Monday 28 November 2011

کربلا اور شہر بانو (کہانی ) عامر حسینی

آج میں کربلا میں ہوں لکین ستم ظریفی یہ ہے کہ میرے ساتھ شہر بانو نہیں ہے-میرا خیمہ خالی ہے-اور یہ کربلا جو مجھے کبھی ڈرا نہیں سکی نجانے کیوں میرے اندر وحشت پیدا کر رہی ہے-میں اس کربلا سے چلا جانا چاہتا ہوں-اور میں تو یہاں خیمہ بھی نہیں لگانا چاہتا تھا-لکین نجانے کون سی قوت مجھے اس کربلا میں کھینچ لائی ہے-اور میری یہ کربلا بھی عجیب ہے-مائیں جب اپنے مدینہ سے چلا تھا تو مہینہ تو رجب کا تھا لکین میں اپنے مدینہ سے غریب شہر ہو کر اس طرح سے نکلا تھا کہ میرے ساتھ کوئی نہیں تھا-میرے ساتھ تو شہر بانو بھی نہیں تھی اور مجھے یہ سفر تنہا کرنا پڑا-میں اپنے مدینہ سے چلا تو اس وقت تک کسی یزید نے مجھ سے میرا دست طلب نہیں کیا تھا-اور نہ ہی کوئی سپہ مجھے اپنے ساتھ لیجانے آئی تھی-لکین نجانے مجھے کیوں لگا کہ اب مدینہ میرا نہیں رہا اور مجھے اب یہاں سے ہجرت کرنی ہے-میں نجد کے صحرا سے گزرا تو مجھے خیال بھی نہیں تھا کہ کبھی اسی صحرا سے اٹھنے والے بدو میری شناخت کے درپے ہوجائیں گے-اور وہ مدینہ اور مکہ میں میری تہذیب کے تمام آثار کو بدعات قرار دے کر ان کو مسمار کر دیں گے-اور میں کیا میری ساری تہذیب وہاں اجنبی اور مہاجر ہو جائے گی-
یہ کربلا بھی عجیب ہے کہ کہیں پر بھی پرپہ ہوجاتی ہے-اور زمان و مکان کی قیود سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا-لکین ساری کی ساری کربلائیں جا کر اسی کربلا سے رشتہ جوڑ لیتی ہیں جو عراق میں موجود ہے-اور بس کوفہ سے تھوڑی دور ہے-اور کربلاؤں میں سارے خیمے،ساری جانیں ،اور سب کی سب شیادتیں اسی ایک کربلا سے جا کر مل جاتی ہیں-
ہجرت اور تنہائی یہ ساتھ ساتھ ہوتی ہیں-لکین زمانی اور مکانی ہجرت سے پہلے ایک ہجرت ذہنی ہوتی ہے-اور مادی بیگانگی کی سب سے لطیف شکل ذہنی بیگانگی ہوتی ہے-اور جب آپ کا رفیق آپ سے جدا ہوجائے تو اس کا آغاز ہوجاتا ہے-یہ اپنی کامل شکل میں ظہور پذیر ہونے میں بہت عرصۂ لیتی ہے-یہ شعب ابی طالب سے شروع ہوتی ہے اور وہاں کسی کی خدیجہ اور کسی کا کوئی غم خوار بزرگ اس سے جدا ہوجاتا ہے-تو وہ سال ہی غم اور حزن کا سال قرار پاتا ہے-لکین اس دوران کسی کو تنہائی کا وہ احساس نہیں ہوتا -جو اس کو ہجرت کے بعد مدنیہ میں اپنے رفیق کی وفات کے بعد ہوتا ہے-وہ اپنی جنت کے ساتھ اور اس جنت کے دو ننھے پھولوں کے ساتھ پہلے تو تنہا اپنے رفیق کی تدفین کرتا ہے-پھر اس کو سقیفہ کے قہر کا سامنا کرنا پڑتا ہے-اور وہ اپنے مختصر سے خاندان کو لیکر مدینہ کے گلی کوچوں میں جاتا ہے-اور وہاں جا کر ایک ایک کو بتاتا ہے کہ ابھی زیادہ وقت تو نہیں گزرا جب غدیر خم کے مقام پر کوئی عہد و پیمان باندھا گیا تھا-اور پھر عترت کے ساتھ صلہ رحمی کا پیمان بھی تو ہوا تھا -یہی مہینہ تھا زی الحج کا جب عید مباہلہ ہوئی تھی-اور پھر کس کو شہر علم نے اپنا دروازہ قرار دیا تھا-لکین اس سب کچھ کہنے کا کوئی فائدہ نظر نہیں آیا -اور تنہائی اور غربت ،ہجرت ذہنی نے جڑ پکڑنا شروع کر دی -ایک طرح سے یہ مدینہ سے بے دخلی کا نوٹس تھا-آپ اپنے مدینہ میں ہوتے ہوئے بھی نہیں تھے-اور یہ ہجرت ذہنی کسی کو رات رات بھر جگاتی تھی-اور کوئی اپنے مرنے کی طلب راتوں کے آخری پہر میں کیا کرتا تھا-اور ایک رات خاموشی سے وہ طلب پوری ہوجاتی ہے-لکین وہ تنہائی اور ہجرت سفر کرتی ہے -اور وہ جو باب علم کہلاتا ہے اس میں سرایت کر جاتی ہے-یادوں کی ایک سولی ہے جو گڑھی ہوتی ہے-اور ان سے سے بچنے کے لئے کوفہ کو ایک اور ہجرت کر لی جاتی ہے-لکین دیو مالائی سچ کا پیچھا تنہائی نہیں چھوڑتی -یہ ساتھ ساتھ چلتی ہے اور پھر ایک تلوار کا وار ہوتا ہے "فزت برب الکعبہ"کی صدا بلند ہوتی ہے -لوگ سمجھتے ہیں کہ شائد اب سفر ختم ہو گیا-اور قافلہ واپس اپنے مدینہ کو لوٹ جاتا ہے-لکین غربت،ہجرت،بیگانگی جیسے مقدر ہوجائے -یہ مقدر کسی کے جگر کو زہر سے کاٹ کر اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے بھی ساتھ ہی رہتا ہے-اور پھر ہجرت کا ایک اور سفر شروع ہوتا ہے اور اس کا اختمام کربلا میں ہوتا ہے-آج کے بعد جو بھی ہجرت ہوگی اور جو بھی بیگانگی کے سندور کو اپنی مانگ میں سجائے گا -اس کی ہجرت کا سفر کربلا میں ختم ہوگا اور بیگانگی کے سندور کو اپنی مانگ میں سجانے والی سہاگن کو اس کا پیا بھی اسی کربلا میں ملے گا-یہ کربلا بھی ایسی ہے کہ اس کی طرف سفر کرنا کبھی بھی آسان نہیں رہا-آج بھی اس کی طرف جاتے ہوئے خون کے سمندر کو عبور کرنا لازم ہوتا ہے-
لکین میری کربلا اگرچہ اسی کربلا سے جڑی ہوئی ہے-لکین نہ تو میری شہر بانو میرے ساتھ ہے-نہ ہی میرے خیمہ میں کوئی مجھے رخصت کرنے والا ہے-کوئی نہیں ہے جس سے میری آنکھیں چار ہوں اور ہم چند لمحوں میں ساری زندگی کی کہانی کو بیان کر جائیں-
مجھ پر غربت ،ہجرت،بیگانگی کا یہ عالم کیوں ہے ؟اس کو شائد میں کبھی بیان ہی نہ کر پاؤں-میں اپنی کربلا کی داستان رقم کرنے بیٹھا ہوں تو میری اس داستان کو کسی فرقہ یا مسلک کی تنگ نظری سے پرکھنے کی کوشش مت کیجئے گا-کیوں کہ دیو مالائی سچ جس روح کے ساتھ ہو جاتا ہے -وہ روح کسی مسلک اور کسی فرقہ کے قالب میں سما نہیں پاتی-لکین کربلا اس وقت ایک اعزاز ہوتی ہے جب آپ کی شہر بانو آپ کے ساتھ ہو -اور آپ کے خیمہ جاں میں وہ مقتل کی طرف جاتے ہوئے آپ کو رخصت کرتے وقت آنکھوں ہی آنکھوں میں ان کہی بہت سی باتیں کہ جائے-اور اگر وہ کہیں گم ہو جائے اور کربلا کا سفر آپ کو تنہا کرنا پڑے تو پھر جو عذاب آپ کی جاں پر اترتا ہے -اس کا بیان نہیں ہو سکتا-ہاں یہ سچ ہے کہ یادوں کی ایک مالا ہے جس کو میں اپنے عاشور کے آنے سے پہلے پہلے گلے میں لٹکا سکتا ہوں -اور اپنے سفر کو کچھ آسان کرسکتا ہوں-
مجھے اب سے کچھ دیر بعد اپنے خیمہ سے نکل کر جانا ہے -اور میں چاہتا ہوں کہ جانے سے پہلے کچھ اعتراف کرتا چلوں -وہ اعتراف کیا ہے -وہ یہ ہے کہ '
"شہر بانو !تم میری ساری کی ساری دیو مالا کا سر عنوان ہو-میری ہستی کا ہست ہو اور میرے وجود کا وجد ہو-میری کن کا کون ہو-اور میری هویت کا ہو ہو -میری بصیرت کا بصر ہو-میری سماعت کا سماع ہو-میرے مظہر کا جوہر ہو-اور تم بس تم ہو اور میں بھی تم ہو-میں دوئی کا تصور بھی کفر سمجھتا ہوں اور تم سے خود کو الگ تو کیا تمہارے بعد کسی اور کی هویت کو بھی محال خیال کرتا ہوں-لکین یہ جو حضوری ہے میری اس میں بھی ایک ہجر اور ایک فرق چھپا ہوا ہے-اور میں بس اس کی آگ مئی سلگرھا ہوں-اسی ہجر نے مجھے اس کربلا میں تنہا کر دیا ہے-اور تم جو میرے اند جذب ہو آج مجھے بہت دور نظر آتی ہو -لکین میری محبت ہے کہ وہ سرد ہونے کی بجائے اور گرم سے گرم تر ہوتی جاتی ہے-ہجر کی آگ اس کو جلانے کی بجائے اور تیز کرتی جاتی ہے-میں زندگی کے سارے عذابوں سے نکل کر آگیا -اور میں نے ہر نار نمرود کو پار کر لیا -لکین آج یہ کربلا مجھ سے پار نہیں ہونے والی -اس لئے یہ شہر بانو تم آج یہاں نہیں ہو-میں تم سے کہنا چاہتا ہوں کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں اور محبت کا دوسرا نام جذب ہونا اور کسی کا حصہ ہوجانا ہوتا ہے-اور دوئی کا مٹ جانا بھی -لکین یہ کیا کہ میری کربلا میں دوئی تو برقرار ہے اور میں یہاں تنہا ہوں اور تم نہیں ہو-مجھے لگتا ہے کہ کہ شہر بانو مائیں تمہارا امیر نہیں رہا-اور تم میری شہر بانو مجھ سے کہیں دور بہت دور چلی گئی ہو-میں جو کبھی ٹوٹ کر اور بکھر کر بھی نہیں بکھرا تھا آج میں ٹوٹ بھی رہا ہونن اور بکھر بھی رہا ہوں-میں جو سارے انتشار ذات میں تمہارے وجود سے متحد رہا تھا -اب کہ جو منتشر ہورہا ہوں تو پھر اتحاد کا کوئی امکان نہیں ہے-میری کہانی لگتا ہے -اس کربلا میں اختتام پذیر ہے اور وہ بھی ایسے کہ یہ اصلی کربلا سے جڑی کہانی سے نہیں جرننے والی-تم جو ہر شب کو میرے لئے مولا سے امان طلب کرتی تھیں-کافی دن ہو گئے -تمھاری طرف سے مجھے وہ امان طلب کرنے کی خبر رات کے تیسرے پہر نہیں ملی-اور یقین جانو میں بھی ان راتوں میں ایک پل کو بھی نہیں سوسکا -مجھے ایسے لگا کہ اس امان کے بغیر صحرا کے جنگلی کتے اور سور مجھ پر بھونکتے ہیں-اور میرا خیمہ ان دیکھےخطرات میں گھر گیا ہے-مجھے صبح ہونے کا انتظار ہے-لکین تمہارے بغیر یہ رات بہت طویل ہو گئی ہے-مجھے یہ بھی ڈر ہے کہ کہینمیں اسی رات میں کربلا میں اپنا سفر ختم کر بیٹھوں -اور میری عاشور نہ ہو پائے-مجھے لگتا ہے کہ میں وہ بد نصیب دلہن ہوں جو پیا بن رہے اور بنا سہاگن ہوئے اپنے ہست کو نابود کر دے-اور کربلا کا ایسا مسافر جو امام کے قافلے کو خیمہ زن دیکھ کر بھی ان کے ساتھ نہ ہو -اور عاشور اس کی زندگی میں نہ آئی اور رات کو وہ صحرا میں کسی جنگلی جانور کی بھوک مٹانے کا سبب بن جائے-میں بھی تمھارے بنا کربلا میں بس ایسا ہی مسافر ہوں-میں کربلا میں ہوں-اور خیمہ میں تم نہیں ہو شہر بانو -بس یہی احساس ہے جو مجھے منتشر کے جاتا ہے-"

No comments:

Post a Comment