Monday 3 October 2011

بارش (افسانہ )

بارش (افسانہ )

میگھا ملہار خوب برسا ہے آج یہاں-میں ایک شیڈ کے نیچے کھڑا بارش کی بوندوں کو ٹپ ٹپ کرتے شیڈ پر گرتے دیکھ رہا تھا-چھن،چھن کی موسیقی میرے اندر ایک عجب سے لطف پیدا کر رہی تھی-میں گھر سے بارش میں کیوں نکل آتا ہوں یہ تو آج تک مجھے خود معلوم نہیں ہو سکا ہے-تنہا تہنا بھیڑ سے بچتا ہوا کسی ویران سڑک پر بس چلے جاتا ہوں-اتنا چلتا ہوں کے آبادی کہیں دور رہ جاتی ہے-ویرانے شروع ہوجاتے ہیں-مجھے نہ تھکن کا احساس ہوتا ہے نہ گرد و پیش کی خبر رہتی ہے-بس بارش کی جب پہلی بوند گرتی ہے تو میرے اندر بھی بارش ہونے لگتی ہے-یہ بارش ہمیشہ سرد ہوتی ہے-مجھے یوں لگنے لگتا ہے جیسے سارا جہاں سرد ہوگیا ہو-میرے اندر برفانی سی ہوائیں چلنے لگتی ہیں جن کے ساتھ بارش کی پھوار بھی ہوتی ہے-میں بار بار اپنے چہرے پر اور چشمے پر چا جانے والی دھند اور بارش کے پانی کو صاف کرنے لگتا ہوں-ناجانے کیوں مجھے چیزوں کا دھندلا پن اچھا لگنے لگتا ہے-مجھے اچانک دور بہت دور چلے جانے والے لوگ یاد آنے لگتے ہیں-وہ بارش کا دیں تھا جب میں گورمنٹ کالج لاہور سے بی اے (آنرز )کی سند لیکر نکلنے والا تھا-تب نا جانے کیوں میں بھیگتا ہوا بے خیالی میں ایک وجدانی سی کیفیت میں چلتا ہوا لارنس باغ آ گیا تھا-یہ دسمبر کی بارش تھی-سخت سری کے دن تھے-باغ خالی ہی پڑا تھا-ہاں کہیں کہیں سوگواران محبت گوشہ عافیت کی تلاش میں کسی برگد کے درخت کی اوٹ میں وو سارے راز و نیاز کہ رہے تھے جو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کہنا اور سنانا آپ کو پس دیوار زنداں دھکیل سکتا ہے-یا کوئی کھدے فوجدار آپ کو قتل کرکے جنت بھی کما سکتا ہے-مجھے لارنس باغ جا کر خیال آیا کہ ہم جس جنت کی بات کرتے ہیں تو کیا اس جنت میں موسوموں سے یس طرح لطف اندوز ہوا جاسکے گا-کہا جاتا ہے کہ جنت میں کوئی خزاں کا موسم نہیں ہوگا -میں جب سوچتا ہوں کے میں جو سردیوں کا عاشق ہوں-جسے خزاں کا موسم،پتوں کا جھڑنا اور سرد بارش کا ہونا بہت عزیز ہے -ایسی جنت میں میں کیسے گزارہ کر پاؤں گا-بس یہی سوچ کر دنیا کا یہ چھوٹا سا جہنم مجھے اچھا لگنے لگتا ہے-جہاں سردی اور بارش عذاب اور اداسیوں کے ساتھ آپ پر برستے ہیں لکین یہی درد آپ کی دوا بن جاتے ہیں-بارش اور دھند کا آپس میں رشتہ بہت گہرا ہے-میرے اندر بارش بھی کبھی دھند کے چھٹ جانے کا سبب نہیں بن سکی-اس شیڈ کے نیچے کھڑا میں یہ سب کچھ سوچ رہا ہوں تو میرے دل سے اٹھنے والی آوازوں کا ردھم خود میرے قابو میں نہیں ہے-میں بہت عرصہ عشق جیسی دولت سے محروم رہا ہوں-کیونکہ مجھے غم دوراں فرصت ہی نہیں دیتا تھا-مجھے بے عشق زمانے میں جمالیات اور حسن کی بارش کا کبھی پتا بھی نہیں چلا تھا-اس زمانے میں مرے اندر کی بارش بس مجھے بیگانہ کرتی تھی-اس بے عشق زمانے میں بھی میں بہار نکل آتا تھا-برستی بارش مرے اندر مرے باہر جو بھی بھونچال پیدا کرتی اس میں اپنی تنہائی کا ساتھ کسی کو بنانے کو دل نہیں کرتا تھا-لکین با عشق ہونے کے بعد تو میری تنہائی اور مری آوارگی عشق کو حضور کئے بنا ایک قدم مجھے نہ چلنے دیتی-کتنی عجیب بات ہے یہ با عشق ہونے کی باری اس وقت آئی جب میں نوجوانی کی سرحدیں پھلانگ چکا تھا اور اپنی جوانی کے بھی وسط میں کھڑا تھا-بس ایک تصویر تھی جس نے میرے دل و دماغ کی دنیا زیر و زبر کر ڈالی تھی-یہ کہنانی پھر سہی -رات کی تاریکی میں برستی بارش کا شور میرے اند بھی کئے اوزون کو جگا چکا تھا-لکین میں نکسی کردار کو اپنے اندر آنے نہیں دیا-میں تنہا کہاں چلا جاتا تھا ؟کیسے اپنے سارے ضمن اور مکان بھول جاتا تھا-میری آشفتہ سری مجھے کہاں خان لئے پھرتی تھی -یہ سنانے بیٹھا تو شائد یہ کہانی کبھی ختم ہی نہ ہو-بارش میرے اندر کی مجھ سے بہت سے سوال کرتی تھی-عشق سے متصف ہونے کے بعد سوال پہلیاں بن گئے-کسی کا جواب نہ ملا -بارش کئے روپ دھار کر برسنے کے جتن کرتی ہے-کبھی یہ وصال بن جاتی ہے-کبھی یہ ہجر بن جاتی ہے-کبھی یہ اقرار بن کر برستی ہے تو کبھی انکار بن کر-کبھی یہ خوشی سے دمکتا چہرہ بن جاتی ہے تو کبھی ہز و ملال کی تصویر بن کر برستی ہے-کسی کی آنکھوں این ساون بن کر برستی ہے کہیں یہ بھادوں بن کر-سو بھیس بدلتی ہے-سو روپ میں آتی ہے-ہر بھیس اور ہر روپ جم جانے وقالہ ہوتا ہے-بہت حبس ہو تو اس کے آنے کی امید ہوتی ہے-بعد شمال چلے تو اس کے آنے کا پتا چلتا ہے-بارش جب بھی ہوتی ہے تو در و دیوار ،شجر و ہجر ،چرند پرند سب دھلے دھلے تازہ تازہ لہگنے لگتے ہیں-اندر کی بارش بھی دھونے لگتی ہے-

"اے مرے عشق !آ اس بارش میں سفر کریں_اور اس چیز کو تلاش

کریں جو صدیوں سب تجھے بھی نہیں نہیں ملی اور مجھے بھی "

(عامر مستجاب حیدر )

No comments:

Post a Comment