Saturday 4 February 2012

مجھے معاف کردینا (افسانہ) تحریر :عامرحسینی

غزالہ کا جنم ایک متوسط طبقے کے گھرانے میں ہوا تھا-اور وہ ایک پسماندہ علاقے میں پیدا ہوئی تھی-جہاں لڑکیوں کو بس دسویں تک تعلیم دلائے جانے کے بعد گھر بیٹھا لیا جاتا تھا اور پھر کوئی اچھا سا بر دیکھ کر اس کی شادی کر دی جاتی تھی-ایک تو وہ پسماندہ علاقے میں جنم پذیر ہوئی -دوسرا پھر وہ سید گھرانے کی بیٹی تھی-اس لئے جب وہ پانچویں کلاس میں پڑھتی تھی تو اس کو حجاب لینا پڑا-آج وہ سوچتی ہے تو اسے بہت عجیب لگتا ہے اتنی چھوٹی سی عمر میں مکمل لپٹے لپٹائے ہوکر گھر سے باہر نکلنا اور اسکول جانا-اس کے والد سید مستجاب حیدر بری فوج سے ریٹائر ہوچکے تھے لیکین وہ خود کو ابھی تک فوجی ان سروس خیال کرتے تھے-اس کی والدہ سیدہ خاتون بیگم پیشہ کے اعتبار سے استانی تھیں-اور ان میں سخت گیر استانیوں والی ساری عادتیں پائی جاتی تھیں-غزالہ نے میٹرک کیا تو کالج جانے پر اصرار کیا -اس کے والد اور بھائی اس کے کالج جانے کی مخالفت کرنے لگے-اس نے بہت زد کی تو ہتھیار دل دیے گئے لیکن باپور والد بلا ناغہ اس کو علاقے میں قائم ایک انٹر کالج تک چھوڑنے آیا کرتے تھے-وہاں اکثر لڑکیاں ایک عدد پہرے دار اور نگہبان کے ساتھ آتی تھیں-لیکن وہ واحد لڑکی تھی جو دو دو پہرے داروں کی نگرانی میں کالج آتی اور جاتی تھی-سر سے پیر تک ایک حجاب ہوتا ،ہاتھوں میں دستانے اور آنکھوں پر بلیک عدسوں کی عینک -گویا سر تا پیر تک اس کو اپنا آپ چھپانا پڑتا تھا-سردیوں میں تو یہ چل جاتا تھا لیکن گرمیوں میں اس کو اپنا سانس بند ہوتا ہوا محسوںس ہوتا تھا-دونوں پہریدار بہت عجیب تھے-کالج سے آتے ہوئے اور کالج جاتے ہوئے ان کے چہروں پر عجیب سے سختی جھلکتی تھی-بہت زیادہ سنجیدہ ہوتے-اس پاس وحشت سے دیکھتے ہوئے چلتے-اس کو بات کرنے کی تو کیا زور سے سانس لینے یا کھانسنے کی اجازت نہیں تھی-اس کو کہا جاتا نظریں نیچی رکھے اور چلتی چلی جائے-شروع میں تو بہت تکلیفیں اٹھانی پڑیں -اکثر اس کو ٹھوکر لگ جاتی اور وہ اپنی آواز بھی نکلنے نہیں دے دیتی تھی-جب تک گھر نہ آجاتا دونوں پہریداروں کا منہ سختی سے بند ہوجاتا تھا-پھر گھر آکر اس کو لگتا کہ باہر جو ابا اور بھائی تھے وہ کوئی اور تھے-یہ جو اندر گھر میں ہیں کوئی اور ہیں-پہلے فل اس کو اپنے ابا اور بھائی کی گھمبیرتا اور وحشت سے الجھن ہوتی بعد میں وہ ان کی وحشت اور الجھن سے لطف اٹھانے لگی تھی -اس کو بہت ہنسی آتی جب رستے میں ابا کا کوئی جانکر مل جاتا اور وہ ابا کو سلام کرتا اور ابا اس کو بہت تیزی سے اور عجیب سا منہ بنا کر جواب دیتے -وہ اپنی دبی دبی ہنسی کو آواز بننے سے روکنے میں مشکل سے کامیاب ہوتی تھی-یہ سلسلہ چلتا رہا-دو دو پہریداروں کو دیکھ کر نوجوان لڑکے اس صدور دور رہتے تھے-لیکن ان میں سے اکثر نظروں ہی نظروں میں پیغام رسانی کرتے اور ابا کی خوفناک نظروں کو دیکھ کر ان لڑکوں کے چہرے پر جو تاثر پیدا ہوتا -اس کی مضحکہ خیزی کو دیکھ کر اسے خوب ہنسی آتی اور مزہ بھی آتا تھا-ابا گھر آکر ماحول کے خراب ہونے کا تذکرہ کرتے اور اپنے زمانے کی سادگی کے گن گاتے تھے-اس کو کالج کے کتاب خانے سے منٹو اور عصمت چغتائی کی کتابیں پڑھنے کو مل گئیں جو اس نے نصابی کتاب میں چھپا کو گھر آکر پرہیں تو اس کو ابا کی جوانی کے زمانے کے سادہ ہونے کا خوب پتا چلا-اس کا بھائی جو ابا کے سامنے بہت زیادہ شریف بنا رہتا تھا اور اس کے ساتھ جاتا ہوا بہت بہت زیادہ سنجیدہ نظر آتا تھا-اس کو جیسے غزالہ کے کچھ ہونے کا ڈرلگا ہو -اووه رات کو اپنے کمرے میں موبائل فون پر اپنی کسی دوست سے لمبی گھنٹوں باتیں کیا کرتا-ایک مرتبہ وہ رات کو واش روم جانے کے لئے اٹھی تو اس کے کمرے کے پاس سے گزرتے ہوئے اس کے کانوں میں بھائی کی جو باتیں پڑیں تو وہ ان کو سن کر حیران بھی ہوئی اور اس کو خوب ہنسی بھی آئی-غزالہ کو ایک دن اپنے ابا اور امان کی لڑائی کے دوران آوازیں سنائی دین تو غزالہ کو معلوم ہوا کہ امان اس کے ابا کو کہہ رہی تھیں کہ ان کو معلوم ہیکہ تم اس بستی میں غریب بیوہ کو کھانا دینے کے بہانے کیا کرنے جاتے ہو-جوان بیٹی اور بیٹوں کے باپ ہوچکے ہو -لیکن تمہاری رنگینی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے-غزالہ نے یہ سب سنا تو بہت حیران ہوئی-ابا کی سخت مزاجی اس کو بس ایک ڈھونگ لگنے لگی تھی-یا پھر اندر کا کوئی چور تھا جو غزالہ کے اولے سے ان کو خدشات کا شکار رکھتا تھا-غزالہ نے انٹر کرنے کے بعد جب بی اے کرنے کے لئے یونیورسٹی جانے کی خواہش ظاہر کی تو پھر ایک ہنگامہ پبا ہوگیا-اس نے بھی بھوک ہڑتال کر ڈالی -دو دیں تک تو ابا نہ نرم ہوئے-تیسرے دن جب اس کی حالت غیر ہونے لگی تو امان کے دباؤ پر ابا راضی ہوگئے -

غزالہ لاہور چلی آئی-ایک بڑا شہر تھا-اور یونورستے اس کے خیالوں سے بھی زیادہ خوبصورت اور دلچسپ جگہ نکلی-پھر اس کو یونورسٹی کے ہاسٹل میں جگہ نہیں ملی تو ایک نجی ہاسٹل میں کمرہ لینا پڑا-ابا چھوڑ گئے تو پہلے دو تین ہفتوے اس نے حجاب میں یونیورسٹی جانا شروع کیا لیکن پھر اس نے حجاب کو ایک طرف رکھ دیا اور ایک چادر کے ساتھ یونیورسٹی جانا شروع کر دیا-بی اے میں اس نے نفسیات اور عمرانیات کے مضمون رکھ ڈالے-تھوڑا انگریزی ادب کا چسکہ بھی لگا-دیہی ماحول سے شہری اور وہ بھی ایک میٹرو پولٹن شہری کلچر سے اس کا واسطہ پڑا تو اس کو زندگی کے نئے روپ دکھائی دئے-اس کو بہت حیرانگی ہوئی شہری لڑکیوں کے اکثر ابا اور بھائیوں کو دیکھر -ان میں اکثر بہت کھلے دل و دماغ والے تھے-اس کو پتہ چلا کہ ہر ابا مستجاب حیدر نہیں ہوتا-ہر بھائی قدوس حسین نہیں ہوتا-اور ایک اپنی دوست مہرین کے ریٹائرڈ فوجی افسر ابا سے ملی تو اس کو پتہ چلا کہ ہر فوجی افسر اس کے ابا کی طرح دوہری زندگی نہیں گزارتا-وہ بی اے کر گئی-اور ایم اے نفسیات میں بھی اچھے نمبروں سے پاس ہوگی-پھر اس نے ایم فل بھی کرڈالا -اس کے گھر والے اس کو واپس آنے کا کہتے تھے-لیکن اس نے پھر پی ایچ ڈی کرنے کا سوچ لیا-گھر والوں نے خرچہ نہ ہونے کا بہانہ کیا تو اس نے پارٹ ٹائم جاب کر کے اپنا خرچہ نکل لیا-پی ایچ ڈی کرنے کے بعد اس کو ایک یونیورسٹی میں کنٹریکٹ جب مل گئی-یہیں پر اس کی ملاقات جوزف سے ہوئی-جووہاں پر کنٹریکٹ پر امریکہ سے فزکس پڑھنے آیا تھا-دونوں بہت تیزی کے ساتھ ایک دوسرے کے قریب ہوتے گئے-وہ نہیں چاہتی تھی کہ دونوں کے درمیانتبدلی مذھب کا کوئی سوال اٹھے لیکن ایک دن جوزف کو پتہ نہیں کیا ہوا اور اس نے غزالہ کو کہا کہ وہ شیعہ مسلم ہوچکا ہے-اس نے اپنا نیا نام علی اکبر رکھا ہے-اس نے کہا اس نے تو ایسا کچھ بھی نہیں کہا تھا-جوزف جو اب علی اکبر ہوچکا تھا کہنے لگا کہ بس اسے لگا کہ غزالہ سے اپنے تعلق کو مضبوط بنانے کے لئے اس کو یہ کرنا ہوگا-اس کے بعد اس نے غزالہ کو شادی کے لئے کہا-غزالہ نے جب اپنے گھر والوں کو بتایا تو ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا-اس کے والد اور بھائی اور ماموں اس کو گھر لیجانے کے لئے آگئے-غزالہ کو کہا جانے لگا کہ ایک نومسل غیر سید سے اس کی شادی نہیں ہوسکتی-غزالہ نے علی اکبر کی مدد سے انتظامیہ کی مدد لی-اور دونوں کورٹ میرج کا سوچنے لگے-جب اس کے والد نے دیکھا کہ معاملہ نہیں سدھر رہا تو اس نے غزالہ کو کہا کہ ہم تمھیں باعزت طریقے سے رخصت کریں گے-لیکن بعد میں کویتعلق نہیں رکھیں گے-غزالہ راضی ہوگئی اور گھر آئی-اس کے گھر والے اس کی شادی کی تیاری کرنے لگے-فروری کی چودہ تاریخ اس کی رخصتی کادن قرار پاگئی-شادی میں دو دن باقی تھے-وہ گھر میں ہونے والی تیاریاں دیکھ کر اپنے اندیکھے خدشات پر کو وہم سمجھ کر ترک کرچکی تھی-ایک رات کو اس کی ماں اس کے لئے چائے بنا کر لی-بڑا مگ تھا چائے کا-اس کو چائے پیش کی-اس نے امان کو کہا آپ نے کیوں تکلیف کی-ماں کہنے لی دو دن بعد تو چلی جائے گی-میں نے اپنے ارمان پورے کئے ہیں-ماں کے ہاتھ کانپ رہے تھے-اس نے سمجھا کے شائد دکھ اور جذبات کی وجہ سے ایسا ہے-اس نے چائے کا گھونٹ بھرا تو اس کو چائے کا ذائقہ عجیب لگا-اس نے ماں کے جذبات کو دیکھتے ہوئے کچھ اظہار نہ کیا-اور چائے سپ کرنے لگی-آدھ کپ پیا ہوگا کہ اس کو اچانک لگا کہ جیسے اس کا سینہ کوئی تیز چھری سے کاٹ رہا ہے -اس نے سینہ پکڑنے کی کوشش کی-لیکن اس کو لگا کہ اس کے ہاتھ پیر مفلوج ہوتے جاتے ہیں-آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا اس نے دیکھا کہ اس کی ماں کے آنکھوں سے آنسوں نکلے جارہے ہیں-اور وہ مشکل سے اپنی چیخوں کو دبا رہی ہے-بس آخری منظر جو اس نے دیکھا وہ یہ تھا کہ اس کی ماں کے ہاتھ اس کی طرف بڑھ رہے تھے-اور اس کے کانوں میں آواز آرہی تھی-بیٹی مجھے معاف کر دینا -

No comments:

Post a Comment