ایک آتنک واد کی کتھا
عامر حسینی
میں کوئی گاندھی واد بھی نہیں تھا
میں کوئی عدم تشدد کا پیرو بھی نہیں تھا
جو صبر شکر کر کے رہ جاتا
میں کوئی پیغمبر بھی نہیں تھا
جو فقیری کو اپنا فخر بنا لیتا
میں کوئی صوفی بھی نہیں تھا
جو قناعت کو اپنی ڈھال بنا لیتا
میری ذلت اختیاری نہیں تھی
میری مسکینی میرے بس میں نہیں تھی
میں تو نظام زر کا تھا ڈسا ہوا
بھوک میری شناخت تو نہ تھی
ننگ میرا لباس تو نہ تھا
میری محنت کبھی بیگانہ نہ تھی
میرا ثمر کبھی میرا اپنا بھی تھا
میں اپنے گاؤں میں خوش باش بستا تھا
میں جو جنگلے میں ان نکلا ہوں
کوئی نروان پانے نہیں نکلا
کسی برگد کے سائے میں
میں دھونی جمانے نہیں آیا
خلا میں آسمانوں سے پرے
دور آکاش پر کسی دیوتا سے نہیں ملنا مجھے
میرے ساتھ کیا ہوا کہ میں گھر سے بے گھر ہو چلا
میرے گاؤں میں لوہا نکل آیا ہے
میرا گاؤں ٹاٹا اور متل کو اچھا لگنے لگا ہے
وہ چند روپوں کے عوض مجھ سے میری زمیں مانگتے ہیں
ترقی کا نام دیکر میری بستی اجاڑ دینے کی کوشش کرتے ہیں
میں اپنی زمیں چھوڑنا نہیں چاہتا
میں اپنی بستی ویران نہیں چاہتا
مجھے بھلا بڑی سڑک سے کیا لینا ہے
میں تو بس اپنی بستی کی زندگی بچانا چاہتا تھا
دہلی شہر کے رہنے والو
تم نے جو جنتر منتر میں
لندن کا ہائد پارک بنا رکھا ہے
وہاں میری کتھا کون سنے گا
میں نے اپنی تہذیب کو چمکتے ہندوستان کی قربان گاہ پر ذبح نہ کرنے کی مانگ کی تھی
ریاست نے لاکھوں سپاہ
میرا گاؤں فتح کرنے بھیج دی
گاؤں کو بچانے میں جنگل میں ان نکلا ہوں
یہاں ہتیار بند ہوئے ماؤ کے کامریڈ ہیں
جو ہمیں انوکھا مرن بھرت رکھنا سکھ رہے ہیں
اے کے فور رائفل
جو میرے کندھوں کو شل کئے دیتی تھی
اب مجھے اپنے وجود کا حصہ لگتی ہے
میں اپنے گاؤں کو سرمایہ کی مار سے بچانے نکلا ہوں
منموہن سنگھ لاکھ مجھے بڑا خطرہ کہے
میں اپنے گاؤں کو چمکتے ہندوستان پر قربان نہ ہونے دوں گا
میں جانتا ہوں
کسی دن باڈر فورس کے شیر جوان
کسی چوک پر
جعلی مقابلہ میں مجھے پار لگا دین گے
انعام و اکرام کے حقدار ٹھریں گے
دہلی کے میڈیا والے
میرے مرنے پر
حب الوطنی کے نغمے تیز کر دین گے
No comments:
Post a Comment