یوسف پارک خانیوال
میں جب اندرون شہر رہتا تھا تو اکثر گرمیوں کی دوپہر اور شام کو اپنے گھر سے کچھ فاصلے پر بنے ایک باغ میں چلا جاتا تھا ، یہ یوسف پارک کہلاتا تھا اور یہاں سینکڑوں درخت اور پودے تھے اور وہاں گراؤنڈ میں پڑے بنچوں میں سے ایک بنچ پر بیٹھ جاتا اور اس باغ میں بیٹھ کر میں نے بلامبالغہ کئی سو کتابیں پڑھی ہوں گی ، ریڈیو پر کرکٹ اور ہاکی میچوں کی کمنٹری سنی ہوں گی اور بی بی سی اردو سروس ، صدائے روس ماسکو ریڈیو ، ریڈیو سیلون اور آل اںڈیا ریڈیو سروس کی نشریات سنی ہوں گی
میں نے اس باغ کے درختوں تلے بنچ اور گھاس پر زرا دیر سستانے والے ان دیہاتی مرد و خواتین کو دیکھا جو دور دراز کے دیہاتوں سے شہر سودا سلف لینے ، کورٹ کچہریوں اور ڈی سی ، اے سی کے ہاں پیشیاں بھگتنے آتے یا اپنے کسی مریض کے ساتھ آتے اور ان کے پاس کہیں ٹھکانہ نہ ہوتا اور وہ یہاں باغ میں ڈیرا ڈال دیتے
لیکن ایک ڈی سی او عثمان عظمت جس کی سکن بلیک اور ذھنیت سفید فام نکلی نے اس باغ کو اجاڈ دیا اور اس کی جگہ اپنے سے بڑی سفید فام زھینت دکھنے والے شوباز کو خوش کرنے کے لیے ماڈل بازار بنانے کے لیے سینکڑوں درخت کاٹ ڈالے اور اب وہاں دو کروڑ کی مٹی ڈلواکر اس باغ کو دفن کرنے کا کام کیا جارہا تھا اور اسے وہ ترقی کا نام دے رہا تھا
میں اس اجڑے باغ کو حسرت کی تصویر بنا دیکھ رہا تھا جو ایک کالے انگریز کی فرعونیت کی بھینٹ چڑھ گیا تھا اور ستم یہ تھا کہ سینکڑوں درخت کاٹے جانے اور ایک تاریخی باغ کو اجاڑے جانے کے واقعے پر سارا شہر خاموش تھا اور کہیں سے کوئی صدائے احتجاج بلند نہ ہوئی ، کسی نے ایک احتجاجی بینر تک نہ لگا، اس شہر کی وکلآ کی بار میں اس روز پنجاب بار کونسل کے الیکشن میں جیت جانے والے دو وکلاء کے چیمبرز کے سامنے مٹھائیاں تقسیم ہورہی تھیں ، ڈھول بجائے جارہے تھے اور مبارکبادیں دی جارہی تھیں اور میں سوچ رہا تھا کہ کیا اس شہر میں کوئی بھی انسان اب زندہ نہیں رہا ؟ کیا یہ سماج مردوں پر مشتمل رہ گیا ہے
باغ اجڑنا ، درختوں کا کٹنا ، ایک تاریخی اہمیت کے پارک کا ختم ہونا یہ سب کسی کے لیے المناک اور اس شہر کے ماحول کی تباہی کے لیے اتنا بڑا واقہ شاید تھا ہی نہیں
میں پریس کلب گيا اور وہاں پر ایک صحافی نے یہ سوال اٹھایا کہ اس نے ایک ڈائری میں اس منصوبے کا زکر کیا اور کچھ لوگوں سے رابطہ بھی کیا لیکن کسی نے بھی کوئی عملی قدم نہ اٹھایا
میں نے ایک واجبی سی تعلیم کے حامل ایک شخص کو دیکھا کہ وہ ایک وکیل کے زریعے اس باغ کو اجڑںے سے بچانے کی سبیل کرتا نظر آیا اور ایسے میں وہ عام سا آدمی مجھے اس شہر خموشاں میں واحد زندہ آدمی لگا جس نے اپنی آدمیت کو ابتک برقرار رکھا ہوا تھا
اس باغ کے عین سامنے رانا مارکیٹ بنی ہوئی ہے میں نے اس مارکیٹ کی طرف سر اٹھا کر دیکھا اچانک مجھے خیال آیا کہ یہاں بھی تو ایک شخص رانا محمد حسین نام کا رہا کرتا تھا جو اپنی زات میں ایک تاریخ تھا جس نے اس وقت اس ملک کے مزدروں اور کسانوں ، طالب علموں ، عورتوں اور سیاسی کارکنوں کے حقوق ، شہری آزادیوں ، جمہوریت اور سماجی انصاف کے حصول کی لڑائی لڑنی شروع کی تھی جب اس کی مسیں بھی پوری نہیں بھیگی تھیں
ڈی ایس ایف ، پھر نیشنل عوامی پارٹی پھر پی ڈی پی اور پھر پی این پی اور اس کے بعد اے این پی کی تاسیس رکھنے والوں میں وہ شامل تھا اور اس نے باچا خان ، ولی خان ، مولانا بھاشانی ، محمود الحق عثمانی ، اجمل خٹک ، سی آر اسلم ، میاں محمود ، فیض ، صفدر میر ، سبط حسن ، سجاد ظہیر ، عبداللہ ملک ، دادا امیر حیدر ، میر غوث بخش بزنجو ، عطاء اللہ مینگل ، نواب خیر بخش مری ، شیر باز مزاری ، عطاء اللہ ملک ، جمال بوٹا ، قصور گردیزی ، رانا ریاست ، مرزا اعجاز بیگ الغرض کے سیاست کے بڑے نامی گرامی لوگوں کے ساتھ کام کیا
رانا محمد حسین کی " رانا مارکیٹ " جب ضیاء دور میں محض ڈھانچہ تھی تو اس زمانے میں اس کے کونے کھدرے سیاسی کارکنوں ، طالب علموں کی پناہ گاہ تھے جہاں وہ ضیاء الحق کی مارشل لآئی عفریتوں سے ان کو پناہ دیتا اور انھیں گرفتاری سے بچاتا تھا ، یہ مارکیٹ کے کئی کمروں میں اس شہر میں تعلیم حاصل کرنے اور اپنی قسمت آزمانے والے نوجوانوں کو مفت اور کبھی کبھار نہایت معمولی سے کرائے پر ٹہرا لیتا اور کئی بار تو وہ دور دراز علاقوں سے آنے والے نوجوان صبح اور رات کا کھانا بھی اس سے کھاتے اور کئی ایک کی یہ اپنی جیب سے امداد بھی کرتا تھا
یہ ایک دور میں رانا محمد علی ایڈوکیٹ والد رانا ندیم عبداللہ ، رانا ریاست ، کامریڈ اعظم خان ، شیر عالم شیرازی سابق جنرل سیکرٹری پی پی پی کا ٹھکانہ ہوتا تھا اور یہیں پر لاہور ، کراچی ، کوئٹہ ، پشاور اور دیگر شہروں سے آنے والے سیاسی کارکنوں کا جھمگٹا لگا رہتا تھا
اور رانا محمد حسین نے ایک وقت تک بہت فعال سیاسی زندگی گزاری اور شعور و بیداری کی شمع فروزاں کئے رکھی اور ایک طرح سے اس کی مارکیٹ سیاسی تھڑا تھی اور پھر جب بے ضمیری کی ہوا چلی اور سیاست مال بنانے اور اشراف کے گھر کی لونڈی بن گئی تو میں نے دیکھا کہ رانا محمد حسین بھی جیسے خود اپنے اندر ہی سمیٹ کر رہ گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی بینائی بھی جاتی رہی اور اب تو وہ چہرے پہچان بھی نہیں سکتا تھا
زمانہ بہت ظالم ہے اس نے بھی اپنے اندر سکڑ جانے اور سمٹ جانے والے اس شخص محمد حسین کو بھلا دیا
یہ شام کا تارہ جسے تم چھوڑ گئے
صحرائے محبت میں نشان غم ہے
واقعی رانا محمد حسین شام کا وہ تارہ تھے جنھیں سب بھول گئے اور چھوڑ گئے اور صحرائے محبت میں وہ نشان غم بنکر زندگی گزارتے رہے لیکن یہ کیا کہ ایک دن جب وہ شخص مرگیا تو بھی ایک بھی شخص نے اسے یاد نہ کیا اور نہ ہی کسی طرف سے اس کی خدمات پر ایک لفظ تحسین بھی نہیں لکھا گیا
کیا آج کے شہر اور اس کے باسی اتنے کٹھور اور ظالم ہوگئے ہیں جو ساری عمر انصاف ، آزادی ، حقوق کے لیے لڑتے رہے ، جنھوں نے صلیب جھٹکی اور دار کو چوم لیا ، آج ان کو کوئی یاد کرنے والا اس شہر میں نہیں تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ وہ جو اعزاز کے ساتھ دفنانے کی بات تھی وہ بھی شاید ختم ہوگئی ہے
کیا رانا محمد حسین کی موت بس اس کے بیٹے سورج کے لیے کوئی المناک خبر تھی ، اس کی بیوہ کے لیے آنسو بہانے کی بات تھی ، کیا وہ صرف اس کے خون کے رشتوں کے لیے اہمیت رکھنے والا شخص تھا
میں یہ سب باتیں سوچ رہا تھا اور ایک مرتبہ تو جی میں آئی یہیں سڑک پر کھڑے کھڑے لوگوں کو سقراط کی طرح روک روک کر ان سے سوال کروں
حسن کیا ہے ؟
فنا کسے کہتے ہیں
سچائی اور صداقت کیا ہوتی ہے
اور پھر ان سے سوال کروں
محمد حسین جیسے لوگ کیا تھے
اور اس طریقے سے ان کو احساس دلاتا کہ کس بے حسی ، خود غرضی اور جہالت کے سرد جہنم میں وہ فریز ہوکر پڑے ہیں اور ان کو بڑے سے بڑا واقعہ اب جھنجھوڑتا نہیں ہے
لیکن سچی بات ہے کہ میں یہ سب باتیں سوچ کر ہی رہ گیا ، کیونکہ مجھے لگا کہ اگر اس مدینہ میں رہنا ہے تو مجھے بھی رکھنی پڑے گی منافقوں کے ساتھ
میرے پیچھے اجڑا ہوا یوسف باغ تھا اور آگے رانا محمد حسین کے بغیر کھڑی رانا مارکیٹ تھی جو تمام تر رنگوں کے باوجود اجڑی اجڑی لگ رہی تھی اور میں جب شام کے سائے گہرے تر ہوتے جاتے تھے تھکے تھکے قدموں اور احساس شکست کے ساتھ اپنے گھر کی طرف چل دیا
No comments:
Post a Comment