Monday 3 October 2011

میں رومی کیوں نہ بن سکا ؟

آج صبح سے سخت بخار میں مبتلا رہا -پورے جسم میں سخت درد تھا-اصل میں کل کی بارش میں خوب بھیگتا رہا-شاوی بیٹے کو کندھوں پر اٹھایا اور پورے سہن کا ایک چکر لگایا تو اس کی قلقاریوں میں اور خوشی سے نکلنے والی آوازوں میں گم ہوگیا-اس کو اس کی ماں کے پاس چوڑا-وہ برآمدے میں شائد کے نیچے ماں کی گود میں بیٹھا تالیاں بجا رہا تھا اور میں مستی و سرشاری میں جھومتا ہوا بھیگ رہا تھا-موسلا دھار بارش میں وسیب کے دھرتی بنگال کی ساحرہ کی طرح معلوم ہوتی تھی-میں تو کہیں اور نکل گیا تھا-گھر سے نجانے کب نکلا -کب سڑک پر آیا اور کب بہت دور بہت دور جا نکلا-رہ چلتے چلتے کسی کو برقی پیغام بھیجا کہ میگھا ملہار برس برس جاتی ہے بہت سہانا موسم ہے-اس نے کہا مجھے بھی ساتھ لے لو -اس کو ساتھ لیا تو پھر بس اپنا ہوش ہی کہاں رہا-پھر تو من یار شدی و یار تو شدی والا معاملہ ہو گیا (شعر میں تھوڑی سی تبدیلی پر معزرت)یہ دل بھی عجب ہے-بس اس کی مرضی پر اس کو چھوڑو تو اس کی مستی،اس کا جذب سنبھالے نہیں سنبھالتا -کچھ عیسیٰ ہی ہوا میرے ساتھ-بارش تو کب کی تھم چکی تھی لکین جذب و مستی کی کیفیت ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی-ہجر کے موسم میں اس جذب کا نشہ کچھ اور ہی ہوتا ہے-کاش مجھے وہ لفظ اور انداز بیان میسر آتا جو اس کو بیان کرنے میں میری مدد کرتا-لکین نہیں-اصل میں ہم جیسے ہجر زادوں کی بد نصیبی کا یہ عالم ہے کہ ہجر اور کرب کا موسم اس زمانے میں ہمارا مقدر بنا جب صوفی کا تصوف بھی امریکہ کا غلام ہو گیا ہے-اب بھلا ہم کیسے امریکی سفیر کو یہ کہیں کے صاحب ہمیں بھی کہیں سے شمس تبریز ڈھونڈ کر لا کر دو تاکہ اپنے اسحق کی روداد ہم بھی مثنوی عشق کے نام سے رقم کر ڈالیں-مولوی کے پاس ہم ویسے ہی نہیں جاتے کیوں کہ کسی نے خوب کہا ہے

"مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم "

بھلا یہ ابن تیمیہ اور محمد بن عبد الوہاب نجدی کے شاگرد کیسے ہمارے خام عشق کو تہذیب سکھائیں گے-بہرحال نجانے رات کے کس پھر گھر واپس آیا-گھر والی کہتی ہے ٢ بجے تھے رات کے-سحری میں بھی نہ اٹھا اور بغیر سحری کھائے روزہ رکھ لیا-اب یہ سوال مت کیجئے گا کہ ہم جیسا رند،مردود حرم کیسے متقی ،پرہیز گاروں کی چراگاہ میں کیسے داخل ہو جاتا ہے-بس یہ بھی معجزہ عشق کا ہے-ہوم منسٹر کا جو رنگ ڈھنگ ہوتا ہے -اس گھر کے گھر والے کو اس رنگ ڈھنگ کی پاسداری کرنا لازم ہوتی ہے ورنہ فساد لازم-ہم کوئی ایم کیو ایم بھی نہیں جو ہوم منسٹر کو اپنی مرضی کے مطابق چلا لیں گے-

صبح آنکھ کھلی تو تیز بخار میں جسم پھنک رہا تھا-لکین عجب بات تھی کہ دل میں کوئی بیزاری نہیں تھی-یہ جسم سے نکلتی گرمی اور تپش نجانے کیوں ذہن کو بھلی معلوم ہوتی تھی-ذہن میں گٹار اور ہارمونیم سے نکلنے والی مدھر تانوں اور سروں کی آواز گونج رہی تھی-ہاں یہ قصہ تھا پرسوں کا جب ہمارے دوست جعفری صاحب کے ہاں لبنان سے ہمارے ایک دوست حماد خلائف اور ہندوستانی دوست رام چند جی تشریف لائے ہوئے تھے-جعفری صاحب بیروت میں جب یونی ورسٹی میں زیر تعلیم تھے تو خلائف سے ان کی دوستی ہو گئی تھی -خلائف بعد مے ہمارے دوست بھی ہو گئے تھے-رام چند میری دریافت تھے-دراصل آج سے ایک سال قبل میں دہلی گیا تو ایک گھر میں paying گیسٹ کے طور پر ٹھہرا تھا-وہیں پر رام چند سے ملاقات ہو گئی تھی-رام چند ہارمونیم ایسا بجاتا ہے کہ ساری محفل کو مشور کر کے رکھ دیتا ہے-یہ اس کا شوق ہے پیشہ نہیں-خلائف پیشہ کے لحاظ سے استاد اور رام چند انجینئر ہے-موسیقی ان کا شوق اور جنوں ہے-لکین یہ ہنر اور کمال ان کے حلقہ یاراں تک محدود ہے-رمضان میں ایک سید زادے کے گھر موسیقی کا یہ پروگرام بس خفیہ طور پر ہو سکتا تھا جس طرح اخوان الصفا کے لوگوں کا اجلاس ہوتا ہے-درجن بھر مرد و زن اکٹھے ہو گئے-اور اپنے مہمان دوستوں کے فن سے محظوظ ہوئے-عرب اور ہندی گیتوں (رام چند اردو گیتوں کو ہندی گیت کہتا ہے مجھے نام اور چلکھے پر لڑنے کی کیا ضرورت ہے -مجھے تو نام والے کی ذات اور چھلکے کے اندر گودے سے لینا دینا ہے)کی دھنوں کی کمپوزنگ سن کر مزہ آگیا -بخار میں جلتے جسم کے ساتھ ان آوازوں کی ذہن میں گونج ایک عجب سا وجد تار کئے ہوئے تھی -سمجھ نہیں آتا تھا کس کو یہ حالت باتوں-

کیہ حال سناواں دل دا-کوئی محرم راز نہ ملدا

شکریہ خواجہ فرید سائیں آپ کا کہ کم از کم اس حالت کو بیان کرنے کا سلیقہ تو سکھا ڈالا -میں نے ایک یار من کو میسج بھیجا -اور بتلایا کہ کیا حالت ہے -اس نے جواب میں کہا اور لطف اٹھو بارش کا-کرو شرارتیں -یعنی وہ تو کسی نے کہا تھا یار من ترکی -ترکی نمی دانم -یہاں مجھے لگا من ترکی و یار من ترکی نہ دانم والا معاملہ ہو گیا - تھوریدی دیر بعد ان دوست کا میسج آیا کہ وہ امی کے ہاں جا رہے ہیں اور ان کے حضور پیغام رسانی بہت بڑی گستاخی خیال کی جاتی ہے-میں مایوس نہیں ہوا-ایک اور دوست کو فون کیا لمبی کال پیکج کے ساتھ -ان سے وعدہ کیا کہ ان کے دفتری کام میں کوئی حرج نہیں ہوگا -دوران گفتگو اگر کوئی کال سننی پڑی تو وہ بھی سننے کے مجاز ہوں گے-اس معاہدے کے ساتھ انھوں نے میری روداد سننی پسند کی-میرے یہ دوست ابھی میں ابتدا میں ہی تھا خود اپنی سفر شاعری کی داستان سنانے بیٹھ گئے-ایک صاحب جن سے ان کی یاد الله اس وقت سے تھی جب ان کے بقول یہ دوسری کلاس میں تھے -جو ان کی شاعری پر داد دینا کفر سمجھتے تھے-جن کا خیال یہ تھا کہ اگر ان کے کسی شعر کی داد اگر ان کے منہ سے خدا نخواستہ نکل گئی تو شائد دن اسلام کو خطرہ لاحق ہو جائے گا-ایک مرتبہ ان کی غزل کسی گائیک نے خوبصرت انداز میں گا دی -ہر شعر پر موصوف جھوم جھوم جاتے تھے -جیسے ہی مقطع آیا اور ان کا نام اس میں دیکھا تو ایک دم چھپ ہو گئے=-آخر میں بس اتنا بولے کہ بہت اچھا گیا تم نے ایک بری غزل کو -کیا کہنے حضور کے -اب ان کو یہ کہتا میں تو اچھا نہیں لگتا کہ حضور دودھ بھی دیا تو مینگنیاں کر کے-ویسے ہمرے دوست خاصے حوصلے والے ثابت ہوئے انھوں نے شادی کے بعد بھی شاعری سے توبہ نہ کی-ان کو بھی بس یہی کہا مہربانی ہے حضور کی -میں بندہ بشر سدا کا کمزور اس دوران انتظار کرتا رہا کے کب حضور میری داستان بھی سنیں گے -اسی دوران کسی کی کال آگئی -کسی کو اپنے انسورنس کارڈ کے بارے میں معلوم کرنا تھا -اس دوران غم یار سے غم دوران تک بات چلی اور میں سکون سے ان کی فراغت کا انتظار کرتا رہا -اس کے بعد جب وہ فارغ ہوئے تو نہ جنوں رہا نہ پڑی رہی والی واردات ہم پر گزر گئے تھی-اب بخار بھی برا لگ رہا تھا اور درد کی شدت کا احساس بھی ہونے لگا تھا-انھوں نے ہم سے پوچھا تو کیا کہ رہے تھے آپ ؟میں نے جاوید اختر کی کتاب ترکش اٹھائی اور ان کو نظم ہجر سنائی-پھر ایک غزل سنائی -اسی دوران ان کو کام کے سلسلے میں کہیں جانا تھا -تو انھوں نے مجھ سے اجازت مانگ لی-اس سے پہلے کہ میں مانگتا-تو اس طرح سے میرا دوست شمس تبریز بننے سے بچ گیا اور میں رومی بننے سے-

No comments:

Post a Comment