Thursday 13 October 2011

عشق ناتمام (افسنانہ )

عشق ناتمام (افسنانہ )
ہوسکتا ہے آپ کو میری یہ کہانی عجیب لگے-اور لگے میں نے کوئی فسانہ ترازی کر ڈالی ہے-حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے-پہلے میں آپ کو اپنے بارے میں بتاتا چلوں کہ میں کون ہوں-جو اچانک یوں آپ سے مخاطب ہو گیا ہوں-میرا نام حسن ناصر ہے-میرا یہ نام کیوں ہے ؟تو اس کی سادہ سی وجہ تو یہ ہے کہ میرے دادا کو معروف کیمونسٹ رہنما حسن ناصر سے بہت پیر تھا -جب میں پیدا ہوا تو انھوں نے میرا نام ان کے نام پر رکھ ڈالا -اب یہ اور بات کہ میری قسمت حسن ناصر جیسی نہیں تھی-کہ سرکار مجھے کسی عقوبت خانے میں رات کی تاریکی میں موت کے گھاٹ اتار دیتی -اور پھر میرا مرنا ایک تنازعہ بنا رہتا-ہاں یہ بات ٹھیک ہے کہ میں نے بھی اس سماج کو بدلنے کا خواب دیکھا-اس ملک کے حکمران طبقات کو خوب برا بھلا بھی کہا -لکین نقار خانے میں طوطی کی آواز نہ کل کوئی سنتا تھا جب یہ کہاوت بنی-اور نہ آج کوئی سنتا ہے جب اس کہاوت کو ہر کس و ناکس اپنی تحریر اور تقریر میں بلا کسی خوف و خطر کے لکھتا اور بولتا چلا آتا ہے-تو میں حسن ناصر نام کو اپنا لینے کے بعد بس یونہی اپنی زندگی گزارتا چلا آ رہا تھا-جوان بھی ہو گیا تو مجھے نہ تو کسی رہ چلتی لڑکی کا چہرہ یاد نہیں رہتا تھا-میں نجانے کن ویچروں میں گم رہتا تھا-آج خیال آتا ہے تو فسوس بھی ہوتا ہے-اور یہ خلش بھی کہ زندگی کا کس قدر حسین دور میں نے بس بے نیازی اور اپنے آپ میں گم ہو کر گزار دیا -اس دور کی کوئی حسین یاد نہیں رکھی-کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ آج اس کام کی یاد دل میں کسک بن کر ابھرتی تو چہرے پر شگوفے پھوٹنے لگتے -اور باسی کڑھی میں چلو ابال ہی آ جاتا-یہ نہیں تھا کہ میں اس زمانے میں صنف نازک کے ساتھ نہیں ملا تھا -مگر حقیقت یہ ہے کہ مل کر بھی نہیں مل پایا تھا-ایک لڑکی میری دوست بنی تھی-اور ہم دونو گویا مرد و زن تھے ہی نہیں-دوست تو تھے-مگر اس کے آگے کچھ نہیں تھا-اس نے میرا نام بدھو رام جی رکھا ہوا تھا-کہتی تھی بدھو اس لئے لگایا ہے کہ تم کرشن نہیں ہوسکتے اور میں سیتا -تو بدھو رام جی ہی ٹھیک ہے-میں ان لوگوں پر ہنس دیتا تھا جو اس کچی سی عمر میں بدن کے اندر ہونے والی کھٹی میٹھی سرگوشیوں کو عشق کا نام دیتے تھے -زندگی کے روپ اس وقت مجھے بہت عجیب و غریب لگا کرتے تھے-میں ایک مرتبہ تھر میں اپنے دوست کے ہاں گیا تو رات کو تھر کے صحرا میں اس نے راگ رنگ کی محفل سجائی تھی-ایک عورت جو تھر کے مخصوص لباس میں تھی-ناک میں ایک بڑا سا کوکا تھا-آنکھوں میں گہرا کاجل -کہنی تک کلائی میں چوڑیاں پہنے پاؤں سے ننگی-تھری رقص کرتی پرسوز آواز میں جدائی والا گیت گا رہی تھی-سارا تھر اس کی سوز بھری آواز میں گم سم اداس اداس لگتا تھا-میں اپنے دوست کو دیکھ کر حیران رہ گیا -جو بہت خوش باش رہنے والا تھا-آنکھوں میں آنسوؤں کی لہر لئے -آہ ،واہ کر رہا تھا-ایک بزرگ دانش وار میرے دوست تھے-ان کو عمر ٨٠ سال ہوگی-وہ اچانک بات کرتے کرتے مجھے کہنے لگے -وہ سب کچھ کرنے کے باوجود،دنیا بھر کے موضوعات پر تحقیق کرنے کے باوجود اپنی جوانی میں گزرے اس پل سے نہیں نکل سکے -جو یونیورسٹی کے ان کے ڈیپارٹمنٹ کے ایک برآمدے میں ان پر گزرا تھا-جب وہ گرفتار محبت ہو گئے تھے -کوئی آنکھیں ہیں جو آج بھی ان کی آنکھوں میں بسی ہیں-بند بوسن کا کمال بخش -جس کی بزرگی کی قسمیں سارا چک کھاتا تھا-جس کا کہا سچ ماں لیا جاتا تھا -ایک دن مجھے کہنے لگا -کہ حسن ناصر !مجھے تو لگتا ہے میں آج بھی اس کھیت میں کھڑا ہوں جہاں میں امرت کور کا انتظار کرتا تھا-وہ بٹوارے کی آگ میں کب کی جل کر رکھ ہوئی -میں وہیں کھڑا ہوں-کیا چمک تھی بابے کمال بخش کی آنکھوں میں-میں ان سارے جذبوں کی تپش محسوس کرتا تھا -لکین یہ تپش کبھی میرے دل اور جگر میں گرمی پیدا نہ کر سکی-میں ان دنوں کراچی کے سہل پر تنہا گھومتا تھا-اور میرے دوست رات کو جب ہاسٹل کے کمرے میں آتے تو ان کے پاس کئی کہانیاں ہوتی تھیں سنانے کو -میرا دوست ریاض مجھے کہتا کہ ظالم !تم کبھی اس آگ کو اندر اتارو تو سہی -تمھیں معلوم ہو کہ دیوانے کیوں اس آگ میں جلنے کی تمنا کرتے ہیں-ایک مرتبہ میں نے جوں ایلیا کا ایک شعر سنا جس کا مطلب تھا کہ اس کی محبت میں خود کو برباد کر لیا ہے -اور ہمیں کوئی ملال بھی نہیں ہے-میں ہنس پڑا تھا کہ کیسی دیوانگی ہے کہ خود کو برباد کرنے کے بعد بھی کسی ملال کے ہونے کی بات کی جا رہی ہے-
زندگی کے ماہ و سال گزرتے چلے گئے -میں کراچی کے سہلیوں سے ہجرت کر کے ماسکو جا پہنچا-میں بہت سرد موسم والے ملک میں آیا تھا -سو اپنے اندر کے سرد وجود کو اور سرد ہوتا محسوس کر رہا تھا -میں نے اس سردی سے بچنے کے لئے واڈکا کی ساری قسموں کی شراب کو اپنے اندر انڈیلنا شروع کر دیا -لکین باہر کی سردی کچھ کم ہوئی ہو تو ہوئی ہو-مگر اندر کی سردی لگتا تھا اور بڑھ گئی-
ایک مرتبہ میں ماسکو کہ ایک بار میں اپنے ایک دوست کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا-میرا یہ دوست پولینڈ سے تعلق رکھتا تھا-یہ پولش کامریڈ سٹیٹ یونیورسٹی آف ماسکو میں شعبہ تاریخ میں استاد تھا-اس نے مجھے راسپوٹیں کا قصہ سنایا-جب وہ یہ قصہ سنا رہا تھا تو ایک مقام پر اس نے کہا کہ دنیا راسپوٹیں کو بہت برا بھلا کہتی ہے-لکین میں کہتا ہوں کہ ہر آدمی کے اندر ایک راسپوٹیں ہوتا ہے-اس کی یہ بات سن کر ایک لمحہء کے لئے میں کھوگیا -میں نے خواہش کی کہ میرے اندر کا راسپوٹیں بھی کبھی جاگے -لکین اس سے پہلے مجھے یہ تو پتہ ہو کہ وہ ہے کہاں؟لکین یہ راسپوٹیں تو نجانے کہاں گم تھا-اس نے کبھی بھی نہیں جاگنا تھا-میں اس وقت ماسکو میں ہی تھا -جب روس سوویت یونین نہ رہا -نوبل بقدر ہوا -لوگ فریز ڈاگ خانے پر مجبور ہو گئے -اور میرا راسپوٹیں تو اس وقت بھی نہ جاگ کر دیا جب ایک کالی بریڈ کے بدلے آپ ماسکو کی کسی حسین دوشیزہ کو اپنے گھر لے آتے تھے-
نتاشا آج مجھے بہت یاد اتی ہے-کیوں؟معلوم نہیں؟وہ میری کلاس فیلو تھی -اور مجھ سے بہت مانوس تھی-کہتی تھی کہ تم مجھے اس لئے پسند ہو کے تمہارے جذبے مجھے بھوکے نہیں لگتے -میں ہنس دیتا تھا -ایک مرتبہ اپنے گرم فلیٹ میں بستر پر لیٹے میرے وجود کی سردی کو دیکھ کر بہت حیران ہو گئی -وہ کیمونسٹ لڑکی تھی-خدا کے وجود سے بیگانہ تھی-اچانک کہنے لگی
شائد خداوند یسوع مسیح نے سرد جذبوں
کا عذاب تمہارے کفارے میں رکھا ہے
میں اس کے مونہ سے نکلے ان خالصتا انجیلی جملوں پر بہت حیران ہوا تھا-اور اس سے پوچھ بیٹھا تھا کہ یہ آرتھوڈاکس کلیسا کے دوبارہ جی اٹھنے کا اثر تم پر کب سے ہوا؟تو ہنسنے لگی -اور کہنے لگی کہ میری مارکسی لغت تمہاری اس کیفیت کو بیان کرنے سے قاصر تھی تو مجھے انجیلی لغت کا سہارا لینا پر گیا-
میں اکثر سینٹرل لایبراری ماسکو جاتا تو وہاں کی انچارچ نٹ کھٹ سی،شوخ و چنچل لڑکی مجھے ایک مرتبہ دستو فسکی کا ناول ایڈیٹ پڑھتے دیکھ کر کہنے لگی کہ تم بھی مجھے اس ناول کے ہیرو لگتے ہو جو مرگی کے زیر اثر حسن کو کشید نہیں کر سکتا-مجھے یاد ہے کہ ایک میری دوست نے مجھے ایک ایرانی ریستوران میں کھانا دیا-ہم ایک کیبن میں بیٹھے تھے-وہ مجھ سے عجیب و غریب باتیں کرتی رہی-میں نے جو جواب اس دوران دے -اس میں وہ کچھ نہیں تھا جو وہ شائد سنانا چاہتی تھی- ڈفر .............یہ فقرہ میں نے سنا -اور اس کی جوتیوں کی کھٹ کھٹ میں دیر تک سنتا رہا -ڈفر کیوں تھا میں........یہ مجھے خود سمجھ نہیں آئے تھی-بس پھر یوں ہوا کہ ایک روز جب میں ڈھلتی عمر کی منزل میں تھا-ایسے ہی ایک مجلس میں اس سے ملاقات ہو گئی-میں نے اور اس نے ایک دوسرے کو بنا مانگے اور بنا پوچھے اپنے فون نمبرز دے ڈالے -فیس بک کے آئی ڈیز کا تبادلہ ہو گیا -اور میں بھی شائد اس سوز کا شکار ہو گیا -جو اس تھری عورت کی آواز میں تھا-وہ آگ جو ایک عرصۂ تک میری جلد سے آگے سفر نہیں کرتی تھی بس سارے وجود میں سرایت کر گئی-میں حسن ناصر عشق جو ناتمام ہے ابھی اس میں گرفتار ہو گیا -وہ اپنے گھر کے صحن میں جس میں تیسری چارپائی کی گنجایش نہیں ہے اور اس ڈرائنگ روم میں جس میں بجلی چلی جائے تو حبس بہت ہوتا ہے-اور اس بعید روم میں جس کا پنکھا شور بہت کرتا ہے -گھنٹوں مج سے بات کرتی ہے-کریدت بینک کی وہ شاخ جو ایک دیہات میں غریبوں کو بچت کرنے کی جھوٹی نوید سناتی ہے-اور ان کو سرمایہ داری کی جکڑ میں اور قید کرتی ہے -اس کی عمارت کے ایک ٹھنڈے کیبن میں وہ اعداد و شمار کے گورکھ دھندے سے ذرا فرصت نکل کر مجھ سے وہ باتیں کرتی ہے جو شید معشیت کی لغت میں ڈھونڈے سے بھی نہ ملیں -یہ کتاب کہیں لکھی ہوئی نہیں ہے-نہ نظر آنے والی سیاہی سے لکھا عشق ناتمام آج حسن ناصر تم کو بیان کرتا ہے-بیان نہیں ہو پاتا-میں کوئی حسن کوزہ گر نہیں -نہ مجھے کوئی نوں میم راشد ملا -تو میں نے یہ قصہ خود ہی لکھ ڈالا -ناتمام تو ہے مگر ناقص نہیں ہے-
(تحریر :عامر حسینی )

No comments:

Post a Comment