Wednesday 29 October 2014

عاشور ، اجتماعی شعور ، دیومالائیت اور سلفی وہابی دیوبندی پیورٹن


خزعل الماجدی
ابھی کل کی بات ہے کہ میں محرم کی مناسبت سے اپنی کچھ یادوں کو ترتیب دے کر ایک رپورتاژ لکھنے کا ارادہ باندھ رہا تھا کہ مجھے علامہ ایاز نظامی کا ایک ٹوئٹ پڑھنے کو ملا ، جس میں انھوں نے عزاداری کو ایک وحشیانہ اور تہذیب سے عاری فعل قرار دے ڈالا اور ایک بہت ہی معلوماتی گروپ ہے فری تھنکررز جہاں پر تاریخ میں مذھبی روایات ، الہامی کتب اور دیگر مقدس کتابوں کے متن پر بحث کی جاتی ہے اور اکثر اوقات مذھب سے ٹریٹمنٹ خاصی معاندانہ بھی ہوجاتی ہے اور ایسے لگنے لگتا ہے جیسے ایک جنگ مذھب کے خلاف چھیڑ دی گئی ہے ، اس گروپ میں زیادہ تر لوگ اسلام کو ترک کرکے الحاد کی جانب آئے ہیں تو اسلام اور اس کے مختلف مکاتب فکر ہی زیادہ تر اس معاندانہ مہم کی زد میں آتے ہیں علامہ ایاز نظامی دیوبندی مکتبہ فکر کے ایک مدرسے میں بقول ان کے پڑھتے رہے اور وہیں سے وہ آخرکار ملحد ہوگئے ، ان کی تحریریں جب میں نے پڑھنا شروع کیں تو مجھے ایسے لگا جیسے میں علامہ تمنا عمادی ، مولانا اسد ، غلام احمد پرویز ، ڈاکٹر داؤد اور محمود عباسی اور ان کے شاگردوں کی مجلس میں آگیا ہوں اور مجھے فری تھنکر گروپ اس فکر کی لہر کو ازسر نو زندگی بخشنے والا لگا جوکہ ہمارے ہاں کبھی کالج ، یونیورسٹی کے اندر عقلیت پسندوں کی شکل میں سامنے آیا تھا اور یہ رجحان مصر سے چلا تھا جہاں پر طہ حسین ، ڈاکٹر امین مصری سمیت ایک بہت بڑا مکتبہ فکر ایسا سامنے آیا تھا جس نے ‍پہلے تو حدیث ، تاریخ اور مسلم تاریخ کے اکثر کرداروں اور واقعات کو غیر مستند ، فرضی ، قصّے کہانیاں کہہ کر رد کردیا تھا اور پھر ان میں سے کچھ اس سے بھی آگے گئے اور انھوں نے خود قرآن کے متن کو بھی دیگر کتابوں سے ماخوذ قرار دے ڈالا تھا مسلم متداول تاریخ اور کتب حدیث کی صحت بارے مستشرقین نے بھی خاصے تشکیک بھرے مواد کو پھیلایا اور ان کا بھی اثر اس عقلیت پسند گروپ پر پڑا ،پاکستان کے اندر اس مہم سے سب سے زیادہ دیوبندی اور وہابی پس منظر رکھنے والے لوگ متاثر ہوئے اور انھوں نے اس فکر کو باقاعدہ منضبط کرنا شروع کیا - دیوبند میں مولوی عبداللہ چکڑالوی ، مولوی حسین بھچرواں ، مولوی غلام اللہ خان بانی جامعہ تعلیمات ‍قرآن راولپنڈی ، تمنّا عمادی ، محمود عباسی سمیت بہت سارے لوگ اسی فکری لہر سے وابستہ تھے ، ایک اور بات جو اس نام نہاد عقلیت پسند گروپ میں مشترکہ ہے وہ یہ ہے کہ انھوں نے جہاں تصوف سے جڑے کلچر کو اور اس سے پیدا ہونے والے تنوع کو عجمی قرار دیکر مسترد کیا ، وہیں ان کی جانب سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ، اور دیگر آئمہ اہل بیت کی جانب بھی سخت معاندت دیکھنے کو ملی اور ان کے ہاں بنو امیہ کو ترجیح دینے کا رجحان بھی طاقتور نظر آیا اور یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں معرکہ کربلاء کو جھٹلانے ، یزید کی حمائت کرنے ، اس کے لیے جواز تلاش کرنے کا رجحان بھی بہت طاقتور نظر آیا میں ایسے مارکسسٹوں سے بھی ملا جوکہ قرون وسطی کی مسلم تاریخ میں علی اور معاویہ کی لڑائی کو قبائلی جمہوریت بمقابلہ ملوکیت کے تناظر میں دیکھتے اور یہ ثابت کرتے کہ پیداواری قوتوں کی ترقی کی وجہ سے قـبائلی جمہوری نظام مسلم دنیا میں چل نہیں سکتا تھا اور اس کی جگہ ملوکیت نے لی جو اس سے زیادہ ترقی پسند تھا اور وہ بنو امیہ والوں کو زیادہ ترقی پسند قرار دیتے اور علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو ایک رجعتی اور ازکار رفتہ نظام کو بچانے کی ناکام کوشش کرنے والا قرار دیتے اور آپ کی سیاست کو ناکام سیاست بھی کہتے تھے اس لیے مجھے اس وقت بھی حیرانی نہ ہوئی جب ایک مرتبہ پھر محمود عباسی کی کربلا کے قصّے کو جھوٹ قرار دینے والی تحقیق کو پھر سے زندہ کیا گیا ، یہ کتاب جنرل ضیاء الحق کے دور میں شایع ہوئی اور پھر جب اس پر شدید احتجاج ہو تو اس پر پابندی لگ گئی ،محمود عباسی جو کہ کٹر دیوبندی اور مماتی دیوبندی گروپ کہلاتے تھے جوکہ برزخی حیات کے قآئل نہ تھے نے واقعہ کربلا کو سرے سے جھوٹ قرار دیا ، انھوں نے تین دن بھوکے ، پیاسے رہنے کو ماننے سے انکار کردیا اور یہ بھی کہا کہ حسین اصل میں عراق آئے ہی نہیں تھے اور محمود عباسی سے جتنے بھی لوگ ملے وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ محمود عباسی کو نہ صرف حسین سے چڑ تھی بلکہ پوری آل ابی طالب سے اسے کوئي اللہ واسطے کا بیر تھا اگر اس کے بیر اور دشمنی کی کہانی کا احوال پڑھنا ہو تو مولانا صائم چشتی کی کتاب " ایمان ابی طالب " کی دو جلدیں پڑھنا کافی ہوں گی اسی کی دھائی میں محمود عباسی ، تمنّا عمادی اور مولوی طاہر کی تحریروں نے ایک اودھم مچا رکھا تھا اور یہ وہ زمانہ تھا جب صرف اہل تشیع ہی نہیں بلکہ اہل سنت المعروف بریلویوں کو بھی میدان میں اترنا پڑا اور یہ سلسلہ یہیں پر نہیں رکا ، وہ وہابی و دیوبندی جو تاریخ اسلام کے ہر اس واقعے اور قصّہ کو رد کئے جانے پر بہت خوش تھے جس سے بنو امیہ پر زد آتی تھی جب معاملہ صحاح ستّہ اور نفس حدیث تک جاپہنچا تو پھر ان کو ہوش آنے لگا اور ان سے اظہار برآت بھی کرنے کی فکر پڑی ، یہ معاملہ یہاں میرا موضوع نہیں ہے کیونکہ اس زمانے کے اندر اس موضوع پر بہت سی کتابیں منظر عام پر آئیں اور دوبارہ غائب ہوگئیں آج پھر ایسی کوششیں ہورہی ہیں اور الحاد کے نام پر ایسی کوششیں کرنے والوں کی جانب سے بظاہر تو یہ کہا جاتا ہے کہ انھیں کسی مذھب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ، نہ ہی وہ کسی فرقے کے اثبات میں دلچسپی رکھتے ہیں اور میں یہ خیال کرتا ہوں کہ وہ کہتے بھی ٹھیک ہیں لیکن مسئلہ ان کے لاشعور میں جاگزیں اس نفرت اور اس نفی کی شدت کا ہے جو وہ کبھی عقلیت پسندی اور اصول درائت کے نام پر شیعت ، تصوف اور تاریخ اسلام سے ابھرنے والے کلچر کو ایرانی ، مجوسی اور نہ جانے کیا کیا بنیاد دیکر روا رکھتے رہے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی جب کہوہ ملحد ہوگئے اور مذھب کی اساس کے انکاری ہیں لیکن وہ مڈل ایسٹ ، جنوبی ایشیا میں کلچر ، تہذیب کے سوال کو سیکولر انداز سے لینے اور ہمارے ہاں محرم ، عید میلاد النبی ، شب برآت ، عرس ، میلے ٹھیلے اور ان سے جڑی رسموں ، رواجوں اور کلچرل رنگا رنگی کو اس طرح سے لینے کو تیار نظر نہیں آتے جیسے وہ دیوالی کو لیتے ہیں ، کرسمس کو لیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دیوبندی تکفیری عزاداری کو فرقہ پرستانہ بنیادوں پر بند کرانا چاہتا ہے اور وہ عاشور کے جلوس کو چاردیواری میں قید کرنے کا مطالبہ کرتا ہے تو ایاز نظامی اور ان کے جیسے اور بہت سارے لوگ جو ملحد ، سیکولر ، لبرل ہونے کا دعوی کرتے ہیں ان چیزوں کو وحشیانہ ، تہذیب سے عاری ، معاشی ترقی میں روکاوٹ قرار دیکر ان کو چاردیواری میں قید کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن مجھے ان کی یہ تنقید بربنائے عقلیت پرستی ، الحادیت کی بجائے ان کے لاشعور میں بیٹھی نفرت پر مبنی لگتی ہے جو انھوں نے شعیت ، بریلویت اور صوفی اسلام وغیرہ کو اسلام میں ایک اجنبی ، ایرانی ، عجمی سازش قرار دینے والے دنوں میں گزارا اور اس کا آظہار ایسے ہی وہ اب الحادیت ، سیکولر ازم اور روشن خیالی کے نام پر کرتے ہیں پاک و ہند کے عظیم اور بڑے روشن خیال اشتراکی ، لبرل ، ترقی پسندوں کا یہ وتیرہ کبھی نہیں رہا ہے - سب کو معلوم ہے کہ فیض احمد فیض ، صفدر میر ، دادا فیروز الدین منصور ، کامریڈ احسان اللہی قربان یہ لاہور میں ایام محرم میں حویلی نثار لاہور آیا کرتے تھے اور جبکہ نویں اور دسویں محرم کے جلوسوں میں شریک بھی ہوتے تھے ، ان سے جب اس حوالے سے سوال کیا جاتا تو وہ اسے کلچرل معاملہ قرار دیتے تھے اور یہی حال سجاد ظہیر ، سبط حسن ، مظفر علی ، احمد علی ، آپا رشید جہاں ، علی سردار جعفری ، کیفی اعظمی ، دادا امیر حیدر ، کامریڈ ڈانگے وغیرہ کا تھا اور آج بھی سی پی آئی مارکسسٹ اور سی پی آئی ، سماج واد پارٹی وغیرہ کے کامریڈ عید ، عاشور ، شب برآت ، دیوالی اور دیگر تہواروں ، عرس خواجہ اجیمر جشتی ، خاجہ نظام الدین اولیاء وغیرہ میں شرکت کرتے ہیں اور اسے ہندوستانی کلچر کی سیکولر بنیادوں کا لازمی جزو قرار دیتے ہیں اور انھوں نے کبھی کوئی سیکولر وہابیانہ ، پیورٹن تحریک ان سب کے خاتمے کے لیے نہیں چلائی اور نہ ہی کبھی عقلی ، سائنسی اور مذھبی بنیادوں سے ان کلچرل ریتوں اور معاشرے میں پائی جانے والی مائتھولوجی کو رفیوٹ یا غلط ثابت کرنے کی کوشش کی اور کلچر کی طرف ایس طرح سے اپروچ کرنا ایک اور طرح کی بنیاد پرستی ہے اور اس کا فری تھنکنگ ، آزاد خیالی سے رشتہ کم اور اپنے لاشعور میں بیٹھی نفرت کا اظہار زیادہ ہے مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ جیسے مغرب میں وہابی - دیوبندی فاشزم کے ردعمل میں اسلامو فوبیا سامنے آیا ہے ، ایسے ہی ہمارے ہاں بھی شیعہ فوبیا بہت پایا جاتا ہے اور شیعہ فوب صرف مذھب پرستوں میں ہی نہیں پائے جاتے یہ ملحدوں میں بھی پائے جاتے ہیں اور یہ اینٹی مائتھولوجیکل عقلیت پسندی کے راستے سے اپنے شیعہ فوبیا کا اظہار کرتے ہیں مجھے کلچرل لہروں کے سفر میں محرم کی وہ راتیں یاد ہیں جب حویلی نثار میں اہل تشیع کم اور اہل سنت کے نوجوان مرد و عورتیں زیادہ نظر آتی تھیں اور کراچی میں بھی یہی معاملہ تھا اور آج بھی اگرچہ پہلے سے زرا کم یہ سلسلہ جاری ہے اور ایک مائتھولوجیکل لہر اپنے کلچر میں رواں دواں نظر آتی تھی جس کا اثر اب پاکستان میں مسلسل پھیلنے والے شیعہ و تصوف فوبیا کی وجہ سے کم ہوتا نظر آتا ہے میں اس حوالے سے خاصا پریشان تھا اور اس دوران یہ بھی سوچ رہا تھا کہ اس حوالے سے جب بھی کوئی بات کرنے کی کوشش ہو تو ایسے بہت سے لوگ آن لائن موجود ہیں جو فوری طور پر آپ کو فرقہ پرست ، رجعتی اور نہ جانے کیا کچھ کہنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں پاکستان میں شیعہ نسل کشی ، شیعہ فوبیا ، صوفی سنّیوں اور تصوف سے ابھرنے والے کلچرل مقامات پر حملے ایک حقیقت ہیں لیکن ایسے ٹھگ موجود ہیں جو ایک طرف تو اسے دو فرقوں کی باہمی جنگ بناکر پیش کرتے ہیں تو دوسری طرف وہ ان حملوں کے زمہ دار دیوبندی وہابی تنظیموں کے لیے جواز ڈھونڈتے ہوئے فرضی طور پر شیعہ اور صوفی سنّی ملیشیاؤں کا وجود پاکستان میں ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، میں ردعمل میں شیعہ کے اندر یا صوفی سنیوں میں انفرادی طور پر غیر منظم تشدد اور دھشت کے اظہار اور مظاہرے کا انکار پاکستان میں نہیں کرتا لیکن اس انفرادی اور انتہائی شاز و نادر و انتہائی غیر منظم اطءار دھشت و انتہا پسندی کو اگر وہابی - دیوبندی تکفیری فسطائی منظم دھشت گردی اور نسل کشی کرنے کے فعل کے برابر ٹھہرایا جائے تو یہ سوائے شیعہ فوبیا کے شکار ہونے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے خیر یہ سب تو چلتا ہی رہے گا ، واقعہ کربلا اور شہادت حسین یہ سب ایک مائتھولوجی کے طور پر جنوبی ایشیا ، مڈل ایسٹ کے معاشروں اور سماج کا حصّہ بن گئے ہیں اور یہ جو محرم ، عاشور کے بارے میں ہمارے معاشرے کی اکثریت دیومالائی انداز میں سوچتی اور عمل کرتی ہے تو یہ دیومالائی طرز فکر مائتھولوجیکل تھنکنگ صرف ہم سے ہی خاص نہیں ہے بلکہ یہ ایرانیوں اور عربوں دونوں کے بارے میں سچ ہے میں اس بارے میں سوچ رہا تھا کہ مجھے میرے ایک لبنان سے تعلق رکھنے والے دوست راحیل دنداش نے اپنا ایک مضمون بھیجا جوکہ عراق کے معروف ماہر تاریخ و آثار قدیمہ خزعل الماجدی کے عرب دیومالائیت کے بارے میں تھا اور یہ میل مجھے اس وقت ملی جب میں محرم ، عاشور ، واقعہ کربلا اور خانوادہ اہل بیت کے بارے میں مسلمانوں ، ہندؤں ، عیسائیوں اور یہاں تک کہ کسی مذھب کے نہ ماننے والوں کے اندر پائی جانے والی دیومالائی رومانویت اور عقیدت بارے سوچ رہا تھا مجھے خیال آیا کہ مین جب طالب علم تھا اور مارکسی اسٹڈی اسکول لیا کرتا تھا تو ہمارے چند سنئیر کامریڈ کہتے تھے کہ شیعہ خدا کا انکاری ہوجائے ، مذھب ترک بھی کردے اور کمیونسٹ ہوجائے لیکن وہ علی و خانوادہ اہل بیت کا انکاری نہیں ہوتا ، اس اعتبار سے رہتا شیعہ ہی ہے یہ بات ظاہر ہے ازراہ مذاق کہی جاتی تھی اور جب میں نے اس بات کی گہرائی میں جاکر سوچا اور میرے سامنے فیض احمد فیض ، سجاد ظہیر ، کیفی اعظمی ، سبط حسن سمیت کئی ایک ترقی پسندوں کے معمولات سامنے آئے اور عاشور و محرم کی رسومات ، مجالس سے ان کا شغف دیکھا اور میرے سامنے اپنے گھر میں کئی ایک پکّے کمیونسٹوں کی مثالیں تھیں جو سرخ سویرا طلوع ہوتے دیکھنے کے خواہش مند تھے ، شیعہ ملّاؤں سے اور ایرانی آیت اللہ سے اتنے ہی بیزار تھے جتنے وہ دوسرے مذھبی ملّاؤں ، پادریوں ، پنڈتوں سے بے زار تھے لیکن عاشور ان کی زندگی میں ایک اہم کلچرل ، ثقافتی ، تہذیبی سرگرمی کا درجہ رکھتا تھا اور علی ، ابو زر ، عمار یاسر ، سلمان فارسی ، حسن ، حسین وغیرہ ان کے ہاں مزاحمت ، بغاوت ، سچائی ، صداقت ، انقلاب کے استعارے تھے اور ظالموں کے خلاف قیام و مقاومت کا روشن چہرہ تھے اور ان کے ہاں یہ کسی فرقے اور کسی مذھب کو سچا اور حقیقی ثابت کرنے کا معاملہ نہیں تھا اور نہ ہی کسی منصوص من اللہ کی ولایت کو ثابت کرنے کا معاملہ تھا بلکہ اس کی دو جہتیں تھیں کہ ایک جہت ثقافتی و تہذیبی دیومالائی اور دوسری اس کی استعاراتی ، تشبہاتی حثیت تھی اور پہلی حثیت میں ان کو یہ کٹھ ملائیت اور پیورٹن ازم جسے ہم وہابیت کہہ سکتے ہیں اور اسے ہم مذھبی پیشوائیت یعنی تھیوکریسی بھی کہہ سکتے ہیں کے خلاف ایک مضبوط میڈیم لگتی تھی جوکہ یہ ہے بھی اور دوسری حثیت میں یہ ان کو استحصال ، ظلم ، جبر ، کے نوآبادیاتی ، سرمایہ دارانہ ، سامراجی ضابطوں کے خلاف مدد دینے والے استعارے اور تشبیات لگتی تھیں اور انھوں نے اس سے کام بھی لیا راحیل دنداش کی میل نے مجھے ڈاکٹر علی شریعتی کی عاشور ، محرم ، علی ، حسین کے ساتھ ٹریمنٹ اور برتاؤ یاد کرایا اور ان لیکچر " علی ایک دیومالائی سچ " میرے سامنے آگیا اور مجھے ایسے لگنے لگا کہ جیسے میں تہران یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں ان دو لاکھ ایرانی طلباء و ظالبات کے ساتھ موجود ہوں جن کے سامنے عاشور کے ایام میں شریعتی نے یہ لیکچر دیا تھا اور پھر یہی لیکچر شہادت علی کے موقعہ پر شریعتی نے جامعہ حسینیہ ارشاد میں دیا تھا اور دونوں جگہوں پر مجھے ایرانی کمیونسٹ پارٹی یعنی تودے پارٹی سے تعلق رکھنے والے طلباء و طالبات کی کثیر تعداد بھی نظر آرہی ہے اور ان دنوں تودے پارٹی کا طلباء ونگ تہران یونیورسٹی کے کمیپس پر چھایا ہوا تھا اور ان کا عاشور کے بارے میں برتاؤ ، شعور ، رویہ یقینا وہ نہیں تھا جو آیت اللہ خمینی ، مرتضی مطہری ، بہشتی کے ماننے والوں کا تھا لیکن دونوں عاشور کو ایک رجعت پرست ، تہذیب سے عاری اور وحشیانہ شئے خیال ہرگز نہیں کرتے تھے خزعل ماجدی کے حوالے سے لکھے آرٹیکل میں راحیل نداش نے بات یہاں سے شروع کی ہے کہ عرب سماج میں دیومالائی طرز پر سوچنا ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے اور اس کے خیال میں یہ بات صرف عرب سماج کے بارے میں ہی درست نہیں ہے بلکہ یہ پوری مسلم دنیا کے سماجوں کے بارے مین درست ہے - بلکہ وہ کہتا ہے کہ پوری دنیا مین لوگوں کی اکثریت کا شعور اور بیداری کا انحصار مائتھولوجی پر ہے اور اس کی وجہ و سبب کو کئی طریقوں سے واضح کیا جاسکتا ہے -اور وہ اس حوالے سے خزعل الماجدی عراقی ماہر تاریخ کے خیالات پیش کرتا ہے ، جس نے بہت تحقیق اور عالمانہ انداز میں یہ ثابت کیا ہے کہ دیومالائیت کا عربوں کے اجتماعی شعور میں بہت ہی اہم کردار ہے خزعل ماجدی کہتا ہے کہ دیوملائیت کلچر اور تہذیب کے دھاروں کی جان ہوتی ہے اور دیومالائی کہانیاں ، ان سے ابھرنے والی رسومات اور خیالات کسی بھی سماج کی ثقافتی بنت کاری میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں لیکن اس کے خيال میں جب کسی مذھب کے نام پر کوئی پیورٹن تحریک جس میں وہ وہابیت ، سلفیت کی مثال دیتا ہے جب اس دیومالائی کہانیوں اور اس سے جنم لینے والی رسومات اور طور تحریکوں کو اس مذھب سے اور اسی بنیاد پر اس سماج کے کلچر ، تہذیب سے نکالنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر تباہی ، بربادی سامنے آتی ہے اور اس طرح سے کسی طرح کی سچائی سامنے آنے کی بجائے ایک اور طرح کی دیومالائیت ، مائتھولوجیکل وے آف تھنکنگ سامنے آجااتا ہے اور وہ طرز فکر خزعل الماجدی کی ںظر میں آج عرب معاشروں کی تباہی کا باعث بنا ہوا ہے خزعل الماجدی کا کہنا ہے کہ عرب معاشرے سلفی وہابی تحریک کی شکل میں آج بھی قرون وسطی کے ایک نئی دیومالائیت کے ساتھ رہنے کی کوشش کررہے ہیں جو ان سماجوں کی جدیدیت کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ بن چکی ہے اور یہ ترقی نہ کرنے اور سائنسی سوچ سے ہم آہنگ نہ ہونے کا اظہار بھی ہے ماجدی کہتا ہے کہ اس طرح کی سلفیت کی سب سے خطرناک چیز یہ ہے کہ قرون وسطی سے ایسے مائتھ اور لیجنڈ ماضی کے اندھیری غاروں سے نکال کر لاتی ہے اور ان کو اجتماعی شعور کا حصّہ بناتی ہے کہ وہ سب کے سب استعاراتی شکل میں ایسے نعروں اور تمثیلوں میں دھل جاتے ہیں جن سے دھشت گردی کو ایندھن ملتا ہے ، تصادم ظہور پذیر ہوتا ہے ، خانہ جنگی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور اکثر یہ استعاراتی عمل خدا کے نام پر اور مقدس علامتوں کے زریعے کیا جاتا ہے خزعل الماجدی کہتا ہے کہ سلفیت عرب معاشروں کی ثقافتی روح میں رواں دواں مائیتھولوجی اور اس سے ابھرنے والی رسوم اور طریقوں کو شرک ، بدعت قرار دیکر ان کی جگہ جو مقدس علامتیں مسلط کرنے کی کوشش کرتی ہے ان علامتوں نے پھر کار بم ، مذھبی وہابی دیوبندی دھشت گرد گروپوں ، اکثر چئیرٹی ، خیراتی اداروں ، نعروں ، علامتوں ، بینرز اور شہادت فی سبیل اللہ کے نعرے ہی ان نئی دیومالائیت کی شکل اختیار کرجاتے ہیں اور خزعل یہ بھی کہتا ہے کہ مائتھولوجی کو زیادہ سے زیادہ سادہ بنانےکا رجحان توحیدی مذاہب میں پایا جاتا ہے اور پیورٹن جیسے ہمارے سلفی ہیں وہ اس کو بالکل ہی ختم کرنے کے درپے ہیں ہوتے ہیں اور مدنیت یعنی شہری زندگی کی چکاچوند کو وہ واپس بدویانہ دور میں لیجانے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی کے بطن سے انارکی جنم لیتی ہے کلچر کو خشک ملائیت اور اس کی انتہائی شکل وہابیت- دیوبندیت اور اس سے جنم لینے والی تکفیریت سے جن خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، ان کی بدترین شکلیں مڈل ایسٹ کے اندر نظر آرہی ہیں

Friday 17 October 2014

کرد گوریلا خواتین کی جدوجہد ۔ سامراجیت اور جنگجو مزاحمت کار عورتوں کی فیٹشائزیشن


آج کل مغربی میڈیا ، سوشل میڈیا میں کرد عورتوں کی عسکری تنطیم پی وائی جے کی داعش کے خلاف جدوجہد بارے بہت کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے اور فیشن انڈسٹری بھی پیچھے نہیں رہی ، اس نے کرد گوریلا خواتین جو خاکی گرین جمپ سوٹ پہنتی ہیں ،ان کو فیشن کے طور پر متعارف کرایا ہے ، ایک سویڈش فیشن ٹیلر کمپنی ایچ اینڈ ایم نے جب اس کو بطور ماڈرن فیشن کے متعارف کرایا تو اس پر کردوں کی جانب سے تو سخت تنقید ہوئی بلکہ فیمنسٹ حلقوں نے بھی اس پر سوال اٹھائے فیمنسٹ حلقوں کو پی وائی جے کی گوریلا خواتین کی مغربی پروجیکشن اور اس حوالے سے ہونے والی میڈیا رپورٹنگ اور سرخیوں وغیرہ پر تشویش ہے اور وہ اسے عورت مخالف پدرسری طاقت کی تجسید قرار دے رہے ہیں رقیہ شمس الدین لبنانی نژاد امریکی فیمنسٹ سکالر خاتون ہیں ، اور " لیٹرز فرام انڈر گراؤنڈ " کے عنوان سے کالم لکھتی ہیں ، ان کے اکثر آرٹیکل عرب ملکوں کے اخبارات اور جرائد میں شایع ہوتے رہتے ہیں ، ابھی کچھ دن پہلے انہوں نے کرد گوریلاجنگجوؤں میں خواتین گوریلا فائٹرز کا معروف یونٹ پی وائی جے کی داعش کے خلاف شام میں جنگ کے حوالے سے ایک آرٹیکل لکھا جس کا عنوان تھا Women as tools: on the selective fetishization of female resistance fighters. یہ آرٹیکل کرخواتین گوریلا فائٹرز خواتین کی داعش کے خلاف عین العرب - کوبانی میں لڑائی کو مغربی میڈیا کی جانب سے ایک انوکھی اور فیسی نیٹ جدوجہد کے طور پر پیش کرنے اور ان گوریلا خواتین کے مخصوص جمپ سوٹ کو ان سے ہی حاص کرنے پر فیمنسٹ تنقید پر مشتمل ہے اور میں نے کم از کم پاکستانی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا و سوشل میڈیا میں اس حوالے سے ابتک کوئی نوٹ یا پوسٹ ، آرٹیکل ، فیچر نہیں دیکھا رقیہ شمس الدین نے اپنے ارٹیکل کے آغاز ہی میں ایک زبردست آئيڈیالوجیکل رجحان کی طرف اشارہ کیا ہے جوکہ اس کے خیال میں جنگ کے دنوں میں عام طور پر اور جنگ میں شریک ہوجانے والی عورتوں کے حوالے سے پدر سری معاشروں میں دیکھنے کو ملتا ہے رقیہ اس کو فیٹشائزیشن آف ویمن کہہ کر پکارتی ہے اور وہ اسے جنگ میں مصروف عورتوں کی فیٹشائزیشن کا نام دیتی ہے اور اس کے خیال میں یہ پدر سری تجریدی طاقت کی ٹھوس مادی و تجسیمی شکل کا اظہار ہوتا ہے ، وہ لکھتی ہے کہ The fetishization of women during times of war, especially women in combat, can be argued as being a reification of patriarchal power; the patriarchal view of female violence as being a demonstration of chaos reimagined as tolerable and even acceptable so long as this violence serves patriarchy, militant or otherwise. Despite the female identity being granted space for violent expression, the sexualization of these spaces and the bodies which take up these spaces, has become normalized. عورتوں کی جانب سے تشدد تشدد کئے جانے بارے جو تصور پدر سریت کے حامی دانشوروں میں پایا جاتا ہے اس کی دوبارہ سے ایسے تشکیل کہ اس کا جواز فراہم کیا جائے رقیہ کے بقول جنگ کے دنوں میں اس وقت کیا جاتا ہے جب عورتوں کا یہ تشدد پدر سریت کی خدمت کررہا ہو اور پدر سری عسکریت پسندی کا خادم ہو تو نسائی شناخت کے حامل اس تشدد کے اظہار کے لیے جگہ اور ان جگہوں میں نسائی اجسام کے آنے کو قول کیا جاتا ہے اور اسے نارملائزڈ بھی کیا جاتا ہے رقیہ اسی تناظر میں یہ بھی بتاتی ہے کہ "عورتوں کے تشدد اور ان کی عسکریت پسندی یا سیاسی وآئلنس کی فیٹشائزیشن " کا اسی طریقہ کار اور ٹون کے ساتھ ہر اطلاق نہیں کیا جاتا ، بلکہ کئی ایسے گروپ جو اسی طرح کی فیٹشائزیشن کا کریکٹر رکھتے ہیں ان کو اس سے خارج کردیا جاتا ہے رقیہ ایک 21 سالہ آرٹسٹ عاور حسینی کا حوالہ دیتی ہیں جوکہ کہتی ہے کہ یہ جو کردش ویمن پی وائی جے گوریلا یونٹ ہے اس کے بارے میں مغرب کے اندر ہم جو فیسی نیشن دیکھ رہے ہیں اس کی جڑیں سرمایہ داری کے ڈھانچے میں پیوست ہیں ، یہ سرمایہ داری کسی بھی شئے سے پیسے بنانے کے بارے میں سوچتی ہے تو میڈیا عورتوں کی جدوجہد کو مردوں کی طرح سے پیش کرے گا تو جنگ کے حوالے سے اس کی میڈیا پروڈکشن ویسے نہیں بکے گی جیسے کرد گوریلا عورتوں کی لڑائی کو ایک خاص الخاص انوکھا عمل بناکر دکھانے کی وجہ سے بک رہی ہے مغربی میڈیا کرد گوریلا عورتوں کا داعش کے خلاف لڑنا ، ایسے دکھارہا ہے جیسے کرد عورتیں صرف داعش سے ہی لڑنے باہر آگئی ہیں اور اس سے پہلے تو وہ میدان کارزار میں تھیں ہی نہیں عاور حسینی کہتی ہیں کہ کر د گوریلوں چاہے وہ مرد ہوں کہ عورتیں ، ان کی جدوجہد کا حسن یہ ہے کہ وہ ہر عورت اور مرد کے حق کے لیے لڑرہے ہیں جو داعش کے ظلم کا نشانہ بنے ہیں ،چاہے ان مردوں اور عورتوں کی نسل اور مذھب کچھ ہی ہے ، اور میرے خیال میں مغربی میڈیا اس جدوجہد کی اس خوبصورتی کو پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ وہ اس خوبصورتی کو ہضم نہیں کرپاتے وائی پے جے کرد عورتوں کی صرف ایک عسکری گوریلا ملیشیا ہی نہیں ہے بلکہ یہ مردوں اور عورتوں کی برابری کی تحریک ہے جو کرد سماج کے اندر عورتوں کے لیے مخصوص قسم کے نام نہاد نسائی کردار اور کام کی ادائیگی پر اصرار کرنے والے سماجی تصورات اور رواجوں کے خلاف جدوجہد کی ایک طویل تاریخ رکھتی ہے اور آج وائی پی جے کی جدوجہد کو پیش کرتے ہوئے مغربی میڈیا اس پہلو کو پیش کرنے سے قاصر رہا ہے رقیہ کہتی ہے کہ مغربی میڈیا پی وائی جے میں شامل کرد گوریلا عورتوں کی جانب سے داعش کے ممبران کو مارنے اور ان کے خلاف عسکری جنگ لڑنے کو سرخیوں میں ایسے پیش کرتی ہے جیسے کرد گوریلا عورتوں کی یہ جدوجہد داعش کے خلاف شروع ہوئی ہو اور اس سے پہلے یہ کرد خواتین گھریلو عورتیں ہوں ، یہ تصویر شرمناک ، حقائق چھپانے والی ہے کرد عورتیں کئی عشروں سے اپنے حقوق کی جنگ لڑرہی ہیں اور پی وائی جے یونٹ کرد عورتوں کی برابری کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ کردوں کی آزادی کی جنگ میں بھی کرد مردوں کے شانہ بشانہ لڑرہا ہے رقیہ کہتی ہے کہ داعش کے خلاف کرد خواتین کی گوریلا لڑائی کو مغرب جس طرح سے پیش کررہا ہے ،وہ دنیا بھر میں چلنے والی مزاحمت و آزادی کی تحریکوں میں شریک عورتوں کی جدوجہد کو چھپانے کے مترادف بھی ہے رقیہ مغربی فیشن انڈسٹری کی جانب سے پی وائی جے کی گوریلا خواتین کی یونیفارم کو بھی ایک فیشن پروڈکٹ بنانے اور اسے کرد عورتوں سے مخصوص کرنے کے بڑھتے رجحان پر بھی تنقید کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ کیسے کرد گوریلا عورتوں کے پہنے جانے والے جمپ سوٹ کو فیشن کے طور پر متعارف کرایا جارہا ہے ایک سویڈش ریٹیل کلوتھنگ کمپنی آیچ اینڈ ایم نے حال ہی میں ایک جمپ سوٹ بطور کردش انسپائرڈ جمپ سوٹ کے طور پر مارکیٹ میں پیش کیا ، جس پر اسے سوشل میڈیا پر خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے اس پر معافی مانگ لی اس معافی پر امریکی جریدے فارن پالیسی کے اسسٹنٹ ایڈیٹر الیس گرول نے یہ خیال ظاہر کیا کہ ایچ اینڈ ایم کمپنی کو معافی مانگنے کی ضرورت نہیں تھی اور اس طرح کے کردش انسپائرڈ جمپ سوٹ سے کرد گوریلا عورتوں کو ژزید توجہ ملتی اور لوگوں کو پتہ چلتا کہ پی وائی جے کرد عورتوں کا یونٹ کتنا زبردست ہے جو داعش کے خلاف لڑرہا ہے الیس گرول پہلا آدمی نہیں ہے جو اس خاص قسم کی ڈریس فیٹشائزیشن کو ، کرد گوریلا عورتوں کی جانب سے کیموفلاج عسکری ڈریس پہنے جانے کو ان سے خاص کرکے دکھانے کو ،اور اسے بطور کردش فیشن جمپ سوٹ کے طور پر پروموٹ کرنے کو ان کے لیے توجہ کا باعث قرار دے رہا ہے ، بلکہ اس طرح کی سوچ جوکہ ادارہ جاتی نسل پرستی کی شکل ہے رکھتی ہے رقیہ کے خیال میں یہ کردوں کی ایک ہمہ جہت جدوجہد کو فلم کے ٹریلر میں بدلنے کے مترادف ہے جس کا نام " کرد گوریلا عورتیں بمقابلہ داعش " ہے رقیہ فیشن انڈسٹری میں عورتوں کی عسکری جدوجہد کے دوران سامنے آنے والی بعض ثقافتی علامتوں کو فیشن میں ڈھالنے اور پیسہ کمانے کا زریعہ بنانے کے اس عمل بارے ٹھیک طور پر یہ کہتی ہیں کہ یہ عمل فیشن انڈسٹری میں نیا نہیں ہے ، فلسطینی عورتیں اسرائیل کے خلاف عسکری جدوجہد میں جو کفایہ استعمال کرتی رہیں ، وہ بطور فیشن مغرب اور مشرق میں یکساں مقبول رہے لیکن رقیہ کہتی ہیں کہ فلسطینی عربی کفایہ تو مغربی فیشن انڈسٹری میں مقبول ہوئے لیکن فلسطینوں کی جدوجہد اور ان کی عسکری بغاوت کو مغرب اور خاص طور پر امریکیوں کے ہاں وہ قبول عام نہیں ملا جو پی وائی جے کی کرد گوریلا عورتوں کی داعش کے خلاف جدوجہد اور مزاحمت کو لتا ںظر آتا ہے اس کی وجہ امریکیوں کی اکثریت کا اسرائیل اور اسرائیلی حکومت نواز ہونا تھا ،اسی لیے لیلی خالد اور اس کی جدوجہد مغرب میں ایک فیسینیٹ عمل کے طور پر نہیں دیکھی گئی ، بلکہ اس کو دھشت گردی کے طور پر تعبیر کیا گیا رقیہ کے یہ جملے قابل غور ہیں جو اس نے فلسطینی عورتوں کی مزاحمت اور کرد عورتوں کی مزاحمت بارے مغرب کے دوھرے ردعمل اور متضاد رويے کو بے نقاب کرنے کے لیے لکھے ہیں critics have long associated female Palestinian resistance with subservience and sexual inhibition while, as we see recently, offering Kurdish women fighters a place of subservience to patriarchy without the disdain. Women are allowed to travel outside what society deems their natural status, that of beautified nurturers, and take part in the horrors of war so long as their targets are castigated by those in power, and in the case of Palestinian resistance this is a hard sell for Americans, for example, who remain unashamedly pro-Israel. Regardless, both associations are destructive as they identify women as tools in conquest or tools of conquest, and while presently Kurdish violence in the vacuum of resistance against ISIS is righteous we notice that Palestinian violence exerted in response to brutal settler-colonialism is reviled. عورتوں کی برابری کا ایک طویل عرصے سے کام کی جگہ ، ٹریڈ یونین ، سیاسی جماعتیں ، اکیڈیمک انسٹی ٹیوشن وغیرہ میں انکار کیا جارہا ہے ، جہاں پر ان کے ساتھ برابر کے انسان کا سلوک روا نہیں رکھا جاتا ، کام کی جگہ پر ان سے ناانصافی جاری ہے ، لیکن جنگوں میں عورتوں کے ایک پیچیدہ اور تہہ دار موضوع کے طور پر جنگ کا حصّہ ہونے یا جنگ کا نشانہ ہونے کو معمول کی اشیاء کی تاریخ کے طور پر ویسے ہی پیش کیا جارہا ہے ،جیسے پیش کیا جاتا رہا ہے اور ان کو ایسے ماحول میں کاموڈوفائی کیا جارہا ہے جو زیادہ تر ، بہت زیادہ عورت مخالف اور ان کا سب سے زیادہ استحصال کرنے والا ہے رقیہ شمس الدین جنگ اور تنازعوں میں عورتوں کی عسکریت پسندی اور ان کے جنگ کا نشانہ بن جانے پر مغربی میڈیا کی ڈیلنگ اور ان کی جدوجہد کو سرمایہ داری سٹرکچر میں دیکھے جانے کے عمل پر اس تنقید کے ساتھ سامنے آئی ہیں جو میڈیا اور سوشل میڈیا میں بہت کم دیکھنے کو ملی ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ پاکستان میں فیمنسٹ حلقے اس تنقید میں اپنی بصیرت کے ساتھ مزید اضافہ کریں گے http://english.al-akhbar.com/content/women-tools-selective-fetishization-female-resistance-fighters http://roqayah.co/about/ http://www.ibtimes.co.uk/fashion-house-hm-denies-khaki-green-jumpsuit-based-kurdish-female-fighters-uniform-1468782 https://www.yahoo.com/style/h-m-kurdish-fighters-apology-99412095013.html

Thursday 16 October 2014

برکھا رت اور شمشان گھاٹ


برکها رت اداسی لیکر آتی ہے ، باہر جل تهل تو اندر بهی جل تهل اور ساته ہی موسم کی بے اعتباری کے اندر سے جهانکتے انسانی کرداروں کا بهی بے اعتبار پن ، یعنی ایک موسم کتنے سارے منظر ساته ساته مصور کرتا چلا جاتا ہے اور ساته ہی ہلکی ہلکی خنک فضا من کے اندر بهی ایک عجب سی هیلنک فلسفیانہ اداسی لیکر آتی ہے مجهے وہ شام یاد آرہی ہے جب ایک کیفے میں چائے کی پیالی کب کی میرے سامنے پڑی تهی اور میں اس کیفے میں ایک الگ تهلگ سے کونے میں تنہا بیٹها اسے یاد کرتا تها ،جس کے مرنے کی خبر مجهے ڈاکیے کی طرف سے ملنے والے ایک پارسل سے نکلنے والے ایک خط سے ملی اور پارسل میں مرنے والی شخصیت کی هاته سے لکهی ڈائریاں تهیں اور میں نے ایک نشست میں ہی دونوں ڈائریوں کے سارے ہی پنے پڑه ڈالے تهے ، الفاظ ، جملے سبهی ہی تصویریں بنکر میرے ساته چل رہے تهے اور اس دن بهی خوب بارش ہوئی تهی ، برکها تهی کہ تهمنے کا نام ہی نہیں لے رہی تهی اور جب میں نے اس کے لکهے پنے پڑه ڈالے تو میں ایک سیلانی سی کیفیت میں گهر سے باہر نکل گیا اور سیدهی لمبی سڑک کراس کرتا ہوا نہ جانے کیوں میں اس ویرانے میں آگیا تها جہاں کبهی تقسیم سے پہلے شمشان گهاٹ ہوا کرتا تها اور شاید اس کا سبب یہ تها کہ مجهے جس کرب اوردرد کا سامنا تها اس پر کسی زندہ لاش سے بات کرنا مجهے عبث لگا تها اور یہ وہ دن تهے جب ابهی میں ہما علی کی رفاقت سے محروم ہونے کے صدمے سے نہیں سنبهلا تها اور مجهے وہ سارے لمحات آسیب بنکر اپنے ساته چلتے محسوس ہوتے تهے جو ہم نے اکٹهے گزارے تهے اور اب اس کے مرنے کی خبر ہی نہیں آئی تهی بلکہ اس نے اپنے سارے کرب ، دکه ، ملال اور مصیبت کو لفظوں میں سموکر مجهے روانہ کردیا تها میں شمشان گهاٹ میں پهرتی کسی بے قرار آتما کو اپنی کتها سنانا چاہتا تها اور دن جب میں شمشان گهاٹ پہنچا تو بارش مزید تیز ہوگئی تهی ، میں نے چهاتہ بند کیا اور ٹین کے بنے شیڈ کے نیچے جاکهڑا ہوا ، شمشان گهاٹ ایک کهنڈر میں بدل چکا تها اور جهاڑ جهنکاڑ چاروں اور اگا ہوا تها اور اس وقت شام کےسائے گہرے ہورہے تهے اور یہاں تو دن کے اجالے میں گزرتے ہوئے لوگ گهبراتے تهے ، کیونکہ ہمیں وہموں اور اندیشوں سے جتنا خوف آتا ہے اتنا جیتے جاگتے انسانوں کی حیوانیت سے خوف نہیں آتا اس شام شمشان گهاٹ میں اس ٹین کے شیڈ پر بارش کی چهن چهن ہورہی تهی اور یہ چهن چهن مجهے اس صبح کی یاد بهی آئی تهی جب میں کراچی میں برنس روڈ پر ایسے ہی سخت بارش میں اس کا انتظار کررہا تها کہ ملکر گولے کباب کهانے کا پروگرام تها ، ویسے اس روز اس کی آمد کافی دیر سے ہوئی تهی اور دیری کا سبب یہ تها کہ وہ گولے کباب پر مشتاق یوسفی کی تحریر سے اس دعوت کی محفل کو کشت زعفران بنانے کا منصوبہ رکهتی تهی اور واقعی ایسا ہوا بهی تها مجهے وہ صبح بهی یاد ہے جب ایسے ہی بارش برس رہی تهی اور میں نے ایک نظم اسی مناسبت سے منظوم کی تهی اور جو اس نظم کو منظوم کرنے کا سبب بنا تها اس کو بهیج دی تهی شمشان گهاٹ سے واپسی رات گئے ہوئے تهی اور اگلے چند سال تو بہت ہی کرب کی کیفیت میں گزرے تهے اور یادوں کی مالائیں گلے میں پڑی تهیں اور ان مالاوں کے دانے بار بار چهنچهناتے تهے اور میں حال سے گرفتار ماضی ہوجاتا تها اور ایسی ہی کیفیت اس رات ، اس کیفے میں دور خاموش سے گوشے میں ایک میز کے سامنے بیٹهے مجه پر طاری ہوگئی تهی ،جیسے آج اس برکها رت میں رات کے اس پہر طاری ہوگئی ہے اور کتنی عجیب بات ہے کہ وہی کیفے ، وہی میز ہے اور باہر اسی طرح سے بارش ہورہی ہے اور ایک بارش من کے اندر بهی شروع ہوچکی ہے ، ویسے اس وقت میں اور آج کے وقت میں فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت میں کوئی حسن کوزہ گر اور کوئی شہرزاد میری شناسا نہ تهی ،آج حسن کوزہ گر کو میں مشہود پاتا ہوں اور شہرزاد کو بهی اور بغداد کی گلیاں لگتا ہے ہجرت کرکے میرے تخیل کے جہان میں پیوست ہوگئی ہیں اور بغداد کی راتیں بهی کیونکہ اصل بغداد میں تو اب باردود کی بو رچی بسی ہے ، انسانی جسموں کے لوتهڑے ہر سمت بکهرے پڑے ہیں اور دیواروں پر لہو کے چهینٹے پڑے ہیں اور مجهے هلاکو خان کی روح بهی اس بربریت اور خون آشامی پر شرمندہ ، شرمندہ لگتی ہے ابهی مجهے یوں لگتا ہے کہ بوڑهی عرب عورت عرفہ کی روح ان گلیوں کے ساته چلی آئی ہےاور مجهے وہ قصہ سناتی ہے جسے میں مسلمانوں کے اس شہر میں بیان کرنے سے قاصر ہوں اور کسی اخوان الصفاء کی طرز کے پوشیدہ لکهاری کی تلاش میں ہوں جو دو اونٹوں کے ساته بانده کر چیر دی گئی اس بوڑهی عورت کی المیہ پر مبنی کہانی بیان کرسکے اور اس کی نوجوان بیٹی کا المیہ رقم کرسکے ویسے ہی جیسے داعش نے دو کاروں سے بانده کرایک عورت کو چیر دیا ہے جس کا المیہ ہر کوئی بیان کرتا ہے اور میں تاریخ کے اس دوہرائے جانے اور تاریخ میں ایک ہزار سال سے زیادہ اس بوڑهی عورت کی آتما ہمارا پیچها کرتی ہوئی یہاں تک آن پہنچی ہے

Tuesday 14 October 2014

مہاجر کمیپ تک آنے والی جنگ اور دھوئیں کے بادلوں کی اوٹ سے جھانکتی شامی موسیقی


میں نے جب اپنا کالم " خوف میں جینا سیکھ لو " لکھا تھا تو مجھے ہرگز نہیں معلوم تھا کہ اس کرہ ارض پر ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو خوف کے ساتھ پورے تخلیقی وفور کے ساتھ جیتے ہیں اور اپنے خوف ، اندیشوں ، مصائب کو ایسی موسیقی میں بدلتے ہیں کہ وہ سب کے سب ایک نئے انداز سے سامنے آتے ہیں اور ایسی موسیقی پھٹتے بموں ، برستی گولیوں ، جلے ہوئے مکانوں اور خیموں کی راکھ سے اٹھتے ہوئے دھوئیں کی آسمان پر بنتی سیاہ لیکروں اور دیواروں پر پڑے خون کے چھینٹوں سے ملکر تشکیل پارہی ہوگی نوے کی دھائی میں ایڈورڈ سعید نے فلسطینی اور اسرائیلی نوجوانوں پر مشتمل ایک آرکسٹرا تشکیل دیا تھا جس نے جنگ اور خون کے درمیان کی امن کی آشا کو بڑھایا اور ناممکن کو ممکن کردکھایا تھا میں نے تو ابھی سماجی رابطے کے نیٹ ورکس پر کھدرے ، سپاٹ ، اور انتہائی فرسٹریشن میں لکھے گئے تبصرے اور زیادہ سے زیادہ جذباتی لکیروں کا ایک جال ہی دیکھا تھا ، اسے تخلیق میں ڈھلتا نہیں دیکھا تھا مڈل ایسٹ ، شمالی افریقہ اور جنوبی ایشیا میں سامراج ، آمر و ملوک حکومتوں ، گماشتہ جمہوریتوں اور ان کی کھوکھ سے جنم لینے والی تکفیریت اور مذھبی فاشزم کے تفاعل سے پیدا ہونے والی تباہی ، گھٹن ، حبس پر میں غیر جمالیاتی ، بھدے جملوں اور عبارتوں سے اوب جاتا تو بے اختیار کبھی محمود درویش کو تو کبھی نزار قبانی ، کبھی ناظم حکمت کو تو کبھی فیض احمد فیض اور جالب کو یاد کرنے لگتا اور بیروت کے مائیکل خلائف کی کی موسیقی سننے لگتا تھا اور پھر کل رات ایسا ہوا کہ ریڈیو ٹیون کرتے ہوئے ایک بیروت کا ریڈیو اسٹیشن لگ گیا اور وہاں سے ایک پروگرام شامی ریپ میوزک کے بارے میں نشر ہورہا تھا اور پروگرام پیش کرنے والے نے ایسے شامی ریپرز کا احوال سنایا اور ان کی موسیقی سنوائی کہ میرے دل کی دنیا ہی بدل گئی اور میں اب تک اس سحر سے نہیں نکل سکا Your face is sweeter without the shelling The shelling that’s become a living thing Taking to human flesh a liking And like you, water is missing My throat is dry, so I’m wishing Water would come, even if it’s dripping Six months of starvation, the truce comes for the dying While the graveyard is growing, and growing یہ گل گامش کی "نظم 15" کے مصرعے ہیں کہ چھے ماہ کی بھوک ہے ، اور شب حون موت آوری کے ساتھ آتا ہے اور قبرستان ہے کہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے پاپ میوزک شام میں 1990ء سے شامی نوجوانوں میں مقبول ہونا شروع ہوا اور تب سے شامی نوجوانوں نے اس میوزک کے زریعے سے اپنی پریشانیوں اور اپنی دلچسپی کے مرکز موضوعات کا اظہار جاری رکھا ہوا ہے - لیکن 2011ء میں اس دلچسپی میں ایک ریڈیکل تبدیلی اس وقت واقع ہوئی جب شامی نوجوانوں نے خود کو انقلاب ، جنگ ، فرقہ واریت ، اسد کی اپوزیشن اور اسد کی حمائت جیسے ایشوز میں گھرا ہوا پایا اور اس میں جلاوطنی اور بے دخلی دونوں بھی ساتھ ساتھ سامنے آگئیں تھیں جس نے نوجوانوں کو ایک نئی زندگي سے آشنا کیا جو ایک مقام سے دوسرے مقام پر بالکل پہلے سے یکسر مختلف تھی - ان حالات کے درمیان میں پاپ میوزک ان چیلنجز سے نبٹنے میں بہترین آؤٹ لیٹ ثابت ہوا I thought the siege between us a barrier Distance is tough, but waiting is grittier Living in a horror film, in an abattoir You say I’m nasty except corpses are nastier (loose translation of an excerpt from Poem 15 – the besieged Yarmouk camp( شامی نوجوان کے پاس سوائے اس کی آواز کے کچھ نہیں بچا تھا - نہ خوراک ، نہ پانی ، نہ سونا ، نہ بجلی ۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی تو نہیں تھا اس کے پاس - اس کے پاس بس اپنی آواز ہی تھی جسے وہ اپنے دکھ اور تکلیف کے اظہار کے لیے موسیقی میں بدل سکتا تھا ، اور یہ وہ سب کچھ تھا جو اس جیسے کسی نوجوان کو یرموک کے محاصرے میں گھر جانے کے دنوں کے دوران سہنا پڑا تھا اور اس نے اس سب کو اپنے گیتوں میں ڈھال دیا تھا
ان تمام چیزوں کو کھونے سے پہلے ریڈ گوہنیم یا گل گامش جس نام سے وہ اب جانا جاتا ہے کو میمزک سے پیار تھا جوکہ عربی ریپ میوزک کے ساتھ 2008ء میں شروع ہوا تھا - اور پھر یہ اس کا ساری عمر کا شوق بنکر رہ گیا وہ کہتا ہے کہ میں اپنے میوزک کو فلسطینی مہاجروں اور کیمپوں میں رہنے والے نوجوانوں کی مشکلات کی عکاسی کرنے کے لیے استعمال کرتا تھا - میری کوشش بہت سادہ اور معمولی تھیں - پھر جنگ ان کیمپوں کو آئی اور موت ہمارے ہاں معمول ہوگئی - گل گامش نے سوائے اپنے موسیقی سے عشق کے سب کچھ کھودیا موسیقی سے اس کا عشق ایسا نہیں تھا کہ جسے ترک کردیا جاتا - جنگ جو اس کے کیمپ تک بھی آگئی تھی ، اس نے ہر ایک خیز کو تباہ کردیا - اور اس جنگ نے اسے ہر اس مادی شئے سے محروم کردیا تھا جو موسیقی بنانے میں مددگار ثابت ہوسکتی تھی - جیسے سٹوڈیو ، ریکارڈنگ انسٹرومنٹ ، ، کی بورڑ وغیرہ وغیرہ ، وہ اپنے درد کو موسیقی میں بدلنا چاہتا تھا لیکن ایسا نہیں ہورہا تھا تو اس نے اس نے کسی بیٹ کے بغیر اس کو لفظوں میں ڈھال کر گیتوں میں بدل دیا ، اس نے اپنے موبائل فون کو ریکارڈ میں بدل ڈالا اور میوزک کو یو ٹیوب پر اپ لوڈ کردیا گل گامش نے یہ سب محاصرے کے دنوں میں کیا - وہ اپنے گنگنانے کے مںظر کو اپنے موبائل میں فلمبند کرتا اور اس وقت کوئی میوزک انسٹرومنٹ اس کے پاس نہ ہوتا اور اس فلم کو وہ یو ٹیوب پر پوسٹ کردیتا تھا - وہ ایک جگہ لکھتا ہے کہ جب آپ محاصرے میں گھرے ہوتے ہیں ، آپ کی مصیبتیں دن بدن بڑھ رہی ہوتی ہیں تو آپ کی ترجیح لکھنا بن جاتا ہے اور آپ اپنے درد کو دنیا تک پہنچانا چاہتے ہو ، ان کو آگاہ کرنا چاہتے ہو اس بھوک سے جس کا آپ کو سامنا ہوتا ہے کیمپ چھوڑنے سے پہلے گل گامش نے ایک میوزک فلم بنائی جس کا ثائٹل " نظم 15 " تھا Your face is sweeter without the shelling The shelling that’s become a living thing Taking to human flesh a liking And like you, water is missing My throat is dry, so I’m wishing Water would come, even if it’s dripping Six months of starvation, the truce comes for the dying While the graveyard is growing, and growing (loose translation of an excerpt from Poem 15). گل گامش نے " نظم 15 " لکھی اور یرموک سے چلا گیا - اس نے لبنان میں پناہ لی اور اپنے آپ سے سوال کیا کہ اب اسے کیا کرنا چاہئیے تو وہ بیروت میں بہت سے ریپرز سے ملا جن میں سے کچھ کے ساتھ اس کے پہلے سے روابط تھے جب وہ کیمپ میں تھا اور اس کا میموزک سے عشق بھی جوان تھا تو اس نے ان ریپرز سے ملکر ایک گروپ بنایا اور پناہ گزینوں کی کہانی بیان کرنے کا سوچا جوکہ دوسرے ملکوں اور علاقوں میں کسمپرسی کی زندگی کزار رہے تھے اور اس نے اس کہانی کو بیان کرنے کی کوشش کی جب غیر قانونی طور پر سمگل ہونے کے دوران ان مہاجرین کی کشتیاں ڈوب جاتی ہیں اور ان میں سے کوئی خوش نصیب ہوتا ہوگا جو ڈوبنے سے اور سمندری مخلوق کی خوراک بننے سے بچ جاتا ہوگا ایک اور شامی موسیقار ہے جو کہ واٹر کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور وہ دمشق کے ضلع سروجہ سے ہے اور آج کل بیروت میں ہے -وہ سروجہ میں گشت کرتی موت سے جان بچا کر فرار ہوا اور بیروت آگیا ، موت سوجہ میں کسی کو نہیں بخش رہی تھی ، اس کے سب دوستوں کو بھی نگل گئی ، یہ وہ تھا جو موت کے شکنجے میں آنے سے بچ گيا اور واٹر کا اصلی نام خیری عبش ہے وہ ایک مہاجر ہوجانے سے پہلے شام میں ایک بینڈ کے ساتھ منسلک تھا اور کئی ماہ تک وہ برستے بموں اور چلتی گولیوں کے درمیان پھنسا ہوا تھا ، موت جہاں کھانے ، پینے کی طرح معمول ہوگئی تھی ، یہ سارا عرصہ اس نے ایک سٹوڈیو میں گزارا اور اس زمانے میں اس کی موسیقی کے لیے انسپائریشن ، اس کے گیتوں کے لیے مہیج کا کام شیلنگ اور وہ بے عزتی بن گئی تھی جس کا سامنا اسے چیک پوسٹوں پر کرنا پڑتا تھا - انقلاب اور روزمرہ زندگی کے دوران جو تجربات اس نے کئے ، وہ بھی اس کے گیتوں کے لیے اکسیر ثابت ہوئے I lay on the ground wondering, Has anyone seen my Adam’s apple? On the side of the road lies half of my intestines outside my stomach, and beside me writes a banner, “beware, martyr.” I lay on the ground wondering, The black car thrown behind me, I remember it was blue, Is there a microwave big enough to fit it? (excerpt from the song Boom Boom Bam( وہ اب بیروت میں ہے اور اپنے درد دل کو رقم کرتا ہے اور بہت سے ایشوز پر لکھتا ہے - اس کے خیال میں ہر چیز بدل چکی ہے ، سماجی ہو کہ سیاسی فضا یا کام ہو کہ موسیقی - بہت سے در ہیں جو اس کے بقول اس پر وا ہوچکے اور بیروت میں ایک وسیع موسیقی کی ثقافت موجود ہے اور یہ ڈرامائی موسیقی کے لیے بہت موزوں جگہ ہے جس کی کوئی بھی مماثلت شام کے تھیٹر کے ساتھ نہیں ہے شامی موسیقاروں کے لیے تصویر ابھی تک خاصی دھندلی ہے ، ماحول بدل چکا ہے جو ان کے خیالات کی صورت گری میں بہت اہم کردار ادا کررہا ہے ، ان کی موسیقی کو نئی شکل دے رہا ہے ، ان کے گيتوں کی ترکیب کو بدل رہا ہے اور ان کی فطرت بھی بدل سی رہی ہے تو ان کی قبولیت میں بھی فرق پڑ رہا ہے بیروت کی فضاؤں میں بھی خیری عبش کو ایک نامعلوم قسم کے حبس اور گھٹن کی فضاء محسوس ہوتی ہے ، اسے لگتا ہے کہ یہاں بھی وہ سب کچھ کہنے ، لکھنے اور بیان کرنے میں مکمل آزاد نہیں ہے اور شاید اس کے لیے اسے ابھی اور وقت کا انتظار کرنا پڑے گا ، جب وہہ روکاوٹیں ہٹ جائیں گی جو سب کچھ کہنے میں مانع ہے I stand on my feet feeling lightness, I see my remains in front me and as it turns out I left my body, and here is my neighbor thrown in the middle, every piece of him is thrown over the hallowed street My wife lays next to him, she did not follow me yet, she is struggling, I sat and waited till the remaining of this street’s occupants followed me. (Excerpt from the song Boom Boom Bam( خیری عبش نے بیروت کو اپنی نظر سے دیکھا ہے اور وہ کہتا ہے کہ بیروت کے پاس ہر ایک کو سکھانے کے لیے کچھ ہے - اس کے مطابق بیروت کے اپنے راستے ہیڑ اور ابھی تک اسے جو نظر آیا وہ یہ ہے کہ بیروت کے دو چہرے ہیں ، ایک وہ جو آپ کو یہ بتاتا ہے کہ آپ دوسروں سے بہت حد تک بہتر ہیں اور دوسرا چہرہ آپ کو یہ بتاتا ہے کہ ابھی تو آپ کو اور بہتر ہونا پڑے گا وہ ایک جگہ لکھتا ہے موسیقی کے میدان میں بیروت میں میرا تجربہ مختلف قومیتیوں کے لوگوں کے ساتھ اختلاط سے نمو پایا ہے اور یہ بہت قابل قدر تجربہ ہے جو مجھے شام میں نہیں ہوسکتا تھا اور مجھے یہاں مصر ، اردن ، بیروت اور عراقی موسیقاروں کے ساتھ کام کرنے اور ان کی فطرت سے آشنا ہونے کا موقعہ ملا ہے وہ کہتا ہے کہ بیروت اور شام میں فرق یہ ہے کہ وہاں حبس تھا ، گھٹن تھی ، کچھ کہنا مشکل ہوگیا تھا اور ہر طرف برستی گولیا ں تھیں ، پھٹتے بم تھے ، شعلوں میں گھری عمارتیں اور کئی عمارتوں کے کھنڈرات کی راکھ سے اٹھتا دھواں تھا ، گلیوں میں پڑی لاشیں ، کئی ایک کے کٹے پھٹے پیٹوں سے باہر آتی آنتیں تھیں ، کلچر ، مقدس اور قدیمی عمارتوں کے مٹتے آثار تھے اور ان سب پر بولنے کی آزادی مفقود اور ہر سمت پھرتے داعش ، نصرہ کے وہ خون آشام جہادی تھے جو بہت دور سے اپنے تئیں شام کو آزاد کرانے آئے تھے اور شام کو شامیوں سے پاک کرنے کا کام بخوبی سرانجام دے رہے تھے - اور ستم یہ تھا کہ ان سب چیزوں کو بیان کرنے کی وہاں اجازت نہیں تھی اور آزادی دینے والوں کو موسیقی ، ثقافت ، تاریخ ، آرٹ ، کتابوں سے نفرت تھی اور ان کو جو موسیقار مل جاتا وہ اسے فوری طور پر ماردیتے تھے تاکہ شام آزاد ہوسکے اور یہ بیروت ہے جہاں کم ازکم میں جو کہنا چاہتا ہوں کہہ سکتا ہوں ، جس خیال کو گیت بنانا چاہوں بنا سکتا ہوں ، کسی بھی طرح کی طربیہ و المیہ موسیقی ترتیب دے سکتا ہوں