Monday 3 October 2011

ساجد رشید کا مرثیہ............افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی

ساجد رشید کا مرثیہ............افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی

عامر حسینی

ساجد رشید کو پاکستان کے ادبی حلقے تو خوب جانتے تھے-ادب کے کی قاری بھی ان سے واقف ہوں گے-لکین ساجد رشید کو پاکستان کا عام قاری اس طرح سے نہیں جانتا تھا جس طرح سے ساجد رشید کو ہندوستان اور اس کے صوبے مہاراشٹر کے لوگ جانتے تھے-ساجد رشید رشید جو کہ کہنہ مشق صحافی،ادیب ،مدیر تھے -وہ ایک عرصے تک روزنامہ صحافت کے مدیر بھی رہے -ممبئی کے ہسپتال میں ہارٹ سرجری کے ایک آپریشن کے دوران چل بسے-ان کی وفات پر پاکستان کے تمام ادیبوں نے خاموشی اختیار کر لی -کیونکہ ساجد رشید کا قلم ملا گردی کے خلاف خوب چلتا تھا-عجیب بات ہے کہ ساجد رشید مولویوں کے زیر عتاب تو تھا ہی اس کو بال ٹھاکرے کی شیو سینا کے عتاب کا بھی سامنا تھا-اس کے مرنے کے بعد پاکستان کے کسی ادیب میں اتنی ہمت نہیں ہوئی کے اس کی ادبی خدمات کا اطراف ہی کر لیا جاتا -تعزیتی ریفرینس تو دور کی بات ہے-ساجد رشید کے افسانوں کا ایک ہی مجموعہ ایک چھوٹا سا جہنم کے نام سےسامنے آیا تھا-ساجد کے یہ افسانے سماج پر گہرا طنز ہیں -

ساجد پاکستان آئےتھے تو ان سے ایک ملاقات ہوئی تھی-ان سی مل بہت خوشی ہوئی تھی-پاکستان میں اجمل کمال کو خدا سلامت رکھے انہی کا کام تھا کہ ساجد رشید کی کتاب اور ان کے رسالے "نیا ورق "کو وہ پبیچتے رہے-یہ اجمل کمال ہی تھے جنھوں نےہندوستان میں اردو،ہندی اور دیگر زبانوں میں شایع ہونے والے ادب کو یہاں پر متعارف کرایا-میری دو دن قبل رالف رسل کی خود نوشت کا ترجمہ کرنے والی ادیبہ اور جواہر لال نہرو یو نیورسٹی دہلی کے شعبہ اردو کی استاد ارجمند آرا سے بات ہو رہی تھی -وہ بھی اجمل کمال کی تعریف کر رہی تھیں کہ ان کی وجہ سے -پاکستان میں اردو قاری کو ان کا پتا چلا ہے-ساجد رشید کا نیا ورق میں کی سالوں سے پڑھ رہا تھا-یہ وہ رسالہ تھا جس کا مجھے انتظار رہتا تھا-ساجد رشید اس رسالے کے آغاز میں جو اداریہ لکھتے تھے وہ بہت کمال کی چیز ہوا کرتا تھا-ہندوستانی سماج سے مجھے ساجد رشید نے واقف کرایا -ساجد رشید لیفٹ نظریات کے حامی تھے لکین ان کی تنقید سے کیمونسٹ پارٹی بھی نہیں بچ پاتی تھی-نندی گرام میں بنگال کی کیمونسٹ پارٹی نے غریب کسانوں کو جس طرح سے مارا اور ان کو بیدخل کرنے کی کوشش کی اس پر ساجد رشید کا قلم نہیں رکا-مجھے ان کا باقر مہدی پر لکھا مضمون نہیں بھول سکتا جس میں انہونے کیمونسٹ اشرافیہ پر بیباک تنقید کی تھی-انھوں نے بال ٹھاکرے کے خلاف اس وقت کھل کر لکھا جب مہاراشٹر میں کوئی بال ٹھاکرے کے خلاف لکھنے کی ہمت نہیں کرتا تھا-بال ٹھاکرے نے ان پر کی حملے کروائے-لکینانھوں نے ہمت نہ ہاری-ساجد رشید نے اس وقت بھی سچائی کا ساتھ دیا جب گیاں چند کی کتاب ایک بھاشا دو لکھاوت پر ان کے کے ہندو ہونے کی وجہ سے مذمت کی جا رہی تھی-ساجد رشید نے بہت صاف صاف لکھا کہ ہندی کے حقوق ہندوں کو دینے اور اردو کے حقوق مسلمانوں کو دینے کی بات سراسر غلط ہے-وہ کسی بھی رسم الخط کو مقدس گائےبنانے کے بھی سخت مخالف تھے-جب ارون دھتیرائےکے خلاف طوفان بد تمیزی کھڑا ہوا تو ساجد رشید نے کھل کر ارون کی حمایت کی-ساجد ایف ایم حسین کی حمایت میں بھی آگے آئے -انھوں نے ایف ایم حسین کی پینٹگ جو متنازعہ بنی تھی اپنے رسالے کے سرورق پر چھاپ دی--ان کے بارے میں کئی مضامین لکھے--

ساجد نے ایک مرتبہ الیکشن بھی لڑا تھا-وہ بہت تھوڑے ووٹوں سے ہارے تھے-مہاراشٹر میں اور ممبئی میں ان کے چاہنے والے بہت تھے-انھوں نے جاوید اختر ،شبانہ اعظمی کے ساتھ مل کر سیکولر ڈیموکرسی نام کی مہم بھی چلائی تھی-وہ ساری زندگی رجعت پسندی،،جہالت،تعصب . ہٹ دھرمی کے خلاف لڑتے رہے-

پاکستان میں لبرل ادبی حلقوں کی مصلحت پسندی کا یہ حال ہو گیا ہے کہ اتنا بڑا ادیب دنیا سے چلا گیا لکین کسی نے ملا کے خوف سے افسوس تک کے پیغام میڈیا کو جاری نہیں کیے -ہوا کیا؟وہ جو سارادن اور ساری رات فیس بک پر گزارتے ہیں اور اپنی ادب پرستی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں وہ بھی خاموش بیٹھے ہیں-اس ملک میں سلمان تاثیر کا قتل ہوا تو قاتلکو پھولوں کے ہار پہنائے گئے-سلمان تاثیر کو شہید کہنے میں سب کی جان نکلنے لگی تھی-آج ساجد رشید کا کوئی پرسہ دینے کو تیار نہیں ہے-پاکستان میں ادیبوں اور اہل قلم کی یہ خاموشی مجرمانہ ہے-اس نازی-ازم کا مقابلہ کرنے سے ڈرنا بھی ایک جرم ہے-آج کی ترقی پسندی کیا ہے اس کا تعین کرنا بھی بہت ضروری یہ سوال ساجد رشید اپنی زندگی میں اٹھاتے رہے-وہ سچ کا ساتھ دیتے تھے -اس رہ میں کسی کی پرواہ نہیں کرتے تھے-مجھے ایک مرتبہ ملتان کے ادیب شاکر حسین شاکر ،رضی،لاہور کے کہنہ مشق صحافی دانش ور وجاہت مسعود وغیرہ کہنے لگے کہ میں بہت سختی سے خوفناک سچ لکھنے لگا ہوں -مجھے احتیاط سے کام لینا چاہے -ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آج کل خطرناک سچ کوئی بھی بولے لوگ اس سچ کو قبول نہیں کرتے -بولنے والا سولی پر چڑھ جائے تو سولی چڑھ جانے والے کو برا بھلا کہا جاتا ہے-سولی دینے والے کو کچھ نہیں کہ جاتا-یہ ساری باتیں اپنی جگہ ٹھیک ہیں-لکین کیا اس طرح خاموش ہو کررہجانا ٹھیک ہے-پاکستان کے بال ٹھاکروں سے در کر لکھنا بند کردیں؟

ا



ساجد رشید کی زندگی گواہی دیتی ہے کہ سچ کو پورا لکھنا اور وقت پر لکھنا بال ٹھاکروں کی مورت ہوا کرتا ہے-ساجد کے نزدیک عقیدہ پرستی رائٹ ونگ کی ہو یا لیفٹ ونگ کی بری ہوتی ہے-

مجھے بہت دیر سے ساجد رشید کی وفات کا پتا چلا-میں کل کتاب نگر شاکر صاحب کی دوکان پر گیا تھا وہاں انھوں نے مجھے ساجد کے انتقال کی خبر دی-وہ بھی دل آزردہ تھے کہ کسی چینل یا اخبار نے ان کے مرنے کی خبر تک نشر نہ کی-جب کہ بھارتی میڈیا نے تو ان کی بیماری سے لیکر مرنے تک کی خبر نشر کی-ہندوستان میں کئی پرچوں میں ساجد پر مضمون لکھے جانے کا سلسہ جاری ہے-میں نے شاکر سے کہا کہ مل کر ساجد کی یاد میں کوئی ریفرنس کرتے ہیں تو شاکر نے کہا کہ عامر مجھے کوئی عتراض نہیں ہے لکین ذرا خیال کرو کہ میں تازی کر کے کھاتا ہوں -ہمارے سب دوست ایسے ہی ہیں اگر ان کو کچھ ہو گیا تو بچے ،گھر والی سب کو جیتے جی مرنا ہوگا-شاکر کی بات سن کر مجھے ایک لمحے کے لئے بھی یہ خیال نہ آیا کہ شاکر بزدل ہو گیا ہے-یا میرے دوسرے دوست بزدل ہیں-ہرگز نہیں یہ تو ان معصوم بچوں کے مستقبل کا خیال ہے جن کو ہم اس دنیا میں لانے کا سبب بنے ہیں-میں نے شاکر کی بات سن لی لکین فیصلہ یہ کیا کہ پاکستان میں جس کے مرنے پہ کوئی خبر تک نہ چلی اور اس کے حق میں کسی کے دو جملے تک نہیں شایع نہیں ہوئےاس پر میں لکھوں گا-اس کواخبار،رسالہ تک ارسال گا-نہ چھپے لکینفیس بک پر تو اس کو پوسٹ کرنے سے کوئی مجھے نہیں روک سکتا -

ساجد"

گواہ رہنا تمہارے سچ کو ہم نے جس قدر ہو سکا پھیلانے کی کوشش کی ہے-تمہاری صدا کو کہیں گم نہیں ہونے دیا-تمہارے سچ کو زندہ رکھا ہے-تمہاری ادبی اور فکری تنہائی کو ہم نے جلوت میں بدل ڈالا ہے-ساجد تم زندہ رہو گے ہر محبت کرنے والے دل میں-تم زندہ رہو گے ہر انسانیت پرست کے من میں-تم زندہ رہو گے ہر اس دل میں جو لوگوں سے ان کے رنگ،جنس،مذہب،ذات،قبیلہ جیسی بنیادوں پر نفرت نہیں کرتا-تم ساجد محبت کے پجاری تھے اس لئے نہ کافروں نے تم کو قبول کیا نہ مومنوں نے-

No comments:

Post a Comment