Thursday 16 April 2015

قمر رضا شہزاد کی شاعری اور ظفر اقبال کا محاکمہ


قمر رضا شہزاد کے بارے میں حال ہی میں ظفر اقبال کے دو کالم شایع ہوئےہیں ، پہلا کالم انھوں نے لکھا تو معلوم یہ ہوا کہ ظفر اقبال کی فرمائش پر انھوں نے اپنے تازہ اشعار ان کو ارسال کئے تھے جن کو پڑھ کر ظفر اقبال نے لکھا کہ ان کو سخت مایوسی ہوئی اور ان کے اشعار میں پہلا سا زور نظر نہیں آیا ، پھر ان کا اگلے روز ایک تفصیلی کالم شایع ہوا جس میں انھوں برملا اس بات کا اظہار کیا کہ انھوں نے قمر رضا شہزاد کی شاعری کو اپنی شاعری کی توسیع قرار دیا تھا تو اس وقت یہ ٹھیک بھی لگتا تھا مگر اب لگتا ہے کہ ایسا نہیں ہے اور ظفر اقبال نے قمر رضا کی اننگز کے ختم ہونے کی بات بھی اشارۃ کہہ ڈالی ہے مجھے قمر رضا کی شاعری کے زوال پذیر ہونے اور ان کے ہاں ایک جیسے مضامین کی تکرار کا احساس پیاس بھرا مشکیزہ کے بعد ان کی دوسری کتاب " ہارا ہوا عشق " اور پھر تیسری کتاب " یاد دھانی " کو پڑھ کر ہوا تھا ، ہارا ہوا عشق تو پھر بھی زرا توجہ سے قدرے انتخاب کے ساتھ مرتب کی ہوئی کتاب لگتی تھی لیکن ان کی تیسری کتاب " یاد دھانی " اگر نہ ہی آتی تو بہتر تھا
ظفر اقبال نے اپنے اور قمر رضا شہزاد کے درمیان مضافات سے آنے کا اشتراکی حوالہ درج کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انھوں نے ایسے شعر کہے جو علم و ادب کے بڑے شہری مراکز میں کم ہی کہے گئے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ظفر اقبال نے پڑھتے رہنے اور آتش تخلیق کو مسلسل سلگاتے رہنے کا کام بڑے شہر میں منتقل ہونے کے باوجود نہ چھوڑا اور وہ بہت زیادہ گروہ بندی اور اپنے آپ کو پیٹی جھگڑوں میں الجھانے کی بجائے مسلسل قرآت ، تصنیف و تالیف کے عمل سے جڑے رہے ہیں لیکن قمر رضا شہزاد کے ہآں ایک عرصے سے کتاب سے رشتہ بہت حد تک ٹوٹ چکا ہے اور وہ دوست داری اور دشمن داری کے سلسلے میں اتنے مگن ہوئے ہیں کہ ان کے پاس پڑھنے کا اور اس پڑھنے کو ہضم کرتے ہوئے اپنی تخلیق کی آگ کو مزید بھڑکانے کا وقت ہی نہیں بچتا اور میں نے اس " دشمن داری و دوست داری " میں ان کو کسی کی شعر و ادب کی قدر و قیمت کے تعین کے عمل کے دوران دیانت داری کا دامن بھی ہاتھ سے ترک کرتے ہوئے دیکھا ہے اور یہ عمل کسی بھی آدمی کے لیے سم قاتل ہوا کرتا ہے ، ظفر اقبال نے زرا پردے میں بات کرتے ہوئے قمر رضا شہزاد کے ہاں تعلی کی موجودگی کی جانب اشارہ دلاتے ہوئے یہ بات کہنے کی کوشش کی ہے کہ تعلی اس وقت جچتی ہے جب فن بھی بلندیوں کی سطح پر ہو ، جوش ، فراق ، حسن عسکری اور منٹو کے ہاں جسے ہم نرگسیت کہتے ہیں اور تعلی کہتے ہیں اگر بہت بڑی تھی تو ساتھ ہی اتنا ہی بڑا ان کا فن بھی تھا جس کی زوال پذیری ان کے ہاں کبھی نظر نہیں آئی اور میں یقین سے کہتا ہوں کہ اگر ان کو اس بحران کا سامنا کرنا پڑتا جس سے قمر رضا شہزاد دوچار ہیں تو وہ نہ صرف تعلی سے دستبردار ہوتے بلکہ کچھ عرصے کے لیے زبردستی شعر و فکشن سے الگ ہوجاتے اور انقباض اگر مستقل ہوتا تو ان کے ہاں تعلی کا دروازہ بھی مستقل بند ہوجاتا قمر رضا شہزاد سمیت بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی شاعری کی دھوم مچی تو تھی لیکن پھر ان کی شاعری شعلہ مستعجل ثابت ہوئی لیکن ان کے ہاں " پرانی محبت میں گرفتار " رہنے کی جذباتیت اسی طرح سے موجود ہے بلکہ اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ " تو مجھے حاجی کہہ میں تجھے مولوی کہوں گا " والی کہاوت ان پر صادق آنے لگی ہے ، ابھی کچھ دن ہوئے ان کی ایک شاعرہ کی سالگرہ پر کہی ہوئی نظم مری نظر سے گزری ، اب اس میں ان کی شاعری کے حوالے سے زمین و آسمان کے قلابے قمر رضا نے ملائے ہیں وہ تیسرے درجے کی گٹھیا خوشامد پرستی سے بھی کہیں نیچے کی چیز ہے ، اور خود وہ ںظم بھی مری نثری نظموں سے بھی کہیں نچلے درجے کی چیز ہے ، حالانکہ ایک مرتبہ جب میں نے نثری نظم لکھی تو ان کو سنائی کہنے لگے " آپ فکشن لکھو ، اس سے زیادہ بہتر کام کرلوگے " میں نے ان کی بات یوں پلّے باندھی کہ جب کبھی کتھارسس کی ضرورت پڑی اور کچھ لکھا تو اس کے حوالے سے کوئی تعلی کرنے سے گریز کیا اور یہ بھی مان لیا کہ یہ میدان ہمارا نہیں ہے لیکن میں حیران ہوا کہ جتنی ایماندارانہ رائے (جس پر میں ان کا بے حد ممنون ہوں ) انھوں نے مرے باب میں دی ، ویسی رائے وہ اکثر بہت سے لوگوں کے بارے میں کیوں نہیں دے سکے اور سب سے بڑھ کر خود اپنے بارے میں ان کی رائے اتنی ایماندارانہ کیوں نہیں ہوسکی چلتے چلتے میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ قمر رضا شہزاد پر مجھے یہ سب کچھ اس لیے لکھنا پڑا کہ میں نے جب شاکر حسین شاکر کے پاس "کتاب نگر " حسن آرکیڈ ملتان آنا شروع کیا اور یہ 94ء کے آس پاس کی بات ہے تو میں واقعی قمر رضا شہزاد تو کیا خانیوال ، ملتان ، بہاول پور کے کسی شاعر اور کسی گروہ سے واقف نہ نہیں تھا اور نہ ہی مجھے یہ معلوم تھا کہ قمر رصا شہزاد کا تعلق مرے ضلع سے ہے لیکن میں دیکھتا تھا کہ قمر رضا شہزاد اس وقت کے تمام اہم ادبی رسالے خرید کرتے ، انڈیا سے آنے والا شب خون ہو ، شاعر ہو کہ نیا ورق ، پاکستان سے قاسمی صاحب کا " فنون ہو کہ آغا صاحب کا اوراق اور پھر تسطیر ، آج ، اس کے ساتھ ساتھ وہ نئے پرانے ناول اور کئی ایک بڑے تراجم بھی باقاعدگی سے خرید کرتے تھے ، اگرچہ میں نے ان سے کبھی سنجیدہ ادبی موضوعات پر بات نہيں کی لیکن چند ایک ملاقاتوں میں مجھے یہ اندازہ ضرور ہوگیا کہ وہ کسی زمانے میں ترقی پسند تحریک اور ںطریہ سے متاثر ہوئے تھے لیکن اب اس سے کہیں دور ہیں اور سچی بات یہ ہے کہ وہ جس سطح کی کتابیں خرید کرتے تھے اس سطح کی تنقیدی ادبی گفتگو یا ادبی محافل میں تقری میں نے ان سے نہ سنی اور میں اسے ان کی کسر نفسی پر محمول کرتا رہا لیکن ان کی شاعری روز بروز تنزل کا شکار ہونے لگی تو سچی بات ہے کہ مجھے اپنا یہ بت بھربھراتا ہوا نظر آنے لگا اور پھر میں نے یہ بھی دیکھا کہ کئی ایک ادب کے بڑے بھائيوں کی خاطر انھوں نے " سچے اور کرنٹ رکھنے والے نوجوان شاعروں " کی تعریف میں بخل سے کام لینا شروع کردیا اور ایسا انھوں نے صرف یاری دوستی نبھانے کے لیے کیا اور مجھے ان کی اس روش سے سخت تکلیف ہوئی ، کیونکہ میں اسے ان کے قد کاٹھ کے منافی خیال کرتا تھا اور کرتا ہوں قمر رضا شہزاد پر دو ہزار سے زیادہ لفظ خرچ کرنے اور اپنے دماغ کا عرق نکال کر رکھ دینے کا صاف مطلب یہ بھی ہے کہ قمر رضا شہزاد کی شاعری کا زوال نظر انداز کردیئے جانے والی خبر نہیں ہے اور نہ ہی قمر کے ہاں بوسیدگی اور اس کی شاعری سے تازگی کا دور ہونا ایسا واقعہ ہے کہ جس کا نوٹس بھی نہ لیا جآئے ، اس کا نوٹس ظفر اقبال جیسے شاعر و نقاد و ادیب نے لیا تو اس کا مطلب ہے کہ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے اور مرے لیے یہ کالم کوئی خوشی کا سبب نہیں ہے کیونکہ قمر رضا شہزاد نے اپنی فکر ونظر سے کبیروالہ شہر کے اندر ہی نہیں بلکہ اپنے گھر کے اندر بھی ایک تبدیلی پیدا کی اور آج فرخ و انجم رضا کی جو بلوغت فکر ہے اس میں قمر رضا کا بہت بڑا ہاتھ ہے اور یقینی بات ہے کہ ان کے لیے " قمر رضا " ایک بت ہیں ، صنم ہیں جس کی ہر ادا عزیز ہوا کرتی ہے رضی الدین رضی ، شاکر حسین شاکر سمیت قمر رضا شہزاد کے بہت سے دوست مرے بھی دوست ہیں اور دوستی اور تعلق مجھے بھی عزیز ہے لیکن " ادب " ہو کہ " سیاست " اور پھر صحافت ہو میں نے ان تینوں میدانوں میں دیانت داری اور سچائی کو کبھی ترک نہيں کیا ، بطور انسان کے اور کئی اور خوبیوں کے ساتھ قمر رضا شہزاد مجھے بہت عزیز ہیں لیکن ان کی شاعری کے بارے میں میں جھوٹ نہیں بول سکتا اور چپ بھی نہیں رہ سکتا اس لیے ان سب دوستوں سے پیشگی معذرت خوا ہوں قمر رضا شہزاد کبیروالہ جیسے شہر سے تعلق رکھتے ہیں جہاں بیدل حیدری جیسے استاد شاعروں کی شاعری کے بڑے حصّے نے وجود پایا اور ایک جہان سے انھوں نے داد پائی لیکن قمر رضا شہزاد کا شعری سفر اتنی جلدی زوال پذیر ہوجائے گا ، سچی بات ہے کہ مجھے اس کا بالکل گمان نہیں تھا اور " یاد دھانی " پر جب میں نے اپنے تاثرات روزنامہ خبریں " ملتان میں شایع کئے تھے تو میں نے کہا تھا کہ " یہ مرا تاثر ہے جو غلط بھی ہوسکتا ہے " لیکن ظفر اقبال کے کالم پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ " مرا تاثر " حقیقت واقعی سے بہت قریب تھا ویسے " یاد دھانی " جب آئی تھی تو میں نے لکھا تھا کہ کبیروالہ میں " فیصل ہاشمی " کی شاعری ميں بہت زور اور دم ہے اور مجھے لگتا ہے کہ قمر رضا شہزاد کی شاعری میں شکستگی اور بوسیدگی کی تلافی قدرت فیصل ہاشمی کی جاندار شاعری کی صورت میں کررہی ہے ، ابھی چند دن ہوئے جب ہم نے " احمد فرید " سابق صدر حلقہ ارباب ذوق کے ساتھ انجمن ترقی پسند مصنفین کے پلیٹ فارم سے نشست کی تو وہاں فیصل ہاشمی نے تازہ غزل کے اشعار سنائے تھے تو ميں ادبی مسرت اور حیرانی دونوں سے دوچار ہوا تھا اور میں نے وہ اشعار ایک دوست کو ارسال کئے ، اس نے وہ قمر رضا شہزاد کو ایس ایم ایس کئے لیکن دوسری طرف سے خاموشی چھائی رہی ، ویسی ہی خاموشی جیسے ظفر اقبال کی بت شکنی کے بعد قمر رضا شہزاد کے ہآں چھائی دکھائی دی اور ظفر اقبال کو اس پر دکھ بھی ہوا ویسے قمر رضا کے ہاں انقباض کے دورانیہ کے طویل ہونے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب "پیاس بھرا مشکیزہ" سامنے آئی تھی تو اس پر بڑے بڑے نامور شاعروں اور نقادوں نے ان کے زور شاعری کی داد دی اور ان کو یہ داد ہندوستان سے لیکر جہاں جہاں اردو ادب کے شناور بیٹھے تھے سب سے ملی لیکن اس کے بعد " ناقدین شعر و ادب " نے قمر رضا شہزاد کے حوالے سے چپ کا روزہ رکھ لیا اور اب تک یہ قائم ہے ، یہ روزہ ٹوٹا بھی ہے تو کیسے کہ ‌طفر اقبال نے ان کی شاعری کی اننگز کے خاتمے کا اعلان کردیا ہے ظفر اقبال کی سچ بیانی اور لگی لپٹی رکھے بغیر حقیقت بیان کرنے کا جواب یہ نہیں ہے کہ ان کو گمنام خط لکھے جائیں ، الٹا ان کی کردار کشی کی جائے اور یہآں تک کہا جائے کہ قمر رضا بھائی اس تنقید کو پڑھنے کے بعد اتنے ڈیپریس ہوئے کہ ان کا موٹر سائیکل پر جاتے ہوئے شدید ایکسیڈنٹ ہوگیا اور اگر ظفر اقبال نے اپنی تنقید کو واپس نہ لیا تو ان کو خاکم بدھن کچھ ہوا تو اس کی زمہ داری ظفر اقبال پر ہوگی ، ظفر اقبال کا اگلے دن کا تفصیلی کالم کہا جاتا ہے اسی طرح کی باتوں کے جواب ميں تھا ، جب انھوں نے یہ لکھا کہ میری شاعری پر جب شمس الرحمان فاروقی ، شمیم حنفی اور دیگر کئی نقادوں نے اسی طرح کی تنقید کی تو میں نے نہ صرف اس تنقید کو اپنے ہاں درج کیا بلکہ اپنی شاعری کا احتساب بھی کیا ہمارے پورے معاشرے کا المیہ یہ بنا ہوا ہے کہ یہاں تنقید کو تنقیص اور سچی رائے کے اظہار کو توھین سمجھ لیا جاتا ہے اور یہ جو شعر و ادب کے میدان میں " دشمن داری و دوست داری " کے اندر " سچائی و دیانت " کو قربان کردینے کا مطالبہ اور خواہش ہے اس نے تخلیقیت کے سوتے خشک کرڈالے ہيں اور یہ صرف " شعر و ادب " کے میدان کی صورت حال نہیں ہے بلکہ ہمارا ہر ایک شعبہ اس بیماری کا شکار ہوا ہے ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ ہمارے شہر کے ایک اہم افسر سے راہ و رسم میں ناکامی کے بعد ایک صاحب نے جن کو میں " ادب کا بڑا بھائی " کہتا ہوں کیونکہ ان کو ادب کے سوا سب کچھ آتا ہے اس افسر کی کردار کشی شروع کردی اور ایک اور جعلی آدمی نے " صحافتی کارڑ " کی بنیاد پر اس شخص کی جانب سے ایک جعلی مشاعرے میں شرکت نہ کرنے کی بنا پر اسے پیغام بھیجا کہ Mr ....... Next time be careful معاملہ صرف اتنا تھا کہ اس جعلی قسم کے مشاعرے میں ایک ایسا آدمی مہمان تھا جو ایک بڑے اخباری گروپ میں بڑے پیمانے پر فراڈ کرنے کی وجہ سے جیل بھیجا گیا اور اس کا کام ہی افسران سے قربت ظاہر کرکے فراڈ کرنا ہے ، جبکہ جس افسر کا ہم زکر کررہے ہيں وہ آرٹ ، فنون لطیفہ سے اسقدر محبت کرتا ہے کہ جب وہ چکوال تعنیات تھا تو اس نے وہآں " کٹاس مندر " کو دوبارہ سے اس کی اصل شکل میں بحال کیا ، اس کی اس خدمت پر اسے ہندوستان اور خود چکوال کی عوام نے " مہاراج " کا خطاب دیا ، وہ جب میانوالی تھا تو وہآن اس نے " پارک بنوائے ، شہر کے پرانے فن تعمیر کو بحال کیا اور اب وہ اس شہر کے اندر بھی اس کی تاریخی شکل و صورت کو بحال کرنا چاہتا ہے ، اسے شاعری ، مصوری ، فن تعمیر سے عشق کی حد تک لگاؤ ہے لیکن اس کے اس لگاؤ کے راستے میں ادب کے بڑے بھائی ، زرد صحافت کے ٹھیکے دار سب سے بڑی روکاوٹ بنتے ہیں ، کیونکہ وہ رشوت نہیں لیتا ، سرکاری زرایع کا ناجائز استعمال نہیں کرتا اور جعلی قسم کے لوگوں کو اصلی تخلیق کاروں پر ترجیح نہیں دیتا ، ہمارے ہاں جو بھی "سچائی اور دیانت " پر اصرار کرے تو اسے یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس کا کھرا سودا اس بازار میں بک نہیں سکتا ، کیونکہ ہمارے ہاں " ہر بازار " چور بازار میں بدل چکا ہے اور چور بازاری اپنے عروج پر ہے

3 comments:

  1. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  2. Even being verily impressions based and somehow debatable on few points, it 's so eloquent rather revealing analysis...
    I am impressed, Man!

    ReplyDelete
  3. May we have a talk, please?!!

    ReplyDelete