Saturday 17 September 2011

ارنس باغ اور بدھا درخت

لارنس باغ اور بدھا درخت

لارنس باغ کے گیٹ نمبر ایک سے وہ باغ میں داخل ہوا تو اس کی چال میں نہ تو وہ سبک خرامی تھی -جس کی وجہ سے وہ دور سے پہچان لیا جاتا تھا-اس کے ہاتھ میں سگریٹ تھا -جس کو ختم ہونے سے پہلے ہی وو ٹو چین کر لیتا تھا-اس کے کش لینے میں کوئی وقفہ نہیں دیکھنے کو مل رہا تھا-دوسرے ہاتھ میں موبائل لئے وہ گانا سن رہا تھا-

میں جہاں رہوں -تیری یاد ساتھ ہے

جاوید اختر کا لکھا یہ گیت اس کی اداسی کو زیادہ تو کرتا تھا لکین ایک عجب تسکین اس گیت کو سن کر اسے ہو رہی تھی-اسے آج تک اپنی برہا اور اداسی کا پتہ نہ چلا تھا-وہ بہت عرصۂ کے بعد لارنس باغ آیا تھا-آج سے بیس سال قبل وہ اس باغ میں اس وقت آیا تھا جب وہ طالب علم تھا-یہ عید کا تیسرا دیں تھا -وہ گھر میں نہیں رہ سکا تو لاہور آکر لارنس باغ چلا آیا تھا-ایک پہاڑی پر جا کر ایک شیڈ کے نیچے بیٹھا وہ سگریٹ پر سگریٹ پھونکے جا رہا تھا-باغ میں لوگ مسلسل چلے آ رہے تھے-نوجوان ،نوخیز جوڑے اپنی مستی میں مست ،راز و نیاز کی باتیں کرتے ہوئے-ہلکے ہلکے بولتے ہوئے کہ کوئی سن نہ لے-لکین وہ اس ساری رنگینی سے بے نیاز بیٹھ تھا-اچانک کہیں سے ایک لڑکی وہاں آ نکلی -اور اس نے سامنے والے خالی پڑے بنچ پر بیٹھنے کی اجازت طلب کی -اس نے کہا "مجھ سے بھلا اجازت کیوں طلب کرتی ہو -جہاں چاہو بیٹھو-وہ بیٹھ گئی-تھوڑی دیر کے بعد اس نے پوچھا کہ وہ کیوں تنہا بیٹھا ہے؟اس نے کہا کہ بس یونہی وہاں بیٹھا ہوں-اس پر اس لڑکی نے بھی یہی کہا کہ وہ بھی بس یونہی تنہائی کا شکار ہے-برہا اس کو بھی تنگ کرتی ہے-اب وہ چونکا -اس کو تو یہ بیگانگی آج تک اپنے اندر نظر آتی رہی تھی -آج اس جیسا دوسرا زی روح بھی پایا جاتا ہے-دونوں ایک دوسرے کے سامنے چپ چاپ بیٹھے رہے-کافی دیر کے بعد چپ ٹوٹی-تو دونوں نے دنیا بھر کے معاملات ڈسکس کے-کب لارنس میں رات ہوئی-رات سے صبیح -دونوں اپنی اپنی رہ پر ہو لئے -اس کے بعد ملاقاتوں کے کئے سلسلے ہوئے- اور لارنس باغ کا وہ کونسا کونہ اور گوشہ تھا جہاں ان کے قدم نہ پڑے ہوں-وہ لڑکی بہت جلد سارے مرحلے ایک جست میں طے کرنا چاہتی تھی-جو اس کو نئے نئے خواب بننا پر مجبور کر دیتی تھی-وہ اتنا تیز نہیں چل سکتا تھا تو ایک دن وہ خاموشی سے ناروے روانہ ہو گئی-بس پھر لارنس آنا بھی ختم ہو گیا تھا-آج وہ بس یونہی نجانے کس لہر میں یہاں آ پہنچا تھا-چلتے چلتے وہ ایک درخت کے پاس رک گیا تھا-لارنس میں درخت اس کو ہمیشہ اجنبی اجنبی سا لگتا تھا -اس پر ایک نیم پلیٹ لگی تھی -جس پر لکھا تھا کہ یہ درخت برازیل کے جنگلوں میں پایا جاتا تھا-اور یہاں وہیں سے لا کر اس کو لگایاگیا تھا-اس کا نام انھوں نے بدھا رکھا تھا-یہ نام اس درخت پر اس کو برا نہ لگا -کیوں کے برازیل کے جنگلات سے اس کی ہجرت گویا گوتم بدھ کی طرح سنیاس لینے کے لئے تخت و تاج کو ترک کرتے ہوئے نروان کی تلاش میں نکلنے کی طرح تھی-بہت خاموشی اور وقار کے ساتھ بدھا کھڑا ہوا تھا-اسے یہ ماحول بہت بھلا لگ رہا تھا-ایک منٹ کے لئے وہ بھی ماحول میں جذب ہو گیا تھا-اسے لگا کہ یہ ہجرت صرف کرازیل سے بدھا نے ہی نہیں کی تھی بلکہ وہ بھی ترک دنیا کے اس عمل سے گزرا تھا-وہ وہیں زمین پر بیٹھ گیا تھا-اس کی آنکھیں خود بخود بنس ہو گئیں تھیں-دور کہیں سے روشنی کی ایک کرن آئی اور اس کے اندھیرے میں چمک اٹھی تھی-ایک لمحے کو اس کو ایسا لگا کہ خیال مت گیا ہو -جس کو گوتم بدھ ہر دکھ کی وجہ بتلایا کرتا تھا-اس کی ذات ،اس کی میں کہیں غائب کیا ہوئی،اسے یوں لگا کہ اس کا سارا بوجھ اتر سا گیا-اس نے آنکھیں کھول دیں -دیکھا بدھا کا درخت کھڑا مسکرا رہا تھا-اور اس کو گلے ملنے کی دعوت دے رہا تھا-وہ خاموشی سے آگے بڑھا -اور بدھا درخت کے ساتھ گلے ملنے لگا -

1 comment:

  1. لاجواب کہانی تخلیق کی آپ نے ۔۔۔

    ReplyDelete