Monday 3 October 2011

پراگندہ طبع لوگ (دوسرا حصہ )

میری ڈائری کے ریک ورق پپر لکھا ہے

"وصال دمشق کی وہ بیٹی تھی جس کی ٹریجڈی ہیر رانجھا ،لیلیٰ مجنوں سے زیادہ بڑی تھی-یہ کیسا سماج ہے جس میں کوئی فرد اپنی پسند سے اپنے جیوں ساتھ کا انتخاب بھی نہیں کرسکتا-وہ کس قدر تکلیف دہ لمحہ ہوتا ہے جب کوئی انسان اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی ختم کرنے کا فیصلہ کرتا ہے-پھر یہ فیصلہ کوئی نوجوان کرے تو اور زیادہ مشکل ہوتا ہے-ویسے بھی ہمارے سماج میں نوجنوں کو آزادی کے ساتھ فیصلوں کا یکتھیار کب ملتا ہے-اگے-age ازم ایک ایسا مظہر ہے جس پر ہمارے یہاں کبھی بات نہیں ہوتی-یہ جو عمر کا بڑا پن ہے ہے اس کو حکمت،دانائی.عقلمندی اور فیصلوں پر پورے اختیار کے ساتھ نتھی کر دیا جاتا ہے-"

قبانی بغداد یو نیورسٹی میں ایک دفعہ مہمان بن کر گئے تو وہاں ان کی ملاقات بلقیس سے ہوئی جو کہ ایک سچول میں ٹیچر تھیں-دونوں شاید پہلی ملاقات میں ہی ایک دوسرے کو دل دے بیٹھے تھے -کراچی یونی ورسٹی کے شعبہ فلسفہ کی عمارت کے کوری ڈور میں ایک لڑکا اور لڑکی دنیا و مافیا سے بےپرواہ ،اپنے آپ میں گم رہتے ہتھے میں ان کا انہماک دیکھتا تو مجھے قبانی اور بلقیس کا بغداد یونی ورسٹی میں ملنا یاد آتا تھا-میں بڑے گیں سے بڑے دھیان سے اس جوڑے کو دیکھتا اور کھو جاتا تھا- میری ڈائری میں ایک جگا لکھا ہے -

"آج پھر اپنے ڈیپارٹمنٹ میں اس جوڑے کو محبت کے سمندر میں غرق دیکھا کھو گیا اور پھر سے الف لیلیٰ کے شہر بغداد جا پہنچا -پھر سے کئی خواب دل نادان نے بن ڈالے -بہت ہی حسین منظر تھے جن میں گم تھا کے کہیں سے اچانک سپنوزا کی دیوانی،اس ملحد صوفی سے عشق کی حد تک لگاؤ رکھنے والی ہم علی ان دھمکی-میرے گیاں،دھیان کو توڑڈالا-میری عبادت میں خلل دل دیا-بڑی الجھن کے ساتھ پوچھا یار کہاں گم ہو جاتے ہو؟میں اسے کیا بتاتا؟"

اسی طرح ایک اور ورق پہ لکھا ہے -

"آج دل کچھ اداس تھا-میں نے ہم کو کہ کے کافی پینے ایرانی ریستوران میں چلتے ہیں-یہ کراچی صدر کا ریستوران مجھے اور ہمہ کو اپنی کافی کی وجہ سے بہت پسند ہے-آج موسم بھی کچھ ابر آلود تھا-اس موسم میں نجانے کیوں اداسی مجھ پر حملہ اور ہوجاتی ہے-میں اور ہم کیفے میں بیٹھے کافی سپ کر رہے تھے کہ میں بیٹھے بیٹھے کھو گیا اور میں سینٹرل لندن کی اس کففی شاپ میں جا پہنچا جہاں ایک شام قبانی نے اپنی نظم گیدڑوں کی بارات سنی تھی-میں نے خود کو اس نظم کی قرات سنتے دیکھا اور کسی مصرعہ پر بآواز بلند داد دی تو ہم نے کہ یار پاگل ہو گئے ہو کیا؟میں خاموش ہو گیا-ہمہ واپسی پر سارے راستے مجھ سے پوچھتی رہی میں اس کی مزاحیہ طبیعت سے واقف تھا اس نے مجھے چٹکیوں پر رکھ لینا تھا-"

No comments:

Post a Comment