Saturday 14 February 2015

فیمنسٹ تھیڑ


لبنان کی فلم ، آرٹ اور تھیڑ کی دنیا میں زیاد ابو عبسی کا نام نیا نہیں ہے ، وہ 70 ء اور 80 ء کی دھائی میں لبنان کے معروف اداکار تھے ، پھر وہ بطور ڈائریکٹر ، پروڈیوسر ، رائٹر کے سامنے آئے اور انہوں نے امریکن یونیورسٹی آف بیروت میں فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ میں پروفیسر ان فائں آرٹس ان ڈرامہ کے طور ہر تدریس بھی شروع کی ، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تھیڑ میں فلسفیانہ درک کے ساتھ وارد ہوئے اور خود ان کا کہنا ہے کہ تھیڑ وہ صنف ادب ہے جس میں پہلی مرتبیہ فلسفیانہ بیانئیے ظاہر ہوئے اور وہاں پہلی مرتبہ فلسفہ ڈرمائی تشکیل سے گزرا اور اس پر تبصرے شروع ہوئے ، زیاد ابو عبسی نے امریکی یونیورسٹی ہوسٹن یونیورسٹی سے فائن آرٹس ان ڈرامہ میں ماسٹرز ڈگری لی اور پھر لبنان آکر وہ فلم ، تھیڑ سے منسلک ہوگئے زیاد ابو عبسی نے بہت سے کلاسیکل انگریزی ، فرانسیسی ادبی شہ پاروں کو ڈرامائی تشکیل دی اور حال ہی میں وہ بہت عرصے کے بعد بیروت میں مونیٹ تھیڑ میں واپس آئے ہیں ، اس مرتبہ انھوں نے نارویجئین ادیب ابسن کے معروف ڈرامے " ڈال ھاوس " کو عربی زبان ، عربی کرداروں اور عربی سٹیج کے ساتھ ڈائریکٹ کیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ عرب سماج بھی آج تک بدلا نہیں ہے کیونکہ یہاں بھی عورتوں کے ساتھ گڑیوں جیسا سلوک ہوتا ہے اور ان کو گڑیوں کی طرح گھر بند کرکے رکھا جاتا ہے اور عورتوں کو جیتا جاگتا ، زندہ خود آگاہ ، باشعور برابر کا جیتا جاگتا انسان تصور نہیں کیا جاتا ، ان کے نزدیک ابسن کا جو " گڑیوں کا گھر " پلے تھا وہ اس زمانے میں قدامت پرست انگریز سماج میں ایک ھاوس وائف کی زندگی کی عکاسی کرتا ہے اور اسی لئے یہ اس زمانے میں " فیمنزم کے منشور " کے طور پر سامنے آیا تھا ، اگرچہ ابسن نے کہا تھا کہ اسے ہرگز یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ یہ پلے عورتوں کے حقوق کے حوالے سے لکھ رہا تھا زیاد ابو عبسی نے بھی اسے لبننان میں عورت کے سماجی مقام و مرتبہ کو سامنے رکھکر اس کی تشکیل کی ہے ، ہمارے ہاں بھی ابسن کا ڈال ز ھاوس کئی مرتبہ سٹیج پر پلے کیا گیا لیکن کسی نے بھی اس کی پاکستانی سماج میں عورت کی حالت زار کو سامنے رکھکر سٹیج کرنے کی کوشش نہیں کی اور ایسی کوشش اگر ہوئی بھی ہوگی تو وہ ایلیٹ کلاس کو محظوظ کرنے کے لئے ہی ہوگی ، ہمارے ہاں تھیڑ میں نجم حسین سید ، لخت پاشا اور دیگر کئی ایک نے ناٹک ، سانگ اور تھیڑ کے امتزاج سے پنجابی کے اندر ایسے تجربے کئے اور کافی سارے لوگ اس سے تیار بھی ہوئے لیکن پھر یہ تجربہ پنجابی قوم پرستی کے منفی رویوں کی وجہ سے زیادہ ترقی نہیں پاسکا اور اب بھی لاہور ، کراچی کے اندر ایسے تھیڑ گروپس موجود ہیں جو اپنے اپنے طور پر عورتوں ، چائلڈ لیبر ، اقلیتیوں ، بانڈڈ لیبر ، پسند کی شادی اور ان جیسے دیگر موضوعات پت تھیٹریکل سرگرمیاں کررہے ہیں لیکن ہمارے سماج میں یہ اس طرح سے رچاو کے ساتھ نہیں ہورہا جیسے یہ کم از کم لبنان سمیت عرب دنیا میں کئی جگہوں پر نظر آرہا ہے اور خود ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں یہ اپنے پورے رچاو کے ساےھ موجود ہے ، اجوکا تھیڑ نے اگرچہ بہت نام کمایا لیکن نہجانے کیوں یہ تھیٹر یہ ایک خاص طبقے تک کیوں محدود ہے ، جیسے ایک زمانے میں فیض امن میلہ بہت عوامی اور افتادگان خاک کی نمائیندگی سے بھرپور ہوتا تھا لیکن اب نہیں ہے ایسے ہی اجوکا تھیٹر بھی آج ایک خاص طبقے کے ناظرین تک محدود ہوچکا ہے فلم انڈسٹری تو ویسے ہی ہمارے ہاں تباہ ہوگئی ہے اور اس کی جگہ ناظرین کے پاس اب سوائے بالی ووڈ اور ھالی ووڈ دیکھنے کے کوئی اور چارہ نہیں رہا ، اسی لئے او مائی گوڈ ہو یا پی کے ہو ہمارے موجود مذھبی سماجی گھٹن کو کچھ دیر کے لئے کم کرنے کا سبب بن جاتی ہیں ، ویسے پاکستانی سماج جہاں مذھبیت جنونیت ، تنگ نظری اور تشدد کے ساتھ گھل ملکر ہی سامنے آتی ہے میں یہ سروے بھی سامنے آیا ہے کہ پاکستان میں پیدائشی مسلمان جو ہیں ان مین ایک کروڑ لوگ ملحد ہوچکےے ہیں لیکن اعلان نہیں کرتے ، ویسے مجھے احساس ہے کہ پورا مسلم سماج اس دو عملی سے دوچار ہے جہان اکثر مسلم نوجوان یا تو بہت کڑ پنتھی مزھبی رویوں کے ھ حامل ہیں یا پھر بالکل ہی انکاری لیکن سب کے سب ایک ظاہری مسلم پردے کے ساتھ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ، اس مین ہماری عورتوں کی صورت حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے ، اکثر عورتیں اپنے ازاد وجود ، اور ازادی سے برابری کی سطح پر جینے کی آرزو اکثر لپٹے لپٹائے لمبے برقعون کے ساتھ کرتی ہیں اور ان کو بازار میں کھل کر ہنسنے ، بولنے پر بھی گھورے جانے کے تسدد کا سامنا ہوتا ہے اس ساری صورت حال میں اگر چھوٹے بڑے شہرون میں تھیڑ فیمنسٹ پیسن کے ساتھ آئے تو تبدیلی آسکتی ہے

No comments:

Post a Comment