Monday 3 October 2011

لال دھاگہ ،مذھب اور مارکس واد

اس مرتبہ جب سخی لال شہباز قلندر کا عرس آیا -تو میں نے دیکھا کہ امسال پہلے سے بھی زیادہ لال جھنڈے لہرا رہے تھے -جگہ جگہ جشن قلندر ہو رہا تھا-میں سوچتا ہوں کہ یہ سرخی جو ہر جگہ غالب تھی کس چیز کی علامت ہے-تو خیال آتا ہے یہ سخت قسم کی مذھب پرستی اور رسمیت پر مبنی ملائیت کے خلاف عوام کے احتجاج کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے -مرد و زن کے جھنڈ کے جھنڈ سخی لال قلندر کے مزار کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں تو ظاہر پرستی کے ایوانوں میں زلزلہ برپا ہو جاتا ہے-حافظ سعید کے ہاں صف ماتم پبا ہے تو قصر نجد کو اپنے قلعے مسمار ہوتے دکھائی دیتے ہیں-یہ ایک طرح سے اپنے کلچر ،تہذیب ،ثقافت کو بچانے کی کوشش ہوتی ہے-

ایک نوجوان بازار میں اچانک میری طرف بڑھا -اس نے ایک لال رنگ کا دھاگہ پکڑا ہوا تھا-اس نے کچھ کہے بنا میری کلائی تھامی- اور وہ دھاگہ میری کلائی میں باندھ دیا -اور یا علی مدد کہتا ہوا دوسرے آدمی کی طرف چلا گیا-یہ لال رنگ کا دھاگہ اب بھی میری کلائی میں بندھا ہوا ہے-میں نے جب اس لال رنگ کے دھاگے کے ساتھ گھر میں قدم رکھا تو سب سے پہلے اس پر میری بیوی کی نظر پڑی-وہ حیران بھی ہوئے اور خوش بھی-کیوں کے میں نے ایک بار اس کو امام ضامن باندھنے سے روکا تھا اور کہا تھا کہ ان سے کچھ نہیں ہونے والا -میرا مارکس واد کہیں کہیں وہابی-ازم سے جا ملتا تو میری بیوی کہہ اٹھتی تھی کہ مارکس واد ایک دوسری قسم کا کٹر پن ہے-لکین رفتہ رفتہ مجھے کلچر اور تہذیب کے عوامی رنگ اور تاثیر پر یقین آنے لگا -یہ غالباً ایران اور عراق کے سفر کی بات ہے جب بہت سے تاریخی مقامات پر مجھے ایسا لگا تھا کہ میں ان مقامات سے جڑی شخصیت اور واقعیات کا حصہ رہا ہوں-یہ لال رنگ کا دھاگہ بھی مجھے کہیں سے بھی رجعت پسندی نہیں لگ رہا تھا-لال رنگ ویسے بھی مکس وادیوں کو بہت بھلا لگتا ہے-یہ انقلاب کا رنگ ہے-یہ ظلم کے خلاف جدّوجہد کی علامت ہے-مارکس واد سے ہٹ کر یہ حقیقت ہے کہ شیعہ کے ہاں سرخ اور سیاہ رنگ بہت اہمیت کے حامل رہے ہیں-سوگ ،ماتم،احتجاج کا رنگ سیاہ اور مزاحمت،جدّوجہد،ریڈکل -ازم ،انقلاب یہ سب سرخ رنگ سے جڑے ہوئے ہیں-پچپن سے ان رنگوں سے میری دوستی رہی ہے-لکین میری کلائی کبھی ان رنگوں میں رنگے دھاگوں یا کڑوں سے مزین نہیں رہی تھی-اسی لئے تو میری بیوی کو خوش گوار حیرت کا سامنا تھا-میں تھوڑی دیر گھر بیٹھا اور پھر باہر آگیا -گلی،محلے اور بازار سے گزرتے میں نے کئے نوجوانوں کو دیکھا سب کے ہاتھ لال رنگ کے دھاگوں سے مزین تھے-مجھے یہ ایک خاموش اقرار کے اظہار کی طرح لگا -کہ لوگ اقرار کرتے ہیں کہ ہم سب ملائیت کو مسترد کرتے ہیں-کسی طالب کے کوڈآف ڈریس کو ہم نہیں مانتے-کسی نام نہاد موحد کے فلسفہ توحید کو ہم تسلیم نہیں کرتے جو ہم سے ہمارا کلچر چھین لے-

میں یہ سوچتا ہوا جا رہا تھا کہ خبر آ گئی کہ پنجاب حکومت نے وارث شاہ کے عرس پر میلہ نہیں لگنے دیا -شاہ حسین کا میلہ چراغاں بھی اسی طرح برباد ہوا تھا-طالب اور کیا چاہتے ہیں-پنجاب حکومت ٩ بجے مزاروں کو تالہ لگوا دیتی ہے-بی بی پاک دامن کا مزار ایک محاصرہ زادہ عمارت بن گیا تو حکومت کو کیا فرق پڑتا ہے-یہ ہم ہیں جن سے ان کی تاریخ،ان کا کلچر اور ان کی روح سلب کی جا رہی ہے-

No comments:

Post a Comment