عورتیں کہیں بھی ہوں مرد بالادستی اور مرد شاؤنزم کا ان کو سامنا کرنا پڑتا ہے اور الجزائر کا سماج بھی اس سے مستثنی نہیں ہے ، مذھبی تعبیرات کی کوئی بھی شکل ہو اس میں پدر سری خیالات کے زیر اثر عورتوں کے سماجی مقام و مرتبے کو مردوں کے برابر لیجانے کی خواہش گستاخانہ اور سماجی نظم و ضبط کو تباہ کرنے والی خیال کی جاتی ہے اگرچہ عورتوں کی جانب سے فیمنسٹ مذھبی تعبیروں کو لانے کی کوشش بھی جاری ہے لیکن اس کی کامیابی کے امکانات صفر نظر آتے ہیں مگر دیکھا یہ جارہا ہے کہ یہ جو سیاسی اسلام کا ماڈل وہابی (پاکستان میں وہابی و دیوبندی ) حلقوں سے نکل کر سامنے آرہا ہے یہ عورتوں کو زیادہ مارجنلائز کرتا ہے، افریقہ کا ملک الجزائر جس نے فرانسیسی نوآبادیاتی آقاؤں سے آزادی قومی ترقی پسندی آزادی کی تحریک کے جھنڈے تلے حاصل کی تھی آج سیاسی وہابیت کے جبر تلے دبا ہوا ہے اور اس جبر کا سب سے بڑا نشانہ عورتیں ہیں
جنوبی افریقہ کی یونیورسٹی آف کیپ ٹاؤن کے افریقن جینڈر انسٹی ٹیوٹ سے ایک تحقیقی جریدہ " فیمنسٹ افریقہ " کے نام سے شایع ہوتا ہے جس کی مدیر آمنہ مائما ہیں ، اس جریدے نے نائجئرین یونیورسٹیوں میں سیاسی وہابی اسلام کے ابھار سے وہاں کی کیمپس لائف میں خواتین اسٹوڈنٹس کے نفسیاتی و معاشرتی رجحانات اور ان کے حالات کار پر ایک تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے میں انھوں نے الجزائر کی سب سے معروف یونیورسٹی "یونورسٹی آف ابدان " کا انتخاب کیا اور یہ تحقیق " فیمنسٹ افریقہ " میں شایع ہوئی اور وہیں سے اسے الجزائر میں سیاسی اسلام اور بنیاد پرستی کے خلاف اور سیکولر جمہوریت کے لیے کام کرنے والی تنظیم " اوپن ڈیموکریسی نے اپنی ویب سائٹ 50،50 ڈیموکریسی پر پوسٹ کی
یہ تحقیقی رپورٹ صرف افریقی تناظر میں پولیٹکل وہابی اسلام کے ابھار سے نوجوان طالبات کے لیے پیدا ہونے والے خطرات کو واضح کرتی ہے بلکہ اس سے ہمیں پاکستان کے اندر وہابی خیالات کی مدد سے بتدریج نفوز کرنے والے سیاسی اسلام سے تعلیمی اداروں میں پھیلنے والی عورت مخالف سوچ اور نظریات کا ایک سرسری اندازہ لگانے میں مدد مل سکتی ہے
پاکستان کے اندر جماعت اسلامی کا طلباء ونگ اسلامی جمعیت طلباء ، اہل سنت والجماعت کا طلباء ونگ سپاہ صحابہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ، جمعیت علمائے اسلام کا طلباء ونگ جمعیت طلبائے اسلام ، جماعت دعوہ کا محمدی اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ، تبلیغی جماعت کے دعوتی حلقے اور سوشل میڈیا پر ریڈیکل وہابی ، دیوبندی گروپوں کے بنائے ہوئے سوشل پیجز ، ویب سائٹس اور سائبر رابطہ گروپس سب کے سب عورت کی آزادی ، اس کے حقوق اور اس کے سماجی مقام و مرتبہ کی برابری کے خلاف سرگرداں ہیں ، جبکہ پاکستان کی جامعات ہوں کہ کالجز وہاں جو انتظامیہ ہے اس کی روش بھی عورت مخالف ہے
یہ تحقیقی مضمون ہمیں یہ بتاتا ہے کہ نائیجریا کی یونورسٹی آف ابدان میں سیاسی اسلام اور سیاسی عیسائیت کے جھنڈے تلے بہت سی بنیاد پرست تنظیمیں سامنے آئیں جن میں ہم سیاسی اسلام پسند تنظیموں کو " اصلاح پسند اسلام " اور سیاسی عیسائیت پسند تنظیموں کو " پینٹو کوسٹل ازم " کے ناموں سے تعبیر کرسکتے ہیں اور یہ جو بنیاد پرستانہ ابھار ہے اس کا آغاز 1980ء کے عشرے سے شروع ہوا اور اس کو 1990ء میں پر لگ گئے
نوٹ: یہ دو عشرے پاکستان کے تعلیمی اداروں کی سیاسی اور سماجی زندگی کے پولیٹکل وہابی - دیوبندی اسلام کے انتہائی زیر اثر آنے کے عشرے ہیں اور کیمپس لائف سے ترقی پسند سیاست کے غائب ہوجانے کے بھی
ابدان یونیورسٹی میں کل طالب علمون میں سے ایک اندازے کے مطابق 7500 طالب علم مذھبی تنظیموں کے رکن ہیں جبکہ یہ کل طلباء کی تعداد کا 37 فیصد بنتے ہیں
تحقیق کرنے والی ٹیم کا کہنا ہے کہ ابدان یونیورسٹی میں اتنی بڑی تعداد کی مذھبی تنظیموں سے وابستگی کا سبب ان تنظیموں کے مضبوط سماجی ، اکیڈمک سپورٹ نیٹ ورک اور ان تنظیموں کی جانب سے اپنے اراکین کو کیمپس میں ابھرنے والی وائلنس سے تحفظ دینے کا میکنزم ہیں
ابدان یونیورسٹی کے 45 فیصد طلباء یونورسٹی کے اقامتی ہیں جن میں 30 فیصد مرد اور 15 فیصد عورتیں ہیں جبکہ 12 رہائشی ہالز ہیں جن میں سے آٹھ میں یا تو صرف مرد رہتے ہیں یا صرف عورتیں جبکہ چار میں مرد اور خواتین دونوں رہتے ہیں
لیکن جہاں مرد اور عورتیں مل کر رہتی ہیں وہاں 80 فیصد سٹوڈنٹس خواتین ہیں لیکن اس کے باوجود ان ہالز کی ایک بھی چئیرمین ، ایگزیگٹو خاتون نہیں ہے
یہ ریسرچ بتاتی ہے کہ ابدان یونیورسٹی میں مرد طلباء زیادہ مراعات یافتہ ہیں اور ان کو عورتوں کے مقابلے میں زیادہ قائدانہ صلاحیتوں کا مالک خیال کیا جاتا ہے ، زیادہ اہم پوزیشنز ان کو دی جاتی ہے اور بحرانی حالات میں بھی انھی کو حالات سنبھالنے کا منصب سونپا جاتا ہے
ابدان یونورسٹی کے اندر کام کرنے والی مذھبی تنظیموں کی قیادت مردوں کے پاس ہے اگرچہ ان تنظیموں کے ویمن ونگز ہیں جن کی قیادت عورتوں کے پاس ہے اور دو تنظیمیں ایسی ہیں جنھوں نے اپنی مرکزی باڈی میں کچھ عہدے خواتین کو تقسیم کئے ہیں لیکن وہ بھی سب مرد قائدین کے ماتحت ہیں
ابدان یونورسٹی میں مسلم سٹوڈنٹس سوسائٹی کی ویمن ونگ کی صدر عامرہ سے جب کہا گیا کہ آخر اس سوسائٹی کی وہ صدر کیوں نہیں ہوسکتی تو اس نے استغفراللہ کا ورد کرتے ہوئے کہا کہ
اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا ہے کہ عورت کسی کمیونٹی کی سربراہ ہوسکے
اس تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا کہ اسٹوڈنٹس پالیٹکس میں بھی عورتیں مختلف باڈیز کے الیکشنز میں بہت کم امیدوار بنتی ہیں اور سیاست میں کم حصّہ لیتی ہیں
ایک مرد طالب علم جوکہ طلباء و طالبات کے مخلوط کیمپس میں رہتا ہے نے تحقیق کرنے والی ٹیم کو بتایا کہ
کیمپس میں طلباء سیاست میں چند ایک عورتیں امیدوار بنتی ہیں جوکہ فیمنسٹ ہوتی ہیں اور مرد ایسی خواتین کو پسند نہیں کرتے کیونکہ ایسی عورتوں کے ساتھ نہ تو گھر بسایا جاسکتا ہے ، نہ ہی خاندان کی تشکیل ہوسکتی ہے
ابدان یونیورسٹی میں خواتین طالبات کو کم ہمت ، کینہ پرور اور لیڈر شپ کی صلاحیتوں کے معاملے میں مرد طلباء سے کمتر سمجھا جاتا ہے اور ان کو احساس کمتری کا شکار بھی دکھایا جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس مرد حوصلہ مند، بولڈ ، جری ، قائدانہ صلاحیتوں کے مالک سمجھے جاتے ہیں
خواتین جو کیمپس پالیٹکس میں آئیں بھی تو وہ بہت جلد مستعفی ہوگئیں اور اس کی ایک بڑی وجہ کیمپس میں عورتوں کو نفسیاتی اور جسمانی وائلنس کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور یہ جو نفسیاتی و جسمانی اذیت دینے اور تشدد کا کلجر بہت بڑی روکاوٹ کے عورتوں کے کیمپس لائف میں پوری طرح سے فعال ہونے میں
عورتوں کے کمپس لائف میں کم سماجی مقام و مرتبے اور ان کی آزادی کو کنٹرول کرنے میں الجزائری معاشرے کی اور مذھبی قدامت پرست روائت کا بہت بڑا ہاتھ ہے جسے وہابی پولیٹکل اسلام نے اور زیادہ تیز کرڈالا ہے
کیمپس لائف میں عورتوں کو اخلاقیات ، ڈریس کوڈ اور گھومنے پھرنے کے حوالے سے زیادہ وعظ و نصائح سننے پڑتے ہیں بنسبت مرد طالب علموں کے
جبکہ تعلیمی نصاب ، میڈیا پر غالب نظر آنے والی پولیٹکل اسلام کی عورت مخالف ڈاکٹرائن کی وجہ سے مرد تو مرد عورتوں کی بڑی تعداد بھی اپنے کم سماجی مقام و مرتبے اور اپنے آپ کو مارجنلائزڈ کرنے والے ضابطوں کو عین درست خیال کرتی ہے
عورتوں سیکس چوئلٹی کو سماجی نظم و ضبط کے خطرناک اور اسے ڈسٹرب سمجھے جانے کا رویہ الجزائر میں عام ہے اور اسی طرح سے یہ نظریہ کیمپس میں بھی بہت غالب ہے اور یہاں تک سمجھا جاتا ہے کہ نوجوان عورتوں کے لیے خود بھی اسے کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہے اور اسی کو لیکر کیمپس میں بھی عورتوں کی نقل و حمل اور آزادی کو محدود کرنے ، کو ایجوکشن کی مخالفت کی جاتی ہے
پولیٹکل وہابی اسلام کیمپسز میں عورت مخالف خیالات کے ترقی کرنے سے ہی الجزائر میں عورت مخالف نظریات رکھنے والی زیادہ متشدد ، دھشت گردانہ اور فرقہ پرستانہ تنظیموں کا ظہور ہوا ہے جن میں باکو حرام (انگریزی تعلیم حرام ) سب سے زیادہ متشدد ہے
https://www.opendemocracy.net/5050/abiola-odejide/%E2%80%9Cwhat-can-woman-do%E2%80%9D-gender-norms-in-nigerian-university
http://www.feministafrica.org/
No comments:
Post a Comment