Tuesday 18 October 2011

نوٹ بک اور خوں کے دھبوں والی قمیض

نوٹ بک اور خوں کے دھبوں والی قمیض


افسانہ /عامرحسینی


رات کے دو بج چکے تھے-جین مندر کا علاقہ سنسان پڑا تھا -دور دور تک کسی زی روح کا نشان نظر نہیں آتا تھا-خاموشی کا راج تھا-ہاں کبھی کبھی دور کہیں سے کسی کتے کے بھونکنے کی آواز سناٹے کو چیر دیتی تھی-اتنے میں ایک بند باڈی کی ویگن پرانی انار کلی کی طرف سے آ کر وہاں رکی -اس میں سے نصف درجن لوگ اترے-وہ سب سادہ لباس میں ملبوس تھے-اور وہ ایک گلی میں گھستے چلے گئے-ایک گھر کے سامنے جا کر کھڑے ہو گئے-ان میں سے ایک آدمی نے دروازہ زور سے بجایا-کچھ دیر بعد ایک کمزور سے آواز دروازے سے آئی-کون ہے؟تو دروازہ بجانے والے نے کہا -دروازہ کھولو-پولیس والے ہیں-تلاشی لینا ہے-دروازہ کھل گیا-دروازے کے سامنے ایک بوڑھی عورت کھڑی تھی-جس کے ہاتھ کمزوری سے کپکپاتے تھے-اور چہرے پر پر جھریاں گزرے ماہ و سال میں کاٹی جانے والی زندگی کی مشکلات کی کہانی سناتی تھیں-وہ آنے والوں سے شائد کچھ پوچھنا چاہتی تھی-اور اس کے لئے ابھی اپنے لب کھول ہی رہی تھی کہ ان میں سے ایک آدمی نے اپنے ہاتھوں سے اس کو دھکا دیا -اور مکان میں داخل ہو گئے -سامنے سیڑھیاں تھیں -ان پر چڑھتے چلے گئے-پہلی منزل پر سامنے ایک کمرے کے بند دروازوں سے ہلکی ہلکی روشنی باہر آتی دیک کر وہ سیدھے اس کمرے کی طرف گئے-دروازے کو دھکا مارا تو وہ چوپٹ کھل گیا-دروازے کے سامنے دوسری سمت میں ایک کرسی پر ایک نوجوان سامنے رکھی میز پر ایک نوٹ بک میں کچھ لکھ رہا تھا-دبلا پتلا سا یہ نوجوان تھا-اس کی شیو بڑھی ہوئی تھی-اس کی محویت ٹوٹ چکی تھی-وہ حیرت سے آنے والوں کو دیکھ رہا تھا-آنے والوں میں ایک جو ان کا افسر معلوم ہوتا تھا بڑھ کر وہ نوٹ بک اٹھا لی-کیا لکھ رہے تھے؟وہ افسر بولا -نوجوان نے سر اٹھا کر افسر کو دیکھا-اس کی آنکھیں لال سرخ تھیں-شائد کئی رت جگوں کا اثر تھا-بال بکھرے ہوئے تھے-لباس شکن آلود تھا-اس کے چہرے کو دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ کوئی سپنا دیکھ رہا تھا اور اسے اچنک اس سپنے سے جگا دیا گیا تھا-سفید پوش افسر کو کچھ دیر غور سے دیکھنے کے بعد اس نے کہا کہ میں جو لکھ رہا تھا -وہ اس نوٹ بک میں موجود ہے-جو اس وقت تم نے پکڑی ہوئی ہے-تم دیکھ سکتے ہو--افسر اس کی بات سن کر مسکرایا -اور طنزیہ انداز میں کہنے لگا -اوہو -ادائے دلبری بھی ہے-اور پھر نوٹ بک کا وہ صفحہ کھولا جس پر نوجوان کچھ لکھ رہا تھا -اور اس کو اونچی آواز میں پڑھنے لگا -


بارش میں بھیگتی نظم


سنو !


اے جن بہار


آجاؤ


یہ مست و الست بادل


یہ اٹھکھیلیاں کرتی ہوا


یہ برستی بارش کی بوندیں


سب تمھیں بلاتی ہیں


..........................


...........................


(١٤ اکتوبر ٢٠٠٧ )


واہ بھئی واہ !افسر بولا -تم تو رومانوی شاعری بھی کر لیتے ہو-ہم تو سمجھے تھے کہ بس آتنک واد کی کہانی اور بلوچ سرمچاروں کے نام جیسی کہانیاں ہی لکھتے ہو-اس نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا-وہ اس کے اشارے پر پورے کمرے کی تلاشی لینے لگے-اس کی میز پر دھری چند خستہ جلد والی کتابیں انھوں نے ایک تھیلے میں ڈال لیں -اس کے سی پی یو کو اپنے قبضے میں کر لیا-ساتھ ایک چارپائی کے نیچے صندوق کو کھنچ کر نکالا اور اس کے زنگ لگے کنڈے کو ایک جھٹکے سے توڑ ڈالا-اس میں چند پرانے سے کاغز نکلے ان کو ہی تھیلے میں ڈال لیا-


نوجوان خاموشی سے کھڑا یہ ساری کاروائی دیکھ رہا تھا-تلاشی کا عمل مکمل ہوا تو افسر اس نوجوان سے بولا -تمہارا نام سرمد بلوچ ہے-تم بلوچستان کے اکلاقہ کوہلو کے ایک گاؤں کے رہنے والے ہو-٢٠٠٠ میں تم بلوچستان کے کوٹے میں لاہور ایف سی کالج میں ڈاکہ ہوئے تھے-٢٠٠٤ میں تم وہاں سے اس بنا پر نکال دے گئے کہ تم پر الزام تھا کہ تم بلوچ طلبہ کو بغاوت پر اکسا رہے تھے-اس کے بعد بھی تم نے لاہور نہ چھوڑا-چوٹی موتی نوکریاں کرتے رہے-تم گھر سے بے گھر تھے-اچانک تم اس جین مندر والے مکان میں رہنے لگے -تمہاری ماں بھی تمہارے پاس آ کر رہنے لگی-یہ مکان تمہارے پاس کہاں سے آیا -اور ایک سال سے تم کچھ بھی نہیں کرتے تو گزارہ کہاں سے کرتے ہو؟


نوجوان یہ سب سن کر طنزیہ انداز میں افسر کی طرف دیکھنے لگا -اور پھر کہنے لگا -


"میں آپ سے یہ نہیں پوچھوں گا کہ آپ کا تعلق کس ادارہ سے ہے-اور اس ادرہ میں آپ کا مقام کیا ہے؟کیا میرے گھر کی تلاشی کا کوئی اجازت نامہ بھی ہے آپ کے پاس ؟کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ غلام قوم کے غلام فرد کے پاس یہ سارے سوال پوچھنے کا حق نہیں ہوتا-اور اگر پھر بھی میں نے کوئی سوال پوچھا تو آپ کا جواب مجھے معلوم ہے-"


زیادہ فلسفہ مت بگھارو -جو پوچھا ہے اس کا جواب دو -افسر ترشی سے بولا -


نوجوان کہنے لگا -میں کافی دن سے لاہور کی سڑکوں کے ساتھ بنی گرین بیلٹ پر سو کر راتیں گزار رہا تھا-اکثر پرانی انار کلی میں بنی فوڈ سٹریٹ میں رحیم ٹی سٹال پر جا کر رات گئے تک بیٹھا رہتا تھا-ایک رات وہاں بیٹھا تھا تو میرا ایف سی کالج کا دوست انور بٹ وہاں آیا اور میرے ساتھ بیٹھ گیا -وہ ان دنوں کوئی ٹریول ایجنسی چلا رہا تھا-وہ پہلے جین مندر میں ہی رہا کرتا تھا-اب اس نے بتایا کہ وہ ڈیفینس میں شفٹ ہو گیا ہے-باتوں باتوں میں نجانے اس نے کیسے اندازہ کر لیا کہ میں کسی ٹھکانے سے محروم ہوں-اچانک میرا ہاتھ پکڑا اور جین مندر والی سڑک کی طرف ہو لیا -گھر کے سامنے جا کر وہ رک گیا -گہرا کا تالہ کھولا -اور سیڑھیاں چڑھ کر اس کمرے میں آ گیا جس میں آپ آئے ہو-مجھے یہاں بیٹھا کر کہنے لگا -سرمد!تم جانتے ہو کہ میں نے تمھیں بتایا تھا کہ میرے ابا تمہاری کہانیوں اور نظموں کے فین ہیں-اور تم سے ملنے کے خواہش مند بھی-پھر تم میرے گھر آئے تھے-اس دن ابا تمہارے گلے لگ کر کچھ جذباتی ہو گئے تھے-

ہاں مجھے یاد ہے-سرمد بولا -میں حیران بھی ہوا تھا-

مجھے بھی حیرانی ہوئی تھی-انور بولا تھا -میں نے تمہارے جانے کے بعد ابا سے پوچھا تھا -تو انھوں نے کہا تھا کہ بیٹا تمہارے دادا قربان الی بھی اسے ہی ہوا کرتے تھے-وہ گھر تو کم ہی رہتے تھے-اکثر دوسرے تیسرے مہنے پولیس والے گھر آتے اور ان کی کسی کہانی یا نظم کی پاداش میں ان کو گرفتار کر کے لیجاتے تھے-ان کی پسندیدہ کتابوں کو قبضے میں کر لیتے دادا ہنسی خوشی ان کے ساتھ جاتے اور کہتے بس آدھی ریل میں اور آدھی جیل میں کٹ جانی ہے-میرے ابا نے دادا کا رستہ نہ اپنایا اور وہ عبری مندی میں کاروبار کرنے لگے-میں بھی دو جمع دو کا راہی ہوں-ابا اور اماں کی موت کے بعد میں ڈیفنس میں اپنی نئی کوٹھی میں شفٹ ہوگیا-اس مکان کو نہ تو میں پیچنا چاہتا ہوں نہ ہی کرائے پر چڑھانا -تم یہاں رہو -مجھے یقین ہے کہ ابا اور دادا کی روحیں اس سے خوش ہوں گی-تو میں اس وقت سے اس مکان میں رہ رہا ہوں-بوڑھی ماں کو بھی یہاں لے آیا -

زہین اور فطین لگتے ہو-کیوں خود کو خراب کر رہے ہو-افسر بولا -کیا تکلیف ہے-کیوں دوسرے نوجوانوں کی طرح کوئی نوکری تلاش نہیں کر لیتے-یہ ریاست کے خلاف یدہ جیسی نظمیں کیوں لکھتے ہو -

نوجوان یہ سن کر بولا "صاحب!آپ نے شاید کوہلو میں میرا گاؤں نہیں دیکھا -بڑی سڑک سے تیس کلو میٹر یا تو گدھے پر سواری کرو اگر پیسے جیب میں ہوں تو ،یا پھر پیدل چلو-اس گاؤں میں پینے کا پانی بارش ہونے پر مھنسر ہے-ایک جوہڑ ہے-جہاں جانور اور انسان اکھٹے پانی پیتے ہیں-ہم بلوچوں کو مہینوں نہ نہانے کا طعنہ دینے والوں کو یہ سب نظر نہیں آتا-وہاں پیدا ہونے والے بچے کی ماں سے جڑی ناڑ کو گھاس پھوس کی بنی جھونپڑی میں پتھر پر پتھر سے اس لئے کاٹنا پڑتا ہے کہ وہاں کوئی میٹرنٹی ہوم نہیں ہے-وہاں سے نکلنے والی گیس اور کوئلہ کبھی وہاں کے چولہے نہیں جلاتے -نہیں ہی سردیوں میں گرمی دے پتے ہیں-آپ کو معلوم ہے -میں اور میری ماں اس دور ترقی میں بھی ٧٢ گھنٹوں کا سفر طے کر کے لاہور پہنچے تھے-میری ماں خشک انگار پہاڑوں میں پلی بڑھی تھی-تبھی زندہ رہی-لاہور اور کوہلو کا یہ فرق ہے جو مجھے آرام سے رہنے نہیں دیتی-

تم گویا اپنے گاؤں تک پکی سڑک نہ ہونے یا میٹرنٹی ہوم کے نہ ہونے کا ذمہ دار ریاست کو ٹھہراتے ہو؟اپنے سردار کو کیوں نہیں کہتے جو اس کا ذمہ دار ہے-بس ریاست سے لڑنے چل نکلے ہو-افسر چیخ کر بولا -

نہیں صاحب میں تو کمزور آدمی ہوں-میں سردار سے یا ریاست سے کیسے لور سکتا ہوں-میں تو اسی لڑائی سے خوفزدہ ہو کر لاہور چلا آیا تھا-وہاں رہتا تو کسی ایک کی طرف سے لڑنا پڑتا -اور مرا جانا یقینی تھا-

بکواس بند کرو-افسر یہ کہ کر جانے کا اشارہ کرنے لگا -وہ اور اس کے ماتحت واپس جانے کے لئے مڑے تھے کہ ان کی نظر ایک الماری پر پڑ گئی-اس نے اپنے ماتحت کو کہا کہ الماری کھول کر دیکھے-ایک ماتحت اس املاری کی طرف بڑھا تو نوجوان نے آگے بڑھ کر اس کو روکنے کی کوشش کی -اس کو دو آدمیوں نے بازؤں میں جکڑ لیا-الماری کھولی گئی تو اس میں ایک ڈبہ تھا -ڈبے کو کھولا تو اس میں ایک قمیض تھی-جس پر خون کے دھبے تھے-جو زرد ہو چکے تھے-افسر نے تیزی سے آگے بڑھ کر قمیض کو پکڑا -اور اس کو نوجوان کی آنکھوں کے سامنے لہرا کر کہنے لگا -یہ کیا ہے؟کسی زخمی ہوئے سرمچار کی نشانی سنبھال کر رکھی ہے کیا؟نوجوان نے اپنے آپ کو ایک مرتبہ پھر خود کو چھڑانے کی کوشش کرنتے ہوئے کہا -صاحب یہ وہ نہیں جو تم سمجھ رہے ہو-

لگتا ہے تم ڈرائنگ روم ٹریٹ منٹ کے بعد ہی کچھ بتاؤ گے-افسر بولا-

لے چلو -اس نے اپنے ماتحتوں سے کہا-

وہ نوجوان کو گھسیٹتے ہوئے لیجانے لگے-سیڑھیاں اترتے ہوئے دیکھا کہ درمیاں کی سیڑھی پر اس کی ماں پڑی تھی-اس کی پیشانی سے خوں بہ رہا تھا-نوجوان نے چیختے ہوئے ماں کی طرف بڑھنے کی کوشش کی -مگر وہ اس کو گھسیٹتے ہوئے لے گئے-
صبح کے وقت ساتھ گھر سے ایک عورت کسی کام سے جب سرمد کے گھر جانے کے لئے مکان میں داخل ہوئی تو اس نے سیڑھیوں پر اس کی ماں کی لاش کو دیکھ کر چیختی ہوئی باہر نکلی -لوگ جمع ہو گئے-علاقے کی پولیس آ گئی-انور بٹ کو بھی بلا لیا گیا-پوسٹمارٹم ہوا اور لاش انور کے حوالے کر دی گئی -انور نے سرمد کی گمشدگی کی رپورٹ لکھا دی-لکین اسے پتہ تھا کہ رات کے اندھیرے میں یوں گم ہو جانے والوں کی خبر مشکل سے ہی ملتی ہے-انور اور محلے والوں نے مل کر سرمد کی ماں کی تجہیز و تدفین کی-
دو سال ہو گئی تھے سرمد کو گم ہوئے -اس کا کچھ پتہ نہیں تھا-پھر وہ دیں آیا -جب ابھی رات کا کچھ اندھیرا باقی تھا-جانی مسیح کرسچن کالونی سے جین مندر والی سڑک پر صفائی کرنے جب وہاں پہنچا تو اس نے کوڑے کے ایک ڈھیر کے پاس کسی کو پڑے دیکھا -پہلے وہ سمجھا کوئی نشئی ہوگا -جو یا تو نشے میں مدہوش ہوگا -یا نشے کی زیادتی سے مر گیا ہوگا -پاس گیا تو اس نے دیکھا کہ کوئی نوجوان تھا -جس کے ہاتھ کی مٹھی میں ایک قمیض دبی ہوئی تھی-اور پاس ہی ایک نوٹ بک اور چند کتابیں پڑی تھیں -نوجوان کا چہرہ اس کے گھنے لمبے بلوں میں چھپ گیا تھا-اس نے بلوں کو ذرا ہٹایا تو چونک پڑا-یہ شکل اسے جانی پہچانی لگی-تھوڑا سے غور کرنے پر جانی کو معلوم ہو گیا کہ یہ تو اپنا باؤ سرمد ہے-اس نے محلے والوں کو اکٹھا کیا-لوگوں نے پھر پولیس کو انفارم کیا-پولیس نے پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد لاش انور کے حوالے کردی-علاقہ کے ایس ایچ او نے انور کو بلایا اور مقتول سرمد کی مٹھی میں بند قمیض ،نوٹ بک اور چند کتابیں اس کے حوالے کر دیں -انور نے وہ چیزیں لا کر اپنے دفتر کی الماری میں رکھ دین-دو ہفتے گزرے تھے کہ اس کے دفتر میں ایک لڑکی اس کو ملنے آئے-وہ اس لڑکی کو دیکھ کر چونک گیا تھا-یہ کرن تھی -جو اکثر سرمد کے ساتھ نذر آیا کرتی تھی-انور حیران تھا کہ اس لڑکی کو اس نے سرمد کے جنازے پر بھی نہیں دیکھا تھا-اب وہ اس کے دفتر آ گئی تھی-سامنے کرسی پر بیٹھنے کے بعد اس نے انور کی طرف دیکھا اور کہنے لگی کہ میں لندن میں تھی-تین سال بعد آئی ہوں-تو مجھے سرمد کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا پتہ چلا ہے-مجھے تھانے والوں نے بتایا ہے کہ سرمد کی کچھ چیزیں انھوں نے آپ کے حوالے کی تھیں -کیا آپ مجھے دے سکتے ہیں-
انور نے اٹھ کر الماری کھولی اور نوٹ بک،چند کتابیں اور وہ قمیض کرن کے حوالے کر دی-انور نے چائے منگوائی-چائے پینے کے دوران انور نے کرن سے پوچھا کہ لوگ بتاتے ہیں کہ سرمد کے ہاتھ میں یہ قمیض دبی ہوئی تھی-اس قمیض کا قصہ اس کی سمجھ میں نہیں آیا -تو کرن نے پوچھا کہ کیا آپ نے سرمد کی نوٹ بک نہیں پڑھی -انور نے نفی میں سر ہلایا-اس پر کرن نے نوٹ بک کھولی اور اس کے صفحے پلٹنے لگی -ایک صفحہ پر اس کی نظریں جم گئیں-اور اس نے اسے انور کے سامنے کر دیا -
"کرن !
آج رات جب میں تم کو گھر لیکر واپس آیا تھا-تو شائد بجلی چلی گئی تھی-میں تم کو
کمرے میں بیٹھا کر نیچے بازار سے کچھ خانے کو لانے کے لئے سیڑھیاں اترنے لگا تو میرا پیر رپٹ گیا-میری کمر،پیشانی ،کہنیاں چھل گئیں تھیں-اور قمیص پر خون کے دھبے پڑ گئی تھے-میں بڑی مشکل سے اوپر آیا تھا-مدھم سی چراغ کی روشنی میں تم نے یہ سب دیکھا میری قمیض اتاری -اور میرے زخم صاف کئے-ان پر کریم ملی-تم سمجھی تھیں کہ شاید میں سو گیا ہوں-تم نے میری خون آلود قمیض اٹھائی-اور اس کو دیکھنا شروع کر دیا-تمہاری اداس آنکھوں میں محبت کے دیپ جل اٹھے تھے-ان کی روشنی مجھے قمیض میں لگے خون کے دھبوں میں جذب ہوتی لگی-تو میں نے اس قمیض کو ہمیشہ کے لئے محفوظ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے-تمہاری اداس آنکھوں میں جلتے محبتوں کے دیپ کی یہ انمول نشانی مجھے اپنی جان سے زیادہ پیاری ہے-
سرمد
انور نے یہ پڑھنے کے بعد نوٹ بک کرن کے حوالے کر دی -وہ انور کے دفتر سے ان چیزوں کو گلے لگے باہر نکلتی چلی گئی -

No comments:

Post a Comment