گھر ........
میں آج بہت عرصۂ بعد اس گھر میں داخل ہوا ہوں-یہ گھر میری جنم بھومی نہیں ہے-لکین میں دو سال کا تھا -جب اس گھر میں رہنے والے دو مکین مجھے اس گھر میں لے آئے تھے-میں نجب ہوش سنبھالا تو اتنے بڑے گھر میں اپنے دادا ،دادی کے ساتھ خود کو اکیلا پایا -
بہت پرسرار اور خاموش سا لگا یہ گھر مجھے-اس گھر کی پیشانی پر لکھا ہوا ہے "لکشمی ہاؤس .....١٨٩٧"-اس گھر کا بڑاسا دروازہ -جو کے دیودار کی لکڑی سے بنا ہوا ہے-دو بڑے بڑے پٹ -جن پر نقش ہندو صنمیات عجب تاثر دیتی ہیں-پھر در وازے کے دائیں اور بائیں ہر بنی دو چوکیاں -اور سائیڈ پر بنے دو اوطاق جن میں شائد تیل کے چراغ جلا کرتے تھے-اندر داخل ہوتے ہی بہت بڑا صحناوپر سے نظر آتا آسمان-سامنے حال کمرہ-دائیں اور بائیں سمت بنے ٦ کمرے-ان میں سے ایک کمرے میں ایک چوکی پر مورتیاں سجی ہوئی تھیں-سائیڈ پر ایک کمرہ جس میں کتابیں بری ترتیب سے چاروں طرف ریک میں سجی ہوئی تھیں-ایک میز اور کرسی -دادا کا کہنا تھا کہ انھوں نے بس تین کمرے اس گھر کے اپنے استعمال میں رکھے تھے-اور باقی کو یونہی رہنے دیا تھا-کتابوں والا کمرہ اسے ہی سجا ہوا ملا تھا-بس اس میں دادا اور دادی نے اپنے طرف سے کتب کا اضافہ کیا تھا-انہوں نے عبادت والے کمرے کو بھی نہیں چھیڑا تھا--اس پر ایک مرتبہ دادا کو خاصی مشکل کا سامنا بھی کرنا پڑاتھا-انھیں جماعت اسلامی والوں نے ہندو مشہور کر دیا تھا-دادا اور دادی نے معمولی سی مرمت تو کروائی ہوگی-لکین اس مکان کے نقشے میں کبھی تبدیلی نہیں کی-دادا نے جب اس گھر کی اکلوتے کتب خانے میں کتابوں کوپڑھنا شروع کیا تو ان ک معلوم ہوا کہ یہ گھر رام لال نامی کسی ہندو نے تعمیر کروایا تھا-اور وہ سرکاری ٹھیکیداری کیا کرتا تھا-اور لکشمی اس کی بیٹی کا نام تھا-جس کے پیدا ہونے پر رام لال کا کاروبار چمک اٹھا تھا-اس نے جب اس گھر کی ١٨٩٧ میں تعمیر شروع کر وی تھی تو اس نے اس گھر کی پیشانی پر لکشمی ہاؤس کندہ کر وایا تھا-رام لال خود بھی کتابوں کا بہت رسیا معلوم ہوتا تھا-ایک مرتبہ میں اس کتب خانے میں رکھی ایک کتاب جو ہنو صنمیات کی ڈکشنری تھی-کودیکھ رہاتھا تو کتاب کے آغاز میں لال روشنائی سے کافی سارے حوالے اور تبصرے درج تھے-نیچے رام لال کا نام درج تھا-اکثر رام لال کے ساتھ ساتھ تاریخ اور وقت کے فرق کے ساتھ ساتھ ساتھ کرشن لال کا نام بھی لکھا نظر آتا تھا-جو دادا کے بقول شائد رام لال کابیٹا ہوگا-میں نے یہاں پر انگریزی ادب عالیہ کی بھبھٹ اچھی کلیکشن دیکھی تھی-اور اس پر جا بجا مجھے لکشمی دیوی کانام لکھا نظر آیا-لکشمی دیوی انگریزی ادب میں روشن خیالی اور خرد افروزی کی تحریک سے خاصی متاثر نظر آتی تھی-ان دنوں میرے ساتھ عجب معامله ہو رہا تھا-کہ میرے خیال کی پرواز بہت بلند ہو گئی تھی-میں رام لال،کرشن لال اور لکشمی دیوی کے پیکر تراش لیتا-اور ان کو اس کتاب گھر میں حاضر کر لیتا-کبھی میں لکشمی دیوی کو اپنی دادی کا روپ ڈیٹاور ان کو عبادت والے کمرے کی طرف دیکھ کر ان کے چہرے پر عجب سے مسکان دیکھ لیتا-لکشمی دیوی تو جدید الحاد کی تحریک سے بھی متاثر نظر آتی تھی-اسی لئے اس کے لکھ حوالوں میں بہت سے ہولو ایسے ہوتے تھے کہ جن سے اس کے اس طرف جھکاؤ کا پتا چلتا تھا-
میں جب بھی اس قسم کے کوئی پیکر تراشتا تو بعض اوقات ان کو لفظوں میں قیدکرنے کی کوشش بھی کرتا تھا-میری دادی اس پر ہنستی بھی-اور کبھی کبھی سنجیدہ ہو کر میرا حوصلہ ہی بڑھاتی تھیں-مجھے یہ گھر جدید اور قدیم کی کشمکش میں گرفتار لگتا تھا-اس گھر میں جو اصل مکین رہتےتھے-وہ تقسیم کے بعد کہاں گئے-ہمیں کچھ معلوم نہ تھا-اور یہ اب اس القہ میں واحد گھر ہے-جو اپنی اصل حالت میں موجود ہے-رات کو ایک سائے کی طرح ایستادہ نظر آتا ہے-باقی کے تمام گھر اب جدید طرز کے بنگلوں میں بدل چکے ہیں-دادا اور دادی کی وفات کے بعد بھی میں نے اس گھر میں میں کوئی تبدیلی نہیں کی-اس گھر میں اب دو کمرے اور اسے ہیں جن میں پر چیزیں ویسی کی ویسی ہیں جیسی وہ ١٩٩٨ میں تھیں جب دادی اس جہاں سے رخصت ہو کر دادا کے پاس چلی گئیں تھیں-
اس گھر کا جو ہال نما کمرہ ہے-اس کمرے میں کسی زمانے میںہر ہفتہ بہت رش ہوا کرتا تھا-ایک اسٹڈی سرکل ہوتا تھا-جس میں مزدور،استاد،ڈاکٹر،شوبز سے تعلق رکھنے والے نا جانے کونکوں شامل ہوتے تھے-اور وہ سب مل کرارٹ،فلسفہ،ادب،سیاست،معشیت وغیرہ پر نا جانے کیا کچھ پڑھا کرتے تھے-مجھے بہت سے کردار آج بھی یاد ہیں-ان میں وہ مصور لڑکی جو کسی پارسی خاندان سے تعلق رکھتی تھی-مجھے آج بھی یاد ہے-وہ پنکل سے خاکے تراشنے میں مہارت رکھتی تھی-اس کا خاص کمال وہ تھا کہ وہ اکتوبر کے ماہ میں جب روسی انقلاب کی سالگرہ قریب ہوتی تو بہت محنت کے ساتھ وہ لینن ،اس کی بیوی کروپسکایا کی تصویر بناتی تھی-یکم مئی کو وہ چند گمنام سے مزدوروں کے پیکر کپڑے پر تراشتی تھی--اس کو نہ خانے کا ہوش ہوتا تھا-نہ پینے کا-شوبھا نام تھا اس کا-پھر وہ لندن چلی گئی تھی-میں ایک مرتبہ صحافیوں کے ایک وفد کے ساتھ پراگ گیا تو پراگ یونیورسٹی میں بس اچانک اس سے ملاقات ہوگی-مجھے لگا جیسے اس کے ہاں کچھ بھی نہ بدلہ ہو-وہ اسی طرح سے دبلی پتلی تھی-لگتا تھا عمر اس پر کہیں آکر ٹھہر سی گئی تھی-شادی اس نے اب تک نہیں کی تھی-برطانیہ میں کسی یونیورسٹی میں استاد ہوگی تھی-ہم یونیورسٹی کے اس گراونڈ میں جا بیٹھے تھے جہاں پر طلبہ کو احتجاج کرتےہوئے نازی حملے کا سامنا کرنا پڑا تھا--میں نے اس سے پوچھا کہ کیا حال احوال ہیں-تو ایک لمبی رام کتھا سننے کو ملی-وہ اب بھی تصویریں بناتی تھی-میں حیران تھا کہ وہ کہتی تھی کہ اس کی تصویر کہانی کے کئی سورما اب راکھشش ہو چکے ہیں-جیسے سٹالن اور ٹیٹو-اور ایک راکھشش اب سورما -جیسے ٹراٹسکی-میں نے اس کوزیادہ نہیں چھیڑا -وہ مجھ کو اب بھی سات آٹھ سال کا بچہ سمجھ کر ڈائل کر رہی تھی-اور مجھے یہ سب اچھا لگ رہا تھا-میں نے جب اس کو رات کے خانے پر بلانے پر اصرار کیا تو اس نے کہا نہیں تم میرے مہمان بنو گے-خانے کے بعد جاتے ہوئے شوبھا نے مجھے رائد وائن کی بوتل کا تحفه یہ کہتے ہوئے دیا کہ آپ کے دادا جب اسی پراگ یونیورسٹی کے دورے پر میرے ساتھ آئے تھے تو ان کو ایک کامریڈ میزبان نے یہی تحفه دیا تھا-جو انھوں نے قبول کر لیا تھا-اور اپنے کامریڈ دوست کو اس بات کی ہوا بھی لگنے نہیں دی تھی کہووہ اس نعمت سے محروم تھے-الکوحل ان کے وجود کا کبھی حصہ نہیں بن سکی تھی-شوبھا کی یہ بات سن کر مجھے یاد آگیا کہ میں تو ماسکو کی سردی سے ڈر کر پہلے دن ہی وّدکا سے دوستی کر بیٹھا تھا-شوبھا کے علاوہ ایک اور کردار استاد صمدوتھے -یہ بیٹری ورکرز یونین کے صدر تھے-کسی سکول .کالج کا انھوں نے منہ نہیں دیکھا تھا-سارا سماج ان کا استاد تھا-لکین دنیا کی سات زبانوں پر ان کو عبور تھا-انگریزی ان کی سن کر دیکھ کر مجھے بھی شرم اتی تھی-میرے دادا کے بعد تاریخ میں یہ میرے استاد تھے -جن سے میں نے بہت کچھ سیکھا تھا-اس گھر میں آج اپنے پرانے کمرے میں لیتا میں یہ سب کچھ سوچ رہا تھا-وقت تیزی سے گزر جاتا ہے-اور پھر یہی گھر تو ہے جہاں میں اور ہما ہمیشہ سردیوں کی لمبی راتوں کو کتب خانے میں رات گئے تک کتابوں کو دیکھتے تھے-اور دادا دادی سے بہت سے قصے بھی سنتے تھے-یہیں پر کبھی کبھی ہما کی والدہ بھی آہ جاتی تھیں-اور پھر تاریخ کے کئی ایسے گوشے وہ ہوتے تھے-کہ بس آج بہت افسوس ہوتا ہے کہ کاش سٹیو جابز کی ایجاد اس وقت مجھے میسر ہوتی تو میں وہ تاریخی لمحات ریکارڈ کر لیتا-اور آج پھر سے ان کو اپنے سامنے ہوتا دیکھتا-مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ اسی طرح سے زیلھج کے آخری دن تھے-اور محرم شروع ہونے والا تھا-شائد وہ عید مباہلہ کی رات تھی-جی یہ وہ دن ہے جس دن کہا جاتا ہے کہ حضرت محمد علیھ السلام نے پنجتن پاک کولیکر مسیحیوں سے مناظرے کے لئے نکلے تھے-اور اسی دن بیبی سکینہ کی ولدت کا دن بھی بتایا جاتا ہے-یہ دن شیعہ کے ہاں بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے-میرے دادا ،دادی،اور ہما کی والدہ مسلم تاریخ کے اس طرح کے دنوں کی ریڈکل تبریروں پر غور و فکر کر رہے تھے-میں اور ہما ان کی باتیں سن رہے تھے -اس وقت ہم اس بات پر متفق تھے کہ دادا ،دادی اور ہما کی والدہ سب لاشعوری طور پر اپنے ورثہ کی نئی تعبیر کی کوشش کر رہے تھے-بہت بعد میں جا کر میں اور ہما اس رمز سے آشنا ہوسکے جو تاریخ میں مذہب کے ساتھ کہیں جڑ جاتی ہے اور اس سے ہم الگ نہیں ہو پاتے-میں آج جب یہ سطریں لکھ رہا تھا تو میری نظر اپنے دائیں ہاتھ کی انگلی میں پڑی انگوٹھی پر پر -اور کلائی پر بندھے ہوئے ایک کلپ پر-انگھوٹھی ملک شام سے بیبی زینب کے مزار سے آئی ہے-اور کلپ میں جڑا عقیق اس پر لکھا ہوا ہے یا علیمدد -یہ کبھی مجھ سے الگ نہیں ہوتے-بس یہہ وہ کہانی ہے-جو آج تک میری سمجھ میں نہیں آئی-یہ گھر نا جانے کب تک یونہی قائم رہے گا-
No comments:
Post a Comment