Tuesday 20 September 2011

تخلیق کا سفر کیسے ہوتا ہے؟

تخلیق کا سفر کیسے ہوتا ہے؟

عامر حسینی
یہ گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھائی کا زمانہ تھا -جب میرے ایک دوست تھے عبد الله -وہ ایک ستلمینٹ کمشنر کے بیٹے تھے-بہت ہی نفیس آدمی تھے-بہت زیادہ کلچرڈ تھے-ایک دن مجھے کہنے لگے -عامر !تم ہر وقت فلسفہ کی ان ہستیوں کو پڑھتے رہتے ہو -جنھوں نے بہت زیادہ ظاہر پر زور دیا ہے-تم کو میں آج ایک ایسے شخص کی کتاب دے رہا ہوں جو تمھیں کچھ دیر کے لئے اس خشک دنیا سے کسی اور دنیا میں لے جائے گی-میں عبد الله کی بات سن کر ہنس پڑا تھا-اس نے ایک کتاب میرے حوالے کی -یہ کتاب برازیل کے معروف لکھاری پاؤلو کوہلو کی گفتگو پر مشتمل کتاب تھی-کتاب کا عنوان تھا جسے میں اردو میں کہوں تو یوں بنے گا "نروان پا گئے ایک آدمی کا اعتراف"اس کتاب میں پاؤلو کی گفتگو کے آغاز میں ہی بہت خوبصورت باتیں تھیں-جیسے اس کے گھر والے اس کو انجینر بنانا چاہتے تھے لکین وہ تو آغاز سے ہی ایک لکھاری بننا چاہتا تھا-اس نے لکھا تھا کہ اسے آغاز سے ہی لویس بورخیس پسند تھا-یہ وہ ادیب تھا جس نے لاطینی امریکہ میں کہانی کو نیا رنگ اور نئے روپ دے تھے-جس کی کہانی نے پہلی مرتبہ پراسراریت اور حقیقت پسندی کو اتنی خوبصورتی سے مکس کیا تھا کہ کسی کو یہ امتزاج برا نہیں لگتا تھا-کہانی میں کب حقیقت سے میجک مل جاتا تھا پتہ ہی نہیں چلتا تھا-پاؤلو بورخیس کو اپنا صنم مانتا تھا-وہ اسے اپنا محبوب کہتا تھا-پھر ایسا ہوا کہ پاؤلو برازیل کے دار الحکومت سین تیاگو سے چل کر ارجنٹائن کے دارلحکومت بیونس آئرس بورخیس کو ملنے گیا -ہزاروں میل کا سفر بھی طے کیا اور وہاں بورخیس کے سامنے جب پہنچا تو خاموشی سے اسے ہاتھ باندھ کر دیکھتا رہا -بورخیس بھی خاموش رہے-جس کی تعبیر پاؤلو نے یہ کی کہ صنم بولا نہیں کرتے-پاؤلو کا یہ سفر بذات خود ایک تخلیقی سفر تھا جو بعد میں اس کی تحریروں میں جھلکتا رہا-اس نے جب الکیمسٹ لکھی تو اس پر بورخیس کا اثر صاف نذر آ رہا تھا-پاؤلو کی زندگی کے بہت سے رخ تھے-وہ ٦٨ کی دھائی میں لاطینی امریکہ میں فروغ پانے والے گوریلا کلچر اور مارکسسٹ رجحان سے دیگر نوجوانوں کی طرح متاثر ہوا تھا-وہ اس وقت کی ریڈکل سوشلسٹ سیت سے وابستہ رہا-مذھب سے باغی بھی ہوا -وہ ایک دور میں ہپی ازم کا بھی اسیر ہو گیا-نشہ اور چیزوں نے اسے پاگل خانے تک پنچا دیا -پھر بھی اس کے اندر تخلیق کی آگ سرد نہیں ہوئے تھی-وہ لکھنے کی طرف آیا -اور جب اس نے پھر سے میٹا فزکس کو دریافت کیا -واپس وہ کیتھولک چرج کی طرف لوٹا تو اس میں تخلیق کی آگ اور بھڑک اٹھی تھی-اس نے ایک روحانی سفر بھی کیا تھا جس کو اس نے پلگرم کے نام سے بیان کیا -اسے پڑھتے ہوئے مجھے ممتاز مفتی کا "حج "اور "علی پور کا ایلی" یاد آ گئی تھی-مجھے اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی شرم نہیں ہے کہ پاؤلو کا فکشن مجھے بہت اچھا لگا تھا-اس کی کتابوں نے واقعی بوریت سے بچایا تھا-اور ایک خواب نگر کی سیر کرائے تھی-مجھے ایسے لگا میں ہند کی پراسراریت بارے پڑھ رہا ہوں-پاؤلو نے لکھا تھا کے سارے جہاں میں اسے برازیل بہت پسند ہے -جہاں میجک اور حقیقت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں-مجھے خیال آیا تھا کہ میرا ہند بھی تو ایسا ہی ہے-کنیا کماری سے لیکر شملہ تک اور وہاں سے وادی سند سے لیکر لنڈی کوتل تک ،پھر بنگال کی سحر آفرین سرزمین تک یہ میجک اور حقیقت کا حسین سنگم حنین نظر آتا ہے-کالی داس کی شکنتلا میں ہم نے اسے دیکھا تھا-پھر ٹیگور کی "گیتا انجلی "میں ہم نے اس کو دیکھا -یہ جو اپنشد اور وید ہیں.گیتا ہے ان میں کیسے حقیقت اور جادو بھری خواب نگری کو ملا دیا گیا ہے-کیسے گوشت پوست کے جیتے جاگتے انسان دیوتا بن جاتے ہیں -اور دھرتی کی سری خوبصورتی آکاش بن جاتی ہے-کیسے سماج میں پائے جانے والی مادی محبت ہیر راہنجھا کی شکل میں لازوال کہانی منظوم ہوتی ہے-یہ سب تخلیق کے رنگ ہیں-سقراط نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ سنگ تراش کے ذہن میں تصویر پہلے موجود ہوتی ہے وہ تو بس تراش خراش کے اس تصویر کو تصویر کر دیتا ہے-کہانی پہلے ہی تخلیق ہو چکی ہوتی ہے-بعد میں تو بس اندراج ہوتا ہے-پاؤلو کا کہنا ہے کہ اس کے کردار اپنی کہانی کھوسد ترتیب دیتے ہیں-یہ سنکر مجھے یاد آ گیا کہ میں معروف رائٹر ارون دھتی رائے سے دہلی میں ان کی رہایش گاہ پر ملا تھا تو تخلیق کے سفر میں کردار نگاری پر ان سے بات ہوئے تو کہنے لگی تھیں کہ پلاٹ تو ان کا کچ ہوتا تھا لکین لکھنے کے دوران کردار اس قدر تبدیلی لاتے تھے اپنے آپ میں کے کہانی لکھنے کے بعد سارا پلاٹ بدلہ ہوا لگتا تھا-مجھے سیمول بیکٹ کی بات یاد آئی جو اس نے اپنے پلے کے ڈائریکٹر نے کہی تھی -"یار یہ کردار کہانی مکمل ہوجانے کے بعد بھی مجھے تنگ کرتے ہیں اور کئے ان کی باتیں ہیں جی کہانی میں درج ہونے سے رہ گئیں اب یہ ان کا شکوہ کرتے ہیں-"بلکل ایسا ہی تو ہوتا ہے-ایک بار جو کردار تخلیق ہو جائے وہ کہانی کے اندر قید رہنے سے انکار کر دیتا ہے-بعض کردار تو اس قدر جاندار ہوتے ہیں کہ وہ آپ کے ساتھ ہی زندگی بسر کرنے لگتے ہیں-کہانی تو کہیں دور رہ جاتی ہے-ان کا جیوں آپ کے ساتھ چلنے لگتا ہے-مجھے یاد ہے کہ جب دھانو کا کردار میرے سامنے آیا تھا تو اس کے کہانی تخلیق ہونے میں مجھے تین سلل لگ گئے تھے-لکین ان تین سالوں میں دھنو نے میرے ساتھ کس قدر سفر کیا تھا میں ہی جانتا ہوں-سرائیکی خطے کے ہر گوشہ میں وہ مجھے لے گئی تھی-میں نے سندھ،چناب،راوی ،ستلج سب ہی تو دیکھ لئے تھے-پھر تھل ،روہی،دامان بھی تو دیکھ تھے-یہ دہانو بھی عجیب تھی اس نے بھی ایک اردو بولنے والے مہاجر کی اولاد کو چنا تھا دھرتی کے رنگ دکھانے کے لئے-اور وہ بھی شہری بود و باش میں پلنے والا مہاجر-ایک کردار نتاشا کا ہے -روسی لڑکی کا جس کی کہانی میں نے بہت مرتبہ لکھی مگر اس کو پھر مٹا ڈالا-کتنی عجیب بات ہے کہانی کے کردار کو اپنے ساتھ عرصے سے لئے پھر رہا ہوں لکین لکھ نہیں پایا-کہانی تو کب کی تخلیق ہو گئی بس اس کو لفظوں میں قید کرنا ہے- دیکھو کب ہوتی ہے-ایک مرتبہ دہلی ائر پورٹ پر میں نے ایک خاتون کو جنگلے سے ٹیک لگا کر ایک نوجوان کی طرف حسرت سے تکتے دیکھا تھا-وہ نوجوان شائد اس کا شوہر یا ہونے والا شوہر تھا-اس خاتون کے چہرے پر پردیس جاتے محبوب کے لئے جو جذبات نقش تھے،کتنی آرزوں کو میں نے مچلتے دیکھا تھا اور کتنی ہستروں کو میں نے نقش دیکھا تھا آج تک مجھے یاد ہے-میں نے ایک لمحۂ میں ہزاروں باتیں بن لی تھیں-وہ کہانی مکمل ہو گئی لکین وہ نقوش لئے خاتون اب بھی وہیں دہلی ائر پورٹ کے ایک جنگلے کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی ہے-کبھی کبھی وقت تھم جاتا ہے-کوئی نقش مستقل ہو جاتا ہے-کسی یاد کی سولی مستقل سینے میں گڑ جاتی ہے-کئے تصویریں دھندلی پڑ جاتی ہیں مگر کوئی تصویر یاد بن کر لٹکی رہتی ہے-کہانی بن کر ختم ہو جاتی ہے کردار زندہ رہتے ہیں-خوابوں کا جہاں آباد رہتا ہے-جب کوئی نہیں آتا تو یہ کردار آتے ہیں-دھانو چپکے سے چلی آتی ہے-اس کا جھلا پن بھی ساتھ ہوتا ہے-آپ کو وہ سب سے سیانی لگتی ہے -سارا جہاں پاگل اور پاگل خانے کی ویرونیکا سیانی لگتی ہے

No comments:

Post a Comment