عید سے ایک روز قبل محترم حیدر جاوید سید کا پیغام ملا کہ میں نے ان سے قرۃ العین طاہرہ پر جو کالم لکھنے کی فرمائش کی تھی ، اس فرمائش کو انھوں نے پورا کرڈالا ہے ، مجھے زرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ شاہ جی کا لکھا کالم تو جیسے تیسے لکھا جائے گا اور میں عین عید کے روز قرۃ العین طاہرہ زریں تاج سے ایک اور ہی انداز میں ملاقات کروں گا ، یہ ملاقات کیسے ، کیسے رنگ دکھلائے گی ، اس کا مجھے گمان بھی نہيں تھا ، میں نے چاند رات کو اپنے ایک دوست سے کہا تھا کہ مجھے عید کے بعد ایران جانا ہے ، وہ اس کا بندوبست کرے اور میں قرۃ العین طاہرہ کا گھر ، اس کا بندی خانہ اور وہ باغ جہاں اسے پھانسی دی گئی دیکھنا چاہتا ہوں ، ابھی کچھ روز گزرے جب فرائیڈے ٹائمز میں ایک مضمون شایع ہوا ، جس میں کہا گيا کہ مصر کی قلوپطرہ ، عراق کی رابعہ بصری ، ایران کی قرۃ العین طاہرہ جس طرح کے لازوال فیمنسٹ کردار ہیں ، ویسا ہی کردار ہمیں پاکستان کے اندر بھی تلاشنے کی ضرورت ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ جیسے ہی میں نے یہ پڑھا تو مرے زھن میں " شگفتہ سارا " کا نام آیا ، پھر ڈرا کہ کہیں یہ نام لینے پر صاحبان جبّہ و دستار لٹھ لیکر مرے پیچھے نہ پڑھ جائیں ، ہندوستان میں اگر آج کوئی " قرۃ العین طاہرہ " کی ہمسری کرسکتی ہے تو وہ مرے نزدیک ارون دھتی رائے کے سوا اور کوئی نہیں ہے ، مرے خيال میں پاکستان کے اندر بہت ساری نوجوان عورتیں ہیں جو قرۃ العین طاہرہ بننے کے پروسس میں ہیں ، اب یہ حالات اور ان کی قوت برداشت پر منحصر ہے کہ وہ کب تک مزاحمت کرسکتی ہیں اور مرد شاؤنزم کے آگے سرجھکانے پر تیار نہیں ہوتیں ، ایسا ایک کردار مری زندگی میں " ہما علی " کا تھا اور پھر " شہر بانو " کا تھا دونوں ہی موت کے ہاتھوں قرۃ العین طاہرہ بننے کے پروسس میں ہی فنا کے گھاٹ اتریں اور ایک " شہر زاد " تھی تو اپنے بغداد میں حسن کوزہ گر کے سامنے دیکھتے ہی دیکھتے اپنی الجنھوں کا شکار ہوئی
شہر بانو فلسفہ کی استاد اور عاشق قرۃ العین طاہرہ تھی ، ایک مرتبہ میں اس کے گھر گیا تو میں نے اس کے ریڈنگ روم میں ایک پینٹنگ دیکھی ، جس میں قرۃ العین طاہرہ کو باغ میں پھانسی دیتے ہوئے دکھایا گیا تھا اور ایک اور کیلی گرافک ورک کی پینٹنگ تھی ، جس میں قرۃ العین طاہرہ کے اشعار درج تھے ، یہ شام کا وہ وقت تھا ، جسے کہا جاتا ہے کہ اس لمحے میں دو وقت مل رہے ہوتے ہیں ، سورج مغرب میں ڈوبنے سے پہلے سرخ تانبے کی طرح دھکتا ہوا لگتا ہے اور مغربی افق پر دور تک لالی دکھائی دیتی ہے
ایک مرتبہ شہر بانو کہنے لگی کہ
عامی ! تمہیں معلوم ہے کہ عاشق لوگوں نے افق مغرب پر پہلی اس سرخی بارے کیا متھ / اسطور بنا ؟
میں نے کہا نہیں جانتا
تو شہر بانو کہنے لگی کہ
متھ یہ ہے کہ عاشور کی شب ، شام غریباں کے بعد آسمان سے خون کی بارش ہونے لگی ، ساری کربلا خون سے سرخ ہوگئی اور آسمان بھی سرخی سے بھر گیا اور پھر جب واقعہ کرب و بلاء کو دس سال گزرے تو سرخی کم ہونا شروع ہوئی اور کم ہوتے ہوتے اب یہ افق مغرب تک ہے اور یاد دلاتی ہے کربلاء کی خون ریز داستان کی
اس دن شہر بانو کہنےلگی کہ اسے لگتا ہے کہ افق مغرب میں غروب آفتاب کے وقت اس سرخی میں کہیں زریں تاج قرۃ العین طاہرہ کا خون ناحق بھی ہے جو احتجاج کی علامت ہے
جیسا کہ میں نے پہلے بھی ایک اور تحریر میں بتایا تھا کہ شہر بانو " نہج البلاغہ " کے اسرار کو کھولنے کی ماہر تھی ، اس کا کہنا تھا کہ " نہج البلاغہ " نے اپنا آپ آشکار مجھے قرۃ العین طاہرہ کی شاعری کے زریعے سے کیا ، اس شام اس پر ایک خاص وجد طاری تھا اور اس حالت وجد میں اس نے ، ترنم کے ساتھ اس نے پڑھنا شروع کیا
-گربتو افتدم نظر چہرہ بہ چہرہ رو برو
-اگر تو مرے رو برو ہوکر ، مرے چہرے کے سامنے آکر مجھ پر ایک نظر ڈالے
-شرح وہم غم ترا نکتہ بہ نکتہ موبمو
-تو میں غم محبت کی شرح تمام تر باریکی اور نکتہ ، نکتہ بیان کروں
/از پئے دیدن رخت ، ہمچو صبا فتادہ ام
خانہ بہ خانہ ،در بدر ، کوچہ بکوچہ ،کوبکو
جیسے باد صباء چلتی ہے ، میں ایسے ہی تیری دید کی تلاش میں گھر ،گھر ، در ،در ، کوچہ ، کوچہ اور گلی ، گلی پھری /ہوں
می رود از فراق تو خون دل از دو دیدہ ام /
/دجلہ بہ دجلہ ، یم بہ یم ، چشمہ بہ چشمہ ، جو بجو
ترے فراق میں جو خون دل مری آنکھوں سے نکلا ،وج اب دریا دریا ، سمندر ، سمندر ،چشمہ ،چشمہ اور ندی ، ندی بہہ رہا //ہے
/مہر ترا دل خریں بافتہ بہ قماش بر جاں
/رشتہ بہ رشتہ ، نخ بہ نخ ، تار بہ تار ، پو بہ پو
ترے چہرے کو مرے غمزدہ دل نے ریشہ ، ریشہ دھاگہ ،دھاگہ اور باریک تار ، تار اپنی قماش جاں پر بن لیا ہے
در دل خویش طاہرہ گشت و ندید جز ترا
صفحہ بہ صفحہ ، لا بہ لا ، پردہ بہ پردہ ، تو بہ تو
طاہرہ نے اپنے دل کی سیر کی اور وہاں ہر ورق ورق ، گوشہ ، گوشہ ، پردہ پردہ بس تجھے ہی پایا اور وہاں کوئی اور نہیں تھا
میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ " قرۃ العین طاہرہ " نے دروں بینی سے روشنی پانے کے بعد جب اس کائنات پر نظر ڈالی تو اسے پورا سماج تاریکی میں ڈوبا نظر آیا اور سب محبوب ازل سے بے خبر اور بے پرواہ نظر آئے تو اس نے سب کو اس محبوب ازل سے متعارف کرانے کی کوشش کی اور اس کوشش کے دوران اسے سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا اپنے زمانے کے ملّاؤں -کی جانب سے کرنا پڑا
زریں گل کا زمانہ 1852ء کا ہے اور یہ ایران میں مسجد ، بازار ، امام بارگاہ ، تعلیمی مراکز پر ملّا کے قبضے اور غلبے کا زمانہ ہے اور اگر میں ڈاکٹر علی شریعتی کی اصطلاح استعمال کروں تو یہ " سیاہ شیعت " کے غلبے کا زمانہ تھا اور اس وقت ملّا نے رجعت پرستی اور پسماندگی کو ایران پر مسلط کررکھا تھا اور روشن گر ہر اک آواز کو زبردستی بند کرنے کا سلسلہ جاری و ساری تھا ، اس زژانے ميں نادر شاہ اور اس کے حکام بھی ملّا کے زریعے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے میں لگے تھے اور ایرانی سماج جاگیرداری رشتوں کی زوال پذیر باقیات کے اندر جکڑ کی وجہ سے اور زیادہ تنگ نظر ہوچکا تھا اور اس زمانے میں ایران کے اندر ایک نیا سماجی طبقہ ظہور پذیر ہورہا تھا اور یہ بنیادی طور پر جدید تاجر طبقہ تھا جو آگے بڑھ کر مالیاتی سرمائے کی طرف سفر کرنا چاہتا تھا اور پسماندہ شیعی ملائیت اس کے آڑے آرہی تھی اور فرسودہ تھیالوجی اس کی ترقی میں روکاوٹ بنی ہوئی تھی ، جس کو ہٹانے کے لئے ہمیں بابی تحریک کی بنیاد پڑتی نظر آئی ، جس نے کم از کم شیعت کے ہاں جو ظاہریت پسند ، کٹھ ملائیت کا رجحان تھا اسے مسترد کیا اور نئی راہیں متعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا ، بابی تحریک جو محمد علی باب کی سربراہی میں شروع ہوئی اس نے ایرانی سماج میں پہلی مرتبہ عورتوں کی آزادی ، ان کی سماج کے اندر فعال شرکت پر زور دیا اور فرسودگی کو مسترد کردیا ، ایک طرح سے ایران میں قرۃ العین طاہرہ جدید فیمنسٹ تحریک کی پہلی رہبر اور رہنماء کے طور پر سامنے آئیں اور انھوں نے ایرانی معاشرے کی مرد شاؤنزم پر مبنی بنیادوں کو ہلاکر رکھ دیا
قرۃ العین طاہرہ زریں تاج ملا صالح برغانی کے گھر پیدا ہوئی تھیں ، یہ گھرانہ تفسیر قرآن ، احادیث آئمہ اور کربلاء کے واقعات کے وعظ کے حوالے سے بہت معروف تھا اور ایرانی ملّائیت اسے مثالی گھرانا خیال کرتی تھی ، اس گھرانے نے ایرانی سماج کی پسماندگی ، رجعت پسندی اور تاریک گری کے جواز کے لئے شیعی تھیالوجی کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا تھا ، اس لئے اس گھر کی ایک خاتون زریں تاج جو خود بھی ان تمام علوم سے مسلح کی گئی تھی جو تعبیرات کے اعتبار سے مرد شاؤنزم اور مردانہ بالادستی کو تقویت پہنچاتے تھے اور جو بھی ان کا ماہر بنتا وہ رجعتی تعبیرات کی ہی حمائت کرتا تھا ، چاہے وہ عورت ہوتی یا مرد - شہر بانو اس دن ایک لپک کے ساتھ مجھے یہ سب بتارہی تھی ، اس کا چہرہ جوش جذبات سے دمک رہا تھا ، سرخ و سپید چہرہ بالکل گوہر آبدار جیسا ، جیسے سیپ سے نکلا موتی ، اور مجھے لگآ کہ قرۃ العین طاہرہ کے گھرانے کی ملائيت کور اس گھرانے کی قدامت پرستی و تھیالوجیکل مہارت پر عبور اور اس گھرانے کے کہے ہوئے جملوں کو ملنے والی پذیرائی بارے بتاکر ، وہ شعوری یا لاشعوری طور پر اپنے گھرانے کی مثال دینا چاہتی تھی ، اس کے آباؤاجداد ملّا زادے تھے اور سب کے سب مجتھد فی المذھب کے منصب پر فائز خیال کئے جاتے تھے اور صدیوں سے رواج تھا کہ اس گھر کی عورتوں کے لئے مکتب گھر ہی بنتا ، عربی ، فارسی ، منطق ، فلسفہ ، علم کلام ، تفسیر ، دروس ہائے اصول کافی و فروع کافی گھر ہی پر دے دئے جاتے اور باہر کیا ہورہا ہے ، اس سے بے خبر رکھا جاتا ، جب شہر بانو نے شعور سنبھالا تو ابتدائی کتب پڑھنے کے بعد اس نے بھی اسکول کی ضد کی اور اپنی ضد کی بنا پر وہ کالج اور وہاں سے یونیورسٹی جاپہنچی تھی ، شہر بانو نے جب فلسفہ میں ایم اے کرنے کی ٹھانی اور اس کے ارد گرد مغربی فلسفے کے ڈھیر لگے نظر آئے تو اس کے بابا ملّازادہ تقی کو بہت طیش آیا تھا اور شہر بانو کو پابند کرنے کی اس ملّا زادے نے بہت کوشش کی لیکن شہر بانو تو ایم اے کے بعد ایم فل اور پھر پی ایچ ڈی اور اس کے بعد فلسفے کی تدریس کرنے لگي تھی ، اس نے ایم اے فلسفہ کے لئے تھیسس بھی قرۃ العین طاہرہ کا چنا ، پھر اس نے ایم فل میں تھیسس کلارازیٹکن اور پی ایچ ڈی میں موضوع قرۃ العین طاہرہ اور شیخ ابن عربی کی شاعری میں موازانہ کا چنا تھا ، وہ کالج ، یونیورسٹی میں طاقتور فیمنسٹ آواز بنکر ابھری تھی ، اگرچہ اس کی باتوں پر ملائیت سخت طیش میں تھی اور یہآں تک ہوا کہ ملّا زادہ تقی نے شہر بانو پر ایک دن اپنے گھر کے دروازے بند کرڈالے تھے ، اس دن مختصر سا سامان لئے شہر بانو مرے شہر پہنچی تھی اور چند دن کے لئے پناہ کی خواستگار ہوئی تھی ، یہ اس کے عبوری بے کاری کے دن تھے ، کہیں جاب نہیں مل رہی تھی ، میں نے بھی بہت کوشش کی ، جس کالج سے اس نے بی اے کیا تھا ، وہاں فلاسفی ڈیپارٹمنٹ میں ایک سیٹ خالی ہوئی ، اس نے اپلائی کیا ، لیکن بدلے میں جو قیمت شہر بانو سے مانگی گئی ، اس نے دینے سے انکار کردیا ، ایک این جی او میں اپلائی کیا تو اس کے سی ای او نے شرمناک گفتگو کی ، سب سے مایوس ہوئی ، میں نے کوشش کرکے اسے ایک نجی کالج میں تدریس کی زمہ داری دلوائی ، وہ لاہور ميں ایک چھوٹے سے دو کمرے کے فلیٹ میں کسمپرسی کی زندگی گزارتی رہی اور پھر اس نے ایک یونیورسٹی میں اپلائی کیا اور اسے وہاں اسٹنٹ پروفیسر کی جاب ملی ، مگر وقت بہت تھوڑا تھا ، اس کے پاس ، اسی اثناء ميں اسے جرمنی کی ایک یونیورسٹی سے دعوت ملی ، جانا چاہتی تھی لیکن ایک دن جب وہ رات کو سونے گئی تو رات کے کسی پہر اس کا دل دھڑکنا بھول گیا اور وہ چلی گئی ، اگلے دن جب ایک مختصر سا قافلہ اس کے جنازے ميں شریک تھا تو سوال یہ اٹھا کہ نماز جنازہ کون پڑھائے گا ، اس کے بارے میں طرح ، طرح کی باتیں مشہور تھیں ، کسی کے ںزدیک وہ ناستک تھی ، کسی کے ںزدیک وہ احمدی تھی ، کسی کے ںزدیک رافضی اور رافضی کے ںزدیک وہ ناصبی تھی ، ملّا زادہ تقی کا گھرانہ تو کہنے لگا کہ " شہر بانو " ان کے لئے بہت پہلے مرگئی تھی ، ہم جنازے کو ٹاؤن شپ سے دور گڑھی شاہو لے گئے اور میں نے وہاں ایک مسجد کے مولوی سے جو مرا دوست تھا اور بہت قریب تھا درخواست کی ، اس نے جنازہ پڑھایا ، مجھے جب اس کا جنازہ پڑھایا جارہا تھا اور جب ہم اسے میانی صاحبکے قبرستان دفن کرنے جارہے تھے جبکہ ہم صرف آٹھ لوگ تھے جن میں تین شہر بانو کی شاگرد تھیں ، ہم ملاکر پانچ مرد تھے اور جب ہم نے اس کا جنازہ اٹھایا تو لگتا تھا کہ کوئی بھی تو اس چارپائی پر نہیں ہے ، بہت ہلکی پھلکی تھی ، اور مجھے وہ رات یاد آنے لگی تھی جب شہربانو نے مجھے کہا تھا کہ
عامی ! یہ جو طاہرہ تھی نا ، اس کی روح کی پرواز اس قدر بلند تھی کہ اس بلندی تک پہنچنا کسی کے بس کی بات نہیں تھی ، یہ چیزوں کو جیسے دیکھ رہی تھی ، وہآں تک دیکھنے کےلئے جس بلند نگاہ کی ضرورت تھی وہ اس سماج میں بہت کم لوگوں کے پاس تھی ، طاہرہ کو ان لوگوں سے کوئی گلہ نہیں تھا ، وہ ان کو معذور خیال کرتی تھی
خود شہر بانو کا بھی حال یہ تھا کہ وہ اپنے بابا ملّا تقی زادہ اور اپنے بھائیوں کا زرا بھی گلہ نہیں کرتی تھی ، کہا کرتی تھی کہ وہ ان کو معذور خیال کرتی ہے ، وہ اپنے اوپر طعن تشنیع کے تیر چلانے والوں کو بھی برا بھلا نہ کہا کرتی تھی
ایک مرتبہ کہا کہ
طاہرہ جیسی روح عشق کے اکمال سے سرفراز ہوتی ہیں ، اس لئے ان کو کوئے یار کے بعد اگر کوئی چیز مناسب معلوم ہوتی ہے تو وہ مصلوب ہونا ہوتا ہے ، کیوں کہ وہ عشق سے باز نہیں آتی اور یہ محتسب و قاضی وقت کے لئے ناقابل برداشت بات ہوتی ہے اور اس لئے پھر اس کو مصلوب کیا جاتا ہے
طاہرہ کے ساتھ بھی یہی ہوا ، اس کو پہلے زندان میں قید کیا گیا ، اس کے بعد اس کو نادر شاہ کے دربار میں پیش کیا گیا اور اس بادشاہ نے طاہرہ کو اپنے حرم میں داخل کرنے کی کوشش کی اور بازآنے کو کہا ، لیکن اس نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو ایرانی ملّاؤں نے قرۃ العین طاہرہ کو مرتد قرار دیا اور اس کے قتل کا حکم صادر ہوا ، اسے ایک باغ میں لیجاکر گلہ گھونٹ کر شہید کردیا گیا اور وہیں گمنام جگہ پر دفن کردیا گیا ، کیونکہ ملّاؤں کو خطرہ تھا کہ " طاہرہ " کی قبر مرجع الخلائق بن جائے گی
علامہ اقبال نے جاوید نامہ میں " نوائے طاہرہ " کے عنوان سے ایک نظم لکھی اور اس میں ایک جگہ انھوں نے یہ اشعار لکھے
آخر از دارودسن گیرد نصیب
برنگرود زندہ از کوئے حبیب
جلوہ او بنگر اندر شہر دشت
تانہ پنداری کہ از عالم گزشت
در ضمیر عصر خود پوشیدہ است
اندریں خلوت چساں گنجیدہ است
جو بھی کوئے حبیب سے نکلتا ہے تو وہ زندہ نہیں رہتا ، دار ورسن اس کا نصیب ہوتا ہے ، اس کا جلوہ شہر دشت تک دکھلائی دینے لگتا ہے اور ایک عالم اسے چھپانے کی کوشش کرے نہیں چھپتا ، وہ تو ضمیر عصر میں پوشیدہ ہوتا ہے اور خلوت و جلوت میں اس کی رونمائی ہوتی ہے
میں نے جب شہر بانو کی قبر کا کتبہ بنوایا تو یہی اشعار علامہ کے اس پر کندہ کروائے
ایک مرتبہ میں ، ہما علی ، اور یزدانی مرا ایرانی دوست کراچی سے لاہور آئے اور ایک شام ہم شہر بانو سے ملنے گئے تو شہر بانو نے ہمیں بتایا کہ آج اس نے ہمیں
Jacklenz
کی فلم
Mona ,s Dream
مونا کا خواب
دکھانے کا اہتمام کیا ہے اور یہی ہماری ٹریٹ ہے ، ہم نے یہ فلم پروجیکٹر کے زریعے سے دیکھی جو کہ " شہر بآنو " اپنی ایک کولیگ سے مستعار لیکر آئی تھی ، اس ميں ہم پہلی بار افشین نین ناز جام سے متعارف ہوئے ، جس نے اس فلم میں قرۃ العین طاہرہ کا کردار نبھایا تھا
اس دن شہر بانو نے ہمیں ان ڈراموں اور پلے کے بارے میں بتایا جو "زریں گل قرۃ العین طاہرہ " پر لکھے گئے اور ان میں ہی ایک پلے پولش ، سوویٹ رائٹر
Isabella Grnevoskaya
کا تھا اور اس کی تعریف لیوٹالسٹائی نے بھی کی تھی اور یہ 1904ء میں سینٹ پیترس برگ روس کے ایک تھیڑ میں دکھایا گیا اور پھر 1916ء اور 1917ء میں بھی اسے دکھایا گیا تھا ، اور یہ وہ دور تھا جب روس کی فضا انقلاب کے نعروں سے گونج رہی تھی اور قرۃ العین طاہرہ کی زندگی پر بنے اس کھیل نے اس انقلابی فضا پر اپنا ہی اثر چھوڑا تھا
فلم " مونا کا خواب " اصل میں ایرانی بہائی خاتون " مونا محمودی نژاد " کی زندگی پر بنائی گئی تھی ، مونا محمودی نژاد 10 ستمبر 1965ء میں یمن کے معروف شہر عدن میں پیدا ہوئی تھيں اور ان کو 1983ء میں ایرانی ملائیت نے دوسری نو بہائی عورتوں کے ساتھ سزائے موت سنائی اور پھر شیخ سعدی کے شہر شیراز میں ان کو ایرانی بچوں کو گمراہ کرنے کے جرم میں سزائے موت سنادی گئی تھی ، مونا کا خواب کیا تھا ، اس کے لئے ہمیں قرۃ العین طاہرہ زریں تاج کے خوابوں کی تلاش کرنا ہوگی اور ان خوابوں کے نشان ہميں قرۃ العین طاہرہ کے خطوط میں ملے گا - --- ایسا ہی کہا تھا اس روز شہر بانو کے گھر اس فلم " مونا کا خواب " ميں ایک منظر علی آباد شیراز کی اس جیل کا تھا جو پاسداران انقلاب کی سپاہ کا تھا اور اس سپاہ کے اس بندی خانے میں " مونا محمدی نژاد " کو لٹاکر ایک المونیم کی موٹی تار سے اس کے پیروں پر ضربیں لگائے دکھایا جاتا ہے ، مونا اور دیگر نو عورتوں پر سپاہ انقلاب کے سپاہی تشدد کرتے ہوئے ، ایک ہی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مان لیں کہ اصل میں وہ صہیونیت کی ایجنٹ ہے اور بہائی مذھب ایران ميں صہیونیوں کی پراکسی ہے
زرا ان خواتین کے نام بھی پڑھ لیں جو سپاہ انقلاب کے ہاتھوں پھانسی چڑھ گئیں تھیں
نصرت یلدہ عمر 54 سال
عزت جمانی ، عمر 50 سال
رویا اشراقی بیٹ؛ عزت جمانی اشراقی کی ،عمر 22 سال
طاہرہ سواشی عمر 32 سال
زرین مقیمی ، عمر 28 سال
شریں دلوند ، عمر 25 سال
اختر ثابت ، عمر 19 سال
سمین صابری عمر 20 سال
ماہ شید نرومند ، 28 سال
یہ سب خواتیں اس زمانے کی قرۃ العین طاہرہ تھیں ، جو ملائیت اور تکفیریت کی بھینٹ چڑھ گئی تھیں ، یہ ایران کی تاریخ کا تاریک ترین دن تھا
Constance Faunt Le Roy Runcie
امریکی ادیب ، موسیقار اور کمپوزر تھیں ، جس نے 8136 ء میں جنم لیا اور اس کی وفات 1911ء میں ہوئی ، اس کا مطلب ہے کہ وہ " قرۃ العین طاہرہ " کی ہم عصر تھی اور اس نے " باب کی تحریک " کے آغاز ، عروج اور اس کے سارے اہم واقعات کو اس زمانے میں دیکھا ہوگا اور وہ بھی باب کی تحریک کے اندر موجود فیمنسٹ بیجوں سے متعارف ہوئی ہوگی اور قرۃ العین طاہرہ کے کردار نے اسے بھی متاثر کیا ہوگا ، اس کا ناول باب اس کی عکاسی کرتا ہے اور اس میں زریں گل کا کردار بہت نمایاں ہے
ہما علی نے اس شام ہمیں چند اشعار ترنم کے ساتھ سنائے تھے ، آپ بھی ان سے لطف اٹھائیں
قرۃ العنیم بیا اندر نوا
بانواھای نوای نینوا
تاربائی جملہ زرات نور
ریزی از اشراق وجھی نار طور
جان من برخیز باشور و شرر
درنگر ہا چشم ساقی درنگر
کو فتادہ جملہ زراتیان
درفعید وحدہ اما صعقیان
خیز از جانور چشم انظرم
یاب ایشاں را بجذب اقدرم
تابکی در قعر باشی طرحیہ
تابکی مانی تو سر خافیہ
اور ایک جگہ قرۃ العین طاہرہ اپنی حضوری کا زکر کرتی اور ہردم بس اسی کے مقصود ہونے کا تذکرہ کرتی نظر آتی ہیں ، سرمستی عشق میں طاہرہ کے کہے ہوئے ان اشعار کو ملاحظہ کریں
باختہ جاں بولايش ھمہ شاھد باشید
ایستادہ بوفایش ھمہ شاھد باشید
روز اول کہ رسیدم بمقام ازلی
محو بنمودہ سوایش ھمہ شاھد باشید
دورھا کوز دہ ایں چرخ مدور حین
ایستادم بوفايش ھمہ شاھد باشید '
قرۃ العین نگر با نظر پاک صفی
کیست منظور بھایش ھمہ شاھد باشید
علامہ اقبال نے جاوید نامہ میں قرۃ العین طاہرہ کو اس طرح سے خراج تحسین پیش کیا تھا
سوز و ساز عاشقان دردمند
شورہای تازہ در جانم فکند
اہل درد عاشقوں کے پر سوز ہنگاموں نے میری جاں میں نئے ہنگامے برہا کردیے
مشکلات کہنہ سر بیرون زدند
باز بر اندیشہ ام شبخون زدند
پرانی مشکلات نے اپنا سر اٹھا لیا اور ایک مرتبہ پھر میری فکر پر شب خون مارا
قلزم فکرم سراپا اضطراب
ساحلش از زور طوفانی خراب
میری فکر کا سمندر پوری طرح طوفان خیز بن گیا اور طوفان کی شدت سے اس کا ساحل خراب ہو گیا
گفت رومی "وقت را از کف مدہ
اے کہ می خواہی کشود ہر گرہ
رومی نے کہا جو اپنی ہر مشک کا خواہاں ہے ، تو وقت کو ہاتھ سے نہ جانے دے
چند در افکار خود باشی اسیر
"این قیامت را برون ریز از ضمیر
تو کب تک اپنے افکار میں اسیر رہے گا۔ضمیر کا یہ بوجھ باہر گرا دے
اور احمد فراز کی کتاب " اے عشق جنوں پیشہ " میں قرۃ العین طاہرہ کی شاعری سے متاثر ہوکر ایک غزل موجود ہے جو انھوں نے اس کی ہی نذر کی ہے
نذرِ قرۃ العین طاہرہ
تجھ پہ اگر نظر پڑے تُو جو کبھی ہو رُو برو
دل کے معاملے کروں تجھ سے بیان دو بدو
ہے تیرے غم میں جانِ جاں آنکھوں سے خونِ دل رواں
دجلہ بہ دجلہ یم بہ یم چشمہ بہ چشمہ جُو بہ جُو
قوسِ لب و خُمِ دَہن، پہ دو زلفِ پُر شکن
غنچہ بہ غنچہ گُل بہ گُل لالہ بہ لالہ بو بہ بو
دامِ خیالِ یار کے ایسے اسیر ہم ہوئے
طبع بہ طبع دل بہ دل مہر بہ مہر خو بہ خو
ہم نے لباس درد کا قالبِ جاں پہ سی لیا
رشتہ بہ رشتہ نخ بہ نخ تار بہ تار پو بہ پو
نقش کتابِ دل پہ تھا ثبت اُسی کا طاہرہؔ
صفحہ بہ صفحہ لا بہ لا پردہ بہ پردہ تو بہ تو
شیشۂ ریختہ میں دیکھ لعبتِ فارسی فرازؔ
خال بہ خال خد بہ خد نکتہ بہ نکتہ ہو بہ ہو
(احمد فراز)
(اے عشق جنوں پیشہ، ص106)
مجھے تحریر کی طوالت کا ڈر نہ ہوتا تو اور بھی بہت کچھ اس حوالے سے اپنے قاری کی نذر کرتا لیکن طوالت سے کہیں مرے قاری گبھرا کر پڑھنا ترک نہ کردیں اور لکھنے کا مقصد فوت ہوجائے ، اپنے خیالات کے آگے بند باندھنے کی کوشش میں لگا ہوا ہوں
یہ بھی بتاتا چلوں کہ کچھ عرصہ پہلے جب میں نے حیدر جاوید سید کے گھر شیخوپورہ حاضری دی تھی تو ان کے ریڈنگ روم جو ان کا بیڈ روم بھی ہے میں قرۃ العین طاہرہ پر لکھی ایک کتاب جو کراچی میں بہائی اشاعت گھر نے شایع کی تھی پڑھی تھی اور اس رات ایک نشست میں شاہ جی کے کتب خانے سے یہ فیض میں نے حاصل کیا تھا اور ساری رات تخیل کی پرواز کبھی مجھے شہر بانو کی قبر اور کبھی ہما علی کی قبر تک لیجاتی تھی اور اس کتاب کے کئی ایک پیراگراف ميں نے ان دونوں کو سنائے تھے
مجھے یقین ہے کہ ایسے میں خود " طاہرہ " ، مونا محمودی نژاد اور اس کے ساتھ نو شہیدان وفا بھی موجود ہوں گی اور وہ سب سن رہی ہوں گی
ابھی کچھ روز پہلے میں نے بیگم نگہت خان کا ایک سٹیٹس اپ ڈیٹ دیکھا جس میں انھوں نے کسی کانفرنس میں جانے کا زکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اس کے بعد پاکستان کے اندر فیمنسٹ تحریک پروجیکٹ میں بدل گئی تھی اور حقیقی پولیٹکل ایکٹو ازم گم ہوگیا تھا اور اس پر ان کو بہت افسوس تھا ، مجھے نئی نسل کی خواتین اور لڑکیوں سے امید ہے کہ وہ مرد شاؤنزم ، طبقاتی تفریق اور عورتوں کی آزادی کے لئے اس سیاسی ایکٹوازم کو پھر سے زندہ کریں گی ، میں نے سوشل ميڈیا پر دیکھا ہے کہ نوجوان عورتیں میل شاؤنزم ، عدم مساوات اور رجعت پسندی کے خلاف بہت بہادری سے سٹیٹس اپ ڈیٹ کرتی ہیں اور کام کی جگہوں پر بھی ان ميں بیداری کے آثار ہيں ، یہ بہت زیادہ تو نہیں پھر بھی امید کی ایک کرن کے نظر آنے کی مانند ہے
حیدر جاوید سید نے کہا کہ جب قرۃ العین طاہرہ پر ان کا کالم چھپا تو ایک مولوی نے ان کو فون کرکے کہا کہ " اس نے بہت کوشش کی کہ کہيں سے ان پر گرفت کرلے لیکن افسوس حیدر کی بین السطور بات کہنے کے فن پر گرفت نے ان کو ایسا موقعہ فراہم نہیں کیا ، ایرانی ملّا کو اپنا قبلہ و کعبہ ماننے والے اس ملّا نے ٹھنڈے پیٹوں " طاہرہ " پر ایک سید زادے کا قلم اٹھایا جانا برداشت نہیں کیا ہوگا ، کیونکہ اس کے بزرگوں نے تو 1852ء میں طاہرہ کو زندیق قرار دیکر پھانسی دی اور اس کے ایک سو اکتیس سال بعد " طاہرہ " کی روش اختیار کرنے والی " مونا " اور نو عورتوں کو پھانسی دے ڈالی تھی اور آج بھی ایران میں قرۃ العین طاہرہ یا مونا کا تذکرہ سنگین جرم ہے
مسلم سماج کے اندر عورتوںکی آزادی کا سوال ایک گرم ایشو ہے ، ہمارے ہآں آسیہ بی بی جیسے کردار ناکردہ گناہوں کی پاداش میں پھانسی کے تختے سے چند قدم کے فاصلے پر ہیں اور اگر کوئی " قرۃ العین طاہرہ " بننے کی کوشش کرے گی تو اس کا حشر کیا ہوگا
میں اس موقعہ پر عصر حاضر کی ایک اور قرۃ العین طاہرہ کا زکر بھی کرنا چاہتا ہوں اور اس عید پر اسے بھی یاد رکھنا چاہتا ہوں اور وہ ہے وہ افغان عورت جسے کابل کی سڑک پر پتھر مار مار کر سنگسار کیا گیا اور جب افغانستان کے مردوں نے اس کے جنازے کو اٹھانے سے انکار کیا تو افغان عورتوں نے آگے بڑھکر جنازہ اٹھایا اور ثابت کیا
عاشق کا جنازہ ہے زرا دھوم سے نکلے
افغانستان کی ملائیت کو سانپ سونگھ گیا ، میں منتظر ہوں کہ پاکستان کی عورتیں کب آسیہ کے لئے شہر ، شہر ، گلی ، گلی ، کوچہ ، کوچہ نکلیں گی اور آسیہ کی رہائی کا مطالبہ کريں گی ؟
آپ کو معلوم ہے کہ بحرین میں بھی عورتوں کی ایک بڑی تعداد آزادی اور حقوق کے لئے میدان مين ہے ، ان ميں خواجہ سسٹرز کا کردار بہت اہم ہے اور ایک نوجوان شاعرہ جس کی نظم " خلیفہ " نے قصر بحرین کے ستون ہلاڈالے ہیں ، اس نازک ، دھان پان لڑکی شاعری سے آل خلیفہ جتنی ڈرتی ہے اتنی کسی اور سے نہیں ، تبھی تو عورتوں سے بحرین کی جیليں بھری پڑی ہيں
شام ميں کوبانی اور ديگر علاقوں ميں کرد عورتیں داعش کے خلاف سینہ سپر ہیں اور بزدل داعش والے یرغمال بنی عورتوں کو رقہ کے بازاروں ميں فروخت کررہے ہيں ،مڈل ایسٹ ، جنوبی ایشیا ، شمالی افریقہ کے مسلم سماجوں ميں عورتوں کو دوھری ، تہری مشکلات کا سامنا ہے اور پھر بھی استطاعت کے مطابق مزاحمت سامنے آرہی ہے ، ان کی آزادی کو یرغمال بنانے والی ملائیت ، تکفیریت ، کسی کی خلافت اور کسی کی بادشاہت اور کسی کی ولايت جتنی آج بے نقاب ہوئی ہے ، اتنی پہلے کبھی نہیں تھی ، اس لیے " طاہرہ " جیسے کرداروں کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے
پاکستان میں عورتوں کی تحریک کے لئے "قرۃ العین طاہرہ " ایک عمل انگیز کا کام کرسکتی ہیں اور اس عید پر ہوئی قرۃ العین طاہرہ ، شہر بانو ، ہما علی ، شہر زاد ، مونا محمودی نژاد ، رویا اشرقی جیسی عورتوں سے ملاقات میں مجھے یہی پیغام ملا ہے ، یہ عید اس خواب کے نام جسے دیکھنے کی پاداش میں کئی طاہرہ اور کئی مونا مصلوب ہوگئیں