھے تو ميں ادبی مسرت اور حیرانی دونوں سے دوچار ہوا تھا اور میں نے وہ اشعار ایک دوست کو ارسال کئے ، اس نے وہ قمر رضا شہزاد کو ایس ایم ایس کئے لیکن دوسری طرف سے خاموشی چھائی رہی ، ویسی ہی خاموشی جیسے ظفر اقبال کی بت شکنی کے بعد قمر رضا شہزاد کے ہآں چھائی دکھائی دی اور ظفر اقبال کو اس پر دکھ بھی ہوا ویسے قمر رضا کے ہاں انقباض کے دورانیہ کے طویل ہونے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب "پیاس بھرا مشکیزہ" سامنے آئی تھی تو اس پر بڑے بڑے نامور شاعروں اور نقادوں نے ان کے زور شاعری کی داد دی اور ان کو یہ داد ہندوستان سے لیکر جہاں جہاں اردو ادب کے شناور بیٹھے تھے سب سے ملی لیکن اس کے بعد " ناقدین شعر و ادب " نے قمر رضا شہزاد کے حوالے سے چپ کا روزہ رکھ لیا اور اب تک یہ قائم ہے ، یہ روزہ ٹوٹا بھی ہے تو کیسے کہ ‌طفر اقبال نے ان کی شاعری کی اننگز کے خاتمے کا اعلان کردیا ہے ظفر اقبال کی سچ بیانی اور لگی لپٹی رکھے بغیر حقیقت بیان کرنے کا جواب یہ نہیں ہے کہ ان کو گمنام خط لکھے جائیں ، الٹا ان کی کردار کشی کی جائے اور یہآں تک کہا جائے کہ قمر رضا بھائی اس تنقید کو پڑھنے کے بعد اتنے ڈیپریس ہوئے کہ ان کا موٹر سائیکل پر جاتے ہوئے شدید ایکسیڈنٹ ہوگیا اور اگر ظفر اقبال نے اپنی تنقید کو واپس نہ لیا تو ان کو خاکم بدھن کچھ ہوا تو اس کی زمہ داری ظفر اقبال پر ہوگی ، ظفر اقبال کا اگلے دن کا تفصیلی کالم کہا جاتا ہے اسی طرح کی باتوں کے جواب ميں تھا ، جب انھوں نے یہ لکھا کہ میری شاعری پر جب شمس الرحمان فاروقی ، شمیم حنفی اور دیگر کئی نقادوں نے اسی طرح کی تنقید کی تو میں نے نہ صرف اس تنقید کو اپنے ہاں درج کیا بلکہ اپنی شاعری کا احتساب بھی کیا ہمارے پورے معاشرے کا المیہ یہ بنا ہوا ہے کہ یہاں تنقید کو تنقیص اور سچی رائے کے اظہار کو توھین سمجھ لیا جاتا ہے اور یہ جو شعر و ادب کے میدان میں " دشمن داری و دوست داری " کے اندر " سچائی و دیانت " کو قربان کردینے کا مطالبہ اور خواہش ہے اس نے تخلیقیت کے سوتے خشک کرڈالے ہيں اور یہ صرف " شعر و ادب " کے میدان کی صورت حال نہیں ہے بلکہ ہمارا ہر ایک شعبہ اس بیماری کا شکار ہوا ہے ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ ہمارے شہر کے ایک اہم افسر سے راہ و رسم میں ناکامی کے بعد ایک صاحب نے جن کو میں " ادب کا بڑا بھائی " کہتا ہوں کیونکہ ان کو ادب کے سوا سب کچھ آتا ہے اس افسر کی کردار کشی شروع کردی اور ایک اور جعلی آدمی نے " صحافتی کارڑ " کی بنیاد پر اس شخص کی جانب سے ایک جعلی مشاعرے میں شرکت نہ کرنے کی بنا پر اسے پیغام بھیجا کہ Mr ....... Next time be careful معاملہ صرف اتنا تھا کہ اس جعلی قسم کے مشاعرے میں ایک ایسا آدمی مہمان تھا جو ایک بڑے اخباری گروپ میں بڑے پیمانے پر فراڈ کرنے کی وجہ سے جیل بھیجا گیا اور اس کا کام ہی افسران سے قربت ظاہر کرکے فراڈ کرنا ہے ، جبکہ جس افسر کا ہم زکر کررہے ہيں وہ آرٹ ، فنون لطیفہ سے اسقدر محبت کرتا ہے کہ جب وہ چکوال تعنیات تھا تو اس نے وہآں " کٹاس مندر " کو دوبارہ سے اس کی اصل شکل میں بحال کیا ، اس کی اس خدمت پر اسے ہندوستان اور خود چکوال کی عوام نے " مہاراج " کا خطاب دیا ، وہ جب میانوالی تھا تو وہآن اس نے " پارک بنوائے ، شہر کے پرانے فن تعمیر کو بحال کیا اور اب وہ اس شہر کے اندر بھی اس کی تاریخی شکل و صورت کو بحال کرنا چاہتا ہے ، اسے شاعری ، مصوری ، فن تعمیر سے عشق کی حد تک لگاؤ ہے لیکن اس کے اس لگاؤ کے راستے میں ادب کے بڑے بھائی ، زرد صحافت کے ٹھیکے دار سب سے بڑی روکاوٹ بنتے ہیں ، کیونکہ وہ رشوت نہیں لیتا ، سرکاری زرایع کا ناجائز استعمال نہیں کرتا اور جعلی قسم کے لوگوں کو اصلی تخلیق کاروں پر ترجیح نہیں دیتا ، ہمارے ہاں جو بھی "سچائی اور دیانت " پر اصرار کرے تو اسے یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس کا کھرا سودا اس بازار میں بک نہیں سکتا ، کیونکہ ہمارے ہاں " ہر بازار " چور بازار میں بدل چکا ہے اور چور بازاری اپنے عروج پر ہے

Saturday 14 February 2015

فیمنسٹ تھیڑ


لبنان کی فلم ، آرٹ اور تھیڑ کی دنیا میں زیاد ابو عبسی کا نام نیا نہیں ہے ، وہ 70 ء اور 80 ء کی دھائی میں لبنان کے معروف اداکار تھے ، پھر وہ بطور ڈائریکٹر ، پروڈیوسر ، رائٹر کے سامنے آئے اور انہوں نے امریکن یونیورسٹی آف بیروت میں فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ میں پروفیسر ان فائں آرٹس ان ڈرامہ کے طور ہر تدریس بھی شروع کی ، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تھیڑ میں فلسفیانہ درک کے ساتھ وارد ہوئے اور خود ان کا کہنا ہے کہ تھیڑ وہ صنف ادب ہے جس میں پہلی مرتبیہ فلسفیانہ بیانئیے ظاہر ہوئے اور وہاں پہلی مرتبہ فلسفہ ڈرمائی تشکیل سے گزرا اور اس پر تبصرے شروع ہوئے ، زیاد ابو عبسی نے امریکی یونیورسٹی ہوسٹن یونیورسٹی سے فائن آرٹس ان ڈرامہ میں ماسٹرز ڈگری لی اور پھر لبنان آکر وہ فلم ، تھیڑ سے منسلک ہوگئے زیاد ابو عبسی نے بہت سے کلاسیکل انگریزی ، فرانسیسی ادبی شہ پاروں کو ڈرامائی تشکیل دی اور حال ہی میں وہ بہت عرصے کے بعد بیروت میں مونیٹ تھیڑ میں واپس آئے ہیں ، اس مرتبہ انھوں نے نارویجئین ادیب ابسن کے معروف ڈرامے " ڈال ھاوس " کو عربی زبان ، عربی کرداروں اور عربی سٹیج کے ساتھ ڈائریکٹ کیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ عرب سماج بھی آج تک بدلا نہیں ہے کیونکہ یہاں بھی عورتوں کے ساتھ گڑیوں جیسا سلوک ہوتا ہے اور ان کو گڑیوں کی طرح گھر بند کرکے رکھا جاتا ہے اور عورتوں کو جیتا جاگتا ، زندہ خود آگاہ ، باشعور برابر کا جیتا جاگتا انسان تصور نہیں کیا جاتا ، ان کے نزدیک ابسن کا جو " گڑیوں کا گھر " پلے تھا وہ اس زمانے میں قدامت پرست انگریز سماج میں ایک ھاوس وائف کی زندگی کی عکاسی کرتا ہے اور اسی لئے یہ اس زمانے میں " فیمنزم کے منشور " کے طور پر سامنے آیا تھا ، اگرچہ ابسن نے کہا تھا کہ اسے ہرگز یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ یہ پلے عورتوں کے حقوق کے حوالے سے لکھ رہا تھا زیاد ابو عبسی نے بھی اسے لبننان میں عورت کے سماجی مقام و مرتبہ کو سامنے رکھکر اس کی تشکیل کی ہے ، ہمارے ہاں بھی ابسن کا ڈال ز ھاوس کئی مرتبہ سٹیج پر پلے کیا گیا لیکن کسی نے بھی اس کی پاکستانی سماج میں عورت کی حالت زار کو سامنے رکھکر سٹیج کرنے کی کوشش نہیں کی اور ایسی کوشش اگر ہوئی بھی ہوگی تو وہ ایلیٹ کلاس کو محظوظ کرنے کے لئے ہی ہوگی ، ہمارے ہاں تھیڑ میں نجم حسین سید ، لخت پاشا اور دیگر کئی ایک نے ناٹک ، سانگ اور تھیڑ کے امتزاج سے پنجابی کے اندر ایسے تجربے کئے اور کافی سارے لوگ اس سے تیار بھی ہوئے لیکن پھر یہ تجربہ پنجابی قوم پرستی کے منفی رویوں کی وجہ سے زیادہ ترقی نہیں پاسکا اور اب بھی لاہور ، کراچی کے اندر ایسے تھیڑ گروپس موجود ہیں جو اپنے اپنے طور پر عورتوں ، چائلڈ لیبر ، اقلیتیوں ، بانڈڈ لیبر ، پسند کی شادی اور ان جیسے دیگر موضوعات پت تھیٹریکل سرگرمیاں کررہے ہیں لیکن ہمارے سماج میں یہ اس طرح سے رچاو کے ساتھ نہیں ہورہا جیسے یہ کم از کم لبنان سمیت عرب دنیا میں کئی جگہوں پر نظر آرہا ہے اور خود ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں یہ اپنے پورے رچاو کے ساےھ موجود ہے ، اجوکا تھیڑ نے اگرچہ بہت نام کمایا لیکن نہجانے کیوں یہ تھیٹر یہ ایک خاص طبقے تک کیوں محدود ہے ، جیسے ایک زمانے میں فیض امن میلہ بہت عوامی اور افتادگان خاک کی نمائیندگی سے بھرپور ہوتا تھا لیکن اب نہیں ہے ایسے ہی اجوکا تھیٹر بھی آج ایک خاص طبقے کے ناظرین تک محدود ہوچکا ہے فلم انڈسٹری تو ویسے ہی ہمارے ہاں تباہ ہوگئی ہے اور اس کی جگہ ناظرین کے پاس اب سوائے بالی ووڈ اور ھالی ووڈ دیکھنے کے کوئی اور چارہ نہیں رہا ، اسی لئے او مائی گوڈ ہو یا پی کے ہو ہمارے موجود مذھبی سماجی گھٹن کو کچھ دیر کے لئے کم کرنے کا سبب بن جاتی ہیں ، ویسے پاکستانی سماج جہاں مذھبیت جنونیت ، تنگ نظری اور تشدد کے ساتھ گھل ملکر ہی سامنے آتی ہے میں یہ سروے بھی سامنے آیا ہے کہ پاکستان میں پیدائشی مسلمان جو ہیں ان مین ایک کروڑ لوگ ملحد ہوچکےے ہیں لیکن اعلان نہیں کرتے ، ویسے مجھے احساس ہے کہ پورا مسلم سماج اس دو عملی سے دوچار ہے جہان اکثر مسلم نوجوان یا تو بہت کڑ پنتھی مزھبی رویوں کے ھ حامل ہیں یا پھر بالکل ہی انکاری لیکن سب کے سب ایک ظاہری مسلم پردے کے ساتھ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ، اس مین ہماری عورتوں کی صورت حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے ، اکثر عورتیں اپنے ازاد وجود ، اور ازادی سے برابری کی سطح پر جینے کی آرزو اکثر لپٹے لپٹائے لمبے برقعون کے ساتھ کرتی ہیں اور ان کو بازار میں کھل کر ہنسنے ، بولنے پر بھی گھورے جانے کے تسدد کا سامنا ہوتا ہے اس ساری صورت حال میں اگر چھوٹے بڑے شہرون میں تھیڑ فیمنسٹ پیسن کے ساتھ آئے تو تبدیلی آسکتی ہے

Friday 13 February 2015

لولی اینڈ ڈئیر


ڈئير ایںڈ لولی -------------------- عامر حسینی
ہمارے رشتے میں وہ کون سی بات تھی جو ابتک ظہور پذیر نہیں ہوئی تھی اور ابھی تک محض امکان ہی بنی ہوئی تھی ، یہ ایک احساس تھا جو مجھے اس کے ساتھ رہتے ہوئے ہمیشہ سے ہوتا تھا ۔ اور میں اس وقت ایک بار میں بیٹھا کافی پی رہا تھا جبکہ مری میز پر باقی دو دوست سکاچ پی رہے تھے ، شعبی نے کہا تھا کہ اس رات ہم سستا کھانا اور مہنگی سکاچ کے ساتھ رات بتائیں گے ، لیکن میں نے ایک سینڈوچ اور بلیک کافی پر اکتفا کیا تھا ، بار روم میں مزے دار سی حدت تھی لیکن باہر کی یہ حدت اندر کی سردی پر قابو نہیں پارہی تھی اور ہم سب دوست اس رات خلاف معمول خاموش تھے ، سیاست ، ادب اور یہاں تک کہ خود کو دنیا کے سادھو ،سنت ثابت کرنے اور سب سے زیادہ مخلص ظاہر کرنے کا بھی کوئی مقابلہ نہیں ہورہا تھا اور جگ والوں کی بدخوئیوں پر بھی زور کم تھا اور کسی مرفہ الحال ہوجانے والے یا اچھے گریڈ کے مزے لوٹنے والے کے اندر نظریاتی کجی ، موقعہ پرستی اور اس کے اندر کیڑے نکالے جانے کی مرغوب مشق بھی نہیں کی گئی تھی ، اس دن بس سب اپنی ،اپنی سوچوں میں گم تھے ہماری میز کے سامنے لگے وال کلاک سے اچانک الارم بجنے لگا ، میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا تھا تو ایک بج چکا تھا ، 24 دسمبر سے تاریخ 24 دسمبر کے دائرے میں داخل ہوگئی تھی اور تبھی بار روم کے مرکزی دروازے کو کھول کر میں نے اقبال بھائی کو آتے دیکھا ، وہ تیر کی طرح سیدھے ہماری میز کی طرف آئے متین کمال کرتے ہو ، یہاں بیٹھے ہو ، ہم ڈھونڈ ، ڈھونڈ ادھ مرے ہوگئے ، موبائل کہاں ہے ؟ وہ ایک ہی سانس میں یہ سب کہہ گئے اور میں ابھی تک اپنی گنجلگ سوچوں سے باہر آنے کی کوشش کررہا تھا بے خیالی میں اپنے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا تو جیسے فلیش بیک سے اچانک روشنی کا جھماکہ ہوتا ہے ایسے ہی مجھے یاد آیا کہ فون تو میں وہیں اپنے اپارٹمنٹ میں بھول آیا تھا ابھی جواب دینے کا سوچ رہا تھا کہ اقبال بھائی پھر گویا ہوئے پہلے تمہارے اپارٹمنٹ گئے تھے ، وہ لاک ملا ، پھر اس کیفے پر گئے جہاں تم گھنٹوں بیٹھتے ہو وہآن سے پتہ چلا کہ آج کل وہان نہیں ہوتے ، پھر کئی دوستوں کو فون گھمایا ، سب ہی لاعلمی کا اظہار کررہے تھے اور کہتے تھے یہ کوئی نئی بات تو ہے نہیں کہ اس کے یاروں کی ایک نہ ختم ہونے والی لسٹ ہے اور سبھی کے پاس تواتر سے آنا اور تواتر سے غائب رہنا اس کا دستور ہے ، وہ تو احمر نے بتایا کہ آج کل تم ایک نئے کھلنے والے " ریڈ لائٹ بار " میں پائے جاتے ہو ہمارے منہ سے فوری لاحول ولا نکلا ،میاں یہ کیا نام ہے ، ہم نے احمر سے پوچھا وہ جلدی سے بولا ، بس نام ہی ریڈ لائٹ بار ہے ، ٹبی گلیوں والے محلّے جیسی تو کوئی بات نہیں ہے بلکہ ماحول میں تو وہ اپنے لاہور کافی ہاؤس کا مقابلہ کرتا ہے تب ہماری سانس میں سانس آئی ، ورنہ ہم نے تم پر فاتحہ تو پڑھ ہی لی تھی انسان کب سٹک جائے ، کچھ پتہ نہیں چلتا اقبال بھائی ! ایسی کوئی بات نہیں ، یہاں بار روم کی زرد و سرخ و نیلگوں روشنیوں اور گلابی رنگ کی میز اور کرسیوں نے مجھے اسیر کرلیا اور پھر یہاں چائے کی پیالی میں طوفان و انقلاب و مزاحمت پیدا کرنے والے اور گلے پھاڑ پھاڑ کر اپنے " ہونے " کا ثبوت دینے والے بھی تو نہیں ہیں ، اس لیے اس بار روم کو اپنا ٹھکانہ بنالیا ہے ویسے بھی وہاں اب اپنی کیمونٹی کے مہادانشوروں سے میں اوب سا گیا تھا میں نے دھیرے سے کہا اچھا اب یہ سب چھوڑو ، وہ وہاں مرے اپارٹمنٹ میں تمہارا انتظار کررہی ہے ، تمہاری بھابھی کو اب تک یقین نہیں آیا کہ وہ تمہیں تلاشتی مجھ تک آئی ہے ، اسے اس عمر میں بھی لگتا ہے کہ کوئی سوکن اس پر لا بٹھاؤں گا کون ؟ میں نے بے اختیار پوچھا دھت ترے کی ، اقبال بھائی نے جھنجھلاکر میز پر ہاتھ مارا ، جس کی آواز موسیقی کے شور میں دب کر رہ گئی میاں پہلے تو تم شارٹ میموری میں بس دوستوں کو بھولا کرتے تھے ، اب جو دل کے قریب ہیں ان کو بھی بھولنے لگے ہو ، اقبال بھائی کی گفتگو ایسے ہی رومانوی استعاروں میں ڈھل جایا کرتی تھی سو اب بھی یہی ہورہا تھا قسم سے مجھے یاد نہیں آرہا کہ آج کس نے آنا تھا ارے وہ تو ایک عدد گفٹ پکڑے اور ایک کارڑ سینے سے لگائے تمہارے لیے بے تاب ہے اور تم ہو کہ چغد بنے ہوئے ہو ، تمہارے اپارٹمنٹ سے لیکر تمہارے ایک درجن ٹھکانوں کی خاک چھانتے ہوئے ایک پل بھی اس نے ان کو اپنے سینے سے جدا نہیں کیا اور اب جب اپارٹمنٹ میں چھوڑ کر آیا تو روہانسی سے ہوئی جارہی تھی ، میں خالی دماغ بس اقبال بھائی کے چہرے کو تکے جارہا تھا اماں ! وہ ویرا آئی ہے ، اقبال بھائی نےاچانک جیسے کوئی دھماکہ کیا ہو میں بے اختیار کھڑا ہوگیا اقبال بھائی کا ہاتھ پکڑا ، دوستوں سے کچھ کہے سنے بنا بار روم سے نکل کر سامنے سڑک پر آیا اور تیز ، تیز چلنےلگا ، سڑک پار کرکے تیسری گلی میں دو منزلہ عمارت میں اقبال بھائی کا اپارٹمنٹ تھا ہم اپارٹمنٹ پہنچے اور بیل دی تو بھابھی نے دروازہ کھولا ، مجھے دیکھ کر ان کے چہرے پر عجیب سے تاثرات پھیل گئے کہنے لگیں آگئے تم ۔۔۔۔ کہاں تھے ؟ وہ نہیں ہے ، چلی گئی ، اس کی فیکڑی ميں شفٹ شروع ہونے والی تھی دو گھنٹے بعد اور تم تک آنے میں اسے سب وے سے ٹرین میں ڈیڑھ گھنٹے لگ جاتے ہیں ، سو چلی گئی اور تمہارے لیے یہ دے گئی ہے بھابی نے یہ کہتے ہوئے جامنی گفٹ پیپر میں لپٹا ہوا ایک گفٹ اور سلور کلر کے لفافے میں بند ایک کارڑ مری طرف بڑھا دیا میں نے ان سے وہ سب لیا اور اپارٹمنٹ کے صحن سے ہی واپس ہولیا اقبال بھائی کچھ کہنے کے لیے لب کھولنے لگے تھے ، شاید مجھے روکنا چاہتے تھے مگر بھابھی نے آنکھ کے اشارے سے ایسا نہ کرنے کو کہا تو ان کے لب تھوڑے سے کھلے اور بند ہوگئے اور میں آہستہ ، آہتسہ سیڑھیاں اترنے لگا سڑک پر پیدل چلتا ہوا اپنے اپارٹمنٹ پہنچا تو دروازے پر ایک مانوس سی خوشبو نے استقبال کیا اور اس کے آنے کا پتہ چل گیا ، اس بھینی ، بھینی خوشبو سے میں بہت عرصے سے واقف تھا میں نے اپارٹمنٹ میں داخل ہوکر بیڈ پر اپنے آپ کو گرادیا اور لفافہ کھولا اندر سے ایک سفید رنگ کے بیک گراونڈ لیے کارڑ نکلا جس میں مٹیالے کلر میں لکھا تھا Classic card brought smile to your lips.Make someone smile today. چاہنے کے باوجود مرے لبوں پر مسکراہٹ نہ آئی ، بلکہ احساس درد اور تیز ہوگیا نيجے تین سرخ گلاب تھے جن کی ہری ڈنڈیاں بھی نظر آرہی تھیں زرا نیچے کرکے لکھا تھا Love اور اس سے نیچے ہلکے سے کلر کے ساتھ دل بنا ہوا تھا اور اس پر لکھا تھا Endless اور اس سے نیچے جلی حروف میں پھر لو لکھا تھا اور زرا نیچے کرکے بہت سے ستاروں کے جھرمٹ میں لکھا تھا Forget Me Not اور اندر ایک جگہ لکھا Dear and Lovely Mateen , آج سوچا تھا کہ ساری رات اکٹھے گزاریں گے ، لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ویرا

Sunday 25 January 2015

کمٹمنٹ (افسانہ )


وہ بیس سال بعد اس شہر میں آیا تھا اور میرے پاس فیصل کا فون آیا کہنے لگا یار کل تم جو ادبی نشست رکھنے جارہے ہو ، اس کا مہمان احمد کو بنالو ، وہ بہت سالوں بعد آیا ہے میں نے کہا ، ٹھیک ہے ایسا ہی کرلیتے ہیں میں نے ناجد کو کہا کہ پروگرام بدل گیا ہے ، اب کل کی نشست کا مہمان احمد ہوگا ، تم اسی کے مطابق پروگرام ترتیب دے لو ،ناجد نے کہا کہ ایسا ہی ہوگا احمد کا میں نے نام تو سن رکھا تھا ،لیکن کبھی اسے ملا نہیں تھا کتنی عجیب بات تھی کہ وہ دو عشروں تک لاہور رہا اور میں نے بھی ایک عشرہ لاہور گزارا لیکن کبھی ملاقات نہیں ہوسکی ،ہاں کئی بار وہاں دوست اس کا تذکرہ کرتے ، میں سنتا اور چپ کرجاتا اور آج وہ خود چل کر اس شہر میں آگیا تھا تقریب ہوگئی ،اس نے اپنے شعر بھی سنا ڈالے ، تقریب سے فارغ ہوکرمیں نے اس کو کھانے کی پیشکش کی تو کہنے لگا کہ چلیں باؤ محمد علی کے زمیندارہ ہوٹل چلتے ہیں ، وہاں کے چنے کھائیں گے اور پرانی یاد تازہ کریں گے اور ساتھ ہی رحمان سويٹس پو جاکر دیسی گھی میں بنی گلاب جامن کھائیں گے اور ساتھ رحمان صاحب کی باتوں سے بھی لطف اٹھائیں گے ، احسان کی چائے پئیں گے اور چھانو کے ہوٹل پر سیاسی کارکنوں کی بحث بھی سنیں گے وہ ایک ہی سانس میں یہ سب باتیں کرگیا میں زرا شاک میں آیا اور تھوڑی دیر تک کچھ نہ کہہ سکا کیا واقعی اس نے ان بیس سالوں میں اس شہر کی کوئی خبر نہ رکھی تھی خاموش کیوں ہوگئے ؟ کیا باؤ جی سے کوئی ناراضگی ہے ؟ احمد بولا نہیں باؤ جی سے کوئی ناراض ہوسکتا تھا ؟ وہ تو ایسے آدمی ہی نہیں تھے میں نے فوری طور پر کہا "تھے" کیا مطلب باؤ محمد علی تو کب کے " تھے " ہوگئے اور ان کے ساتھ "زمیندار ہوٹل " اور اس کے "چنے " بھی تھے ہوگئے ، میں نے کہا اوہ ۔۔۔۔۔۔۔۔احمد نے کہا اور وہ رحمان سویٹس ، احسان اور چھانو کے چائے کے ہوٹل ، وہاں جمتی سیاسی محفلیں جب رحمان ، احسان اور چھانو ہی نہ رہے تو ان کے ٹھکانے کیسے رہتے ، اور تم تو جانتے ہی ہو کہ ضیاءالحق کے بچوں نے جوان ہوکر سیاست ہی نہ رہنے دی تو سیاسی کارکن کہاں سے باقی رہتے ، اب کسے سیاسی کارکنوں کی ضرورت ہے ، ہاں کہتے ہو تو شہر خموشاں چلتے ہیں وہاں یہ سب ہوں گے ، ان سے مل لیں گے میں نے احمد ، فیصل کو ساتھ لیا اور ایک ہوٹل میں جاکر کھانا کھایا کھانا کھانے کے بعد ہم جب ہوٹل سے نکلے تو اچانک دھند پڑنے لگی آپ کہاں بیٹھتے ہیں ؟ احمد بولا ایک کیفے ہے جسے لطیف ٹی سٹال کہتے ہیں ، حالانکہ اچھی خاصی دکان ہے مڈووالے چوک میں وہاں بیٹھتا ہوں ، پرسکون ہے ، شور زرا بھی نہیں ، میں نے کہا چلو وہیں چلتے اور زرا بیچ شہر سے چلو میں شہر کی گلیوں اور سڑکوں کو دیکھنا چاہتا ہوں احمد بولا مجھے پتہ لگ رہا تھا کہ بیس سال کے بعد اس کی واپسی بے سبب نہیں ہے ، وہ کسی چیز کو تلاش کرنے واپس آیا ہے اور اسے لگتا ہے کہ یہیں کہیں اب بھی بیس سال بعد اسے اچانک وہ مل جائے گی میں فیصل اور وہ آہستہ آہستہ ، چھوٹے ،چھوٹے قدموں کے ساتھ ایوب روڈ سے ہوتے ہوئے ، گوردوارہ روڈ سے جب چوک سنگلہ والے پہنچے تو بے اختیار ہماری نظریں اس جانب اٹھیں جہاں کبھی زمیندارہ ہوٹل ہوتا تھا مگر وہاں اب کچھ بھی ویسا نہیں تھا ، جنت روڈ سنسان پڑا تھا ،چھانو کا ہوٹل جو نہیں رہا تھا اور رحمان سویٹس والی دکانیں بھی بند پڑی تھیں اور گلی بھی سنسان تھی ، یار وہ شیخ پیرو ، عالم شیرازی ، عطا عاصی کوئی بھی تو نہیں نظر آرہا ہاں شیخ پیرو تو وہیں گئے جہاں باؤ جی اور رحمان و چھانو گئے ، جبکہ عطا عاصی ک اس شہر میں ہونا نہ ہونا برابر ہے ، شیر عالم شیرازی لاہور ہجرت کرگئے اور پھر نہیں پلٹے ہم چلتے چلتے جب گپّی والے چوک پہنچے تو وہآن چوک تو کشادہ ہوگیا تھا لیکن نہ بوہڑ کا درخت تھا اور نہ اس کے نیچے گپی کا پھٹا اور نہ اس کے اردگرد بچھی کرسیوں پر بیٹھے شعیب الرحمان ، اکرام القادری ، قدیر طاہر ، شمس القمر تھے یار ! یہ چوک کی کشادگی مجھے نجانے کیوں اچھی نہیں لگ رہی احمد دھیرے سے بولا ہم یہ سنکر چپ رہے ، کیونکہ کہنے کے لیے کچھ تھا ہی نہیں چلتے ، چلتے ہم لطیف ٹی سٹال پہنچ ہی گئے اور وہاں بیٹھے میں نے بیٹھتے ہی سگریٹ سلگانی چاہی تو دیکھا احمد فرید کھانس رہا تھا لگتا ہے آپ کو سگریٹ سے پرابلم ہوگی ، میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ارے نہیں ، میں تو خود چین سموکر ہوں ، آج بس طبیعت نہیں کررہی کجھ دیر کے لیے ہم سب خاموش ہوگئے ہاں تو شہر کیوں چھوڑا تھا ، اجآنک میں نے اس سے سوال کیا کمٹمنٹ کے لیے ، اس کے منہ سے بے اختیار نکلا کمٹمنٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں یار ، میں " کالا بابا " تانگے والے کا بیٹا " کمٹمنٹ " کے لیے یہ شہر چھوڑ گیا تھا کالونی میں جہاں ہم رہتے تھے ساتھ ہی شفقت بھائی کا گھر تھا جو اس وقت نیشنل سٹودنٹس فیڈریشن پنجاب کے صدر تھے ، ان کے گھر ہمارا بہت آنا جانا تھا بلکہ ان کی اماں ہم سب کی اماں بھی تھی ، ان کی بیٹھک میں ایک سالخوردہ الماری کتابوں سے بھری تھی ، میں پانچویں کاس میں تھا جب میں نے ساحر ، منٹو ، فیض ، علی سردار جعفری ، امرتا پریتم ، عصمت چغتائی ، سبط حسن ، بنّے میآں سب کے کام کو چکھ چکا تھا ، اور تک بندی تک کرنے لگا تھا ارے اس وقت تو میں عمروعیار ، ٹارزن کی کہانیاں پڑھ رہا تھا اور ان گنت دیو تھے جن سے ہر وقت ڈرتا رہتا تھا ، چڑیلیں ، بھوت پریت تھے جن کے خوف سے دل کی دھڑکن تیز ہوجایا کرتی تھی اور پریوں کے دیس کوہ قاف کے خواب دیکھا کرتا تھا ، میں نے کہا نہیں ایسا بچپن تو مرے قریب بھی نہیں پھٹکا ۔۔۔۔احمد نے کہا اوہ تو آپ " انوکھے لاڈلے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔" زرا بڑا ہوا تو شفقت بھائی کے گھر میں نے معراج محمد خان ، فتح یاب علی خان ، افراسیاب خٹک جیسے کمیونسٹوں اور ترقی پسندوں کو آتے جاتے دیکھا افراسیاب ۔۔۔۔۔۔۔ہا ہاہا ۔۔۔۔۔۔میں نے قہقہہ لگایا ہنسے کیوں ۔۔۔۔۔۔۔ احمد نے پوچھا افراسیاب کو کمیونسٹ اور ترقی پسند کہنے پر ہنسی آئی ہاں نا ،ایسے تو کئی لوگوں کو سابقین کہنا پڑے گا ، احمد بولا سابق نہيں بلکہ مرحوم کیمونسٹ ، ترقی پسند کہو ، مغفور مت کہنا اس کا مجھے یقین نہیں ہے ،میں نے کہا شفقت بھائی ہمارے گرو تھے ، اسٹڈی سرکل لیتے تھے اور ایسے ہی ایک تربیتی سیشن میں انھوں نے مجھے کہا احمد ! اس دنیا میں اگر کوئی شئے سب سے قابل قدر اور مقصود ہے تو وہ کمٹمنٹ ہے ، اپنے ںظریات کے ساتھ میں نے ان کی بات کو پلّے باندھ لیا شفقت بھائی مرے آئیڈیل تھے ، وہ بھی ایک غریب گھر سے تعلق رکھتے تھے ، صحافت کا شوق تھا تو اسے بطور پیشہ بھی اختیار کرلیا اور "روزنامہ امروز ملتان " میں ملازم ہوگئے ، دن رات طالب علموں کو کمٹمنٹ کا درس دیتے تھے اور اکثر فیض کی نظم " بول کہ لب آزاد ہیں تیرے " گنگناتے رہتے اور میں نے بھی لب آزاد کر ليے ، اپنی زبان کو اپنا سمجھ لیا ، قفل کھولے ، زنجیر کا دامن پھیلا لیا اور کمٹمنٹ سے بندھ گیا ایک دن شفقت بھائی نے کہا کہ انقلاب کی جدوجہد کا مثالی مرکز " صنعتی شہر " ہوا کرتا ہے اور وہاں کمٹیڈ دانشوروں کی ضرورت ہمہ وقت رہتی ہے تو میں نے بھی انقلاب کے مرکز میں جانے کا فیصلہ کرلیا اور لاہور چلا آیا اس کے بعد اپنی کمٹمنٹ سے جڑا میں چھوٹے ،بڑے اداروں میں قلم کی مزدوریاں کرتا رہا اور سماج بدلنے کے خواب دیکھتا رہا یہ وہ زمانہ تھا جب سوویت یونیں روبہ زوال تھا ، سماجی تبدیلی کا خواب انقلاب کے راستے دیکھنے والے مغرب سے آنے والی این جی اوز آندھیوں اور جھکڑ میں گم ہوتے جاتے تھے ، کوئی انسانی حقوق کا علمبردار ، تو کوئی بانڈڈ لیبر کا محافظ تو کوئی روشن خیالی کا پروجیکٹ چلارہا تھا اور تبدیلی کے دھارے کی کایا کلپ سول سوسائٹی کے نام سے ہوگئی تھی اور مرے بہت سے سنگی ساتھی این جی اوز کو پیارے ہوگئے تھے این ایس ایف ، قومی محاز آزادی ، کمیونسٹ پارٹی ، کسان کمیٹی ، ٹریڈ یونین سب قصہ رفتہ ہوئیں اور ان کی جگہ ایچ آر سی پی ، سیپ ، عورت فاؤنڈیشن ، شرکت گاہ نے لے لی اور اب سب پروجیکٹ تھا ، میں کمٹمنٹ کے ساتھ چمٹا ہوا تھا پھر ایک دن مجھے شفقت بھائی کا خط ملا ، خط پر ان کا پتہ فیض آباد اسلام آباد کی ایک سٹریٹ کے مکان کا لکھا تھا یہاں تک بیان کرکے احمد نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک کاغذ نکالا جو خاصا پرانا ہوچکا تھا اور اسے ضایع ہونے سے بچانے کے لیے اس کی لیمینشن کرالی گئی تھی احمد نے وہ کاغذ مری جانب بڑھا دیا میں نے وہ کاغذ جو تہہ کیا ہوا تھا کھولا تو وہ ایک خط تھا جو احمد کے نام تھا پیارے احمد سلام ! امید ہے خیریت سے ہوں گے ، کل مجھے چھوٹا بھائی مہتاب ملا ، اس سے میں نے تمہارے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ تم " جنگ " ميں سب ایڈیٹر کی نوکری کرتے ہو اور ابتک کوئی ٹھکانہ لاہور میں نہیں بناسکے ، جنگ کے دفتر میں نيچے پریس کے گودام ميں نیوز پرنٹ کے بنڈلوں پر سوتے ہو ، اور اس نے بتایا کہ ابتک تم " سماج بدلنے " کا خواب دیکھتے ہو اور بار بار " کمٹمنٹ " کا حوالہ دیتے ہو مجھے یہ سب سنکر بہت تعجب ہوا کہ اتنے برس لاہور شہر میں گزارنے کے باوجود اور اس شہر کے کاسمو پولٹن کلچر سے آشنائی کے باوجود بھی تم نے اپنے ماہ و سال بدلنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور تم اب تک " شراب احمر قدیم " کی محبت میں گرفتار ہو میں تمہیں کہتا ہوں کہ اس سراب سے باہر نکلو ، حقیقت پسندی سے کام لو ، اور ایک بات دھیان سے سن لو " دنیا میں " کمٹمنٹ نام کی کوئی چیز نہیں ہے ، اس سے " چو۔۔۔۔یا اور کوئی چیز نہیں ہے ، یہاں مرے پاس چلے آؤ ، مرے پاس تمہارے لیے اپنی این جی او میں شاندار پروجکیٹ موجود ہے ، بہت جلد تمہارے پاس سب کچھ ہوگآ ، مہتاب کو دیکھا ہے نا تم نے کیسی زندگی گزار رہا ہے اور یہاں آغاز میں بھی تمہیں رہائش ، گاڑی کی فکر نہیں ہوگی ، مری کوٹھی میں رہنا احمد ! وہ سب بکواس تھی جو اس کالونی کے اس ادھ کچے پکّے گھر میں اس بیٹھک میں ، میں تم سے کیا کرتا تھا ، زرا اپنے بھائی کو دیکھو کم از کم اس نے مکان پکا کرلیا ہے ، اور سارا گھر چلا رہا ہے ، تم دیکھو نا اس کمٹمنٹ کی گردان نے تمہیں کیا دیا اس لیے یہ خط ملتے ہی بوریا بستر باندھو اور مرے پاس اسلام آباد چلے آؤ فقط والسلام تمہارا بھائی شفقت۔۔۔۔۔۔۔

Saturday 24 January 2015

تخلیقیت کے ریشم بننتے بنتے مرجانے والا منٹو


تخلیقیت کے ریشم بنتے بنتے مرجانے والا منٹو اٹھارہ جنوری 1955 ء اردو کے معروف افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی وفات کا دن تھا اور اس دن پوری دنیا میں منٹو کے چاہنے والوں نے منٹو کو یاد کیا ، اس دن ہندوستان کی ایک معروف فلم میکر نے منٹو کی زندگی پر فلم بنانے کا اعلان کیا جس نے اس سے پہلے طوطی ہند رگھو پتی ناتھ سہائے فراق پر فلم بنائی تھی میں بھی اس دن کی مناسبت سے سعادت حسن منٹو کو یاد کرنے بیٹھا تو مجھے دنیا زاد کے شمارے چالیس میں چھپا افسانہ نگار ، نقاد محمد حمید شاید کا سراج الدین اسلم مرحوم کو بعد از مرگ لکھا خط یاد آیا ،جس کے آغاز میں انھوں نے سراج الدین اسلم کا ادب اور ادیب بارے یہ لکھا یہ بیان نقل کیا تھا امید اور نا امیدی کے درمیان ایک پیچاک ہی ادب ، خاص طور پر فکشن کا موضوع ہے اور اسی پیچاک کے درمیان ایک پڑاو برج عاج ہے جس میں بیٹھ کر ادیب خواب و خیال کے لچھوں سے جھوجھتا رہتا ہے ، کچھ کو سلجھا لیتا ہے ، کچھ میں ریشم کے کیٹرے کی طرح الجھ کر رہ جاتا ہے اور انجام کار مرجاتامگر دنیا کو تخلیقیت کا ریشم دے جاتا ہے منٹو برج عاج میں بیٹھا ایسا ادیب تھا جس کی تخلیقیت کے ریشم کی آب و تاب ، اور قدر و قیمت اردو ادب کے دیگر ادیبوں کی تخلیقیت کے ریشم سے کہیں زیادہ ہے اور شاید اسی لیے منٹو خون تھوکتے 18 جنوری 1955 ء کو بہت جلد اس دنیا سے رخصت ہوگیا یوسا نے ایک جگہ لکھا کہ فنکار بہت پیچیدہ لوگ ہوتے ہیں ، ان کو نہ تو مثالیت زدگی کے ساتھ دیکھنا چاہئیے ، نہ ہی ان کو مجسم شیطان ، ان کا فن ہے جو اہم ہوتا ہے نہ کہ ان کی زندگی ، ان کو سادھو سنت یا شیطان سمجھنا غلطی ہوگی اسی لیے منٹو کو اگر ہم اس کے کام سے الگ کرکے دیکھیں گے تو اسے سمجھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا احمد راہی سے کسی نے منٹو کی نرگسیت اور انانیت بارے پوچھا تم انھوں نے کہا تھا منٹو کی انانیت و نرگسیت اس کی تنہائی کے ساتھ اس کے تفاعل کا نتیجہ تھی ، منٹو کو امرتسر سے دلی اور وہاں سے ممبئی تک دفتر میسر رہا جو لاہور میں کبھی میسر نہیں آیا ادیب کے خود بین ، انانیت اور نرگسیت میں مبتلا ہونے میں شمس الرحمان فاروقی کو بھی کوئی برائی نظر نہیں آئی تھی اور اس موقعہ پر انھوں نے اشعر نجمی کو کہا تھا منٹو جس قدر انانیت پسند اور جتنا بڑا خود بیں و بڑا نرگسی تھا ، اس کا اپنا فن بھی اتنا بڑا تھا جبکہ حنیف رامے نے کہا تھا کہ سماج اگر ایک دیو ہے تو منٹو وہ پرندہ جس میں اس کی جان ہے ، منٹو انا کی بادشاہت کا اکیلا مالک تھا اور اس کے مرنے سے انا کی بادشاہت کا خاتمہ ہوگیا ابھی فیس بک پر مرے دوست جمیل خان نے وسیم علی کا ایک مضمون شئیر کیا جس میں انھوں نے برطانوی ڈرامہ نگار ابسن کے حوالے سے لکھا کہ ابسن نے اپنے ڈرامے میں ایک عورت کو مرد کو طلاق دیتے ہوئے دکھایا تو اس زمانے کا برطانوی معاشرہ ڈرامے میں بھی ایک عورت کی جرات رندانہ کو برداشت نہ کرسکا اور ابسن پر سخت تنقید ہوئی منٹو نے جس زمانے میں افسانے لکھنا شروع کئے تو ان افسانوں میں دکھائے جانے والے کرداروں کو قدامت پرست تو کیا قبول کرتے ، خرد افروزی ، روشن خیالی ، عقلیت پسندی ، صنفی برابری ، مساوات کے علمبرداروں نے اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا سعادت حسن منٹو پاک و ہند کے ایک ایسے ادیب تھے جنھوں نے سچائی کے ساتھ سماج کے ان کرداروں کی زندگی پر کہانیاں لکھیں جن کے بارے میں کوئی بات کرنا ایک ٹیبو خیال کیا جاتا تھا اور سماج کے اندر منافقانہ طور پر اخلاقیاتی ملمع کاری کرتے ہوئے اس کے بدترین پہلووں کو چھپائے جانے کی جو روائت تھی اس کو انہوں نے توڑدیا ، منٹو کی اس بے باکی اور ہمت کو متحدہ ہندوستان میں بھی اردو کی ادب ، صحافت کی دنیا پر چھائی اشرافیہ نے قبول نہ کیا ، یہاں تک کہ اس وقت کے جو اشتراکی خیالات کے مالک ترقی پسند ادیب تھے وہ بھی منٹو کی اس سچ بیانی و تلخ بیانی کو برداشت نہ کرسکے اور ایک وقت وہ بھی آیا کہ منٹو کو ترقی پسند تحریک کا حصہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا گیا سعادت حسن منٹو کے افسانوں کو شاہد دہلوی نے اپنے رسالے میں شایع کرنا شروع کیا اور اس حوالے سے منٹو کے افسانے " بو " کو شایع کرنے پر ان کو بطور رسالے کے ناشر و ایڈیٹر لاہور کی ایک عدالت میں ماخوز بھی کیا گیا ، شاہد دہلوی نے منٹو پر لکھے اپنے خاکے میں اس بارے کافی تفصیل سے بتایا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ منٹو کو اپنے خلاف مقدمات کی کوئی پرواہ نہیں تھی اور اس پر وہ پریشان نہیں ہوتے تھے نندنا داس سچیتا کہتی ہیں کہ جب وہ طالب علم تھیں تو انہوں نے منٹو کو پہلے انگریزی میں پڑھا اور اس کے بعد انہوں نے دیوناگری خط میں لکھی اردو کہانیاں پڑھیں تو منٹو نے ان کو پوری طرح سے اپنی گرفت میں لے لیا منٹو نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز تراجم سے کیا اور اس سلسلے میں وہ معروف کمیونسٹ ادیب و تاریخ دان باری علیگ کے ساتھ ہوئے اور یہ امرتسر میں ان کی ادبی زندگی کا بطور ایک اشتراکی ادیب کے آغاز تھا ، ہندوستان کے معروف ادیب ڈاکٹر علی فاطمی نے " کامریڈ منٹو " کے حوالے سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں ان کی اشتراکی خیال کے زیر اثر لکھی تحریروں کا جائزہ اور فہرست پیش کی ہے ، منٹو نے اردو ادب کے قاری کو روسی فکشن نگاروں سے واقف کرایا ، چیخوف کے گورکی کے نام خط کے تراجم کئے اور روس کے معروف ادیبوں کی کہانیوں اور شاعری کے منتخب تراجم کئے جن کے مستند ہونے پر کسی کو شک نہیں ہے فیض صاحب نے بھی ایک جگہ منٹو کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کی زمانہ طالب علمی کی چند جھلکیاں دکھائیں ، جس میں منٹو کو نصابی تعلیم سے باغی مگر ادب کا زھین طالب علم کی جھلکیاں دکھائی ہیں ، آزاد منش طبعیت منٹو کی آغاز کار سے تھی اور یہی آزاد منشی تھی جو منٹو کو ممبئی تک لے گئی تھی پطرس بخاری نے بھی آل انڈیا ریڈیو سروس میں منٹو کی زندگی کی کچھ جھلکیاں ہمیں دکھائی ہیں منٹو کے بارے میں حمید شاہد نے بھی بہت ہی پیاری بات لکھی ہے کہ اردو ادب کبھی بھی منٹو کے سحر سے باہر نہیں آسکا اور اردو ادب کو دوسرا منٹو بھی کبھی میسر نہ آسکا منٹو نے کالونیل دور میں انگریز راج بارے عام آدمی اور سفید فام آقا کی زھنیت کو بے نقاب کرنے والے کئی ایک افسانے بھی لکھے جن میں " نیا قانون " ایک ایسا افسانہ ہے جو کوئی بھی پڑھتا ہے تو اسے فراموش نہیں کرپاتا ، منٹو نے فرنگی راج کے خاتمے سے ایک عام آدمی کو کیا توقعات تھیں اسے منگو کوچوان کی شکل میں دکھانے کی کوشش کی ، اس زمانے میں 1935 کا انڈیا ایکٹ نافذ کئے جانے کی باتیں ہورہی تھیں اور اسے ہندوستان کی عام طور پر اور پنجاب کی سیاسی اشرافیہ اور وکلاء وغیرہ اسے بہت بڑا کارنامہ بتلارہے تھے ، ایسے میں " نیا قانون " کا مطلب ایک تانگہ چلانے والے کوچوان نے کیا لیا اور جب اس نے آزادی کے اپنے معنی متعین کرتے ہوئے اس پر عمل کیا تو اس کے ساتھ کیا بنا ، بین السطور اس افسانے میں منٹو نے پوسٹ کالونیل دور ، ہندوستان کے برطانوی قبضے سے آزاد ہونے کے بعد کی صورت حال کی پیشن گوئی بھی کرنے کی کوشش کی جو بعد میں گماشتہ ریاست ، گماشتہ سرمایہ داری ، گماشتہ حکمران طبقے کے ساتھ ہمارے سامنے آن کھڑی ہوئی اور اس کو جب نیو کالونیل یا نو آبادیاتی دور کہا گیا جس میں سفید جلد والے آقا تو چلے گئے تھے لیکن ان کی جگہ کالے ، زرد جلد والے جن کے نام ، خدوخال ، زبان ہماری جیسی تھی لیکن زھنیت وہی سفید آقا والی تھی اور بقول فرانز فینن کہ کالونی بن جانے والے علاقوں کے لوگ جو محکومیت اور غلامی کے تجربے سے گزرے تھے ان پر غلام بنائے جانے کا اثر یہ ہوا کہ وہ خود بھی آقا جیسے بننے کے خبط میں مبتلا ہوگئے منٹو نے تقسیم ہندوستان کو " ٹوبہ ٹیک سنگھ " میں تصویر کیا اور اسے ایک طرح سے پاگل پن اور جنون سے تعبیر کیا اور اس سے جو تقسیم کلچرل سطح پر ہونی تھی اور اس سے ایک عام آدمی کو اپنی جنم بھومی کے اچانک اجنبی بن جانے کا جو صدمہ اٹھانا پڑرہا تھا اور اپنے شہر ، گاوں اور محلے کے یک دم کوئی اور جگہ بن جانے کا جو نقابل فہم عمل تھا اس سے جو صورت حال پیدا ہوئی اسے پاگلوں کی مذھبی شناخت کے حوالے سے تبادلہ آبادی کی صورت بیان کیا ہے ، ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں جائے گا ، اس کے پیچھے دراصل نئے بننے والے دونوں ملکوں کو اصل میں ایسی جگہ بن جاتے ہوئے دکھائے جانے کا عمل ہے کہ کسی کو بھی اپنی جنم بھومی نہیں ملتی اور سب اپنے اپنے ٹوبہ ٹیک سنگھ ڈھونڈنے میں لگے ہوئے ہیں آج اس افسانے کی کہیں زیادہ بڑی تفہیم کی جاسکتی ہے کہ ایک طرف تو پاکستان کے اندر بسنے والی قومیتیں بلوچ ، سندھی ، پشتون ، سرائیکی ، گلگتی بلتی ، کشمیری اور یہاں تک کہ خود پنجابی بھی اپنا ٹوبہ ٹیک سنگھ تلاش کررہی ہیں ، جبکہ 1971ء میں بنگالی اپنا ٹوبہ ٹیک سنگھ بنانے کے لئے بنگلہ دیش کی منزل تک پہنچ گئے تھے ، ادھر ہندوستان میں کشمیری ، ناگا لینڈ ، آسام ، چھتیس گڑھ سمیت ساوتھ انڈین اپنے اپنے ٹوبہ ٹیک سنگھ کو تلاش کررہے ہیں ، اسی طرح سے برصغیر پاک ہند کی مذھبی اقلیتوں ، نسلی گروہوں ، عورتوں کو بھی اپنے ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تلاش ہے ، ٹوبہ ٹیک سنگھ کی رٹ لگانے والا بشن سنگھ نو مین لینڈ پر جم کر کھڑا ہوجاتا ہے اور بالآخر دم توڑ دیتا ہے اور بشن سنگھ کا نو مین لینڈ جہاں نہ پاکستان تھا اور نہ ہندوستان تھا پر کھڑے ہوجانا ایک طرح سے ہندوستان اور پاکستان کے ان لوگوں ، گروہوں اور اقوام کا المیہ ہے جن کو تاحال اپنا ٹوبہ ٹیک سنگھ نہیں مل سکا اور وہ ان ملکوں میں اصل میں نو مین لینڈ پر کھڑے ہیں نو مین لینڈ پر پاکستان میں ہندو ، کرسچن ، احمدی بھی کھڑے ہیں اور مذھبی دہشت گردی کے سامنے آنے کے بعد نومین لینڈ پر کھڑے برصغیر کی متنوع اور تکثیر المذھبیت کی نمائیندگی کرنے والے بھی کھڑے ہیں جن کو ان کے مخصوص عقیدے اور یہاں تک کے مخصوص ناموں کی وجہ سے مارے جانے کا سلسلہ جاری ہے اور ا ن کی بہت بڑی تعداد ہجرت زدگی کا شکار ہوئی ہے ایسی نو مین لینڈ ہندوستان میں مسلمانوں ، کرسچن کے لئے بنی ہوئی ہے جن کو آر ایس آیس ، بجرنگ دل جیسی ہندو فسطائی تنظیموں کے جبر کا سامنا ہے منٹو نے ہندوستان کی تقسیم کے دوران افراتفری ، نفسانفسی کے دوران کئی ایک تصویروں کے زریعے اس طرح کی شاک تھراپی سے کام لیا ہے کہ اس کا سامنا ایک منافق سماج کرہی نہیں سکتا ٹوبہ ٹیک سنگھ افسانے کے بارے میں پاکستانی نژاد ن-م -دانش نے ایک مضمون میں لکھا کہ یہ افسانہ ادب میں Irony کی بہترین مثال ہے ، اس میں راوی کے بیانات سے ، کرداروں کی گفتگو سے ، عمل سے اور کہیں بیان و عمل کے درمیان اور کہیں پوری صورت حال میں ، کہیں پیراڈوکس کی شکل میں اور کہیں دبے ہوئے طنز میں ،یہاں تک کہ اس کے پورے سٹرکچرل نیچر سے یہ Irony جھلک رہی ہے تقسیم کے وقت ایک پاگل پن ظہور پذیر ہوا جس نے پوری فضا کو Ironic کردیا کالی شلوار ، کھول دو ، ٹھنڈا گوشت ، موزیل ، بابو گوپی ناتھ ، یزید جیسے افسانے گہرے طنز کے ساتھ ساتھ جس بدنمائی کو بے نقاب کرتے ہیں اس بدنمائی کو دیکھ کر ہمارے بہت سے واعظ ، محتسب ، مفتی ، قاضی ، اخلاقیات کے ٹھیکے دار کل بھی منٹو کو کوستے تھے اور آج بھی منٹو ان کے ہاں معتوب ہے پاکستان ، بنگلہ دیش ، ہندوستان ان تینوں ملکوں میں سچائی کی اس سرحد پر جاپہنچنے والوں کو کبھی بھی برداشت نہیں کیا گیا جس سرحد پر کئی ایک ٹیبو بے نقاب ہوتی ہوں ،یا ان ملکوں کی ریاستوں اور اس کی نام نہاد نظریاتی سرحدوں کی پول کھلتی ہو ، یا کوئی ایسا شخص کارہائے نمایاں سرانجام دے دے جس کی مذھبی شناخت کو تمام برائیوں کی جڑ قرار دے دیا گیا ، ایسے لوگ ان سماجوں میں بقول وسیم الطاف مس فٹ ٹھہرادئے گئے قرہ العین حیدر کو پاکستان سے واپس اس لئے جانا پڑا کہ ان کے ناول ، کہانیاں ، افسانے پاکستان کی ریاست اور اس کے نظریاتی نام نہاد محافظوں کے بیانئے سے مطابقت نہیں رکھتے تھے سجاد ظہیر کو اپنے اشتراکی خیالات کی بنیاد پر پاکستان میں رہنا محال نظر آیا تو واہس ہندوستان چلے گئے ، ڈاکٹر عبدالسلام کو اس ملک نے ان کی مذھبی شناخت کی وجہ سے قبول نہ کیا ساحر لدھیانوی کو سویرا رسالے میں اشتراکی خیالات کی ترویج کرنے کی بنا پر بغاوت کا مرتکب ٹھہرایا گیا اور ان کو بھی ہندوستان جانے پر مجبور کیا گیا لیکن خود ہندوستان میں صورت حال کیا ہے ، ایف ایم حسین کو آرٹ کی وجہ سے قطر بھاگنا پڑا ، ساجد رشید قاتلانہ حملے میں بال بال بچے ، ارون دھتی رائےنے جب ہندوتوا ، سرمایہ دارانہ تصور ترقی کے بخئیے ادھیڑتے ہوئے ماوسٹ تحریک اور کشمیر سمیت دیگر علاقوں کی ٹھیک ٹھیک صورت حال بیان کی اور ابھی حال ہی میں دی ڈاکٹر اینڈ سینٹ میں انہوں نے مہاتما گاندھی کی رد تشکیل کی اور ڈاکٹر امبیدکر کو ہندوستان کا حقیقی مہاتما قراردیا تو اس پر بھی شور مچ گیا منٹو کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا اور ان کی سچ بیانی پر مشتمل ان کا آرٹ کسی کو بھی نہیں بھایا اگرچہ منٹو کو عام آدمی کی طرف سے خوب پذیرائی ملی لیکن منٹو کے ذھبی سٹریس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ کیسے وہ اس سٹریس کے تحت پاگل خانے جاپہنچے اور ایک دن خون تھوکتے مرگئے منٹو کو مشرف عالم زوقی نے انگلش میں منتقل کیا تو ایک لاکھ سے زیادہ کاپیاں ہاتھوں ھاتھ بک گئیں اور انگریزی پڑھنے والے یورپی نقادوں نے اسے موپساں کے ہم پلہ قرار دیا منٹو نے اپنے فکشن اور نان فکشن میں جن حقیقتوں کو منکشف کرنے اور حقیقت و فسانہ سے ملاکر جس فنتاسی کو تخلیق کیا وہ نقل بمطابق اصل تو تھی ہی لیکن پورا فکشن بھی تھی اور اتنی تلخ تھی کہ اس کی تلخی سے صرف منہ ہی کڑوا نہیں ہوتا تھا بلکہ اس سے چہرے بھی بری طرح سے بگڑ جاتے تھے ، کہتے ہیں کہ عبداللہ حسین ، انتظار حسین اور مشتاق یوسفی نے بھی تو اسی ادب سے لاکھوں روپے کمائے لیکن مرا خیال یہ ہے کہ وہ اس چڑھائی پر کبھی نہیں چڑھے جہاں چڑھنا منٹو کے لئے کھیل تماشے سے زیادہ نہ تھا اور ارباب اختیار اور اس ملک کے اخلاقی کوڑے رکھنے والوں کے لئے اس چڑھائی پر چڑھنا ناقابل معافی جرم تھا اس لئے منٹو کو وہ سکون نہیں ملا جو کم از کم انتظار حسین ، عبداللہ حسین وغیرہ کے حصے میں آگیا ، ہمارے ہاں تو جانگلوس کی ڈرامائی تشکیل ہی ریاست اور حکمران طبقہ بچا سکا تھا وہ منٹو کا ٹوبہ ٹیک سنگھ کیسے بچا پاتا عاصم بٹ نے ایک جگہ لکھا تھا کہ سٹیفن ہاکنگ نے "وقت کے سفر " میں لکھا تھا ایسے طاقتور اور عظیم الجثہ ستارے موجودہیں جو حجم میں بڑے ہونے کی وجہ سے اپنی روشنی خود کھاجاتے ہیں ، ان کا بڑا ہوناان کے حق میں بہتر ثابت نہیں ہوتا .......مگر اس وقت مجھے ایسے چھوٹے ستاروں کا خیال آرہا ہے جو چھوٹے ہونے کے باوجود بڑے ہونے کا زعم رکھتے ہیں اس لئے بڑے ہونہیں پاتے اسی وجہ سے وہ اپنی روشنی ساری کی ساری کھاجاتے ہیں ، ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ بڑے سیاروں کا بڑا پن ان کی روشنی کو کھاجانے سے پتہ چلتا ہے مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ بڑے سیارے تو روشنی کھانے سے پہلے بھی بڑے ہوتے ہیں جبکہ بونے اگر اپنی روشنی کھائیں تو وہ اپنے آپ کو مضحکہ خیز بنالیتے ہیں پاکستان کے اندر منٹو نے جس ٹوبہ ٹیک سنگھ کی نشاندہی کی تھی اس سے یار لوگوں نے ضیاءالحق کے نظریات کے مطابق پاکستانیت برآمد کرنے کی کوشش کی بالکل ایسے ہی جیسے سیکولر ، لبرل ، اعتدال پسند جناح اور مسٹر اقبال کو مولوی بنانے کی کوشش کی گئی تھی ، منٹو پاکستانی تھا یا ہندوستانییہ بحث اصل میں چھوٹے سیاروں کا بڑے ہونے کے زعم میں مبتلا ہونا اور منٹو کی روشنی کو کھانے کی کوسش ہے شاید ایسے ہی بڑے ہونے کا زعم رکھنے والے لوگوں کے بارے میں ہندوستانی نکسل باڑی شاعر پاش نے " کاغذی شیراں دے ناں " ایک نظم لکھی اور کہا تھا تسی اتر ہو نہ دکھن تیرنہ تلوار تے ایہہ جو سلھ والی کچی کندھ اے تسیں ایس وچلیاں دو موریاں ہو جینہاں وچوں کندھ پچھلا شیطان آپنا ڈیفنس تکدا اے تسیں کنک دے وڑھ وچ کرے ہوئے چھولے او تے مٹی تہاڈا وی حساب کرنااے سادے لئے تسی اک ٹھوکر وی نئیں شاید تہانوں آپنی ہوند دا وہم اے میں دسدا آن تسیں کیہ او تسیں کیکر دے بی او جاں ٹٹیا ہویا ٹوکرا جو کجھ وی چکن توں امرتھ او تسیں ایہہ ائر گن موڈھے تے لٹکائی پھردے او تسیں قتل نئیں کرسکدے صرف ست اکونجا دے مدعی ہوسکدے او منٹو کو کیکر کے بیج، ست اکونجا دے مدعی بن سکن آلے دفن نہیں کرسکدے منٹو ایک ایسا فکشن نگار ہے کہ جس کی تحریریں نت نئے معنی اور تفہیم کا در وا کرتی رہیں گی اور جیسے جیسے وقت گزررہا ہے اس کی تحریروں میں چھپے معانی کی پرتیں کھلتی جاتی ہیں اور اس کی تخلیقیت زیادہ سے ہمارے سماج سے متعلق ہوتی جاتی ہے نوٹ : انجمن ترقی پسند مصنفین خانیوال شاخ کی دوسری ادبی نشست کے لئے لکھا جانے والا مضمون ، منٹو کی یوم وفات کے حوالے سے لکھا گیا )