Monday 12 December 2011

کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

کبھی کبھی آپ کو بہت مشکل ہوتی ہے کہ اپنا حال کسی کو بتا پائیں-اور شائد اسی مشکل کو دیکھتے ہوئے استعارہ اور مجاز کا سہارہ لیا جاتا ہے-کسی کی بات کر کے اپنی بات کہنے کی کوشش کی جاتی ہے-اور پھر کبھی تو یوں بھی ہوتا ہے کہ آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی کیفیت کے بیان کے لئے آپ کے الفاظ آپ کو کافی نہیں ہیں-اور یہ الفاظ اس کیفیت کو تصویر نہیں کر پا رہے -تو آپ پر بےبسی کی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے-آپ کا دل کرتا ہے کہ آپ دل کھول کر رکھ دین لکین دل کھول کر رکھا نہیں جاتا -اور یہ عجب بات ہے کہ جب ایسی کیفیت کا آپ شکار ہوتے ہیں تو پھر مجلس اور ہنگامے آپ کو پسند نہیں آتے اور آپ ویرانوں کی تلاش کرتے ہیں-اور یہ کتنی عجب بات ہے کہ جن باتوں کو آپ فساد خلق کے سبب سے مجلس میں نہیں کہ پاتے ان کو آسانی کے ساتھ آپ ویرانوں کو سنا ڈالتے ہیں-کہا جاتا ہے کہ امام علی اپنے دل کی باتیں ایک کنوئیں کو سنا ڈالتے تھے-اور یہ تو بڑے لوگ تھے -ان کی باتیں بھی بہت بڑی تھیں-میرے جیسے لوگوں کے پاس تو کہنے کو بھی بس چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں-میں وہ بھی نہیں کہ پاتا-اور اب تو شہر اتنے گنجان آباد ہوگئے ہیں کہ ویران جگہوں کی تلاش بھی ایک مسلہ بن جاتی ہے-

کبھی کبھی یوں ہوتا ہے کہ کوئی اپنے حالت میں گرفتار ہوتا ہے اور آپ اپنی تو دونوں میں کوئی کیمونیکیشن گیپ آجاتا ہے-اور کوئی ایک اس کو تجاہل عارفانہ سے تعبیر کرنے لگتا ہے-اور اس پر وہ حالات سے،اپنے آپ سے اور اس سے شکوہ کناں بھی ہو جاتا ہے-ایسے میں جو کیفیت ہوتی ہے وہ بیان سے باہر ہوتی ہے-اب اس کا کیا کیا جائے کہ ہم انسان ایک ہونے کی بہت کوشش کرتے ہیں لکین یہ جو حالات ہوتے ہیں یہ ہمیں الگ الگ ہونے کا احساس کراتے ہی چلے جاتے ہیں-ہم نے الفاظ اور احساسات کی جادوگری سے ایک طلسم خانہ ایسا ضرور بنا لیا ہے جو ہمیں ایک ہونے کا احساس دلاتا ہے لکین نجانے کیوں پھر کہیں الگ ہونے اور تنہا ہونے کا احساس مارے دیتا ہے-ابھی زیادہ دن نہیں گزرے مجھ سے میرے ایک غم خوار کہنے لگے کہ ہم اپنی مرضی سے زندگی گزارنا چاہتے ہیں لکین گزار نہیں پاتے -اور جب بھی ہمیں کوئی قربانی دینے کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے تو ہم اکثر روایتی انسان ثابت ہوتے ہیں-رسموں میں جکڑے جاتے ہیں-اور بہت سی زنجیریں ہوتی ہیں جو ہمارے آڑے آجاتی ہیں-اور ہم ان سے نکل نہیں پاتے-میں ان صاحب کو جانتا ہوں-وہ میری زندگی میں بہت سی تبدلیوں کا سبب بھی بنے این-لکین آج کل عجیب سے گلٹ میں مبتلا ہیں-اور خود کو نجانے کیوں ایسے جرموں کا مرتکب خیال کرتے ہیں جو انھوں نے کبھی کیے ہی نہیں ہیں-ان کی کیفیت کو میں سمجھ رہا ہوں اور وہ تو ظاہر ہے سمجھتے ہی ہیں لکین الفاظ کا دامن ان کے اظہار کو تنگ پڑ رہا ہے-ہم میں سے ہر ایک آزادی کا طالب بھی ہے اور کسی سے وابستہ اور کسی کے نام اپنی زندگی لگانا بھی چاہتا ہے-اور زندگی پہلے سے جن رشتوں اور ناتوں سے جڑ چکی ہے ان کو زنجیریں بھی خیال کرتا ہے-اور کبھی کبھی تو یہ دریچوں میں گڑی صلیبیں لگنے لگتی ہیں-کسی کی یاد دل کو جکڑے ہوتی ہے اور کسی کو اس سے دکھ پہنچنے کا اندیشہ اس یاد کو پھیلانے اور بر سرعام اس کا اظہار کرنے سے روکتا بھی ہے-ہے نا عجب تضاد سے بھری حالت -اسی حالت کے پیش نظر تو ویرانوں کا رخ کیا جاتا تھا-میں اکثر سوچتا تھا کہ خواجہ فرید سائیں روہی میں کیوں جا کر رہے تھے-ان کو روہی کے کنڈے ،توبے ،جھاڑیاں اور ون اور اونٹ کیوں پسند آئے تھے-اور ان میں حسن ازل کی جھلک کیوں نظر آئی تھی-یہ جو ملتان میں کسی سے عشق ہوا اور اس کی آگ روہی میں دہکتی رہی -وہاں اپنا رنگ دکھاتی رہی -اس کی کچھ کچھ سمجھ مجھے اب آتی ہے-

آج عجب سے بیچینی ہے-اور بیقراری بھی -لکین اس کو کیا نام دوں کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا-بہت دیر سے بہت سی چیزوں سے دل کو بہلانے کی کوشش کی لکین نہیں بہلا پایا -جانے وہ کون سی چیز ہے جس کے سبب آج دل میں کچھ درد سوا ہوتا ہے-لکین غالب ککی طرح کوئی تلخ نوائی مجھے نہیں کرنی ہے-ہاں بس کسی کمی کا احساس آج بہت شدت سے ہو رہا ہے-کوئی یاد آرہا ہے-کون؟کچھ کہ نہیں سکتا-کسی کو بلانے کو من کرتا ہے -کیسے ؟کچھ پتہ نہیں -کسی کے ساتھ ہونے کی خواہش ہے-کس کے؟یہ بھی تو نہیں معلوم--آپ اس کو تجاہل عارفانہ کہ سکتے ہیں لکین بس حالت کچھ ایسی ہی ہے-اتنی بےبسی تو کبھی دیکھی نہیں تھی-ایسا کیوں ہے کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے-اور آج تو یادیں اور علامتیں بھی دکھ کشدت کو کم نہیں کر پا رہیں-کیا کیا جائے-کوئی اپنی بیماری کو موسم کی تبدیلی کہ کر اصل بات چھپانا چاہئے تو بہت ہی تکلیف ہونے لگتی ہے-اصل معاملہ سمجھ کر-یہ دوری پاگل کر دیتی ہے-ہاں کر تو دیتی ہے-اور لفظوں پر ارتکاز بھی ختم ہونے لگتا ہے-آپ کو دوری عذاب لگتی ہے-لکین کبھی رواج اور کبھی طبقہ آڑے آجاتا ہے-اور کبھی وہ تعلقات جو آپ کے پیروں میں زنجیریں ڈالے ہوتے ہیں-یہ پاگل پن بھی عجیب سا پاگل پن ہوتا ہے-اس میں آپ سب کو اپنے ہوش حواس میں لگتے ہیں-اور آپ کو بھی اپنے ہونے کا احساس ہوتا ہے-اسی لئے خود فراموشی کی وہ منزل آپ کا مقدر نہیں بن آتی جہاں آپ ہر احساس سے بیگانہ ہو کر سب چیزیں فراموش کر ڈالتے ہو-مجھے تو پاگل بھی بھی ان فرزانگی میں دیوانگی رکھنے والوں سے بہتر لگتے ہیں-اور مجھے ان کا پاگل ن ایک انعام لگنے لگتا ہے-کاش یہ پاگل پن ہمارے حصہ میں آجاتا اور ہم اس عذاب سے بچ جاتے جس سے گزر رہے ہیں-

نہ نیند چینا.....نہ آپ آویں...نہ بھیجیں پتیاں

سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں

اندھیری رتیاں

No comments:

Post a Comment