سائے (افسانہ )
عامر حسینی
ایک بوڑھی عورت اپنے ایک جوان بیٹے کو بازو سے پکڑے ڈاکٹر طارق کے کلینک میں داخل ہوئی تھی-اس کے چہرے پر جھریاں تھیں اور ہاتھوں کی جلد بہت سخت لگتی تھی-یوں لگتا تھا کہ جیسے عورت بہت محنت والا کام کرتی رہی ہو-اس کے کپڑے بھی معمولی تھے-لیکن اس نے جس نوجوان بیٹے کا بازو پکڑ رکھا تھا وہ جدید لباس میں تھا-ڈینم کی پینٹ اور شرٹ میں ملبوس تھا جو اس کے گورے چٹے رنگ پر خوب چچ رہی تھی-اس کی شیو بڑھی ہوئی تھی-آنکھیں سوئی سوئی تھیں اور ایسے لگتا تھا جیسے وہ عمل تنویم کے زیر اثر ہو یا نیند میں چل رہا ہو-کہیں بہت دور دیکھتا ہوا وہ ماں کے ساتھ چلا آرہا تھا-کلینک میں اس وقت کوئی اور مریض نہیں تھا-انتظار گاہ خالی تھی-بوڑھی عورت نے نوجوان کو ایک بنچ پر بٹھایا اور خود ریسپشن پر چلی گئی -جہاں پر ایک نازک اندام سی خوبصورت لڑکی استفسار بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی-بوڑھی عورت نے پوچھا ڈاکٹر صاحب ہیں؟لڑکی نے کہا جی .....تو بوڑھی عورت نے کہا وہ اپنے بیٹے کو چیک کرانا چاہتی ہے-لڑکی نے انٹرکام اٹھایا اور دوسری طرف ڈاکٹر سے بات کی -پھر بوڑھی عورت کو کہا کہ وہ سامنے کمرے میں جاسکتی ہے-
بوڑھی عورت نے اپنے بنچ پر بیٹھے بیٹے کو جا کر ہاتھ پکڑ کر اٹھایا اور کہا !چل پتر ناصر تینوں ڈاکٹر سددا اے -اس نوجوان نے کوئی رد عمل نہیں دیا اور اٹھ کر چل دیا-
دونوں دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوئے-سامنے ایک بڑی سی میز کے پیچھے گھومنے والی کرسی کے پیچھے ایک آدمی بیٹھا تھا-یہ ڈاکٹر طارق تھے-جو نفسیاتی اور اعصابی کمزوری کا علاج کرنے میں شہرت رکھتے تھے-
ڈاکٹر طارق نے ان دونوں کو بیٹھنے کو کہا -پھر انھوں نے سوالیہ نظروں سے بوڑھی عورت کو دیکھتے ہوئے کہا کہ کیا معاملہ ہے- عورت گویا ہوئی-
"یہ میرا بیٹا ناصر ہے-بھلا چنگا سی-میں نے اینوں اپنا پیٹ کاٹ کے پڑھایا -ایس نے چنگی پوزیشن نال یونیورسٹی دی ڈگری حاصل کیتی-مینوں اے یقین سی ہیگا کہ اے کہ ہن اینوں چنگی نوکری مل سی تے میرے دلدر دور ہو جان گے "- مگر نجانے اینوں کیہ ہویا کہ ہن اے اکھ د اے کہ اینوں ہر پاسے سائے نظر آندے نے ،ڈاکٹر صیب ایداکج کرو جی "
یہ کچھ کہہ کر وہ بوڑھی عورت خاموش ہوگئی-ڈاکٹر نے یہ سب سنکر ناصر کی طرف دیکھا جو اس دوران خاموش بیٹھا تھا اور کچھ بھی نہیں بول رہا تھا-ڈاکٹر طارق نے بوڑھی اماں کو بھر جاکر بیٹھنے کو کہا-بوڑھی ماں اٹھ کر چلی گئی-ڈاکٹر نے ناصر کو مخاطب کیا تو اس نے بہت زیادہ خالی خالی نظروں سے اس کی طرف دیکھا-ڈاکٹر نے اس کو سٹریچر پر لیٹنے کو کہا-وہ خاموشی سے سٹریچر پر لیٹ گیا-ڈاکٹر نے اس کا تفصیلی معائنہ کیا اور اس کی نبض وغیرہ کی رفتار اور آنکھوں کی حالت سے اندازہ کیا کہ ناصر بیرامی کا شکار ہے اور اس کو ایک بھرپور قسم کی نیند اور ریسٹ کی ضرورت ہے-اس دوران جب ڈاکٹر نے ناصر سے پوچھا کہ اس کو کیا محسوس ہوتا ہے تو اس نے کہا کہ آپ ڈاکٹر ہیں؟لیکن آپ کی شکل مجھ کو نظر کیوں نہیں آتی؟مجھے تو بس ایک دھند ہے جو ہر طرف پھیلی ہوئی ہے جو نظر آتی ہے اور اس دھند میں بہت کوشش کے بعد چند سائے ہیں جو حرکت کرتے نظر آتے ہیں-مجھے تو انسانوں کی تلاش ہے مگر جہاں جاتا ہوں سائے ہیں اور سے بھی ایسے کہ ان کہ نوکیلے دانت تو نظر آتے ہیں جن سے خون رستا ہے مگر ان کی شکل غائب ہے-مجھے تو یہاں کوئی بندہ بشر نظر نہیں آتا-ڈاکٹر طارق نے پوچھا کہ اس کی ماں کا اس کو پتہ ہے-ناصر فوری طور پر بولا میری ماں مجھے بھلا کیسے بھول سکتی ہے مگر وہ کہاں ہے مجھے آج تک اس کا پتہ نہیں چل سکا-تو تمھیں یہاں کون لیکر آیا ہے-ڈاکٹر نے پوچھا -ناصر بولا کون اور کہاں مجھے لایا گیا میں تو یہیں ہوں جہاں تھا-ڈاکٹر نے پیڈ کھولا اس میں چند دوائیاں لکھ ڈالیں اور بوڑھی ماں کو بلایا اس کو پرچہ تھمایا -س کو کہا کہ میں نے اس کو چند دوائیں لکھ دی ہیں جو اس کوکھلاو یہ ٹھیک ہوجائے گا-بوڑھی عورت ناصر کا ہاتھ پکڑے کلینک سے باہر آگئی-گھر آکر اس نے ناصر کو وہ دوا کھلانا شروع کر دی-اس کو کھاکر ناصر نے زیادہ سونا شروع کر دیا-چند دن کے بعد ایک صبح جب ناصر سو کر اٹھا تو سارا منظر صاف تھا اور اس کو اپنے کمرے کی ہر ایک چیز صاف صاف نظر آرہی تھی-اس نے واش روم کا رخ کیا اور بیسن میں لگے شیشے میں جب اپنا عکس دیکھا تو اس کو اپنی شکل اجنبی سی لگی-شیو بڑھی ہوئی تھی-اور چہرہ بہت زیادہ مرجھایا ہوا تھا-وہ کمرے سے باہر نکلا تو سامنے صحن میں ایک طرف اس کی ماں ایک چوکی پر بیٹھی سبزی کاٹ رہی تھی-وہ تیزی سے ماں کی طرف بڑھا اور ب اس نے اپنی ماں کو پکارا تو اس کی من خوشی سے پاگل سی ہوگئی-اس کو لپٹا لیا اور خوب زور زور سے بھینچا اور ماتھے کے بوسے لئے-
ناصر حیران تھا کہ اس کی ماں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ اس طرح کر رہی ہے-جب اس نے ماں کو کہا کہ وہ ٹھیک ہے اور وہ ایسا کیوں کر رہی ہے تو ایک لمحے کے لئے اس کی ماں خاموش ہوگئی اور پھر اس کو کہا کہ پتر کج نہیں میں تو بس ایسے ہی تم پر پیار آرہا تھا تو بس تمھیں چومنے لگی-ناصر نے یہ جواب سنا تو نجانے کیوں اس کو لگا کہ اس کی ماں اس سے کچھ چھپا رہی ہے-مگر وہ خاموشی سے اٹھا اور باتھ روم چلا گیا باہر نکلا تو تازہ تازہ شیو سے اس کا چہرہ چمک رہا تھا-وہ گھر سے باہر نکلا تو محلے کے لوگوں کی نظریں بھی اس کو عجیب عجیب لگیں-وہ ان کو نظر انداز کر کے آگے گیا اور اپنے دوست رحمت کے گھر چلا آیا -اس نے بیل دی تو رحمت باہر نکلا اور اس کو دیکھ کر یکدم حیران ہوا اور بے اختیار اس کو لپٹ گیا-ناصر کو پھر حیرانی ہوئی-اس نے رحمت کو بیٹھک کھولنے کو کہا-رحمت نے بیٹھک کھولی اور جب وہ دونوں صوفے پر بیٹھ گئے تو رحمت سناسر نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟آج جب وہ سوکر اٹھا تھا تو اس کی ماں نے اس کو دیکھ کر عجب طرح سے محبت کا اظہر کیا جیسے وہ کافی دنوں کے بعد ماں کو ملا ہو-اور محلے کے لوگوں کی نظروں میں بھی عجب سا تجسس تھا-اب تم ملے ہو تو تمہارا ملنا بھی ایسا ہے کہ تجسس ظاہر ہوتا ہے-یار اب ماں کی طرح یہ مت کہنا کہ تمھیں مجھ پر پیار آگیا تھا-یہ سنکر رحمت نے کچھ سوچا اور پھر ناصر سے کہا کہ کیا تمھیں کچھ بھی یاد نہیں -ناصر نے کہا کیا یاد نہیں اس پر ناصر ک یہ بات سنکر رحمت نے ایک گہری سانس لی اور کہا کہ یار ناصر تم نوکری کی تلاش کر رہے تھے اور ایک رات مجھ سے مل کر گھر گئے-تم کافی مایوس تھے-تمہارا کہنا تھا کہ یہ سماج تمھیں انسانوں کا سماج نہیں لگتا یہاں تو ڈھونڈے سے بھی انسان نہیں ملتا-تم یہ سب کہہ کر گھر گئے تو اگلے دن تمہاری ماں ہمارے گھر آئی اور کہا کہ ناصر اپنے ہوش میں نہیں لگتا وہ کسی کو نہیں پہچان رہا -مجھے بھی نہیں-کہتا ہے کہ یہ سائے کہاں سے آئے ہیں -اور یہ سیفد دھند کیسی ہے-نوکیلے خوں آلود دانت کس کے ہیں-میں نے بھی تمہاری حالت دیکھی تھی-بہت وحشت زدہ چہرہ تھا تمہارا -خالی آنکھیں تھیں اور بس کچھ بھی تو شناسائی نہیں جھلکتی تھی ان آنکھوں سے-بہت دکھی تھے سب تمہاری حالت پر-پھر تمری ماں تمھیں ڈاکٹر طارق کے ہاں لیکر گئی تھیں اور وہاں تمہارا علاج ہوا تھا-اب تمھیں دیکھ کر بہت خوشی ہورہی تھی-ناصر نے یہ سب حیرانی سے سنا-اس کو یاد آگیا کہ کس قدر دباؤ میں تھا وہ-اس نے بہت کوشش کی تھی کہ کسی سفارش اور کسی بھی رشوت کے بغیر نوکری مل جائے-مگر اس کو یہ سرخاب کا پر کہیں نہیں ملا-اس دوران بہت ہاتھ پیر مار کر اس کو ایک اخبار میں نوکری مل گئی-اس کی کرائم کی بیٹ مل گئی-اس دوران بھی اس کو بہت تلخ تجربات ہوئے-بہت سارے معزز لوگوں کے اجلے کپڑوں کے نیچے متعفن اور غلیظ بدن عریاں ہوگئے-اس کا دم گھوٹنے لگا تھا-وہ آدمی کو آدمیت کے لبادے میں دیکھنے کو ترس گیا تھا-بھوکے بھیڑیے اس کو چاروں طرف نظر آنے لگے تھے-اس کو وہ رات بھی یاد آئی جس رات وہ رحمت کے گھر گیا تھا اور وہاں سے سخت مایوسی کے عالم میں لوٹا تھا-اس رات اس کو یاد آیا کہ اس نے پاؤلو کوہلو کا ناول "ویرونیکا مرنے کا فیصلہ کرتی ہے "پڑھا تھا-اس نے اس ناول میں پڑھا تھا کہ ویرونیکا نام کی ایک لڑکی محبت میں ناکامی کے بعد خود کشی کی کوشش کرتی ہے مگر ناکام رہتی ہے اور اس کو پاگل خانے میں داخل کرا دیا جاتا ہے-اس کو وہا پاتا چلتا ہے کہ اس سماج کے بہترین لوگ پاگل خانے میں بند ہیں اور بدترین لوگ باہر سماج میں آزادانہ گھومتے پھرتے ہیں-اس کو بس اتنا یاد آیا کہ یہ ناول پڑھتے ہوئے اس پر اچانک ایک سیفد دھند سی چھانے لگی اور اس دھند نے آہستہ آہستہ سب کو اپنی گرفت میں لے لیا-اور اس کے بعد اس کو لگا کہ ہر شے معدوم ہوچکی ہے-اس کے بعد کیا ہوا تھا اس کو یاد نہیں -
No comments:
Post a Comment