Saturday 17 September 2011

وصال کی شب

اے وصال شب !تجھے عجب طرح سے بسر کیا میں نے سرخ رنگ کا لبادہ پہن کر تیری طرف سفر کیا میں نے میری ذات میں کیسی سرخی ہے انڈیلی میں "میں"نہیں رہا ،وہ "وہ"نہ رہا تیری سیاہ شبی کا ہے کمال مجھے میں میرا نشان نہ رہا من و تو کا فرق مٹ گیا میں کیا ہوا ،وہ کیا ہوا خبر ہونے کی اب کہاں سے ملے یہ آج بھی ایک معمہ رہا زیست کا الٹا پیرہن پہنے ہم دونوں خودی کو ڈھونڈ رہے ہیں وصل کی شب مجھ سے گلے لگ کر روتی کیوں ہے اپنا آپ گنوانے والے لمحوں میں تو سوں بھادوں بن کر برستی کیوں ہے وصل شب میں تیرا پیارصحرا میں بارش ہو جیسے ذرے تو نم ہوئے ہوں جیسے من کی پیاس نہ بھجی ہو جیسے رات کے آخری پہر میں جاتی سیاہی میں ہمارا ملنا جیسے کوئی تہجد گزار زاہد جیسے سجدہ کرے یہ کیسی وصل شب ہے جاناں جس میں وصل بھی روتا ہوا قرب بھی جلتا ہوا وصل گر معراج ہے تو کسی یہ معراج ہے جس میں گریہ ہے جہاں قربت دوری بن گئے ہے دونوں پیاسے ہیں اب تلکتشنہ لب ہیں دونوں اب تک مسیح سے پوچھتا ہوں کہتا ہے وصل ہے مصلوب ہونا اسماعیل سے پوچھتا ہوں کہتا ہے وصل ہے ذبیح ہونا منصور میرے سامنے ہےسولی کو وصل کہتا ہوا سرمد کہتا ہے افسوس وصل کی رات ہے تھوڑی سولی بھی ہے ایک بار ،مصلوب بھی ہے ایک بار حسین بھی ایک بار ،کربل بھی ہے ایک بار دربار بھی ہے ایک بار ،دمشق بھی ہے ایک بار بیمار بھی ہے ایک بار،زینب بھی ایک بار یہی وصل ہے ،جو ملتا ہے ایک بار عذاب جان کی شکل بدلتا ہے وصل ایک بات مسلسل عذاب آتے ہیںخواب آنکھوں میں لاتا ہے ایک بار آنسوؤں سے وصل کی شب میرا سواگت میرےدل جلتے کوئلے کی طرح ہے رکھا ہواصبح ہوئی کب؟نہیں جانتا سوچتا ہوں وصال شب کس جشن مناؤںیا جلتے زکموں پہ مرہم رکھوں کسی طبیب دل سے مشوره ضروری ہے-وصل کی رات کا تحفه ہے قید ہونا وصال شب کی سزا میں ہجر و فراق عمر بھر بھگتنا (عامر مستجاب حیدر )

No comments:

Post a Comment