Thursday 6 October 2011

دو ماشے کی انگوٹھی اور ایک لاکٹ

دو ماشے کی انگوٹھی اور ایک لاکٹ
افسانہ /عامر حسینی
ریلوے لائن کے اس پار ایک چھوٹی سی بستی ہے -عزیز نگر تھا اس کا نام-غریب لوگ یہاں رہتے تھے -شام کا وقت تھا -جب ایک مکان سے ایک لڑکی بغل میں ایک شاپر دبائے نکلی-گھبرائی ہوئے،سہمی ہوئی تیز تیز قدموں کے ساتھ وہ بستی سے نکلتی چلی گئی-ریلوے کی پٹٹری کو عبور کرتینے کے بعد وہ ریلوے اسٹیشن کی طرف چل دی-سارے رستے وقفے وقفے سے وہ پیچھے مڑ کر بھی دیکھ لیتی تھی-ریلوے اسٹیشن آ کر وہ سیدھی پلیٹ فارم کی طرف چلی گئی-پلیٹ فارم قدرے سنسان پڑا تھا-اکا دکا ماسفر موجود تھے-وہ زنانہ انتظار گاہ کی طرف گئی-یہ انتظار گاہ ایک بک سٹال کے قریب بنی ہوئی تھی-اس نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی اور ایک دم سے زنانہ انتظار گاہ میں داخل ہو گئی-نجانے کیا بات تھی کہ وہ انتظار گاہ میں بیٹھ نہیں پا رہی تھی،بغل میں دبے شاپر کے ساتھ وہ مضطرب سی کھڑی تھی-تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ انتظار گاہ کے دروازے سے باہر جھانک لیتی تھی-اتنے میں کوئی گاری پلیٹ فارم پر آ کر کھڑی ہوئی -وہ تیزی سے نکلی اور ایک ڈبے میں سوار ہو گئی-واش روم کے پاس بنی ایک سیٹ پر وہ بیٹھ گئی-سامنے والی سیٹ خالی تھی-جب ٹرین چلنے لگی تو ایک آدمی بھی اس میں سوار ہو گیا اور آکر اس کے سامنے والی سیٹ پر بیٹھ گیا-لڑکی تھوڑی دیر بعد اچانک اٹھی اور واش روم میں چلی گئی-کافی دیر تک جب وہ واش روم سے واپس نہ آئی-تو سامنے کی سیٹ پر بیٹھے آدمی کو تشویش لاحق ہوئی-وہ واش روم کی طرف گیا-اور پہلے دستک دی تو کوئی جواب نہیں آیا-جب اس نے دروازے کو دھکیلا تو معلوم ہوا کہ دروازہ بند نہیں تھا-اس آدمی نے دروازہ کھول دیا-اندر لڑکی کھڑی ہوئی تھی-اور اس کے چہرے سے سخت خوف جھلک رہا تھا-آدمی نے نرمی سے پوچھا !کیا بات ہے؟آپ سیٹ پر کیوں نہیں بیٹھتیں؟اور یہاں واش روم میں کیوں چلی آئیں ہیں؟کیا ٹکٹ نہیں ہے؟پہلے تو وہ خاموش رہی-جب دوسری بار اس آدمی نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟آپ بولتی کیوں نہیں ہیں؟تو وہ مری مری سی آواز سے بولی کہ میں کسی کے خوف کی وجہ سے یہاں آ کر چھپی ہوں-اس نے اگر مجھے دیکھ لیا تو پکڑ کر لے جائے گا -آدمی بولا کہ ایسے کیسے بھرے ڈبے میں کوئی تم کو پکڑ کر لے جائے گا-تن آرام سے اپنی سیٹ پر بیٹھو مت گھبراؤ -اس نے کہا نہیں وہ میرا باپ ہے-تم ذرا دیکھو کہ کوئی ہلکی ہلکی داڑھی والا،آسمانی کلر کا سوٹ پہنے،کاندھے پر ڈبی والا رومال ڈالے تو کوئی شخص ڈبے میں سوار نہیں ہے-آدمی ڈبے میں دیکھ کر آیا اسے پورے ڈبے میں ایسا کوئی آدمی نذر نہیں آیا-آکر اس نے لڑکی کو تسلی دی کہ کوئی ایسا آدمی ڈبے میں نہیں ہے-تو لڑکی واش روم سے نکلی اور سامنے والی سیٹ پر بیٹھ گئی-اب آدمی نے اس لڑکی سے پوچھا کہ وہ کون ہے؟کہاں سے آئی ہے؟اور کیوں اکیلے اس گاڑی میں سفر کر رہی ہے؟باپ اسے کیوں ڈھونڈھ رہا ہے اور وہ اس سے بچتی کیوں پھر رہی ہے؟یہ سارے سوال اس آدمی نے ایک دم کر ڈالے-یہ سوال سن کر اس لڑکی کی آنکھوں میں آنسو آ گئی-وہ بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگی کہ میں بدنصیب لڑکی ہوں،میری ماں مر چکی ہے-اور آج سے دو سال قبل میرے باپ نے دوسری شادی کر لی تھی-میں اور میری ایک چھوٹی بہن کو دوسری ماں نے قبول بھی نہیں کیا-نجانے میرے والد کو کیسے اس عورت نے قابو کر لیا تھا-جب سے گھر آئی تھی مجھے اسکول کی نوکری ترک کرنے کا کہتی تھی-میں نے والدہ کی وفات کے بعد پی تی سی کورس کر کے ایک پرائمری اسکول میں پڑھانا شروع کر دیا تھا-وہ مجھے کہتی تھی کہ میں اس نوکری کو ترک کر دوں -اور وہ مجھے ایسا کام دلائے گی کہ میں سونے میں لد جاؤں گی-یہ تو مجھے اس وقت پتا چلا کہ وہ کام کیا تھا جب میرا والد ایک دن شادی پر کسی دوسرے شہر گیا اور پیچھے سے سر شام ایک ادھیڑ عمر آدمی جس کو میں نے پہلے نہیں دیکھا تھا ہمارے گھر گھس آیا تھا-اس کے مونہ سے بدبو آ رہی تھی-ایسے لگتا تھا جیسے اس کی سانسوں کا خمیر کسی گندگی کے دھیر سے اٹھا ہو-میں در کر اندر کمرے میں چلی گئی اور کنڈی لگا لی میری سوتیلی ماں نے کئے بار دروازے پر دستک دی لکین میں نے دروازہ نہیں خولس-وہ کہنے لگی کہ وہ مجھے خوش کر دے گا-میں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں-ساری رات میں اس کمرے میں بند رہی صبیح ہوئی تو کنڈی کھول کر میں کمرے سے باہر آئی-نہ دھو کر اسکول جانے کے بہانے میں گھر سے نکل آئی-میں اب اپنی کھلاہ کے گھر ٹنڈو جام جانا چاہتی ہوں-
یہ رام کہانی سن کر اس آدمی نے کہا کہ تم ایکلے کیسے سفر کرو گی-رستے میں پولیس یا کسی اورآدمی کے ہتھے چڑھ گئیں تو ساری عمر ایک نئے جہنم سے دوچار رہو گی-یہ سن کر وہ لڑکی پریشان ہو گئی -اس نے کہا کہ پھر میں کیا کروں ؟تو آدمی نے کہا کہ میں تمھارے ساتھ چلتا ہوں اور تم کو ٹنڈوجام تک چھوڑ آتا ہوں-لڑکی کو ناجانے کیوں اس آدمی پر بھروسہ کرنے کو دل چاہ رہا تھا-سو اس نے ہاں کر دی-آدمی نے بتایا کے اس کا نام حبیب ہے-وہ ریلوے کالونی میں رہتا ہے-ایک عرصۂ سے کیمیا کی تلاش میں ہے-اور ویرانوں میں چلے کاٹتا پھرتا ہے-بس ہر مرتبہ تھوڑی سی کسر رہ جاتی ہے-لڑکی نے اپنا نام رانی بتایا اور بھولے سے لہجے میں پوچھنے لگی -حبیب!یہ کیمیا کیا ہوتا ہے-تو وہ کہنے لگا یہ ایک طریقہ ہے جس سے کسی بھی دوسری دھات کو سونے میں بدلہ جا سکتا ہے-وہ بہت حیران ہوئی اسے حبیب کو جھلا آدمی لگا-حبیب اسے بتانے لگا کہ وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ نہیں رہتا ان سے الگ ریلوے کے ایک کوارٹر میں وہ اپنی کتابوں اور ان چیزوں کے ساتھ رہتا ہے جو اس کے عمل کیمیا کے کام آتی ہیں-
رانی نے پوچھا تو کیا تنہائی اس کو تنگ نہیں کرتی؟کیا اس کو مشکل پیش نہیں آتی؟حبیب کہنے لگا کہ نہیں اس کو تو ہجوم سے وحشت ہوتی ہے-اس کو ویرانے اچھے لگتے ہیں-
سفر کافی لمبا تھا -حبیب بھی چاہتا تھا کہ کسی طرح یہ لمبا سفر باتوں میں کٹ جائے-اس نے رانی سے پوچھا کہ کیا وہ کتابوں کا شوق رکھتی ہے-تو رانی کہنے لگی کہ ہاں اس کی ماں کو کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا-وہ بی اے پاس تھی-بس قسمت کی بدنصیبی کے اس کی شادی میرے باپ سے ہو گئی-جس کو نشے سے فرصت نہیں ملتی تھی-میری ماں نے اس کو ،مجھے اور میری بہن کو محنت مزدوری کر کے پہلا وہ بھی استانی تھیں-مجھے انھوں نے ایم اے کروایا -میری دوسری بہن کو بی اے تک تعلیم دی اور پھر اس کو می خالہ تندو جام لے گئیں تھیں-ان کے میاں واپڈا ملازم تھے-دونوں کے کوئی اولاد نہ تھی تو بس فوزیہ کو انھونوں نے بیٹی بنا لیا-وہ اب وہیں رہتی ہے-ماں رات بھر کتابیں پڑھتی رہتی تھی-اس میں سے میں نے بھی کئے کتابیں پڑھ ڈالی تھیں-
حبیب کہنے لگا کہ کیا اس کو شاعر کون سا پسند ہے؟تو رانی کہنے لگی کہ اس کو شکیب جلالی بہت پسند ہے -یہ سن کر حبیب چونک گیا -کہنے لگا کہ ووہی تم کو کیوں پسن آیا؟رانی کہنے لگی کہ جب میں نے اس ک غزلوں کو پڑھنا شروع کیا تو مجھے لاغ کہ یہ سب تو میں کہنا چاہتی ہوں جو شکیب کہ رہا ہے-میرے ہاں تارے ٹوٹے ہوئی تھے-اور چاند بھی بھجا بھجا سا تھا-میرے گھر کے سہن میں بھی پتھر تو آ کر گرتے تھے لکین میرے آنگن میں لگے پیڑ کے پھل پس دیوار ہی گرتے تھے-میں نے بھی کسی کے قدموں میں گرنا نہیں سیکھا تھا-اور اپنے ہی قدموں پر ایسے گری تھی جیسے سایہ دیوار پر دیوار گر جاتی ہے-
مجھے بھی بستر کی سلوٹوں کو گننا اچھا لگتا تھا-اور صحرا ،دشت ،ببول ،ویرانی یہ سب میرے بھی رفیق تھے-نجانے کیوں شکیب مجھے کبھی اجنبی نہیں لگا تھا-
رانی باتوں میں گم تھی اور حبیب اس کی طرف دیکھ رہا تھا کہ وہ اپنے آپ میں جذب ہو چکی تھی-ایک عجب سی کیفیت گاڑی کے اس ڈبے میں ان دو سیٹوں کے درمیان تار ہوئی لگتی تھی اور حبیب بھی اس جذب میں خود کو گم سم سا کرتا جا رہا تھا-رانی کہنے لگی کہ وہ چھوٹی سی تھی تو تب سے اسے اپنے گھر میں عجب سی اداسی راج کرتی نظر آتی تھی- اس کی ماں اسے اور اس کو بہن کو ایک کمرے میں سلا دیتی تھی اور کمرے کی کنڈی باہر سے لگا دیتی تھی-نجانے رات کے کون سے پھر باہر اس کے باپ کے چیخنے اور چلانے کی آواز آتی اور ماں کی ڈبی ڈبی سسکیاں سنائے دیتیں تو ان کو موم ہو جاتا کہ باپ آ گیا ہے-بہت عرصۂ بعد جب وہ میٹرک میں تھی تو اسے پتہ چلا کے اس کا باپ رات کو نشے میں دھت ہو کر آتا تو ماں پر چڑھ دوڑتا -ماں کو ننگی گلیاں دیتا -اور ماں کو کہتا کہ وہ اپنے یار کا نام بتائے-
"مجھ سے اور فوزیہ سے اس نے کبھی پیار نہیں کیا -اس کی آنکھوں سے نفرت جھلکتی تھی-مجھے اس کی نفرت کا سبب اس وقت پتہ چلا جب میری ماں کو دل کا دورہ پڑا اور وہ آئی سی یو میں تھی-آخری وقت میری ماں نے مجھے اور میرے باپ کو بلایا اور کہا کے یامین !میں مرنے والی ہوں اور مرتے ہوے کوئی جھوٹ نہیں بولتا -یہ دونوں بچہ تمہارا خون ہیں -میں نے تم سے کوئی بیوفائی نہیں کی-میری بیٹیوں کا خیال رکھنا -یہ کہتے ہی میری ماں مجھے چھوڑ کر اس جہاں چلی گئی جہاں سے کوئی کبھی نہیں آتا-
رانی کی یہ باتیں سن کر حبیب کو بہت دکھ بھی ہوا اور اسے حیرت بھی ہوئی کہ سہمی سہمی اور دری دری سی نظر آنے والی اس لڑکی کی اندر کی دنیا میں کیا کچھ چھپا ہوا ہے-گاڑی اپنی رفتار سے بھاگ رہی تھی -دونوں کافی دیر تک خاموش رہے-پھر رانی نے پوچھا کہ حبیب آپ دنیا سے کیوں کٹ گئے؟کیا سونا بنانا لینے کی حرص دنیا تیاگ دینے جیسی اذیت سہنے کے لئے ٹھیک قیمت ہے-یہ سن کر حبیب مسکرایا اور کہنے لگا کہ رانی یہ کسی قیمتی دھات کو پا لینے کی تمنا نہیں ہے-نہ ہی امیر کبیر ہو جانے کی-کیمیا ایک ایسا عمل ہے کہ اس کو آج تک کرنے والا کوئی سونا نہیں بنا سکا -لکین یہ عمل آدمی کو ایسی دنیا میں ا جاتا ہے جہاں تگ و دود کبھی اختتام کو نہیں پہنچتی-یہ جہد مسلسل آدمی کو دنیا کی پلیدی سے دور کر دیتی ہے-میں ایک کالج میں استاد تھا-میں نے بھی ایک مجلسی زندگی گزاری لکین پھر نجانے کیسے ایک مرتبہ میں دریائے راوی کے کنارے گیا بہت ویرانی تھی وہاں اور جنگلے کے بیچ میں ایک جھونپڑی کو میں نے دیکھا-وہاں گیا تو ایک بوڑھے آدمی کو اندر جھونپڑی میں بیٹھے دیکھا -چراغ روشن تھا اور آگ پر ایک برتن میں وہ بوڑھا کچھ ہلا رہا تھا-میں اس کے پاس گیا -اس سے پوچھا کہ اس ویرانے میں وہ کیا کر رہا ہے-اس نے کہا یہاں ورانہ کہاں ہے؟یہ درخت،جھاڑیاں،یہ جانور اور دریا کے اندر مخلوق سب نے تو محفل سجائے ہوئی ہے-تم خود تو مردوں کے شہر سے آئی ہو تو اس لئے تمھیں یہ ورانہ لگتا ہے-میں اس آدمی کے پاس کچھ دن کے لئے رک گیا -میں نے اس کو پہلے کوئی خبطی سونے کی لالچ میں مبتلا خیال کیا تھا-لکین کیمیا کا رنگ مجھ پرر بھی خوب اترنے لگا-
رانی تمھیں پتہ ہے کہ یہ علم جابر بن حیان نامی ایک عرب نے بنایا تھا -وہ آج کے جدید علم کیمیا کا بانی کہلاتا ہے-یہ امام جعفر صادق کا شاگرد تھا-رانی کہنے لگی ہاں اس کو پتہ ہے-
کبھی کبھی مجھے لگتا ہے ہے کہ کہیں چپکے سے جابر میری روح میں اتر جاتا ہے اور مجھ پر آگاہی کے در وہ ہونے لگتے ہیں-میں اچانک کہیں اور پہنچ جاتا ہوں-اور پھر دھاتوں کا عمل تو کہیں بہت دور رہ جاتا ہے-وہاں تو کچھ اور ہوتا ہے جسے آج تک میں پہچان نہیں پایا-کبھی خاموشی کا جنگل بولنے لگتا ہے -تو کبھی شہروں کا شور چپ چپ لغتا ہے-میں ابھی تک اس کا ادرک نہیں کر پایا -شائد جس دن کروں تو کیمیا گری کی حقیقت کو پا جاؤں-
ابھی یہاں تک بات ہوئی تھی کہ ٹرین حیدر آباد کے پلیٹ فارم میں داخل ہو گئی-حبیب اور رانی حیدر آباد کے پلیٹ فارم پر اترے اور وہاں سے رکشے میں بیٹھ کر ہالہ ناکہ آ گئے-وہاں سے تندو جم جانے والی بس میں بیٹھ کر وہ تندو جام پہنچ گئے-وہاں واپڈا کالونی کی طرف جاتے ہوے رانی نے حبیب کو کہا کہ تم نے میری خاطر بہت کشٹ کتا ہے -میں اس نیکی کا بدلہ نہیں دے سکتی-
واپڈا کالونی میں فنک کر رانی حبیب کو ایک گھر کی طرف لے گئے-دستک دی تو ایک ادھیڑ عمر کی خاتون نے دروازہ کھولا -وہ رانی کو ایک اجنبی آدمی کے ساتھ دیکھ کر حیران ہوئی-لکین دونوں کو اندر بلا لیا-تھوڑی دائر بات چیت کے بعد اس خطوں نے حبیب کا شکریہ ادا کیا-اور اس کو رات ٹھہر جانے پر اصرار کیا-لکین حبیب وہاں نہیں رکا-اس نے کہا کے حیدر آباد میں گاڑی کھاتہ میں اس کے عزیز رہتے ہیں وہ وہاں چلا جائے گا-جاتے ہوئی رانی نے اس سے گھر کا پتہ لکھوا لیا -وہ حیدر آباد کچھ دن رہا اور پھر اپنے شہر لوٹ آیا-
دن گزرتے چلے گئے-رانی جس کی یاد کبھی کبھی اس کو رات کو اچانک آ جاتی اور وہ اپنے عمل کو جاری نہیں رکھ پاتا تھا -نجانے کہاں رہ گئے تھی-ایک صبیح جب وہ گھر سے نکلنے کی تیاری کر رہا تھا تو کورئیر سروس کا نمایندہ آیا اور اس کو ایک پارسل دے گیا -اس نے پارسل کھولا تو اس میں دو خط اور ایک بکس تھا-پہلا خط رانی کی خالہ کا تھا -جس میں لکھا تھا کہ آج رانی ہسپتال میں اپنی زندگی کی بازی ہار گئی-اس کے باپ نے اچانک ایک دن اس پر خالہ کے گھر آ کر فائر کھول دیا تھا-اس کو کئے گولیاں لگی تھیں-مرنے سے بیشتر اس نے خالہ کو بتایا تھا کہ اس کے صندوق منین ایک بکس اور ایک خط ہے جو حبیب کو روانہ کر دینا-حبیب نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ رنگین صفحۂ پر لکھا ہو خط کھولا اور پڑھنا شروع کر دیا -
کیمیا گر حبیب !
جب تمھیں یہ خط ملے گا تو شائد میں اس دنیا میں نہ ہوں-مجھے ایسا
لگتا ہے کہ مائیں اب زیادہ دیر زندہ رہنے والی نہیں ہوں-میری وجدانی
حس نے مجھے کبھی دھوکہ نہیں دیا ہے-میں تمھیں اس سفر کے دوران
ہی کہنا چاہتی تھی کہ جس کیمیا کی تم تلاش میں ہو وہ تو تمہارے سامنے
بیٹھی ہے-پھر جب تم واپس آنے لگے تو بھی میں تمھیں روک لینا چاہتی تھی-
مگر روک نہ پائی-میں تمھیں کسی سراب میں رکھنا بھی نہیں چاہتی تھی-
تمھیں معلوم ہے کہ یہاں ٹنڈو جام میں ایک مزار ہے -اس کے بارے میں مشہور
کہ یہاں جو مانگو ملتا ہے-میں وہاں گئی تھی-اور تمھیں مانگنا چاہتی تھی-
لکین عجیب بات کہ وہاں چاہنے کے باوجود میں تمھیں نہ مانگ سکی اور واپس
چلی آئی-لکین تمھیں کہنا چاہتی ہوں کہ تم ہو یا میں یا کوئی اور ہم سب کیمیا کی تلاش میں ہوتے ہیں-وہ کہیں اس پاس ہمارے سامنے ہوتا ہے اور ہم اسے کتابوں میں اور ویرانوں میں تلاش کر رہے ہوتے ہیں-بس وقت گزر جاتا ہے اور وہ کمیا کہیں دور بہت دور رہ جاتا ہے-ہم اس آدمی کی طرح ہیں جو پارس کی تلاش میں جھلا ہو گیا تھا اور لوگوں نے اس کو زنجیروں سے جکڑ دیا وہ یونہی پارس کی تلاش میں سر گردن پھرتا رہا اور ایک دن اس کے پیڑ سے پارس پتھر ٹکرایا اور سری زنجیریں سونا ہو گئیں -لکین اسے خبر نہ ہوئی-میں رہوں یا نہ رہوں -لکین تمھیں اپنی ماں کی طرف سے دی ہوئی انگوٹھی اور سونے کا لاکٹ بیجھ رہی ہوں-
میرے کیمیا گر !کبھی وقت ملے تو ان کو دیکھ لیا کرنا -بہت شرمندہ ہوں تمھیں پارس پتھر اور کیمیا دے نہ سکی -
فقط تمھاری
رانی
خط پڑھ کر حبیب کی آنکھوں سے دو آنسوں ٹپکے اور خط میں جذب ہو گئے-دور کہیں سسے آوازآتی تھی ............
مجھ کو گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں
جیسے سایہ دیوار پہ دیوار گرے

No comments:

Post a Comment