Tuesday 11 October 2011

دوجی جنس" کی اشاعت کے پچیس سال مکمل ہونے پر سیموں دی بوا کا انٹرویو (دوسرا حصہ )

"دوجی جنس" کی اشاعت کے پچیس سال مکمل ہونے پر سیموں دی بوا کا انٹرویو
(دوسرا حصہ )
ترجمہ و تلخیص /عامر حسینی
گراسی :لکین یہ شعور تو ان چند عورتوں تک محدود ہے جن کا تعلق لیفٹ سے ہے -وہ عورتیں جو سارے سماج کو مکمل طور پر بدلنا چاہتی ہیں -
بوا :آپ ٹھیک ہیں-اکثریت عورتوں کی قدامت پرست ہے -میرا مطلب ہے کہ جو ہے وہ اس کو باقی رکھنا چاہتی ہیں-رائٹ ونگ میں موجود خواتین اس کو بدلنا نہیں چاہتیں -وہ انقلاب کی حامی نہیں ہیں-وہ مائیں ،بیویاں ہیں اور اپنے ممردوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں-اور اگر وہ مزاحمت کار ہیں تو بس وہ کیک کا بڑاحصہ مانگتی ہیں-وہ زیادہ کمانا چاہتی ہیں،عورتوں کو اسمبلی میں زیادہ تعداد میں دیکھنے کی خواہش مند ہیں اور عورت کو صدر دیکھنا چاہتی ہیں-بنیادی طور پر وہ عدم مساوات کی قائل ہیں ،بس خود کو نیچے سے اوپر لانے کی خواہش مند ہیں-وہ نظام میں خود کو بہتر خیال کریں گی -اگر یہ نظام تھوڑا تبدیل ہو کر ان کو اس نظام میں کچھ بہتر جگہ دے ڈالے -اور ان کے مطالبات کو جگہ دے دے -سرمایہ داری نظام یہ برداشت کرتا ہے کہ وہ خواتین کو فوج یا پولیس میں لے لے -سرمیدارانہ نظام اتنا تو زہین ہے کہ وہ عورتوں کو اپنی نام نہاد سوشلسٹ حکومت میں لے لے اور اپنی پارٹی کی سیکرٹری جنرل بھی ان کو چن لے-یہ محظ اصلاحات ہیں جیسے سوشل سیکورٹی اور پیڈ ووکیشن ہوتی ہیں-پیڈ ووکیشن کو ایک ادارہ کی شکل دینے سے کیا سرمایہ دارانہ نظام کی عدم مساوات ختم ہو جاتی ہے؟کیا عورتوں کو مرد کے برابر تنخواہ دینے کے حق کو تسلیم کرنے سے چیک سماج میں مرد کی بالادستی کا خاتمہ ہو جائے گا ؟لکین کسی بھی سماج کے سارے نظام اقدار کو بدل ڈالنا -اور مدر ہوڈ کے تصور کو تباہ کر دینا بہرحال ایک انقلابی قدم ہے -
ایک فیمنسٹ چاہئے وہ اپنی آپ کو لیفٹسٹ کہلائے یا نہ کہلائے ہوتیوہ لیفٹسٹ ہی ہے -کیوں کہ فیمنسٹ ہونے کا مطلب ہی یہی ہے- کیوں کہ وہ اپنی برابری کے لئے جدوجہد کر رہی ہوتی ہے-اس کی جدوجہد کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کے اتنے ہی اہم اور مفید ہونے کا حق تسلیم کیا جائے -جتنا حق مرد کا تسلیم کیا جاتا ہے-تو صنف یا جنس کی برابری پر اصرار کرنا اور اس برابری کے لئے بغاوت کرنا بھی طبقاتی جدوجہد ہی ہے-
ایک ایسا سماج جہاں مرد بھی ماں والا کردار ادا کر سکتا ہو -جہاں فیمل انسٹی ٹیوٹ بھی مرد کے علم کی طرح اہم تسلیم کر لیا جائے -جہاں نرم اور خوئے دل نوازی کو سخت ہونے سے بہتر خیال کیا جائے -دوسرے لفظوں ایسا سماج جہاں ہر ایک آدمی کا تجربہ دوسرے کے برابر اور اہم خیال کیا جائے کے لئے جدوجہد کا مطلب معاشی اور سیاسی مساوات کی مانگ کرنا ہی ہے-بلکہ یہ اس سے کچھ زیادہ ہی ہے-تو جنس کی برابری کی جدوجہد طبقاتی برابری پر زور دیتی ہے -لکین یہ ضروری نہیں ہے کہ طبقاتی جدوجہد لازمی جنس کی برابری پر زور دے-فیمنسٹ سچی لیفٹسٹ ہیں-وہ در اصل آج کے روایتی لیفٹ کا لیفٹ ہیں-
گراسی :جیسا کہ آپ نے کہا کہ لائف کے اندر اس وقت جنس کی برابری کی جدوجہد ہو رہی ہے-تو کیا اس سے دوسرے سیاسی سیکٹرز میں جنس کی برابری کی جدوجہد متاثر نہیں ہو رہی -کیا اس سے لیفٹ کمزور نہیں پڑ رہا /
بوا :نہیں میں ایسا خیال نہیں کرتی-بلکہ یہ جدوجہد بلآخر لیفٹ کو مستحکم کرے گی-آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جنس کی برابری کی جدّوجہد نے لیفٹ کے زیادہ سے زیادہ گروپس کو عورتوں کے حوالے سے اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے پر مجبور کیا ہے-ہمارے رسالے "آزادی "کو دیکھ لیجئے -اب وہاں اس بات کو محسوس کیا گیا ہے کہ اس کے ادارتی بورڈ میں خاتوں ڈائرکٹر ہونی چاہئے -
یہ ترقی ہے کہ اب لیفٹسٹ مرد اپنی زبان کے استعمال پر بھی نظر رکھنے لگے ہیں-
گراسی:کیا یہ حقیقی طور پر ترقی ہے ؟کہ میں نے گروپ ڈسکشن کے دوران ،دش صاف کرتے ہوئے ،شاپنگ کرتے ،مکان کی صفائی کرتے ہوئے عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے ان کے لئے لفظ چکس استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے -تو کیا میں نے مرد اقدار کو مسترد کر دیا ہے؟
بوا:تمہارا مطلب ہے کہ تمہارے اندر میں(تبدیلی آ گئی ہے )؟بلنٹ ہونے کی کون پرواہ کرتا ہے ؟تم جنوب کے رہنے والے نسل پرست کو جانتی ہو -تم کو اس کی نسل پرستی کا اس لئے معلوم ہے کہ تم اس کو ایک لمبے عرصۂ سے جانتی ہو-یہ سب تم ایک لمحے کے لئے فرض کر لو -لکین اب وہ لفظ نیگر نہیں بولتا -وہ سیاہ فام کی تمام شکایات غور سے سنتا ہے -اور ان کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے-وہ دوسرے نسل پرستوں کو نیچا دیکھنے واے رستہ پر چلتا ہے-وہ اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ ان کے بچوں کو اوسط درجہ سے زیادہ تعلیم دی جائے -تاکہ ان کی وہ کمی پوری ہو جب ان کو تعلیم نہیں مل رہی تھی-وہ کالے آدمی کے للے کوشش کرتا ہے کہ ان کے قرضوں کی درخواستوں کے ساتھ سفارشی رقعہ بھی لگ جائے-وہ اپنے علاقے میں کالے امیدواروں کا ساتھ اپنے پیسے اور اپنی رقم سے بھی دیتا ہے-کیا تم سوچتے ہو کہ اب بھی کالا آدمی یہ خیال کرے گا کہ یہ جنوب کا آدمی اب بھی اپنی روح میں اتنا ہی نسل پرست ہے جتنا یہ پہلے ہوتا تھا ؟استحصال کے پیچھے ایک بہت بڑی وجہ عادت ہوتی ہے-اگر آپ ایسی عادت پر قابو پا لیتے ہو-اور اپنی اس قسم کی عادت پر نظر رکھنے لگتے ہو تو بھی یہ ایک بڑا قدم ہوتا ہے-تو اگر آپ برتن صاف کرتے ہو،گھر کی صفائی کرتے ہو -وہ سب کام کرتے ہو جو پہلے تم کو مردوں کے کرنے والے نہیں لگتے تھے -تو آپ ایک اچھا اور درست سمت میں قدم اٹھا رہے ہو-ایک دو نسلیں جب یہ محسوس کر لیتی ہیں کہ ان کو غیر نسل پرست نظر آنا چاہئے -تو وہ تسسری نسل اپنی فطرت کے لحاظ سے نسل پرستی سے پاک ہوتی ہے-تو جنس پرستی سے الگ ہونے کا کام جاری رہا تو ہماری آنے والی نسلیں فطری طور پر جنس کی برابری کی قائل ہوں گی -آپ برتن صاف کر لیتے ہوں گے -لکین آپ کو بچے کی نیپی تبدیل کرنا اچھا نہیں لگے گا -وہ کریں تو بات بنے-
گراسی:لکین میرے تو بچے نہیں ہیں-
بوا:کیوں نہیں ہیں؟کیا تم نے بچے نہ کرنے کا انتخاب کیا؟کیا تمہارے خیال میں جن ماؤں کو تم جانتے ہو انھوں نے خود بچے کرنوے کا انتخاب کیا ہے؟یا ان کو یہ باور کرایا گیا کہ ان کو یہ کرنے ہیں-یا سیدھی سے بات ہے کہ ان کو اس طرح سے پالا گیا کہ ان کو یہ سمجھنے پر مجبور کر دیا گیا کہ وہ یہ خیال کریں کہ عورت ہونے کا مطلب ہر حل میں بچے پیدا کرنا ہوتا ہے-تو انھوں نے بچے پیدہ کرنے کی چوئیس کی-لکین سوال یہ ہے کہ ان کے لئے اس انتخاب کو لازم کس نے بنایا ؟یہ وہ اقدار ہیں جن کو بدلنا چاہئے-

No comments:

Post a Comment