Friday 9 December 2011

فرشتہ

فرشتہ
وہ نو محرم کی رات تھی جب اس کو درد زہ کی تکلیف شروع ہوئی تھی-یہ بہت تیز درد تھا-وہ بہت خوفزدہ تھی -حالنکہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا-لکین اس مرتبہ اس کو بہت خوف تھا-پچھلی مرتبہ جب وہ اس درد سے گزر رہی تھی اور نئے مہمان کے آنے کا وقت ہوا تھا تو مستجاب حیدر حسب روایت گھر کیا شہر میں نہیں تھے-وہ اکتوبر کا مہینہ تھا-اور ڈاکٹر نجیب کی برسی ان پہنچی تھی-مستجاب کو ان کے دوستوں نے افغانستان میں آنے کی دعوت دے ڈالی تھی-وہاں پر مستجاب کے کافی دوست آنے والے تھے-پرانے پرچمی اور خلقی جو کبھی سرخ انقلاب کے حامی تھے-اب یورپ اور امریکہ جا بسے تھے-وہ بھی نجیب کی برسی میں آ رہے تھے-ان سے ملے مستجاب کو عرصۂ ہو گیا تھا-وہ اس حالت میں نہ ہوتی تو مستجاب کے ساتھ ضرور جاتی -کیونکہ اس کے بہت سے دوست روس ،چیک اور پولینڈ سے آرہے تھے-یہ سب اس کے وہ دوست تھے -جو اس کو ماسکو میں تعلیم کے زمانے میں ملے تھے-
ماسکو جانے کی کہانی بھی بہت عجیب تھی-وہ اور مستجاب کراچی یونیورسٹی سے ماسٹرز کر کے فارغ ہوئے تھے-کہ دونوں کی شادی کردی گئی-اور مستجاب نے چپکے سے اپنے اور اس کے کاغذات ماسکو بھیجے -وہاں سے دونوں کا سکالرشپ ویزہ آگیا-جب کہ ان کی شادی کو ایک سال بھی نہیں ہوا تھا-دونوں ماسکو کی سرد ماحول میں چلے گئے لکین یہاں ان کے دوستوں نے ان کو سرد نہیں ہونے دیا-ماسکو سے آنے کے بعد ایک عرصۂ تک ان کی کسی سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی-سو جب مستجاب نے اس کو بتایا کہ وہ کابل جا رہا ہے جہاں نتاشا اور کروپسکایا ،میخوف بھی آ رہے ہیں-تو اس کو اپنی تکلیف کی وجہ سے وہاں نہ جانا برا لگا تھا-
وہ ١٨ اکتوبر کی رات تھی جب اس کو مستجاب کے بغیر اس درد سے گزرنا پڑا تھا-جس کے بارے میں اس نے سنا تھا کہ وہ جان نکال لیتا ہے-اس کو جب ڈاکٹر نے نشہ دیا تو وہ حالت مدہوشی میں بھی مستجاب کو پکار رہی تھی-اور بعد میں ہسپتال کی ایک نرس نے بتایا تھا کہ آپریشن کے دوران اس نے اس کا ہاتھ سختی سے پکڑ لیا تھا اور وہ مستجاب مستجاب پکار رہی تھی-ڈاکٹر بھی تھوڑا سا گھبرا گئے تھے-اورانہوں نے مستجاب کو بلانے کا کہا تھا-جب ان کو پتہ چلا کہ مستجاب ملک میں نہیں ہی تو وہ خاصے حیران ہوئے تھے-مستجاب اس کے بعد ایک مرتبہ جب اس کا چیک اپ کرانے اس لیڈی ڈاکٹر کے پاس گئے-تیس نے مستجاب کو دیکھ کر انہیں کافی کھڑی کھڑی سنائی تھیں-اور مستجاب جن کو اپنی سخن وری پر ناز تھا -بہت بوکھلائے ہوئے نظر آئے تھے-
اس مرتبہ وہ جیسے کہیں جانا بھول گئے تھے-وہ مسلسل تین ماہ ہوگئے تھے -شہر سے باہر نہیں گئے تھے-اور ان کی ہر شام اور رات گھر پر گزرتی تھی-وہ ان کی اس پابندی پر حیران تھی-اور وہ اسے بہت کم کوئی کام کرنے دیتے تھے-پھر جب آخری ماہ آیا تو وہ ساری ساری رات جاگ جڑ گزرتے تھے-تھوڑی سی تکلیف پرتھ جاتے-اور ہر ممکن طریقہ سے اس کا خیال رکھتے تھے-لکین اس کے اندر نجانے کہاں سے کوئی

خوف آ کر بیٹھ گیا تھا-وہ بہت کوشش کر کے بھی اپنے آپ کو سنبھال نہیں پاتی تھی-اس نے اپنے بہت سارے ڈر مستجاب سے چھپا رکھے تھے-لکین مستجاب کو نجانے کیسے پتہ چل جاتا تھا-رات کو ووہکرسی پر بیٹھے بظاہر کسی کتاب میں گم ہوتے تھے-اور وہ بعید پر لیتی آنکھیں بند کر کے یوں ظاہر کرتی تھی کہ سو رہی ہے-مستجاب اچانک کتاب پر سے نظریں ہٹا کر اس سے مخاطب ہوتے اور کہتے کہ "بتول کیا سوچ رہی ہو،"وہ ہڑبڑا جاتی اور کہتی کچھ بھی تو نہیں"مستجاب اس پر ہنس پڑتے اور کہتے کہ مولا کی بیٹی جھوٹ بولتی اچھی تو نہیں لگتی-اور ہاں تم سے کہا ہے کہ اندیشہ ہائے دور دراز سے خود کو ہلکان مت کیا کرو-
وہ مستجاب کی یہ بات سن کر حیران ہو جاتی کہ کیسے کتاب میں مگن ہونے کے باوجود وہ اس کی حالت جن جاتے تھے-وہ ان کے سامنے کوئی بات بھی سوچتے ہوئے ڈرتی تھی کہ ان کو پتہ چل جائے گا -
مستجاب کی شخصیت اس کو ہمیشہ سے بہت عجیب لگتی تھی-وہ اپنے چہرے کے تاثرات کے اعتبار سے کبھی ایسے نہیں لگتے تھے کہ ان کی شخصیت میں جذبات کوئی اہمیت رکھتے ہونگے-سخت اور سیاسی قسم کے ثقیل مضامین لکھنے یا پھر فلسفیانہ مباحث پر تحریروں کو دیکھ کر ہر کوئی یہ تاثر پکڑتا تھا کہ موصوف دل کے خانے میں کوئی پتھر ہی رکھتے ہوں گے-لکین ان کے اندرکے آدمی سے اس کی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ بہت بیمار ہوئی -یا کسی صدمہ سے اس کو گزرنا پڑا -عامحالات میں بھی وہ بہت خاموشی سے اپنے درد مند ہونے کا احساس دلاتے تھے-اور کبھی اس کا اعلان نہیں کرتے تھے-
اس مرتبہ وہ بہت زیادہ بدلے ہوئے نظر آئے-وہ کچھ دنوں کے لئے اسلام آباد گئے تھے-واپس آئے تو بہت بدلے ہوئے سے لگے تھے-مستجاب سے ان کی جو شکایتیں تھیں وہ ایک طرح سے ختم ہی ہو گئیں تھیں-مستجاب کو اہنوں نے زیادہ سگریٹ پینے سے روکا تو وہ رک گئے-اپنی صحت کا خیال رکھنے کو کہا تو وہ بات بھی مان لی-ان کو مستجاب میں یہ تبدیلی بہت عجیب لگی تھی-پھر ایک دن وہ بہت حیران ہوئی جب ان کو فون آیا کہ اسلام آباد میں ان کو وزیر آزم سے ملاقات کرنی ہے -لکین انھوں نے دوسری طرف بات کرنے والے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ کہ گھر میں ان مصروفیت ہے تو وہ نہیں آ سکتے-
دسمبر میں جب عاشور کا آغاز ہوا تو انھوں نے دیکھا کہ پہلی مرتبہ اتنے سالوں میں وہ عاشور میں رات کو مجلس سننے بھی جاتے رہے-یہ بہت عجیب سی تبدیلی تھی-کیونکہ ہر محرم ک آغاز پر بتول ان کو کہتی کہ مجلس سسنے چلیں یا امام بارگاہ چلنے کو کہتی تو وہ سختی سے انکار کر دیتے تھے-ایک دو مرتبہ بتول نے ان کو کہا تو اس کے بعد نہیں کہا-بتول اس وقت بہت حیران ہوئی تھی -جب وہ زیارات پر گئی تھی-اور واپس آکر انھوں نے مشہد سے امام علی رضا کے مزار سے لیا ہوا ایک نگ دوری میں پرو کر ان کی دائیں کلائی پر باندھا تو انھوں نے چھپ چاپ بندھوا لیا تھا-ورنہ ان کو یاد تھا کہ وہ جب کراچی سے ماسکو کے لئے روانہ ہوئے تھے تو ان کی اماں نے ان کو امام ضامن باندھنا چاہا تھا تو انھوں نے انکار کر دیا تھا -تو اس پر وہ بولی تھیں کہ بیٹا تو تو اپنے کیمونسٹ دادا سے بھی دو ہاتھ آگے ہے-وہ کم از کم ایسا تو نہیں کرتے تھے-تو تب جا کر وہ امام ضامن بندھوانے پر راضی ہوئے تھے-لکین اب تو چپ چاپ وہ یہ سب ہوتا دیکھ رہے تھے-اسی طرح ایک مرتبہ انھوں نے پہلی مرتبہ ان کے دائیں ہاتھ ہی دوسری انگلی میں ایک انگوٹھی daikhi -تو انھوں نے پوچھا یہ کہاںسے آئی-تو کہنے لگے ایک دوست شام گئی تھیں-اہنوں نے یہ بی بی زینب کے مزار سے میرے لئے لے لی تھی-تو میں نے پہن لی-اس مرتبہ وہ وہ عشرہ محرم میں پوری طرح سے شریک ہوئے-
نو محرم کی رات وہ ہسپتال داخل ہوگئیں تھیں-وہ رات سے وہیں اس کے پاس تھے-لکین فجر کی اذان سے پہلے یہ کہ کر نکل گئے کہ قاسم کی اذان کی آواز کانوں میں تبھی گونجے کی جب امام کی بارگاہ میں ہوں گا-اور بتول شانت رہنا -گھبرانا نہیں -جلوس معینجاؤں گا -عزاداران حسین کا ساتھ دینا بہت ضروری ہے-یہ کہ کر چلے گئے-دوپہر گزر گئی-اور اس کو آپریشن تھیٹر میں جب لیجایا جا رہا تھا تو مستجاب کا فون آگیا -کہا بتول گھبرانا مت -شہادت امام کے وقت تم عمل تخلیق سے گزرنے جا رہی ہو-بہت مبارک گھڑی ہے-مولا کرم کریں گے-اس کو ذرا دیر پہلے جو خوف تھا اور ڈر تھا-وہ سب دور ہوگیا -اس کو آپریشن تھیٹر جاتے ہوئے اپنے دادا کی بات یاد آئی جو کوئی بھی بات کہتے تو یہ ضرور کہتے تھے کہ مولا تجھ کو کوئی دکھ نہ دے سوائے غم حسین کے-بس جب آج کے دن کے بارے میں سوچا تو ایک ایک کر کے ساری تصویریں سامنے آنے لگیں-اور ایک عجب سی کیفیت طاری ہوئی اور وہ اپنی تکلیف بھول گئی-اپپریشن تھیٹر میں جب ڈاکٹر نے اس کو بیہوش کیا تو بیہوشی میں ادراک کا جو در وا ہوا وہ بھی بہت عجیب تھا-اس نے خود کو ایک حسین جمیل باغ میں پایا -جہاں ہر طیف گلاب کے پھولوں کی کیاریاں لگی تھیں-پیپل کے درخت تھے-اور درمیان میں ایک فوارہ تھا-جس سے رنگ برنگا پانی نکل رہا تھا-وہ اکیلی تھی-اچانک کہیں سے ایک سیاہ پوش عورت نمودار ہوئی -اس نے بتول کا ماتھا چوما -اور پھر اس کو ایک گلاب کا پھول دیا -اور کہا خوش قسمت ہو کہ عاشور حسین تمھاری قسمت میں لکھا گیا-وہ یہ خواب دہکتی رہی جوبیس کو ہوش آیا تو لیڈی ڈاکٹر نے اس کو مابرک بعد دی اور کہا کہ تمھارے بیٹا ہوا ہے-اس کو اپنا خواب یاد آیا-
ادھر مستجاب عزداران کے ساتھ جلوس میں تھا کہ اس کو فون پر بیٹے کے پیدا ہونے کی خبر ملی -اس نے فون پر بتول سے بات کی -اور کہا بتول ہم اس ننھے فرشتہ کا نام عاشور حسین رکھیں گے-بتول حیراںره گئی-اس نے مستجاب کو اپنا خواب سنایا -تو مستجاب نے ہنس کر اسے اس کے تخیل کی پرواز قرار دیا-اور بتول کو کہنے لگا آج جب وہ جلوس میں آیا توبہت سے لوگ اسے دیکھ کر کہنے لگے کافر سید مسلمان ہوگیا ہے-اور وہ یہ سن کر مسکراتا رہا-

No comments:

Post a Comment