Friday 23 September 2011

عریضہ جاں اور جلتے چراغ (افسانہ )

عریضہ جاں اور جلتے چراغ (افسانہ )
عامر حسینی
وہ تھکا ہارا ،ملال زدہ ،بوجھل قدموں کے ساتھ گھر میں داخل ہوا تو اس کی ماں سمجھ گئے تھی کہ آج بھی اسے کام نہیں ملا-وہ سر شام کوارڈ کھولے صحن میں اس کی رہ تکنے لگتی تھی-آج بھی جب وہ آیا تو اس کا ہاتھ پکڑ کے نلکے کے پاس لے گئی-اس کے ہاتھ دھلواتے ہوئے کہنے لگی "خدا بخش پتر !دکھ نہ کر ،رب سائیں کرم کرے گا"اس کو اس کے بعد چار پائی تک لے گئی -کہنے لگی کھانا کھا لو-خدا بخش نے مشکل سے اپنی آنکھوں میں آتے آنسوؤں کو باہر آنے سے روکا -وہ جانتا تھا کہ آج پھر ماں نے اپنے حصہ کی روٹی بچا رکھی ہوگی-چنگیر اور پلیٹ لے کر وہ پلتی اور اس کے سامنے انھیں رکھتے ہوئے کہنے لگی لے پتر کھا لے-اس کو یہ نوالے حلق سے نیچے اتارنا عذاب لگتے تھے-اسے یوں لگتا تھا جیسے وہ کسی کا کلیجہ چبا رہا ہو-آخر یہ فاقے اور قربانی ماؤں کی قسمت میں کیوں لکھی ہوتی ہے-یہ خیال اس کو اکثر ستاتا تھا-ایسے موقعہ پر وہ زبردستی آدھی روٹی کے لقمے ماں کے منہ میں ڈال دیتا تھا-ماں نا پتر ،نا پتر کہتے نہیں تھکتی تھی-توں کھلے کہتے اس کی زبان نہیں سوکھتی تھی-
خدا بخش ایک ویلڈر تھا-روز شہر جا کر بلیہ کے سامنے بیٹھ جاتا تھا -اس نے "خدا بخش ویلڈر"کے نام سے ایک پلیٹ تیار کر رکھی تھی-جو وہ اپنی سائیکل پر لٹکا دیتا تھا-بلدیہ کے سامنے سڑک کے کنارے فجر کے بعد مزدوروں کی ایک بڑی تعاد قطار میں بیٹھ جاتی تھی-سب گھنٹوں بیٹھتے تھے-ان میں سے چند خوش نصیب ہوتے تھے جن کو مزدوری ملتی تھی-اکثر رات کو مایوسی اور غم کے ساتھ اپنے گاؤں ،بستی میں لوٹ جاتے تھے-کئے خدا بخش تھے جن کے گھروں میں مفلسی کا عذاب مستقل ڈیرے ڈالے ہوئے تھا-
خدا بخش کے ہاں بھی بڑے سخت دن چل رہے تھے-صبح اپنے گاؤں سے سائیکل پر وہ پندرہ کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے شہر پہنچتا تھا-اور اکثر اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا تھا-اس نے میٹرک پاس کر رکھی تھی-اس کی ماں سارے گاؤں کو فخر سے بتاتی تھی کہ اس کا بچہ بابو بنے گا-میٹرک کا رزلٹ آنے پر اس نے اپنے باپ اصغر علی اور ماں صغراں کو فخر سے سر اٹھا کر چلتے دیکھا تھا-وہ آگے کیسے پڑھتا ؟گاؤں میں تو کوئی کالج نہیں تھا-شہر جا کر جب کالج کی فیس پتا چلی تو اس نے چپکے سے ایک دوکان پر ویلڈر کا کام سیکھنا شروع کر دیا-جلد ہی کام سیکھ گیا -

Tuesday 20 September 2011

خواب گری کی سزا(کہانی)

خواب گری کی سزا(کہانی)

عامر حسینی

مجھے اپنی بات کہاں سے شروع کرنی چاہئے -بس یہی الجھن ہے جو میرے آڑے آ رہی ہے-مجھے نہیں معلوم کب میں نے خواب گری کا پیشہ اختیار کیا تھا-بس اتنا یاد ہے کہ پہلے پہل ایک بارش تھی جو دھند کی طرح میرے دماغ پر برسنے لگی تھی-یہ بارش صرف پانی کی پھوار نہیں تھی بلکہ اس میں رنگ بھی ہوتے تھے-مجھے خواب گری میں نیلے ،پیلے اور سیاہ رنگ تو کبھی پسند ہی نہیں آئے تھے-مجھے کیا پتہ تھا کہ کبھی یہی رنگ میری قسمت کا لکھا بن جائیں گے -اور میں نیلے،پیلے اور سیاہ خوابوں کے دائروں سے باہر نہیں آ سکون گی-

میرے والد ایک کالج میں پرنسپل تھے-والدہ ایک گھریلو عورت تھیں-مڈل کلاس گھرانہ تھا ہمارا -ہم نے بچپن کے دن بڑے خوش و خرم انداز میں گزارے تھے-میں تعلیم کے دنوں میں پھولوں،تتلیوں اور شوخ رنگوں سے خوب خوب لگاؤ رکھتی تھی-میرے خوابوں میں اداسی کا کوئی رنگ نہیں تھا-میں نے ہمیشہ زندگی کو سرخ رنگ میں،کبھی آسمانی رنگ میں،کبھی شربتی رنگ میں اور کبھی دھنک رنگ میں دیکھا تھا-میں خوشی کے انہی رنگوں میں کھلتی کودتی رہتی تھی-میرا بچپن،لڑکپن انہی رنگوں میں خوش ہوتے گزرا تھا-

پھر یوں ہوا کہ کالج کہ زمانے میں میرے ایک کزن میرے ساتھ تعلیم حاصل کرنے لگے-خالد تھا ان کا نام-وہ مجھے میرے نام زینرہ احمد کہ کر جب پکارتا تو مجھے اپنے دل کے سارے تار ہلتے محسوس ہوتے-مجھے اپنے دل و دماغ کی دنیا بدلی بدلی لگنے لگتی تھی-میرے ذہن کی کیمسٹری تبدیل سی ہونے لگی تھی-اب بھی سارے رنگ خوشی اور مستی کے میرے ساتھ تھے لکین اب ساتھ ساتھ مجھے ایک عجب سا سرور بھی آنے لگا تھا-یہ سب کیا تھا میں اس کو کوئی نام دینے سے قاصر تھی-بس محسوس کرتی تھی-لکین کبھی کھیل کو کہنے کی ہمت نہیں پڑی تھی-ایک دیں خالد اور میں نے کالج بنک کیا اور ہم دونوں لارنس چلے گئے-یہ باغ ایک جنت ہہے زمین پر -یہ کہنا کوئی غلط نہیں تھا-ہم نے ایک اونچی پہاڑی کے ایک ویران غوشے کو بیٹھنے کے لئے منتخب کیا-اس دیں خالد کی آنکھوں میں مجھے عجب سا سحر نذر آ رہا تھا-میرے رگ و پے میں عجب سے سنسناہٹ تھی-میں عجب سی مستی میں تھی-خالد نے اچانک میرا ہاتھ تھما اور کہا کہ وہ مجھ سے پیر کرتا ہے-اور برسوں سے یہ کہنا چاہتا ہے لکن کہ نہیں پاتا تھا-آج اسے نجانے کہاں سے یہ ہمت ہو گئے کہ مجھے یہ سب کہ رہا ہے-میں اس کے یہ سب کہنے پر حیران نہیں ہوئے-مجھے تو یہ سب ایسے لگا جیسے میں کہ رہی ہوں-میں نے اس کو جواب میں صرف یہ کہا کہ میں بھی کچھ ایسا ہی کہنا چاہتی تھی-لکین شرم اور حیا آڑے آتی رہی-کہ نہیں پائی-مگر میں نے خالد پر واضح کیا کہ ہم اب اس سلسلے کو تب آگے بڑھائیں گے جب وہ اپنے گھر والو کو کہ کر میرے گھر والوں سے میرا ہاتھ مانگیں گا-خالد یہ سنکر خوش ہو گیا -پھر ایک دن اس کے گھر والے میرے گھر آئے-اور دونوں طرف سے کیا باتیں ہوئیں مجھے معلوم نہیں تھا-مگر ایک ہفتے بعد میری اور خلد کی منگنی ہو گئے-میں بہت خوش تھی-خالد سے میری محبت اور زیادہ بڑھ گئی تھی- میں دن رات اس کے اور اپنے ملن کی دعا مانگتی تھی-

پھر یہ آرزو بھی پوری ہو گئی-ماسٹرز کے بعد کھیل کی جاب لگی تو ہم دونوں کو رشتہ ازواج میں باندھ دیا گیا-حجلہ عروسی کی رات جو سب جوان دلوں کے خوابوں کا مرکز و محور ہوتی ہے- مجھے نہیں معلوم تھا میرے خوسی کے سارے رنگ اڑا کر رکھ دے گی-مجھے اپنی خواب گری کی سخت سزا دے گی-رات کے دو بجے تھے-مائیں تمام تر تھکن کے باوجود پیا رنگ رنگنا چاہتی تھی-اس رات کو وصل کی رت میں بدلنے کی آرزومند تھی-وہ دیار خواب میں دبے پاؤں آئے خواہش تھی میری-مگر یہ کیا کہ وہ آیا تو نشہ میں دھت تھا-آتے ہی مجھ سے درشتی سے بولا !تم جانتی ہو زنیرہ احمد !تم میری محبت،میرا مقصود نہیں تھیں-میں نے کبھی تم سے محبت نہیں کی-میں نے کوئی دیپ آنکھوں میں تمہاری رہ تکتے نہیں جلائے تھے-تم تو میری زد تھیں-تمھیں پانے پر شرٹ بندھی تھی میں نے-سو آج جیت لی ہے-تمھیں مغرور کہا جاتا تھا-تمہارا کوئی بوائے فرینڈ نہیں تھا-مجھے بس تمھیں جیتنا تھا سو جیت لیا-

میں اس سے آگے سنانے کی متحمل نہ تھیں-مجھے لگا میں کوئی لیگل ویشا ہوں جو اس کمرے میں ایک کاغذ پر دسخط کر بند کر دی گئیں ہوں-مگر اس دل کا کیا کرتی جو ستمگر سجنا کی آمد پر اس کی سارے ستم کے با وجود اس کو خوش آمد دید کہنے کو تیار تھا-میں نے اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کر سب قبول کر لیا-اس کے ساتھ دن گزرتے ہوئے مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ میرا سجن جھوٹا بدن لئے پھرتا ہے-یہ وہ بدن ہے جو نجانے کہاں کہاں جھوٹا ہوا پھرتا ہے-میں سب برداشت کرتی رہی-اسی دوارن میرے ہاں ایک کلی کھلی -جس کا نام میں نے طاہرہ رکھا-اب تو خالد مجھے مارنے پیٹنے پر اتر آیا تھا-میں سب برداشت کرتی رہی-کبھی بھولے سے بھی میں نے نہ تو ماں کو بتایا -اور مجھ نسبوں جلی کی کوئی بہن تو تھی ہی نہیں جس سے میں اپنے دکھ بنتی-اس دور میں پہلے پہلے میں نے اپنے ہاتھوں کو خواب میں نیلے دیکھا اور مجھے خواب میں بڑھتے بڑھتے اپنے سارا جسم نیلا نذر آنے لگا-عجب سے زہر میرے بدن میں سرایت کرتا خواب میں مجھے دکھائے دینے لگا تھا-خوشی رنگ تو جیسے کہیں دور رہے گئی تھے-طاہرہ بمشکل چار سال کی ہوگی جب ایک دن میرے سر پر قیامت ٹوٹ پڑی -وہ کاغذ جنھیں ہمارے یہاں لوگ کلنک کا ٹیکہ کہتے ہیں اس نے میرے ہاتھ میں تھما دے اور رات کے ٣ بجے مجھے گھر سے بچی سمیت نکل جانے کو کہا-میں نے اپنی بچی کو اٹھایا چھپ چاپ اس گھر سے نکل آئے جسے میں اپنا گھر بنانے کے کیلے منتیں مانا کرتی تھیں-صبیح ٥ بجے میں بابل کے گھر پہنچی اور انھیں وہ کاغذ تھما دئے-ظالم نے ایک نوٹ میں لکھ ڈالی تھی ضد والی بات-سارا گھر ششدر تھا-دکھ اداسی کے سمندر میں ڈوبا-اس رات میں نے زرد رنگوں میں بھیگی بارش کو برستے دیکھا-میں حیران تھی آخر یہ بارش کیوں زرد زرد ہوئے جاتی ہے-

میں نے ہمت نہیں ہاری-ہاں دل کھمباخت اب بھی اسی ستم گر کے لئے کباب بنے جاتا تھا-میرے دل میں سوال اٹھتا تھا-کہ محبت کیوں اپنے میز بان کون کھا جاتی ہائی-میٹل ڈالتی ہے-پھر بھی ھل من مزید کی صدا اس کے لبوں سے نکلنا بند نہیں ہوتی-میں اپنا قصور ڈھونڈتی تھی نہیں ملتا تھا تو بہت اضطراب ہوتا تھا-میں نے کئے مرتبہ مرنے کا سوچا -لکین طاہرہ کی معصوم شکل سامنے آتی تھی-جیسے وہ کہ رہی ہو-نہیں ماما -ہمیں آپ کی ضرورت ہے-کہیں مت جانا -میں نے خود کو بیٹی کے لئے وقف کر ڈالا-ایک سکول میں جاب کرنے لگی-پھر مجھ پر ایک اور سانحہ ہو گزرا-میری ماں ایک دن بنا کچ کہے چل بسی-میں سکول جاتی تھی-پیچھے بابا طاہرہ کو سنبھالتے تھے-ایک دن نجانے ان کو کیا ہوا اور انھوں نے طاہرہ کو واپس اس کے والد کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا-میں نے بہت کوشش کی ان کو اس فیصلے سے باز رکھنے کی نہ رکھ سکی -سو طاہرہ کو اس کے والد کے حوالے کر دیا گیادن کے بعد بارش میرے خوابوں میں سیاہ رنگ میں برسنے لگی تھی-یہ رنگ مجھے اپنی لپیٹ میں لینے لگا تھا-مجھے ایسے خواب آتے کہ جیسے کلی سیاہ راکھ آسمان سے برس رہی ہے اور سارا شہر اور اس کی عمارتیں ،لوگ سب کلی رکھ میں بھیگ گئے ہیں-میں کسی صحرا میں اکیلی کھڑی ہوں اور سہرہ میں بھی کلی رکھ برس رہی میں اس رکھ میں بھیغ کر رکھ زادہ ہو گئے ہوں-تھی دامنی کے ساتھ سارے جسم پر پھوار کی طرح برسنے والی راکھ میرا نصیب کیوں تھی-میں کئے مرتبہ رب سے ملنے کی کوشش کرتی -مگر نا کمی ہوتی-وہ مجاز میں ملتا نہیں تھا اور میں پردوں میں اس سے ملنے کو تیار نہیں-ایک مجذوب سے سر رہ ملاقات ہوئے تو وہ کہنے لگا -اے راکھ زدہ سن!تو اس سے ہم کلام ہونا چاہتی ہے تو خود سے ہم کلام ہو جا-تیری اس سے ملاقات ہو جائے گی-میں حیران تھی -خود سے بولتے ہوئے تو مجھے عرصۂ بیت گیا تھا-پھر اگر خود سے ہم کلامی میں خدا ملتا تو میں راکھ زدہ نہ ہوتی-میں تھی دامنی کا غم نہیں کرتی لکین یہ سوال ضرور کرتی ہوں میرے خوابوں کو سیاہ رنگ دینے والے ستم گر کی یاد میں میرا سینہ اب بھی کباب کیوں بنتا ہے/ مجھے اس کی یاد سے کنارہ کرنے یہ دل کیوں نہیں دیتا؟میرے دل میں محبت کی جگہ نفرت کیوں گھر نہیں کرتی؟خوشی کے رنگوں میں چمکنے دمکنے والوں کیا کوئی جواب ہے اس راکھ زدہ کا تمہارے پاس -

تخلیق کا سفر کیسے ہوتا ہے؟

تخلیق کا سفر کیسے ہوتا ہے؟

عامر حسینی
یہ گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھائی کا زمانہ تھا -جب میرے ایک دوست تھے عبد الله -وہ ایک ستلمینٹ کمشنر کے بیٹے تھے-بہت ہی نفیس آدمی تھے-بہت زیادہ کلچرڈ تھے-ایک دن مجھے کہنے لگے -عامر !تم ہر وقت فلسفہ کی ان ہستیوں کو پڑھتے رہتے ہو -جنھوں نے بہت زیادہ ظاہر پر زور دیا ہے-تم کو میں آج ایک ایسے شخص کی کتاب دے رہا ہوں جو تمھیں کچھ دیر کے لئے اس خشک دنیا سے کسی اور دنیا میں لے جائے گی-میں عبد الله کی بات سن کر ہنس پڑا تھا-اس نے ایک کتاب میرے حوالے کی -یہ کتاب برازیل کے معروف لکھاری پاؤلو کوہلو کی گفتگو پر مشتمل کتاب تھی-کتاب کا عنوان تھا جسے میں اردو میں کہوں تو یوں بنے گا "نروان پا گئے ایک آدمی کا اعتراف"اس کتاب میں پاؤلو کی گفتگو کے آغاز میں ہی بہت خوبصورت باتیں تھیں-جیسے اس کے گھر والے اس کو انجینر بنانا چاہتے تھے لکین وہ تو آغاز سے ہی ایک لکھاری بننا چاہتا تھا-اس نے لکھا تھا کہ اسے آغاز سے ہی لویس بورخیس پسند تھا-یہ وہ ادیب تھا جس نے لاطینی امریکہ میں کہانی کو نیا رنگ اور نئے روپ دے تھے-جس کی کہانی نے پہلی مرتبہ پراسراریت اور حقیقت پسندی کو اتنی خوبصورتی سے مکس کیا تھا کہ کسی کو یہ امتزاج برا نہیں لگتا تھا-کہانی میں کب حقیقت سے میجک مل جاتا تھا پتہ ہی نہیں چلتا تھا-پاؤلو بورخیس کو اپنا صنم مانتا تھا-وہ اسے اپنا محبوب کہتا تھا-پھر ایسا ہوا کہ پاؤلو برازیل کے دار الحکومت سین تیاگو سے چل کر ارجنٹائن کے دارلحکومت بیونس آئرس بورخیس کو ملنے گیا -ہزاروں میل کا سفر بھی طے کیا اور وہاں بورخیس کے سامنے جب پہنچا تو خاموشی سے اسے ہاتھ باندھ کر دیکھتا رہا -بورخیس بھی خاموش رہے-جس کی تعبیر پاؤلو نے یہ کی کہ صنم بولا نہیں کرتے-پاؤلو کا یہ سفر بذات خود ایک تخلیقی سفر تھا جو بعد میں اس کی تحریروں میں جھلکتا رہا-اس نے جب الکیمسٹ لکھی تو اس پر بورخیس کا اثر صاف نذر آ رہا تھا-پاؤلو کی زندگی کے بہت سے رخ تھے-وہ ٦٨ کی دھائی میں لاطینی امریکہ میں فروغ پانے والے گوریلا کلچر اور مارکسسٹ رجحان سے دیگر نوجوانوں کی طرح متاثر ہوا تھا-وہ اس وقت کی ریڈکل سوشلسٹ سیت سے وابستہ رہا-مذھب سے باغی بھی ہوا -وہ ایک دور میں ہپی ازم کا بھی اسیر ہو گیا-نشہ اور چیزوں نے اسے پاگل خانے تک پنچا دیا -پھر بھی اس کے اندر تخلیق کی آگ سرد نہیں ہوئے تھی-وہ لکھنے کی طرف آیا -اور جب اس نے پھر سے میٹا فزکس کو دریافت کیا -واپس وہ کیتھولک چرج کی طرف لوٹا تو اس میں تخلیق کی آگ اور بھڑک اٹھی تھی-اس نے ایک روحانی سفر بھی کیا تھا جس کو اس نے پلگرم کے نام سے بیان کیا -اسے پڑھتے ہوئے مجھے ممتاز مفتی کا "حج "اور "علی پور کا ایلی" یاد آ گئی تھی-مجھے اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی شرم نہیں ہے کہ پاؤلو کا فکشن مجھے بہت اچھا لگا تھا-اس کی کتابوں نے واقعی بوریت سے بچایا تھا-اور ایک خواب نگر کی سیر کرائے تھی-مجھے ایسے لگا میں ہند کی پراسراریت بارے پڑھ رہا ہوں-پاؤلو نے لکھا تھا کے سارے جہاں میں اسے برازیل بہت پسند ہے -جہاں میجک اور حقیقت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں-مجھے خیال آیا تھا کہ میرا ہند بھی تو ایسا ہی ہے-کنیا کماری سے لیکر شملہ تک اور وہاں سے وادی سند سے لیکر لنڈی کوتل تک ،پھر بنگال کی سحر آفرین سرزمین تک یہ میجک اور حقیقت کا حسین سنگم حنین نظر آتا ہے-کالی داس کی شکنتلا میں ہم نے اسے دیکھا تھا-پھر ٹیگور کی "گیتا انجلی "میں ہم نے اس کو دیکھا -یہ جو اپنشد اور وید ہیں.گیتا ہے ان میں کیسے حقیقت اور جادو بھری خواب نگری کو ملا دیا گیا ہے-کیسے گوشت پوست کے جیتے جاگتے انسان دیوتا بن جاتے ہیں -اور دھرتی کی سری خوبصورتی آکاش بن جاتی ہے-کیسے سماج میں پائے جانے والی مادی محبت ہیر راہنجھا کی شکل میں لازوال کہانی منظوم ہوتی ہے-یہ سب تخلیق کے رنگ ہیں-سقراط نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ سنگ تراش کے ذہن میں تصویر پہلے موجود ہوتی ہے وہ تو بس تراش خراش کے اس تصویر کو تصویر کر دیتا ہے-کہانی پہلے ہی تخلیق ہو چکی ہوتی ہے-بعد میں تو بس اندراج ہوتا ہے-پاؤلو کا کہنا ہے کہ اس کے کردار اپنی کہانی کھوسد ترتیب دیتے ہیں-یہ سنکر مجھے یاد آ گیا کہ میں معروف رائٹر ارون دھتی رائے سے دہلی میں ان کی رہایش گاہ پر ملا تھا تو تخلیق کے سفر میں کردار نگاری پر ان سے بات ہوئے تو کہنے لگی تھیں کہ پلاٹ تو ان کا کچ ہوتا تھا لکین لکھنے کے دوران کردار اس قدر تبدیلی لاتے تھے اپنے آپ میں کے کہانی لکھنے کے بعد سارا پلاٹ بدلہ ہوا لگتا تھا-مجھے سیمول بیکٹ کی بات یاد آئی جو اس نے اپنے پلے کے ڈائریکٹر نے کہی تھی -"یار یہ کردار کہانی مکمل ہوجانے کے بعد بھی مجھے تنگ کرتے ہیں اور کئے ان کی باتیں ہیں جی کہانی میں درج ہونے سے رہ گئیں اب یہ ان کا شکوہ کرتے ہیں-"بلکل ایسا ہی تو ہوتا ہے-ایک بار جو کردار تخلیق ہو جائے وہ کہانی کے اندر قید رہنے سے انکار کر دیتا ہے-بعض کردار تو اس قدر جاندار ہوتے ہیں کہ وہ آپ کے ساتھ ہی زندگی بسر کرنے لگتے ہیں-کہانی تو کہیں دور رہ جاتی ہے-ان کا جیوں آپ کے ساتھ چلنے لگتا ہے-مجھے یاد ہے کہ جب دھانو کا کردار میرے سامنے آیا تھا تو اس کے کہانی تخلیق ہونے میں مجھے تین سلل لگ گئے تھے-لکین ان تین سالوں میں دھنو نے میرے ساتھ کس قدر سفر کیا تھا میں ہی جانتا ہوں-سرائیکی خطے کے ہر گوشہ میں وہ مجھے لے گئی تھی-میں نے سندھ،چناب،راوی ،ستلج سب ہی تو دیکھ لئے تھے-پھر تھل ،روہی،دامان بھی تو دیکھ تھے-یہ دہانو بھی عجیب تھی اس نے بھی ایک اردو بولنے والے مہاجر کی اولاد کو چنا تھا دھرتی کے رنگ دکھانے کے لئے-اور وہ بھی شہری بود و باش میں پلنے والا مہاجر-ایک کردار نتاشا کا ہے -روسی لڑکی کا جس کی کہانی میں نے بہت مرتبہ لکھی مگر اس کو پھر مٹا ڈالا-کتنی عجیب بات ہے کہانی کے کردار کو اپنے ساتھ عرصے سے لئے پھر رہا ہوں لکین لکھ نہیں پایا-کہانی تو کب کی تخلیق ہو گئی بس اس کو لفظوں میں قید کرنا ہے- دیکھو کب ہوتی ہے-ایک مرتبہ دہلی ائر پورٹ پر میں نے ایک خاتون کو جنگلے سے ٹیک لگا کر ایک نوجوان کی طرف حسرت سے تکتے دیکھا تھا-وہ نوجوان شائد اس کا شوہر یا ہونے والا شوہر تھا-اس خاتون کے چہرے پر پردیس جاتے محبوب کے لئے جو جذبات نقش تھے،کتنی آرزوں کو میں نے مچلتے دیکھا تھا اور کتنی ہستروں کو میں نے نقش دیکھا تھا آج تک مجھے یاد ہے-میں نے ایک لمحۂ میں ہزاروں باتیں بن لی تھیں-وہ کہانی مکمل ہو گئی لکین وہ نقوش لئے خاتون اب بھی وہیں دہلی ائر پورٹ کے ایک جنگلے کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی ہے-کبھی کبھی وقت تھم جاتا ہے-کوئی نقش مستقل ہو جاتا ہے-کسی یاد کی سولی مستقل سینے میں گڑ جاتی ہے-کئے تصویریں دھندلی پڑ جاتی ہیں مگر کوئی تصویر یاد بن کر لٹکی رہتی ہے-کہانی بن کر ختم ہو جاتی ہے کردار زندہ رہتے ہیں-خوابوں کا جہاں آباد رہتا ہے-جب کوئی نہیں آتا تو یہ کردار آتے ہیں-دھانو چپکے سے چلی آتی ہے-اس کا جھلا پن بھی ساتھ ہوتا ہے-آپ کو وہ سب سے سیانی لگتی ہے -سارا جہاں پاگل اور پاگل خانے کی ویرونیکا سیانی لگتی ہے

Saturday 17 September 2011

وصال کی شب

اے وصال شب !تجھے عجب طرح سے بسر کیا میں نے سرخ رنگ کا لبادہ پہن کر تیری طرف سفر کیا میں نے میری ذات میں کیسی سرخی ہے انڈیلی میں "میں"نہیں رہا ،وہ "وہ"نہ رہا تیری سیاہ شبی کا ہے کمال مجھے میں میرا نشان نہ رہا من و تو کا فرق مٹ گیا میں کیا ہوا ،وہ کیا ہوا خبر ہونے کی اب کہاں سے ملے یہ آج بھی ایک معمہ رہا زیست کا الٹا پیرہن پہنے ہم دونوں خودی کو ڈھونڈ رہے ہیں وصل کی شب مجھ سے گلے لگ کر روتی کیوں ہے اپنا آپ گنوانے والے لمحوں میں تو سوں بھادوں بن کر برستی کیوں ہے وصل شب میں تیرا پیارصحرا میں بارش ہو جیسے ذرے تو نم ہوئے ہوں جیسے من کی پیاس نہ بھجی ہو جیسے رات کے آخری پہر میں جاتی سیاہی میں ہمارا ملنا جیسے کوئی تہجد گزار زاہد جیسے سجدہ کرے یہ کیسی وصل شب ہے جاناں جس میں وصل بھی روتا ہوا قرب بھی جلتا ہوا وصل گر معراج ہے تو کسی یہ معراج ہے جس میں گریہ ہے جہاں قربت دوری بن گئے ہے دونوں پیاسے ہیں اب تلکتشنہ لب ہیں دونوں اب تک مسیح سے پوچھتا ہوں کہتا ہے وصل ہے مصلوب ہونا اسماعیل سے پوچھتا ہوں کہتا ہے وصل ہے ذبیح ہونا منصور میرے سامنے ہےسولی کو وصل کہتا ہوا سرمد کہتا ہے افسوس وصل کی رات ہے تھوڑی سولی بھی ہے ایک بار ،مصلوب بھی ہے ایک بار حسین بھی ایک بار ،کربل بھی ہے ایک بار دربار بھی ہے ایک بار ،دمشق بھی ہے ایک بار بیمار بھی ہے ایک بار،زینب بھی ایک بار یہی وصل ہے ،جو ملتا ہے ایک بار عذاب جان کی شکل بدلتا ہے وصل ایک بات مسلسل عذاب آتے ہیںخواب آنکھوں میں لاتا ہے ایک بار آنسوؤں سے وصل کی شب میرا سواگت میرےدل جلتے کوئلے کی طرح ہے رکھا ہواصبح ہوئی کب؟نہیں جانتا سوچتا ہوں وصال شب کس جشن مناؤںیا جلتے زکموں پہ مرہم رکھوں کسی طبیب دل سے مشوره ضروری ہے-وصل کی رات کا تحفه ہے قید ہونا وصال شب کی سزا میں ہجر و فراق عمر بھر بھگتنا (عامر مستجاب حیدر )

پیلو راگ اور گورنمنٹ کالج لاہور

ذاتی واردات قلبی بھی عجیب و غریب ہوا کرتی ہے-اس کو بیان کئے جاؤ تشنگی مٹنے کا نام نہیں لیتی ہے-آج بہت عرصے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور جانے کا اتفاق ہوا-مجھے فلسفہ کے شعبہ میں جا کر ایک اندوہناک خبر تو شاہد حسین صاحب کے مرنے کی ملی -دل بہت اداس ہو گیا -کیفے میں بیٹھ کر بدمزہ چائے پیتے ہوئے مجھے وہ یاد آتے رہے-عجب سی اداسی من پر اتری ہوئے تھی-فلسفہ کا شعبہ وہ ہے جہاں بلراج ساہنی صاحب بھی پڑھے تھے-میں وہاں گیا تو مجھے فضا خاصی بدلی ہوئے لگی-مجھے یہ پرانا جی سی نذر نہیں آیا-ویسے بھی گیت پر داخل ہوتے ہوئے جس ترہ کی سیکورٹی کا حصار دیکھا دل پر بڑی اکتاہٹ طاری ہوئی-میں وہاں اپنے ایک دوست کے ہمراہ گیا تھا-یہ وہاں پر کچھ عرصہ پڑھاتے رہے تھے-انھوں نے مجھے اردو ڈیپارٹمنٹ میں ما بعد جدیدیت پر پی ایچ ڈی کرنے والی ایک خاتون سے ملوایا -بس پھر کیا تھا -انیس ناگی کا تذکرہ جو چلا تو پھر بات دنیا بھر کے ادیبوں پر چلی گئی-کافکا ہم دونوں کے درمیان بات کا مشترک حوالہ بن گیا -جین پال سارتر کا تذکره ہوا -تو بورخیس کو بھی یاد کیا گیا-کامیو کی بھی یاد آئی-مجھے انیس ناگی صاحب کے ان کے ناولوں ترجموں کی یاد آئی-کیسے انھوں نے پوری طاقت اور صلاحیت کے ساتھ فرانسیسی ادب کا ترجمہ کیا تھا-عسکری صاحب کی بات کو انھوں نے پلے باندھ لیا تھا-فرینچ سیکھی -اور پھر وہیں سے تراجم کئے-ان ناولوں کی تکنیک کو اردو میں بھی ناول لکھنے میں استعمال کیا اور خوب کیا-وہ پاکستان کے چند ایک بڑے ادیبوں اور عالم فاضل لوگوں میں سے ایک تھے-جی سی میں بیٹھا ہوا میں ایک تو ان کو بہت یاد کر رہا تھا-دوسرے مجھے سہیل صاحب بہت یاد آ رہے تھے-طاہرہ کو انھوں نے مشوره دیا تھا کہ وہ سیموں ڈی بوا کو ضرور پڑھے -کیا اسمی تھے سھیل صاحب بھی-یہاں جو لوگ پہلے ایم اے کے تھیسس لکھوانے کا کام کرتے تھے فلسفہ میں -وہ ہر تھیسس میں زبردستی اپنا مواد شامل کرنا اپنا حق خیال کرتے تھے-جبھی تو کئے ایک تھیسس ان کے تعصبات کی نذر ہو گئے-اب بندہ کس کس زیادتی کی طرف عوام کی توجہ اس طرف مبذول کرے-جی سی کی فضا خاصی بوجھل تھی تو میں وہاں سے نکل آیا -مجھے اس موقعہ پر امرتا پریتم کی بات یاد آ گئی

"میں لاہور اس لئے نہیں جاتی کہ جو لاہور میرے خیال میں نقش ہے-اگر لاہور ویسا نہ نکلا تو مجھے بہت تکلیف ہوگی"

میں اپنے دوست کو کہ رہا تھا کہ میں جی سی نہیں جانا چاہتا -جی سی ویسا نہ نکلا جو میرے خیال پر نقش ہے تو بہت تکلیف ہوگی-لکن میرا دوست نہ مانا-اب مرے دل کی جو حالت ہے وہ لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے-ویسے بھی ساون کے مہینے میں دل کبی قابو میں نہیں رہتا -آنکھیں ساون بھادوں کی طرح برسنے کو جیسے تیار رہا کرتی ہیں-اقبال ہاسٹل کے سامنے اور اس کے ایک کمرے کو دیکھ کر بہت سی یادوں نے دماغ سے سفر کر کے نظروں میں ڈیرے ڈال دئے-بہت سی بھولی بسری یادوں کے سیلاب امنڈ امنڈ کے آئی-بہت سے چہرے جو خواب ہو گئی تھے یاد آ گئے-انہی میں مرے روم میٹ کا چہرہ بھی گھوم گیا -عبدللہ کیا دن تھے وہ بھی -نیو نائٹ ائر کو پیرس میں ایفل ٹاور کے نیچے بیٹھ کر شمپین کی بوتل کھولے -اس کے گھونٹ بھرنے سے پہلے اس نے مجھے کال کیا تھا-وہ مرے نام جام کرنے سے بیشتر مجھے کئے اس طرح کی راتوں کا احوال سنا رہا تھا-بولا مولوی کامریڈ کیا اب بھی دسمبر کی اس سرد رات میں کافی کو جام کی طرح گھونٹ گھونٹ پیتے ہو-امجد کی نظم وقار بلوچ سے سنتے ہو-جواب میں میں ہنس دیا تھا-کیونکہ واقعی میرے ہاتھ میں بلیک کافی کا کپ تھا-آج فرق صرف اتنا تھا کہ مجھے "آخری چند دن دسمبر "کے سنانے والا کوئی نہیں تھا -میں خود ہی اس کو خود کو سنا رہا تھا-ہاں اس دن سخت دھند تھی اور میں کافی کا کپ ہاتھ میں پکڑے گھر سے بہت دور نکل آیا تھا-پھر کافی ختم کرنے کے بعد ناجانے وہ کپ کیوں میں نے راستے میں پڑنے والے ایک پارک کی دیوار کے ساتھ رکھ دیا تھا-مجھے یاد آیا کہ کیسے عبدللہ پیانو پر دھنیں بجاتا اور میں اس سے اکثر اداسی کا راگ پیلو سنا کرتا تھا-اس رات بھی پیلو راگ میرے کانوں میں اپنی اداسی گھول رہا تھا-اور آج بھی گی سی سے نکلتے ہوئی یہ اداسی میرے ساتھ تھی- پیلو راگ پوری طرح سے مجھے اپنی گرفت میں لئے ہوئی تھا-میں اسی سحر میں اداسی بکھرتی شام کو جی سی سے باہر نکل آیا تھا

خوابوں والے روگ

ایک زمانہ تھا جب لوگ لفظوں کی حرمت جانتے تھے-وہ ان کے اندر چھپے سچے جذبوں کو جان جاتے تھے -لکین برا ہو اس شہرت اور ناموری کی ہوس کا کہ اس نے لفظوں کی حرمت کو کھیل اور تماشہ بنا ڈالا ہے-اب تو انتہائے ذوق اور مقصود یہ ٹھہرا ہے کہ آپ کسی نہ کسی طرح سے تی وی چینل پر پر بولتے نظر آ جائیں-اب آپ کے مشہور لوگ کون ہیں ؟وہ جن کے اندر خیالات کی گہرائی تو کیا ہوگی ؟ان کی اخلاقی حالت کا اندازہ ان نشر کردہ کلپس سے ہوجاتا ہے جو سوشل نیٹ ورکس سائٹ پر آپ کو دیکھنے کو مل جاتے ہیں-میں حیران ہوتا ہوں کہ کیسے کیسے لوگ ہمارے رہنما ٹھہر گئے ہیں-میں ان تمام لوگوں کو یاد کرتا ہوں جنھوں نے ہمارے سماج کے علمی ورثہ کی تخلیق و تشکیل میں دیں رات ایک کر دیا تھا-جن کی ساری زندگی "کبھی سوز و ساز رومی ،کبھی پیچ و تاب راضی"کی مصداق ٹھہری تھی-گورنمنٹ کالج لاہور کے ہر شعبہ میں بہت سری نیم پلیٹ آپ کو نظر آ جائیں گی-یہ بہت بڑے بڑے نام ہیں -جو کبھی اسی لاہور میں زندگی کرتے رہے -رسول ساقی صاحب نے آرنلڈ جیسا استاد ذکر کر دیا خلیفہ حکیم جی ذکر ان کے مونہ سے سنا تو مجھے زمانہ طالب علمی میں وہ رات جگوں کے ساتھ ان کی کتب کے مطالعہ سے لطف اندوز ہونے کے شب روز یاد آ گئے-کیسے ایک رات میں نے سر ظفر الحسن کا وہ خطبہ استقبالیہ ڈھونڈھ نکالا تھا جو علامہ اقبال کے مشہور و معروف خطبات کے پہلے خطبہ کے موقعہ پر انھوں نے دیا تھا-آج کتنے لوگوں کو پتہ ہوگا کے سر ظفر الحسن کون تھے-اور وہ کس طرح سے رائل فلاسفکل کانگریس کے رکن بنا لئے گئے تھے-جنھوں نے کانٹ کے فلسفہ پر ایک دقیق کتاب لکھی تھی-یہ کتاب بھی اب سال ھا سال سے نہیں چھپ رہی-انہی کے ایک شاگرد ڈاکٹر برہان احمد فاروقی تھے-پنجاب یونی ورسٹی میں ان کا لیکچر سننے کے لئے صرف طلبہ ہی نہیں باہر سے بھی لوگ اتے تھے-بعض اوقات لیکچر باہر گراونڈ میں دینا پڑتا تھا-یہ لوگ لاہور کی پہچان تھے-ان کے دمقدم سے لاہور کی رونق تھی-چراغ حسن حسرت،مجید سالک،سعادت حسن منٹو،اے حمید سمیت کئے ادیبوں نے اس لاہور کا اور اس میں رہنے والے پراگندہ طبع لوگوں کا احوال لکھا ہے-لاہور کافی ہاؤس ککی یادوں کے تناظر میں کے کے عزیز نے ہمیں لاہور کے لاہور ہونے کا راز بتلایا ہے-امرتا پرائم کا لاہور ،پرکاش متل کا لاہور،خشونت سنگھ کا لاہور ،بپسی سدھوا کا لاہور ،ایک جہاں ہے جو اب بس کتابوں میں آباد ہے-آج کا لاہور کیا ہے؟بس کھانے کی اور پہننے کی بڑی بڑی دوکانوں کا شہر ؟ان میں جو لوگ فکر و خیال کے ہمنوا ہیں جو پیدل چل کر پرانے لاہور کو دریافت کرنا چاہتے ہیں تو ان کے لئے تو چلنے کی جگہ بھی باقی نہیں ہے-اے حمید نے اور انتظار حسین نے اپنی تحریروں میں ان چائے خانوں اور کیفوں کا ذکر کیا ہے جو کبھی لاہور کی علمی ادبی محفلوں کا مرکز ہوا کرتے تھے-آج جب میں انتظار حسین،مسعود اشعر کو نیر آرٹ گیلری میں ایک میز پر بیٹھے ہوئے دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ وہ کوئی ماحول دوبارہ پیدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لکین وہ پیدا نہیں ہو پا رہا-چراغوں کا دھوواں میں انتظار نے آخری باب میں جو مرثیہ پڑھا ہے وہ شائد اس دکھ اور روگ سے ملتا ہے جو مجھے لہور آ کر اپنی گرفت میں لئے ہوئے تھا-احمد فراز نے لکھا تھا کے "یہ جو سرگشتہ سے پھرتے ہیں کتابوں والے لوگ" "ان کو بھی ہیں لاحق خوابوں والے روگ "تو کتابوں والے لوگ اور خوابوں کا روگ پلنے والے لوگ کہاں چلے گئے یہ سوال مجھے بھی بہت تنگ کرتا ہے -لکین کہیں سے کوئی جواب نہیں ملتا -نوٹ لکھتے لکھتے خیال آیا کہ صفدر میر جیسا ایک نام تو میں بھولے ہی جا رہا تھا کیوں؟وہ نام جس کے ٹھیریں کبھی میرے سرہانے رکھی ہوتی تھیں اور میں ان کو گاہے گاہے پڑھا کرتا تھا-صفدر میر بھی عجیب تھے -وہ مارکسسٹ تھے لکین ایک روز جب وہ فیض احمد فیض کے ساتھ حویلی نثار گئے اور وہاں مجلس امام سنی تو نجانے کیسے ان کے اندر کا شعیہ کیسے بیدار ہوا قنیز اتری اور کرنے لگے ماتم-فیض صاحب محرم اور اس سے جڑی چیزوں کو ہماری ثقافت کا انمٹ حصہ کہا کرتے تھے -وہ ذوالجناح سے لیکر عاشور کا جلوس تک دیکھنے جایا کرتے تھے-ان کے ہاں ہمیں مرثیہ بھی پڑھنے کو مل جاتا ہے-صفدر صاحب تو ٦٥ کی جنگ میں ترک پر سوار جنگی ترانے پڑھتے لاہور شہر کے باسیوں کو بیدار کرنے بھی چل نکلے تھے-میں حیران ہوتا ہوں کہ تاریخ کے فکری مغالطے درست کرنے والا اتنا بڑا دانشور خود کتنے بڑے مغالطہ کا شکار تھا-ہاں یاد آیا کہ صفدر میر جو انتظار حسین کے ناستلیجا کے سخت ناقد تھے -آخری عمر میں خود بھی گزرے زمانے کی یاد میں جگہ جگہ اپنا ناستلیجا ظاہر کرتے تھے تو مجھے حیرانی ہوا کرتی تھی-میں کل پرانے لاہور کی سڑکیں ماپتا رہا -کربلا گامے شاہ سے لیکر لاہور مال روڈ تک پیدل چلتا رہا -سب کچھ تو بدل گیا تھا-ایک جگہ سے ایک کھوکے والے سے سگریٹ کا پیکٹ لے رہا تھا -تو اس کے ساتھ ہی اورینٹل کالج کی بلڈنگ تھی-شام کا وقت تھا تقریباً ویرانی تھی عمارت میں-مدرسی تنقید کا قبرستان رہا ہے یہ کالج -ہاں اردو کی تدریس تو سید عبد الله جیسے لوگوں نے خوب کی-میں سوچتا ہوں اگر عسکری صاحب جیسا ناقد ہمیں نہ ملتا تو نجانے اردو تنقید اب بھی کہاں پڑی ملتی ہمیں-اتنا پیدل چلنے کے بعد بھی مجھے سم،جھ نہیں آ رہا تھا کہ کہاں بیٹھوں-ادبی بیٹھک ںمیں تو بیٹھنے کو دل نہیں چاہا -چوپال والے اپنی بزم منگل کو سجاتے ہیں-ویسے بھی مجھ جیسا آدمی وہاں جا کر کیا کرتا -میں وہاں سے چلا اور لارنس گارڈن آ گیا -یہ کہانی پھر سہی -

ارنس باغ اور بدھا درخت

لارنس باغ اور بدھا درخت

لارنس باغ کے گیٹ نمبر ایک سے وہ باغ میں داخل ہوا تو اس کی چال میں نہ تو وہ سبک خرامی تھی -جس کی وجہ سے وہ دور سے پہچان لیا جاتا تھا-اس کے ہاتھ میں سگریٹ تھا -جس کو ختم ہونے سے پہلے ہی وو ٹو چین کر لیتا تھا-اس کے کش لینے میں کوئی وقفہ نہیں دیکھنے کو مل رہا تھا-دوسرے ہاتھ میں موبائل لئے وہ گانا سن رہا تھا-

میں جہاں رہوں -تیری یاد ساتھ ہے

جاوید اختر کا لکھا یہ گیت اس کی اداسی کو زیادہ تو کرتا تھا لکین ایک عجب تسکین اس گیت کو سن کر اسے ہو رہی تھی-اسے آج تک اپنی برہا اور اداسی کا پتہ نہ چلا تھا-وہ بہت عرصۂ کے بعد لارنس باغ آیا تھا-آج سے بیس سال قبل وہ اس باغ میں اس وقت آیا تھا جب وہ طالب علم تھا-یہ عید کا تیسرا دیں تھا -وہ گھر میں نہیں رہ سکا تو لاہور آکر لارنس باغ چلا آیا تھا-ایک پہاڑی پر جا کر ایک شیڈ کے نیچے بیٹھا وہ سگریٹ پر سگریٹ پھونکے جا رہا تھا-باغ میں لوگ مسلسل چلے آ رہے تھے-نوجوان ،نوخیز جوڑے اپنی مستی میں مست ،راز و نیاز کی باتیں کرتے ہوئے-ہلکے ہلکے بولتے ہوئے کہ کوئی سن نہ لے-لکین وہ اس ساری رنگینی سے بے نیاز بیٹھ تھا-اچانک کہیں سے ایک لڑکی وہاں آ نکلی -اور اس نے سامنے والے خالی پڑے بنچ پر بیٹھنے کی اجازت طلب کی -اس نے کہا "مجھ سے بھلا اجازت کیوں طلب کرتی ہو -جہاں چاہو بیٹھو-وہ بیٹھ گئی-تھوڑی دیر کے بعد اس نے پوچھا کہ وہ کیوں تنہا بیٹھا ہے؟اس نے کہا کہ بس یونہی وہاں بیٹھا ہوں-اس پر اس لڑکی نے بھی یہی کہا کہ وہ بھی بس یونہی تنہائی کا شکار ہے-برہا اس کو بھی تنگ کرتی ہے-اب وہ چونکا -اس کو تو یہ بیگانگی آج تک اپنے اندر نظر آتی رہی تھی -آج اس جیسا دوسرا زی روح بھی پایا جاتا ہے-دونوں ایک دوسرے کے سامنے چپ چاپ بیٹھے رہے-کافی دیر کے بعد چپ ٹوٹی-تو دونوں نے دنیا بھر کے معاملات ڈسکس کے-کب لارنس میں رات ہوئی-رات سے صبیح -دونوں اپنی اپنی رہ پر ہو لئے -اس کے بعد ملاقاتوں کے کئے سلسلے ہوئے- اور لارنس باغ کا وہ کونسا کونہ اور گوشہ تھا جہاں ان کے قدم نہ پڑے ہوں-وہ لڑکی بہت جلد سارے مرحلے ایک جست میں طے کرنا چاہتی تھی-جو اس کو نئے نئے خواب بننا پر مجبور کر دیتی تھی-وہ اتنا تیز نہیں چل سکتا تھا تو ایک دن وہ خاموشی سے ناروے روانہ ہو گئی-بس پھر لارنس آنا بھی ختم ہو گیا تھا-آج وہ بس یونہی نجانے کس لہر میں یہاں آ پہنچا تھا-چلتے چلتے وہ ایک درخت کے پاس رک گیا تھا-لارنس میں درخت اس کو ہمیشہ اجنبی اجنبی سا لگتا تھا -اس پر ایک نیم پلیٹ لگی تھی -جس پر لکھا تھا کہ یہ درخت برازیل کے جنگلوں میں پایا جاتا تھا-اور یہاں وہیں سے لا کر اس کو لگایاگیا تھا-اس کا نام انھوں نے بدھا رکھا تھا-یہ نام اس درخت پر اس کو برا نہ لگا -کیوں کے برازیل کے جنگلات سے اس کی ہجرت گویا گوتم بدھ کی طرح سنیاس لینے کے لئے تخت و تاج کو ترک کرتے ہوئے نروان کی تلاش میں نکلنے کی طرح تھی-بہت خاموشی اور وقار کے ساتھ بدھا کھڑا ہوا تھا-اسے یہ ماحول بہت بھلا لگ رہا تھا-ایک منٹ کے لئے وہ بھی ماحول میں جذب ہو گیا تھا-اسے لگا کہ یہ ہجرت صرف کرازیل سے بدھا نے ہی نہیں کی تھی بلکہ وہ بھی ترک دنیا کے اس عمل سے گزرا تھا-وہ وہیں زمین پر بیٹھ گیا تھا-اس کی آنکھیں خود بخود بنس ہو گئیں تھیں-دور کہیں سے روشنی کی ایک کرن آئی اور اس کے اندھیرے میں چمک اٹھی تھی-ایک لمحے کو اس کو ایسا لگا کہ خیال مت گیا ہو -جس کو گوتم بدھ ہر دکھ کی وجہ بتلایا کرتا تھا-اس کی ذات ،اس کی میں کہیں غائب کیا ہوئی،اسے یوں لگا کہ اس کا سارا بوجھ اتر سا گیا-اس نے آنکھیں کھول دیں -دیکھا بدھا کا درخت کھڑا مسکرا رہا تھا-اور اس کو گلے ملنے کی دعوت دے رہا تھا-وہ خاموشی سے آگے بڑھا -اور بدھا درخت کے ساتھ گلے ملنے لگا -

دھانو (افسانہ)

دھانو (افسانہ)
عامر حسینی
وہ سردیوں کی ایک شام تھی-اس دن دھند بہت تھی-لوگ اپنے اپنے گھروں میں دبکے بیٹھے تھے -سڑکوں پر ویرانی کا راج تھا-ٹریفک بہت کم تھی -وہ بھی بس دل کی ویرانی سے گھبرا کر گھر سے نکل پڑاتھا-اس کا گھر ملتان کے شمال میں ایک متوسط طبقے کی رہائشی کالونی میں تھا-کئے سال پہلے اس کے باپ نے یہ مکان بنا لیا تھا -ورنہ اس کی کمائے سے تو گھر چلنا مشکل تھا-وہ ذات کا سید تھا-سنتے تھے کہ پدرم سلطان بود والا معاملہ تھا-لکین کالج کے زمانے میں اس کی یاری چند سرخوں کے ساتھ ہو گئی-بس پھر تو سماج کو بدل ڈالنے کی خواہش نے دل میں،دماغ میں ایسا گھر کیا کہ سب کچھ بھول گیا -اس کے باقی رشتہ دار تو پیری مریدی اور مجلس خوانی سے کافی پیسہ کما رہے تھے -لکین اس نے تو جوڑے ہوئے پیسے بھی خدمت خلق پر لگا دئے تھے-اس پر اسے کوئی ملال بھی نہیں تھا-بیوی اس کو بہت شاکر صبر ملی تھی-ویسے وہ اس کے برعکس مذہبی لحاظ سے مومنہ تھی-نماز روزہ کی پابند،عشرہ محرم کو تزک و احتشام کے ساتھ منانے والی،لکین اس نے کبھی اس پر کوئی زور نہ دیا تھا-مظفرعلی نام تھا اس کا-اکثر ایسا ہوتا تھا کہ اس کو گھر بیٹھنا محال ہو جاتا اور وہ گھر سے نکلتا ،سڑکیں ماپتا ہوا شمس تبریز کے مزار پر ان نکلتا تھا-وہ ملحد تھا لکین اسے آج تک اس بات کی سمجھ نہیں آئے تھی کہ اسے ملامتی صوفیوں سے اس قدر پیر کیوں تھا-وہ جب بھی لاہور جاتا تو شاہ حسین،میاں میر ،بیبی پاک دامن ،قصور میں بابا بلھے شاہ کے مزار پر ضرور جاتا-پاکپتن میں بابا فرید کے مزار پر حاضری دیتا تھا-اسے یہ سب مزار پر ایسے لگتے تھے جیسے سامنے آ کر بیٹھ گئی ہوں اور وہ ان سے باتیں کر رہا ہو-ایک مرتبہ جب وہ عراق گیا تھا اور وہاں جا کر وہ نجف اشرف میں امام علی کے مزار پر گیا تو نجانے کب کی پڑھی ہوئے نہج البلاغہ کے چند خطبے اس کو یاد آ گئے تھے اور اس نے امام سے خوب باتیں کی تھیں-کئے سوال کے تھے-اور اسے ایسا لگا تھا جیسے یہ سارے سوال اپنا جواب لیکر لوٹے ہوں-اسے یاد ہے کہ بغداد سے امام موسیٰ کاظم کے مزار کی اور جاتے ہوئے اس کے ساتھ ایک اور فیملی بھی شریک سفر ہو گئے تھی-یہ لوگ پاکستان سے آئے تھے -اور شیخ عبدل قدر جیلانی کے مزار پر جانا چاہتی تھی-امام موسیٰ کاظم اور شیخ عبد القادر جیلانی کے مزارات قریب قریب پڑتے ہیں-اس فیملی نے امام موسیٰ کاظم کا نام پہلی مرتبہ سنا تھا-ان کو یقین نہیں آتا تھا کہ یہ کوئی بہت بڑی شخصیت تھی-مظفر علی نے ان کو امام موسیٰ کاظم کے مزار پر چلنے کو کہا تو وہ چل پڑے -وہاں اس وقت ٢ لکھ سے زیادہ افراد جمع تھے-یہ شوال کا دوسرہ ہفتہ تھا-اور امام جعفر صادق کی وفات پر ان کو پرسہ دینے کی مجلس ہو رہی تھی-مظفر وہاں جا کر ایک کونے میں بیٹھ گیا تھا-اور اس نے اس خاندان کو امام موسیٰ کاظم کی داستان الم سنائے تھی-اس خاندان کے سربراہ خالد نے اچانک اس سے پوچھا تھا ،کیا تم شیعہ ہو؟وہ یہ سوال سن کر ہنس پڑا تھا-اس نے کہا کہ وہ ملحد ہے-وہ تو میٹا فزکس پر یقین نہیں رکھتا تو وہ سب بہت حیران ہوئے تھے-جب اس نے بتایا کہ وہ ایک مارکسسٹ ہے تو وہ اور حیران ہوئے کے کافر مادیت پسند فلسفی کا عاشق یہاں موسیٰ کاظم کے مزار پر کیا کرنے آیا ہے؟بس ایسا ہی تھا وہ-
آج بھی وہ شمس سبزواری کے مزار کے صحن میں آ کر بیٹھ گیا تھا-حالانکہ سردی بہت تھی-لکین اسے یہ سرد اور ٹھنڈا فرش بہت اچھا لگ رہا تھا-اس کے دل و دماغ کو یہ ٹھنڈک سکون پہنچا رہی تھی-وہ آج اس صحن میں بیٹھ کر شمس کے گنان کو دوہرانا چاہتا تھا-ابھی وہ اپنے واجد میں کھونے کی تیاری کر رہا تھا کہ کہیں سے ایک عورت آ نکلی-کم از کم اس کا سات فٹ قد ہوگا -چھریرا سا بدن،جسم نہ دبلا تھا نہیں موٹا تھا-اس نے ہاتھوں میں کہنیوں تک چوڑیاں ڈال رکھی تھیں-ناک میں ایک سونے کا کوکا تھا جو اس کے چہرے کو بہت بھلا لگ رہا تھا-سر ننگا تھا -جب کہ اس نے ایک چولی اور لہنگا پہن رکھا تھا-پیروں سے لگی جھانجر جب وہ حرکت کرتی تو کھنکنے لگتی تھی-عجب سے با وقار چال تھی اس کی-ایک رعب تھا اس کی چال میں-مظفر شائد سحر زدہ ہو گیا تھا-اتنی سردی میں وہ عورت مزار کے احاطے میں سیدھی اس کی طرف آئی-وہ مزار کے اندر نہیں گئی-اس کے قریب آ کر چند قدموں کے فاصلے پر وہ بیٹھ گئی-اس کی طرف خاموشی سے کافی دیر تک دیکھتی رہی-کچھ نہ بولتے ہوئے بھی وہ کافی کچھ کہ رہی تھی-مظفر کو یوں لگتا تھا کہ اس کی آنکھیں کوئی سکینر ہیں اور اس کو اندر سے دیکھ رہی ہیں-مظفر کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ اس سے پوچھے کہ بیبی کیا کام ہے-وہ بھی بس خاموش بیٹھا رہا -اچانک اس نے خاموشی توڑ ڈالی اور کہنے لگی-
شاہ جی !مجھے کوئی ایسا وظیفہ بتلائے کہ میرا محبوب میرے پیچھے پاگل ہو
جائے-وہ میری بات نہیں سنتا ہے-میں اس کے پیچھے جھلی ہو گئیں ہوں-وہ
کملا ہر ویلے نیلی آنکھوں والے.ہاتھوں میں بندوں لئے ،گھوڑوں پر سوار حملہ
آوروں کی بات کرتا رہتا ہے-شاہ جی!اس کو بہت سمجھاتی ہوں کے گھوڑوں کا زمانہ چلا گیا -پر وہ مانتا ہی نہیں ہے-مجھے کوئی وظیفہ بھی دو اور پانچ روپیہ بھی -
تاکہ میں اس کو فون کر سکون کہ واپس لوٹ آ -ساون آ گیا ہے-اس موسم میں دریاؤں پر کام کرنا اچھا نہیں ہوتا-پر شاہ جی وہ جھلا کبھی دریا کا کنارہ نہیں چھوڑتا
ہے کہتا ہے "کملی یہ جو گھوڑے والے ہوتے ہیں -یہ بہت ظلم ہوتے ہیں-جب دریاؤں کی طغیانی عروج پر ہوتی ہے تو یہ دہرایا میں گھوڑے اتر دیتے ہیں-اور ہم دراوڑ ملیچہ پن کر صدیوں کے غلام بن جاتے ہیں-کہتا ہے"سب تو چلے گئے-میگھ ملہار کو خوش آمدید کہنے اگر میں بھی چلا گیا تو یہ ساون عذاب بن جائے گا-
اس نے اچانک مظفر پیر پکڑ لئے -کہنے لگی شاہ جی !آل محمد ہو -بی بی فاطمه سے کہو اپنے سر کے سائیں علی کے صدقے میرے محبوب کا جھلا پن ختم کردے -اس کے دل سے نیلی آنکھوں والوں کا خوف اتر جائے-وہ ساون میں تو گھر آ جائے-
شاہ جی !میں دھانو برسوں سے سرگرداں پھر رہی ہوں-کسی مزار اور کسی بزرگ نے اب تک میری بات نہیں سنی-حکیم جی کے پاس بھی گئی تھی -اس نے مجھے جھلی کہ کر جھڑک دیا-شاہ جی تم ہی بتاؤ کیا میں جھلی ہوں-اپنے محبوب کی سلامتی چاہنا کوئی جھلا پن ہوتا ہے-
بس یہ کہہ کر روتی ہوئی دہانو چلی گئی-اب اسے مزار کے صحن میں بیٹھنا دوبھر ہو گیا تھا-اس کے دماغ پر نیلی آنکھوں والے ،ہاتھ میں بندوق لئے ،گھڑ سوار قوبزہ جما چکے تھے-اسے شمس کے گنان بھول گئی تھے-کچھ بھی یاد نہیں آ رہا تھا-بیس کانوں میں دھانوں کی آواز گونج رہی تھی-
شاہ جی !کیا محبوب کی سلامتی چاہنا -جھلا پن ہوتا ہے؟